افسانہ نمبر 655 : میری بیوی || تحریر : گی د موپاساں (فرانس) || فرانسیسی سے اردوترجمہ : شوکت نواز نیازی (راولپنڈی)
افسانہ نمبر 655 : میری بیوی
تحریر : گی د موپاساں (فرانس)
فرانسیسی سے اردوترجمہ : شوکت
نواز نیازی (راولپنڈی)
یہ صرف مردوں کی دعوت تھی۔ اپنے غیرشادی شدہ دنوں کی محفلوں
کی مانند یہ دوست اب اپنی بیویوں کے بغیر اکثر اکٹھے ہوتے تھے۔ وہ دیر تک کھانے
پینے میں مصروف رہتے، دیر تک شراب سے لطف اندوز ہوتے۔ وہ گپ شپ لگاتے، ہر موضوع پر
باتیں کیا کرتے، اپنی پرانی اور خوشگوار یادوں کو کھنگالتے اور پھر ان کے ہونٹوں
پر مسکراہٹ پھیل جاتی اور دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ ان میں ایک کہہ رہا تھا،
"جارج، تمہیں ہمارا وہ سینٹ ژرمیں کا سفر یاد ہے جب ہمارے ساتھ موں مارتر کی
وہ دو لڑکیاں بھی تھیں ؟"
"ہاں،
بالکل یاد ہے !"
پھر اس سفر کی کچھ چیدہ چیدہ باتیں یاد کی جاتیں اور ان کے
دل ایک مرتبہ پھر ان دنوں کی پرمسرت یادوں سے لبریز ہو جاتے۔
جلد ہی گفتگو شادی کے موضوع کی جانب مڑ گئی۔ تقریباً سبھی
کا کہنا تھا، "آہ، کاش وہ حسین دن پھر سے لوٹ آتے !"
جارج دوُپورتاں بولا، "کتنی عجیب بات ہے کہ یہ سب اتنا
یکلخت اور اچانک ہو جاتا ہے۔ میرا مطلب ہے جوانی میں سب ہی کبھی شادی نہ کرنے کا
فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ اور پھر بہار کے موسم میں آپ کسی پرفضا مقام پر جا نکلتے ہیں۔
موسم گرم ہوتا ہے اور گرمیوں کی شامیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔ کھیتوں کھلیانوں میں
پھول کھلتے ہیں۔ کسی دوست کے گھر کسی نوجوان حسین لڑکی سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے۔۔۔
اور بس ! سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ آپ واپس لوٹتے ہیں تو شادہ شدہ ہوتے ہیں
!"
پئیر لتوال بول اٹھا، "بالکل درست ! میرے ساتھ بھی
بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔ بس چند واقعات کا فرق تھا۔۔۔"
اس کے دوست نے اس کی بات کاٹی، "تمہیں تو شکوہ شکایت
کرنے کا کوئی حق نہیں۔ تمہاری بیوی انتہائی دلکش عورت ہے، خوبصورت، خوش اخلاق،
وفادار، بہترین بیوی ! تم تو ہم سب میں یقیناً خوش قسمت ترین ہو !"
پہلا دوست بولتا گیا، "لیکن اس میں میرا کوئی ہاتھ
نہیں ہے !"
"وہ کیسے
؟"
"یہ درست ہے
کہ میری بیوی بہترین بیوی ہے لیکن میری شادی میں میری مرضی شامل نہیں تھی۔"
"بکواس
!"
