ہاروکی موراکامی (جاپان) کا افسانہ : آزاد عضو (An Independent Organ)

 

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 501 : آزاد عضو

تحریر : ہاروکی موراکامی (جاپان)

مترجم : اسماء حسین (امریکہ)



دنیا میں ایسے  لوگ  بھی ہیں جو –   کج فہمی  کے باعث – ا یسی زندگی  گزارتے ہیں جو حیرت انگیز طور پر مصنوعی ہے۔   میرا کچھ  زیادہ  لوگوں سے تو   واسطہ نہیں پڑا  ، لیکن    یقیناً ایسے لوگ موجود  ہیں اور ڈاکٹر تو کائی   ان میں سے ہی  ایک تھا۔

ان نام نہا د  اصول پرست  انسانوں   کو  اس   گنجلک  دنیا میں  زندہ  رہنے  کے لیے ،  ہر  روز      احتیاط سے          خود کو  زندگی  سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے  ، مگر   زیادہ تر      کیسز میں  یہ لوگ   شعوری طور پر لاعلم ہوتے ہیں کہ اس طرح  جینے کے  لیے   تکلیف دہ  حد تک ہوشیاری     ضروری ہے ۔ ایسے  لوگوں کو پورا  یقین ہو تا ہے کہ وہ   انتہائی   بھولے بھالے  لو گ ہیں جو  کسی قسم کے مذموم مقاصد  یا   مکر و حیلہ   کے بغیر     دیانت داری سے  زندگی  گزارتے ہیں ۔اور جب   ، اتفاقاً    ان  پر انکشاف  ہوتا  ہے  کہ ان کی زندگی کے  معاملات  حقیقت میں کتنے  مصنوعی اور غیر حقیقی ہیں ، تو حالات درد ناک ، یا کچھ   کیسز  میں مضحکہ خیز موڑ لے  سکتے  ہیں ۔ یقیناً  ،ایسے  بھی بہت سے  لوگ ہیں –  جنہیں ہم     خوش نصیب لوگ کہے سکتے ہیں – جن  پر    یہ حقیقت   منکشف  نہیں ہوتی  یا جن پر ہوتی ہے  وہ اسے خاطر میں نہیں لاتے ۔

میں وہ سب کچھ  قلمبند  کرنا چاہوں گا جو  میں  اس آدمی، ڈاکٹر تو کائی  کے متعلق جانتا ہوں ۔ ان میں سے زیادہ تر وہ باتیں ہیں  جو اس نے مجھے خود بتائی  تھیں  ، مگر کچھ حصّے  ان معلومات پر  مشتمل ہیں جو مجھے اس کے قریبی  ،اور قابل بھروسہ لوگو ں نے فراہم کیں ۔   البتہ   کچھ  باتیں      قیاسات  پر مبنی  ہیں جو میں نے مشاہدے سے اخذ کی ہیں  ،  اور  شاید  میں انہیں  سچ  سمجھتا   ہوں     ،حقیقت کی  پرتوں کے  درمیان سلیقے سے  بھرے ہوئے   مصالحے کی طرح  ۔دوسرے الفاظ میں میری  تحریر سے  ڈاکٹر توکائی کی  جو       تصویر  ابھرتی ہے وہ مکمل طور پر حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اس  تحریر  کے مصنف کی حیثیت سے ، میں  قاری  سے  یہ  نہیں  کہہ  سکتا کہ وہ  اس تحریر کو کسی  عدالت  میں پیش کیا گیا ثبوت      سمجھے    ، یاکار وبا ر ی   لین دین   کے لئے  تحریر کیا گیا معاہدہ   جانے (بھلا  بتاو ! یہ کسی قسم کی کاروباری   سودے  بازی بھی  ہو سکتی  ہے ، میں نہیں جانتا)۔

لیکن اگر آپ آہستہ آہستہ کچھ قدم پیچھے ہٹیں  (ذرا پہلے     یہ  اطمینان کر لیں کہ آپ کسی کھائی  کے کنارے       پر تونہیں  کھڑے  ) اور یہ تصویر  دور سے دیکھیں   تو  مجھے یقین ہے کہ آپ  سمجھ جائیں گے کہ ہر چھوٹی  سی تفصیل کی صداقت  واقعی اتنی اہم نہیں ہے۔ سب سے  اہم  یہ ہے کہ ڈاکٹر توکائی کی ایک واضح تصو   یر ابھرنی چا ہئے۔ بحثیت  مصنف ، کم از کم ،  مجھے یہی  امید   ہے ۔توکائی ، مختصرالفاظ میں –  بہتر طور پر کیسے            کہا جائے ؟ – وہ   اس قسم کا شخص نہیں تھا  جس کے متعلق   بہت زیادہ  غلط فہمیاں    ہونے  کی گنجائش    ہوتی  ہے۔

ایسا نہیں  کہ وہ  سادہ   سا اور  کھلی  کتاب  کی مانند     انسان تھا ۔ چند لحاظ سے وہ ایک پیچیدہ ، پر ت  دار، عسیر الفہم شخص  تھا۔ اس کے تحت ا  لشعور میں کونسی تاریکی     بسی  تھی  ، یا   کن گناہوں کا  وہ بوجھ      لادے ہوئے  تھا، یہ جاننے کا میرے پاس  کوئی طریقہ نہیں تھا  ۔  پھر بھی ، اس کی  پختہ عادات کی  بنیاد پر   اس کی مجموعی طور  پر  درست تصویر بنانا    نسبتا آسان ہے،  پیشہ ور ادیب  کی حیثیت سے   یہ  میرا مفروضہ  بھی ہو سکتا  ہے   ، لیکن اُس وقت    مجھے ایسا ہی لگتا  تھا ۔

باون سالہ  تو کائی  نے نہ  کبھی شادی   کی  نہ کبھی کسی عورت کے ساتھ   رہا۔  وہ   ٹوکیو  کی  ٹونی ا یز ابو ڈسٹرکٹ  کی   ایک خوبصورت عمارت  کی چھٹی منزل پر دو  بیڈ روم کے اپارٹمنٹ میں رہتا  تھا  ۔ آپ  کہے سکتے ہیں  کہ وہ    ایک مستند کنوارا  تھا ۔  وہ گھر کے زیادہ تر کام کاج خود   کرتا  تھا – کھانا پکانا ، کپڑے  دھونا  ، استری ، صفائی ستھرائی – اور باقی کام   گھروں کی   صفائی  کرنے والے پیشہ  ور   افراد مہینے میں دو مرتبہ آ کر  نبٹا جاتے   تھے   ۔ بنیادی طور پروہ   ایک  نفیس آدمی تھا لہذا  اس کے  گھر کو صاف  کرنا  مشکل  کام نہیں  تھا ۔جب ضروری ہو تا وہ مزیدار  کاک ٹیل  بنا سکتا  تھا اور  نکوجاگا[1] [1]    اسٹو   سے لے کر  سمندری    این پیپیلوٹا [2][2]  تک بہت سے  پکوان پکا لیتا   تھا(کھانا پکانے سے لطف اٹھانے والے زیادہ تر افراد کی طرح  ، وہ خرچ کرنے میں کوئی  کنجوسی نہیں  کرتا تھا ، اس لیے  ہمیشہ   بہترین  اجزاء  کا استعمال  کرکے کھانے  تیار کرتا تھا  جو     بہت  لذیز  ہوتے  تھے ۔) اسے کبھی   احسا  س نہیں  ہواکہ اسے گھر میں ایک   عورت کی ضرورت ہے ،  وہ کبھی  تنہا وقت گزارنے سے    بیزار نہیں ہوااور       نہ کبھی اکیلا سونے کی وجہ سے     خود کو تنہا  محسو س کیا   ۔ مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔

وہ ایک کاسمیٹک پلاسٹک سرجن تھا اور  رو پونجی  میں بیوٹی کلینک چلاتا  تھا  ، جو اسے اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا۔  ظاہر  ہے  یوں  اس کے پاس   خواتین سے  ملنے کے بے شمار مو اقع   تھے ۔شکل وصورت  ایسی نہیں تھی  جسے آپ خوبصورت کہیں  ، لیکن  معقول  نین نقش تھے  – اس نے خود کبھی پلاسٹک سرجری کروانے کا نہیں سوچا – اور  چونکہ کلینک بہت  کامیابی  سے چل  رہا  تھا  ، لہذا   آمدنی   بھی  اچھی ہوتی تھی ۔ اچھا اخلاق ، بہتر  ین پرورش  اور    کلچر  میں گہری دلچسپی کے ساتھ  اس  کے  پاس   موضوعات  کی  کمی نہیں ہوتی تھی ۔ اس کے سر پر  گھنے بال تھے (اگرچہ  کچھ سفید بال    نمودار ہونا  شروع ہو  گئے تھے  )  اگرچہ         وزن بڑھ رہا  تھا  ، لیکن جم میں باقاعدگی سے ورزش       اسے     جوانوں جیسا    جسم  رکھنے میں مدد دیتی  تھی ۔  لوگ اس صاف گوئی پر منفی رائے   دے سکتے ہیں ، مگر   اس کے پاس  ڈیٹنگ    کے لیے  خواتین کی کبھی کمی نہیں رہی تھی ۔

کسی وجہ سے ،اس نے     جوانی    میں ہی         شادی    نہ کرنے اور     خاندان  نہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔  اس کو یقین تھا کہ وہ  شادی شدہ زندگی کے  لیے   موزوں  نہیں ہے ۔اس لیے  کوئی عورت چاہے کتنی ہی  خوبصورت کیوں نہ     ہو  ، لیکن اگر وہ  مستقل ساتھی کی   متلاشی  ہوتی ، تو  ڈاکٹر  تو کائی    ایسی خاتون  سے فاصلہ   قائم کر  لیتا  تھا ۔ لہذا  جو خواتین  وہ   بطور گرل فرینڈ  منتخب کرتا  وہ یا تو پہلے سے شادی شدہ  ہوتیں    یا   کوئی  دوسرا    آدمی    ان کا  اصل بوائے  فرینڈ  ہوتا  ۔  جب تک وہ  محتاط  رہا، اس کی کسی  گرل فرینڈ   کو اس سے شادی کرنے کی خواہش نہیں ہوئی  ۔ مزید احتیاط کے لیے ، توکائی  ہمیشہ   عارضی اور   نمبر دو  آشنا ہوتا تھا،  مشکل  وقت  میں  موزوں  بوائے فرینڈ ، یا وقت گزاری  کے لیے  کار آمد   ساتھی اور سچ  تو یہ  ہے کہ  توکائی ایسے   ہی تعلقات میں    آسانی محسوس کرتا تھا ، اس کے لیے خواتین کے ساتھ رہنے کا  یہ سب سے باسہولت طریقہ تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور تدبیر – جس میں  عورت  کسی  مستقل  ساتھی  کی تلاش میں ہوتی  – اسے مضطرب     اور پریشان   کردیتی تھی ۔

اسے اس بات سے کوئی   مسئلہ نہیں تھا کہ یہ  خواتین  اس کے علاوہ بھی دوسرے مردوں سے ہم بستری کرتی ہیں ۔ بطور  ڈاکٹر وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا   کہ  جسمانی تعلقات آخر جسمانی تعلقات ہی ہوتے ہیں، اور جن خواتین سے اس کے تعلقات ہوتے تھے وہ بھی ایسا ہی  سمجھتی تھیں۔ توکائی بس یہ  توقع  رکھتا  تھا کہ جب  کوئی  عورت اس کے ہمراہ    ہو تو اس کے ذہن میں  توکائی کے  سوا کسی کا خیال  موجود نہ ہو ۔  اُس  کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد  وہ اور کیا کرتی ہے  ،کیا سوچتی ہے یہ اس عورت کا ذاتی معاملہ ہے، اسے    اندازے لگانے کی قطعاً   ضرورت نہیں تھی ۔ اپنے ذاتی تعلقات   کے دائرے  سے  باہر   ان کی  زندگیوں میں مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا تھا۔

توکائی کے لیے ، ان خواتین کے ساتھ کھانا کھانا، شراب پینا اور گفتگو  کرنے میں ایک        الگ   ہی لطف تھا ۔ہم بستری  صرف  اضافی مزہ تھا، لیکن    حتمی مقصد نہیں۔ وہ بس ، پرکشش  خواتین  کے ساتھ ذہنی ربط  کی تلاش میں ہوتا تھا۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا  ، بس ہو جاتا تھا۔ اسی  با عث خواتین اس کی جانب  مائل  ہو تی تھیں ، اس کے ساتھ وقت گزار  کر لطف اندوز ہوتیں اور بسا اوقات خود ہی پہل کرتی تھیں ۔میرے خیال میں دنیا میں  زیادہ تر خواتین (خاص  طور پر    خوبصورت ) ان مردوں سے  بیزار   ہوتی ہیں جو  ہمیشہ انہیں    صرف    بستر میں لے جانے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔

توکائی کبھی کبھی  سوچتا تھا کہ اسے ان تمام خواتین کا ریکارڈ رکھنا چاہیے  تھا ،جن سے اس کے پچھلے تیس سالوں میں تعلقات رہے تھے۔ لیکن   تعداد میں اسے  کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔تجربے کا معیاری ہونا  مقصد تھا۔   خواتین  کے جسمانی خدوخال      میں بھی اس کی  کوئی خاص پسند یا ترجیح نہیں تھی ۔ اس کے لیے بس  اتنا ہی   کافی تھا  کہ  خاتون  میں کوئی ایسی بڑی خامی نہ ہو  جو   توکائی  میں پیشہ ورانہ دلچسپی بیدار کردے، یا صورت  اتنی بیزار کن نہ ہو کہ وہ جمائیاں   لینے  پر مجبور  ہو جائے۔ اگر آپ اپنی شکل وصورت کی وجہ سے پریشان ہیں اور آپ کے پاس پیسے بھی ہیں تو  آپ جیسا چاہیں اپنا حلیہ تبدیل کروا سکتے ہیں (اس شعبے کا ماہر ہونے کی وجہ سے وہ بہت سی بہترین  مثالیں دے  سکتا تھا)وہ عورت میں  شکل و صورت  کے  بجائے ذہانت ، حاضر دماغی اور اچھی حس مزاح کو ترجیح دیتا تھا۔ اگر  کسی   خو بصور ت عورت    کے پاس  بات  کرنے کے لیے کوئی  موضوع نہ  ہو تا،  یا اپنی کوئی  ذاتی رائے نہ ہوتی  تو ڈاکٹر توکا ئی      مایوس ہوتا تھا۔ کوئی آپریشن کبھی   کسی عورت کی ذہنی صلاحیتیں بہتر نہیں بنا سکتا۔ڈنر پر  کسی ذہین عورت سے خوشگوار  گفتگو کرنا ، یا بستر پر دیر  تک  ایک دوسرے کی بانہوں میں   گپ شپ کرنا – یہ  وہ لمحات   ہوتے تھے جنہیں وہ   قیمتی سمجھتا تھا۔

اچھی بات یہ تھی  کہ اسے    خواتین کے ساتھ ایک بار بھی کوئی بڑا  مسئلہ نہیں ہوا تھا   ، کیونکہ وہ    طویل جذباتی  جھگڑوں   سے  کوسوں دور رہتا تھا۔ جب کبھی  کسی وجہ سے   تعلقات میں خرابی کے امکانات  سر پر منڈلانے لگتے  تو وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ایسے رشتے سے کیسے جان چھڑانی ہے، وہ بھی اس احتیاط   کے ساتھ  کہ حالات مزید نہ بگڑیں  اور خاتون  کی بھی دل آزاری نہ ہو ۔ وہ  ایسا اتنی تیزی اور فطری انداز سے کرتا تھا ، جیسے  چاندنی میں  کوئی سایہ گزر جائے۔ ایک تجربے کار کنوارے کی حیثیت سے وہ ضروری حکمت عملی اور تدبیروں  سے اچھی طرح لیس تھا۔ و ہ مسلسل/ گاہے بگاہے  اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ  تعلقات  قطع  کرتا  رہتا تھا۔ زیادہ تر ان خواتین کے ساتھ جن کے اس کے علاوہ بھی بوائے فرینڈ ہوتے تھے،تعلقات  کے  کسی  مقام  پر  وہ    خواتین اس سے کہتیں ، "مجھے بہت افسوس ہے ، میں اب مزید  تم سے نہیں مل سکتی۔ میری شادی  ہو رہی ہے۔"زیادہ تر کیسز  میں وہ   شادی کا اعلان    اس وقت کرتیں جب  تیس یا چالیس  سال کی ہونے    والی ہوتیں ۔ بالکل  کلینڈرز کی طرح جو  سال کے  اختتام پر زیادہ  فروخت ہوتے ہیں۔ توکائی     یہ خبر   ہمیشہ افسردگی سے  سنتا۔"یہ بہت افسوس کی بات ہے لیکن تم کر بھی کیا سکتی ہو؟ "شادی خود  اس کے لیے  موزوں نہ سہی لیکن  اس کے باوجود اس کے نزدیک شادی ایک مقدس ادارہ تھی ، جس   کا   احترام لازم تھا۔

ایسی صورت حال میں وہ خاتون کے لیے  شادی کا  مہنگا سا تحفہ خریدتا  اور اسے پیش کر تے ہوئے کہتا، " شادی مبارک ہو۔  تم ایک ذہین اور خوبصورت عورت ہو۔ میں امید کرتا ہوں  کہ تم خوش رہو – جس کی تم مستحق ہو۔"  اور وہ   واقعی ایسا ہی محسوس کرتا تھا۔ ان خواتین  نے اپنی  زندگی کا قیمتی حصہ  اس کے ساتھ گزارا تھا ،   وہ   اسی  کو    سچی  محبت   سمجھتا تھا، اور اسے کچھ گرم جوش ، خوشگوار لمحات مہیا کیے تھے ۔  وہ صرف ان کا انتہائی   شکر گزار تھا۔ وہ ان سے اور مانگ بھی کیا سکتا تھا؟

لیکن تقریباً ایک تہائی  وہ خواتین  جو شادی کے  مقدس بندھن میں بندھ چکی ہوتی تھیں، کچھ برس  بعد ، توکائی  کو فون کر کے اس سے دوبارہ ملنے کی خواہش ظاہر کرتیں  اور وہ ہمیشہ کی طرح خوشی سے  ایک خوشگوار – یقیناً مقدس ہرگز نہیں – تعلق بنانے کے لیےتیار ہوجاتاتھا۔     یوں ان کا تعلق دو چھڑے    انسانوں کے  وقتی رشتے سے  ایک کنوارے    آدمی  اور شادی شدہ عورت کے  پیچیدہ رشتے میں تبدیل ہو جاتا –    اور یوں یہ  تعلق مزید پُر لطف    ہو جاتا تھا۔ دراصل  وہ  آپس میں  جو کچھ بھی  کرتے وہ  سب تقریباً وہ ہی  ہوتا تھا جو پہلے کرتے تھے ،  مگر  اب  تھوڑی  زیادہ  مہارت سے  ۔ بقایا  دو تہائی خواتین  جو شادی کر لیتی تھیں  وہ پھر کبھی رابطہ نہیں کرتیں اور وہ بھی  ان سے  دوبارہ کبھی نہیں ملتا۔ وہ سب ہنسی خوشی ، مطمئن  شادی شدی    زندگی گزار رہی ہوں گی ،  وہ   گمان  کرتا ،   بطور اچھی  بیویاں ،  وہ تصور کرتا ،  کئی  بچوں کے ساتھ ۔ اگر ایسا ہی تھا تو ڈاکٹر  توکائی   ان کے لیے خوش تھا۔اور شاید  اس لمحے بھی کوئی بچہ ان  خوبصورت    چھاتیوں سے  چمٹا دودھ پی رہا ہو،  جنہیں  وہ پیار سے چھوا کرتا تھا۔

تو کائی کے زیادہ تر دوست  شادی شدہ اور بال بچے دار تھے ۔   وہ     کئی بار  ان کے گھروں میں  جا چکا تھا ، لیکن اس نے   کبھی ایک بار بھی   ان دوستوں پر رشک نہیں    کیا۔ جب ان کے  بچے چھوٹے  تھے  اسے پیارے لگتے تھے ، لیکن جب وہ جونئیر ہائی یا ہائی اسکول میں  پہنچ  جاتے    تو سب   بد تمیز ہو جاتے  ، بڑوں سے  نفرت  کرنے لگتے اور ماں باپ  کے خلاف بغاوت  کرنے کی کوششوں  میں  ان کے لیے مسائل کا انبار کھڑا کر دیتے   اور    سنگدلی  سے  اپنے ماں باپ  کے  صبر اور حوصلوں کا امتحان لیتے رہتے  تھے ۔ بے چارے والدین  صرف  اولاد  کی تعلیمی کار کردگی  کا سوچتے رہتے،  یا   یہ کہ کیسے  انہیں  اعلیٰ اسکولوں میں داخل کرایا  جائے   ،    یوں  بچوں  کے  بُرے تعلیمی نتائج، بچوں اور   ماں باپ    کے درمیان ایک  پیہم کشمکش   کا باعث بنے رہتے  تھے ۔ بچے     گھر وں  میں  بات چیت  کرنے  کہ  بجائے  اپنے   کمروں میں دُبکے  دوستوں سے آن لائن چیٹنگ  کرتے تھے  یا  مضر صحت   ننگی فلمیں دیکھنے کے عادی ہو جاتے تھے  ۔ توکائی  اس قسم کی اولاد  کے بارے میں سوچ بھی نہیں  سکتا  تھا ۔  اس کے تمام  دو ست   مصر تھے کہ    جو کچھ  بھی ، بہرحال صاحب اولاد ہونا  بڑی نعمت ہے ، لیکن     توکائی پر ان کی    باتوں  کا    کوئی اثر نہیں   ہو تا تھا  ۔ غالباً وہ لوگ  یہ چاہتے تھے  کہ توکائی بھی  ان کی طرح  بوجھ گھسیٹتا پھرے۔ وہ سب  خود غرضی   سے اس بات پر یقین رکھتے تھے  کہ  دنیا میں ہرکس و ناکس  کو   اسی طرح   مصائب  جھیلنےچاہییں  جیسے  خود انہوں نے   بھگتے    تھے  ۔

خود میں نےنو جوانی میں شادی کی  اور   اب تک  شادی شدہ   ہوں ، لیکن میرے بچے نہیں ہیں   ۔ اس لیے میں  کسی حد تک  اس کا نقطہ نظر سمجھ سکتا ہوں ، مگر میں اسے   تھوڑی      سادہ ،مبالغہ آرائی     گردانتاہوں ۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ  ہو سکتا ہے وہ درست ہو۔  مگر ،ظاہر  ہے ،  تمام کیسز  میں معاملات اس قدر   خراب  نہیں ہوتے ۔ اتنی بڑی اس دنیا میں  کچھ  ایسے اچھے    اور خوش و خرم خاندان   ہیں جہاں  والدین اور بچوں میں  قریبی  اور گرم  جوش تعلق قائم ہے – مگر یہ صورت حال   اتنی ہی عام ہے جیسے فٹ بال میں ہیٹ ٹرکس۔لہذا  مجھے  قطعاً  اعتماد نہیں کہ  میں ان نایاب اور    مسرور  والدین میں سے ایک ہو سکتا ہوں ، اور  میں سمجھتا ہوں کہ توکائی بھی  ایسا ہی سوچتا تھا۔

غلط سمجھے جانے کا خطرہ  مول لیتے ہوئے  ، میں توکائی  کو ایک خوش  مزاج   انسان کہوں گا۔ وہ چڑچڑا نہیں تھا، احساس کمتری  کا شکار یا    کینہ پرور  نہیں تھا ،   حد سے  زیادہ کوئی  تعصب یا  غرور نہیں  تھا،کسی خاص  قسم کے  خبط میں مبتلا   نہیں  تھا،   ضرورت  سے زیادہ  حساس  نہیں تھا، نہ کسی قسم کے   راسخ سیاسی   خیالات  تھے۔ بظاہر ،  کم از کم ، اس میں ایسی  علامات نہیں  تھیں جنہیں  آپ ایک   غیر مستحکم شخصیت      کا وصف  کہہ  سکیں ۔ اس کے آس پاس  کے لوگ  اس کی  صاف گوئی،  شائستہ آداب ، خوش مزاجی ، مثبت   رویے اور  بے تکلف شخصیت کو پسند کرتے تھے ۔ اور توکائی  نے اپنی یہ خوبیاں زیادہ  تر خواتین پر موثر انداز میں   آزمائی تھیں – دنیا کی آدھی آبادی پر  ۔ وہ جس  پیشے  سے  تعلق رکھتا  تھا ، اس میں خواتین   کے  ساتھ مہربانی ،   خوش اخلاقی  جیسی خوبیاں     ضروری     تھیں اور توکائی  میں  یہ فطری   طور پر موجود تھیں  –بالکل    پیدائشی   خوبیوں  کی طرح، جیسے خوبصورت آواز ، یا لمبی انگلیاں ۔  اسی وجہ سے (اورظاہر ہے کیونکہ وہ ایک   لائق  سرجن تھا) اس کا کلینک خوب  ترقی  کر  رہا  تھا۔ اس نے کبھی   اشتہارات کی مدد نہیں   لی ، اس کے باوجود   اس     کا   شیڈول ،اپائینمٹس  سے  ہمیشہ     پُر ہو تا تھا  ۔

جیسا کہ میرے  قارئین جانتے ہیں  کہ   توکائی  جیسے  خوش اخلاق لوگ عموماً  سطحی،   عام سے   اور بیزار کن ہوتے ہیں ۔مگر اس       میں  ایسی   کوئی   بات    نہیں  ہو تی تھی ۔ ویک اینڈز  پر مجھے اس کے ساتھ   بئیر پیتے ہوئے ایک آدھ گھنٹہ گزارنا اچھا لگتا تھا۔ موضوعات  کی فراوانی  کے ساتھ  وہ      انتہائی  خوش گفتار  تھا۔ اس کی حس مزاح   کسی پیچیدگی کے بغیر ہمیشہ  سیدھی  سادی ہوتی تھی ۔ اس نے مجھے  پلاسٹک سرجری کی پس پردہ  دلچسپ کہانیاں  (ظاہر ہے ہمیشہ  کلائینٹ کا  پردہ رکھتے ہوئے)سنائیں تھیں  اور  خواتین  سے متعلق  متعدد دلچسپ   انکشافات کیے تھے ۔ لیکن کبھی ایک بار  بھی ،       سوقیانہ   انداز اختیار نہیں    کیا   ۔ وہ ہمیشہ اپنی   خواتین دوستوں  کا ذکر بہت محبت اور احترام سے کرتا ، اور ان کی نجی معلومات  راز  رکھنے کا خاص خیال رکھتا تھا۔

"ایک   شریف  آدمی  اپنے  ادا کردہ ٹیکسز اور     اپنی ہم بستر خواتین کے متعلق باتیں نہیں کرتا۔" ایک بار اس نے مجھ سے  کہا تھا۔

"یہ کس نے کہا  ہے؟" میں نے پوچھاتھا۔

"میں نے کہا ہے ۔"  اس نے  جواب دیا تھا، اس کے تاثرات  تبدیل نہیں ہوئے تھے ۔ " ہاں  ، کبھی کبھی  مجھے اپنے اکاونٹینٹ   سے  ٹیکسز  کے بارے میں  بات کرنی پڑتی ہے۔"

توکائی       بیک وقت   دو تین   گرل فرینڈز    رکھنے میں کوئی     قباحت   نہیں  سمجھتا  تھی ۔ یہ خواتین  یا تو شادی شدہ ہوتیں تھیں  یا  ان کے     اور دوسرے   بوائے فرینڈز ہوتے تھے ، جن کے  شیڈول کو اولیت  حاصل تھی ، جو    وقت باقی   بچتا  ، وہ توکائی  ان کے ساتھ گزارتا تھا۔ اس کے  خیال میں   کئی گرل فرینڈز  رکھنا  فطری  عمل تھا ، اور  اس نے  اس طرز عمل کو  کبھی بے وفائی  نہیں سمجھا ۔ پھر بھی ، اس نے کبھی   کسی  ایک گرل فرینڈ کو دوسری کے  متعلق نہیں بتایا تھا،  اور ضرورت کے تحت  جاننے    کی  پالیسی پر  سختی  سے کاربند  رہتا تھا۔

توکائی  کے کلینک میں اس کے پاس  ایک ماہر مرد سیکرٹری تھا جس نے اس کے ساتھ  برسوں    کام کیا تھا۔  سالوں  سے اس شخص نے توکائی  کے پیچیدہ شیڈول کو ایک تجربہ کار ہوائی ٹریفک کنٹرولر  کی طرح  سنبھالا  ہوا تھا۔ نہ صرف  وہ  توکائی  کے  پیشہ ورانہ  شیڈول ترتیب دیتا  تھا، بلکہ وقت  گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی    ڈیٹنگ  کی  تاریخیں   سنبھالنے کا کام  بھی اس کے حصے میں   آگیا تھا۔ وہ توکائی کی نجی زندگی  کی ہر رنگین تفصیل جانتا تھا ،لیکن  کبھی   اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا ، نہ کبھی  کام کی زیادتی  پر  یشان نظر آیا ،  بس  اپنے کام کو  مستعدی سے  انجام دیتا رہا۔ وہ ٹریفک کنٹرول کرنے  میں  ماہر تھا ، اس لیے  توکائی  کبھی کسی   مصیبت میں    گرفتار نہیں ہوا۔ بظاہر یقین کرنا تھوڑا مشکل  لگتاہے ، لیکن وہ  سیکریٹری  اس  کی  گرل فرینڈ زکی  ماہواری  کی  تاریخوں   کا   بھی  حساب رکھتا تھا۔جب توکائی  کسی  گرل فرینڈ  کے ساتھ سفر کرتا  ،  سیکریٹری  اس کے  ٹرین کے ٹکٹ  خریدتا اور ہوٹل میں بُکنگ بھی  کراتا۔ اتنے ہوشیار    سیکرٹری کے بغیر توکائی کی         زندگی میں   یہ نظم و نسق اور قرینہ نہیں  ہو سکتا تھا ۔ اس کی خدمات   کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ، توکائی    اس خوبصورت سیکریٹری کو (جو،یقیناً،  ہم جنس پرست تھا)   موقع محل     کے  مطابق      تحفے تحائف   سے  ضرور   نوازتا تھا۔

خوش قسمتی سے ، اس کی گرل فرینڈز کے شوہر اور عاشقوں کو   کبھی ان کے    توکائی  کے  ساتھ تعلقات  کا ایک  باربھی  علم نہیں ہوا، لہذا نہ  اسے   کبھی   کسی  بڑے   مسئلے کا سامنا   کرنا پڑا، نہ ہی  کسی     ناگوار صورت حال  سے واسطہ پڑا۔ وہ محتاط  اور ہوشیار  آدمی تھااور اس نے اپنی گرل فرینڈز کو بھی  متنبہ کر رکھا تھا کہ  وہ بھی  اسی طرح محتاط رہیں ۔ وہ  تین اہم  مشورے دیتا تھا: اطمینان رکھیں  اور جلدبازی نہ  کریں ، ایک ہی  قسم کی روٹین یا رویہ   نہ اپنائیں ،اور جب  جھوٹ بولنا پڑے تو  پوری کوشش کریں کہ  سادہ جھوٹ  بولیں ۔(ظاہر ہے ، یہ  ایسا ہی تھا جیسے بگلے کو پرواز سیکھانے کی کوشش کرنا، لیکن  پھر بھی  وہ   لازمی ان احتیاطی  تدابیر کی ہدایت کرتا تھا  ۔)

ایسا نہیں تھا  کہ  اس کے یہ  معاملات  مکمل طور پر پریشانیوں سے  مبرّا تھے ۔ اتنے لمبے عرصے تک ، بیک وقت متعدد تعلقات  میں توازن رکھنے   کے دوران   مسائل تو  پیدا  ہونے  ہی تھے۔ یہاں تک کے کبھی کبھار  بندر  بھی کوئی شاخ چُھوٹ   جانے سے  گر پڑتا ہے ۔  توکائی کی ایک  گرل فرینڈ نے  اپنے ایک  شکی مزاج  عاشق کو کلینک  فون کرنے کی وجہ فراہم کردی   اور اس  نے    ڈاکٹر کی   نجی  زندگی  اور اس کے  چال چلن کے بارے میں جاننے کا مطالبہ  کر دیا تھا ۔(اس کے شاطر  سیکریٹری نے اپنی   قائل کر لینے والی  صلاحیتیں استعمال کرتے  ہوئے  اس کے الزامات رفع  دفع کر دیئے ۔) ایک اور شادی شدہ عورت تھی  جو اپنے اور ڈاکٹر کے  رشتے میں کچھ  زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی تھی  اور کسی    لاپرواہی کی  وجہ سے  توکائی کے لیے  پریشانی  کھڑی کر دی  تھی ۔ عورت کا  شوہر مشہور پہلوان تھا۔ لیکن یہاں بھی مصیبت ٹل گئی  اور  ڈاکٹرکی  ہڈیاں   ٹوٹنے  سے بچ گئیں ۔

"تمہاری قسمت اچھی ہے ۔  " میں  نے کہا۔

"شاید۔" اس نے کہا اور  مسکرا دیا۔

"  شاید میری  خوش قسمتی رہی ۔  لیکن مجھے  نہیں لگتا صرف ایک   یہی  بات تھی ۔ " میں اتنا  ہوشیارنہیں ہوں ،لیکن   بعض اوقات  میں  حیران ہو جاتا ہوں   کہ میں کتنا     ہوشیار ہو سکتا ہوں ۔

"ہوشیار۔"  میں نے دوہرایا۔

"یہ ایسا ہے – کیسے کہوں ؟ - جب معاملات  نازک ہو جائیں تو میرا دماغ   اچانک چلنے لگتا ہے ۔ ۔۔، توکائی   نے لڑکھڑاتی  زبان سے    کہا ۔  لگتا تھا کہ اسے کوئی  اچھی مثال یاد نہیں آئی  تھی ۔  یا شاید  وہ صرف بات کرنے    سے ہچکچا رہا تھا۔

میں نے  فوراً  کہا ۔"  مجھے   فرانکوئس ٹروفاٹ کی ایک  پرانی  فلم کا منظر  یاد ہے ۔  ایک عورت  ایک  آدمی  سے کہتی ہے ، ' کچھ لوگ مہذب  ہوتے ہیں ، اور  کچھ      ہوشیار ۔  دونوں خوبیاں  اچھی ہیں  ، لیکن عموماً    ہوشیاری   ، شائستگی  پر  بازی لے جاتی ہے ۔ '  کبھی تم نے  وہ فلم دیکھی ہے ؟"

"نہیں ،    میں نے نہیں دیکھی  ۔" توکائی نے کہا۔

"عورت نے ایک مثال دی تھی۔ ایک آدمی در وازہ کھولتا ہے تو  اندر ایک برہنہ  عورت کو کپڑے  تبدیل کرتا  ہوا پاتا ہے ۔  وہ  مہذب  آدمی کہتا ہے ۔'معاف کیجیے گا ،محترمہ۔' اور فوراً دروازہ بند کر دیتا ہے ۔ ایک دوسر آدمی  جو  اسی صورت  حال میں   کہتا ہے ' معاف کیجئے گا ،   جناب  ' اور دروازہ بند کر دیتا ہے ، یہ   وہ آدمی  ہے جو ہوشیارتھا۔"

"سمجھ گیا۔ "  توکائی نے کہا، وہ  متاثر لگتا تھا ۔ " یہ بڑی دلچسپ  مثال ہے ۔میرا خیال ہے میں جانتا ہوں  وہ لوگ کیا کر رہے   تھے  ۔ مجھے کئی بار اس  صورت حال سے واسطہ پڑ چکا ہے ۔"

" اور تم ہر بار   اپنی چالاکی سے  بچ نکلے  ؟"

توکائی  نے مجھے  ترش روئی سے دیکھا۔ میں  اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں رکھنا چاہتا۔ دراصل میری خوش قسمتی  رہی ۔ شاید  اس بات کو اس    طرح سے   سمجھنا ہی  زیادہ بہتر ہے کہ   میں محض ایک مہذب  اور  خوش قسمت انسان ہوں ۔ "

 

"بہرحال ، توکائی کی  یہ نام نہاد  خوش قسمت زندگی تیس  برس تک جاری رہی ۔  سوچیں  تو  یہ ایک طویل عرصہ لگتا ہے ۔  لیکن ایک دن  ، بالکل  غیر  متوقع طور پر ،   وہ  گہری  محبت میں  گرفتار ہو گیا۔  ایک عیار لومڑ کی طرح جو خود اچانک جال میں  پھنس جاتا ہے ۔

جس  خاتون سے اسے عشق  ہوا ، وہ عمر میں   اس سے  سولہ  برس  چھوٹی  اور شادی شدہ تھی ۔  اس خاتون  کا  شوہر اس  سے دو برس  بڑا تھا اور ایک  غیر ملکی  آئی ٹی  کمپنی میں ملازمت کرتا تھا ،ان  دونوں کی  ایک پانچ  سال کی  بچی تھی ۔ اس  خاتون اور توکائی    کے  ڈیڑھ سال سے  تعلقات  تھے ۔

" مسٹر تنیمورا ۔" اس نے ایک  دن مجھ سے پوچھا ۔"  کیا تم نے کبھی ، کسی سے  شدید  محبت، نہ کرنے کی انتہائی کوشش کی ہے ؟"  جہاں تک مجھے یادہے   وہ  ہماری آپس میں   جان پہچان  کے  ایک سال بعد ، موسم گرما کی شروعات کے دن  تھے  ۔

"میرا  نہیں  خیال ، میں نے کبھی    ایسا   کیا ہے۔ " میں نے اسے  بتایا۔

" نہ   میں نے کی ہے ۔اب تک ۔" توکائی نے  کہا۔

"کسی  سے  شدید محبت  نہ کرنے  کی انتہائی   کوشش ؟"

" بالکل ۔ اب بھی  میں یہ ہی کر رہا ہوں ۔ "

"کیوں ؟"

"نہایت  سادہ سی بات ہے ۔  اگر میں  اس سے    شدید  محبت  کرتا ہوں ، تو   تکلیف ہو تی ہے۔  میں  یہ برداشت نہیں کر سکتا۔  مجھے نہیں  لگتا  میرا دل یہ   برداشت  کر سکتا ہے ۔  اسی وجہ سے  میں اس سے محبت نہ کرنے  کی   کوشش کر رہا ہوں۔ "

وہ نہایت  سنجیدہ دیکھائی دیتا تھا۔  اس میں  پہلے جیسی ظرافت  نہیں رہی  تھی۔

"آخر  تم ایسا کیا   کر رہے ہو     جو  تمہیں  اس  سے  شدید محبت   کرنے سے  باز رکھ  سکے؟"

"میں ہر طرح کی کوشش کر چکا ہوں ۔"  اس نے کہا۔"  سب سے اہم   کوشش یہ  کرتا ہوں  کہ میں  جان بوجھ کر  اس کے بارے میں  جس قدر  منفی سوچ سکتا ہوں ،سوچتا ہوں ۔  جتنی بھی خامیاں  میں سوچ سکتا ہوں  ان کی اپنے  ذہن میں فہرست بنا لیتا ہوں –  بلکہ مجھے کہنا چاہیے ، اس  کے تمام عیوب ۔ اور میں ان کو  بار بار اپنے ذہن میں کسی ورد کی طرح  دہراتا رہتا ہوں ، اپنے آپ کو قائل کرنے کے  لیے  کہ مجھے اس عورت سے  محبت نہیں کرنی  ،  اتنی محبت نہیں کرنی ، جتنی مجھے نہیں کرنی  چاہیے ۔

" تو  اس  تدبیر نے  کام کیا؟ "

" نہیں ، کچھ خاص نہیں ۔"تو کائی نے اپنا سر ہلایا۔  پہلی بات تو یہ کہ میں  اس  خاتون کے بارے میں زیادہ   منفی باتیں نہیں سوچ سکااور  سچ بات   یہ ہے کہ مجھے  اس کی خامیاں  بھی  پُرکشش لگتی ہیں ۔ اور دوسری بات یہ کہ مجھے خود سمجھ نہیں آتا کہ   میرے لیے کیا چیز  کافی ہے اور  کیا  چیز ناکافی  ہے ۔ میری زندگی میں یہ پہلا موقع ہے  جب مجھے اس قسم کی  احمقانہ  کیفیات سے پالا پڑا ہے ۔"

" تمہارے   اتنی ساری خواتین سے  تعلقات  رہے ہیں ، لیکن پہلے کبھی تم اتنے پریشان نہیں  ہوئے ؟ "میں نے پوچھا۔

"ایسا پہلی بار ہوا ہے ۔" ڈاکٹر نے سادگی سے  کہا۔  پھر وہ  اپنے    سینے  میں  دفن ایک  پرانی یاد  نکال لایا ۔ "جانتے ہو ،    ہائی اسکول   میں ، مختصر مدت کے لیے  میری  ایسی  ہی حالت ہوگئی تھی ۔  یہ وہ  وقت تھا  جب  ایک خاص  شخص کے  بارے میں سوچ کر میرے  سینے میں  درد  ہوتا تھا اور میں   اُس کے علاوہ کچھ     نہیں سوچ  پاتاتھا۔۔۔لیکن یہ یک طرفہ  احساس  تھا  لہذا  اس  کا کوئی    نتیجہ  برآمد نہیں ہوا۔ مگر اب حالات مختلف ہیں ۔ میں  اب بالغ ہوں ، اور ہمارے درمیان   جسمانی تعلقات ہیں ۔اس کے باوجود ، میرا ذہن  بالکل  منتشر ہے ۔ جس قدر  میں اس کے متعلق سوچتا ہوں ،  یہ سوچیں  اتنی  ہی زیادہ  میرے  جسم ، اندرورنی  اعضاء    پراثر انداز ہو  رہی ہیں  ۔ خاص طور پر میرے  نظام انہظام اور نظام تنفس پر۔

وہ  ایسے خاموش  ہو گیا  گویا دونوں نظام چیک  کر رہا ہو۔

" جو کچھ تم  کہے رہے ہو اس  سے تو  ایسا لگتا ہے کہ  ایک طرف  تم   پوری کوشش کر رہے   کہ اس کی محبت میں گرفتار نہ ہوسکو، اور ساتھ یہ بھی  چاہتے ہو کہ اسے کھونا بھی نہ پڑے ۔ "

"بالکل ۔ میں جانتا ہوں یہ متضاد باتیں ہیں ۔ پاگل پن ہے ۔   مجھے بیک وقت  ، بالکل دو    متضاد  باتوں  کی خواہش ہے   اور چاہے  میں کتنی ہی  شدت سے  کوشش کروں مجھے کامیابی نہیں ہو گی۔لیکن میں  خود کو روک نہیں  پاتا۔بس میں"  اسے" نہیں   کھو  سکتا ،   اگر ایسا ہو ا  تو میں ٹوٹ کر    بکھر جاو ں گا۔ "

"لیکن وہ شادی شدہ ہے ، اور اس کی ایک بچی  بھی ہے ۔"

"درست۔"

" اس  خاتون کا  تم دونوں  کے اس رشتے  کے بارے میں کیا خیال ہے؟"

توکائی نے اپنا سر جھکا لیا اور الفاظ  احتیاط سے  چنتے ہوئے کہا۔" میں صرف اندازے  لگا رہا ہوں  اور اندازے  مجھے مزید الجھا  دیتے ہیں۔  مگر  اس نے مجھے  بالکل واضح    الفاظ میں کہے دیا ہے کہ اس  کا اپنے خاوند کو  طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اُ ن کی   ایک بچی ہے  اور وہ اپنا خاندان نہیں  توڑنا  چاہتی ۔

"پھر بھی وہ تم سے ملتی ہے ۔"

" ہم اب  بھی ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع ڈھونڈ  تے ہیں ۔ لیکن  آنے والے وقت کے بارے میں کون جانتا ہے ۔   وہ خوفزدہ ہے  کہ  اس کا شوہر ہمارے بارے  میں جان جائے گا اور  اس نے  مجھ سے کہہ دیا ہے کہ ہوسکتا ہے کسی دن  وہ  مجھ سے ملنا ترک کر دے ۔شایدکسی دن  اس کے شوہر کو   علم ہو جائے  اور ہم دونوں کو  واقعی ایک دوسرے  سے  تعلق  قطع  کرنا پڑے ۔ اور شاید وہ خود    ہی ہمارے   اس  تعلق سے تنگ آ جائے ۔ مجھے نہیں معلوم  آنے والا  وقت  اپنے  ساتھ کیا  لائے گا۔

"تو تمہیں یہ بات سب سے  زیادہ پریشان کرتی ہے ۔"

"ہاں ، جب میں ان امکانات  پر   غور  کرتا ہوں تو میں کچھ  اور  نہیں سوچ پاتا۔یہا ں تک   کہ کچھ کھا  نا پینا بھی مشکل ہو گیا ہے ۔ "

میری اور ڈاکٹر توکائی  کی  جان پہچان    کا آغاز میرے گھر کے قریب واقع    ایک جم    سے  ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ  ویک اینڈ ز کی  صبح  جم  میں  اسکواش کھیلنے   آتا تھا اور ہم   مل کر  چند  بازیاں  کھیلتے تھے ۔ وہ ایک اچھا  حریف تھا - شائستہ ،  چاق و چوبند  اور وہ  جیتنے کے لیے   غیر ضروری  ہلکان  نہیں ہوتا تھا ۔ مجھے   اس کے  ساتھ  کھیل کر  لطف آتا تھا۔ میں  عمر میں  اس  سے  تھوڑا  بڑا تھا ، لیکن ہم بنیادی طور پر ایک ہی  پیڑھی سے تعلق  رکھتے  تھے (یہ  کچھ عرصے پہلے کی بات ہے ) اور ہم  دونوں میں   اسکوش کھیلنے کی  تقریبا  ً  مساوی  قابلیت  تھی  ۔ جب ہم گیند کا  تعاقب کرتے کرتے    پسینے سے شرابور ہو جاتے   تو  قریبی بیئر ہال میں جا کرایک ساتھ   بیئر      پیتے  تھے ۔، ڈاکٹر توکائی   صرف اپنے بارے میں  سوچتا تھا جیسا کہ  زیادہ تر ،     اچھی پرورش یافتہ،  اعلٰی تعلیم یافتہ  اور مالی   طور پر مستحکم  لوگ   سوچتے ہیں ۔ لیکن ان سب کے باوجود ، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ،  وہ  نہایت   خوش گفتا ر تھااور میں اس کے ساتھ گفتگو کرکے  حظ  اٹھاتا تھا۔

جب اسے  علم ہوا کہ میں ایک مصنف ہوں تو اس نے     اپنی  نجی  معلومات دھیرے دھیرے مجھ  پر      افشاکرنا شروع کر دیں۔ شاید اسے  لگتا تھا کہ ، معالجین اور مذہبی رہنماؤں کی طرح ، لوگوں کے اعترافات سننا  مصنفین کا  قانونی حق (یا فرض) تھا۔  کئی  لوگوں کے ساتھ  مجھے    یہ  تجربہ  ہو چکا ہے۔  پھر  بھی  مجھے ان کی باتیں سننے میں  ہمیشہ مزہ آتا تھا اور  اس نے  جو کچھ بھی  مجھے بتانا تھا  ، میری  دلچسپی  اس میں کبھی   ختم نہیں ہوئی ۔ وہ   بے لاگ  ،مخلص  اور  درون  بین  انسان تھا۔  وہ اپنی کمزوریاں دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے  سے   خوفزدہ نہیں  ہوتاتھا – یہ ایک  غیر معمولی خوبی ہے۔

اس نے مجھے بتایا  کہ ،"میرے  بہت سی عورتوں کے ساتھ  تعلقات  رہے ہیں جو   اس  کی موجودہ   محبوبہ سے  بہت زیادہ خوبصورت ، زیادہ   خوش بدن  اور زیادہ ذہین تھیں ۔ لیکن یہ  تقابل  بے معنی ہیں کیونکہ میرے لیے وہ کچھ  خاص ہے۔ میرے خیال میں آپ  اسے  ایک 'مکمل موجودگی'  کہے  سکتے ہیں۔ اس کی تمام خوبیاں مضبوطی سے ایک  دوسرے  کے ساتھ    گندھی ہوئی  ہیں  ۔آپ کسی ایک  انفرادی  خوبی کو   جدا  کر کےاسے  ناپ   یا اس کا تجزیہ نہیں  کر سکتے، یہ کہنے کے لیے  کہ یہ  خوبی  کسی دوسرے انسان کی اسی خوبی سے بہتر یا  بدتر ہے   ۔   جو کچھ  ا س خاتون  کے  دل میں ہے  ،وہ  مجھے  طاقتور مقناطیس کی طرح     پوری قوت  سے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ منطق سے باہر ہے۔ "

ہم   تلے ہوئے آلو   اور اچار کے ساتھ   بئیر پی رہے تھے ۔"

'اب  اپنی محبت کو دیکھ کر / اور الوداع کہنے   کے بعد  / میں جانتا ہوں  پہلے میرا دل کتنا کم طرف   تھا / گویا کہ میں   پہلےکبھی  جانتا ہی نہیں تھا  پیار کیا ہے ۔'' توکائی نے   بند  پڑھا۔

"گونچوناگن اتسوٹاڈا کی نظم  ۔ " میں نے کہا۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ  مجھے  یہ کیوں اب تک  یاد ہے۔

"کالج میں ۔" اسں نے کہا ۔ "ہمیں  پڑھایا گیا تھا کہ  'دیکھنا'    سے یہاں مراد ،  ایک عاشق کی  ملا قات   اور جسمانی تعلق کی کوشش ہے۔  اس وقت اس کا   مطلب سمجھ نہیں  آیاتھا، لیکن اب اس عمر میں ، مجھے  بالآخر وہی  تجربہ ہوا ہے جو شاعر نے محسوس کیا  تھا۔ اپنی پسند کی عورت سے ملنا، اس سے محبت کرنا   ،   قربت  کرنا پھر الوداع  کہنا۔ جیسے آپ کا دم  گھٹ رہا ہو۔  یہ  جذبہ ایک ہزار سال میں بھی نہیں بدلا۔  مجھے اب تک  اس کا  ادراک   نہیں ہوا  تھا اور   اس سے مجھے احساس  ہوتا ہے  کہ میں  بطور  انسان   کتنا نامکمل رہا  ہوں ۔ مجھے یہ سمجھنے  میں تھوڑی دیر ہوئی ہے ۔ "

اس طرح کے معاملے میں  بہت جلد یا بہت دیر  جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ میں نے اس سے کہا۔  تمہیں   سمجھ  بے شک تھوڑی دیر سے آئی ہو ، لیکن    کبھی   سمجھ   نہ آنے سے تو بہتر ہے۔"

"لیکن  اگر یہ تجربہ  مجھے جوانی میں ہوتا  تو شاید   زیادہ بہتر ہوتا ۔ "توکائی نے کہا۔ "پھر میں  محبت کے خلاف  اینٹی باڈیز  پیدا کر لیتا۔"

میں نے   سوچا نہیں  تھا کہ یہ باتیں  اتنی آسان تھیں۔ میں چند  ایسے لوگوں کو جانتا تھا ، جو محبت کے خلاف اینٹی باڈیز  پیدا کرنا تو دور کی بات ہے  وہ  تویہ  خوابیدہ  مگر  موذی بیماری   دل میں لیے پھرتے   ہیں  ۔لیکن میں  چپ رہا  ۔ یہ سمجھنے  میں  کافی  وقت لگتا  ۔

"میرے  اس  خاتون سے  ڈیڑھ سال سے   تعلقات ہیں  ۔" اس نے کہا۔ "اس کا شوہر اکثربیرون ملک کاروباری دوروں پر جاتا  رہتاہے  اور جب وہ   گھر سے باہر  ہوتا ہے تو ہم ملتے ہیں، رات کا کھانا   کھاتے ہیں ، میرے گھر جاتے ہیں  اور  ساتھ سوتے ہیں  ۔ اس نے  میرے ساتھ   اپنا تعلق اس وقت شروع کیا جب اسے پتہ چلا کہ اس کے شوہر کا   معاشقہ  چل  رہا ہے۔ اس کے شوہر  نے   اس سے  معافی مانگی ، دوسری عورت کو چھوڑ دیا  اور وعدہ کیا کہ وہ   کبھی دوبارہ   ایسی حرکت  نہیں کرے گا۔ لیکن  وہ مطمئن نہیں ہوئی اور  جذباتی  توازن   دوبارہ  بحال  کرنے کے لیے میرے ساتھ  ہم بستری  کرنے لگی۔ انتقام    ذرا بھاری لفظ ہے ، لیکن  وہ   اپنے   دل میں  تھوڑی گنجائش پیدا کرنا  چاہتی  تھی۔  اکثر  ایسا ہوتا ہے۔ "

مجھے  معلوم نہیں تھا کہ اس قسم کی    باتیں  اکثر  ہوتی ہیں  یا نہیں۔ اس لیے میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا۔

"ہم واقعی   ایک دوسرے  کی صحبت  سے   بہت لطف اندوز ہوتے  تھے   ۔  دلچسپ  گفتگو ، گہرے راز  جو صرف ہم  دو ہی جانتے تھے اور  اطمینان  سے     پُر جوش   ہم بستری۔ میرے خیال میں ہم نے      کچھ   خوبصورت لمحے ساتھ  گزارے  ۔ایک ساتھ خوبصورت وقت ۔وہ بہت ہنستی تھی ۔ اس کی ہنسی   دلکش تھی ۔ لیکن  وقت  کے ساتھ ساتھ ہمارا رشتہ آگے بڑھتا گیا ، میں اس کی گہری  محبت میں گرفتار ہو گیا اور واپس نہیں  پلٹ سکا۔  اور حال ہی میں ،میں نے اکثر سوچنا شروع کر دیاہے:آخر میں  کون ہوں ؟"

مجھے  لگا   کہ جیسے میں نے اس کے آخری الفاظ  نہیں سُنے  (یا  شاید غلط سنے تھے )۔ اس لیے  میں نے اسے دہرانے کے لیے کہا۔

"آخر میں کون ہوں ؟میں واقعی سوچ رہا ہوں ۔" اس نے دہرایا۔

"بڑا  مشکل سوال ہے ۔" میں نے کہا۔

"بالکل ،  بہت  مشکل سوال ہے ۔"توکائی  نے کہا۔ اس نے دو  مرتبہ سر ہلایا گویا  تصدیق  کررہا ہو۔ لگتا تھا کہ وہ میرے الفاظ  میں چھپا طنز نہیں بھانپ  سکا تھا۔"میں کون  ہوں ؟ " اس نے بات جاری رکھی ۔"آج تک میں نے بطور   کاسمیٹیکس   پلاسٹک سرجن  کا م کیاہے   اور  کبھی   تذبذب  کا شکار      نہیں ہوا۔ میڈیکل اسکول کے پلاسٹک سرجری ڈیپارٹمنٹ  سے گریجویشن  کے بعد ، پہلے اپنے  والد کے  اسسٹنٹ  کے طور پر  کام کیا ،  لیکن جب  ان کی بینائی زائل   ہونا  شروع ہوئی   تو  وہ ریٹائر  ہوگئے  اور میں  نے   کلینک سنبھال لیا ۔ شاید مجھے یہ بات نہیں کہنی چاہیے  لیکن میں  کافی  ماہر  سرجن ہوں۔ پلاسٹک  سرجری  کی دنیا میں  کافی دو نمبریاں بھی  ہو سکتی ہیں  اور کچھ  کلینک ایسے  ہیں  جو  تشہیر تو  بہت زور و شور سے کرتے ہیں    مگر کام  گھٹیا کر تے ہیں ۔ مگر  میں ہمیشہ  اپنے  پیشے  کے ساتھ   دیانت  دار رہا ہوں  اور مجھے کبھی اپنے  گاہکوں کے ساتھ کوئی  بڑا مسئلہ  پیش نہیں  آیا، اور مجھے اس بات  پر  فخر ہے ۔میں اپنی نجی زندگی میں بھی خوش ہوں ۔ میرے  بہت سارے دوست ہیں  اور اب تک میں   صحت مند رہا ہوں ۔زندگی کے مزے لے رہا ہوں ۔  لیکن پھر بھی ، آج کل میں   بہت  سنجیدگی  سے سوچتا ہوں  کہ آخرمیں کون ہوں ؟ اگر تم مجھ سے     میرا پلاسٹک سرجری کا پیشہ او ر  یہ  پُرمسرت ماحول جس  میں،میں   رہتا ہوں ،اور ہر چیز    سے محروم کر کے کسی وضاحت کے بغیر      اس دنیا میں  چھوڑ دو تو  – آخر میں کیا ر ہ جاوں  گا؟"

توکائی نے میری آنکھوں  میں جھانکا  گویا جواب تلا ش کر  رہا ہو۔

"تم نے اچانک اس طرح کیوں سوچنا شروع کردیا ہے؟ " میں نے سوال کیا ۔

"میرا خیال ہے     اس  کتاب کی وجہ سے   جو کچھ عرصے قبل  میں نے  نازی  کنسنٹریشن  کیمپس کے متعلق پڑھی  تھی۔  اس کتاب  میں ایک یہودی  ڈاکٹر کی کہانی  تھی  جسے  جنگ کے دوران    کنسنٹریشن   کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا ۔   اس کا برلن میں اپنا کلینک تھا، لیکن اچانک   ڈاکٹر اور اس کے پورے خاندان کو گرفتا ر کر کے  کیمپ میں بھیج دیا گیا ۔  اس کا خاندان اس سے محبت کرتا تھا ،   ارد گرد کے  لوگوں کے لیے بھی وہ قابل تکریم  اور بھروسہ مند تھا۔ اس نے ایک عالی شان    مکان میں بھرپور زندگی گزاری تھی ۔ اس نے دو کتے  پالے ہوئے   تھے اور ویک اینڈ پر دوستوں کے  ایک گروپ میں شوقیہ چیلو (Cilo)بجایا کرتا تھا – زیادہ تر       Schbert اور Mendelssohn۔ اس کی زندگی   مکمل اور پرسکون تھی ۔  لیکن  اچانک اسے  جہنم میں دھکیل دیا گیا ۔ وہ  برلن کا متمول  اور باعزت     ڈا کٹر  نہیں رہا – وہ تو شاید انسان بھی نہیں رہا تھا۔  اس کو اس کی بیوی سے جدا کر دیا گیا ، آوارہ کتے جیسا سلوک کیا گیا ،جسے  کھانا بھی برائے  نام دیا جاتا تھا۔  کیمپ کمانڈر کو معلوم ہوا  کہ وہ  مشہور ڈاکٹر  ہے تو اس  نے  ڈاکٹر کو  کچھ عرصے کے لیے  گیس چیمبر  سے  دور رکھا، یہ سوچتے ہوئے کہ شاید  اس سے کوئی کام لیا جا سکے ۔  مگر اس بے چارے کو  کوئی اندازہ نہیں  تھا کہ اگلا   دن اس کے لیے  کیسا  ہو گا۔کسی  بھی  وقت  گارڈ جذبات میں   آ کر    لاٹھیوں  سے اس کا  بھرتہ بنا   سکتے تھے   ۔غالباً   اس وقت تک   اس کا خاندان    پہلے ہی ہلاک کیا جا چکا ہو۔"

وہ ایک  لمحے کے لیے خاموش ہوگیا۔

" مجھے  وہ کتاب  پڑھ کر  دھچکا لگا۔ اگر زماں و مکاں  مختلف ہوتے ، میں بھی ایسے خوفناک  انجام کا شکار ہو سکتا تھا۔ اگر کسی    وجہ سے – مجھے نہیں معلوم  کیوں – مجھ سے   میری  مو جودہ زندگی  چھین لی جائے ،  مجھے  میرے  تمام حقوق سے محروم کر دیا جائے ، زندگی  بس ایک نمبر   میں سمٹ  کر رہ جائے  تو میں  اس دنیا میں کیا  رہ  جاوں گا؟ میں نے  کتاب بند کر کے اس متعلق سو چا تھا۔  سوائے  پلاسٹک سرجن کی  قابلیت    اور دوسروں  کا  جو بھروسہ میں نے کمایا  ہے  اس کے علاوہ میرے پاس کوئی  دوسرا کام     یا  صلاحیت  نہیں ہے ۔  میں صرف باون سال کا ہوں ، صحت مند ہوں ،  بس    ہمت ویسی نہیں  رہی جیسا جوانی میں تھی۔  میں زیادہ  دیر جسمانی مشقت نہیں کر پاتا۔جو کام میں اچھے طریقے سے کر لیتا ہوں  ، ان میں   اچھی شراب  کا انتخاب کرنا  ، سوشی کے   بہترین   ریستوران   یا اور دوسرے ہوٹلوں میں جانا(   جہاں  مجھے معزز  گاہک سمجھا جاتا ہے ) خواتین کے لیے   اچھے  تحائف   منتخب کرنا    اور تھوڑا بہت  پیانو  بجانا   (سادہ موسیقی  کی کی شیٹ پڑھ  سکتاہوں ) شامل ہے ،    میں بس  یہی کچھ  جانتا ہوں  ۔ اگر مجھے کنسنٹریشن کیمپ میں  قید کر دیا جاتا تو ان  تمام   چیزوں کا وہاں  کوئی فائدہ نہیں  ہوتا۔

مجھے اس  کی بات سے اتفاق  تھا۔ کنسنٹریشن  کیمپ میں  شوقیہ پیانو بجانے  اور دلچسپ گفتگو کرنے کی صلاحیت   سب بیکار ثابت  ہوتیں ۔

" مسٹر تنیمورا کیا   آپ نے کبھی  سوچا ہے کہ اگر   آپ سے  لکھنے کی صلاحیت چھین لی  جائے تو  آپ کیا  رہ جائیں گے ؟"

"میں نے اس پر  ا  پنا نقطہ نظر  واضح کیا  ۔   میں    ابتداء میں ایک  معمولی اور  انتہائی قلاش آدمی تھا، بالکل  کنگال۔ بس اتفاق  سے  لکھنا شروع کیا اور خوش قسمتی سے  اس کے ذریعے روٹی روزی کمانے لگا۔ لہذا صرف یہ اندازہ لگانےکے  لیے  کہ میں   کسی خاص  خوبی   یا صلاحیت کے بغیر  بھی ایک انسان ہوں ،     مجھے کنسنٹریشن  کیمپ جیسے  ڈرامائی  منظر کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ " میں نے  اس سے کہا۔

توکائی سوچتا رہا۔ لگتا تھا  کہ اس نے اس قسم کا نقطہ نظر پہلی بار سنا تھا۔

"سمجھا۔"  اس نے کہا۔   " اس  طرح   سوچنے سے شاید زندگی آسان ہو جائے ۔ "

میں نے جھجکتے ہوئے    کہا  کہ     ایک    غریب  انسان  کے لیے   بےسروسامانی کے ساتھ زندگی شروع کرنا   شاید اتنا  بھی آسان  نہ ہو۔

"ٹھیک  کہتے ہو" تو کائی نے کہا۔  " بالکل درست ۔ "    مفلسی میں   زندگی    گزارنا مشکل ہوتا    ہے ۔  اس لحاظ سے میں بہت  سے لوگوں سے  بہتر ہوں ۔  پھر بھی  جب  آپ ایک خاص  عمر کو پہنچتے ہیں  اور   زندگی  گزارنے کا  ایک خاص  ڈھنگ  اور  سماجی مقام  حاصل  کر  لیتے ہیں   ، تب آپ کو بطور   انسان  اپنی اہمیت  کے بارے میں  گہرے شکوک  ہونے لگتے ہیں ، یہ دور  کئی لحاظ سے   کافی کٹھن   ہو جاتا ہے ۔   جو زندگی میں نے  اب تک گزاری ہے ، بالکل  بیکار ، بے مقصد لگتی ہے ۔ اگر میں جوان  ہوتا تو   خود کو بدلنا ممکن تھا اور مجھے  کوئی امید بھی ہوتی۔ مگر  اس  عمر میں  مجھے  ماضی  تکلیف دیتا ہے ۔ دوبارہ شروعات  کرنا آسان نہیں  ہے ۔ "

" اور تم نے  ، نازی کنسنٹریشن  کیمپ  سے متعلق کتاب  پڑھنے کے بعد ان تمام  باتوں کے بارے میں   سنجیدگی سے  سوچنا  شروع کیا؟" میں نے  ڈاکٹر سے پوچھا۔

"ہاں ۔ایک تو کتاب نے مجھے    آزردہ    کر دیا تھا ،  اس پر مستزاد  یہ بھی واضح نہیں تھا کہ میرا اور  اس عورت  کامستقبل کیا ہے  اور ان دونوں   پریشانیوں  نے مجھے ادھیڑ عمر کا ہلکا سا ڈپریشن دےد یا ہے ۔   میں کون ہوں؟ میں خود سے مسلسل یہ سوال کر رہا ہوں۔ لیکن میں  خود سے چاہے  کتنا ہی    یہ سوال پوچھوںمجھے جواب نہیں ملتا۔میں بس دائروں میں گھومتا رہتا ہوں ۔  جن چیزوں سے سے پہلے میں لطف اندوز ہوتا تھا  وہ اب مجھے   بیزار کرتی ہیں۔    ورزش کرنے کا دل   نہیں چاہتا  اور اب  پیا نو بجانا بھی مشکل لگتا ہے ۔ یہاں تک کہ کھانے پینے کا  بھی  دل  نہیں چاہتا۔ میں بس اُسں   کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں ۔یہاں تک کہ کسی   کلائینٹ   کے ساتھ  ہوں تب  بھی وہ میرے ذہن پر پر چھائی رہتی ہے۔  مجھے ڈر ہے  کہ شاید ایک دن   اس کا نام میری زبان پر آ  جائے گا ۔"

"تم اس سے کتنی بار  ملتے  کرتے ہو؟"

"کچھ طے شدہ نہیں  ہوتا۔  ہماری ملاقات اس کے شوہر کے شیڈول پر منحصر ہوتی ہے۔  اور کئی  معاملات   میں  سے یہ  بات میرے  لیے انتہائی  کٹھن  ہے  ۔ جب وہ لمبے کاروباری دورے پر  جاتا ہے تو ہم ایک دوسرے سے مل پاتے ہیں ۔  اس  کے والدین، بچی کی دیکھ بھال کرتے ہیں یا وہ  آیارکھ لیتی ہے۔   مگر  جب اس کا شوہر جاپان میں ہوتا ہے تو ہم  ہفتوں  ایک دوسرے سے ملاقات  نہیں کر پاتے ۔ یہ وقت میرے  لیے  بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں یہ  گھسٹی پٹی  بات ہے  لیکن جب میں یہ سوچتا ہوں کہ شاید میں اسے دوبارہ نہیں مل پاؤں گا تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں  دو نیم  ہو رہا ہوں ۔"

میں نے بغیر رائے زنی کے اس کی بات سنی  اگرچہ اس کے الفاظ کا انتخاب فرسودہ تھا لیکن مجھے    بے معنی نہیں لگا، بلکہ  سچ   محسوس ہوا۔

اس نے ایک لمبی ، دھیمی  سانس بھری  اور پھر خارج کر دی ۔" میری  متعدد  گرل  فرینڈ ہوتی ہیں ، ہو  سکتا ہے  سن کر  تم حیران ہو  کہ بعض اوقات،  ایک  وقت  میں  چار یا پانچ    ہوتی ہیں۔  جب  ایک سے  ملنا ناممکن ہوتا ہے   تو دوسری سے سے ملاقات کر لیتا   ہوں ،اس طرح  آسانی ہو جاتی ہے  ۔  لیکن جب سے مجھے اُس سے محبت  ہوئی ہے  ،  دوسری  خواتین  میں  مجھے کوئی  دلچسپی نہیں رہی ہے  ۔  یہاں تک کہ  جب میں کسی اور کے ہمراہ ہوتا ہوں  تب بھی مجھے  صرف  اس کا  چہرہ   دیکھائی دیتا ہے۔  میں اس کیفیت  سے چھٹکارا حاصل نہیں  کر پا رہا ، یہ خطرناک  کیس ہے۔"

    خطرناک  کیس،  میں نے سوچا۔ میں نے  ڈاکٹر توکائی کو   ایمبولینس بلاتے ہوئے  تصور کیا۔ "ہیلو؟    ہمیں یہاں ایک ایمبولینس کی  فوری ضرورت ہے ۔ مریض کی حالت بہت   خطرناک ہے ۔سانس لینے میں دشواری  ہو رہی ہے ،  ایسا لگتا ہے جیسے میں  دو ٹکڑے ہونے والا ہوں ۔۔۔۔

 سب سے  بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جتنا  زیادہ میں اسے  سمجھتا جاتا ہوں ،  اس  سے میری  محبت اتنی ہی  زیادہ  بڑھ جاتی ہے ۔  ہمارے تعلق کو ڈیڑھ سال ہو گئے  ہیں لیکن شروعات کی بہ نسبت،  میں اب    زیادہ   اس کے سحر میں گرفتار ہوں۔ ایسا لگتا ہے ہمارے دل آپ میں   جڑ چکے ہیں،  اس طرح کہ جب وہ کچھ محسوس کرتی ہے میرا دل اس کے ساتھ ساتھ  محسوس  کرتا ہے۔  جیسے ہم دو کشتیاں ہیں  جو ایک  رسی سے  بندھی ہیں اور اگر کوئی رسی  کاٹ کر الگ  کرنا  بھی چاہے  تو ایسا کرنے کے لئے  تیز دھار چاقو نہیں ہے ۔ میری  ایسی  حالت  کبھی نہیں ہوئی اور یہی بات مجھے خوف زدہ کرتی ہے ۔  اگر اس  خاتون  کے لیے میری یہ کیفیات  اور زیادہ  شدید ہوگئی  تو  میرا  کیا  ہو گا؟"

"سمجھا۔" میں نے کہا۔ مگر  لگتا تھا کہ وہ   زیادہ   ٹھوس  جواب کی امید کر رہا تھا۔

"مسٹر تنیمورا مجھے کیا کرنا چاہیے؟"

 میرے پاس کوئی عملی تجاویز نہیں ہیں ۔" میں نے کہا ۔" ہاں، لیکن تم نے جو کچھ بتایا جو تم محسوس کر رہے ہو یہ    عام سی  کیفیت    اور قابل فہم ہے ، عاشق ایسا  ہی محسوس کرتے ہیں  ۔اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں رہتا اور  یوں لگتا  ہے جیسے کوئی خطر ناک طاقت آپ کو اپنے اشاروں پر  نچا رہی ہے ۔تم  جس کیفیت سے گزر رہے ہو وہ بالکل بھی غیر معمولی نہیں ہے ۔ تمہیں بس ایک عورت  سے شدید محبت  ہو گئی ہے   اورتم  اسے کھونا نہیں چاہتے، اس سے ملتے رہنا چاہتے ہو ۔مگر جب ایسا نہیں کر سکتے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا ختم ہو گئی ہو۔اتنی سی  بات ہے اس میں کچھ بھی عجیب یا غیر معمولی نہیں۔  مکمل طور پر  نارمل  زندگی کا صرف ایک پہلو ہے۔

 ڈاکٹر  توکائی ہاتھ باندھ کر بیٹھا رہا۔ وہ قائل نظر نہیں آتا تھا۔شاید اسے" مکمل طور پر  نارمل  زندگی کا صرف ایک پہلو۔ "کا مطلب سمجھنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ہم  اپنی بیئرختم کر  نے کے بعد   اٹھنے ہی والے تھے کہ وہ بول  پڑا ، گویا کوئی  اعتراف کرنے  کو ہے ۔"مسٹر تنیمورا ، میں  سب   سے زیادہ   خوفزدہ  اور  پریشان   اس    شدید   طیش  سے ہوں  جو مجھے اپنے اندر   محسوس ہوتا ہے۔"

" طیش ؟"میں نے حیرت سے پوچھا۔     تو کائی جیسے شخص میں   طیش  کی موجودگی ، ناممکن  بات لگتی  تھی  ۔

تو کائی نے سر ہلایا ۔"مجھے نہیں معلوم۔" یقینی  طور پر اس خاتون  پر طیش  نہیں  آتا۔  لیکن جب میں کچھ عرصہ  تک  اس سے مل نہیں  پاتا، مجھے ایسا لگتا ہے  جیسے   میرے اندر     شدید غصہ    اُبل  رہا ہے۔  لیکن مجھے سمجھ  نہیں  آتا   کہ اس کی  وجہ  کیا ہے  ۔  ایسا شدید غصہ میں   زندگی میں  پہلی بار  محسوس  کر رہا  ہوں ۔  اس   کیفیت   میں  دل کرتا ہے  کہ گھر کی ہر چیز  کرسیاں ، ٹی وی ، کتابیں ، برتن ، تصاویر،سب  کچھ اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دوں ۔ مجھے یہ پروا  بھی نہیں     ہے کہ وہ کسی راہ گیر  کے سر سےٹکرا کر  اسے ہلاک کر دیں گی ۔   عجیب  بات  ہے  لیکن میرا یہی دل چاہتا  ہے  ۔ میں   وقتی طور پر  غصے پر قابو پا سکتا ہوں ، اس لیے    ایسی  حرکت  نہیں کرو ں گا۔  لیکن شاید  ایک دن ایسا آئے  جب میں  خود پر قابو  نہ رکھ سکوں ۔  اس  طرح   میں کسی کو  بھی نقصان پہنچا سکتا ہوں ۔ "

"مجھے یاد نہیں اس وقت میں نے اس سے   کیا کہا تھا۔ یقیناً گول مول الفاظ میں تسلی دی ہو گی ، کیونکہ  اس وقت میں  واقعی نہیں جانتا تھا کہ  وہ  جس  " طیش " کا ذکر کر رہا تھا  اس کا کیا مطلب  تھا یا کس جانب   اشارہ  تھا۔ مجھے کچھ  مفید    بات کہنی چاہیے تھی ۔  لیکن اگر میں کچھ ایسا کہے بھی دیتا  تب بھی  غالباً  اس کی قسمت مختلف نہ ہوتی ۔  اس بات کا مجھے یقین ہے ۔

ہم نے بل ادا کیا اور   بار سے  نکل کر  اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے   ۔ ریکٹ  بیگ ہاتھ میں تھامے  اس  نے ٹیکسی میں  سوار ہو نے کے بعد  مجھے اندر سے ہاتھ ہلا یا  تھا ۔  یہ  وہ  موقع تھا  جب میں نے  ڈاکٹر  توکائی کو آخری بار دیکھا۔ یہ  ستمبر کے  آخری دن تھے  اور ابھی   گرمیوں کی تپش       باقی تھی ۔  اس  دن کے بعد  توکائی جم میں دوبارہ  نظر نہیں آیا۔ کسی کو کچھ  خبر نہ تھی ۔ مگر جم میں  ایسا ہوتا  رہتا ہے ۔ باقاعدگی  سے آنے والے  لوگ  اچانک آنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ جم  ،دفتر یا نوکری کی جگہ نہیں   ۔  لوگ اپنی مرضی سے  آنے جانے کے لیے  آزاد  ہوتے ہیں ۔ اس لیے میں  نے  بھی پروا نہیں کی ۔ دو ماہ گزر گئے ۔   نومبر  کے آخری ہفتے  میں ، جمعہ کی  دوپہر  تو کائی  کے سیکریٹری  نے مجھے فون کیا۔  اس کا نام گوٹو تھا۔ اس کی آواز  دھیمی اور ہموار  تھی ، جسے سن کر مجھے  بیری وائٹ  کی موسیقی  یاد آگئی ،    جو وہ ایف ایم  کے پروگرامز  میں بجایا  کرتا تھا۔ "   آپ کو فون پر  یہ اطلاع دینا  میرے لیے   تکلیف دہ  ہے ، لیکن  ڈاکٹر توکائی  پچھلی جمعرات  انتقال  کر گئے ہیں ۔" اس نے  بتایا۔ "  پیر   کے دن    تدفین ہے  ،جس میں صرف  عزیز و اقارب شرکت کریں گے ۔"

" انتقال ہو گیا؟"  میں نے بو کھلا کر  کہا۔"  دو مہینے پہلے   جب میری اس سے ملاقات ہوئی  تھی تب  تو وہ بالکل ٹھیک تھا۔ آخر ہو ا کیا؟" چند ثانیے  گوٹو خاموش رہا ، پھر  کہا۔ " یہ بات میں فون  پر نہیں بتا سکتا ۔ دراصل جب وہ زندہ تھے انہوں نے ایک چیز میرے حوالے کی تھی جو وہ آپ کو دینا  چاہتے تھے ۔اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو کیا  ہم کچھ دیر کے لیے مل سکتے ہیں ؟ تب  میں آپ کو وجہ بھی  بتاوں  گا۔ میں کسی وقت بھی ،کہیں بھی مل سکتا ہوں ۔ "
" آج کا دن  کیسا رہے گا، اس  کال کے بعد؟ " میں نے پوچھا۔

" ٹھیک ہے ۔" گوٹو نے جواب دیا۔  میں نے اسے  اویاما بلیوارڈ  سے ایک  گلی  دور ، سڑک کے پیچھے   واقع ایک  کیفیٹیریا کا نام بتایا۔ "چلو، پھر چھ بجے ملتے ہیں ۔" میں نے اسے کہا۔" وہاں ہم  اطمینان سے  بات کر سکیں گے ۔" گوٹو اس جگہ  سے واقف نہیں تھا ۔ لیکن اس نے  کہا کہ وہ ڈھونڈ لے گا۔  جب میں مقررہ  وقت سے پانچ منٹ پہلے  کیفیٹیریا پہنچا  تو گوٹو  وہاں پہلے سے ہی موجود تھا۔  جیسے ہی میں  اس کے قریب پہنچا  وہ کھڑا ہو گیا ۔ فون پر دھیمی  سی آواز  سُن کر  میں کسی بھاری بھرکم آدمی کی  توقع کر رہا تھا، لیکن وہ دبلا پتلا  اور کافی خوبصورت تھا جیسا کہ  ایک بار توکائی  نے مجھے بتایا تھا۔ گوٹو نے کتھئی رنگ کا  اونی سوٹ ، سفید ڈریس شرٹ  اور ہلکے    زرد   رنگ کی  ٹائی پہنی ہوئی تھی ،  ایک  بہترین لباس۔ اس کے  لمبے خوبصورت بالوں کی  لٹیں اس کی پیشانی پر  پڑیں   دلکش لگ  رہی تھیں ۔  اس کی  عمر تیس سے پینتیس سال کے لگ  بھگ لگتی تھی اور  اگر میں نے توکائی سے  نہ سُنا ہوتا کہ  گوٹو ہم جنس پرست ہے میں اسے  صرف ایک  روایتی،  خوش لباس نوجوان   سمجھتا(میں نےنو جوان اس لیے کہا کیونکہ وہ  ابھی تک کافی  جوان لگتا تھا )  ا س کی داڑھی  گھنی   معلوم ہوتی تھی  ۔وہ ڈبل ایسپریسو  پی رہاتھا ۔  آپس میں سلام دعا کا تبادلہ کر نے  کے  بعد   میں نے بھی ڈبل ایسپریسو کا  آڈر دے دیا۔

"اس کا انتقال اچانک ہو ا ہے نا؟ " میں نے پوچھا ۔ نوجوان نے آنکھیں  سکیڑیں ، جیسے   خیرہ کن   روشنی کا سامنا ہو ۔" جی ہاں ، ان کی موت کافی اچانک تھی،  ایسا  ہونا حیران کن ہے ۔ لیکن  موت  تکلیف دہ  اور    آہستہ آہستہ واقع     ہوئی ۔  میں نے کچھ نہیں کہا اوراس کی وضاحت کا انتظار کرنے لگا۔  مگر لگتا تھا کہ وہ ڈاکٹر  کی موت کی  تفصیلات  نہیں دینا چاہتا تھا – کم از کم جب تک ویٹر میرا آڈر  نہ  لے آئے۔

"میں ڈاکٹر توکائی کی بہت عزت کرتا ہوں ۔ "نوجوان نے کہا  گویا موضوع تبدیل کرنا چاہ رہا ہو۔     وہ  زبردست    انسان  تھے ،بطور ڈاکٹر ، بطور انسان ۔ انہوں نے مجھے ہر طرح  کا کام سکھایا  اور ہمیشہ متحمل و مہربان  رہے ۔ میں نے ان  کے ساتھ  کلینک میں تقریباً  دس سال کام کیااور اگر میں ڈاکٹر صاحب سے نہ ملا  ہوتا  تو میں وہ انسان نہ ہو تا ،جو میں آج   ہوں ۔ وہ کھرے اور شریف انسان تھے  ۔ ہمیشہ خوش باش  ،  نخوت    سے پاک ۔ انہوں نے بلا تفریق بہت   توجہ  اور ذمہ دار ی سے مریضوں کا علاج کیا ۔ وہ سب بھی ان سے  پیار کرتے تھے ۔ میں نے کبھی  ایک بار بھی انہیں کسی کے  متعلق  کچھ بُرا  کہتے نہیں سُنا۔ یہ سن کر مجھے بھی  خیال آیا کہ میں نے بھی کبھی اس کے منہ سے   کسی کے  بارے میں کچھ بُرا نہیں سناتھا۔

" ڈاکٹر  توکائی تمہاری بھی   بہت تعریف کرتا تھا۔" میں نے کہا۔ " وہ کہتا تھا  کہ تمہارے بغیر وہ  کلینک نہیں چلا سکتا  اور اس کی نجی زندگی بھی  بے ترتیب ہوتی۔"

"ایک دھیمی سی اداس  مسکراہٹ  گوٹو کے لبوں پر نمودار ہوئی ۔ " میں اتنا بھی  اچھا  نہیں ہوں ۔ میں بس ان کی مد د  کرنے کے لیے   پس منظر میں  رہ کر  کام کرنا چاہتا تھا، اتنی محنت سے جتنی  میں کر سکتا تھا    ۔ اور  اس میں مجھے مزہ آتا تھا۔"

ویٹریس  میری ایسپریسو لے آئی ، اس کے جانے کے بعد  بالاخر  اس نے ڈاکٹرکی موت کے  بارے میں  بتانا شروع کیا۔

"پہلی تبدیلی جو میں نے دیکھی   وہ یہ تھی   کہ  انہوں نے   دوپہر کا کھانا ترک دیا تھا ۔اس سے پہلے وہ  روزانہ ،ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضرور کھاتے تھے ، بے شک  کچھ ہلکا پھلکا سہی۔ وہ اس بات کا خاص  خیال رکھتے تھے کہ چاہے وہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں    مگر کھانا   لازمی کھائیں   ۔  لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے دوپہر کا کھانا   مکمل طور پر   ترک  کردیا۔ " کیا آپ کچھ  کھائیں گے نہیں ؟ "  میں ان سے پوچھتا  اور وہ جواب دیتے ' فکر نہ کرو۔ مجھے  بھوک نہیں ہے ۔' یہ اکتوبر کے اوائل کی بات ہے ۔ اس    بدلاونے مجھے  پریشان کر دیا تھا۔ وہ عادات  میں تبدیلی پسند کرنے والے انسان نہیں تھے ۔ وہ با قاعدگی کو ہر  شے سے مقدم رکھتے تھے ۔  اس سے پہلے کہ مجھے مزید  کوئی اندازہ ہوتا  انہوں نے  جم جانا  ترک کر دیا۔   پہلے وہ ہمیشہ  ہفتے میں تین   مرتبہ تیراکی ، اسکواش اور  ورزش  کے لیے  جایا کرتے تھے لیکن پھر   اچانک   انہوں نے  ان  چیزوں میں  بھی دلچسپی  کھو  دی  ۔بعدازاں  انہوں نے اپنے  حلیے  پر توجہ دینی چھوڑ دی    ،  حالانکہ وہ  ہمیشہ سے  ایک صاف ستھرے اور    خوش لباس انسان تھے، لیکن   پھر   ان کے  کپڑے میلے کچیلے  رہنےلگے  ۔ ایک  جوڑا کئی کئی  دن پہنے رکھتے  ۔ خیالوں میں  کھوئے  رہتے   اور خاموش ہوتے چلے گئے۔ ایک وقت  ایسا آیا کہ  بمشکل کوئی بات کرتے    اور    آدھا وقت  بوکھلائے ہوئے  سے محسوس ہوتے تھے    ۔  جب میں انہیں پکارتا  تو   یوں لگتا کہ انہوں نے میری بات  سُنی ہی نہیں ۔ فارغ   اوقات میں  خواتین سے  ملنا جلنا  بھی چھوڑ دیا تھا۔ "

"تم اس کا شیڈول مرتب کرتے تھے ، اس لیے میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم نے یہ تبدیلیاں کافی واضح طور پر محسوس کی ہوں گی ۔ "

"یہ سچ ہے ۔ اپنی خواتین  دوستوں سے ملاقات کرنا ان کا روزانہ  کا اہم معمول تھا۔ اُن کی  توانائی کا اہم ذریعہ تھا۔ اچانک ان کو اپنی زندگی سے کاٹ دینا    معمولی بات  نہیں  تھی۔ باون  سال  اتنی    زیادہ عمر بھی   نہیں ہوتی ۔مسٹر  تنیمورا  آپ یقیناً جانتے ہی  ہوں گے  کہ خواتین  سے  تعلقات  کے  معاملے  میں  وہ کتنے سرگرم   تھے ؟"

"وہ  ان تعلقات  کو کوئی  خاص راز نہیں  رکھتا تھا۔ میرا مطلب  ہے  اس  نے کبھی  اس متعلق شیخیاں  نہیں بگھاریں ، مگر بتا دیتا تھا ۔ "

گوٹو نے سر ہلایا ۔ وہ   مجھے ہر طرح کی باتیں  بتاتے تھے  ، لہذا  یہ اچانک تبدیلی    حیران کن  تھی ۔ انہوں نے یہ سب اپنے تک محدود  رکھا اور کبھی  اس کے  بارے میں  کچھ نہیں کہا ۔ظاہر ہے  میں  نے ان سے پوچھا  کہ کیا  کوئی مشکل ہے ، یا کوئی بات انہیں پریشان کر رہی ہے ، مگر انہوں نے بس  سر ہلا دیا اور کچھ نہیں کہا۔ اس وقت تک وہ مجھ سے بمشکل  کوئی بات کرتے تھے ۔ وہ واضح طور پر  روز بروز  دُبلے اور کمزور  ہوتے جا رہے تھے ۔ یقینا ً وہ ٹھیک سے خوراک نہیں لے رہے تھے ۔ لیکن میں ان کی نجی زندگی میں دخل اندازی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ   کافی   کھلے ڈلےانسان تھے ، لیکن ایک خاص حد کے بعد  وہ اپنی پرائیوسی  کو اہمیت  دیتے تھے ۔جتنے سال  میں نے ان  کے ساتھ کام کیا، میں ان کے گھر  صرف ایک بار  کوئی ضروری چیز لینے گیا تھا  ،  جو وہ بھول آئے تھے ۔ غالباً صرف ان کی دوست  خواتین کو گھر   آنے کی اجازت  تھی۔ لہذا  میں صرف  دور  سے ہی فکر مند     اور پریشان  ہو سکتا تھا۔

گوٹو نے  دھیمی سی آہ بھری ۔ گویا اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہوکہ جو رسائی  توکائی  کی آشنا خواتین کو حاصل تھی وہ اسے  نہیں دی گئی تھی ۔

"وہ روز بروز لاغر اور کمزور ہو رہا تھا؟" میں نے پوچھا۔

"جی ہاں ۔ ان کی آنکھیں دھنس گئی تھیں اور چہرہ کاغذ کی طرح زرد پڑگیا تھا۔وہ چلتے ہوئے  توازن برقرار  نہیں رکھ پاتے تھے  اور  اسکیلپل[3]   [3]بھی استعمال کرنے کے قابل نہیں رہے تھے ۔مریضوں  کا آپریشن  کرنا  ناممکن    ہو گیا تھا۔خوش قسمتی سے  ان کا اسسٹنٹ قابل   آدمی تھا ،لہذا اس نے  عارضی طور پر  آپریشنز  سنبھال لیے تھے ۔ لیکن یہ صورت  حال  ہمیشہ  اسی طرح نہیں چل سکتی تھی ۔  میں نے فون   پر   ڈاکٹر صاحب کی تمام اپائنمنٹس  منسوخ  کیں اور  کلینک  تمام تر مقاصد کے لیے  بند کر دیا۔ آخر کار  انہوں نے مکمل  طور پر کلینک  آنا ترک کر دیا۔  یہ اکتوبر کے  آخر  ی دن  تھے ۔  میں نے انہیں  فون کیا لیکن  کوئی جواب موصول  نہیں ہوا۔میں پورے  دو دن تک  ان سے رابطہ نہیں کر پایا۔ میرے پاس  ان کے اپارٹمنٹ کی چابی تھی ۔ تیسرے  دن کی  صبح میں نے اس  چابی سے  ان کے اپارٹمنٹ  کا دروازہ کھولا اور اند ر داخل ہو گیا۔ مجھے معلوم  ہے   مجھے ایسا نہیں  کرنا چاہیے تھا مگر میں   پریشانی سے پاگل ہو رہا تھا۔"

"جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا  شدید بدبو  نے میرا سواگت کیا ۔ ہر شے فرش  پر   بکھری ہوئی تھی – سوٹ ، ٹائیاں ، زیر جامے وغیرہ۔ لگتا تھا مہینوں سے کسی نے صفائی نہیں کی تھی ۔ کھڑکیاں  بند تھیں اور ہوا میں گھٹن تھی ۔مجھے  وہ خاموشی سے  بیڈ پر   لیٹے ہوئے ملے۔ "

گوٹو نے آنکھیں  بند کر کے اپنا سر جھٹکا ۔ لگتا تھا  وہ  اُس منظر  کو ذہن میں تازہ کر رہا تھا۔

" جس لمحے  میں نے انہیں دیکھا  تو مجھے    لگا کہ یقیناً   وہ مر چکے ہیں ۔  مجھے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا ۔  مگر وہ زندہ تھے ۔  انہوں نے اپنا مدقوق،  زرد  چہرہ  میری جانب موڑا ،اور  اپنی آنکھیں کھول کر  مجھے دیکھا،   چند بار پلکیں جھپکائیں  تھیں ۔ وہ سانسیں  لے رہے تھے لیکن ہلکے ہلکے ۔ انہوں نے  چادر گردن تک اوڑھی ہوئی تھی اور  بے حس وحرکت  لیٹے تھے ۔ میں نے انہیں آواز دی  لیکن   ان کا کوئی رد عمل نہیں ملا ۔ ان کے سوکھے    ہونٹ   سختی سے بند تھے، جیسے  سی دیئے   گئے ہوں ۔ طویل عرصے سے  حجامت  بھی نہیں ہو ئی تھی ۔میں  نے کھڑکیاں کھولیں  تاکہ تازہ ہوا اندر آسکے ۔  مجھے کسی  ہنگامی  کاروائی کی ضرورت  محسوس نہیں ہوئی  اور  وہ بھی کسی تکلیف  میں مبتلا  نہیں لگتے تھے، لہذا میں اپارٹمنٹ کی  حالت درست کرنے میں جُت گیا جو پورے کا پوراتلپٹ تھا۔ بکھرے ہوئے کپڑے سمیٹے ، جنہیں دھو سکتا تھا ان  کپڑوں کو  واشنگ مشین میں دھویا۔ جنہیں ڈرائی کلینگ کی  ضرورت تھی انہیں ڈرائی    کلینر کے پاس لے جانے کے لیے ایک بیگ میں ڈال  لیا۔ باتھ ٹب میں رُکا ہوا غسل کا پانی  نکال  کر ٹب کی جالی پر جمعی ہوئی گند  صاف کی۔ ڈاکٹر توکائی  ہمیشہ بہت صاف ستھرےرہتے تھے  اور یہ ساری  غلاظت  میرے لیے ناقابل فہم تھی ۔فرنیچر     دھول  سے اٹا ہوا تھا ۔  لگتا تھا کہ انہوں نے  صفائی کرنے والی  خاتون کو فارغ کر دیا تھا۔ کافی تعجب کی بات تھی  کہ کچن  کے سنک میں صرف چند    گندے برتن    پڑے تھے ۔گھر کا یہ واحد  حصہ  تھا  جو صاف تھا۔ یقیناً انہوں نے کافی  عرصے سے  کچن استعمال نہیں کیا تھا۔ منرل  واٹر کی  دو خالی بوتلیں   ضرور موجود   تھیں لیکن انہوں نے کچھ کھایا تھا اس  بات کے  کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے ۔ میں نے ریفریجریٹر  کھولا تو اس  میں سے ناقابل بیان شدید  سڑاند   اٹھ رہی تھی ۔اس کے اندر  رکھی ساری اشیاء   سٹرچکی تھیں ،ٹوفو، سبزیاں ، پھل ، دودھ، سینڈوچ ، ہیم  اور اس طرح کی  کئی چیزیں ۔میں  نے ان تمام چیزوں کو ایک پلاسٹک  کے تھیلے میں بھر کر  اپارٹمنٹ  بلڈنگ  کے باہر رکھی کچرا کنڈی میں پھینک  دیا۔

گوٹو نے اپنا خالی ایسپریسو  کپ اٹھا کر اس کا مختلف زاویوں  سے معائنہ کیا ۔ بلاآخر اپنی نظریں اٹھا ئیں۔

"اپارٹمنٹ کی حالت سدھارنے میں  میرے تین گھنٹے صرف ہوئے ۔  میں نے  کھڑکیاں کھلی چھوڑی ہوئی تھیں تاکہ  کام  مکمل ہونے تک  تعفن کچھ  کم  ہوجائے ۔ ڈاکٹر  تو کائی  نے اس  دوران  ایک لفظ نہیں کہا۔ بس کمرے میں چلتے  پھر تے ہوئے ،  ان کی آنکھیں  میرا تعاقب کرتی تھیں ۔وہ  سوکھ کر اتنے کانٹا ہو چکے تھے  کہ ان کی آنکھیں معمول  سے زیادہ  بڑی اور چمکدار نظر آتی تھیں ، مگر  ان میں کوئی جذبہ  نہیں  دیکھائی  دیتا تھا ۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھیں  لیکن درحقیقت  کچھ نہیں دیکھ رہی تھیں ۔  سمجھ نہیں آتا کیسے بیان کروں ۔ وہ  بس  ہر متحرک شے کا پیچھا کر رہی تھیں جیسے خودکار کیمرے  کا لینس متحرک  ہدف  پر مرکوز ہوتا ہے ۔   ایسا لگتا تھا  کہ انہیں میری موجودگی کی کوئی پروا نہیں تھی ، یا وہ  دیکھ  ہی نہیں سکتے تھے کہ   میں کیا کر رہا ہوں ۔اُن کی آنکھوں   میں اداسی تھی ۔ جب تک  میں زندہ  ہوں ان آنکھوں کو نہیں بھولوں گا۔میں نے الیکڑک استرے سے ان کی حجامت بنائی اور ایک گیلے تولیے سے ان کا چہرہ صاف کیا۔  انہوں نے بالکل مزاحمت نہیں کی تھی ۔  میں نے جو   چاہا انہوں نے مجھے کرنے دیا۔ اس کے بعد  میں  نے ان کے  ذاتی فزیشن کو  فون کیا ۔ جب میں  نے ڈاکٹر کو  صورت حال بتائی تو وہ  فوراً آگیا۔ ڈاکٹر نے ان کا  معائنہ کیا اور چند سادہ ٹیسٹ کیے ۔ڈاکٹر توکائی نے ایک لفظ نہیں  کہا،بس    اس دوران  ان کی  بے حس  اور بے چین آنکھیں  ہمارے  چہروں کو گھور رہی تھیں ۔

"شاید ایسا کہنا ٹھیک مناسب نہیں  ،   مگر وہ زندہ   انسان  نہیں لگتے  تھے۔   یوں لگتا  تھا جیسے  انہیں زمین میں دفن کر  دیا گیا تھا  اور  انہیں   ایک  مَمی  میں تبدیل ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ وہ کچھ   نہیں کھا رہے تھے ۔ لیکن ظاہر ہے وہ اپنی دنیاوی وابستگیوں سے  ناطہ نہیں توڑ سکے اورمَمی   میں  تبدیل نہیں ہوئے  ،اس لئے واپس سطح پر ابھر آئے  ۔ میں جانتا ہوں ایسا کہنا عجیب ہے  لیکن مجھے بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا تھا ۔وہ اپنی روح  کھو چکے تھے  جو  پلٹ کر  نہیں آنے والی  تھی۔لیکن  ان کے اعضا ء    ہار مانے  بغیر اپنا کام ،آزادانہ  کرتے رہے۔ یہ سب ایسا ہی لگتا تھا۔"

نوجوان   نے چند بارسر ہلایا۔

" مجھے افسوس  ہے  یہ سب بتانے میں، میں نے اتنا وقت  لیا۔ بس میں بات مکمل کرنے لگا ہوں ۔ ڈاکٹر توکائی   بنیادی طور پر انوریکسیا جیسی کسی بیماری کا شکار تھے۔وہ کچھ نہیں  کھا رہے تھے  مگر  صرف اس وجہ سے زندہ تھے کہ پانی پی رہے تھے۔ مگر    سچ کہوں تو وہ انوریکسیا  نہیں تھا۔مجھے یقین ہے  آپ جانتے ہوں گے   یہ  بیماری  تقریباً  ہمیشہ ہی  نوجوان خواتین میں  پائی جاتی ہے ۔  وہ خوراک میں سے  کیلوریز گھٹا دیتی ہیں تاکہ  وزن  کم کرسکیں  اور خوبصورت نظر آئیں اورجلد صرف    وزن کم کرنا ہی   ان کا  مقصد بن جاتا ہے  اور    وہ فاقہ کشی  کرنے لگتی ہیں ۔  انتہائی صورت  میں یہ خواتین   وزن بالکل ہی   ختم کردیتی  ہیں۔  لہذا اگرچہ  یہ ناقابل  تصور ہے کہ ایک ادھیڑ عمر آدمی   کو انوریکسیا  ہو جائے، لیکن ڈاکٹر تو کائی کے کیس میں بالکل  یہ  ہی ہوا ۔یقیناًاس بات کا پرکشش دکھائی دینے سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔میرا خیال ہے   وہ  واقعی خوراک نہیں نگل پا رہے  تھے۔"

"کیونکہ وہ  مریضِ عشق تھا؟ " میں نے پوچھا۔

"کچھ ایسا ہی تھا۔" گوٹو نے کہا ۔ یا پھراس سے ملتی جلتی  خواہش ، خود کو گھٹا کر ختم کرنےکی کوشش ۔ شاید  وہ  خود کو مٹانا چاہتے تھے ۔  ورنہ کوئی نارمل آدمی   فاقہ کشی کی   تکلیف برداشت نہیں کر سکتا ۔ شاید جسم کو دھیرے دھیرے ختم کرنے کی  مسرت ،تکلیف سے جیت گئی تھی۔ ایسا ہی جیسےانوریکسیا  کی  مریض خواتین محسوس کرتی ہوں گی جب  اپنے ہی  جسم کو  گھٹتا  ہوا دیکھتی ہوں گی ۔"

میں نے   ڈاکٹر کا تصور کرنے کی کوشش کی  جس پر عشق  کا بھوت اس حد تک سوار تھاکہ  ایک   سکڑی ہوئی  مَمی بن گیاتھا۔ لیکن میں صرف   ایسے  شخص کا تصور کر سکا  جسے میں جانتا تھا ایک خوش وخرم ، صحت مند،  خوش لباس   شخص   جو  اچھے کھانوں کا دلدادہ تھا۔

"ڈاکٹر نے انہیں غذائیت کے انجکشن   دیئے  اور  ڈرپ کی  نگرانی  کرنے کے لیے ساتھ آئی    نرس  کو مقرر  کر دیا۔ لیکن غذائیت کے انجکشن    کے بعد اتنا ہی کیا جا سکتا ہے ، اگر مریض چاہے تو وہ  ڈرپ نکال سکتا ہے۔  اور میں دن رات ان کے پاس نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ میں  انہیں کچھ کھانے کے لیے مجبور کر سکتا تھا   مگر  پھر وہ  اُلٹی کر سکتے تھے  ۔ اگر کوئی شخص اسپتال میں داخل ہونے کے لیے راضی نہ ہو تو  آپ اسے   مجبور نہیں کر سکتے۔ اس وقت تک ڈاکٹر توکائی  جینے کی اُمنگ چھوڑ چکے تھے اور  خود کو    دھیرے دھیرے  گھٹا کر   ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ چاہے کوئی کچھ   بھی کرتا، چاہے ہم  انہیں کتنے  ہی غذایت  کے انجکشن دیتے ،مگر موت کی جانب کا یہ سفر      رکنے والا نہیں  تھا ۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کر سکتے تھے کہ ہاتھ باندھے  فاقہ کشی   کو ان  کا  جسم  نگلتے ہوئے دیکھتے رہیں ۔  وہ بہت تکلیف دہ   اور  کٹھن   دن  تھے۔  میں جانتا تھا مجھے کچھ کرنا  چاہیے لیکن کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ واحد اطمینان یہ تھا کہ وہ کسی تکلیف میں  محسوس نہیں  ہوتے تھے کم از کم میں نے  انہیں   کراہتے  یا  منہ   بناتے نہیں دیکھا ۔میں روزانہ ان کے گھر جاتا، ان کی  ڈاک  دیکھتا  ،صفائی کرتا ،  اور  ان کے سرہانے بیٹھ کر  ہر  قسم  کی   باتیں  کرتا تھا۔  کام سے متعلق خبریں ،  گپ شپ وغیرہ۔ لیکن انہوں  نے کبھی   ایک لفظ  نہیں کہا ۔کبھی کوئی ردعمل نہیں ظاہر کیا ۔ مجھے تو یہ   یقین بھی  نہیں تھا  کہ وہ ہوش میں تھے یا نہیں ۔ بس وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے   چپ چاپ مجھے   گھورتے  رہتے تھے،  ان کا چہرہ نقاب کی  مانندلگتا  تھا۔وہ آنکھیں عجیب سی شفاف تھیں۔ گویا آر پار دیکھ سکتی  ہوں۔"

"کیا  ڈاکٹر  اور اس عورت کے درمیان کچھ ہوا تھا ؟"میں نے پوچھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ایک شادی شدہ   عورت  کے لیے بہت سنجیدہ  ہو گیا  تھا اور اس عورت کا ایک بچہ بھی تھا ۔ "

" یہ درست ہے ۔ اس حالت تک پہنچنے  سے  تھوڑے  عرصے  قبل  وہ اس خاتون کی   شدید محبت  میں گرفتار ہو گئے تھے ۔ وہ کوئی وقتی  معاشقہ نہیں   تھا ۔ ان دونوں کے درمیان کچھ انتہائی  شدید  مسئلہ  ہوا  اور  جو کچھ بھی ہوا، اس نے ان سے جینے کی تمنا  چھین لی تھی ۔  میں نے اس خاتون  کے شوہر  کے گھر فون کر کے  کہا کہ مجھے اس کی بیوی  سے  ایک منٹ کے  لیے  اس  اپائنمنٹ  کے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہے جو اس نے ہمارے کلینک میں   کروا   رکھی  ہے۔ اس نے  مجھے کہا کہ وہ اب یہاں نہیں رہتی۔  جب میں نے یہ پوچھا کہ 'مجھے  خاتون  سے بات کرنے کے لیے کہاں فون کرنا چاہیے '   تو   اس نے  کہا کہ  وہ  نہیں جانتااور فون بند کر دیا۔"

گو ٹو کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولنا شروع کیا۔

"قصہ مختصر میں  اس خاتون  کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگیا ۔اس نے اپنے بچے اور شوہر کو بھی  چھوڑ دیا تھا اور کسی دوسرے آدمی کے ساتھ رہتی تھی۔"

میں یہ سن کر گنگ رہ گیا ۔ پہلے تو مجھے  سمجھ  ہی نہیں  آیاکہ اس نے کیا کہا  تھا۔" کیا تم یہ  کہہ رہے ہو کہ اس نے اپنے شوہر اور ڈاکٹر دونوں کو   ہی چھوڑ دیا تھا۔میں سوال  پوچھنے کے قابل ہو ہی گیا۔"

"ہاں  ۔   گوٹو  کے  ماتھے پر بل   پڑ گئے ۔اس کا ایک تیسرے آدمی سے تعلق تھا۔ میں تفصیلات نہیں جانتا لیکن وہ شخص اس عورت سے کم عمر دکھائی دیتا تھا ،لیکن یہ صرف میرا اندازہ ہے۔  مجھے  لگا کہ وہ آدمی بالکل ایسا نہیں تھا جسے آپ پسند کریں گے ۔وہ اس آدمی کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی تھی۔ ڈاکٹر  تو کائی  تو بس ایک آسان ذریعہ تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اس  عورت نے  انہیں استعمال کیا  تھا۔ اس بات کے بھی ثبوت ملے تھے کہ انہوں نے اس   پر بہت زیادہ روپیہ خرچ کیا تھا ۔میں نے وکلاء کو شامل کیا اور انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا بینک بیلنس اور کریڈٹ کارڈز اکاؤنٹ چیک کیے  اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ انہوں نے  یہ  پیسے  اس  عورت   کے لیے مہنگے تحائف خریدنے پر خرچ کیےتھے یا  پھر شاید  اسے  بطور قرض دے دیئے تھے ۔ اس بات کا کوئی  سراغ نہیں  ملا  کہ پیسے کہاں خرچ کئے گئے اور تفصیلات بھی مبہم تھیں۔ بس ہم یہ جانتے ہیں کہ انہوں  نے    کافی مختصر عرصے میں  بڑی رقم  بینک سے نکلوائی تھی ۔ "

میں نے ایک  گہری  آہ بھری ۔"اسے تو بہت تکلیف پہنچی ہوگی ۔"

نوجوان نے سر ہلایا۔" اگر اس عورت نے انہیں  صاف صاف  یہ  کہا ہوتا  کہ' میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں  اپنے شوہر اور بچے کو   نہیں  چھوڑ  سکتی اس لئے مجھے تم سے تعلق توڑنا پڑے گا ' تو میرا خیال ہے وہ  یہ  صدمہ برداشت کر سکتے تھے ۔ڈاکٹر صاحب نے اس عورت سے جس قدر محبت کی اس سے پہلے کبھی کسی سے نہیں کی تھی، لہذا ظاہر ہے  انہیں شدید صدمہ پہنچا  تھالیکن  مجھے  یقین  نہیں    کہ وہ     اس    باعث موت کی آغوش میں پہنچے۔ کیونکہ  جب ساری باتیں سمجھ آجاتی ہیں،تو  چاہے کتنی ہی گہری تکلیف  پہنچی ہوآپ خود کو سنبھالنے کے قابل ہو ہی جاتے ہیں۔ مگر  اس تیسرے آدمی کا حلیہ  اور یہ  احساس  کہ انہیں استعمال کیا گیا ایک  ایسا  دکھ  تھا جس سے  وہ  سنبھل  نہیں سکے۔

میں خاموشی سےسنتا رہا۔

"انتقال کے وقت   ڈاکٹر توکائی  کا   وزن  اسّی  پاونڈز سے بھی کم تھا۔" نوجوان نے کہا۔ "عام طور پر ان کا وزن ایک سو ساٹھ  سے  زیادہ ہوتا تھی ۔یعنی  وہ    اپنے عمومی  وزن  سے نصف  ہو چکے تھے۔  ان کی   پسلیاں ایسے ابھر  آئی  تھیں  جیسے جوار بھاٹا  اتر جانے کے بعد چٹانیں نمودار ہو جاتی ہیں۔  انہیں دیکھنے کا دل نہیں چاہتا تھا ،   بڑی خوفناک صورتحال تھی۔ ان کی اس  حالت  سے  مجھے  حراستی کیمپ سے زندہ بچ  نکلنے والے نحیف و نزار یہودیوں کی یاد  آتی تھی   جو میں نے ایک دستاویزی فلم میں دیکھے تھے۔"

کنسنٹریشن کیمپ ۔جس طرح اس  نے   پیشن گوئی کی تھی  ۔میں کون ہوں ؟ میں واقعی اس متعلق سوچ رہا ہوں۔

گوٹو  نے مزید کہا ۔"طبّی   نقطہ  نظر سے   دیکھیں   تو موت کی وجہ دل کا  بند ہوجانا تھا۔ ان کے دل  میں خون پمپ  کرنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔ لیکن میرے خیال میں ان کی موت کی  اس لیے ہوئی  کہ   وہ  محبت  میں مبتلا تھے ۔ پرانی اصطلاح میں  کہیں تو  وہ واقعی     مریض عشق  تھے ۔میں نے اس عورت کو کئی بار فون کر کے صورتحال بیان کر کے مدد مانگی ،  باقاعدہ  اس کے قدموں میں پڑ گیا اور اس سے التجا کی کہ ڈاکٹر  توکائی سے مل لے ، بے شک تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی۔  میں نے اسے بتایا  تھاکہ  ڈاکٹر صاحب  قریب المرگ  ہیں لیکن وہ نہیں آئی۔ ظاہر سی بات ہے مجھے معلوم تھا کہ صرف اس  خاتون  سے  ایک  ملاقات انہیں مرنے سے نہیں بچا سکتی تھی ۔ ڈاکٹر تو کائی  مرنے کا فیصلہ کر چکے تھے، مگر  شاید کوئی معجزہ رونما ہو جاتا۔ یا شاید مرتے وقت ان کی  کیفیات  مختلف ہوتیں۔ یا  شاید  اس عورت سے ملنا  انہیں   صرف الجھا  دیتا اور مزید  تکلیف میں مبتلا کردیتا ۔ میں واقعی نہیں جانتا ۔  سچ  تو  یہ ہے   یہ  سب  میرے  لیے ناقابل  فہم تھا ۔ بہرحال  میں یہ ضرور  جانتا ہوں کہ   کبھی کسی نے مکمل طور پرکھانا پینا   ترک   نہیں کیا  اور   صرف         عشق میں مبتلا  ہونے کی وجہ سے مر گیا ہو۔ آپ  کا کیا خیال ہے ؟"

" میں  متفق ہوں ۔میں نے کبھی ایسی بات نہیں سنی ۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر توکائی    واحد  آدمی تھا۔ جب میں نے یہ کہا  تو  گوٹواپنا چہرہ دونوں  ہاتھوں میں چھپا کر خاموشی سے رونے لگا۔ وہ واقعی ڈاکٹر سے بہت محبت کرتا تھا ۔ میں اس کو تسلی دینا چاہتا تھا مگر   نہیں دے سکا۔ کچھ دیر  بعد اس نے رونا بند کیا اور اپنی پینٹ کی جیب سے  سفید رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھ  لیے۔

"مجھے افسوس ہے آپ کو مجھے  اس  حالت میں دیکھنا پڑا۔"

" کسی کے لیے آنسو بہانے پر معذرت کی ضرورت نہیں   ہوتی ۔" میں نے اس سے کہا۔ " خاص طور پر جس کی آپ  پروا کرتے ہوں اور وہ   مر چکا ہو۔"

"شکریہ۔" گو ٹو نے جواب دیا ۔"سُن کر تسلی  ہوئی ۔"

اس نے میز کے نیچے رکھے  اسکواش کا ریکٹ  اٹھا کر میرے حوالے کر دیا ۔  اندر بالکل نیا، قیمتی  بلیک نائٹ  ریکٹ تھا۔

"یہ ڈاکٹر نے میرے  حوالے کیا تھا ۔    انہوں نے آن لائن آرڈر کیا    مگر جب   تک یہ  ان   کے پاس  پہنچا ان  میں  کھیلنے کی  سکت باقی   نہیں رہی تھی۔ انہوں نے مجھے    کہا تھا کہ   یہ ریکٹ  مسٹر تنیمورا  کے حوالے کردوں ۔ مرنے سے پہلے وہ  مکمل ہوش و حواس میں تھے اور مجھے  چند  کام  نبٹانے  کی ہدایت  کی تھی  ۔ یہ ریکٹ   آپ تک پہنچانا بھی ان میں سے ایک تھا ۔   اگر آپ  پسند  کریں  تو برائے مہربانی  اسے  استعمال کیجیے گا۔  میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ریکٹ  رکھ لیا۔ "کلینک کا کیا ہوگا؟" میں نے سوال کیا ۔

"  فی الحال بند رہے گا۔ "اس نے کہا ۔ "اور   بلاآخرہم   اسے بند کردیں گے   یا   فروخت  کر دیں گے ۔ ابھی کچھ دفتری کام باقی ہے  اس لیے  میں تھوڑے  عرصے  کے لیے مدد کر رہا ہوں ، مگر میں نے اس کے بعد  کیا کرنا ہے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ مجھے اس صدمے سے  نکلنے کی ضرورت ہے ،  ابھی میں ٹھیک  طرح  سے نہیں سوچ  پا رہا ہوں۔" مجھے   پوری   امید تھی کہ یہ نوجوان صدمے سے جلد   سنبھل   جائے گا۔

جب ہم   ایک دوسرے  کو الوداع  کہہ رہے تھے ، نوجوان  نے کہا ۔"مسٹر تنیمورا ، میں جانتا ہوں کہ یہ  آپ کو زیر بار کرنا ہو گا ، مگر میں  آپ سے  ایک بات     کہنا چاہتا ہوں ، برائے مہربانی  ڈاکٹر توکائی کو یاد رکھیے گا۔ وہ  نہایت مخلص انسان تھے ۔  جو لوگ گزر چکے ہیں ان کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں، سوائے   یہ کہ جتنا  عرصہ یاد  رکھ سکتے ہیں  انہیں  یاد رکھیں۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں جتنا لگتا ہے۔ میں کسی اور  سے ایسا کرنے کا نہیں کہہ سکتا۔"

"تم بالکل ٹھیک  کہتے ہو۔" میں نے اسے کہا۔ کسی کو لمبے عرصے تک   یاد رکھنا اتنا  آسان نہیں جتنا لوگ  سمجھتے  ہیں ۔  جس قدر   طویل عرصہ میں  یاد رکھ  سکا اسے یاد رکھنے کی کوشش کروں گا،میں نے وعدہ کیا۔میرے پاس یہ  جاننے کا  کوئی طریقہ نہیں تھا کہ ڈاکٹر توکائی کا دل واقعی کتنا پاک تھا مگر  یہ سچ تھا کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا  اور یقینی طور پر  وہ یاد رکھے جانے کے  قابل تھا۔ ہم نے مصافحہ کیا اور ایک دوسرے کو  الوداع کہا۔

میرا خیال ہے میں ڈاکٹر توکائی کو نہ بھولنے کے لیے ہی     یہ   روداد  لکھ رہا ہوں ۔ میرے لیے  باتیں  لکھ لینا ، نہ بھولنے کا ایک موثر طریقہ ہے۔میں نے ناموں اور جگہوں کو تھوڑا سا تبدیل کیا ہے تاکہ کسی قسم کی  پریشانی نہ ہو ،لیکن   یہ تمام واقعات حقیقت میں  رونما ہوئے ، جیسا کہ میں نے انہیں سے  بیان کیا ہے۔  اچھا ہو گا اگر اتفاقاً نوجوان گوٹو     کے ہاتھ یہ       سرگزشت لگ جائے     اور وہ  اسے پڑھ لے ۔

ایک اور چیز ہے جو مجھے ڈاکٹر توکائی کے بارے میں اچھی طرح یاد ہے۔ مجھے  یہ  یاد نہیں کہ ہم اس موضوع پر کیسے پہنچے  تھے ، لیکن وہ مجھ سے خواتین کے بارے میں عمومی  بات کر رہا تھا۔

سب خواتین ایک خاص ، آزاد عضو کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جس کی مدد سے  وہ جھوٹ بولتی ہیں ۔ یہ ڈاکٹر توکائی کی ذاتی رائے تھی۔ یہ انسانوں   پر منحصر ہے ، اس نے کہا تھا ،وہ کس قسم کے جھوٹ بولتے ہیں ، کن حالات میں  جھوٹ  بولتے  ہیں اور کیسے بولتے   ہیں ۔ لیکن اپنی زندگی کے  کسی نہ کسی   مقام  پر تمام خواتین جھوٹ بولتی ہیں  اور وہ اہم چیزوں کے بارے میں جھوٹ بولتی ہیں۔ وہ غیر اہم چیزوں کے بارے میں بھی جھوٹ بولتی ہیں ، لیکن وہ انتہائی اہم چیزوں کے بارے میں جھوٹ بولنے سے بھی نہیں ہچکچاتیں ۔ اورجب  وہ   جھوٹ بولتی  ہیں  تو  زیادہ تر خواتین کے تاثرات اور آوازیں بالکل  تبدیل  نہیں ہوتیں کیونکہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی ہوتیں  ، بلکہ یہ   آزاد عضو جس سے وہ لیس ہوتی ہیں     آزادانہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ – سوائے  چند خاص  کیسز کے – ان کا ضمیر مطمئن رہتا ہے  اور جو کچھ  وہ  کہتی ہیں  اس پر کبھی بے خوابی کا  شکار نہیں ہوتیں ۔

اس نے یہ سب بہت فیصلہ کن انداز میں کہا  تھا ، یہی وجہ ہے کہ مجھے یہ   بہت اچھی طرح یاد ہے ۔ بنیادی طور پر مجھے  اس کے ساتھ متفق ہونا  پڑا، اگرچہ یہ   ہو سکتا    ہے  کچھ  مخصوص باریکیاں  جو اس نے بتائی تھیں  وہ تھوڑ ی بہت مختلف ہوں ۔ بے شک مختلف راستوں   کے ذریعے سہی لیکن   وہ اور میں  ایک ہی  ناخوشگوار نتیجے  پر  پہنچے  تھے ۔

مجھے یقین ہے کہ ، موت کا سامنا  کرتے ہوئے   اسے اس بات کی تصدیق  کرنے میں کوئی خوشی نہیں ہوئی ہوگی  کہ اس  کی تھیوری  درست تھی ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ڈاکٹر توکائی کے لیے بہت   افسوس   ہے ۔ مجھے   واقعی اس کی موت پر  دکھ ہے ۔  جان بوجھ کر کھانا  چھوڑ  کر بھوک سے  مر جانے کے لیے انتہائی  ہمت  درکار ہوتی ہے  ۔جو  جسمانی اور جذباتی درد اس  نے  برداشت کیا ہو گا  وہ  سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی اعتراض نہیں  کہ مجھے  اس پر رشک آتا ہے  جس طرح  اس نے  ایک عورت سے محبت  کی– قطع نظر  اس  کے  کہ وہ کس  قسم  کی عورت تھی – اتنی گہری کہ اس محبت  نے اسے اپنے آپ کو    گھلا گھلا کر   ختم کرنے پر مجبور کر دیا۔ اگر وہ چاہتا تو اپنی پہلے  کی طرح   بناوٹی زندگی   جاری رکھ سکتا تھا ۔یونہی بیک وقت  کئی عورتوں  سے  معاشقے  کرتے ہوئے ،  پینٹو نویر کے گلاس سے لطف اندوز ہوئے  ،اپنے  بڑے  سے   لیونگ روم میں  پیانو پر " مائی وے(My Way)  "بجاتے ہوئے ، شہر کے   کسی  کونے میں خوشگوار محبتوں کے  لمحات سے لطف اندوز ہو تے ہوئے ۔ لیکن وہ  جان کی پروا کیے   بغیر اتنی شدید    محبت میں  مبتلا ہو گیا    کہ  کھانے کے قابل نہ  رہا   اورایک بالکل نئی دنیا میں  داخل ہو گیا ، جہاں اس نے ایسی  چیزیں دیکھیں  جو  پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اور آخر کار خود کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جیسا کہ گوٹو نے کہا تھا ، وہ خود کو مٹا رہا تھا۔ میں نہیں بتا سکتا کہ ان دونوں میں سے کون سی زندگی  اس کے لئے واقعی پُر مسرت  اور حقیقی تھی۔ وہ تقدیر جو اس سال  ستمبر سے  نومبر تک  ڈاکٹر توکائی کےنصیب میں   آئی ، اتنی اسراروں  سے بھرپور تھی  کہ گوٹو  کی طرح ، میں بھی  سمجھ نہیں سکا۔

میں اب بھی اسکواش کھیلتا ہوں ، لیکن ڈاکٹر توکائی کے مرنے کے بعد میں  دوسری جگہ منتقل ہوگیا   اور  نتیجے میں ،جم بھی  بدل گیا۔ میں نئے جم میں، عموماً کرائے کے  پارٹنرز کے ساتھ کھیلتا ہوں۔ اس   طرح  پیسے خرچ ہوتے ہیں ، لیکن    اس میں سہولت  ہے۔  جو ریکٹ  ڈاکٹر توکائی  نے میرے لیے چھوڑا ہے میں نے اسے   بمشکل  استعمال کیا ہے  ۔ وہ  تھوڑا  زیادہ  ہلکا ہے  اور جب میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ کتنا ہلکا ہے ، میں اس کے لاغر  جسم کا  تصور   کیے   بنا نہیں رہ  پاتا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی طرح ہمارے دل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ جب  وہ کچھ محسوس  کرتی ہے ، میرا دل  اس کے  ساتھ  ساتھ  محسوس  کرتا ہے۔ جیسے ہم دو کشتیاں   ہیں  جو   رسی سے ایک  ساتھ  بندھی ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ رسی کاٹنا چاہیں   تو کوئی تیز  دھار چاقو  موجودنہیں  ہے ۔

ظاہر ہے بعد میں ،  ہم سب نے سوچا کہ اس نے خود کو غلط کشتی سے باندھ لیا  تھا۔لیکن واقعی کون کہہ سکتا ہے؟ بالکل اسی طرح جیسے اس عورت نے اپنے آزاد عضو  سے  اس کے ساتھ جھوٹ بولا تھا، ڈاکٹر توکائی نے  – کچھ  مختلف معنوں میں – اپنےاس آزاد   عضو کو  محبت   کرنے کے لیے  استعمال کیا۔ایک ایسا  عمل جو   اس کی منشاکے  بغیر تھا  ۔ وقت گزرنے کے بعد  کسی انسان  کے لیے یہ بہت آسان  ہوتا  ہے   کہ افسوس سے سر ہلا ئے اور  خود پسندی  سے    کسی دوسر ے انسان کے افعال  پر  تنقید  کرے ۔ مگر  اس قسم کے عضو– وہ عضو جو ہمیں  نئی بلندیوں پر پہنچاتا ہے ، پستیوں میں دھنسا دیتا ہے ، ہمارے   ذہن کو بحرانوں میں دھکیل دیتا ہے ، خوبصورت واہمے   منکشف کرتا ہے اور کبھی کبھی موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے – کی مداخلت کے بغیر ہماری زندگیاں  واقعی بے رنگ  اور روکھی ہوتیں یا بس تضادات کا تسلسل  بن کر رہ جاتیں ۔

بے شک ، میرے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ  ڈاکٹر توکائی نے کیا سوچا ، کس قسم کے خیالات اس کے  ذہن میں تھے  ، جب  وہ اپنی  منتخب کردہ  موت  کہ  دہانے  پر پہنچ ہو گا۔ لیکن درد اور تکلیف کی گہرائیوں میں بھی ، صرف تھوڑی دیر کے لیے    اس  ذہن  اتنا کام کر رہا تھا کہ اس نے غیر استعمال شدہ  ریکٹ   میرے   حوالے  کرنے کی  ہدایات چھوڑ یں ۔شاید وہ مجھے کسی طرح  کا  پیغام بھیجنے کی کوشش کر رہا تھا۔شاید جب وہ موت کے  دہانے  پر تھا اسے آخر کار  اپنے سوال  کہ  میں کون ہوں؟ کا  جواب مل گیا تھا ۔ اور وہ مجھے بتانا چاہتا تھا۔میرا دل کہتا ہے کہ یہ  ہی بات تھی ۔

 

حواشی:

 

[1]  ایک قسم  جاپانی کا سالن ۔Nikujaga

[2] ایک قسم کا جاپانی  سالن ۔En  papillote

[3] نشتر، جراحی کا چاقو

 

 

 (انگریزی سے اردو ترجمہ)

 

English Title: The Independent Organ

Written by:

Haruki Murakami (born January 12, 1949) is a Japanese writer. His novels, essays, and short stories have been bestsellers in Japan and internationally, with his work translated into 50 languages and having sold millions of copies outside Japan.  He has received numerous awards for his work, including the Gunzo Prize for New Writers, the World Fantasy Award, the Frank O'Connor International Short Story Award, the Franz Kafka Prize, and the Jerusalem Prize.

 

 www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

 



 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق