افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق
افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر
تحریر : پی پدمراجو (بھارت)
ہیڈ ماسٹر صاحب فوت ہو گئے ہیں!!"
کیپٹن راؤ نے تار پڑھا اور ایک لمحے کو ساکت کھڑا رہ گیا۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اُس کی بیوی نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے اُسے دیکھا، پھر جھک کر اُس کے ہاتھ میں تھامی ہوئی چِٹ کو پڑھنے لگی۔
"یہ ہیڈ ماسٹر کون ہیں؟"
"ہمارے ہیڈ ماسٹر۔"
اُس نے کندھے اُچکائے، میز پر اُس کا رومال اور بٹوہ رکھا، اور کمرے سے نکل گئی۔ راؤ وہیں کھڑا رہا، خاموش اور گم صم۔ پرانی یادوں کی دھند میں اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
ریت کے ٹیلے دریائے گوداوری کو چیرتے ہوئے پھیلے ہوئے تھے۔ جب کوئی ٹیلے کی چوٹی پر پہنچتا تو دریا کمزور اور نحیف سا دکھائی دیتا—یوں لگتا جیسے رینگتے ہوئے اپنی منزلِ فنا کی طرف بڑھ رہا ہو۔ لیکن جیسے ہی کوئی ٹیلے کے پار پہنچتا، دریا یکایک زندہ دلی اور طغیانی سے لبریز دکھائی دیتا۔ انہی پانیوں میں ہیڈ ماسٹر صبح صبح سورج کو نمسکار کرنے کھڑے ہوتے۔ ان دنوں راؤ کو 'سَبَّا راؤ' کہا جاتا تھا، اور اُس کے دوست کرشنیاہ، رمناتھم، سامبو اور روی روزانہ ایک فرلانگ تک دریا میں تیرتے اور دوسری طرف جا نکلتے۔ اُس کنارے پر کھیرے کی بیلیں کثرت سے پھیلی ہوتیں۔ وہ ان بیلوں کے نیچے مرچ اور نمک کی چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں چھپا دیتے۔ پھر کھیرے کو ہاتھ سے مسل کر اُس پر نمک مرچ لگا کر مزے سے کھاتے۔ اُن کے کھانے کے دوران جو بیج بکھرتے، وہ بعد میں نئی بیلوں میں ڈھل جاتے اور یوں سارا کنارہ کھیرے کی بیلوں سے بھر جاتا۔ جب وہ دوبارہ تیر کر واپس آتے، تو ہیڈ ماسٹر اپنا سوریا نمسکار ختم کر چکے ہوتے۔
"ارے لڑکو! کشکندھا کے باسی آج کیا کارنامہ انجام دے رہے ہیں؟ کھیرے گرائے یا تربوز کاٹے؟" وہ ایک صبح مسکرا کر بولے۔ لڑکے ہکّا بکّا رہ گئے؛ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ان کی شرارتوں سے واقف ہیں۔ "اصل میں، سر… ہم تیرنے کی مشق کر رہے تھے،" رمناتھم نے شرمندگی سے بڑبڑایا۔ "دیکھو بھئی، ستیہ ہرش چندر! مانا کہ تیرنا سیکھنا تمہارے لیے اچھا ہے، لیکن اگر کھیرے کے باغ کا مالک تمہیں پکڑ لے تو تمہاری ٹانگیں توڑ دے گا—اور پھر نہ تم تیر سکو گے، نہ کھا سکو گے!" ان کی بذلہ سنجی نرم اور شائستہ ہوا کرتی۔ بات کو چبھونے کے بجائے وہ الفاظ کو نرمی سے سہلاتے، ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے اور ہر لفظ کو اس نرمی سے چمکا دیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہیلو، کیپٹن راؤ؟ کیا بات ہے، تم تو بہت دھیمے لہجے میں بول رہے ہو!"
یہ کیپٹن ریڈی کی آواز تھی، جو فون پر حیرانی سے پوچھ رہا تھا۔راؤ کے ہونٹوں پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ انجانے میں ہیڈ ماسٹر کا لہجہ اپنا بیٹھا تھا۔
---
ایک بار اسکول کے ڈرامے میں راؤ نے جنگی سپہ سالار یدھ شٹر کا کردار ادا کیا، اور ہیڈ ماسٹر کے انداز و اطوار کی ہو بہو نقل کی۔ تمام اساتذہ اور ساتھیوں نے دل کھول کر اس کی تعریف کی۔ ہیڈ ماسٹر نے آنکھوں میں ہنسی بھر کر اُس کی طرف دیکھا اور کہا، "سبُّلو! آخرکار تم نے مجھے دھرم راجا بنا ہی دیا! وہ بھی کیسا بےکار کمبخت تھا!"ہیڈ ماسٹر ہی وہ واحد شخص تھے جو اُسے محبت سے "سبّلو" کہہ کر پکارتے تھے۔
۔۔۔۔۔
"ریڈی! کیا تم ایئرپورٹ جاتے ہوئے ذرا یہاں آ سکتے ہو؟ میں تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔"
"خیریت؟"
"بعد میں بتاتا ہوں۔"
کیپٹن راؤ نے فون واپس رکھ دیا۔ وہ ناشتہ کرنے کے لیے ڈائننگ روم میں داخل ہوا۔ کرسی پر بیٹھ کر سنترے کے رس کی چسکیاں لیتا رہا، لیکن اُس کے چہرے پر خیالوں کی دھند بدستور چھائی رہی۔کملا نے اُسے شک کی نگاہ سے دیکھا۔
دونوں کے درمیان پچھلے ایک مہینے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ نہ جھگڑا ہوا، نہ بحث، اور نہ کوئی الزام تراشی۔ مگر راؤ بخوبی جانتا تھا کہ کملا ناراض کیوں ہے، اور اُس نے بیڈروم کا دروازہ اُس کے لیے کیوں بند کر رکھا ہے۔
---
اُس دن وہ ہمیشہ کی طرح اُسے ایئرپورٹ لینے آئی تھی۔راؤ کی ڈیوٹی کے بعد وہ ہمیشہ اُسے لینے آتی۔ لیکن اُس دن کے بعد وہ کبھی نہیں آئی۔ اور راؤ جانتا تھا کہ اب وہ کبھی نہیں آئے گی۔
اس رات ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور ہوا میں نمی تھی۔ اندھیری رات میں وہ اُسے دیکھ نہ سکا کہ وہ اُس کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ تو سوچ بھی نہ سکا کہ وہ آئے گی۔ بلکہ اُس وقت تو اُس کے ذہن میں اُس کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔مس اُوشا اُس کے گلے میں باہیں ڈالے جہاز کی سیڑھیاں اُترنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سیڑھیاں تنگ تھیں، بہت تکلیف دہ لمحہ تھا۔ راؤ نے اُس کی کمر تھام کر اُسے نیچے اُتارنے میں مدد کی۔ زمین پر قدم رکھتے ہی اُوشا کو چکر آ گیا تھا (واقعی!)۔ راؤ نے اُسے گرتے ہوئے بچایا اور مضبوطی سے تھام لیا۔ پھر اُسے اُس کی وین میں بٹھایا اور خود بھی اُس کے ساتھ وین میں سوار ہو گیا۔ تبھی اُس نے دیکھا—کملا بارش میں ایک چھوٹی سے چھتری کے نیچے، طیارے کے بازو کے نیچے کھڑی تھی! جب وہ اُوشا کو اسپتال میں داخل کروا کر رات گئے گھر پہنچا تو آدھی رات گزر چکی تھی۔
کملا نے خود کو بیڈروم میں قید کر لیا۔ یہ تھی اُس کی بیوی کا گرمجوشی سے لبریز "خوش آمدید"—ایک ایسی رات کے بعد جب وہ موت سے بال بال بچ کر، تھکا ہارا، پریشان، زخمی دِل کے ساتھ گھر لوٹا تھا! پوری رات اُس نے لاؤنج کے صوفے پر کروٹیں بدلتے ہوئے گزار دی۔ وہ دل ہی دل میں زخمی تھا، صدمہ زدہ اور ناراض—اس خاموش الزام سے، جسے وہ سراسر ناحق سمجھتا تھا۔ کیا یہ مناسب تھا، اُس نے سوچا، کہ اُس کی بیوی محض اِس لیے اُس پر شک کرے کہ اُس نے ایک ساتھی خاتون کو سہارا دیا، جو ڈر کے مارے کانپ رہی تھی، اور جسے وہ اپنی بہن کی طرح سمجھتا تھا؟
(ہاں، ہاں! تم نے اُس کی نازک کمر کو تھام رکھا تھا، ذرا سا زیادہ دباؤ کے ساتھ۔ جب اُس نے تمہارے گلے میں باہیں ڈالیں، اُس کے سینے کی نرمی تمہیں چھو رہی تھی، اُس کا دل پرندے کی طرح تمہارے سینے میں پھڑپھڑا رہا تھا، جب تمہاری انگلیاں اُس کی پیٹھ پر پھسلیں، اُس کے بال تمہاری گردن کو چُھونے لگے—تو تمہارے رگ و پے میں دوڑنے والی خوشی بس بھائی کی بہن سے محبت ہی تھی!!)
راؤ نے آملیٹ اور مکھن لگی ٹوسٹ کو دانتوں سے کاٹا، اور ایک نظر اپنی بیوی کی طرف ڈالی۔
وہ خاموشی سے اُس کے چہرے کا جائزہ لے رہی تھی۔پھر اُس نے نظریں ہٹا لیں، وہ اُس کی آنکھوں میں چمکتی ہوئی محبت کی تاب نہ لا سکی۔
"مجھے ایلورُو جانا ہے، وجئے واڑہ اُتر کر۔"
کملا نے اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"ہمارے ہیڈ ماسٹر فوت ہو گئے ہیں۔ اُن کا اکلوتا بیٹا امریکہ میں ہے۔ میں اُن کے لیے بیٹے جیسا ہوں۔ اُن کی بیوی کو شاید خوشی ہو، اگر میں گیا۔"راؤ کو خود اپنی بات پر ہنسی آ گئی—مرنے والے کی بیوی کو خوشی؟کملا نہیں ہنسی۔ اُس نے ایک ایسی نظر سے اُسے دیکھا جیسے وہ جان گئی ہو کہ وہ دراصل کیا کہنا چاہتا ہے۔راؤ کچھ لمحے رکا، پھر کافی کی چسکی لی۔
"اُس کا کوئی رشتہ دار نہیں۔ کیا تم میرے ساتھ چلو گی؟"
کیپٹن ریڈی ڈرائیو وے میں گاڑی لیے کھڑا تھا، اُس نے ہارن دیا۔ راؤ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کملا کمرے سے نکلی، مکمل تیاری کے ساتھ۔راؤ نے اُس کی خاموشی کو تذبذب سمجھا، جیسے وہ ساتھ نہیں جانا چاہتی۔ لیکن وہ باہر آئی، دروازے کو تالا لگایا، اور چپ چاپ وین میں سوار ہو گئی۔
کیپٹن ریڈی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"ہیڈ ماسٹر کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہمیں ایلورُو جانا ہے۔" جہاز بھر چکا تھا، ان کے لیے سیٹ دستیاب نہیں تھی۔بمشکل کملا کے لیے ایئرہوسٹس کے کیبن میں جگہ بنائی گئی۔ کیپٹن ریڈی ایک پرسکون پائلٹ تھا۔ اُس نے جہاز کو نرمی سے بادلوں کی روئی جیسے بستر پر چڑھا لیا۔
راؤ اُس کے پیچھے کھڑا ہوا، پرواز کو دیکھتا رہا۔
جہاز ایسے لگتا جیسے بادلوں کے دل میں تیر رہا ہو۔ جب وہ بادلوں کی تہہ چیر کر آگے بڑھتا، ایک عجیب سی کپکپی جسم میں دوڑ جاتی ایئرہوسٹس نائیکی ، اپنا توازن کھو بیٹھی، مگر فوراً سنبھل گئی۔
"معذرت، چائے تم پر گرنے ہی والی تھی،" اُس نے مسکرا کر کہا۔ "اگر چائے کی جگہ تم گرتی، تو بھی کوئی پریشانی نہ ہوتی،" ریڈی نے شوخی سے جواب دیا۔
راؤ نے کملا کی طرف دیکھا۔ اُس کی نظروں میں کہانی تھی—"یہ ہماری بہن جیسی ہے۔"
اور پھر وہ اپنے اس خیال کی بے وقوفی پر ہنس پڑا۔ وہ کملا کے پہلو میں سمٹ کر بیٹھ گیا۔
اور ایک بار پھر خیالوں کی لہروں میں بہہ گیا۔
ہیڈ ماسٹر اُنہیں انگریزی پڑھا رہے تھے۔ مہاتما گاندھی کا ایک مضمون تھا " تمام بنی آدم بھائی ہیں" ؛ ہیڈ ماسٹر نے کہا، "دیکھو لڑکو! مہاتما جی کچھ شوخ مزاج لگتے ہیں۔ صرف مردوں کو بھائی کہا ہے۔ عورتوں کو بہن کہنے سے صاف گریز کیا ہے۔ شاید وہ بھی ہمارے سبّلو جیسے کئی لڑکوں سے مل چکے ہوں!" — سبّلو یعنی میں۔ ان دنوں میں بڑا شرارتی تھا۔
کملا کی آنکھوں میں ایک دبی دبی مسکراہٹ چمک اٹھی۔ اُسے شک تھا کہ راؤ نے یہ قصہ محض ایئرہوسٹس سے توجہ ہٹانے کے لیے چھیڑا ہے۔ اگرچہ وہ جزوی طور پر درست تھی، لیکن جب راؤ بولنے لگا، تو ایئرہوسٹس اور لمحۂ موجود سب بھول گیا۔ اُس کا دل ہیڈ ماسٹر کی یاد سے لبریز ہو گیا، اور ہونٹوں پر وہی میٹھی سی مسکراہٹ اُبھر آئی، جو اُس نے کئی سال پہلے اُن کی آنکھوں میں دیکھی تھی۔کملا نے اُس مسکراہٹ کو ایک کن اکھی سے دیکھا۔ دوسری ایئرہوسٹس بھی توازن کھو بیٹھی، اور ایک نازدار سی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔ایسی مسکراہٹ، جو انسان کو اُس وقت محسوس ہوتی ہے جب پیٹ میں خلا سا محسوس ہونے لگے—جیسے زمین اچانک کھسک جائے۔کملا اندازہ نہ کر سکی کہ راؤ نے اُسے دیکھا یا نہیں۔
اچانک راؤ بول اٹھا۔
"ہوا زمین جیسی نہیں ہوتی۔ زمین پر ہم پاؤں رکھ کر چلنے کے عادی ہوتے ہیں، لیکن فضا میں پرواز ایک نرالا تجربہ ہے۔ چاہے جتنا بھی تجربہ کار ہو، ہر بار کچھ نیا ہوتا ہے۔عام طور پر ہوا جہاز کو تھامے رکھتی ہے، لیکن بعض اوقات وہ یوں پیچھے ہٹ جاتی ہے جیسے کوئی بالغ بچے کو ہوا میں اچھال کر پھر جھپٹ لیتا ہے۔
ان لمحات میں صرف وہ ہی ہمت رکھ کر نہیں گبھراتے جنہیں فضا پر مکمل اعتماد ہوتا ہے۔
بعض پائلٹ سالوں کی پرواز کے باوجود اُس اعتماد کو پیدا نہیں کر پاتے۔ ہر پرواز اُن کے لیے میدانِ جنگ بن جاتی ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیپٹن رنگٹا ایک ماہر پائلٹ تھا، اور نہایت دلیر بھی۔مگر اُس رات، جیسے اُس کی عقل ماؤف ہو گئی تھی۔وہی طوفانی رات جب کملا اُسے ایئرپورٹ لینے آئی تھی۔ سب کے سب تقریباً مرنے ہی والے تھے۔رنگٹا چیف پائلٹ تھا اور میں اُس کا معاون۔ جہاز کا بایاں انجن بالکل ناکارہ ہو چکا تھا۔ طوفان اور ہوا جہاز کے ساتھ ایسے کھیل رہے تھے جیسے بچہ کھلونا گھما رہا ہو۔ اچانک رنگٹا نے ضد میں آ کر فطرت سے مقابلے کا فیصلہ کر لیا۔ جہاز کاغذ کی کشتی کی مانند لڑکھڑانے لگا۔ میں نے اُسے خبردار کیا، لیکن وہ دھاڑا—"چپ رہو!"
میں تلملا گیا۔اس پرواز میں اسی کے قریب زندگیاں تھیں، اور وہ اُنہیں موت کے منہ میں لے جا رہا تھا۔ ایئرپورٹ ابھی آدھے میل دور تھا۔ جہاز تیزی سے نیچے آ رہا تھا۔ سامنے چھوٹا سا پہاڑی ٹیلہ تھا، جس کی چوٹی پر سرخ بتی جل رہی تھی۔ وہ خوفناک رفتار سے ہمارے قریب آ رہا تھا۔
"اوپر اُٹھاؤ، اوپر!" میں چیخا۔
ایئرہوسٹس اُوشا دہشت میں چیخ رہی تھی۔
اگلے دو منٹوں میں ہمارا جہاز پہاڑ سے ٹکرا جاتا۔
میں نے اپنی بانہوں سے وار کیا—رنگٹا کی گردن پر زوردار چوٹ ماری۔وہ کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔
میں نے اُسے ایک طرف دھکیلا اور کنٹرول سنبھال لیے۔ پورا تھروٹل دیا اور جہاز اوپر اُٹھا لیا۔ہم بال بال بچ گئے۔جہاز آسمان میں توازن پا چکا تھا۔ پھر میں نے دائرہ بنایا اور نرمی سے اُتار لیا۔جب جہاز زمین پر رُکا، تو میں پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔اوشا مجھے تھامے ہیسٹریا کی کیفیت میں چیخ رہی تھی۔ میں اُسے اسپتال لے گیا، اور تب جا کر، دوا دے کر اُسے پُرسکون کیا۔
راؤ نے کہانی ختم کی۔
"فضا میں بعض اوقات زمین کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔اُس روز جب میں نے رنگٹا کو زخمی کیا اور جہاز کا اختیار سنبھالا، تو قاعدے کے خلاف گیا۔
لیکن اگر میں قاعدہ نبھاتا رہتا، تو وہ سب مسافر مارے جاتے۔میری فطرت ہمیشہ فوری ردِعمل والی رہی ہے۔بچپن سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو پریشان کرتا رہا۔مگر جہاز میں، میں بادشاہ ہوتا ہوں۔ وہاں میں کبھی غلطی نہیں کرتا۔
زمین پر، لگتا ہے بس غلطیاں ہی کرتا ہوں۔"
کملا سوچنے لگی—
اُس رات اُس نے اُسے نظرانداز کیا، اور اُوشا کے ساتھ اسپتال کی طرف دوڑ گیا، اور آج وہ خود کو جواز فراہم کر رہا ہے۔
وہ معافی نہیں مانگ رہا، بلکہ جیسے یہ کہہ رہا ہو کہ اُس نے جانیں بچائیں، اس لیے اُسے حق ہے جو چاہے کرے۔راؤ نے اُسے ایک نرم، سمجھ دار مسکراہٹ دی۔
تب اُسے اچانک یاد آیا—ہیڈ ماسٹر نے ایک بار کہا تھا:
"عورت کسی دوسری عورت پر کبھی اعتبار نہیں کرتی، خاص طور پر اگر وہ عورت اُس کے شوہر کے قریب ہو۔ اور ہاں، عورت شوہر پر تو سب سے کم اعتبار کرتی ہے۔"
راؤ نے کہانی کا باقی حصہ بیان کیا۔
اوشا اسپتال کے بستر پر سو گئی۔راؤ ہوٹل واپس آیا۔اپنے کمرے میں بیٹھ کر اُس نے حکام کے نام خط لکھا، کہ اُس نے ضابطہ توڑا، رنگٹا کو مارا اور جہاز کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا۔وہ سزا کے لیے تیار تھا، اور اُس نے رنگٹا سے معذرت بھی کی۔رنگٹا اُسی ہوٹل میں، چار کمروں کے فاصلے پر ٹھہرا ہوا تھا۔راؤ اُس کے دروازے پر گیا۔ کوئی جواب نہ ملا۔گھڑی دیکھی—رات کے دو بجے تھے۔
وہ واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ ایک بھاری، شراب میں ڈوبی آواز آئی—"آ جاؤ۔"
راؤ اندر داخل ہوا۔
"سلام ہو میرے ہیرو کو!"
آواز میں طنز کا شائبہ بھی نہ تھا۔رنگٹا کی آنکھیں خون کی طرح سُرخ تھیں۔راؤ اُس کا ذہنی حال بھانپ نہ سکا۔لگتا تھا نشے میں ہے، مگر ہوش میں بھی۔راؤ نے اسے معافی نامہ دیا۔
رنگٹا نے پڑھا، کچھ دیر لیمپ کو دیکھتا رہا، پھر اچانک خط پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔
پھر وہ اُسے خالی خالی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
آخرکار اُس نے اداسی سے مسکرا کر کہا:
"کچھ پینا پسند کرو گے؟ یا بہت تھک گئے ہو؟"
راؤ کرسی پر بیٹھ گیا۔رنگٹا اٹھا، اور بوتل نکالی۔
"نہیں، تم مہمان ہو۔" رنگٹا نے دو گلاس بھرے۔
"چِیئرز!" رنگٹا نے پہلےخود ہی گلاس خالی کر دیا۔ راؤ الجھن میں خاموش بیٹھا رہا،رنگٹا کی آنکھوں میں چمک تھی۔ وہ بول پڑا:
"راؤ! تم یہ سب یوں آسانی سے کیسے کر گئے؟
تم نے اسی لاکھ کا جہاز بچایا، اس سے کہیں زیادہ قیمتی انسانی جانیں بچائیں—اور اب معافی کا خط بھی لکھا؟ہاں، وہ جو تم نے گردن پر مارا تھا—وہ اب بھی سوجی ہوئی ہے، کل زیادہ درد دے گی شاید! میں پاگل ہو گیا تھا۔
پہاڑ کی چوٹی کی وہ سرخ بتی مجھے نظر ہی نہیں آئی۔ مجھے لگا سب ختم ہو چکے۔
ایگو، ضد، سب آڑے آئے۔ اور تم نے... تم نے سنبھال لیا۔ میری نگاہ میں تم ایک غیر سنجیدہ پلے بوائے تھے، ہنسی مذاق کرنے والا۔ مگر آج میں نے جانا کہ اُس خندہ پیشانی کے پیچھے ایک پکا پیشہ ور چھپا ہے، جو بوقتِ ضرورت شیر بن جاتا ہے۔"
راؤ اس بےتکلف تعریف سے شرمندہ سا ہو گیا۔
اس کی نگاہ اچانک ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے پر پڑی—اُسے وہاں اپنا نہیں، ہیڈ ماسٹر کا چہرہ دکھائی دیا۔وہی آنکھیں، علم سے روشن، وہی تبسم۔تب وہ سمجھ گیا—ہیڈ ماسٹر اب اُس کا حصہ بن چکے ہیں۔وہ اُن جیسا تو کبھی نہیں بن سکتا۔ہیڈ ماسٹر خود مشکل میں نہیں پڑتے تھے، دوسروں کو نکالتے تھے۔اور آج رات بھی، شاید وہی تھے، جس نے اسے سنبھالا۔"راؤ، میں استعفیٰ دے رہا ہوں۔ اب مجھ سے پائلٹنگ نہیں ہو گی۔"
"فضول بات!" راؤ نے کہا۔
"میں نے جنگوں میں لڑاکا جہاز اُڑائے ہیں۔مگر اب دل ٹوٹ چکا ہے۔جب پائلٹ فضا پر اعتماد کھو بیٹھے، وہ پرواز نہیں کر سکتا۔میں انتظامیہ میں تبادلہ مانگوں گا، ورنہ استعفیٰ دے دوں گا۔"
راؤ جانتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔رنگٹا اٹھا اور بستر پر لیٹ گیا۔"مجھے نیند آ رہی ہے، راؤ۔
چاہو تو رُک جاؤ، ایک اور بوتل فریج میں ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ تم آج کی رات میرے ساتھ ہو!" راؤ نے الوداع بھی نہ کہا تھا، کہ رنگٹا نیند کی گود میں جا چکا تھا۔
کملا نے اُسے دیکھا۔ اُس کا بازو نرمی سے اُس کی کمر کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ کملا نے احتیاط سے اِدھر اُدھر دیکھا—دونوں ایئرہوسٹس نظر نہیں آ رہی تھیں۔
جہاز نیچے اُترنے لگا۔
"یہاں سیٹ بیلٹ تو ہے نہیں،" راؤ نے اُس کی کمر مضبوطی سے تھام لی۔
"بیچاری لڑکیاں، میری وجہ سے اپنی فرصتیں کھو رہی ہیں،" کملا نے شوخی سے کہا۔ مگر اُس کے لہجے میں کوئی تلخی نہ تھی۔جب جہاز کے پہیے زمین سے ٹکرائے، تو ایک لمحے کو اُس کا سانس رک سا گیا، مگر راؤ کی باہوں کی گرفت میں اُسے ایک گہرا تحفظ محسوس ہوا—اور ایک خاموش خوشی۔
جب وہ ایلورُو کی طرف جاتے ٹیکسی میں بیٹھے، راؤ نے اپنی ڈائری کھولی اور اُسے دکھائی۔پلاسٹک کے کور کے نیچے ایک تصویر تھی—ایسی جو کملا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
"یہ کون ہے؟"
"ہمارے ہیڈ ماسٹر۔"
کملا اُس تصویر کو دیر تک دیکھتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔
لاش بڑے ہال میں رکھی گئی تھی۔ہیڈ ماسٹر کی بیوی اُن کے قدموں کے پاس بیٹھی تھی۔
جناردن راؤ اور اُس کی بیٹی ناگ منی کچھ فاصلے پر بیٹھے تھے۔ "ہیلو، سبّھا راؤ،" جنا ردن راؤ نے اُسے پہچان لیا۔ناگ منی نے ایک نگاہ اُس پر ڈالی اور چپ چاپ منہ پھیر لیا۔ ہیڈ ماسٹر کی بیوی نے اُس کی طرف دیکھا، لیکن جیسے آنکھوں میں کوئی پہچان باقی نہ تھی۔
"سبّھا راؤ!! ، سوریہ راؤ (ہیڈ ماسٹر کا بیٹا) تین دن تک نہیں آ سکے گا۔ہمیں جسم کے سڑنے سے پہلے آخری رسومات ادا کرنی ہوں گی۔ تمہارا کیا خیال ہے؟" جنا ردن راؤ نے پوچھا۔راؤ آہستہ سے ہیڈ ماسٹر کی بیوی کے پاس آیا۔ "ماں جی، کیا میں آخری رسومات ادا کر سکتا ہوں؟ میں تو آپ کا بیٹا ہی ہوں،" اُس کی آواز گُھٹ گئی۔ اُس نے ایک ویران سی نگاہ اُس پر ڈالی۔ آخرکار اُس نے دھیمی آواز میں کہا، "ٹھیک ہے، بچّے!"
جنا ردن راؤ انتظامات میں مصروف ہو گیا۔
راؤ نے ہیڈ ماسٹر کے بےجان چہرے کی طرف دیکھنے سے انکار کر دیا۔وہ اپنے دل میں صرف وہی چہرہ محفوظ رکھنا چاہتا تھا—زندہ، تابندہ، اور مسکراتا ہوا چہرہ۔جب وہ شہر کی گلیوں سے گزرتا ہوا جنازے کی رسم ادا کر رہا تھا، تو اُسے یوں لگا جیسے وہ گلیاں اُسے خاموشی سے پکار رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
نہر کی یادیں، کنارا، کشتیاں، وہ صبحیں جب میں کشتیوں سے کیلے اور گڑ چُرا لیا کرتا—سب یکایک ذہن میں ہجوم کرنے لگیں۔ اماں نے مجھے کوور کے ہائی اسکول میں داخل کروایا، ہیڈ ماسٹر کے پاس بھیجا۔ وہ اور میرے والد بچپن کے دوست تھے۔ اماں میری شرارتوں سے بہت پریشان تھی۔میں ہیڈ ماسٹر کے گھر کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں تین اور دوستوں کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ عمر ہی کچھ ایسی تھی، جب بغاوت ایک فطری رویّہ تھی۔ ابتدائی دنوں میں میں ہیڈ ماسٹر کی شخصیت کو سمجھ نہ سکا۔ اُن کے بال سفید، مونچھیں جمی ہوئی، سونے کے فریم کی عینک، ایک مکمل علمی شخصیت کا تاثر۔ وہ اکثر رات دیر تک برآمدے میں اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھے، کتابوں میں غرق رہتے۔ ایک دن میں نے باقی لڑکوں کو ساتھ لیا اور سرکس کا رات دیر کا شو دیکھنے لے گیا۔ وہ لڑکے عام طور پر نیک تھے، اپنی مرضی سے کبھی نہ جاتے۔ وہ میری شکایت بھی ہیڈ ماسٹر سے نہ کرتے۔
اگلی صبح جب ہم گوداوری میں نہا رہے تھے، ہیڈ ماسٹر نے پوچھا:
"لڑکو، کل رات سرکس کیسا رہا؟"
جب تک میں کوئی بہانہ گھڑتا، وہ جا چکے تھے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں اُن سے کبھی جھوٹ نہیں بول سکوں گا۔
---
چتا روشن تھی۔ جنا ردن راؤ اور میں نہر کے کنارے بیٹھے تھے۔"میں نے آج تک کسی کو اتنا صاف ذہن اور نیک دل نہیں پایا۔ میں ایلورُو، (اپنی بیٹی) ناگ منی کی تعلیم کے لیے آیا۔ وہ بھی ریٹائر ہو کر یہیں بس گئے۔ اُن کا بیٹا بیرونِ ملک چلا گیا۔ اکثر کہتے، ‘جناب، میرے اور میری بیوی کے لیے کوئی چھوٹا سا گھر دیکھ دیجیے۔ زیادہ کرایہ ہم سے نہیں سنبھلے گا۔’ میں نے ہی انہیں یہ گھر دلوایا۔ ہم روز ملا کرتے۔ دونوں کو ناگ منی بہت پسند تھی۔"
"کیا ناگ منی کی شادی ہو گئی؟" راؤ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
جنا ردن راؤ ہنسے۔ "بالکل! وہ تو تمہاری ہم عمر ہے۔ اُس دن جو ہنگامہ ہوا، اُس میں تم دونوں کو بچانے والا وہی تھا۔ میں تو تمہارے مستقبل کو برباد کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ مگر اُس نے سب کچھ سنبھال لیا۔ اور سچ پوچھو تو یہ میری بیٹی کے لیے بھی اچھا ہی ہوا۔۔۔"
---
جنا ردن راؤ برہمو سماج سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے آبا و اجداد طوائفوں کے طبقے سے تھے۔ وہ پیشے سے وکیل تھے اور اپنی سب بہنوں کی شادیاں کرا چکے تھے۔ ناگ منی اُن کی سب سے بڑی بیٹی اور میری ہم جماعت تھی۔ وہ اپنے والد پر فخر کرتی اور ہمیشہ "میرے ڈیڈی" کہہ کر بات کرتی۔ اُن کا حوالہ اکثر مذہبی متون سے ہوتا۔ شہر کے اونچی ذات کے ہندو اُن کا مذاق اُڑاتے۔ ہمارا تلگو اُستاد اکثر اُن پر طنز کرتا۔ رمناتم اور شامبو اسکول کے بعد لڑکیوں کے پیچھے پیچھے چلتے اور تنگ کرتے۔
"وکیل صاحب کے والد کون ہو سکتے ہیں؟"
"مشکل ہے کہنا۔ انتخاب کے لیے کئی نام ہوں گے!"
"بدقسمتی سے وہ معزز انسان بننا چاہتے ہیں!"
"چوہے کی کھال دھونے سے کیا فائدہ؟ وہ تو ہمیشہ کالا ہی رہے گا!" وہ اس طرح کے گیت گا کر ہمیں چڑاتے۔ناگ منی غصے سے تلملا جاتی اور ہمیں غلیظ سمجھ کر دیکھتی۔
ایک دن اسٹاف روم میں تلگو اُستاد نے کہا:
"مہابھارت کے سارے عظیم کرداروں کی ولدیت مشکوک ہے! جیسے ہمارے شہر کے کچھ 'معزز' افراد کی!"ہیڈ ماسٹر اُسی وقت اندر آئے اور نرمی سے کہنے لگے:
"اب بھئی، کیا واقعی کوئی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ اُس کا باپ کون ہے؟ ہمیں تو اپنی ماں کی بات پر یقین کرنا پڑتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارے باپ کون ہیں، اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم خود کیسے انسان ہیں، ہے نا؟"
---
ایک شام جنا ردن راؤ کو اسکول میں لیکچر کے لیے بلایا گیا۔ ہیڈ ماسٹر نے انہیں دعوت دی۔ ہم سب اُس وقت بہت ناراض ہوئے۔ جب وہ لیکچر کے لیے کھڑے ہوئے، ہم نے شور مچا دیا۔ جنا ردن راؤ کچھ جھنجھلائے، مگر ہیڈ ماسٹر پُر سکون نظر آئے۔ جنا ردن راؤ نے اپنی تقریر مختصر کی اور بیٹھ گئے۔ہیڈ ماسٹر کھڑے ہوئے اور بغیر جذبات کے بولے:
"میں محترم جنا ردن راؤ کا شکر گزار ہوں۔ یہ شکریہ اُن کی تقریر کے لیے نہیں، بلکہ اُن کے صبر کے لیے ہے۔ میں اُن سے معذرت خواہ ہوں کہ میں اپنے شاگردوں کو بنیادی آداب تک نہ سکھا سکا۔"
سامنے بیٹھے اساتذہ بے چین ہو گئے۔ ہم سب ہیڈ ماسٹر کے ہر لفظ میں چھپی اذیت کو سمجھ گئے۔ مگر بچپنے کی ضد میں ہم نے اس دن کی ساری تلخی کا ذمہ دار جنا ردن راؤ کو ٹھہرایا۔ ناگ منی نے ہمیں سخت سست کہا، تو میں اور بپھر گیا۔ جب ایک دن وہ تنہا ملی، تو میں نے اُس کی ذات پر پھبتی کسی۔ وہ سرخ رو پُرملال ہوگئی، مگر کبھی کسی اُستاد سے شکایت نہ کی۔ شاید اُسے اندازہ تھا کہ کوئی اُس کا ساتھ نہ دے گا۔ ایک دن اُس نے تلخی سے کہا:
"ہاتھی بھونکتے کتوں کی پروا نہیں کرتا۔"
---
اُس دن آخری کلاس تاریخ کی تھی۔ استاد ایک متقی، شرمیلے بزرگ تھے۔ ہم اُنہیں تنگ کرنے میں لطف لیتے۔میں نے شامبو سے کہا کہ وہ استاد سے پوچھے: "کرشن دیو کے کتنی داشتائیں ہو سکتی تھیں؟" استاد شرمندہ ہو گئے۔ خدا کا شکر کہ گھنٹی بج گئی، اور وہ فوراً کلاس سے نکل گئے۔
شاید باہر جا کر انہیں یاد آیا کہ آخری کلاس لینے والے اُستاد کو لڑکیوں کے نکلنے تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔میں نے اُنہیں دروازے کے پاس کھڑے نہیں دیکھا۔لڑکے دروازے پر بھیڑ کیے کھڑے تھے۔ لڑکیاں نکلنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ آخر میں ناگمنی کھڑی تھی—اور اُس کے پیچھے میں۔ جب اُس نے حسبِ معمول مجھے طنزیہ مسکراہٹ دی، تو میرے ضبط کا بند ٹوٹ گیا۔ جیسے ہی لڑکیاں نکلنے لگیں، میں نے ناگمنی کی چوٹی پکڑی اور اُسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ وہ خوف سے چیخی اور مجھ پر گر پڑی۔ میں نے اُس کی کمر تھامی اور اُسے سینے سے لگا لیا۔مجھے نہیں معلوم کیوں؟لڑکیاں چیخنے لگیں۔ اُستاد دوڑتے ہوئے کلاس میں آئے:
"بدتمیز لڑکے! یہ کیا کر رہے ہو؟"
میں فوراً بھاگ کھڑا ہوا۔میں اندھیرے میں، بغیر کسی سمت کے، دریا کے کنارے دوڑتا گیا۔ ریل کے پُل پر چڑھ کر راجا منڈری کی طرف دوڑ پڑا۔
میرے پیچھے کوئی ٹرین آتی محسوس ہوئی۔
میں دوڑتا گیا، یہاں تک کہ اگلا اسٹیشن آ گیا۔
سانس پھول چکی تھی، جسم تھک کر گر پڑا۔
رات دس بجے گھر پہنچا۔دیوار کے ساتھ چھپ کر کھڑا ہو گیا۔اندر سے آوازیں آئیں—جنا ردن راؤ اور ہیڈ ماسٹر کی گفتگو:
"ایسے بدمعاش لڑکوں کو سبق سکھانا ضروری ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے اسکول سے نکال دیا جائے۔" "بالکل جناب! میں اعلیٰ دفتر کو شکایت کروں گا۔ ایک سخت رپورٹ لکھوں گا، تاکہ یہ کسی اور اسکول میں بھی داخلہ نہ لے سکے۔ بس تاریخ کے استاد کی رپورٹ آ جائے، پھر دیکھتے ہیں۔"
ہیڈ ماسٹر کی آواز میں سرد فیصلہ تھا۔
میرے پیروں میں جیسے جان نہ رہی تھی۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔جنا ردن راؤ کچھ دیر بعد رخصت ہو گیا۔ہیڈ ماسٹر اُسے دروازے تک چھوڑ کر واپس مڑے تو مجھے دیکھ لیا۔ میں کھڑا ہو گیا—بےبس، ساکت۔ انہوں نے ایک زوردار تھپڑ میرے گال پر مارا۔میں زمین پر گر پڑا، اور اُٹھ نہ سکا۔
وہ جھک کر میرے چہرے پر نظر ڈالنے لگے۔
کہنے لگے: "اندر جا کر سو جا۔"
پھر رُک کر پوچھا: "کچھ کھایا ہے؟"
میں خاموش رہا۔ انہوں نے میرا بازو پکڑا اور اندر لے گئے۔ اور اپنی بیوی کو آواز دی:
"میرا خیال ہے، یہ احمق ابھی تک بھوکا ہے۔ کچھ چاول دے دو اسے۔" مجھے حیرت ہوئی، کیا وہ جانتے ہیں کہ میں نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا، "مجھے بھوک نہیں ہے۔" انہوں نے ڈانٹا: "چپ رہو، کھاؤ!" میں چپ چاپ کھانے لگا۔ میں نے اُن کی طرف دیکھا— وہ مجھے ایسے لگے جیسے وہ خُدا ہوں، جو انسان کے تمام گناہ معاف کر سکتا ہو۔
کھانے کے بعد میں باہر آیا۔وہ اپنی کرسی پر بیٹھے، کتاب پڑھ رہے تھے۔ میں کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن نہ ہمت ہوئی، نہ الفاظ میسر آئے۔
بس اتنا کہا:
"اب جا کر سو جا۔"
میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔میرے ساتھیوں نے بھی مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ بس بستر پر لیٹے اور فوراً سو گئے۔مگر میری آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔دماغ عجیب عجیب خیالات سے بھر گیا۔
"مجھے ناگ منی سے معافی مانگنی ہے۔۔۔ مگر پھر مجھے اسکول سے نکال دیا جائے گا۔۔۔ اور اگر ایسا ہوا، تو میں اُسے شہر کی گلیوں میں سب کے سامنے ذلیل کروں گا۔۔۔ آخر میں نے ایسا کیا کیوں؟ اب کیا ہوگا میرے ساتھ؟ امّاں کیا کہیں گی؟ شاید مجھے خودکشی کر لینی چاہیے۔۔۔"
پوری رات عجیب و غریب خواب میرے پیچھے بھاگتے رہے۔اگلی صبح میں گوداوری نہانے نہیں گیا۔کمرے سے قدم بھی باہر نہ نکالا۔میرے ہم کمرہ دوست مجھ سے ایسے اجتناب کر رہے تھے، جیسے میں کوئی زہریلا جانور ہوں۔ دروازے کی درز سے میں نے جھانکا—ہیڈ ماسٹر اور تاریخ کے اُستاد باہر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔"احمق ہیں یہ لڑکے! سر، اِسے سزا دینی ضروری ہے۔ کلاس میں، اتنے بچوں کے سامنے؟ یہ ناقابلِ معافی حرکت ہے۔۔۔ میں کہتا ہوں، سر، اِسے تو۔۔۔" تاریخ کے اُستاد نے تین صفحات پر مشتمل رپورٹ لکھی تھی،ہیڈ ماسٹر اُسے غور سے پڑھ رہے تھے۔
پہلا صفحہ پڑھا، باقی دو صفحات پلٹ دیے—بس۔آخر میں کہا:
"ٹھیک ہے، جناب۔ میں اس واقعے کی اطلاع اعلیٰ حکام کو دے دوں گا۔ایک ہفتہ گزر گیا۔ہر شام جنا ردن راؤ آتے اور شکایت کی صورتحال کے بارے میں دریافت کرتے۔"بھئی، اسکول کے بچوں کو اگر سزادہی نہ ہو تو تربیت کیسے ہوگی؟ آپ کی شکایت کا اب تک جواب کیوں نہیں آیا؟"
ہیڈ ماسٹر مسکرا کر کہتے:"ریڈ ٹیپ، جناب! آپ سمجھتے ہیں ہمارے ملک میں کوئی دفتر واقعی کام کرتا ہے؟اکثر تو ہماری درخواستیں سیدھی ردی کی ٹوکری میں جاتی ہیں!" "براہِ کرم ایک یاددہانی تو ضرور بھیجیے!"
"ضرور! میں آج ہی بھیجتا ہوں۔
ایک نقل ڈی ای او (ضلع تعلیمی افسر) کو بھی روانہ کروں گا!"ہر صبح تاریخ کے اُستاد بھی ایسے ہی سوال لے کر آتے۔پھر وہی مکالمہ دُہرایا جاتا۔اور میں ہر لمحہ سوچتا رہتا کہ آگے کیا ہوگا۔
ہیڈ ماسٹر یاددہانی خط لکھیں گے۔وہ خط شام کی ڈاک کے ذریعے ایلور روانہ ہوگا۔ڈی ای او اُسے پڑھے گا۔پھر وہ ماں کو بلا کر پورا ماجرا سنائے گا۔ماں کتنا دکھی ہوگی!کاش وہ خط ایلور پہنچنے سے پہلے کھو جائے!کاش اولوور کے قریب کوئی حادثہ ہو جائے!کاش تمام خطوط جل جائیں!یا پھر، کاش وہ خط کسی کلرک کے ہاتھ لگے،جس نے اپنی جوانی میں کوئی ایسی ہی غلطی کی ہو!وہ میری حالت سے ہمدردی کر کے خط ردی میں پھینک دے!میں نے سنا کہ ناگمنی چار دن سے اسکول نہیں آ رہی۔میرے دل میں شدید ندامت جاگ اُٹھی۔
دس دن بعد ایک صبح، تاریخ کا اُستاد بگڑے تیوروں کے ساتھ آ پہنچا۔"یہ کیا سُن رہا ہوں، جناب؟کہا جا رہا ہے کہ آپ نے وہ رپورٹ حکام کو بھیجی ہی نہیں!"ہیڈ ماسٹر لمحہ بھر خاموش رہے۔پھر گویا ہوئے:
"ہمم... دراصل، میں اب اُس رپورٹ کو بھیجنے کے بارے میں دُوبارہ سوچ رہا ہوں۔" "کیا؟ آپ ایسے بےتربیت لڑکے کو بخش دینا چاہتے ہیں؟
آپ اُسے کیسے معاف کر سکتے ہیں؟"
"ارے بھائی! کیا وہ کوئی دشمن فوجی ہے، جس سے اتنی نفرت کی جائے؟وہ ابھی بچہ ہے!"
"مگر جناب، اگر ہم اُسے یوں جانے دیں تو بچوں کی تربیت کیسے ہوگی؟"ہیڈ ماسٹر نے نرمی سے، مگر معنی خیز انداز میں کہا:
"محترم! وہ رِشی، جنہوں نے برسوں کی تپسیا کے بعد بھی بس بھگوان کے چرنوں کا ہی دھیان رکھا،وہ بھی جب کسی اپسرا کو دیکھ لیتے تھے تو اپنی ہوش گنوا بیٹھتے تھے۔تو ایک نوعمر، ناسمجھ لڑکا کیسے بچ سکتا ہے؟سچ کہوں، تو اگر کوئی خوبصورت لڑکی میرے سامنے سے گزر جائے،تو مجھے بھی اُسے دوبارہ دیکھنے کا جی چاہتا ہے!بس، سماج کا خوف، بیوی بچوں کا خیال، اپنی قدریں...یہ سب مل کر مجھے روکتے ہیں۔ورنہ، شاید میں بھی کبھی کسی کو گلے لگا لیتا!لیکن میں جانتا ہوں،کہ اُس لمحے، نقصان مجھے ہوگا،لڑکی سے زیادہ!لیکن وہ لڑکا یہ سب نہیں سمجھتا۔وہ ایک چھوٹی سی غلطی کر بیٹھا ہے۔کون جانے اب وہ دل ہی دل میں کتنا شرمندہ ہے!اگر ہم اُسے چھوڑ دیں،تو شاید وہ ساری عمر ایسی حرکت نہ کرے۔اور اگر ہم اُسے اسکول سے نکال دیں،تو شاید اُس کے پاس اپنی زندگی کو سمیٹنے کا دوسرا موقع کبھی نہ ہو!
میرے خیال میں،اُس کی شرمندگی ہی اُس کی سب سے بڑی سزا ہے۔
اچانک وہ دونوں میرے کمرے میں تھے۔میں فرش پر گرا ہوا تھا،شرمندگی اور جرم کے بوجھ تلے میرا سر اُٹھ نہ سکا۔ دونوں خاموشی سے پلٹ گئے۔اسی شام وکیل صاحب (جناردن راؤ) حسبِ معمول آئے۔کچھ رسمی باتوں کے بعد اُٹھ کر جانے لگے۔ہیڈ ماسٹر نے کہا:
"جناب، مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔میں نے ایک چھوٹے سے معاملے میں اپنی طرف سے فیصلہ کر لیا۔وہ رپورٹ میں نے اعلیٰ حکام کو نہیں بھیجی۔" جناردن راؤ چونک گئے:
"مگر کیوں؟" میرے کانوں میں گویا گرج سنائی دی، اضطراب اور خوف میرے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئے۔ہیڈ ماسٹر ابھی گویا تھے: "اگر آپ مجھ پر شکایت کریں گے، تو مجھے اپنی ملازمت چھوڑنی پڑے گی۔ اصولی طور پر،مجھے وہ رپورٹ بھیجنی چاہیے تھی، اور اُس لڑکے کو سزا دینی چاہیے تھی۔ مگر نہ جانے کیوں دل اس فیصلے پر مطمئن نہیں ہو سکا۔ میں ایک استاد ہوں۔ میرے کسی شاگرد سے اگر لغزش ہو جائے،
تو میری ذمہ داری ہے کہ میں اُسے سیدھا راستہ دکھاؤں، نہ کہ اُس کی زندگی تباہ کر دوں۔ اگر میں اُس کی بدتمیزی کی شکایت بھیج دیتا،
تو وہ یقیناً اسکول سے نکال دیا جاتا،جس کا وہ مستحق بھی ہے۔ مگر پھر وہ مکمل طور پر بے قابو ہو جاتا۔شاید اُسے یہ یقین ہو جاتا کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور بچ نکلے گا۔ ممکن ہے وہ آپ کی بیٹی کو اور بھی ذلیل کرتا! آپ چاہیں تو اُسے گرفتار بھی کرا سکتے ہیں، مگر پھر آپ کی بیٹی کے بارے میں بھی غلط باتیں پھیلنے لگتیں جو میں مناسب نہیں سمجھتا۔ لیکن اگر آپ کہیں
تو میں ابھی بھی وہ رپورٹ بھیج سکتا ہوں۔"
جناردن راؤ نے گہرا سانس لیا، پھر نرمی سے کہا:
"ٹھیک ہے، مگر آپ نے اتنے دنوں تک مجھے بتایا کیوں نہیں؟" ہیڈ ماسٹر نے مسکرا کر جواب دیا:
"آپ غصے میں تھے، سنبھلنے کا وقت دینا بہتر سمجھا۔"اس کے بعد مجھے اُن کی گفتگو کی کچھ خبر نہ رہی۔ میں دیوانہ وار دوڑتا ہوا گھر سے نکلا۔ ایک چھوٹا راستہ اختیار کیا
تاکہ وکیل صاحب کے گھر اُن سے پہلے پہنچ جاؤں۔جب میں وہاں پہنچا سانس پھولی ہوئی تھی ۔دروازہ کھٹکھٹایا۔
ان کی بیوی نے دروازہ کھولا۔
"جی؟ کون ہے؟"
"میں ہوں، سببا راؤ۔"
وہ چونک گئیں، یوں جیسے میں کوئی قاتل ہوں یا شرابی۔ ناگ منی باہر آئی۔
"تم!"
میں نے کہا:
"میں بہت شرمندہ ہوں ناگ منی۔
میں نے بہت غلطی کی۔میں یہ نہیں کہتا کہ تم مجھے معاف کر دو۔ مجھے خود سمجھ نہیں آ رہا
کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔" میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھاتو وکیل صاحب کھڑے تھے۔میں نے اُن سے کہا:"جناب! میں نے آپ اور ہیڈ ماسٹر کی گفتگو سن لی تھی۔میں اپنی حرکت پر دل سے شرمندہ ہوں۔چاہے آپ مجھے اسکول سے نکلوا دیں،
میں ناگ منی کو آئندہ کبھی تنگ نہیں کروں گا۔
جو مناسب سمجھیں، کر لیجیے۔"اُس رات میں گھر واپس نہیں گیا۔ساری رات اسکول کے میدان میں گزار دی۔وہیں بیٹھا رہا،وہیں نیند آ گئی۔
اگلے دن سے میں اسکول جانے لگا،گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔سب نے واقعے کو فراموش کر دیا تھا۔
میں نے اُس سال اسکول کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔یہی میرا طریقہ تھا ہیڈ ماسٹر کا شکریہ ادا کرنے کا—کہ انہیں یہ سکون ملےکہ جس بچے کو وہ تباہی کے کنارے سے واپس لائے،وہ آخرکار سنبھل گیا۔اس کے بعد زندگی کے ہر موڑ پرجب بھی کوئی مشکل پیش آئی،میں سوچتا،ہیڈ ماسٹر ہوتے تو کیا کرتے؟
وہ میرے لاشعور کا حصہ بن چکے تھے،میری دوسری خودی۔جب بھی میں کوئی احمقانہ غلطی کرتا،میری وہ دوسری خودی،جس میں ہیڈ ماسٹر کی روح بسی ہوئی تھی،مجھے نرمی سے معاف کرتی،اور محبت سے درست راہ دکھاتی۔
---
وہ چارپائی پر بیٹھا،یہ ساری کہانی کملا کو سنا چکا تھا۔ناگ منی اندر اپنی ماں کے ساتھ سو رہی تھی۔صبح کی ہلکی روشنی میںں پرندے جاگ چکے تھے، اور دنیا کو جگانے لگے تھے۔ اس نے کملا کو دیکھا،جو سکون سے سو رہی تھی، اپنا سر اُس کی ران پر رکھے ہوئے۔
کملا کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ تھی—ایسی مسکراہٹ جو اُس کے سب عیبوں سے واقف ہے،
اور پھر بھی معاف کر دیتی ہے… بالکل ویسی ہی
جیسے اُس کے ہیڈ ماسٹر کی مسکراہٹ ہو۔
Title in English : Headmaster
Written by: P. Pedmaraju
Comments
Post a Comment