"ہاں، یہی
تو اصل داستان ہے۔ میں اس وقت پینتیس سال کا تھا اور میرا بھی یہی خیال تھا کہ
شادی کرنے سے پہلے میں پھانسی پر جھول جانا پسند کروں گا۔ نوجوان لڑکیاں مجھے بودی
اور احمقانہ لگتی تھیں۔ میں تو صرف شراب و شباب سے بھرپور پرلطف زندگی گزارنا
چاہتا تھا۔ "
مئی کے مہینے میں مجھے نارمنڈی میں اپنے عم زاد سیموں
دیرابیل کی شادی کا دعوت نامہ ملا۔ ویسی ہی شادی تھی جیسے نارمنڈی میں ہوتی ہیں۔
ہم بڑے ہال میں شام پانچ بجے کھانے کی میز پر بیٹھے اور رات گیارہ بجے تک ہم کھاتے
رہے۔ اس موقع پر میرے پہلو کی نشست پر مِس دومولاں کو بٹھایا گیا جو کسی ریٹائرڈ
کرنل کی بیٹی تھی۔ سنہری بالوں اور بھرپور جسم کی مالک وہ نوجوان، حسین، بے تکلف
اور باتونی لڑکی تھی۔ ساری شام وہ میرے ساتھ چپکی رہی۔ مجھے باغ میں چہل قدمی کے
لئے کھینچ کر لے گئی، میرے ساتھ الٹا سیدھا ناچتی رہی۔ میں بہت بیزار ہوا۔ لیکن
میں نے سوچا، "چلو آج کی تو خیر ہے، کل میں اس سے جان چھڑواؤں گا۔ بس آج کی
شام گزر جائے۔"
گیارہ بجے کے بعد عورتیں اپنے اپنے کمروں کو لوٹ گئیں اور
مرد بیٹھے رہے۔ کچھ شراب کے ساتھ سگار پیتے رہے اور کچھ سگار کے ساتھ شراب سے لطف
اندوز ہوتے رہے۔
کھلی کھڑکیوں سے باہر ہمیں دیہاتی ہمسائے ناچتے دکھائی دے
رہے تھے۔ کسان مرد اور لڑکیاں ایک دائرے میں اچھل کود کے انداز میں ناچ رہے تھے،
پوری آواز سے مقامی گیت گا رہے تھے۔ چند دیہاتی وائلن اور ایک نفیری بجاتے ہوئے ان کے ساتھ سنگت کی کوشش میں مصروف
تھے۔ لیکن ان کی دھن گلا پھاڑ کر گانے والوں کی بلند آواز میں ٹوٹے پھوٹے ٹکڑوں
میں ہم تک پہنچ رہی تھی۔ ایک جانب مشعلوں کی روشنی میں مہمانوں کے لئے شراب کے دو
بڑے ڈرم رکھے تھے۔ ان کے ساتھ دو مرد بیٹھے گلاس دھونے میں مصروف تھے۔ وہ ایک
بالٹی میں گلاسوں کو کھنگالتے اور پھر فوراً ہی ڈرموں کی ٹوٹیوں کے نیچے پکڑ لیتے
جن سے سرخ شراب یا سیب کے خمیر کردہ سنہری رس کی دھار برآمد ہوتی۔ ناچنے گانے والے
ان کے قریب آن پہنچتے، بڑے بوڑھے خاموشی سے اور نوجوان لڑکیاں ہانپتی کانپتی، وہ
سب اپنے ہاتھ بڑھاتے اور انہیں گلاس میں جو کچھ بھی پکڑایا جاتا وہ اپنا سر پیچھے
کی جانب پھینکتے اور مشروب اپنے حلق میں انڈیل دیتے۔ ایک اور میز پر روٹی، مکھن،
پنیر اور قیمہ بھری انتڑیاں رکھی تھیں۔ وقتاً فوقتاً کوئی آگے بڑھتا اور میز سے
کچھ اٹھا اپنے منہ میں ڈال لیتا۔ ستاروں کی روشنی میں یہ پرجوش سرگرمی نگاہوں کو
مسحور کئے دے رہی تھی اور دیکھنے والوں کو بھی ان ڈرموں سے پیاس بجھانے اور خستہ
روٹی، مکھن اور کچے پیاز سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دے رہی تھی۔
میرے دل میں بھی ناچ گانے سے بھرپور اس زندہ دلی میں شامل
ہونے کی خواہش ابھری۔ میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر باہر نکل آیا۔ مجھے کہنا پڑے گا
کہ میں اس وقت بھی تھوڑا بہت نشے میں تو تھا لیکن معاملات جلد ہی بدلنے والے تھے۔
میں نے ایک لمبی تڑنگی ہانپتی کسان عورت کا ہاتھ پکڑ لیا
اور اس کے ساتھ اچھلنے کودنے لگا حتیٰ کہ میری سانسیں پھولنے لگیں۔ پھر میں نے
شراب کے چند گھونٹ بھرے اور ایک اور لڑکی کے ساتھ ناچنے لگا۔ پھر اپنی سانسیں بحال
کرنے کے لئے میں سیب کی شراب کا ایک گلاس اپنے حلق میں انڈیلا اور دوبارہ پاگلوں
کی طرح اچھلنے کودنے لگا۔
میں رقص میں خاصا ماہر تھا اس لئے جلد ہی سب نوجوان مجھے
دیکھ کر میری نقل کرنے لگے اور لڑکیوں بھی میرے گرد جمع ہو گئیں اور ناچنے لگیں۔
ان کی حرکات میں وہی نفاست تھی جو کسی بھینس میں ہو سکتی ہے۔
ہر ناچ کے بعد میں سرخ شراب یا سین کی شراب کا ایک گلاس
پیتا۔ یوں تقریباً صبح کے دو بجے میری یہ حالت تھی کہ میں اپنے پیروں پر کھڑا نہ
رہ پا رہا تھا۔
جب مجھے اپنی اس کیفیت کا اندازہ ہوا تو میں نے اپنے کمرے
کی جانب لوٹنے کا ارادہ کیا۔ میرے میزبان کے گھر میں سب سو چکے تھے اور چاروں جانب
تاریکی اور سناٹا چھایا تھا۔ میرے پاس ماچس نہ تھی اور تمام ملازم بھی شاید بستروں
میں گھس چکے تھے۔ جب میں سیڑھیوں کے نیچے پہنچا تو میرا سر چکرانے لگا۔ مجھے
سیڑھیوں کا جنگلا ڈھونڈنے میں بہت دقت ہوئی۔ بالآخر تاریکی میں ٹٹولتے ٹٹولتے میرا
ہاتھ جنگلے سے جا ٹکرایا اور میں اپنے حواس پر قابو پانے وہیں پہلی ہی سیڑھی پر بیٹھ
گیا۔
میرا کمرہ دوسری منزل پر تھا، بائیں جانب تیسرا دروازہ تھا۔
خوش قسمتی سے مجھے اتنا تو یاد تھا۔ اس یاد سے حوصلہ ملا تو میں جیسے تیسے اٹھ
کھڑا ہو اور ایک ایک قدم اٹھاتے سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔ میں ایک ہاتھ سے آہنی جنگلا
تھام رکھا تھا کہ کہیں گر نہ جاؤں۔ بغیر کوئی آواز پیدا کئے میں احتیاط سے دبے
پاؤں سیڑھیوں پر چڑھتا گیا۔
اوپر پہنچتے تک صرف تین چار مرتبہ ہی میرا پیر پھسلا، لیکن
ہر مرتبہ اپنے بازوؤں کی طاقت کی بنا پر اور اپنی قوت ارادی کے سہارے میں گرنے سے
بچ گیا۔
جب میں دوسری منزل پر پہنچا تو میں ایک ہاتھ سے دیوار کو
چھوتا ہوا کاریڈور میں اپنے دروازے کی تلاش میں چلنے لگا۔ میں نے ایک دروازے کو
چھوا اور گنا، "ایک !" اسی لمحے میرا سر پھر سے چکرانے لگا اور میں
گھومتا ہوا سامنے والی دیوار سے جا ٹکرایا۔ میں نے سیدھی لکیر میں چلنے کی کوشش کی
لیکن طویل کاریڈور جابجا رکاوٹوں سے بھرا تھا۔۔۔ دیواروں کے ساتھ رکھے کرسیاں،
میز، صوفے۔ بالآخر میں دوبارہ بائیں دیوار کے ساتھ جا کھڑا ہوا اور دوبارہ اپنا
سفر شروع کر دیا۔ ایک اور دروازے کے سامنے پہنچا تو میں نے غلطی کا امکان رد کرنے
کی خاطر اونچی آواز میں گنتی کی، "دو !" پھر میں دوبارہ چل دیا۔ چند
قدموں بعد میں تیسرے دروازے تک پہنچ گیا۔ میں بڑبڑایا، "یہ رہا میرا دروازہ
!" میں نے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔ دروازہ کھل گیا۔ مدہوشی کے عالم میں میں
نے سوچا، "اگر دروازہ کھل گیا ہے تو میرا ہی کمرہ ہو گا۔" دھیرے سے
دروازہ بند کرنے کے بعد میں تاریک کمرے میں داخل ہو گیا۔ میرا پیر کسی نرم سی چیز
سے ٹکرایا۔۔۔ میرا صوفہ۔ میں وہیں صوفے پر دراز ہو گیا۔
نشے سے چور میں نے اس حالت میں مناسب نہ سمجھا کہ اپنی
کپڑوں والی الماری، دیا سلائی یا موم بتیاں ڈھونڈوں۔ اس کام میں گھنٹہ لگ جاتا۔
اور پھر شب خوابی کا لباس پہننے میں بھی اتنا ہی وقت لگا جاتا۔ اور پھر معلوم نہیں
میں اس حالت میں کپڑے پہن بھی سکتا تھا یا نہیں۔ میں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔
میں نے صرف اپنے جوتے اتارے، واسکٹ اور قمیض کے بٹن کھولے
جو میرا گلا گھونٹے دے رہی تھیں۔ میں نے اپنی پتلون کے بٹن کھولے اور وہیں صوفے پر
سو گیا۔
میں یقیناً بہت دیر تک سویا رہا۔ اچانک ایک بھاری آواز سے
میری آنکھ کھلی، "ارے، سست لڑکی، تم ابھی تک سو رہی ہو ؟ دس بج رہے ہیں
!"
ایک نسوانی آواز نے جواب دیا، "دس بج گئے ؟ ابھی سے ؟
اف، میں کل اتنی تھک گئی تھی۔"
غنودگی کے عالم میں میں اس مکالمے کا سر پیر جوڑنے کی کوشش
کرنے لگا۔ میں کہاں تھا ؟ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ میرے دماغ پر ابھی تک گزشتہ رات کی دھند چھائی تھی۔ بھاری آواز
دوبارہ ابھری، "چلو اٹھو، میں پردے کھولتا ہوں۔"
مجھے اپنی جانب بڑھتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ مجھے اور کچھ
نہ سوجھا تو میں صوفے میں اٹھ بیٹھا۔ کسی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ بھاری آواز نے
پوچھا، "کون ہے یہ ؟" میں خاموش بیٹھا رہا۔ پھر کسی نے مضبوطی سے میرا
گریبان پکڑ لیا۔ میں نے بھی دونوں ہاتھوں سے اس ہاتھ کو گرفت میں لے لیا۔ پھر ہم
دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ ہم دونوں تاریکی میں سارے کمرے میں لڑھکتے رہے، دیواروں
کے ساتھ ٹکراتے رہے اور فرنیچر گراتے رہے۔ ایک عورت کی چیخ سنائی دی، "کوئی
ہے ؟ کوئی ہے ؟ مدد ! مدد !"
کچھ ہی لمحوں میں کمرہ ملازموں، دیگر مہمانوں اور چیختی
چلاتی عورتوں سے بھر گیا۔ کھڑکیوں کے پردے کھولے گئے اور کمرہ روشنی میں نہا گیا۔
میں اور کرنل دومولاں فرش پر پڑے تھے۔
میں جس صوفے پر سویا رہا تھا وہ اس کی بیٹی کے بستر سے چند
قدموں کے فاصلے پر رکھا تھا۔
جیسے ہی ہمیں چھڑایا گیا تو میں بھاگ کر اپنے کمرے میں آن
بیٹھا۔ میں نے کمرے کا دروازہ مقفل کر دیا اور حیرت زدہ اپنے بستر کے سامنے کرسی
پر پیر رکھے بیٹھ گیا۔ میرے جوتے اس نوجوان لڑکی کے کمرے میں رہ گئے تھے۔
دروازے کے پار باہر سارے گھر میں جیسے ایک بھونچال آ گیا
ہو، دروازے کھلنے بند کرنے کی آوازیں، لوگوں کی باتوں کا شورشرابا اور تیز قدموں
کی چاپ۔۔۔ آدھ گھنٹے کے بعد میرے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں چیخا، "کون ہے
؟" وہ میرے چچا تھے، دولہا کے والد۔ میں نے دروازہ کھولا۔
ان کا چہرہ زرد پڑ رہا تھا اور وہ غصّے میں کھول رہے تھے۔
وہ چیخے، "تم نے میرے گھر کے اندر بدمعاشوں جیسی حرکت کی ہے، سن رہے ہو تم
؟" وہ چند لمحے مجھے دیکھتے رہے اور پھر قدرے نرم لہجے میں بولے، " احمق
لڑکے، تم اتنے بے وقوف ہو صبح دس بجے تک
وہیں کمرے میں پڑے رہے ؟ جو ہونا تھا ہو گیا، لیکن بعد میں وہاں گدھوں کی
مانند سوئے رہنے کی کیا تُک تھی ؟ فوراً نکل جاتے وہاں سے !"
میں بول اٹھا، "لیکن چچا، میرا یقین کریں، کچھ بھی
نہیں ہوا۔ میں شراب کے نشے میں تھا اور غلطی سے اس کمرے میں جا پہنچا تھا۔"
انہوں نے اپنے کاندھے اچکائے، "پاگلوں جیسی باتیں مت کرو !"
میں نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور احتجاج کیا، "چچا، میں
قسم اٹھاتا ہوں۔"
چچا بولتے گئے، "ہاں، ہاں، اب تم یہی کہو گے !"
اب مجھے بھی طیش آ گیا اور میں نے انہیں سارا واقعہ بیان
کیا۔ وہ اپنے چہرے پر الجھن لئے مجھے دیکھتے جیسے سمجھ نہ پا رہے ہوں کہ کس بات پر
یقین کریں۔ پھر وہ کرنل سے بات کرنے کمرے سے باہر چلے گئے۔
بعد میں مجھے بتایا گیا کہ گھر میں موجود معزز خواتین کا ایک
اجلاس ہوا تھا جس میں اس معاملے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا۔
میرے چچا ایک گھنٹے بعد دوبارہ آن پہنچے اور میرے سامنے کسی
جج کی مانند متانت سے بیٹھ گئے۔ وہ بولے، "دیکھو، معاملہ جو بھی ہو، میری
نگاہ میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ تمہیں مِس دومولاں سے شادی کرنا ہو
گی۔"
میں کرسی سے اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اور چیخا، "نہیں !
کبھی نہیں !"
وہ سنجیدگی سے بولے، "تو پھر تمہارا کیا ارادہ ہے
؟"
میں نے جواب دیا، " میرا ارادہ یہ ہے کہ جیسے ہی میرے
جوتے مجھے لوٹائے جائیں، میں یہاں سے چلا جاؤں گا !"
میرے چچا بولے، "یہ وقت ہنسی مذاق کا نہیں ہے۔ کرنل
تمہیں دیکھتے ہی تمہارا بھیجا اڑا دینے پر تُلا بیٹھا ہے ! اور میں تمہیں یقین دلا
سکتا ہوں کہ کرنل گیدڑ بھبھکیوں کا عادی نہیں ہے۔ میں نے اسے تمہارے ساتھ ڈوئیل پر
قائل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا، "میں اس کا بھیجہ اڑا
دوں گا !"
"دیکھو
لڑکے، اس معاملے کو ایک اور نکتہِ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر تو تم نے یہ گھٹیا حرکت
دانستہ کی ہے، تو اس صورت میں تمہارا ہی قصور ہے، تمہیں کسی شریف نوجوان لڑکی کے
قریب پھٹکنا بھی نہیں چاہئے۔۔۔ اور اگر تم واقعی نشے کی حالت میں غلطی سے اس کے
کمرے میں جا پہنچے تو اس صورت اور تمہاری غلطی مزید سنگین ہو جاتی ہے۔ تمہیں خود
کو ایسی صورتحال میں پھنسنے ہی نہیں دینا چاہئے۔ خیر، تم جو بھی کہو، اس بیچاری
لڑکی کی شہرت کو داغ تو لگ گیا ہے۔ کسی نوجوان شرابیے کی بات کا کون یقین کرے گا ؟
اس معاملے میں وہ لڑکی ہی واحد متاثرہ فرد ہے۔ ذرا سوچو!"
وہ چلے گئے تو میں ان کے پیچھے چیخ اٹھا، "آپ جو بھی کہہ لیں، میں اس سے شادی
نہیں کروں گا !"
میں مزیدایک گھنٹہ
اکیلا بیٹھا رہا۔ پھر میری چچی آ گئیں۔ وہ رو رہی تھیں۔ انہوں نے بھی بہت دلائل
پیش کئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو میری کہانی کا یقین نہیں ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں
کر سکتا کہ ایک پرائے گھر میں اتنے لوگوں کی موجودگی میں وہ لڑکی اپنے کمرے کا
دروازہ بند کئے بغیر سو جائے۔ کرنل نے اسے پیٹا بھی ہے۔ وہ صبح سے رو رہی ہے۔ اگر
یہ معاملہ پھیل گیا تو اس خاندان کی بہت بدنامی اور رسوائی ہو گی۔ پھر میری چچی
بولیں، "فی الحال تو تمہیں اس کا رشتہ مانگ لینا چاہئے۔ بعد میں شادی کی
شرائط طے کرتے وقت دیکھیں گے کہ کیا ہو سکتا ہے۔"
اس تجویز پر میں نے سکھ کا سانس لیا۔ میں نے ایک کاغذ پر
کرنل دومولاں سے اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا۔ ایک گھنٹے بعد میں پیرس کی جانب
روانہ ہو گیا۔ اگلے ہی روز مجھے اطلاع ملی کہ میرا رشتہ قبول کر لیا گیا ہے۔
پھر تین ہفتے گزر گئے اور میں اس شادی سے جان چھڑانے کا
کوئی بہانہ نہ گھڑ سکا۔ اس دوران مقامی گرجا میں ہماری شادی کا اعلان چسپاں کر دیا
گیا، رشتہ داروں کو دعوت نامے ارسال کر دئے گئے، شادی کی شرائط طے ہو گئیں اور پھر
سوموار کی ایک صبح میں گرجا میں آنسؤ بہاتی ایک لڑکی کے ساتھ کھڑا میں پادری سے
کہہ رہا تھا کہ میں اس لڑکی کو اپنی بیوی کے طور پر قبول کرتا ہوں، خوشی میں اور غمی میں۔۔۔
میں نے اس رات کے بعد اسے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ترچھی اور
قدرے کینہ توز نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔ وہ اتنی بری بھی نہیں تھی۔ بلکہ بالکل
بھی بری نہیں تھی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا، "میں نے بھی اس کی زندگی عذاب نہ بنا دی تو کہنا !"
شام تک اس نے نہ میری جانب نگاہیں اٹھا کردیکھا اور نہ ہی
مجھ سے ایک لفظ کہا۔
آدھی رات کو جب میں حجلہ عروسی میں داخل ہوا تو میں فیصلہ
کر چکا تھا کہ اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کر دوں گا کیونکہ اب میں اس کا مالک تھا۔
وہ زرد چہرہ اور سرخ نگاہوں کے ساتھ اپنے عروسی لباس میں ملبوس ایک آرام کرسی میں
بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی وہ اٹھی اور میری جانب بڑھتے ہوئے بولی، "موسیو،
آپ کی بیوی ہونے کے ناطے میں آپ کا ہر حکم ماننے پر تیار ہوں۔ اگر آپ کہیں تو میں
اپنی جان بھی لے سکتی ہوں۔"
کرنل کی خوبصورت بیٹی وفادار بیوی کے کردارمیں خوب جچ رہی
تھی۔ میں نے اسے چوما۔ یہ میرا حق تھا۔
مجھے جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ سودا اتنا بھی برا نہ تھا۔
ہماری شادی کو پانچ سال ہو چکے ہیں۔ اپنے اس فیصلے پر مجھے ایک لمحے کے لئے بھی
پشیمانی نہیں ہوئی۔
پئیر لتوال خاموش ہو گیا۔ اس کے دوست مسکرا رہے تھے۔ ان میں
ایک بولا، "شادی بھی قرعہ اندازی ہی ہے۔ کبھی اپنے پتے ڈھونڈنے نہیں چاہئیں۔
جو پتّے اتفاقاً مل جائیں وہی بہترین ہوتے ہیں۔"
دوسرا دوست فیصلہ کن انداز میں بولا، "ہاں لیکن یہ مت
بھولو کہ پئیر کے معاملے میں شرابیوں کے خدا نے اس کے پتّے چنے تھے !"
(فرانسیسی سے اردو ترجمہ)
اصل عنوان : Ma
Femme, 1882
مصنف : Guy De Maupassant
نوٹ:
یہ ترجمہ شوکت نواز نیازی کی کتاب "مزید تیس شامیں
موپاساں کے ساتھ" سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کو سٹی بک پوائنٹ، کراچی نے شایع
کیا ہے۔
Comments
Post a Comment