افسانہ نمبر 678 : وہ ملک جس میں کوئی کبھی نہیں مرتا || تحریر : اورنیلا وورپسی (البانیہ) || اردو ترجمہ : ظفر قریشی
افسانہ نمبر 678 : وہ ملک جس میں کوئی کبھی نہیں مرتا
تحریر : اورنیلا وورپسی (البانیہ)
اردو ترجمہ : ظفر قریشی
البانیا وہ ملک ہے جس کے
باشندے کبھی نہیں مرتے ۔ ان میں یہ خصوصیت اس طرح پیدا ہوئی کہ وہ رات کے کھانے کی
میز پر یا دستر خوان پر قصداً زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ اس موقع پر (مقامی شراب )
”راکی“ کا استعمال آب پاشی کے مترادف ہوتا ہے اور صحت مند و توانا زیتون پر سرخ
مرچوں کا چھڑکاؤ جراثیم کش ادویہ کا کام کرتا ہے۔ یہ ملغوبہ ہم البانوی باشندوں کے
اجسام کو اتنا مضبوط بنا دیتا ہے کہ انہیں کوئی چیز تباہ نہیں کر سکتی۔
ہماری
ریڑھ کی ہڈیاں فولادی ہوتی ہیں۔ آپ ان کے ساتھ جو چاہیں کریں یہ سلامت رہتی ہیں
اور بالفرض محال اگر کچھ ٹوٹ پھوٹ ہو بھی جائے تو اُن کی مرمت ہو سکتی ہے جہاں تک
ہمارے دلوں کا تعلق ہے اگر وہ چربی میں ملفوف بھی ہو جائیں، اُن کی رفتار میں
لڑکھڑاہٹ پیدا ہو جائے یا کوئی اور علت واقع ہو جائے وہ فتح مندانہ طریقے سے
دھڑکتے رہتے ہیں۔ اس کیفیت میں مبتلا ہونے کے بعد ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ ہم
البانیہ میں ہیں۔ یہ ملک جس میں کوئی کبھی نہیں مرتا مٹی اور گردو غبار کے خمیر سے
بنا ہے۔ سورج اسے اتنا جلا دیتا ہے کہ اس کے انگور کی بیل کے پتے زنگ آلود لگتے
ہیں اور انہیں دیکھ کر ہمارے دماغ پکھلنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے ماحول میں رہ کر
یہاں کے باشندوں میں ایک خاص قسم کا احساس ِ برتری پیدا ہو جاتا ہے اور جدھردیکھو
یہ صورت حال جڑی بوٹیوں کی طرح اُگتی اور پھلتی پھولتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ایک اور شاخسانہ بے خوفی ہے گو عام خیال ہے کہ اس بے
خوفی کی وجہ ہماری چپٹی کھوپڑیاں ہیں جو ہمارے اندر لاتعلقی پیدا کرتی ہیں جو بے
ضمیری کی علامت ہوتی ہے۔
اس
ملک میں لفظ ”خوف" کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ موقع ملے تو کسی البانوی کی آنکھوں
میں جھانک کر دیکھیں، آپ محسوس کریں گے کہ ان کے اندر امر ہو جانے کی خواہش کلبلا
رہی ہے۔ موت اس کے نزدیک ایک ایسی چیز ہے جس کا امر ہو جانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
گرمیوں
کے موسم میں صبح پانچ بجے اپنا سر اٹھاتی ہے۔ بڑے بوڑھے سات بجے اپنی کافی کا پہلا
کپ پی رہے ہوتے ہیں ۔ نوجوان، دس بارہ بجے تک سورہے ہوتے ہیں کیوں کہ اس ملک میں
خدا کا حکم ہے کہ وقت اطمینان کے ساتھ گزارو۔ اور گلی کے کونے میں واقع اس
ریسٹورنٹ کے چبوترے پر گزارو جہاں بیٹھ کر تلخ ایسپریسیو Espresso)) کافی پیتے
ہوئے سیڈول ٹانگوں پر آنکھیں سینکنے کا موقع ملے لیکن ٹانگوں کی مالکن پلٹ کر
دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے۔
جیسے
جیسے گرم کافی حلق سے اُترتی جاتی ہے ، زبان ، دل اور پیٹ کو یہ تپش متاثر کرتی ہے
کیوں کہ زندگی اب اتنی بری بھی نہیں ہے جتنی لوگ بتاتے ہیں۔ آپ یہ تلخ ، سیاہ سیال
حلق میں اُنڈیلتے جاتے ہیں اور پیچھے کاؤنٹر پر کھڑی خاتون جو شوہر سے لڑکر نوکری
کرنے آ گئی ہے، آپ کو غصیلی نظروں سے گھور کر دیکھتی ہے۔ ابھی تو صبح کے ساڑھے
گیارہ بجے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ آپ کے پاس ضائع کرنے کے لیے بہت وقت ہے۔ اس عرصے
میں کرنے کے ہزاروں کام ہیں ۔ غروب آفتاب دُور دُور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
اچانک
شیفو (Xifo) اندر داخل ہوتی ہے ۔ وہ اپنے کٹے پھٹے ہاتھ
بے صبری سے مسل رہی ہے۔ وہ اپنے بیمار دل اور جگر کی کیفیت بیان کر رہی ہے، اس طرح
جیسے وہ کوئی پرانی کہانی بیان کر رہی ہو جس کا خود اس سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جیسے
اس کا بیان تو اہمیت رکھتا ہو لیکن یہ اعضا دور دراز کہیں پڑے ہوں ۔ اس ملک کی یہ
خاص بات ہے کہ یہاں ہر چیز مبالغہ آمیز اور مسخ شدہ لگتی ہے۔ اور پھر وہ اپنی آواز
دھیمی کر لیتی ہے اور سازشی انداز میں کہتی ہے:
"وہ خبر
آپ نے سنی ۔۔۔۔؟ ہماری پڑوسن سوزی (Suzi) کا باپ
گزشتہ شب نہاتے ہوئے گر کر مر گیا ۔ کام سے واپس آیا تھا ۔ کھانا کھایا اور غسل
کرتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔"
" نہیں تم مذاق تو نہیں کر رہیں؟ وہ بے
چارا تو اتنا جوان لگتا تھا ! "
" اب ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ زندگی اکثر
حیران کرتی ہے ۔“
"اب یہی دیکھ لیجیے۔
ہمیشہ دوسرے ہی مرتے ہیں ۔“
ایک ایسے ملک میں جہاں کسی کو
زوال نہیں، زندگی اسی طرح گزرتی ہے، ماسوائے ان لوگوں کے جو سوچتے ہیں کہ جو کچھ
بھی ہوگا دوسروں کو ہوگا۔ لیکن البانیا کے لوگوں کو موت سے عزیز کچھ اور چیزیں بھی
ہیں، مثال کے طور پر اگر کہا جائے کہ ان کی بقا کے علاوہ، کوئی اور چیز انہیں عزیز
نہیں تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔ ہاں ، ایک موضوع ایسا ہے جو انہیں بے حد عزیز ہے اور
جو اُن کے لیے بے پایاں مسرت کا باعث ہوتا ہے اور وہ ہے غیر شادی شدہ عورت اور مرد
کی مباشرت ، اس ذکر پر ان کے دل جلتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی موضوع ان کے
دلوں کو جھلسا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
کبھی کوئی قصہ چھیڑ کر دیکھیے ۔ کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا پڑھے لکھے اور کیا ان
پڑھ۔ سب کے سب اس توجہ کے ساتھ قصہ سنیں گے کہ سنتے سنتے وہ بھینگے ہو جائیں گے
اور انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ کچھ کہاوتیں جو ہمارے معاشرے میں جنم لے چکی ہیں
یہ ہیں کہ لگتا ہے فطری طور پر ان کا وجود اس طرح ہوا ہے جیسے درختوں پر پتے اُگ
آتے ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو آپ محسوس کریں گے کہ ان کہاوتوں کا تعلق عالمی سطح
پر تسلیم کیے جانے والے اس مفروضے سے ہے کہ ہر خوب صورت لڑکی طوائف نہیں تو رنڈی
ضرور ہوگی جب کہ بدصورت لڑکی اس اعزاز کی مستحق نہیں ہوتی ۔
البانیا
میں ہر لڑکی کو اپنے پاک باطن کی طرف خصوصہ توجہ دینا ہوتی ہے مرد ایک ٹکیہ صابن
سے اپنے آپ کو دھو کر صاف ستھرا ہو سکتا ہے لیکن لڑکی ۔ خواہ وہ اپنے اوپر پورا
سمندر انڈیل لے ہرگز پاک نہیں ہو سکتی ۔
شوہر
کا روباری وجوہ کی بنا پر شہر سے نکلا ہوا ہے یا جیل میں ہے، لوگ اس کی بیوی سے
کہتے ہیں کہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنا شگاف سلوالے تا کہ کم از کم شوہر تو مطمئن رہے
کہ جب تک وہ واپس نہیں آیا اس کی بیوی اس کی منتظر رہی ہے اور یہ کہ اس کی غیر
حاضری کے دوران اس کی ٹانگوں کے درمیان موجود شگاف چھوٹا ہو گیا ہے۔ شوہر سے جدائی
کا اس پر یہ اثر ہوا ہے۔ بات یہ ہے کہ پر یہ تر ہوا ہے۔ بات یہ ہے کہ اس ملک میں
مردوں کی نجی ملکیت کے بارے میں جس اتنا ترقی پا چکی ہے کہ اب اس کے معمول کی طرف
جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری طرف جب بھی کوئی خوب
صورت لڑکی ریسٹورنٹ کے چبوترے کے قریب سے گزرتی ہے، اسے کافی کے کپ سے ابھرنے والی
بھاپ سے زیادہ گرم آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو اسے احساس دلاتی
ہیں کہ وہ ان کی صبح کی تفریح میں خلل پیدا کر رہی ہے۔
"دیکھو
تو کون ہے!“ ایک آواز اس کے کان میں پڑتی ہے۔
"کوئی ضرورت
نہیں۔ تمہیں کیا معلوم اس نے اپنا شگاف کتنی بار سلوایا اور کھلوایا ہے ۔“
چلو مان لیا کہ ایسا ہی ہوا ہے مگر یہ گفتگو
جاری رہتی ہے جو ایک خواہش ظاہر کرتی ہے۔
"اے انگرڈ (Ingrid) پیاری
انگرڈ ۔ کس نے گذشتہ شب تیری پیاری پیاری رانوں کے درمیان موجود ٹانکے کھولے تھے۔
اے حسین پری۔ میرے قریب آ ۔ ہمارا وعدہ ہے کہ جب ہم اپنا کام ختم کر لیں گے تو
تجھے اتنی رقم ادا کر دیں گے کہ تو جا کر دوبارہ ٹانکے لگوالے ۔“
پھر وہ اسے اتنا گھورتے ہیں کہ
ایسا لگتا ہے کہ قریب سے گزرنے والی لڑکی غیر مرئی ہوگئی ہے۔ چبوترے پر بیٹھے کافی
پیتے مرد اپنی نگاہوں سے اس طرح گھورتے ہیں کہ اسے لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے
چھلنی ہوگئی ہے۔
ادھر گھر میں بھی یہی کہانی
ہے۔ "پریشانی کی کوئی بات نہیں۔" میری خالہ کہتی ہے۔ "ہم تمہیں ڈاکٹر کے پاس
لے چلیں گے۔ وہ بتادے گا کہ تم کنواری ہو یا نہیں ۔"
وہ دانت پیستے ہوئے یہ بات
کہتی ہے۔ وہ مجھے دیکھتے ہوئے اس طرح گھورتی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ اس کی نظریں
میرے قتلے بنارہی ہیں۔ میں ابھی صرف تیرہ سال کی ہوں اور میں نے دیکھا بھی نہیں ہے
کہ مرد اپنی پتلون کے اندر کیا چھپا کر رکھتے ہیں۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ وہ جو
کچھ بھی ہے رات کو مرد اور عورت کے درمیان کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ اپنی خالاؤں کی
گفتگو سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ میں مکمل رنڈی بننے والی ہوں۔ میری خالہ مجھے اس
طرح گھور رہی ہے کہ مجھے میں شرم سے سرخ ہو جاتی ہوں۔
بستر
میں گھتے ہوئے میں اتنی خوف زدہ تھی کہ میرا پورا جسم اکثر گیا تھا۔ میں سوچ رہی
تھی کہ اگر وہ مجھے واقعی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں اور ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ میں
تو پیدائشی کنواری نہیں ہوں تب کیا ہوگا ؟ آخراند ھے ، بہرے لنگڑے لولے بچے بھی تو
پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ایسے بچے بھی پیدا ہوتے ہوں جو فطری طور پر
پارٹی کے وفادار نہ ہوتے ہوں!“
بالآخر
مجھے جب نیند نے آلیا تو میں اپنی خالہ سے کمرے کی خاموشی میں درخواست کر رہی تھی
کہ میری صورت میں خاندان پر جو افتاد پڑنے والی ہے، اسے تسلیم کر لیا جائے تو بہتر
ہوگا۔ "خالہ میں قسم کھاتی ہوں ۔۔۔میں قسم کھاتی ہوں کہ میں نے کوئی غلط حرکت
نہیں کی ہے ۔ دراصل میری پیدائش ہی ایسی ہے۔ آپ یقین کریں۔ میں قسم کھاتی ہوں ۔“
اس
ملک میں جہاں کوئی کبھی نہیں مرتا، ان میں میری خالہ بھی شامل ہے۔۔۔۔۔ وہ بھی نہیں مرتی۔
**********
عین ان دنوں میں ایک یکساں
نوعیت کا خواب دیکھنے لگی۔ میں نے اس خواب کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ تب میں
ادھ کھلی آنکھوں سے سوتی بھی تھی۔ خواب میں، میں اپنی خالہ کو مرتے دیکھتی تھی۔
میں دیکھتی تھی کہ میری خالہ کا جنازہ تیار ہو رہا ہے۔ اور یہ کہ میں نے سیاہ رنگ
کی لیس والی شال اوڑھ رکھی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اس شال میں بہتر لگتی ہوں۔ خواب
میں، میں دیکھتی ہوں کہ میں نے مادام بوواری یا آنا کیرنینا(Madam Bovary Or Ana Karenia) کی
طرح شمال اپنے گلے کے گرد لپیٹی ہوئی ہے۔ میں غم سے نڈھال تھی اس لیے کہ مجھے
واقعی اپنی خالہ سے محبت تھی۔ زیادہ رونے کی وجہ سے میں کم زور ہوگئی تھی اور پیلی
پڑ گئی تھی ۔ لیکن میری مجبوری یہ تھی کہ مجھے اپنی خالہ کے غصے سے خوف آتا تھا۔
وہ اپنا غصہ ہمیشہ مجھ پر اُتارا کرتی تھی چناں چہ یہی وجہ تھی کہ میں اس کی موت
کی دعا مانگا کرتی تھی۔
میں
بن باپ کی اولاد تھی اور اسی یتیمی میں پرورش پاتی رہی۔ جب بڑی ہوئی تو مجھے احساس
ہوا کہ میں بدصورت نہیں تھی۔ بلوغت کی سمت جاتے ہوئے میرا اواسطہ اس موضوع سے پڑا
کہ عورت اور مرد کے تعلقات کی اصل نوعیت کیا ہوتی ہے۔
ایک
نہ ایک دن جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو یقینی طور پر بڑی رنڈی بنو گی ۔ ہاں، میں جانتی
ہوں ۔ میری خالہ اور میری خالہ زاد بہن جب بھی یہ بات کرتیں تو نہ جانے کیوں ان کی
آواز پر لرز جاتی جیسے وہ مجھے کہنا چاہتی ہوں کہ تمہاری تردید سے یہ حقیقت تبدیل
نہیں ہوگی ۔ پھر وہ سر ہلاتے ہوئے کہتیں : ” ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتیں ۔
تم اپنی مرضی سے یہاں نہیں آئیں ۔ تمہیں ہماری گود میں ڈال دیا گیا تھا ۔ جلد ہی
جب اس گھر میں شرمندگی لاؤ گی ہم اسے ہضم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ہم اس شرمندگی کو
روٹی کی طرح کھانے پر مجبور ہوں گے۔ ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ دیکھنا تم ایک نہ ایک دن اتنا بڑا پیٹ لے کر اس گھر میں داخل
ہوگی ۔ یہ بات کہتے ہوئے میری خالہ اور میری خالہ زاد بہن کے چہروں پر تکلیف کے
آثار ہوتے گویا وہ شرمندگی کی روٹیاں چبانے پر مجبور کی جارہی ہوں اور میرے دادا
سامنے بیٹھے سگریٹ کے کاغذ میں تمبا کو ڈال کر سگریٹ بنارہے ہوتے۔
میرے
لیے اپنے بڑے پیٹ کا خیال ، خوف ناک ہوتا ۔ کیا آپ نے کبھی باش (Bosch) کی کوئی
پینٹنگ دیکھی ہے؟ اس کی ہر پینٹنگ کے کرداروں کے چہرے پر تکلیف کے آثار ہوتے ۔ غم واندوہ اور پاگل پن ان کے چہروں سے عیاں ہوتا ۔
ان شاہکاروں کے کردار ایک دوسرے سے چپکے ہوئے ہوتے جیسے دوزخ
میں گناہ گار ارواح، مجھے اپنا بڑا پیٹ اور اس کے اندر تیرتی ہوئی آلائشیں واضح
طور پر دکھائی دیتیں۔ بادامی اور گہرے سرخ رنگ کا سیال مادہ میرے اندر لبالب بھرا
ہوتا۔ اتنا بڑا پیٹ تو کوئی نہیں چھپا سکتا اور اپنی کھال میں سے رینگ کر کوئی
انسان باہر بھی نہیں نکل سکتا۔ تم پر نشان لگ چکا ہے ۔ بڑے پیٹ کا مطلب ہے کہ تم
مردوں کے ساتھ جھاڑیوں میں رنگ رلیاں مناتی رہی ہو ۔ یہ بات بھی مجھے خالہ اور اس
کی بیٹی کے ذریعے معلوم ہوئی تھی کہ مرد اور عورت رنگ رلیاں جھاڑیوں ہی میں مناتے
ہیں ۔ رنگ رلیوں کو وہ کبھی سرگرمیوں کا نام دیتیں لیکن کبھی وضاحت نہیں کرتی تھیں
کہ رنگ رلیوں سے ان کی مراد کیا ہے۔ میں نے بہر حال یہ مطلب اخذ کیا کہ اس کا مطلب
شرمندگی کے کیڑوں کو اپنے جسم میں پال کر موٹا کرنا ہوگا۔ انہیں اپنی کوکھ میں پیش
کرنا اور اس کے نتیجے میں اپنے جسم کو بد ہئیت بنانا تا کہ لوگوں پر واضح ہو جائے
کہ آپ مردوں کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی تھیں۔ اپنا بنایا ہوا یہ عکس اتنا واضح تھا
کہ آج بھی جب میرے دماغ میں یہ خیال آتا ہے تو میں لرز کر رہ جاتی ہوں۔ خاص طور پر
جب کوئی حاملہ عورت میرے سامنے سے گزرتی ہے تو اس خیال کو دماغ سے نکالنے میں مجھے
دشواری ہوتی ہے کہ یہ عورت جھاڑیوں میں مردوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی رہی ہوگی۔
بات
یہ ہے کہ میرے پیارے وطن کے لوگوں کو ایک اچھی سی نمکین کہانی درکار تھی ۔ انہیں
اٹھتے بیٹھتے ایسی کہانیوں کی تلاش ہوتی تھی جو نم زدہ کرنے کی اہل ہوں۔ کوئی بات
ہو نہ ہو یہ لوگ غمگین کہانیاں گھڑنے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں۔ شاید اسی لیے
خدا نے ہمیں مٹھی بھر مٹی سے خلق کیا ہے۔
بچپن
میں میں جب بھی بیمار ہوتی ، گھر کا ہر فرد میرے ساتھ لاڈ پیار کرنے لگتا ۔ وہ
باری باری میرے کمرے میں آتے اور گلے لگا کر سر گوشی میں مجھے میری جان!“ اور ”
میری پیاری !“ کہا کرتے ۔ کمرے سے نکلتے ہوئے ان کے لبوں پر "
بے چاری "ضرور ہوتا ۔ میرے لیے مزے مزے کے کھانے تیار کیے جاتے یہ سوچے بغیر
کہ بیماری نے میری بھوک پیاس مٹادی اور ذائقہ چھین لیا ہوگا۔ میں ان برتنوں کی
جانب نہایت بے چارگی سے دیکھا کرتی جن میں طرح طرح کے مربّے اور چٹنیاں ہوتی تھیں
۔ کوفتے اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء میرے بستر کے قریب ایک میز پر سجا کر رکھی
جاتی تھیں میں بڑی محبت سے ان کی طرف دیکھتی لیکن جلد ہی نظریں ہٹا لیتی کیوں کہ
زیادہ توجہ سے دیکھنے پر مجھے چکر آنے لگتے۔
بیماری
کے زمانے میں میری والدہ، میری خالہ اور دیگر گھر والے اچانک تبدیل ہو جاتے اور
مجھ پر اپنی ساری محبت اور شفقت نچھاور کرنے لگتے اور مجھے یقین ہو جاتا کہ ان
لوگوں کا اسی طرح ساتھ رہا تو میں مستقبل میں انہیں ان کے خدشات کے برعکس کبھی
شرمندہ نہیں کروں گی اور جھاڑیوں میں رنگ رلیوں وغیرہ سے دور رہوں گی۔
جب
تک میں بیمار رہتی سب میرے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتے۔ مجھ پر چیخنا تو در کنار
کوئی اونچی آواز میں بھی بات نہ کرتا ۔ ہانڈی چولہے سے دور رکھا جاتا اور میں جتنی
دیر تک چاہتی سوتی رہتی ، حد یہ ہے کہ مجھ سے دھان سے چاول الگ کرنے کا کام بھی
نہیں لیا جاتا۔
چولہے
کے لیے چھوٹے ٹکڑے کرنے کے کام سے بھی مجھے دُور رکھا جاتا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ
بیماری کے دوران کسی کو یاد بھی نہ آتا کہ بڑی ہو کر یقینی طور پر رنڈی بنا میری
قسمت میں لکھا ہے ۔ ہاں، جیسے ہی میں رو
بصحت ہوتی میرے تمام اعزازات اور القاب مجھے لوٹا دیے جاتے۔ صحت مند ہوتے ہی بستر
چھوڑنے کے ساتھ ذلتوں اور رسوائیوں کے ہار دوبارہ میرے گلے میں ڈال دیے جاتے ۔ میں
ایک بار پھر مستقبل کی طوائف ہو جاتی۔ میرے بستر کے ساتھ والی میز سے کھانے پینے
کی چیزیں غائب ہو جاتیں اور ان بچوں کے بستروں کے قریب پہنچ جاتیں جو میرے بعد
بیمار ہوتے ۔ مختصراً میں اپنے گھر کے بارے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ ہمارے ہاں اچھا
کھانا صرف اسی بچے کو مل سکتا تھا جو قریب المرگ ہو۔
ہمارے
پیارے ملک میں جہاں کوئی کبھی نہیں مرتا اور جب کوئی مرہی جاتا ہے تو اس کی لاش
اُٹھانا اس لیے دو بھر ہو جاتا ہے کہ لاش اتنی بھاری ہوتی ہے کہ لگتا ہے اس کے
اندر سیسہ بھرا ہوا ہے۔ اس محبوب ملک میں ایک مقبولِ عام کہاوت ہے کہ "زندہ
رہوتا کہ میں تم سے نفرت کر سکوں اور مرو تا کہ میں تمہارا غم منا سکوں ۔" یہ
کہاوت اس قدر مقبول ہے کہ قدم قدم اور لمحہ بہ لمحہ گونجتی ہے۔ جب کوئی بالآ خر مر
جاتا ہے تو اس کی برائی نہیں کی جاتی بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اس کے بارے میں منفی
خیالات بھی ترک کر دیے جاتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ، موت کا صحیح معنوں میں احترام ۔
یہاں مجھے یہ بھی عرض کرنے دیجیے کہ البانیا میں کسی کا احترام حاصل کرنا قریباً
ناممکن ہے۔ احترام کے لائق وہ ہے جو مرض الموت میں مبتلا ہوتا ہے ۔ آخری سانس کے
نکلنے تک وہ شخص محترم نہیں ہوتا۔ جب کوئی آخر کار مر جاتا ہے تو اس کے مرتے ہی
لوگوں کو اس کی خوبیوں کا اچانک احساس ہونے لگتا ہے ۔ مرد اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے
مالک ہو جاتے ہیں اور عورتوں کو ۔ پاک باز ترین حور پری کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے ۔
لوگوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ جانی دشمن بھی اپنا غصہ تھوک کر
متوفی کی خوبیوں کا ذکر کر کے سوگ مناتے ہیں۔
لیکن
کبھی کبھی میری خالہ وہ دوسری کہاوت بیان کرتی ہے جو کسی زمانے میں پہلی کہاوت
جتنی مقبول ہوا کرتی تھی۔ یہ دوسری کہاوت بیان کرتے ہوئے میری خالہ کی آواز میں
لرزش پیدا ہو جاتی تھی:
"تمہارے
لوگ ( رشتے دار ) یقیناً تمہارا گوشت کھا جائیں گے لیکن کم از کم ہڈیاں تو بچا ہی
لیں گے۔" یہ کہاوت بیان کرتے ہوئے
میری خالہ کی آواز بھر آجاتی تھی۔
ایک
دفعہ میں نے ان سے کہا: ”مگر خالہ جب وہ میرا گوشت کھا جائیں گے تو میری ہڈیاں بچا
کر کیا کریں گے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہڈیاں پھینک دیں؟“ اس کے جواب میں وہ مجھے
اس طرح گھور کر دیکھتی تھیں کہ میں کھڑے کھڑے راکھ
ہو جاؤں۔ ان کا مجھے اس طرح گھورنا ظاہر کرتا تھا کہ میں اپنی ماں کے اعلیٰ وارفع
خاندان کی فرد نہیں۔ میں ایک بد قسمت حادثہ تھی کیوں کہ میری صورت شکل اور حلیہ
میرے باپ کا تھا۔ "اپنامنہ بند کر، نا ہنجارلڑ کی۔۔ تو بالکل اپنے باپ پر گئی
ہے۔“
میں نے اپنا منہ بند کر لیا
اور دوبارہ بیمار ہونے کی دعا کرنے لگی۔
**********
مجھے یاد ہے کہ جب میں چھ سات
سال کی تھی تو کبھی کبھی اپنی ماں کے ساتھ لگ کر سویا کرتی تھی۔ ایک رات خاص طور
پر میں اس وقت بہت پریشان ہوئی تھی جب مجھے احساس ہوا کہ میری ماں ، میری کا ئنات
کا مرکز نہایت کم زور عورت ہے۔
ہوا
یہ تھا کہ ان دنوں میں معمولی فلو کا شکار تھی ۔ وہ فلو جو عموماً بچوں کو ہوتا ہے
۔ اس کی وجہ سے مجھے بستر میں لیٹنا پڑ گیا۔ میں لیٹے لیٹے کچھ رنگین تصویروں والی
کتاب دیکھ رہی تھی ۔ ان کتابوں میں ایک
کتاب میرے ایک کزن کی تھی جو مجھ سے دو سال بڑا تھا۔ یہ کتاب انسانی جسم کی رنگین
تصویروں کی تھی۔ رنگا رنگ پٹھوں والے انسانی اجسام کی تصویروں والی یہ
کتاب مجھے بہت پسند آئی تھی۔ مختلف اندرونی اعضاء ، ہڈیاں اور لمبی نیلی نیلی رگوں
کے خاکوں سے مزین یہ کتاب دیکھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ یہ ہم ہیں ، رگوں پٹھوں
اور جسم کی مچھلیوں پر مشتمل ایک جال تھا جسے ہماری کھال نے یکجا کر رکھا تھا۔
عجیب و غریب اندرونی اعضا کے خاکے تھے جن پر ہمارا یا میر از دور نہیں چلتا تھا۔
کچھ سمجھ میں آئیں کھال اور ہڈیاں؟
لیکن
اے خدا یہ سب کیسے کام کرتے تھے؟ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ تمام پرزے کس
طرح یکجا کر کے جسم میں ڈالے جاتے ہیں لیکن میرے ذہن میں پھر یہ سوال پیدا ہوتا
تھا کہ یہ اعضا مجموعی طور پر اتنے نا قابلِ بھروسہ کیوں ہوتے ہیں۔ میں سوچتی تھی
کہ کیا قرب وجوار میں کوئی ایسی قوت ہے جسے میں خدا کہہ سکوں اور جس کی خدمت میں
میں درخواست دے کر انسانی اعضا کی کم زوریوں کو دور کروا سکوں ! میری ماں بے چاری
تو میرے لیے کچھ نہیں کر سکی کیوں کہ وہ بھی میری طرح گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنی
ہوئی تھی۔
اپنی
ماں کے ساتھ لپٹتے ہوئے مجھے اس کی بے چارگی کا احساس ہوتا لیکن ساتھ ہی اس کی
جانی پہچانی خوش بو مجھے مطمئن کر دیتی تھی۔ یہ خیال کہ یہ میری ماں ہے جس سے میں
محبت کرتی ہوں مجھے نہال کر دیتا تھا لیکن ساتھ ہی میں خوف زدہ بھی ہو جاتی تھی کہ
وہ بہت کم زور تھی ۔ اس کی کم زوری مجھے حواس باختہ کر دیتی تھی اور میں بار بار
ایک ہی بات دہراتی تھی کہ میں خوف زدہ ہوں۔ میں اس سے کہتی : ” ماں تمہارا گوشت و
پوست اور ہڈیوں سے بنا ہونا مجھے ڈراتا ہے۔“ میری ماں میری بات سمجھے بغیر میرے سر
پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیتی کہ اس کا یہ عمل میرا خوف دور کر
دے گا ۔ پھر وہ ، پچکارتے ہوئے سرگوشی میں مجھ سے بات کرنے لگتی۔ ان دنوں ہم تہہ
خانے میں رہا کرتے تھے جس کے باورچی خانے میں نمی ہوا کرتی تھی ۔ باورچی خانے کے
فرش پر سفید ٹائل (Tiles) تھے اور ہم اس کے ایک حصے میں بستر بچھا کر
سویا کرتے تھے۔ وہیں پر ایک صوفہ بھی رکھا تھا جس کے قریب ایک ٹائل پر ایک انار کے
جتنا سرخ خون جیسا دھبہ تھا۔ میں نے اس دھبے کو رگڑ رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کی۔
میں نے صابن کے ذریعہ بھی صاف کرنے کی کوشش کی تھی لیکن دھبّے کا اصرار تھا کہ میں
اس بہانے اس کے ساتھ کچھ وقت گزاروں ۔ مجھے لگا کہ دھبّہ غم زدہ ہے چناں چہ میں
اسے کپڑے سے پونچھ کر صاف کرتی تو اس عمل میں سختی نہ ہوتی اور میں اسے پیار سے
سہلا دیتی۔
میرا
خیال تھا کہ دھبّے کے ساتھ کوئی تکلیف دہ واردات کی کہانی وابستہ ہے۔ گزرتے وقت کے
ساتھ آہستہ آہستہ مجھے محسوس ہونے لگتا کہ یہ دھبہ میری ماں کے خون کا قطرہ ہے۔
کچھ عرصے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ دھبہ خون کا قطرہ ہے اور اس وقت گرا ہے جب میرا
باپ میری ماں کو مارتا تھا۔ میں نے اس واقعے کے بارے میں اتنی بار سوچا کہ آخر کار
پوری واردات ایک فلم کی طرح میری نظروں کے آگے سے گزرنے لگی۔ مجھے لگا کہ میرے باپ
نے میری ماں کو فرش پر گرا دیا ہے اور اسے مارہا ہے۔ یہ سارا منظر مجھے واضح طور
پر دکھائی دے رہا تھا ۔ رفتہ رفتہ مجھے یقین ہو گیا کہ خون کا وہ قطرہ اسی لڑائی
کے دوران فرش کے ٹائل پر گرا تھا۔ پر وہ قطرہ بہت ڈھیٹ تھا۔ اپنی جگہ سے ہلتا ہی
نہیں تھا۔ ایک دن ہمت کر کے میں نے اپنی ماں سے پوچھ ہی لیا۔ سوال کرتے وقت میں بہ
غور اپنی ماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔
”ماں!“ میں
نے پوچھا ”وہ سرخ رنگ کا بیج کیا ہے؟ سفید ٹائل کے عین بیچ میں کیا وہ مضحکہ خیر
نہیں لگتا؟ میرا خیال تھا کہ بالآخر وہ مجھے سچ سچ سب کچھ بتا دے گی کہ وہ دھبہ اس
کے خون کا ہے۔ لیکن میری ماں نے سادگی سے کہا: ” شاید ٹائل بنانے والوں کی غلطی سے
یہ سرخ دھبہ پڑا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ پروڈکشن میں اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں
۔“
میری
ماں بے حد حسین تھی۔ وہ گھنٹوں اپنے بناؤ سنگھار میں مصروف رہتی ۔ بالوں میں کنگھی
کرتی ، سرخ ہونٹوں پر کاجل کے قلم سے لکیر بناتی ۔ تنگ لباس پہنتی ۔ رنگ برنگا
ہینڈ بیگ Hand Bag)) کندھے پر ڈال کر آئینے میں خود کو متعدد
بار دیکھ کر مجھ سے مخاطب ہوتی: ”گھر سے نہ نکلنا ۔ کوئی شرارت نہ کرنا۔ میں نانی
کی طرف جارہی ہوں ۔ جلد واپس آجاؤں گی ۔“
یہ
کہہ کر وہ گھر سے نکل جاتی ۔ وہ ہر روز شام کو نانی کی طرف جاتی۔ ہمارے مردوں کی
بھوکی نظریں اس کی متلاشی ہوتیں۔ حاسد
عورتیں اس کی ہر جنبش پر نظر رکھتیں۔ مجھے ان کی آنکھوں میں جلن اور حسد دکھائی
دیتا۔ وہ جس انداز میں میری ماں کو دیکھتیں، مجھے لگتا کہ ان کی رگوں میں لہو نہیں
تیزاب بہہ رہا ہے جس کے چند قطرے ایک قلعے کو یا ایک شہر کو تباہ و برباد کر دیں۔
اگر ان کا بس چلتا تو وہ میری ماں کا گوشت نوچ نوچ کر کھا جاتیں یا اسے بھو کے
کتوں کے حوالے کر دیتیں۔
"اپنا
خیال رکھنا ، ماں" میں اونچی آواز
میں اس سے کہتی ۔
نانی
کے پاس روز وہ اس لیے جاتی تھی کہ وہ چاہتی تھی کہ لوگ اسے دیکھیں اور اسے اپنانے
کی خواہش کریں۔ مرد سر گوشی میں اس سے کہتے : " ویلا (Diella) تم کتنی
حسین ہو۔ میں تمہاری ہڈیاں اور گوشت و پوست سب کچھ کھا سکتا ہوں ۔ یا خدا ۔ دیلا
تم اپنی ٹانگوں کو تو دیکھو! کتنی مکمل ہیں ۔ شیمپین کی بوتل جیسی !"
یہاں
، اس لمحے میں عرض کروں گی کہ اس ملک میں شیمپین نام کی کوئی شے نہیں ہوا کرتی
لیکن لوگ کسی چیز کی تعریف میں یہی لفظ استعمال کیا کرتے تھے ۔ لوگوں نے شیمپین
چکھی بھی نہیں تھی لیکن یہ ایک خواب جیسی چیز کا نام ضرور لیا کرتے تھے جو انہیں
بیمار بھی کر دیا کرتی تھی۔
دیلا
کی ٹانگیں شیمپین جیسی تھیں یا شاید وہ کہنا چاہتے تھے کہ دیلا کی ٹانگیں شیمپین
کی بوتلوں جیسی تھیں۔ وہ اپنی گردن اُٹھا کر چلتی تھی ۔ شاہراہ پر چلتے ہوئے اس کے
کانوں میں حُسن کے حوالے سے تعریفی کلمات پڑتے جو وہ نظر انداز کرتی۔ وہ ابھی جوان
تھی ۔ اُٹھائیس برس کی عمر کو جوانی ہی کہا جائے گا۔ وہ روز نانی سے ملنے جاتی اور
وقت گزرتا رہتا ۔
اس
کی شادی کی تصویریں الماری کے ایک کونے میں پڑی تھیں۔ ان تصویروں میں سے ایک تصویر مجھے خاص طور پر بہت پسند تھی
۔ بار بار یہ تصویر دیکھنے کے باوجود میرا دل نہیں بھرتا تھا۔تصویر کیا تھی ۔
روشنی اور سائے کا کھیل تھا۔ میری ماں نے جالی کی اوڑھنی سے اپنے بالوں کو جس طرح
چھپایا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ تصویر شادی سے ذرا پہلے کی تھی اور اس کے
چہرے کی دمک سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس دن کے انتظار میں اس نے اپنا رکھ رکھاؤ بھی
بھلا دیا تھا۔
ہمارے
ملک میں یہ روایت ہے کہ اپنی شادی کے موقع پر دلہن کچھ رو لیتی ہے تا کہ دنیا کو
بتائے کہ ماں باپ کا گھر چھوڑتے ہوئے وہ کتنی غم زدہ ہے گویا ہم پیدائش کے وقت
روتی ہیں تو یہی عمل شادی کے وقت دہراتی ہیں۔
وقت
گزرنے کے ساتھ تصویر پر بادامی رنگ کا ایک دھبہ پیدا ہوا جو میری ماں کی داہنی
آنکھ سے اس کی کنپٹی تک پھیلا ہوا تھا؟ بہت غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی
کہ دھبہ الماری میں نمی کے ہواتھا؟ کے میں اس نتیجے پر پہنچی کہ دھبہ الماری میں نمی کے سبب پیدا ہوا تھا۔ اس دھبے نے مجھے
بہت تکلیف پہنچائی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے میری ماں بیمار اور اداس نظر آتی تھی۔
اس تصویر کے بارے میں جب بھی سوچتی میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے کیوں کہ اس کے
ساتھ ہی میرے ذہن میں اس کی وہ تصویر آجاتی جس میں اس کے بال سفید تھے۔
میں
نے تصویر کو بچانے کی خاطر الماری سے نکال لیا اور سوچنے لگی کہ اگر میں اسے البم
میں لگا دوں تو شاید وہ دھبہ غائب ہو جائے لیکن دھبہ غائب تو نہ ہوا بلکہ پھیلنے
لگا اور پھر ایک دن ہم نے تہہ خانے والا وہ گھر چھوڑ دیا۔ منتقلی کے دوران یا بعد
میں زندگی کی اُٹھا پٹخ میں تصویر ہی گم
ہو گئی لیکن وہ دھبہ میرے دماغ میں قائم رہا۔ ایک متعدی مرض کی طرح اس دھبے نے
مجھے متاثر کیا تھا۔ آج بھی جب وہ تصویر مجھے یاد آتی ہے، میں وہ دھبہ دیکھتی ہوں
جو میری ماں کی دانی آنکھ سے کنپٹی تک پھیلا ہوا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اب وہ اپنا
غم چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتی ہوگی اور فرش کی سفید ٹائلوں میں سے ایک ٹائل پر
موجود انار دانے کے برابر سرخ بیج آج تک
میرے اندر ہے اور میں نے نانی کے گھر جانا بند کر دیا ہے۔
انگریزی میں عنوان : The Country where no one ever dies
مصنف کا تعارف:
اورنیلا
وورپسی (Ornela Vorpsi) تِرانا، البانیا میں 1968ء میں پیدا ہوئیں۔
تِرانا (Tirana) کی اکیڈمی آف فائن آرٹس میں انہوں نے تعلیم
حاصل کی اور 1991ء میں وہ ترک وطن کرکے اٹلی چلی گئیں۔ 1997ء میں وہ پیرس منتقل ہوئیں۔ جہاں وہ فوٹو گرافر،
پینٹر، اور ویڈیو آرٹسٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہ کہانی دراصل ناول " وہ
ملک جہاں کوئی نہیں مرتا" کا ایک باب
ہے۔ جو مکمل مفہوم پیش کررہا ہے، یہ ان کا پہلا ناول ہے، ناول
اطالوی زبان میں لکھا گیا تھا لیکن بعد میں اس کا فرانسیسی، ہسپانوی اور جرمن
زبانوں میں ترجمہ شایع ہوا۔ اورنیلا وورپسی نے چار اور ناول تحریر کیے ہیں۔ وہ
کہتی ہیں کہ میں مصنفہ نہیں بننا چاہتی تھی۔ میری خواہش تھی کہ میں پینٹر بنوں۔ اس
ترجمہ کے لیے کہانی کا انتخاب Best European Fiction 2010 سے لیا گیا ہے۔
Comments
Post a Comment