افسانہ نمبر 637 : ہنر، تحریر : گی دے موپاساں (فرانس)، مترجم : لیاقت رضا جعفری
افسانہ نمبر 637 : ہنر
تحریر : گی دے موپاساں (فرانس)
بوڑھا ڈاکٹر اور اُس کی نوجوان مریضہ آتش دان کے قریب بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ جواں سال مریضہ کو کوئی خاص مسئلہ در پیش نہیں تھا بلکہ اُسے تو حسین خواتین والی معمولی تکالیف کا سامنا تھا مثلاً ذراسی خون کی کمی ، اعصابی تناؤ ، تکان کی بجائے شبۂ تکان وغیرہ۔ شاید یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نئے نویلے شادی شدہ جوڑے کی تکان اور کیوں نہ ہو۔ عموماً شادی کے پہلے مہینے کے بھر پور کھیل میں ایسی تھکن ہو ہی جاتی ہے۔
اُس وقت وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی اور کہہ رہی تھی۔
"نہیں ڈاکٹر ! میں کبھی بھی شوہر کو دھوکا دینے والی عورت کو نہیں سمجھ سکتی حتیٰ کہ میں اُسے یہ اجازت بھی نہیں دے سکتی کہ وہ اپنے شوہر سے پیار نہ کرے اور اپنے وعدے بھلا بیٹھے۔ بھلا وہ اپنا آپ کسی غیر مردکو کیسے سپر د کر سکتی ہے؟ وہ اپنی بے وفائی کو دوسرے لوگوں سے کیسے چھپا سکتی ہے؟ جھوٹ اور دھوکے کے سائے تلے عشق لڑانا کیسے ممکن ہے؟“
ڈاکٹر مسکرا دیا اور کہنے لگا ” یہ قطعی آسان ہے اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جب ایک عورت اپنے آپ کو ارزاں کرنے پر تل جاتی ہے تو وہ ان چھوٹی چھوٹی غیر محسوس تفصیلات پر بالکل نہیں سوچتی۔ حتی کہ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی عورت اُس وقت تک سچے عشق کے قابل نہیں ہو سکتی جب تک وہ ہر آئے گئے مرد کے ساتھ بالا تفریق فلرٹ نہ کرے اور ازدواجی زندگی کی اذیت سے نہ گزرے ۔ کسی سیانے نے ازدواجی زندگی کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ یہ زندگی دن کے وقت آپس میں بد زبانی کرنے اور رات کے وقت مصنوعی بو سے لینے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہی سب سے بڑی سچائی ہے کیوں کہ کوئی بھی عورت شادی شدہ ہوئے بغیر والہانہ محبت نہیں کر سکتی۔
اگر کھول کر بیان کیا جائے تو یوں ہے کہ ایسے مواقع کے لیے عورتوں میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہوتی ہے بل کہ سادہ ترین خواتین بھی حیران کن حد تک چال باز ہوتی ہیں اور بڑے غیر معمولی انداز سے خود کو خطرناک ترین صورت حال سے نکال لے جاتی ہیں۔ تاہم نوجوان لڑکیاں ایسے حالات میں خاصی مشکوک نظر آتی ہیں ۔“
"نہیں ڈاکٹر ! انسان ایسی صورتِ حال میں سے گزرے بغیر کبھی کچھ نہیں سوچ سکتا بل کہ اُس کو بعد میں خیال آتا ہے کہ اُسے یہ کرنا چاہیے تھا اور یہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور میری رائے میں اس قسم کے مواقع پر عورتیں ، مردوں کی نسبت بے وقوف ثابت ہوتی ہیں اور اپنے حواس کھو بیٹھتی ہیں۔“
ڈاکٹر نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا گویا ہوا، ” تم خود کہہ رہی ہو کہ جب یہ سب کچھ ہو جائے تب۔ اب میں تمہیں ایک ایسا واقعہ سناؤں گا جو میری ایک مریضہ کے ساتھ پیش آیا اور جسے میں مکمل طور پر بے عیب خاتون سمجھتا تھا۔
یہ واقعہ ایک قصبے میں پیش آیا۔ ایک رات کا ذکر ہے، میں بڑی گہری نیند میں غرق تھا اور تمہیں پتا ہے کہ ایسی نیند میں جانے کے بعد بے دار ہونا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ مجھے خوابوں میں ایسے محسوس ہوا کہ جیسے قصبے میں آگ لگنے کا اعلان کرنے والی گھنٹیاں شدت سے بجائی جارہی ہیں، میری آنکھ کھل گئی۔ یہ تو میرے اپنے گھر کی گھنٹی تھی جو بڑے زور وشور سےبج رہی تھی ۔ اب جب کہ میرا نو کر دروازے پر نہیں گیا تھا۔ میں نے اپنے سر پر لگی گھنٹی کھینچی ۔ جلد ہی میں نے اپنے خاموش گھر میں قدموں کی دھمک سنی۔ اس کے بعد جین نے مجھے آکر ایک خط تھما دیا۔
مادام لیلاٹور ، ڈاکٹر سائمن سے التجا کرتی ہیں کہ وہ فوراً اس کے پاس تشریف لے آئیں ۔
میں نے چند لمحوں کے لیے سوچا اور کہا۔
"اعصابی تناؤ ، بد ہضمی ، نان سینس ، میں تنگ آچکا ہوں ۔" اور پھر میں نے اُسےجواب لکھ کر دیا۔
"چوں کہ ڈاکٹر سائمن بہ ذاتِ خود صاحبِ فراش ہیں اس لیے وہ مادام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اُن کے دوست ڈاکٹر بونیٹ کو بلا بھیجیں ۔" میں نے لفافہ پر یہ نوٹ لکھا اور دوبارہ سو گیا۔
مگر آدھا گھنٹہ گزرا ہو گا کہ گھر کی گھنٹی پھر بجنے لگی اور جین نے میرے کمرے میں آ کر کہا کہ کوئی نیچے آیا ہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا وہ عورت ہے یا مرد۔ وہ اس قدر کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا وہ کون ہے؟ وہ آپ سے فورا ًبات کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ یہ دو افراد کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس پر میں نے اُسے کہا کہ اسے اندر لے آؤ۔ وہ اُسے اندر لے آیا جیسے ہی میرا نوکر کمرے سے باہر گیا۔ اُس گہرے سائے نے اپنے اوپر سے نقاب ہٹا دیا۔ وہ تو مادام برتھا لیلا ٹور بہ ذات خود تھی ۔ وہ خاصی نوجوان خاتون تھی اور تین سال سے ٹاؤن کے بھاری بھر کم سٹور مالک کے ساتھ شادی شدہ زندگی گزار رہی تھی ۔ وہ پورے اڑوس پڑوس کی خوب صورت ترین لڑکی سمجھی جاتی تھی۔
وہ خوف ناک حد تک زرد ہو رہی تھی ۔ اُس کا چہرہ بالکل پاگل لوگوں کی طرح کھچا ہوا تھا اور اُس کے ہاتھ بُری طرح کانپ رہے تھے۔ اُس نے دو مرتبہ بولنے کی کوشش کی مگر اس کے حلق سے آواز برآمد نہ ہوئی پھر آخر کار وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی” آئیے جلدی ، جلدی ، ڈاکٹر ! میرا محبوب ابھی ابھی میرے کمرے میں دم توڑ چکا ہے۔ " یہ کہہ کہ وہ چپ ہو گئی۔ اُس کا دم گھٹا جا رہا تھا۔ پھر وہ کہنے لگی ، جلدی کیجیے میرا شوہر کلب سے لوٹنے ہی والا ہے ۔“
میں نے یہ سوچے بنا اپنے بستر سے باہر چھلانگ لگا دی کہ میں نے صرف شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ میں نے چند ہی لمحوں میں کپڑے پہنے اور پھر اُس سے پوچھا کیا آپ کچھ دیر پہلے بھی آئی تھیں؟“
"نہیں ۔ " اُس نے کہا۔ اُس وقت وہ ایک خوف زدہ مجسمے کی مانند کھڑی ہوئی تھی ۔ "وہ میری نوکرانی تھی ، وہ سب کچھ جانتی ہے۔" اور پھر تھوڑی سی خاموشی کے بعد وہ کہنے لگی ، "میں وہاں تھی ، اُس کے پہلو میں ۔" اُس کے حلق سے ایک خوف زدہ ہچکی نکلی اور گھٹن کے حملے کے بعد وہ زور زور سے رونے لگ گئی اور در دبھری ہچکیاں لینے لگی۔ اس طرح تقریباً دو منٹ گزر گئے پھر اچانک اُس کے آنسو رک گئے ۔ مجھے ایسے لگا جیسے اندر کی آگ کی وجہ سے اُس کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور پھر وہ ایک المیہ سکون کی حالت میں گویا ہوئی ، "آئیں جلدی کریں۔"
میں تیار تھامگر میں اپنی بگھی تیار کروانا بھول گیا تھا۔
" کوئی بات نہیں میرے پاس بگھّی ہے۔ دراصل یہ میرے محبوب کی بگھّی ہے جو ہمارے گھر کے باہر تیار کھڑی تھی۔" اُس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر لپیٹ لیا اور ہم روانہ ہو گئے۔
جب وہ میرے ساتھ بگھّی کے اندھیرے میں بیٹھی ہوئی تھی تو اُس نے اچانک میرا ہاتھ زور سے بھینچ لیا اور اپنی نازک انگلیوں سے اُسے دبانے لگ گئی۔ اُس کے ٹوٹے ہوئے دل سے شکستہ سی آواز نکلی، " کاش ! آپ سمجھ سکتے ۔ کاش! آپ سمجھ سکتے کہ میں کس کرب سے گزر رہی ہوں ، میں اُسے چاہتی تھی ، میں نے ایک پاگل عورت کی طرح خود کوبھلا کر اُسے چاہا تھا اور گزشتہ چھے مہینے سے اُسے پیار کر رہی تھی ۔“
میں نے پوچھا ” کیا تمہارے گھر میں کوئی اور ہے؟“
" نہیں ، روز کے علاوہ کوئی نہیں ، وہ سب کچھ جانتی ہے۔“
ہم دروازے پر ٹھہرے۔ ظاہر ہے ہر کوئی سورہا تھا۔ ہم بے آواز قدموں کے ساتھ اندر داخل ہوئے اور اپنے پنجوں پر چلتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گئے ۔ خوف زدہ نوکرانی لاش کے پاس رکنے کی بجائے سیڑھیوں کے پاس موم بتی تھامے کھڑی کانپ رہی تھی۔ میں کمرے میں داخل ہو گیا وہاں ہر شے بکھری پڑی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے اُن کے بیچ خاصی زور آزمائی ہوئی ہوگی۔ بستر بکھرا پڑا تھا اور کھلا ہوا تھا جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔ ایک چادر فرش پر پھینک دی گئی تھی۔ بھیگے ہوئے تو لیئے واش بیسن کے پاس ہی پڑے ہوئے تھے۔ ان کی مددسے انہوں نے مردے کا ماتھا دھویا تھا۔ جب کہ اس وقت کمرے میں سرکے کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ مردہ آدمی کا جسم فرش پر لمبائی کے رخ پڑا ہوا تھا۔ میں اُس تک پہنچا، اُس کی طرف دیکھا اور اُسے چھوا۔ میں نے اُس کی آنکھیں کھولیں اور اُس کے ہاتھوں کو محسوس کیا پھر میں کانپتی ہوئی خواتین کی جانب متوجہ ہوا اور اُن سے کہا کہ اسے بستر تک اٹھانے میں میری مدد کریں ۔ جیسے ہی ہم اُسے بستر پر لٹا چکے ، میں نے اُس کے دل کی دھڑکن محسوس کرنے کی کوشش کی۔ اُس کے ہونٹوں پر عدسہ رکھتے ہوئے میں نے کہا "سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔آئیں جلدی سے اسے کپڑے پہنائیں ۔" یہ بڑا ہی خوف ناک منظر تھا۔
میں نے اُس کی ٹانگیں باری باری تھامِیں ۔ ایسے لگتا تھا جیسے یہ ایک بہت بڑی گڑیا کی ٹانگیں ہوں پھر عورتوں کے لائے ہوئے کپڑے میں نے اُن پر چڑھائے پھر اُنھوں نے اس کی جرابیں اُسے پہنائیں، زیر جامہ ، پینٹس ، واسکٹ اور آخرکار کوٹ ، مگر اس کےبازوؤں کو کوٹ میں ڈالنا خاصا مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔
جب اُس کے بوٹ کے بٹن لگانے کی باری آئی تو وہ دونوں خواتین جھک کر بیٹھ گئیں جب کہ میں شمع تھام کر کھڑا رہا۔ چوں کہ مردے کے پاؤں سوج چکے تھے اس لیے یہ بہت ہی کٹھن کام ہو چکا تھا۔ جب اُن کو بٹن کا ٹیک نہ ملا تو انھیں بالوں کی پنز استعمال کرنا پڑیں ۔ جب تکلیف دہ خدمت ختم ہوگئی تو میں نے اپنے کام کی طرف دیکھا اور کہا ” آپ ذرا اس کے بالوں کو ترتیب دے دیں ، لڑ کی گئی اور اپنی مالکہ کا بڑا کنگھا لے کر آئی ۔ مادام اپنے ہاتھوں سے اُس لاش کے بال سنوار نے لگ گئی، ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اُس کے بالوں کو سہلا رہی ہو۔ اُس نے بڑے پیار سے اُس کے بالوں کو علیحدہ کیا ، اُس کی ڈاڑھی میں کنگھی کی ، اپنی انگلیوں کے گرد اُس کی مونچھوں کو لپیٹا۔ بلاشبہ وہ باہمی ملاپ کے لذت فشار لمحوں میں اسی طرح سے محبوب کو لبھاتی رہی ہوگی ۔
اچانک اُس نے اپنے محبوب کے بال چھوڑ دئیے ، اس کے جھکے ہوئے سر کو اپنے ہاتھوں سے تھام لیا اور اُس مردہ چہرے کی جانب بڑی مایوس نگاہوں سے دیکھنے لگ گئی۔ اب وہ چہرہ اپنی محبوبہ کو دیکھ کر مسکرا نہیں سکتا تھا۔ اب اُس نے اپنے آپ کو اس لاش پر گرا دیا اور اُسے اپنے بازوؤں کے حلقے میں مضبوطی سے لے کر اُس کے دیوانہ وار بو سے لینے لگی۔ یہ بو سے اُس کے مردہ منہ، آنکھوں ، پیشانی ، اور ابروؤں پر ملکوں کی طرح برس رہے تھے۔ اس دوران میں وہ اپنے ہونٹ اُس کے کانوں پر رکھ دیتی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ اس کی سرگوشیوں کوسن رہا ہوں۔ اس دوران میں وہ بڑی وارفتگی کے ساتھ اس سے چمٹی ہوئی تھی پھر اُس نے کئی مرتبہ دل کو مسل دینے والی آواز میں کہا ” الوداع میرے محبوب !!! الوداع !!"
عین اس لمحے کلاک نے بارہ بجے کا اعلان کیا اور میں نے اپنا کام شروع کر دیا۔
بارہ بج گئے ہیں ۔ میں نے کہا ” اس وقت کلب بند ہو جاتا ہے۔ آئیے مادام ! اب ہم ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کر سکتے ۔“
وہ تیار ہو گئی پھر میں نے کہا "ہمیں اسے ڈرائنگ روم تک اُٹھا کرلے جانا ہو گا ۔“
جب ہم یہ کر چکے تو میں نے اُسے ایک صوفہ سیٹ پر لٹا دیا اور بعد ازاں فانوس روشن کر دیا اور پھر اسی لمحے باہر کا دروازہ کھلا اور زور سے بند ہوا۔ شوہر گھر لوٹ چکا تھا اور میں نے کہا۔
"روز میرے پاس تو لیے اور پانی لے کر آؤ تا کہ کمر ا مصروف مصروف نظر آئے۔ خدا کے لیے جلدی کرو۔ موسیو لیلا ٹو را اندر آ رہا ہے۔" میں نے سیڑھیوں پر اُس کے قدموں کی چاپ سنی اور اُس کے ہاتھوں کو دیوار سے لگتے محسوس کیا۔ میں نے کہا ” ادھر آؤ میرےدوست ہمارے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا ہے۔ "اور پھر منہ میں سگار دبائے حیران و پریشان شوہر دروازے سے نمودار ہوا۔ وہ کہنے لگا ” کیا مطلب؟ کیا ہوا ہے؟“
"میرے دوست ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔" میں نے اُس کی جانب بڑھتے ہوئے کہا ” آج مجھے آپ کی اہلیہ اور اپنے دوست کے ساتھ یہاں گپ شب کرتے ہوئے دیر ہو گئی تھی۔ وہی مجھے اپنی بگھی پر یہاں لایا تھا پھر موصوف یہاں پر اچانک بے ہوش ہو گئے ۔ اب ہماری تمام تر کوشش کے باوجود وہ گزشتہ دو گھنٹوں سے بے ہوش ہے۔ میں نے اجنبیوں کو اس وقت بلانا مناسب نہیں سمجھا۔ اب اگر آپ اسے نیچے اُٹھا کر لے جانے میں میری مدد کریں تو میں اس کے گھر میں اس کی بہتر دیکھ بھال کر سکتا ہوں ۔“
شوہر اس وقت بالکل غیر مشکوک اور حیران تھا۔ اُس نے اپنا ہیٹ اُتار دیا پھر اس نے اپنے رقیب کو اپنی بانہوں میں بھر لیا کیوں کہ اب وہ رقیب مستقبل میں اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ میں اُس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان گھوڑے کی طرح ہولیا۔ اس طرح ہم سیڑھیاں اتر گئے اور اس دوران میں اُس کی بیوی نے شمع جلائے رکھی۔
جب ہم باہر آگئے تو میں نے اُس لاش کو سیدھا بٹھا دیا تا کہ بگھّی والے کو دھوکا دے سکوں اور پھر میں نے کہا ،"آؤ میرے دوست ! کچھ نہیں ہوا، مت گھبراؤ ، میرا خیال ہے اب تم پہلے سے بہتر محسوس کر رہے ہو۔ اپنی ہمت جمع کرو۔ کوشش کرو ، ابھی گھبراہٹ ختم ہو جائے گی۔ مگر جب میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے ہاتھوں سے پھسل رہا تھا تو میں نے اُس کے کندھے پر تھپڑ مار دیا۔ جس نے اُسے آگے کی جانب دھکیل دیا اور وہ بگھی کے اندر گر گیا۔اس کے بعد میں بگّھی کے اندر داخل ہو گیا۔
موسیو لیلا ٹو ر اس وقت خاصا محتاط تھا۔ وہ کہنے لگا، "تمہارا کیا خیال ہے کوئی مسئلے والی بات تو نہیں ہے؟" اس پر میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔ "نہیں ۔" اس دوران میں نے مادام کی جانب دیکھا ، اُس وقت وہ اپنے مجازی خدا کی کمرمیں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی اور بگھی کے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
میں نے دونوں کے ساتھ مصافحہ کیا اور کو چوان کو روانہ ہونے کے لیے کہا۔ سارے سفر کے دوران میں وہ مردہ میرے اوپر گر رہا۔ جب ہم اُس کے گھر پر پہنچے تو میں نے اہلِ خانہ کو بتایا کہ وہ راستے ہی میں بے ہوش ہو گیا تھا پھر میں نے اُسے اوپر کمرے میں لے جانے میں مدد کی۔ وہاں جاتے ہی میں نے اُس کی موت کی تصدیق کر دی اور پھر میں غم زدہ خاندان کے آگے ایک اور ناٹک کرتے ہوئے انھیں دلا سے دئیے ۔ آخر کار میں اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا اور اُس وقت میں محبت کرنے والوں کی قسم کھانے کے قابل ہو چکا تھا ۔
اب ڈاکٹر خاموش ہو گیا اگر چہ وہ اب بھی مسکرائے جا رہا تھا اور نوجوان خاتون اُس وقت خاصی پریشان کن صورت حال میں نظر آرہی تھی۔ وہ کہنے لگی ، "آخر آپ نے مجھے اتنی درد ناک کہانی کیوں سنائی ہے؟“
ڈاکٹر نے بڑی مردانہ وجاہت کے ساتھ اپنا سر ادب سے جھکایا اور کہنے لگا ، "وہ اس لیے کہ اگر آپ کو ایسی صورتِ حال درپیش ہو تو میں اپنی خدمات آپ کو پیش کر سکوں ۔“
English Title : An Artifice
Written by:
Guy de Maupassant ( 5 August 1850 – 6 July 1893) was a 19th-century French author, celebrated as a master of the short story, as well as a representative of the naturalist school, depicting human lives, destinies and social forces in disillusioned and often pessimistic terms.
Comments
Post a Comment