ہانس کرسچن اینڈرسن کا افسانہ : سرخ جوتے || مترجم : اسماء حسین

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 504 : سرخ جوتے

تحریر : ہانس  کرسچن اینڈرسن ( ڈنمارک)

مترجم : اسماء حسین  ( ڈنمارک)




ایک دفعہ کا ذکر ہے ، ایک چھوٹی سی لڑکی تھی، بہت نازک اورخوبصورت، لیکن انتہائی غریب اتنی کہ اسے تمام گرمیاں ننگے پاوں گزارنی پڑتی تھیں ۔ اور سردیوں میں اسے لکڑی کے موٹے جوتے پہننے پڑتے تھے جو اس کی ایڑھیوں کو  چھیل  کر زخمی کر دیتے  ۔

گاؤں میں ایک بوڑھی بیوہ رہتی تھی جس کا شوہر موچی تھا۔ اس نے سرخ کپڑے کی کچھ پرانی کترنوں سے جوتوں کا ایک چھوٹا سا جوڑا بنا دیا۔ موچی کی بیوہ نے اپنی سی بہترین کوشش کی  مگر جوتے قدرے بھدے دیکھائی دیتے تھے حالانکہ اس نے ہمدردی کے تحت چھوٹی بچی کے لیے بنائے تھے ۔ بچی کا نام کیرن تھا۔

جس دن کیرن کی ماں کو دفن کیا گیا تھاٹھیک اسی دن وہ جوتے اس کے حوالے کئے گئے ۔ یقیناً، ان کا رنگ جنازے میں شرکت کے لیے مناسب نہیں تھے، لیکن اس کے پاس  جوتوں کا کوئی دوسرا جوڑا نہیں تھا ، لہذا اس نے انہیں ہی پہن لیا ۔ پھٹے پرانے کپڑوں ،برہنہ ٹانگوں اور پیروں میں سرخ جوتے پہنے وہ سادہ سے بید کے تابوت کے پیچھے چل پڑی۔

اتنے میں ایک پرانی وضع کی  پاس سے بگھی گزری جس کے اندر ایک بوڑھی عورت بیٹھی تھی۔ اس نے چھوٹی لڑکی کو دیکھا اور اسے کیرن پر اتنا ترس آیا کہ وہ فوراً پادری کے پاس گئی اور کہا: " یہ لڑکی مجھے دے دو، میں اس کی اچھی طرح دیکھ بھال اور پرورش کروں گی۔"

کیرن نے سوچا کہ اس کےسرخ جوتوں کے باعث وہ بوڑھی عورت کوپسند آئی ہے ۔ لیکن بوڑھی خاتون نے کہا کہ یہ بدصورت جوتے ہیں ، اور انہیں چولہے میں ڈال کر جلوادیا۔ کیرن کو نئے مناسب کپڑے دیے ، اسے پڑھنا لکھنا ا ور سلائی کرنا سکھایا ۔ لوگ کہتے تھے وہ بہت خوبصورت ہے؛ لیکن اس کے آئینے نے اسے بتایا، "تم خوبصورت نہیں بلکہ  بہت زیادہ خوبصورت ہو، تم حسین و جمیل ہو۔"

ایک بار ملکہ پورے ملک کے دورے پر نکلی ،  ننھی شہزادی بھی اس کے ہمراہ تھی ۔ کیرن سمیت سب  لوگ  شہزادی کا دیدار کرنے کے لیے قلعے کے پاس جمع ہو گئے ۔ سفید لباس میں ملبوس ننھی شہزادی، قلعے کی بڑی کھڑکی میں کھڑی تھی تاکہ لوگ اسے دیکھ سکیں ۔ اس کے سر پر تاج نہیں تھا لیکن اس نے خوبصورت سفید لباس اور مراکشی چمڑے کے حسین جوتے پہنے ہوئے تھے۔ بلاشبہ، وہ ان جوتوں سے کہیں زیادہ شاندار تھے جو موچی کی بوڑھی بیوہ نے ننھی کیرن کے لیے بنائے تھے۔ان  سرخ جوتوں جیسا   خوبصورت ، دنیا میں کچھ نہیں تھا۔

جب کیرن تصدیق کا بپتسمہ لینے کی عمر کو پہنچی تو، اس کے لئے نئے کپڑے بنوائے گئے ، نئے جوتے بنوانے کے لیے ایک ماہر موچی کے گھر لے جایاگیا ۔ اس کی دکان کی دیواروں پر شیشے کے بڑے بڑے شو کیس لگے ہوئے تھے، جو انتہائی  نفیس جوتوں اور بوٹوں سے بھرے ہوئے تھے۔ لیکن بوڑھی عورت کی بینائی اتنی کمزور تھی کہ وہ  نمائش پر رکھے جوتوں کو اچھی طرح سے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ لیکن کیرن نے دو بوٹوں کے درمیان رکھے سرخ جوتوں کا جوڑا دیکھ لیا جو بالکل ویسا تھا جیسا شہزادی نے پہنا ہوا تھا۔ اوہ ، یہ کتنے خوبصورت ہیں ! موچی نے بتایا کہ اس نے یہ جوتے ایک کاونٹ کی بیٹی کے لیے بنائے تھے، مگر اسے یہ فٹ نہیں آئے ۔

" میرے خیال میں یہ پیٹنٹ چمڑے سے بنے ہیں ۔" بوڑھی عورت نے کہا۔ " یہ چمکدار ہیں ۔ "

"ہاں، یہ واقعی چمکدار ہیں،" کیرن نے جواب دیا ۔ جیسے ہی جوتے کیرن کو پورے آئے ، بوڑھی خاتون نے انہیں خرید لیا، لیکن اسے یہ پتا نہیں چلا کہ ان کا رنگ سرخ ہے۔ اگر اسے یہ معلوم ہوتا تو وہ کیرن کو یہ جوتے کبھی بھی خریدنے نہیں دیتی کیونکہ تصدیق کی تقریب میں پہننے کے لیے یہ رنگ مناسب نہیں تھا ۔ مگر اس کی بینائی زائل ہو رہی تھی – بے چاری عورت ! – اس لیے وہ رنگ نہیں دیکھ سکی ۔

جب وہ گرجا کے چبوترے کی طرف بڑھی تو سب ہی اس کے جوتوں کو دیکھ رہے تھے ۔ چر چ کی دیواروں پر وہاں مدفون سابقہ وزیروں ،ان کی بیگمات کی پینٹگز لٹکی ہوئی تھیں ؛ تصاویر میں وہ لمبے کالے گاؤن کے ساتھ گلے میں سفید جھالر پہنے ہوئے تھے ۔ کیرن کو لگا کہ ان امراء  نےبھی  اپنی نظریں اس کے سرخ جوتوں پر جمائی ہوئی تھیں ۔

جب پادری نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اورمقدس عہد پڑھا جو کیرن لینے والی تھی _ یہ عہد کہ وہ ایک ذمہ دار عیسائی بنے گی _ مگر کیرن کا الفاظ پر دھیان نہیں تھا۔ آرگن پر سنجیدہ موسیقی بجائی گئی ؛ کورس  کے بوڑھے   سربراہ نے دعائیہ گیت گایا، بچوں کی میٹھی آوازیں گونجیں ، مگر کیرن کو سرخ جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔

دوپہر تک لوگ بوڑھی عورت کو کیرن کے جوتوں کے رنگ کے بارے میں بتا چکے تھے ۔ وہ بہت خفا ہوئی اور کیرن کو ڈانٹا کہ گرجا میں سرخ جوتے پہننا انتہائی نامناسب حرکت ہے ، اور مستقبل میں اسے ہمیشہ کالے جوتے پہن کر گرجا جانا چاہیے ، چاہے اسے اپنے پرانے جوتے پہننے پڑیں ۔

اگلے اتوار کو گرجا میں عشائے ربانی کی رسم تھی ۔ کیرن نے پہلے اپنے سیاہ جوتوں پر نظر ڈالی پھر اپنے سرخ جوتوں کو دیکھا؛ پھر اس نے دوبارہ اپنے سرخ جوتوں کو دیکھا اور انہیں پہن لیا۔

یہ ایک خوبصورت دن تھا، سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ کیرن اور بوڑھی خاتون نے گرجا جانے کے لیے کھیتوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیا اور اس سفر میں ان کے جوتے تھوڑے گندے ہو گئے ۔

 گرجا کے دروازے پر ایک معذور سپاہی بیساکھی کے سہارے کھڑا تھا۔ اس کی بہت لمبی ، گھنی اورسرخ داڑھی تھی جس میں ہلکی ہلکی سفیدی بھی جھلکتی تھی ۔ وہ زمین پر جھکا، اور بوڑھی عورت سے پوچھا کہ کیا وہ اس کے جوتوں کو صاف کر سکتا ہے؟ کیرن نےبھی اپنا چھوٹا سا پاؤں آگے بڑھا دیا۔

"واہ ، کتنے خوبصورت ناچنے والے جوتے ہیں،"سپاہی نے کہا ، اور جوتوں کے تلوے تھپتھپاتے ہوئے مزید کہا،"رقص کے دوران اس کے پیروں  سے نہ اترنا۔"

بوڑھی عورت نے سپاہی کو ایک پینی دی، اور کیرن کے ساتھ گرجا کے اندر چلی گئی۔ ایک بار پھر ہر فر د یہاں تک کہ دیواروں پر لگی تصاویر میں موجود لوگ بھی کیرن کے سرخ جوتوں کو گھور رہے تھے۔ جب کیرن نے چبوترے پر گھٹنے ٹیکے اس وقت بھی وہ جوتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی ، یہاں تک کہ جب سنہری پیالہ  اس کے ہونٹوں تک آیا، تب بھی وہ صرف اپنے سرخ جوتوں کے بارے میں سوچ رہی تھی ؛ لگتا تھا کہ اس کو ان کا عکس پیالے میں نظر آ رہا تھا۔ اس نے مناجات کی گائیکی میں بھی حصہ نہیں لیا اور رب کی دعا پڑھنا بھی بھول گئی۔

کیرن او ربوڑھی خاتون کو گرجا سے واپس لے جانے کے لیے کوچوان ، بگھی سمیت پہنچ چکا تھا۔بوڑھی عورت بگھی میں بیٹھ گئی اور کیرن نے اس کے پیچھے پیچھے چڑھنے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کہ پاس ہی کھڑے بوڑھے سپاہی نے کہا " دیکھو تو ذرا ، کتنے خوبصورت ناچنے والے جوتے ہیں !"

کوچوان کے الفاظ سن کر اس نے سوچا دو چار قدم رقص کرلیتی ہوں ، مگر ایک بار جب اس نے رقص شروع کردیا تو اس کے پاؤں نہیں تھمے ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا اپنے پیروں پر اختیار ہی نہ رہا ہو۔ وہ گرجا کے  آس پاس رقص کرنے لگی ، اس کا اپنے اوپر اختیار نہیں رہا تھا۔

کوچوان نے بگھی سے چھلانگ لگائی اور اس کے پیچھے دوڑ لگادی ۔ کیرن تک پہنچ کر کوچوان نے اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، مگر پھر بھی اس کے پیر ہوا میں رقص کر رہے تھے ، یہاں تک کہ جب اس نے کیرن کو بگھی کے اندر ڈال دیا اس کے بعد بھی ۔ بوڑھی عورت کو اس دوران زور سے لات بھی پڑی جب اس نے اور کوچوان نے کیرن کے جوتے اتارے ، تاکہ وہ ڈانس نہ کر سکے ۔

گھر پہنچنے کے بعد ، سرخ جوتے الماری میں رکھ دیئے گئے ، لیکن کیرن انہیں چپکے چپکے دیکھنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکی ۔

بوڑھی عورت بہت بیمار ہو گئی ۔ ڈاکٹر آئے اور انہوں نے کہا کہ وہ زیادہ عرصے زندہ نہیں رہے گی ۔ اسے مستقل تیمار دار ی اور دیکھ بھال کی ضرور ت ہے اور یہ اسے کیرن کے علاوہ کون دے سکتا تھا؟مگر گاوں میں ایک بہت بڑی رقص کی محفل منعقد ہونا تھی اور کیرن کو بھی شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔ اس نےقریب المرگ بوڑھی عورت کو دیکھا اورپھر اپنے سرخ جوتوں پر نظر ڈالی ، اس نے سوچا انہیں دیکھنا گناہ تونہیں ۔ پھر اس نے جوتے پہن لیے ، اس میں بھی کوئی گناہ نہیں تھا۔اور پھر وہ رقص گاہ بھی چلی گئی ۔

وہ رقص کرنے لگی ۔ مگر جب وہ بائیں طرف رقص کرنا چاہتی ، جوتے دائیں جانب رقص کرتے ؛ اور جب وہ رقص کے چبوترے کے اوپر رقص کرنا چاہتی تو جوتے چبوترے کے نیچے ، راہداریوں ، گلیوں میں رقص کرتے ۔ وہ رقص کرتے کرتے شہر کے دروازے سے نکل کر تاریک جنگل میں پہنچ گئی ۔

درختوں میں اسے کوئی شے نظر آئی ۔ اسے لگا کہ شاید وہ چاند ہے کیونکہ وہ کچھ  چہرے جیسا تھا۔ لیکن وہ چاند نہیں تھا ؛ وہ سرخ داڑھی والا بوڑھا سپاہی تھا۔ اس نے کیرن کی طرف ہاتھ ہلایا اور کہا ،" واہ ، کتنے خوبصورت رقص کرنے والے جوتے ہیں ۔ "

کیرن بہت خوفزدہ ہو گئی  اور اپنے سرخ جوتے اتارنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنی جرابیں پھاڑ دیں، لیکن جوتے نہیں اترے ۔ وہ اس کے پیروں میں چپک چکے تھے۔ وہ  کھیتوں اور وادیوں میں ، بارش اور دھوپ میں، دن اور رات میں رقص کرتی رہتی ۔ مگر رات میں  اسے انتہائی خوف آتا تھا۔

 اس نے قبرستان میں رقص کیا، لیکن ُمردوں نے اس کے رقص نہیں کیا، ان کے پاس کرنے کے لیے اور دوسرے ضروری کام تھے ۔ اس نے ایک فقیر کی قبر پر بیٹھنے کی کوشش کی، جہاں تلخ جڑی بوٹیاں اُگی ہوئی تھیں، لیکن اسے وہاں بھی سکون نہیں ملا۔ اور جب وہ گرجاگھر کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف رقص کرنے لگی تو اس نے دیکھا کہ سفید لباس میں ملبوس زمین  تک دراز، بڑے بڑےپنکھ والے ایک فرشتے نے اس کا  راستہ روک لیا ۔

 اس کے چہرے پر کرختگی اور سنجیدگی تھی ، اور ہاتھ میں ایک چوڑی ، چمکیلی تلوار تھی۔

"تم رقص کرو گی !" اس نے کہا، "اپنے سرخ جوتوں میں اس وقت تک رقص کرو گی جب تک کہ تم کمزور اور زرد نہ پڑ جاو۔ رقص کرو جب تک تمہارے چہرے کی جلد سکڑ  کر تمہاری ہڈیوں سے نہ چپک جائے ایسے کہ گویا تم ڈھانچہ ہو۔تم  ہر گھر کے سامنے رقص کرو گی ، اور جب تم کسی ایسے گھر کے پاس سے گزرو جہاں بچے مغرور اور بد تمیز ہوں،تم اس کے دروازے پر دستک دو گی تاکہ وہ تمہیں دیکھ کر عبرت پکڑیں ۔ ، رقص کرو ، تم رقص کرو گی ۔۔۔رقص!"

"مجھ پر رحم کرو!" کیرن چیخ اٹھی۔ لیکن وہ فرشتے کا جواب نہیں سن سکی ، اس کے جوتے اسے گرجا کے پھاٹک سے باہر لے گئے، کھیتوں کے پار، شاہراہوں اور گلیوں میں ، مسلسل رقص کرتے ہوئے ۔

ایک صبح وہ ایک ایسے گھر کے پاس سے گزری جسے وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ اس نے اندر سے مناجات کی آوزیں آتی سنیں ، اور پھر پھولوں سے ڈھکا ایک تابوت باہر لایا گیا۔تب اسے معلوم ہوا کہ وہ بوڑھی عورت جس نے اس پر ترس کھایا تھا، مر چکی تھی ۔اور اب ایسا لگتا تھا کہ اس کے نصیب میں  فرشتے کی بددعا اور تنہائی تھی ۔

اور پھر وہ رقص کرتی ہی گئی  ، یہاں تک کہ   اندھیری راتوں میں بھی ۔ اس کے جوتے اسے کھیتوں میں میدانوں میں کانٹے اور جھاڑیوں میں لے جاتے ، جن   کے باعث اس کے پیر اتنے زخمی ہو جاتے کہ ان سے خون بہنے لگتا ۔

ایک صبح دور دراز بنجر زمینوں پر رقص کرتی ہوئی وہ ایسی جگہ پہنچی جہاں صرف ایک چھوٹی سے جھونپڑی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ  اس  جھونپڑے میں جلاد رہتا ہے، اس نے اپنی انگلی سے اس کی کھڑکی پر دستک دی ۔

"باہر آو!" اس نے آواز لگائی ، "باہر آؤ! میں اندر نہیں آ سکتی، کیونکہ میں  رقص کررہی ہوں۔"

جلاد دروازہ کھول کر باہر آگیا ۔ اس نے کیرن کو دیکھ کر کہا ، "تم جانتی ہو میں کون ہوں؟ میں وہ ہوں جو  گناہ گاروں کے سرقلم کرتا ہوں، اور مجھے محسوس ہو رہا کہ میری کلہاڑی بے قرار ہونا شروع ہو گئی ہے۔"

"میرا سر قلم نہ کرنا، کیونکہ پھر میں اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کر سکوں گی ۔لیکن میرے پاوں کاٹ دو!"

اس نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا، اور جلاد نے اس کے پاوں کاٹ دیئے ۔ جوتے اس کے پیروں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے گھنے جنگل میں چلے گئے۔ جلاد نے اس کے لیے لکڑی کے پاؤں اور بیساکھیوں کا ایک جوڑا بنادیا۔ اس نے کیرن کو وہ  دعا سکھائی جو گناہوں پر نادم لوگ پڑھتے ہیں ۔ اس نے جلادکے اس ہاتھ کو چوما جس نے کلہاڑی چلائی تھی، اور وہاں سے چلی گئی۔

" میں نے ان سرخ جوتوں کی وجہ سے کافی نقصان اٹھایا ہے،" اس نے سوچا ۔ "مجھے اب دوبارہ گرجا جانا چاہیے اور لوگوں کے درمیان  رہنا چاہیے ۔"

 لیکن جب وہ گرجا کے دروازے کی طرف بڑھی تو سرخ جوتے اس کے سامنے آکر رقص کر نے لگے ، اور وہ خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگ نکلی۔

سارا ہفتہ وہ پشیمان رہی، اور آنسو بہاتی رہی۔ مگر جب اگلا اتوار آیا تو اس نے کہا، " اب تک میں بہت تکالیف اور مشقت برداشت کر چکی ہوں  ، اور میرے خیال میں ، میں بھی ان  تمام  لوگوں کی طرح ہوں جو  سر فخر سے اونچا رکھ کر گرجا میں آتے ہیں ۔" اس خیال نے اسے باہر نکلنے کی ہمت دی ، لیکن جب وہ گرجا کے دروازے پر پہنچی تو اس نے سرخ جوتے اپنے سامنے رقصاں دیکھے۔ و ہ پہلے سے زیادہ خوفزدہ ہو کر واپس پلٹ گئی لیکن اس بار اس نے سچے دل سے توبہ کی۔

وہ پادری کے گھر گئی، اور اس سے التجا کی کہ وہ اسے نوکر رکھ لے ۔ کیرن نے کہا کے اسے اجرت کی پروا نہیں ، بس وہ اپنے سر پر چھت اور پیٹ بھر کھانا چاہتی ہے ۔ پادری کی بیوی کو بے چاری ، معذور کیرن پر ترس آگیا، اور اسے کام پر رکھ لیا ۔ کیرن نے شکر ادا کیا کہ اسے رہنے کے لیے جگہ ملی اور وہ محنت سے کام کرنے لگی ۔ جب شام میں پادری انجیل کی قرات کرتا تو وہ غور سے سنتی تھی ۔ بچے اس سے مانوس تھے ، لیکن جب وہ کپڑوں ، زیورات اور ملکہ کی طرح خوبصورت ہونے کی باتیں کرتے، تو وہ افسردگی سے سر ہلا دیتی۔

جب اگلے اتوار سب لوگ گرجا جانے کے لیے تیار ہو گئے تو انہوں نے اسے بھی چلنے کو کہا ۔ بے چاری کیرن کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے ۔ اس نے آہ بھر کر اپنی بیساکھیوں کی طرف دیکھا۔

 لوگ جب گرجا کے لیے روانہ ہو گئے تو وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں گئی، جو اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں صرف ایک بیڈ اور ایک کرسی سما سکتی تھی ۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئی اور اپنی دعاوں کی کتاب پڑھنے لگی ۔ گرجا سے آنے والی موسیقی کی آوازیں ، ہوا کے دوش پر اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں ۔ اس نے ا پنا آنسوؤں سے بھیگ چہراہ اٹھایا ، اور کہا، "اے رب، میری مدد کر!"

تب اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے سورج کی روشنی دو گنی ہو ئی اور خدا کا فرشتہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ وہی فرشتہ تھا جسے اس نے اس رات گرجا کے دروازے پر دیکھا تھا۔ لیکن اس بار اس کے ہاتھ میں تیز تلوار نہیں بلکہ گلاب کی شاخ تھی جو پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ اس نے اس شاخ سے چھت کو چھوا اور جہاں اس نے چھو ا تھا وہاں ایک سنہری ستارہ نمودار ہوگیا ، اور چھت اونچی ہو گئی۔ اس نے دیواروں کو چھوا تو وہ چوڑی ہو گئیں۔

 اس نے آرگن دیکھا ۔ اس نے وزراء اور ان کی بیویوں کی تصاویر دیکھیں ؛ اور ان کے سامنے لوگوں کو ہاتھوں میں انجیل لیے مناجات گاتے دیکھا۔ گرجا اس غریب لڑکی کے تنگ چھوٹے سے کمرے میں آگیا تھا، یا شاید وہی گرجا میں آ گئی تھی ۔ وہ دوسرے لوگوں کے درمیان میں بیٹھ گئی۔ جب وہ دعائیں ختم کر چکے تو انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

کسی نے اس کے کان میں سر گوشی کی ، "اچھا ہوا تم آگئیں کیرن،"

" بس خدا کا کرم ہے ،" اس نے کہا۔

شاندار آرگن بجنے لگا اور کورس کے بچوں کی میٹھی آوازیں اس میں گڈ مڈہوگئیں ۔ سورج کی شفاف روشنی اور گرمی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی ۔ سورج کی روشنی نے کیرن کے دل کو خوشی اور سکون سے اس قدر بھر دیا کہ اس کا دل پھٹ گیا ۔ اس کی روح سورج کی شعاع کے ساتھ خدا کی

طرف پرواز کر گئی ، جہاں کسی نے اس سے سرخ جوتوں کے بارے میں سوال نہیں کیا۔

 

 English Title: The Red shoes

Written by:

Hans Christian Andersen (2 April 1805 – 4 August 1875) was a Danish author. Although a prolific writer of plays, travelogues, novels, and poems, he is best remembered for his literary fairy tales.

 

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق