افسانہ نمبر 662 : محبت نامہ || تحریر : جیفری آرچر || مترجم : محمد ظفر
افسانہ نمبر 662 : محبت نامہ
تحریر : جیفری آرچر (برطانیہ)
مترجم : محمد ظفر
مہمان اس وقت ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے۔ ہورل آربرٹ تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی ۔ اُس کے ہاتھ میں مارننگ پوسٹ کا تازہ شمارہ تھا۔ رسالے میں رکھا ہوا ایک لفافہ اُس نے نکالا اور معنی خیز نظروں سے اپنی سہیلی کی طرف دیکھتے ہوئے اُس کے سامنے رکھ دیا۔
اپنا کلیری مونٹ پریشان سی ہوگئی۔ وہ ہورل کی دعوت قبول کر چکی تھی اور آج ہی اُس کے گھر ہفتے بھر قیام کے لیے روانہ ہونا تھا۔ دوسرے ہی لمحے لفافے کی تحریر پہچان کر اُس کی اُلجھن دور ہوگئی۔ وہ اسے اپنے محبوب کی تحریر اچھی طرح پہچانتی تھی۔ معاً اُس کے چہرے پر خوف کی پر چھائیں اُبھری پھر وہ اپنے محبوب کی بے تابی کے خیال سے مسکرانے لگی۔ اُسے امید تھی کہ اس کے شوہر رابرٹ نے اس خط کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہوگا۔ رابرٹ میز کی آخری کرسی پر تھا اور ہمیشہ کی طرح ٹائمز اخبار کے مطالعے میں غرق تھا۔ اُدھر سے مطمئن ہو کر اینا نے لفافہ چاک کر لیا۔ وہ رابرٹ پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی۔ رابرٹ نے جب بھی اُس کی طرف دیکھا، وہ جواباً مسکرادی۔
کھلا ہو ا لفافہ اور خط اُس کی گود میں تھا۔ آہستہ آہستہ اُس نے لفافہ تہ کر کے اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ دیا، بیگ کرسی کے نیچے رکھا تھا۔ یہ کام اینا نے محض ایک ہاتھ سے کیا، پھر اس نے ناشتے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کیک کا ایک ٹکڑا کھا کر منہ چلانے لگی۔ رابرٹ کا چہرہ اخبار کے پیچھے چھپا تو اینا نے تیزی سے سے خط سیدھا کیا اور اُس پر ایک نظر ڈال کے مسکرانے لگی۔
ہمیشہ کی طرح اُس کے محبوب نے نہایت نفیس کریمی کاغذ استعمال کیا تھا اور اس قدر احتیاط کی تھی کہ نہ تاریخ لکھی تھی، نہ کہیں اپنا کا نام استعمال کیا تھا۔
"میری زندگی کا حاصل ٹائے ٹے نیا" کے لقب سے خط کا آغاز کیا گیا تھا۔ ان الفاظ کا مطلب اینا خوب جانتی تھی کہ یہ خطاب اُس کے محبوب . نے سرشاری کے عالم میں پہلی . ملاقات کے موقع پر اُسے دیا تھا۔ اینا نے پہلی ملاقات کی یاد پر جسم میں جھر جھری سی محسوس کی۔ وہ اس کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔ اُس نے رابرٹ کی طرف دیکھا، وہ بدستور اخبار کے پیچھے گم تھا۔ اینا مطمئن ہو کر خط پڑھنے لگی۔ ایک بار پھر اُس کے رگ و پے میں سنسنی دوڑ گئی ۔
محبوب نے اپنے محبت نامے کا آغاز ہی پہلی ملاقات کی تفصیل سے کیا تھا۔ اُس نے شاعرانہ انداز میں اُس کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات تفصیل سے بیان کیے تھے اور لکھا تھا کہ ” میں یہ سطریں اُسی جگہ بیٹھ کر لکھ رہا ہوں، جہاں ہم ملے تھے۔ کمرے کا گوشہ گوشہ ہنوز تمھاری خوش بو سے مہک رہا ہے۔ تمھاری قربت میں گزرا ہوا ہر ثانیہ ٹہر گیا ہے اور میری گرفت میں ہے اور مجھے ستا رہا ہے۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔ میں اپنے احساسات کے بیان سے قاصر ہوں مگر تم اندازہ کر سکتی ہو کہ اس وقت میری کیا حالت ہے ۔" اینا بے ساختہ مسکرا دیا۔ اُسے اپنے محبوب کا یہ انداز تکلم پسند آیا۔ واقعی وہ اُس کی بے چینی کا اندازہ کرسکتی تھی۔ ایک نظر اپنے شوہر پر ڈال کے وہ پھر خط پڑھنے لگی ۔
"جانِ جاں! جب تم میرے ساتھ تھیں تو وہ سب کچھ میرا تھا جس کی ایک آدمی خواہش کرتا ہے۔ تمھارے پاس وہ سب کچھ ہے جو ایک محبوبہ کے پاس ہونا چاہیے۔ محبت، دل جوئی ، متناسب جسم، شگفتگی، شادابی، حسن و جمال ، شیریں ہونٹ اور شیریں بول ۔ تم ایک مثالی محبوبہ ہو۔ تم سے میرا تعارف سیلوان ڈنر پارٹی میں ہوا تھا۔ وہ رات میں نے اپنے بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے گزاری تھی ۔ تصور میں تم میرے بہت قریب تھیں، میں اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کے منصوبے بناتا رہا۔“
اپنا نے ایک بار پھر اپنے شوہر پر نظر ڈالی۔ رابرٹ اخبار کے صفحات پلٹ رہا تھا۔ مطلوبہ صفحہ نکال کے وہ پھر اخبار پڑھنے لگا۔ اپنا خط کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اُس کے محبوب نے لکھا تھا کہ پہلی ملاقات کے ٹھیک گیارہ دن بعد گلا نیڈو یورینی میں اُن کی دوسری ملاقات محض اتفاق سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اُس کی تمناؤں اور دعاؤں کا ثمر تھی اور برسلز میں تیسری ملاقات اُس کی بے تابانہ جد و جہد کے نتیجے میں ممکن ہو سکی تھی۔ میں تمھاری ایک جھلک دیکھنے کے لیے برسلز پہنچا تھا۔ اس کے بعد میں تمھیں لونسو ڈالی ایونیو میں اپنے بنگلے کے ڈرائنگ روم میں لے گیا تھا۔ یاد ہے نا تم ایک جیتے جاگتے مجسمے کی صورت میں میری آنکھوں کے سامنے تھیں۔ میں فیصلہ نہیں کرپارہا تھا کہ تمھارے ہونٹوں کی سرخی زیادہ دل فریب ہے یا پیروں کی جلد کی رنگت ۔ اپنا جھینپ سی گئی، جیسے اس وقت بھی اُس کا محبوب اُسے اسی طرح دیکھ رہا ہو۔
لوگ ناشتے سے فارغ ہو کر اُٹھ رہے تھے۔ رابرٹ مسلسل اخبار میں مصروف تھا۔ "ڈیئر ! میں جلد تم ۔ ملوں گی ۔" اینا نے دل میں اپنے محبوب کو مخاطب کیا۔ "سو ہو کے دورہ خریداری سے واپسی پر تم سے اسی کیفیت میں ملاقات کروں گی ۔" وہ باقی خط پڑھنے لگی۔ لکھا تھا ، "راحت دل ! اب دوری نا قابل برداشت ہوتی جارہی ہے، میں تم سے پورا دن نہیں مانگتا، پوری رات نہیں مانگتا۔ میرے لیے ایک گھنٹے کی رفاقت بہت ہے۔ گزشتہ ملاقات میں بھی تم نے اتنا ہی وقت دیا تھا، سے فیئر کی پارکنگ پر میری مرسیڈیز کی پچھلی سیٹ پر تم گھنٹے بھررُ کی تھیں۔ میں مختصر لمحات کا بھی بے چینی سے انتظار کرتا ہوں۔ ہیرڈز کی سروس لفٹ کے چند منٹ بھی مجھے یاد ہیں اور کیپر سیا میں مجھے تم سے بس چند لمحے ملے تھے۔ وہ بھی میرے لیے بیش قیمت تھے اور ہاں، کو نیٹ گارڈن کے ڈریس سرکل میں ہم نے جو ڈراما دیکھا تھا۔ مجھے کچھ یاد نہیں اُس کا مرکزی کردار کون تھا، ہاں ، تمھاری ہم نشینی نہ صرف یاد ہے بلکہ اس کی فلم اب بھی ذہن کے پردے پر چل رہی ہے۔ ایک اور ڈراما بھی ہم نے ساتھ دیکھا تھا، اُس کے تو وقفے ہی میں ہم اوپیرا سے باہر آگئے تھے۔“ اینا بے ساختہ ہنس پڑی۔ خط کی سطر سطر سے اُس کے حافظے میں ایک ایک منظر تازہ ہو رہا تھا۔
رابرٹ نے اخبار نیچے کر کے اسے گھور کر دیکھا ۔ ” کیا بات ہے؟ کیوں ہنس رہی ہو؟“
"جیمز بونڈ کی مضحکہ خیز تصویر دیکھ کر ہنسی آگئی ۔“ اپنا نے خط چھپا لیا۔ "اخبار پلٹ کر دیکھو۔ جیمز بونڈہیلی کاپٹر سے لٹک رہا ہے ۔"
"ہاں ۔ ہاں ۔" رابرٹ بیوی کی شکل دیکھتا رہا۔ اس کے ہونٹوں پر جواباً مسکراہٹ نمودار نہیں ہوئی مگر تائید میں سر ہلا کر وہ تجارتی خبریں پڑھنے لگا۔
اینا نے خط گھٹنوں پر پھیلا لیا۔ " مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم ایک ہفتے کے لیے اپنی دوست ہورل آربرٹ کے گھر آرہی ہو۔ اس خبر نے مجھے دیوانہ بنا دیا ہے۔ یہاں آنے کا مطلب یہ ہے کہ تم ہفتے بھر میرے پاس ہوگی ۔ خوش قسمتی سے تمھاری اس سہیلی کا تعلق شاہی خاندان سے ہے۔ وہ یقینا ًتمھیں کسی شان دار مہمان خانے میں ٹھہرائے گی اور تم وہاں تک میرے پہنچنے کی راہ ہم وار کر لو گی۔" یقینا ًبے اختیار اینا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ میرے پل پل کی خبر رکھتا ہے۔ اینا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلنے گئی۔ وہ یقینا ًجانتا ہوگا کہ میں کب اور کسی جہاز سے ساؤتھ بٹن پر اتروں گی ۔ وہ خیال میں اپنے چاہنے والے کو مجسم انتظار بنا دیکھنے لگی۔ وہ ہیرس کی ٹیوڈ جیکٹ کے ساتھ بھورا ٹراؤزر پہنے ہوئے تھا ، اُسی رنگ کی ایم سی سی کی ٹائی تھی ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ فیشن کے ہارا اینڈ ہاؤنڈ مقابلے کا امیدوار ہو۔ اپنے محبوب کے اس حلیے پر اینابے ساختہ قہقہہ نہیں روک سکی۔
ناشتے کی میز پر موجود مسٹر ولسن نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔ ” تم کس بات پر کھل کھلا رہی ہو، کیا میرے سوال پر ہنسی ہو؟ میں نے بس یہ پوچھا ہے کہ کیا تم ٹینس میں ہمارے ساتھ شریک ہونا پسند کرو گی ؟“
اگر بارش کی پیش گوئی درست ثابت نہیں ہوئی اور دھوپ نکل آئی تو یقینا ًمیں کھیل میں شرکت کرلوں گی ۔ اینا نے اپنی ہنسی کا معاملہ گول کر دیا ، خط بھی اس نے ولسن ریگما کی نظروں سے چھپالیا۔
"رابرٹ !" ریگما اب اپنا کے شوہر سے مخاطب تھا ۔ " کیا تم کبھی کھیل میں شامل ہو گے؟"
"نہیں ۔" رابرٹ نے اخبار سے سر اُٹھایا اور قدرے تردد کے ساتھ انکار کر دیا۔ "مجھے ٹینس سے جنون کی حد تک دل چسپی ہے مگر افسوس مجھے کچھ ضروری فون کرنے ہیں ۔"
ایناکو رابرٹ سے اس جواب کی توقع تھی۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرا دی ، اس کی مسکراہٹ کی وجہ محض یہ تھی کہ رابرٹ نے اس وقت ٹیوڈ جیکٹ اور ایم سی سی کی ٹائی پہن رکھی تھی۔
"ہفتے کی دل کش صبح بھی تم ضروری فون کرو گے؟“ ہورل نے کافی کا آخری گھونٹ لے کر ہلکی سی ناگواری کا اظہار کیا۔ "میں تو ایسی خوش گوار صبح بند کمرے میں گزارنا پسند نہیں کرتی ۔"
"میں تمھارے خیال سے متفق نہیں ہوں ۔" رابرٹ کا لہجہ ذو معنی تھا۔ "مجرم قسم کے لوگ ہفتے میں پانچ دن کام نہیں کرتے ، مجرموں کی پشت پناہی کرنے والے وکیلوں کا بھی یہی حال ہے۔ میں تو ہفتے میں پورے چالیس گھنٹے کام کرتا ہوں ۔" رابرٹ نے اپنے طور پر گو یا لطیفہ سنایا اور اپنی بات مکمل کر کے ہنسا مگر ہورل نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا، نہ ہی اینانے اُس کی ہنسی کا ساتھ دیا۔ وہ رابرٹ کی طرف سے اس قسم کے جوابات کی عادی ہو چکی تھی ۔ سات سالہ ازدواجی زندگی میں اُس نے رابرٹ کو ہفتے کے دن بھی کاروباری امور میں مصروف دیکھا تھا۔
رابرٹ نے ایک نظر اتے دیکھا اور کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ "میں اپنے کمرے میں ہوں ڈیئر ! کوئی کام ہو تو بتا دینا۔ " اپنا نے سر ہلایا اور رابرٹ کے رخصت ہو جانے کا انتظار کرنے لگی۔
رابرٹ کے جانے کے بعد اُس نے دیکھا کہ وہ اپنا نظر کا چشمہ وہیں بھول گیا ہے۔ اگر اینا کو باقی خط پڑھنے کی جلدی نہ ہوتی تو وہ رابرٹ کا چشمہ اُسے دے آتی مگر خط فورا ًختم کرنے کی خواہش نے اسے روک لیا۔ اس نے اطمینان سے خط میز پر پھیلا یا اور دوسرا صفحہ پڑھنے لگی۔ اس کے محبوب نے متوقع ملاقات پر جشن منانے کی باتیں کی تھیں ۔ لیڈز میں ملاقات کے لیے اُس نے ایک نیا طریقہ بھی تجویز کیا تھا۔
"میں تم سے اس حال میں ملنا چاہتا ہوں کہ مجھے تمھارے بستر پر باندھ دیا جائے ۔ تم پولیس سارجنٹ کے یونی فارم میں آؤ تمھارے ہاتھ میں پولیس کا ڈنڈا، ایک سیٹی اور ہتھ کڑی ہو۔ تم نے سیاہ چمڑے کی جیکٹ پہنی ہو۔ اس پر چاندی کے بٹن ہوں اور تم مجھے گرفتار کرلو، باقی سب کچھ ملاقات پر ... فقط تمھارا منتظر" ایناسوچنے لگی کہ پولیس سارجنٹ کی یونی فارم وہ کہاں سے حاصل کرے؟
خط پڑھ کر اُسے رابرٹ کے چشمے کا خیال آیا ۔ مگر اب چشمہ وہاں نہیں تھا۔ اُس نے کوئی تردد نہیں کیا۔
اُسے تو یونی فارم کے حصول کی فکر ستا رہی تھی۔ دو ایک بار پھر خط اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ اُس کا خیال تھا ممکن ہے خط کے کسی کونے میں اُس کے محبوب نے اس الجھن کا حل بھی دے دیا ہو۔
"کس گھٹیا آدمی نے یہ خط لکھا ہے؟" اچانک رابرٹ کی تیز آواز نے اپنا کو چونکا دیا۔ ” یہ خط کس بے ہودہ عاشق نے لکھا ہے؟“
اینا اس ناگہانی افتاد پر گڑ بڑا گئی۔ اُس نے پلٹ کر دیکھا۔ رابرٹ اپنا چشمہ درست کر رہا تھا۔ شدید غصے کے باعث اُس کا چہرہ سیاہ ہو رہا تھا۔
"مجھ سے کوئی سوال مت کرو۔ " اپنا نے نہایت تحمل سے کہا۔" نہ ہی تم یہ سوال ہورل آربرٹ سے کرو گے سمجھ گئے ؟"
"کیا مطلب؟ رابرٹ کی حالت میں تغیر واقع ہوا۔ اپنا کو وضاحت کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
اچانک ہورل آربرٹ وہاں آپہنچی۔ اپنا نے خط تہ کر کے پورے اعتماد سے اپنی عزیز سہیلی کی طرف بڑھا دیا۔ "پیاری دوست ! مجھے یقین ہے کہ تم اس خط کی اپنے شوہر کو ہوا بھی نہیں لگنے دو گی ۔"
Comments
Post a Comment