افسانہ نمبر 649 : ہوشیار بُڑھیا || تحریر : سیلی جینز (امریکہ) || مترجم : ابولفرح ہمایوں (کراچی)

 

 افسانہ نمبر 649 :  ہوشیار بُڑھیا

تحریر : سیلی جینز (امریکہ)

مترجم : ابولفرح ہمایوں (کراچی)

 


 کام شروع کرنے سے پہلے اس نے اپنے تینوں ساتھیوں کو ڈنر پر بلایا۔ الزامور خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ ساتھیوں کو خوش کیے بغیر ان سے کام لینا کس قدر مشکل ہے۔

"دوستو! "اس نے اپنا جام اٹھایا۔ ہم لوگوں نے اپنے پلان کا ہر  ن اپنا زادیہ سے جائزہ لیا ہے کہیں جھول نہیں ہے پھر بھی مجھے خوشی ہوئی اگر   تم میں سے سوال کوئی اس پلان میں کوئی کمزور پہلو دریافت کر سکے۔ کیا تم میں سے کسی کو کوئی سوال پوچھنا ہے؟“

ٹونی نے کہا۔ " باس ! صرف ایک سوال۔۔ ہم لوگ کب تک سڑک کھودتے رہیں گے؟“

"  بس دو دن تک ۔صبح سے شام آٹھ گھنٹے بلکہ ضرورت ہوئی تو زیادہ بھی۔۔۔"

" اور کیا کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہو گا۔ آخر ہم لوگ نہ تو میونسپل کمیٹی کی طرف سے کھدائی کریں گے نہ واٹر بورڈ کی طرف سے ، نہ گیس کمپنی کی طرف سے اور نہ ٹیلیفون کی طرف سے آخر ہمیں سڑک کھودنے کا کیا حق ہے؟“

"تم نے ایک اچھا سوال اٹھایا ہے ٹونی “ الز امور نے کہا۔ ” مگر تم نے ابھی فطرتِ انسانی کو نہیں پہچانا۔ کیا تم سڑک پر سے کبھی گزرے ہو جب کہ چند مزدور سڑک کھود رہے ہوں؟ کیا تم نے بھی ان سے پوچھا ہے کہ تم لوگ کون ہو اور تمہیں کیا حق ہے؟ کیا تم نے اس قسم کا سوال کسی اور شخص کو پوچھتے ہوئے دیکھا ہے؟ ہرگز نہیں کسی کو کیا پڑی ہے کہ اپنا کام چھوڑ کر اس قسم کے فضول سوالات میں اپنا وقت ضائع کرے۔ سب اپنا اپنا راستہ لیتے ہیں ۔ بہر کیف اگر پھر بھی کسی نے پوچھا تو جواب دینے کے لئے میں موجود رہوں گا۔ فورمین کے لباس میں "

 

"باس !"  بل جیک پہلی بار بولا ۔ "یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ تم صرف کھڑے ہو کر ہم لوگوں کو کام کرتے ہوئے دیکھتے رہو جب کہ اصل محنت ہم لوگ کریں یہ انصاف نہیں ہے۔"

"اصل کام دماغ کا ہے۔ بہر حال اگر پچاس ہزار پونڈ کے لیے تمہیں دو دن کھدائی کرنا پڑے گی تو آخر اس میں کیا حرج ہے۔ تھوڑی سی ورزش ہے اور کیا؟ لو یہ انگور کھاؤ"

اور پھر اس نے میز پر ایک مکہ مارا ۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب محفل برخاست ہوئی ۔۔۔ اور کل سے کام شروع ہو جائے گا۔

کر زن اسٹریٹ کے وسط میں انٹر نیشنل بینک کا بیرونی کرنسی برانچ تھا الزامور نے سڑک کی کھدائی کے لئے تمام ضروری سامان فراہم کر لیا تھا۔ وہاں سڑک کے دونوں طرف دو بورڈ بھی لگے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا۔ خطرہ یہاں مزدور کھدائی کر رہے ہیں ۔  متاثرہ علاقے کے گرد دور یلنگ لگا دی گئی تھیں اور چار لال بتیوں کا بھی بندو بست تھا۔

"یاد رکھو!" الز امور نے مزدوروں کو مخاطب کیا۔ چھ فٹ کی کھدائی کے بعد ایک پائپ نظر آئے گا۔ تمہارا کام یہ ہے کہ اس پائپ کے ساتھ ساتھ کھدائی کرتے چلے جاؤ کیونکہ یہ راستہ بینک کے خزانے کے فرش تک پہنچتا ہے ہمیں کل شام چھ بجے تک اسی جگہ پر پہنچ جانا چاہیے۔ اس وقت تک بینک بند ہو چکا ہو گا اور عمارت بالکل خالی ہوگی۔“

دوپہر کے کھانے کے بعد ہی "مزدور "تھک گئے ۔ انہوں نے آرام کے لیے وقت مانگا لیکن الز امور نے سختی سے انکار کر دیا۔ کام جاری رکھنا بے حد ضروری تھا اور پھر شام ہوگئی۔ الزامور نے چھٹی کا اعلان کر دیا۔ ہمیں آج جہاں   تک کھدائی کرنا تھی نہیں کر سکے۔ اس لیے کل تم لوگوں کو سخت محنت کرنا پڑے گی۔اب تم لوگ گھر جاؤ اور آرام کرو "

دوسری صبح سب لوگ اپنے کام پر موجود تھے۔ کھدائی بے حد سخت تھی کیونکہ پتھریلی زمین کی کھدائی کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بینک کی بلڈنگ کی بنیادیں کافی گہری تھیں ۔ بہر حال شام پانچ بجے تک پلان کے مطابق کھدائی مکمل ہو چکی تھی۔ اب   صرف انہیں انتظار تھا کہ بینک بند  ہو اور اسٹاف کے لوگ چلے جائیں۔

ساڑھے پانچ بجے شام تک اسٹاف کا آخری آدمی بھی جا چکا تھا۔ بینک کے تمام دروازوں میں تالے لگ گئے ۔ ایک مرتبہ پھر کھدائی شروع ہوئی۔ بینک کے فرش کے نیچے الزامور نے سرخ بتیوں کو روشن کر دیا تا کہ ٹریفک دوسری طرف سے گزرتی رہے۔ سوا چھ بجے فرش میں اتنا سوراخ ہو گیا تھا کہ ایک شخص با آسانی گزر سکے ۔ سب سے پہلے اس سوراخ میں ٹونی کو داخل کیا گیا۔ اس کے پاس تالا توڑنے کے اوزار موجود تھے۔ اس کے پیچھے جیک ولن اور پھر سب سے آخر میں الزامور بھی داخل ہو گیا۔ الزامور کے دونوں ہاتھوں میں تیز پاور کے برقی ٹارچ جگمگار ہے تھے۔

لیکن چاروں کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ پولیس نے انہیں گھیرے میں لے لیا تھا۔ پولیس کے ساتھ وہ بڑھیا بھی موجود تھی جو سڑک کے ایک طرف بیٹھ کر بچوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں اور کھلونے فروخت کیا کرتی تھی۔

الزامور نے نہایت حیرت سے سپاہیوں کی طرف دیکھا لیکن کسی سپاہی کے جواب دینے سے قبل بڑھیا آگے بڑھ آئی۔ اس نے مسکرا کر چاروں مجرموں کی طرف دیکھا اور نہایت فاتحانہ انداز میں گویا ہوئی۔" میں نے ہی ان کو ٹیلیفون کیا تھا کہ یہاں کوئی شدید گڑ بڑ معلوم ہوتی ہے۔ اس شبہ کی وجہ یہ تھی کہ لوگ عام مزدورں کے مقابلے میں بے حد چست و چالاک دکھائی دیتے ہیں۔ تم نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ تم میں سے کسی نے ایک سگریٹ تک نہیں پیا۔ لنچ کے لیے بھی کام بند نہیں کیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ تمہارا فورمین ہر آدمی سے بڑی نرمی اور شا اہستگی سے گفتگو کر رہاتھا چنانچہ یہ بات ظاہر تھی کہ تم لوگ کسی ذاتی فائدے کے لئے کام کر رہے تھے ۔“

 

Original Title: A wise women

Written by: Selly Jeans

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق