افسانہ نمبر 550 : چھتری، افسانہ نگار: ٹُووِ ڈِٹلیوسن (ڈنمارک)، مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 550 : چھتری
افسانہ نگار: ٹُووِ ڈِٹلیوسن (ڈنمارک)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)


ہیلگا کی توقعات غیر معقول طور پر ——ہمیشہ ——زندگی سے جو کچھ وہ دے سکتی تھی ،اس سے زیادہ رہیں ۔ ان جیسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں ، جو بظاہر دوسرے لوگوں سے جو اپنے معاملات فطری طور پر طے کرتے ہیں اور اپنے ماحول کو دیکھتے ہوے ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاتے ہیں ،سے مختلف نظر نہیں آتے ۔ جو دنیا میں کرنا چاہتے ہیں کر سکتے ہیں ۔لیکن ہیلگا کی استطاعت ان تین عوامل میں بالکل اوسطاً تھی ۔جب اسے شادی کے حوالے سے دیکھا جانے لگا تو وہ چھوٹی بے رنگ نوجوان لڑکی تھی ، تنگ ہونٹ اوپر کو اٹھی ہوئی ناک ،بس ایک ہی اچھا نقش اس کی سوال پوچھتی بڑی بڑی آنکھیں تھیں ۔جنہیں اس میں دلچسپی لینے والا خوابیدہ کہہ سکتا تھا ۔لیکن اگر کوئی ہیلگا سے پوچھتا کہ وہ کیا خواب دیکھتی ہے تو وہ ضرور شرمندہ ہو جاتی ۔
اس نے کبھی کسی قسم کی خاص صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سرکاری سکول میں کارکردگی بس مناسب ہی رہی ۔گھریلو کام میں اس کی کارکردگی اچھی تھی ۔سخت محنت کر لیتی تھی ۔یہ خاصیت اس کے خاندان کے لئے ایسے ہی فطری تھی جیسے سانس لینا ۔زیادہ تر وہ اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھال لیتی تھی ،پیچھے رہ جانے کا تاثر دئے بغیر خاموش رہتی ۔شام کے وقت وہ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ ڈانس ہال جاتی ۔وہ سب سوڈا پیتیں اور ساتھی تلاش کرتیں ۔اگر انہیں دیر تک بغیر کسی پیشکش کے بیٹھنا پڑ جاتا تو وہ کسی بھی شخص چاہے وہ کبڑا ہی کیوں نہ ہو ڈانس کے لئے تیار ہو جاتیں ۔ لیکن ہیلگا غیر حاضر دماغی کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتی رہتی ۔اگر اسے کوئی ایسا شخص نظر آ جاتا جو اسے پرکشش لگتا ،اور وہ ہمیشہ گہرے رنگ کے بالوں اور بھوری آنکھوں والا ہوتا ،تو وہ اسے ٹکٹکی باندھ کر سنجیدگی سے دیکھتی رہتی ، کہ اس شخص کے لئے اسے توجہ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہتا ۔اگر کبھی اس کے منتخب شخص کے علاوہ کوئی اور اس کے پاس آتا ( ایسا بہت کم ہوتا) تو وہ اپنی گود میں دیکھتے ہوۓ تھوڑی شرمندگی سے معزرت کرتے ہوے کہتی ،” میں ڈانس نہیں کرتی “۔ کچھ میز دور بیٹھا بھوری آنکھوں والا شخص یہ غیر معمولی منظر دیکھ رہا ہوتا ۔وقت گزرنے کے ساتھ بہت سی چھوٹی چھوٹی حماقتوں نے اس کے دماغ کو اسی طرح ہلا کر رکھ دیا جیسے نئے پتے اپنی زندگی کا رخ بدلنے سے قبل ہی بہار کی ہوا سے کانپنے لگتے ہیں ۔وہ آدمی اس کے پیچھے اس کے گھر تک آۓ گا ۔اس کے ٹھنڈے بند ہونٹوں کو چومے گا ،جو کسی قسم کی فرمانبرداری میں کھلنے سے انکاری ہوں گے ۔ہیلگا بہت روایتی سی لڑکی تھی ۔ایسا نہیں تھا کہ وہ شادی سے پہلے اپنے آپ کو کسی کے حوالے نہیں کرے گی لیکن اس کے دماغ میں ایک بات تھی ،کہ پہلے اسے انگوٹھی پہنائی جاۓ ،اس کے والدین سے ملاقات کی جاۓ تب وہ موقعہ آۓ گا ۔ وہ جو بہت بے صبرےتھے یا پھر اس رسم کے انتظار میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے ۔وہ زیادہ یا کم مایوس ہو کر پلٹ جاتے ۔بعض اوقات وہ ان لمحات سے تھوڑا دُکھی ہو جاتی ۔لیکن جلد ہی اپنے کاموں کی مصروفیت ،نیند اور نئی شاموں کے ساتھ آنے والے نئے مواقع میں بھول بھال جاتی ۔
تئیس سال کی عمر کو پہنچنے تک سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا ۔تب اس کی ملاقات ایگون سے ہوئی ۔وہ اس کی اس انفرادیت سے محبت کرنے لگا ۔ ایسی ناقابل بیان خوبی جس کا مشاہدہ بہت کم لوگ کرتے اور اس سے بھی کم اسے قیمتی اثاثہ قرار دیتے ۔
ایگون میکینک تھا ۔فٹبال ،اعداد کے کھیل ،پول اور لڑکیوں میں دلچسپی رکھتا تھا ۔لیکن ہر محبت کے گرفتار شخص کا سینہ عالم بالا سے گداز سے بھر دیا جاتا ہے۔کچھ ایسا ہی ہوا کہ یہ عام سا شخص شاعری پڑھنے لگا اور اس طرح اپنی سوچوں کا اظہار کرنے لگا کہ اس کے دوکان کے دوست منہ کھولے حیرانی سے اسے دیکھنے لگے ۔ بعد میں وہ جب اس عرصے کو یاد کرتا تو اسے لگتا کہ وہ کسی شدید بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا ۔ جس نے اس کے اثرات اس کی باقی ماندہ ساری زندگی پر مرتب کر دئے تھے ۔ لیکن جب تک وہ بیماری رہی وہ اس پر نازاں رہا ۔ وہ ہیلگا کی احتیاط سے عفت محفوظ رکھنے پر بہت خوش تھا ۔اور جب انہوں نے انگوٹھیاں پہن لیں اور ایگون اس کے خاندان سے مل چکا تو اس نے اپنے کراۓ کے گھر میں تیار شدہ دیوان پر اپنا حق وصول کر لیا .ہر چیز جس طرح ہونی چاہیے تھی اسی طرح تھی ۔ہیلگا نے اس کے ساتھ کوئی چال نہیں چلی تھی ۔مطمئن ہو کر وہ سو گیا ۔ جب کہ ہیلگا کچھ الجھن کا شکار تھی ۔ وہ تھوڑا روئی ۔کیوں کہ اس کی کچھ غیر معمولی توقعات تھیں ۔لیکن اس کے آنسو بے معنی تھے کہ اس کا راستہ متعین ہو چکا تھا شادی کی تاریخ مقرر ہو چکی تھی ۔سامان اکٹھا کر لیا گیا تھا ۔اس نے نوکری چھوڑنے کا نوٹس دے دیا تھا ۔کیوں کہ ایگون نہیں چاہتا تھا کہ وہ شادی کے بعد دوسرے لوگوں کے گھروں میں فرش صاف کرے ۔اس کی سہیلیاں اس کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں ۔ اس کے والدین مطمئن تھے ۔ایگون ہنرمند کاریگر تھا ۔اس طرح وہ دنیاوی لحاظ سے اس کے والد سے ذرا بہتر تھا ۔جس نے اسے سکھایا تھا کہ کبھی اپنے مقام سے نیچے نہ گرنا اور نہ ہی اونچے خیالی پلاؤ پکانا ۔
اس شام ہیلگا کو با لکل ادراک نہیں تھا کہ کچھ اہم ہونے والا ہے ۔ وہ بہت دیر تک جاگتی رہی ۔حالانکہ کچھ خاص اس کی سوچوں کا محور بھی نہیں تھا ۔جب آدھی نیند میں تھی ،تو عجیب سی خواہش اس کی سوچوں میں در آئی ۔اگر میرے پاس چھتری ہوتی ۔چھتری جو عام لوگوں کے لئے محض ایک ضرورت تھی ۔اس کے لئے ایسی چیز تھی جس کے لئے اس نے ساری زندگی خواب دیکھا تھا ۔جب بچی تھی تو کرسمس کے موقعے پر اپنی عقل کے مطابق معقول اور سستی اشیاء اپنی پسندیدہ چیزوں کی فہرست میں لکھتی ۔جیسے کہ گڑیا ، بغیر انگلیوں والی دستانوں کا جوڑا سکیٹنگ کے جوتے وغیرہ ۔اور جب کرسمس کی شام کو درخت کے نیچے پڑے تحفے دیکھتی تو وہ توقعات کے جوش و خروش میں مبتلا ہو جاتی ،وہ ان ڈبوں کو ایسے دیکھتی جیسے زندگی کے معانی انہی سے ہیں ۔انہیں کھولتے ہوے اس کے ہاتھ کانپ رہے ہوتے اور آخر میں وہ گڑیا ،دستانوں اور جوتوں کی فرمائش پر بیٹھی رو رہی ہوتی ۔
“ تم نا شکر گزار ہو ۔” اس کی ماں پھنکارتی ،” تم ہمیشہ خوشی کے لمحے برباد کر دیتی ہو “ ۔
یہ با لکل درست بات تھی اگلے کرسمس پر پھر یہی منظر دہرایا جاتا ۔ ہیلگا کو کبھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ ان تہواری ڈبوں میں کیا ڈھونڈتی ہے۔ ہو سکتا ہے اس نے فہرست میں چھتری لکھی ہو اور وہ اسے نہ ملی ہو ۔والدین کے نزدیک یہ بالکل مضحکہ خیز بات تھی کہ اسے ایسی معمولی غیر ضروری چیز دی جاۓ۔اس کی ماں کے پاس کبھی بھی چھتری نہیں رہی ۔ہوا کے طوفان اور موسمی بارش جو بھی ہوتا اسے جھیلنا تھا ۔ اس تصور کے بغیر کہ آپ نے اپنے بال اور جلد بچانے ہیں ۔
آخرکار ہیلگا نے اپنے کردار بطور منگیتر پر اپنی توجہ مرکوز کر لی ۔اور ماں کی مدد سے رسمی فرائض نبھانے لگی ۔ لیکن پھر بھی بعض اوقات وہ ایگون کے ساتھ لیٹی جاگ رہی ہوتی ۔یا جس گھر میں وہ کام کرتی رہی تھی وہاں چشم تصور میں ملازمہ کے بستر پر لیٹی چھتری حاصل کرنے کے عجیب و غریب خواب پال رہی ہوتی ۔
اس کے دماغ پر ایک خاص تصویر براجمان ہو گئی تھی ۔ایک خفیہ خواہش نے قبضہ جما لیا تھا ایک ممنوعہ ،غیر زمہ دار ہلکی سی چاشنی جس سے سارا دن اس کے چہرے کے تاثرات پر ایک نازک ،ناقابل گرفت ،غیر محسوس نقاب پڑا رہتا ۔جس پر اس کا منگیتر حسد اور چڑچڑاہٹ سے جیسے کہ اسے بےوفائی کا شک ہو پوچھتا ،" تم کیا سوچ رہی ہو ؟ ۔" ایک دفعہ اس نے جواب دیا ،”میں چھتری کے بارے میں سوچ رہی ہوں ۔” جس پر ایگون نے سنجیدگی سے پوچھا ،” کیا تم پاگل ہو ؟ “ تب تک اس نے شاعری پڑھنی بند کر دی تھی ۔اب وہ اس کی خواب آلود آنکھوں کا بھی ذکر نہ کرتا ۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ مایوس ہو چلا تھا ۔بلکہ اس لئے کہ اب وہ اس کی زندگی کا مستقل حصہ اور روزمرہ کا معمول بن چکی تھی ۔ہیلگا اس کے ساتھ بیٹھی ان گنت فٹ بال میچوں کے دوران سوچتی کہ اس تفریح میں ایسا کیا ہے جس پر لوگ یا تو چینختے ہوے ہرا(Hurrah ) کہتے ہیں یا پھر ایسے خاموش ہوتے ہیں جیسے جنات کی پکڑ میں ہوں ۔
اس کی یادداشت سے جو تصویر ابھری وہ یہ تھی کہ دس سال کی عمر میں وہ بیڈ روم کی کھڑکی میں بیٹھی نیچے احاطے میں دیکھ رہی تھی ۔جو پچھلی جانب کی سیڑھیوں کے بلب سے ہلکا ہلکا روشن تھا ۔ وہ اپنے شب خوابی کے لباس میں تھی ۔اصولاً اسے اس وقت اپنے بستر پر ہونا چاہیے تھا لیکن یہ اس کی عادت بن چکی تھی کہ وہ سونے سے قبل بغیر کسی مخصوص بات پر سوچے باہر رات کو دیکھتی ۔رات کا سکون اس کے دماغ سے دن بھر کے واقعات مٹا ڈالتا ۔ یکدم اس نے احاطے کا گیٹ کھلتے دیکھا . گیٹ کے پاس گول پتھر پر بارش کے قطرے جلترنگ بجا رہے تھے . وہاں ایک خوبصورت خواب ناک چیز ٹہل رہی تھی ۔اس کا لمبا پیلا لباس زمین کو چھو رہا تھا ۔اس کے اونچے ریشمی گھنگھریالے بالوں کے اوپر چھتری لہرا رہی تھی ۔یہ ویسی چھتری نہیں تھی جیسی اس کی نانی استعمال کرتی تھی ۔ اس کی نانی / دادی والی چھتری گول ،کالی اور گنبد نما تھی جس کے ساتھ ایک مضبوط ہینڈل تھا ۔لیکن یہ ہموار ،چمکدار ۔پار باسی ( جس کے آر پار دیکھا جا سکے ) قسم کی چیز تھی ۔جو اپنے اٹھاۓ جانے والے کی شخصیت میں تتلی کے پروں جیسا اضافہ کردے ۔ وہ اس کی بس ایک جھلک ہی دیکھ سکی اور پھر احاطہ پہلے کی طرح ویران ہو گیا ۔لیکن ہیلگا کا دل کسی عجیب و غریب جوش سے دھڑک رہا تھا وہ دوڑ کر نشست گاہ میں پہنچی ،جہاں اس کےوالدین بیٹھے تھے اس نے انہیں بتایا ،”ایک خاتون احاطہ میں سے گزر رہی تھی ۔”پھر اس نے عزت و احترام سے بھرے نرم لہجے میں اضافہ کیا ، “ اس کے ہاس اتنی خوبصورت نفیس چھتری تھی ۔”
وہ وہاں ننگے پاؤں کھڑی آنکھیں جھپکا رہی تھی ۔وہی جانا پہچانا کمرہ اب اسے تنگ اور غربت کا مارا نظر آ رہا تھا ۔اس کی ماں حیران رہ گئی ،” ایک خاتون ؟ “ اس کی ماں نے پوچھا ،تب اس کے منہ کے کونے نیچے کو مڑ گئے ۔جب بھی وہ کسی بات سے ناخوش ہوتی یا الجھی ہوتی تو ایسا ہی ہوتا تھا ۔پھر تیزی سے بولی ،” وہ ہم سے اگلے گھر میں رہتی ہے۔ وہ بد نام عورت ہے ۔” تب ہیلگا کا باپ غصے سے ہیلگا کی طرف مڑا ،” تم اس وقت کیوں کھڑکی میں سے باہر گھور رہی تھی ،جبکہ تمہیں اس وقت بستر میں ہونا چاہیے تھا “ ۔وہ چلایا ،” واپس جاؤ اور سو جاؤ ۔”
وہ سمجھ گئی کہ وہ کوئی ایسی چیز تھی جسے دیکھنا اس کے لئے ممنوع تھا ۔اس کی دنیا میں کچھ ایسا داخل ہو رہا تھا جو پہلے نہیں تھا ۔ اس کے بعد بھی وہ ہر شام کھڑکی کے پاس جاتی ( حالاں کے وہ تابعدار بچی تھی ۔) اس پیلے لباس والی عورت کو ہر قسم کے موسم میں گول پتھر کے پاس ٹہلتے ہوے دیکھنے کے لئے ۔ چھتری ہمیشہ اس کے ہاس ہوتی ،یہ الگ بات ہے کہ وہ موسم کے حوالے سے ہی دکھائی دیتی ،کہ بارش ہو رہی ہے کہ نہیں ۔اس نظارے کا اس خوابیدہ چہرے کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تھا ،جو ہمسایوں کے دروازے پر نمودار ہوتا جب ہیلگا ہمسایوں سے ماں کے لئے تھوڑی سی مارجرین یا آٹا مانگنے کے لئے ان کا دروازہ کھٹکھٹاتی ۔ماں کے پاس سالن بنانے کے لئے ہمیشہ سب سے اہم مصالحہ نہ ہوتا ۔اور ایک دن جب یہ ہمساۓوہاں سے چلے گئے تو بھی کوئی قابل زکر فرق نہیں پڑا تب بھی یہ بچی بہت عرصے تک کھڑکی میں کھڑی ہو کے اس پیلے لباس والی اور اسکی خوبصورت پا ر باسی چھتری کا انتظار کرتی رہتی ۔
ہیلگا اور ایگون دو بیڈ روم والے گھر جو اس کے والدین جیسا تھا اور ان کے قریب ہی تھا منتقل ہو گئے ۔لیکن یہ گلی کی سطح پر تھا ۔اس طرح ہیلگا کی پرانی خواہش پوری ہو گئی کہ اب وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے باہر ٹریفک دیکھ سکتی تھی ۔اب اس کے پاس وہ تھا جو پہلے کبھی نہیں تھا ،”وقت” چونکہ بیکاری تمام برائیوں کی جڑ ہے اس وجہ سے اس کا ضمیر اسے مجرم گردانتا ۔ خاوند کے حوالے سے نہیں جو اسے سب کچھ مہیا کرتا بلکہ عمومی طور پر وہ خلوت پسند اور نرم خو بن گئی ۔اس کی جو تھوڑی بہت زمہ داریاں تھیں وہ ان میں مبالغہ آمیزی سے کام لینے لگی ۔اس کے لئے اپنا والدین کے گھر اور ان کا اپنے گھر آنا جانا ضروری قرار دینے لگی ۔اس کا سسرال گاؤں میں رہتا تھا ،وہ انہیں اکثر خط لکھتی ۔اگرچہ ان سے اس کی ملاقات بس شادی پر ہی ہوئی تھی ۔ان خطوط میں وہ اپنی دن بھر کی گھریلو مصروفیات لکھتی ۔ہمیشہ اس کا خط ایک جیسے فقروں پر ختم ہوتا ۔” ہم دونوں خیریت سے ہیں ،آپ کی صحت مندی کی امید رکھتے ہیں ۔آپ کی تابعدار بہو ،ہیلگا ۔
روزانہ صبح وہ اور اس کی والدہ خریداری کے لئے جاتیں ۔دونوں نے سر پر سکارف لیا ہوتا ۔اور ہاتھ میں ایک مضبوط تھیلا ہوتا ۔اس کی ماں قصاب سے بہترین گوشت خریدتی اور ہیلگا کو سمجھاتی ، کہ جو مرد سخت محنت کرتے ہیں انہیں طاقت ور بننے کے لئے اچھے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہیلگا اپنے خاوند کو ہر روز چھ بجے شام اچھا کھانا پیش کرتی ۔لیکن صبح اس کے گھر سے نکلنے سے لے کر شام چھ بجے تک وہ کم ہی اس کے بارے میں سوچتی ۔جب۔ خریداری اور صفائی سے فارغ ہو جاتی تو وہ کھڑکی میں کپڑوں کی مرمتی وغیرہ کا کام لے کر بیٹھ جاتی ،وہ بھی اس لیے کہ وہ بے کار بیٹھی دکھائی نہیں دینا چاہتی تھی ۔اسے لگتا سڑک پر ہر شخص بہت مصروف ہے ۔پردوں کے پیچھے اپنے خفیہ مقام سے وہ لوگوں کا دلچسپی اور سنجیدگی سے مشاہدہ کرتی ۔جس طرح وہ ایگون سے قبل تمام بھوری آنکھوں والے مردوں کو دیکھتی تھی وہ اب بھی مبہم سے تجسس میں مبتلا ہو جاتی کہ وہ کہاں جا رہے ہیں ؟ وہ اتنے مصروف کیوں ہیں ؟ اسے یہ احساس نہیں تھا کہ وہ تنہا ہے ۔وہ اکثر اپنی والدہ کے بارے میں سوچتی کیوں کہ اس کی نظر میں اس کی ماں ایک ایسا شخص تھی جو دوسروں کی طرح کبھی بدل نہیں سکتا ۔والدہ کی موجودگی اس کی تسکین کا باعث بنتی ۔اسے اپنا بچپن یاد کرنا اچھا لگتا ۔وہ اپنی ماں سے ماضی کے واقعات سننا پسند کرتی ۔اس کی ماں اچھی گفتگو کرتی تھی ۔ اس کے منہ سے نکلتے فقرے دور کے دھندلے مناظر کے گرد مضبوط فریم بناتے جاتے ۔وہ اکثر ہیلگا سے کہتی تمہاری زندگی اچھی جا رہی ہے ،تمہیں اس کی تعریف کرنی چاہیے لیکن تم ہمیشہ سے ناشکرگزار رہی ہو ۔
“ناشکرگزار؟ وہ کیسے ۔ “ ہیلگا پوچھتی ۔تب ہر دفعہ وہی کہانی دہرائی جاتی کہ کیسے ہر دفعہ تحائف وصول کرنے کے بعد وہ روتی تھی ۔جس کی وجہ سے ہم تمہارے لئے کچھ بھی خریدتے وقت ڈرتے تھے ۔اور وہ مدھم روشنی میں بیٹھے اس نا شکر گزار بچی جو کھلونے وصول کر کے روتی تھی جبکہ یہی تحفے دوسرے بچے لیکر بہت خوش ہوتے ،کے بارے میں سوچتے ہوے سر ہلاتے ۔
ہیلگا کو عام طور پر ہر اس چیز کے بارے میں جو اس کی یادداشت میں نہیں تھی سننا پسند تھا ۔مثلا” ،اس نے سب سے پہلا لفظ کون سا بولا تھا ؟ ۔کب اس کی بیت آل خلاء جانے کی تربیت ہوئی ۔وغیرہ ۔اسکی ماں جب اس کا سامان باندھ رہی تھی تو ان کہانیوں کو اس فقرے پر ختم کرتی ۔” اب ہم یہ دوبارہ نہیں دیکھیں گے ۔” ان فقروں میں کوئی شکایتی پہلو نہیں تھا ،لیکن یہ اس نقاب کو چیر دیتا جو ہیلگا کے باطنی وجود کو ڈھانپے ہوۓ تھا ۔جیسے پیدائش سے قبل ایک جھلی نے بچے کو لپیٹ رکھا ہوتا ہے ۔
جب اس کی ماں اپنے گھر کے لئے روانہ ہو جاتی ( ایگون کے گھر آنے کے وقت سے زرا پہلے ) ،تو ہیلگا اس اہم ہستی کو اس وقت تک دیکھتی رہتی جب تک وہ نظر آتی رہتی ۔ پھر وہ کھڑکی میں روشنی کئے بغیر بیٹھ جاتی ۔اس کے اندر اور اردگرد اداسی پھیل جاتی۔اور وہ سوچتی کہ اگر ایگون جلدی گھر آ جاۓ تو—- لیکن جب وہ گھر آ جاتا اور اس کا گھر اس کی آواز سے بھر جاتا ،تو ہر سحر ٹوٹ جاتا ۔کہیں ایسا تھا ؟ کہ وہ اس کی خواہش مند نہیں تھی ؟؟۔ وہ خاموشی سے ادھر ادھر چلتی ۔اپنی گھریلو زمہ داریاں نبھاتی ،خاوند کے ہر سوال کا جواب ہاں یا نہ میں دیتی ۔ایک دفعہ اس نے ہیلگا کو قریب سے دیکھا اور کہا، “ اب تمہارا بچہ ہونا چاہیے ۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں نہیں ہو رہا ؟ ۔” تب وہ شرمندہ سی شرمائی ایک تو اپنی اس کمزوری پر اور دوسری اس بات پر کہ اسے خود بچہ نہ ہونے کی کوئی خاص پرواہ بھی نہیں تھی ۔اس کی اپنی ماں کے ساتھ قربت نے “ ہیلگا بچہ “ کو اپنے اندر زندہ رکھا ہوا تھا ۔ایسا لگتا تھا کہ کسی دوسرے بچے کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔ بعض اوقات وہ ایگون سے جھوٹ بول دیتی جب وہ اس سے ماں کے بارے میں پوچھتا کیوں کہ بعض وجوھات کی بنا پر اسے اس کی ماں کا اپنی عدم موجودگی میں اپنے گھر اتنی کثرت سے آنا پسند نہیں تھا ۔اس طرح دن گزرتے رہے کہ کسی دن کو الگ پہچان دینا ممکن نہیں تھا ۔
ایک شام ہیلگا ایک گھنٹہ کھانا تیار کرکے ایگون کا انتظار کرتی رہی لیکن جب وہ آیا تو نشے میں دھت تھا ۔اس نے آتے ہی اپنے آپ کو دیوان پر گرا دیا ،جہاں سے وہ اس کی حرکات چوری چوری ناراضگی سے دیکھتا رہا ۔” تمہیں کیا ہوا ہے ؟ “ اس نے یکدم ہیلگا سے پوچھا ،” تمہارا چہرہ کیوں اتنا اترا ہوا ہے ؟ “ وہ فوراً پریشان ہو گئی ۔ہلکا سا میک آپ کیا ،لیکن اس کے بعد وہ اس کے اس لہجے کی عادی ہوتی چلی گئی ۔اس کے لئے کھانا بھی ایسا بنانا شروع کر دیا جو جلدی سے دوبارہ گرم ہو سکتا تھا ۔کیوں کہ اب اس کا گھر آنے کا کوئی مخصوص وقت نہیں تھا ۔اس نے ماں کو بتایا ،ایگون شراب نوشی کرنے لگا ہے ۔اس کی ماں ہیلگا کی نسبت اس خبر سے زیادہ پریشان ہوئی اور کہا ،” جب مرد شراب نوشی کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے مطمئن نہیں ۔” اس کے خیال میں ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے ۔اس لئے اس نے بیٹی کو نصیحت کی کہ ایگون سے بات کرے ۔اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے ۔لیکن ہیلگا نے کبھی بھی دوسروں کی جگہ رہ کر سوچنے کی کوشش نہیں کی تھی یہ اس کے لئے کبھی بھی ضروری نہیں رہا تھا ۔اس کی ساری شخصیت یادوں کا مجموعہ تھی ۔جس میں کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی ۔ان یادداشت میں بہت سی براؤن آنکھوں کی جوڑیاں تھیں ،ہلکا اداس مزاج تھا ۔زبردست ،غیر واضح توقعات تھیں ۔ پیلا لباس اور ایک چھتری ،آنسو اور مایوسیوں اور بہت ساری ایسی ہی چیزیں ۔ ان سب کے درمیان چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور ایک مرد جس نے اس کے تنگ پیلے ہونٹ کھولے اور کچھ لمحوں کے لئے کسی ان جانی اور شاندار حیرت انگیز چیز کا احساس کروایا ۔ ایک آواز تھی جس نے اس سے میٹھے اور عجیب و غریب الفاظ کہے اور سب سے بڑھ کر اس کے بچپن اور خوابوں کی نفیس ریشمی چھتری ۔
ان سب کا تعلق اس مرد سے نہیں تھا جس نے شراب نوشی شروع کر دی تھی ۔وہ سوچتی اس نے اپنا آپ اس حد تک اسے دے چکی ہے جتنا مناسب حد تک متوقع تھا ۔ اور اس کے خاوند کے حوالے سے تھوڑی سی کوتاہی کے احساسات اس لئے تھے کہ وہ حاملہ نہیں ہو رہی تھی ۔جیسے کہ نئی شادی شدہ لڑکی کو ہونا چاہیے ۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی اور کو کسی چیز کا الزام دے رہی تھی ،ایسا وہ کبھی نہیں کرتی تھی ۔کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ خود بھی اچھی خاصی غیر معقول ہے ۔ اس نے اپنی زندگی کی خواہشوں کی فہرست میں قابل حصول چیزیں ہی لکھ رکھی تھیں ۔جیسے کہ خواب دیکھنے کا وقت ،بھوری آنکھوں والا خاوند ۔اور ایک بچہ ۔آخری خواہش روایتی تھی اس کا ظاہری رویہ ٹھوس چیزوں کا مرہون منت تھا ۔اس نے خود ہی سوچ لیا کہ کوئی ٹھوس چیز ہی ایگون کی شراب نوشی اور اس کے ساتھ ترش رویے کی وجہ ہے ۔اس نے ماں کے ساتھ چاۓپینے کے دوران وعدہ کر لیا کہ وہ خاوند کے ساتھ اس موضوع پر بات کرے گی ۔لیکن وہ اپنے طور پر فیصلہ کر چکی تھی کہ بچہ نہ ہونا ہی خاوند کی پریشانی کا باعث ہے ۔
اس شام ایگون آدھی رات کو گھر آیا ۔اپنا گندہ بالا پوش نشست گاہ کے درمیان میں پھینک دیا اور ہیلگا جو اس کا کھانا گرم کر رہی تھی کو آواز دی ۔”میں بیزار ہو چکا ہوں “ ۔اس نے کسی ملاح کی طرح اپنی ٹانگوں پر جھولتے ہوے کہا ۔وہ باورچی خانے کے دروازے سے نمودار ہوئی ،اسے اپنی غمزدہ پریشان آنکھوں سے بغور دیکھا اور پوچھا ،” کس چیز سے بیزار ہو ؟ ۔”
“ ہر چیز سے “ اس نے جواب دیا ۔اس کے سانسوں سے الکوحل کی بو اس کے چہرے تک پہنچ رہی تھی وہ مزید بولا ۔” تمہارے خیال میں کیا میں احمق ہوں ؟ ۔” ہیلگا اسے کوئی جواب دیے بغیر اس سے ایک قدم پیچھے ہٹی اس کا دماغ سست تھا ۔کبھی بھی کسی اچانک صورتحال کو مکمل سمجھنے کے قابل نہیں تھا ۔اس کا دماغ صرف یادوں کے لئے تیز کام کرتا تھا ۔
“ کھانا جل رہا ہے ۔” اس نے ہچکچاتے ہوے کہا ۔وہ بلاوجہ سنگدلی سے ہنسا ،”مجھے کھانا نہیں چاہیے ۔وہ گرج دار آواز میں بولا ۔” میں کھا چکا ہوں ۔”
" کہاں سے کھایا ؟" اس نے اپنا ایپرن کھولتے ہوے نرمی سے پوچھا ،اس کے ہاتھ تھوڑا سا کانپے ۔ وہ دیکھ چکا تھا کہ ہیلگا کو دکھ پہنچا اور وہ ڈر گئی ہے ۔وہ دوبارہ زور سے ہنسا ۔
" اگر تمہیں ضرور جاننا ہے تو سنو ، ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ ۔ " وہ فاتحانہ انداز میں چلایا ۔اس کے منہ کے پاس زور سے ڈکار لیا اور سونے چلا گیا ۔
ہیلگا اس کے پیچھے آئی ،اسے مکمل لباس میں لیٹے دیکھا ،اپنے آپ سے سرگوشی کی ،" میں یہ ضرور ماں کو بتاؤں گی ۔" لیکن وہ تب تک سو چکا تھا ۔
حقیقتاً وہ اس خیال پر کہ اس نے اسے دھوکہ دیا ،اتنی تکلیف محسوس نہیں کر رہی تھی۔خاوند کو شراب نوشی نہیں کرنی چاہیے ،لیکن اگر وہ دھوکہ دیتا ہے تو یہ بہت برا ہے ۔اپنی معمول کی تصوراتی دنیا میں کھونے کی بجاۓ اس نے ایگون کو دوسری عورت کے ساتھ تصور کیا ۔ لیکن اس سے اسے کوئی خاص فرق نہ پڑا ۔ وہ محض اس کی خارجی زندگی کے لئے خطرہ بن رہا تھا ،اس کی داخلی زندگی پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا ۔اس کا جسم وہی تھا پہلے والا بس ایک چھوٹا سا فرق ،اب دوسرے مردوں کے لئے اس کی اہمیت کم ہو گئی تھی ۔جب سے اس کی شادی ہوئی تھی اس نے کبھی دوسرے مردوں کی طرف دھیان نہیں دیا تھا ۔اب کپڑے اتارتے ہوے وہ یہی سوچ رہی تھی ،کیوں کہ اسے علم تھا کہ اس کی ماں ضرور سوچے گی ۔اس کی ماں عقلی دلائل دے گی ،کہ اگر اس کا خاوند اپنی زمہ داریاں نظر انداز کرتا ہے تب اسے اپنے روزمرہ کی ضروریات کے لئے دوسرے بھوری آنکھوں والے مردوں کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا ۔ یہ خیال کہ مرد بھوری آنکھوں والا ہی ہونا چاہیے اس کی ماں کا تھا ۔ماں کا ایک تبصرہ کہ ،” سیاہ مرد اچھے ہوتے ہیں ،” اس کے دماغ میں پھنس گیا تھا ۔
ایگون گہری نیند سو رہا تھا ۔ ہیلگا لیٹی اسے دیکھ رہی تھی رات کا آخری پہر ہونے کے باوجود وہ سوئی نہیں تھی ۔ اس کی ٹھوڑی پرسکون تھی ۔داڑھی بھی تھی اور وہ خراٹے لے رہا تھا ۔ایسا کسی اجنبی کے بارے میں تو سوچا جا سکتا تھا لیکن خاوند کے بارے میں نہیں ۔ہو سکتا ہے کچھ عرصے سے وہ اس کے لئے اجنبی ہی بن گیاہو ۔اس وقت سے جب وہ اس کے پاس بہت بڑی توقعات کے ساتھ گئی تھی اورگہری نا امیدی کے ساتھ واپس آئی تھی ۔اپنے مخصوص پر سکون طریقے سے بغیر تسلیم کئے کہ یہ کوئی بڑی آفت تھی ۔ بہر حال ایک شخص دوسرے کے لئے کیا معنی رکھتا ہے ماسواۓ اس کے جب وہ دوسرے کو کچھ کرنے پر مجبور نہ کرے ۔
ہیلگا کا رد عمل عجیب تھا ۔بعض اوقات وہ گھریلو اخراجات میں سے کچھ رقم پس انداز کرتی رہی تھی ۔اس وقت اس کے دماغ میں اس رقم کا کوئی خاص مقصد نہیں تھا ۔اور اسے ایک چھوٹے سے ڈبے میں چھپاتی رہی تھی ۔جو اس کی ضروریات کے لئے دیا گیا تھا ۔کرسمس تحائف یا کوئی ایسی چیز رکھنے کے لئے جنہیں خریدنے کی وہ استعطاعت رکھے گی ۔ لیکن اب اسے سمجھ آ گئی تھی کہ اس نے یہ رقم کیوں پس انداز کی ۔وہ تاریکی میں اچانک مسکرائی ۔اور خاموشی سے بستر سے نکلی اور اس دراز تک گئی جس میں وہ ڈبہ رکھا تھا ۔ چاند نے کمرے کو طلوع فجر کے وقت کی طرح روشن کر رکھا تھا ۔چور کی سی مہارت سے رقم گنی ۔وہ تقریباً” چالیس کرو نر تھے ۔( ڈنمارک کی کرنسی ) اس نے انہیں ہتھیلی ہر رکھا ،مسکرائی ۔جیسے کوئی بچہ خواب میں مسکراتا ہے ۔اس نے خواہش کی کہ صبح جلدی سے ہو جاۓ ۔اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔بلکل اس طرح جس طرح کسی عورت کا دل اپنے عاشق کے پاس جاتے ہوے دھڑکتا ہے ۔اس نے سڑک پر بارش کا تصور کیا اور اپنے آپ کو اس ریشمی چھتری کے نیچے گھومتے پھرتے دیکھا ۔مبہم روشن خیالات ،گل قاصد کے گچھوں کی طرح اس کے دماغ میں پھیل گئے ۔وہ گھر جہاں وہ کام کرتی تھی ،وہاں کی مالکن ڈنر ڈریس میں ———"او ۔۔۔ہیلگا میری چھتری لاؤ ۔"اس نے بہت دفعہ سوچے بنا چھتریاں ہاتھوں میں پکڑی تھیں۔ اس کی خارجی دنیا اب تک اس کے لئے بے معنی تھی ۔ لیکن اب اس نے اس دنیا کے حوالے سے عمل کرنے کا سوچا ۔
وہ دوبارہ بستر پر چلی گئی ۔اس کا خاوند نیند میں کچھ بڑبڑاتا ہوا اس کے نزدیک ہوا ،جو اسے سمجھ نہیں آئی ۔اس نے احتیاط سے اس کا ہاتھ کمبل کے اندر کیا ۔ایک عجیب گدا ز اس کے جسم میں بھر گیا اور اس نے ایک سیکنڈ کے لئے ایگون کے لئے ایسی گرم جوشی محسوس کی جو وہ اپنی ماں کے علاوہ کسی کے لئے محسوس نہیں کر سکتی تھی ۔آج کل ایگون زیادہ تر طلاق کی بات کرتا رہتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ وہ کسی جھاڑو کے دستے (ہینڈل ) کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا ۔ لیکن اس کے یہ الفاظ اس کے اوپر سے اس طرح گزر جاتے جیسے وہ کوئی چھلنی ہو ۔اس کے والدین لڑتے وقت ہمیشہ چلاتے تھے ۔یہ سب بے معنی تھا ۔وہ اس کی عادی تھی ۔اس کے لئے اہم یہ تھا کہ ہمساۓ نہ سنیں ۔وہ بحث کرنے والی لڑکی نہیں تھی ۔وہ بہت مختلف طریقے سے اپنا دفاع کرتی تھی ۔اسنے یہ محسوس کر لیا تھا کہ وہ دوسرے لوگوں جیسی نہیں تھی ۔اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ ایگون پھر کب ایسا کرے گا ۔ہو سکتا تھا کہ ایگون نے اسے کبھی دھوکہ نہ دیا ہو ۔لیکن اب یہ اہم نہیں رہا تھا ۔
اگلی صبح دونوں نے ایسے ظاہر کیا ،جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔ان کی زندگی بس ایسی ہی تھی ۔اس نے خاوند کے لئے لنچ تیار کیا ،اس کے لئے کافی بنائی اور جب وہ روانہ ہوا تو اس کے گال پر معمول کی طرح بوسہ دیا ۔اس کے بعد وہ ہلکی پھلکی سوچوں کے ساتھ خریداری کے لئے چلی گئی ۔وہاں ایسا کوئی نہیں تھا جو اسے بتاتا کہ اس صبح وہ خوبصورت نظر آ رہی تھی ۔ایسے ہی جیسے عام لوگ کبھی کبھار جب وہ خوش ہوتے ہیں تو نظر آتے ہیں ۔اس کے لئے نومبر کا یہ دن ہلکے نازک صبح کے ستارے کی طرح روشن تھا ،اور اسی کی طرح ڈوبنے سے پہلے نرمی اور لگن سے کانپ رہی تھی ۔وہ وہی شخص نہیں تھی جو ایک دن پہلےتھی ۔وہ ایک عورت تھی جو دکانوں میں اپنی پسند کی چھتری ڈھونڈ رہی تھی ۔اسے کافی وقت لگا ۔چھتری گھر لاتے ہوے وہ کچھ شرمندہ ہو رہی تھی ۔اس مرد کی طرح جو پھولوں کا گلدستہ پکڑنے کا عادی نہ ہو ۔
احاطے کے اندر پہنچ کر اس نے چھتری کھولی ۔اور سارے احاطے میں اسے لئے پھرتی رہی ۔ وہ حقیقتاً خوش تھی ۔وہ اسی بچپن والی پیلے لباس والی عورت کی طرح چلنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ وہ گندے برتنوں کے ڈھیر کے پاس سے گزر گئی ۔بڑے خوب روشن کمروں کے پاس سے گزری جن کے کونوں میں پام کے درخت تھے اور دیواروں پر پینٹنگز تھیں ۔وہ روشن رقص گاہ میں داخل ہوئی ،اپنا پہلا رقص یاد کیا ۔اپنے نادیدہ لباس کو کناروں سے اٹھایا اور کچھ قدم ڈانس کے اٹھاۓ ۔چھتری کی شا فٹ (پکڑنے والی ڈنڈی ) ٹھنڈی ،پتلی اور مضبوط تھی ۔وہ قابل تعریف ،قابل یقین اور قابل اعتراف تھی ۔
اب وہ سہیلیوں کو بتا سکتی تھی ،” میں نے چھتری خریدی ہے “ ۔ اس نے اسے بند کرتے ہوے اس کے طریقہ کار کا بغور مطالعہ کیا ۔اس کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت ریشمی بٹن اور پائیدار شفاف کپڑا جس پر کسی دن بارش اپنے بھولے بسرے اور کھوۓ ہوے وقتوں کا راگ الا پے گی ۔اس کے دن کا زیادہ حصہ اسی خوشی میں گزرا ۔اس دن اس نے ماں کے بارے میں بھی نہیں سوچا ۔گھر کی صفائی بھی نہیں کی ،فرنیچر کی جھاڑ پونچھ بھی نہیں کی ۔ایگون کے بارے میں بھی نہیں سوچا ۔
جب ایگون خلاف توقع کام سے سیدھا گھر پہنچا ،تو وہ اپنی سلائی والی ٹوکری کے ساتھ جو خالی تھی اپنی مخصوص جگہ بیٹھی تھی ۔اسے دیکھ کر مسکرائی اور کھڑی ہو گئی ۔اور بے اختیار بولی ۔
“میں نے ڈنر تیار نہیں کیا ،” ساتھ ہی اشتعال انگیز لہجے میں جو اس کی عادت نہیں تھی ،اضافہ کیا ،” میں نے سوچا ،تم باہر ہی کھانا کھاؤ گے ۔”
ایگون نے کوئی جواب نہیں دیا ،جس سے اس نے اندازہ لگایا کے وہ نشے میں نہیں ہے ۔وہ اس سے نظریں ملانے سے گریز کر رہا تھا ۔آخر کیوں ؟ وہ اسے چھتری کے بارے میں بتانا چاہ رہی تھی ۔اور اپنے رقم پس انداز کرنے والے معمولی دھوکے کے بارے میں ۔وہ کسی کو اپنی خوشی میں شریک کرنا چاہتی تھی ۔لیکن وہ خوفناک حد تک رسمی دکھائی دے رہا تھا ۔وہ میز کے سامنے بیٹھ گیا اور کنکھارا ۔” “مجھے کل کے بارے میں افسوس ہے ۔” اس نے شرمندگی سے کہا ، “ وہ سچ نہیں تھا ،میں صرف نشے میں تھا “
“ اوہو ،” اس نے سادہ سا جواب دیا ۔ اس نے آج سارا دن کل کے بارے میں ایک دفعہ بھی نہیں سوچا تھا ۔اس وقت بھی اس کے لئے چھتری کے علاوہ کسی بھی چیز کے بارے میں سوچنا ناممکن تھا ۔لیکن صورتحال کا تقاضا تھا کہ وہ ضرور کچھ کہے ۔وہ گھبراہٹ محسوس کرنے لگی اور اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی ۔
“ سب ٹھیک ہے میں سب کچھ بھول گئی ہوں “
ہیلگا نے یہ کہتے وقت ایگون کے چہرے پر لہراتے ساۓ کو نہیں دیکھا ۔نہ ہی اس نے اس طرف کوئی توجہ دی کہ کیسے ایگون کا سارا جسم تناؤ کا شکار ہو گیا تھا ۔
وہ ایسا شخص تھی کہ جسے جب بلایا جاتا تو نہ آتی ۔وہ ایسی ہی تھی ،جب اسے خود ضرورت ہوتی تو باریک سی آواز میں بلاتی جو آسانی سے طوفان میں دب جاتی ۔ویسے بھی ایسا شازو نادر ہی ہوتا ہے کہ دو لوگ ایک ہی وقت میں آواز دیں تو دونوں کو جواب مل جاۓ ۔ وہ اپنے اندر مطمئن تھی ۔بلکہ اس کے پاس شئیر کرنے کے لئے کچھ فالتو ہی ہوتا ۔اس کے خاوند نے ایک بڑے اناڑی جانور کی طرح کافی دیر اس کا تعاقب کیا جب کہ وہ ایک چست اور خوفزدہ غزال کی طرح اس سے بھاگ کر جنگل میں پوشیدہ میدان میں چھپ جاتی تھی ۔
وہ سیدھی ہو کر اس کے سامنے بیٹھ گئی ۔وہ اسے بہت عرصہ پہلے کی طرح راز چھپانے والی اور دوسروں کو لبھانے والی لگ رہی تھی۔اس نےحسد سے اور ڈرتے ہوے پوچھا ،” تم کیا سوچ رہی ہو ؟” اور بلکل پہلے ہی کی طرح ہیلگا نے اپنی خواب ناک آنکھیں گھماتے ہوے جواب دیا ،”چھتری “ اور پھر اچانک جوشیلی آواز میں کہا ، " میں نے چھتری خریدی ہے ،ایگون ! کیا تم دیکھو گے ۔" یہ کہتے ہوے وہ جذباتی انداز میں پھولے ہوے سانس کے ساتھ دروازے کی طرف بھاگی ۔
ایگون نے یکدم غصے میں آتے ہوے اس کا پیچھا کیا ۔اس کے ہاتھ سے وہ نرم و نازک چھتری چھینی ،اپنے مضبوط گھٹنے پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دئے ۔
"یہ رہی تمہاری چھتری ،" وہ اس پر چلایا۔
وہ شدید صدمے سے ان ٹکڑوں ،ان خوبصورت ٹہنیوں اور ریشمی کپڑے کو ایک سیکنڈ کے لئے گھورتی کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔
پھر وہ اس کے پاس سے خاموشی سے گزر کر نشست گاہ میں آ گئی ۔ پہلے کی طرح سنبھلی ہوئ ، بردبار اور فیصلہ کن انداز میں واپس ،پہلے کی طرح کھڑکی میں بیٹھ گئی ۔یہ سوچتے ہوے کہ یہی اس کی جگہ ہے ۔اور یہ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا ہونا چاہیے تھا ۔اس کی یادداشت میں سارے رنگ گڈ مڈ ہو کر آپس میں مل گئے تھے ، ایک نئی ترتیب کی ابتدا ء کے لئے ۔وہ سمجھ گئی کہ وہ کبھی چھتری کی مالک نہیں بن سکتی ،یہی فطری تھا ۔اسے چھتری برباد ہونے کی وجہ سمجھ لگ گئی ۔کہ اس نے اپنے اندر کی دنیا کو چلانے والے خفیہ قانون کے خلاف خود کو کھڑا کر رکھا تھا ۔ بہت کم لوگ اپنی زندگی میں ایک بار بھی ناقابل بیان کو حقیقت کا روپ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔
ہیلگا دور سے اپنے خاوند کو دیکھ کر مسکرائی ۔ایسا تھا کہ شاید اس نے اچانک اس کے اندر کی کوئی تار ہولے سے چھیڑ دی ہو ۔شاید اس لئے کہ اس نے اس پر اس کی صلاحیتوں کی حدیں ظاہر کر دی تھیں قبل اس کے وہ بے قابو ہوکر فنا ہو جائیں .
لیکن ہیلگا نے اسکے بارے میں اس طرح نہیں سوچا ۔اس نے صرف یہ سوچا کہ یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے میں نے اسے دھوکہ دیا ۔اور اس نے مجھے معاف کر دیا ۔اس نے سنجیدگی اور غیر حاضر دماغی سے سر ہلایا۔ جیسے کسی بچے کو جو آسمان سے تارہ اتار کر کسی کو دینا چاہتا ہو ۔ جب ایگون چھت میں بنی جگہ پر بلب لگانے کی کوشش میں مصروف تھا تو اس نے اپنے کندھوں کے اوپر سے اسے دیکھتے ہوے کہا ۔"تمہیں ایک دوسری چھتری مل جاۓ گی ۔"

The Umbrella by Tove Ditlevsen 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق