اوہنری کا افسانہ : باسی روٹی (Witches loaves)
عالمی ادب کے اردو
تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 141 : باسی
روٹی
تحریر : او ہنری
(امریکہ)
مترجم: رومانیہ نور
(ملتان، پاکستان)
مس مارتھا میکھم گھروں
سے چند قدم کے فاصلے پر گلی کی نکڑ پر ایک چھوٹی سی بیکری چلاتی تھی۔ مس مارتھا
چالیس کے پیٹے میں تھی۔ وہ دو ہزار ڈالر بینک بیلنس، دو نقلی دانتوں اور ایک
مہربان دل کی مالک تھی۔ بہت سے ایسے لوگ جن کی شادی کے امکانات مس مارتھا سے بھی
کم تھے اب تو وہ بھی شادی شدہ ہو چکے تھے۔
ہفتے میں دو تین مرتبہ
ایک گاہک بیکری پر آتا تھا جس میں مس مارتھا دلچسپی لینے لگی۔ وہ ایک درمیانی عمر
کا شخص تھا جو چشمہ لگاتا تھا۔ اُس کی بھوری داڑھی احتیاط سے ترشی ہوئ تھی۔
وہ ٹھیٹھ جرمن لہجے میں
انگریزی بولتا تھا۔ اُس کا لباس پرانا اور جگہ جگہ سے رفو شدہ یا پھر ڈھیلا ڈھالا
اور شکن آلود ہوتا تھا۔ لیکن وہ ایک صاف ستھرا، مہذب اور مؤدب شخص نظر آتا تھا۔
وہ ہمیشہ دو باسی روٹی
خریدتا۔ تازہ روٹی پانچ سینٹ کی ایک تھی جبکہ باسی روٹی پانچ سینٹ کی دو مل جاتی
تھیں۔ اس نے باسی روٹی کے علاوہ کبھی کچھ نہیں خریدا تھا۔
ایک دفعہ مس مارتھا نے
اس کی انگلیوں پر سرخ اور بھورے رنگ کے دھبے لگے دیکھے۔ تب اسے یقین ہو گیا کہ وہ
کوئ مصور ہے اور انتہائ غریب ہے۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ کسی اٹاری میں رہتا
ہے؛ جہاں وہ تصویر کشی کرتا ہے اور باسی روٹی کھاتا ہے۔ مس مارتھا کی بیکری پر
موجود دیگر چیزوں کو کھانے کا تو وہ صرف تصور ہی کر سکتا ہے۔
اکثر جب مس مارتھا
لوازمات کے ہمراہ کھانا کھانے یا چائے پینے کے لئے بیٹھتی تو آہ بھرتی اور خواہش کرتی
کہ کاش وہ شریف اور وضعدار مصور کسی ٹھنڈی اور ہوادار بالکونی میں باسی روٹی کھانے
کی بجائے اُس کے لذیذ کھانے میں شریک ہو سکتا۔ مس مارتھا کے دل میں جیسا کہ آپ کو
پہلے بتایا گیا ہے ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئ تھی۔
اُس شخص کے پیشے کے
متعلق اپنے نظریے کی تصدیق کے لئے ایک دن مس مارتھا اپنی خوابگاہ سے وہ تصویر اٹھا
لائ جو اُس نے سیل میں خریدی تھی اور کاؤنٹر کے پیچھے الماری پر ٹانک دی۔
یہ وینس کا ایک منظر
تھا۔ سنگِ مرمر سے بنا ایک شاندار محل تھا جس کے پیش منظر میں پانی میں بجرا تیر
رہا تھا۔ اُس میں بیٹھی دوشیزہ پانی میں ہاتھ ڈالے ایک لہر بناتی جا رہی تھی۔ اِس
کے علاوہ بادل، آسمان اور دھوپ چھاؤں کا منظر تھا۔ غرض یہ ایسی تصویر تھی کہ کوئ
بھی مصور متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
دو دن کے بعد گاہک
آیا۔'' مہربانی فرما کر دو باسی روٹی دے دیں۔ مادام آپ نے یہاں ایک عمدہ تصویر
لگائ ہے۔'' مس مارتھا لفافے میں روٹی لپیٹ رہی تھی۔ '' جی ہاں؟ '' مس مارتھا نے
اپنی چالاکی پر مسرور ہو کر کہا، ''میں فن کو پسند کرتی ہوں اور( نہیں کسی مصور کو
ابتدائ طور پر ایسے نہیں کہتے) فن مصوری کو پسند کرتی ہوں۔'' اُس نے بات بدل دی۔
''آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ ایک عمدہ تصویر ہے؟'' اِس میں توازن ٹھیک نہیں ، منظر
اصلی نہیں ہے۔ بہر حال یہ ایک بہت اچھی تصویر نہیں۔ صبح بخیر مادام!'' اُس نے اپنی
روٹی لی اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
یقیناً وہ ایک مصور ہی
ہے، مس مارتھا تصویر کو واپس خوابگاہ میں لے گئ۔اس کی آنکھیں چشمے کے پیچھے کیسے
نرمی اور شرافت سے چمکتی ہیں۔ اس کی پیشانی کتنی کشادہ ہے۔ اس نے کیسے ایک جھلک
میں ہی منظر کو جانچ لیا۔ اور ایسے شخص کو باسی روٹی کھانی پڑتی ہے۔۔۔ مگر ذہین
لوگوں کو اکثر اپنی پہچان بنانے اور خود کو تسلیم کروانے کے لئے محنت کرنا ہی پڑتی
ہے۔
فن اور اس تناظر میں
کسی ذہین فنکار کی پشت پناہی کے لئے بینک میں پڑے دو ہزار ڈالر، ایک بیکری اور ایک
ہمدرد دل کی وقعت ہی بھلا کیا ہے۔ مگر یہ مس مارتھا کی جاگتی آنکھوں کے خواب تھے۔
اب جب وہ آتا تو اکثر کاؤنٹر پر تھوڑی بہت بات چیت کر لیتا۔ مس مارتھا کو لگتا کہ
شاید اس کوخوش گوار لفظوں کی طلب ہے۔
گاہک نے باسی روٹی
خریدنا جاری رکھا۔ اس نے کبھی کوئ کیک، سموسہ یا مارتھا کے پسندیدہ سیلی کیک نہیں
خریدے تھے۔ مس مارتھا نے خیال کیا کہ وہ پہلے سے دبلا ہو گیا ہے، تھوڑا لاغر اور
دل شکستہ بھی۔
مارتھا کا دل دُکھتا
تھا کہ کاش وہ اُس کی معمولی خریداری میں کسی اچھی چیز کا اضافہ کر سکتی، مگر ایسی
کوئ کوشش کرتے ہوئے اس کی ہمت جواب دے جاتی۔ مارتھا میں اس کی توہین کرنے کی جرآت
نہ تھی۔ وہ فنکاروں کی انا سے خوب واقف تھی۔
مس مارتھا اپنی نیلی
دائروں والی سلک کی پیٹی زیب تن کرنا شروع ہو گئ۔ عقبی کمرے میں اس نے سہاگے اور
بہی دانہ کو ملا کر کوئ خفیہ مرکب بنایا۔ جیسا کہ بہت سے لوگ اس کو رنگت کے نکھار
کے لئے استعمال کرتے تھے۔
ایک روز حسبِ معمول
گاہک آیا، اس نے دھاتی سکہ کاؤنٹر پر رکھا اور اپنی باسی روٹی طلب کی۔ مس مارتھا
دینے کے لئے آہی رہی تھی کہ اسی دوران باہر شور و غل کی آواز ابھری۔ کوئ فائر ٹرک
سائرن بجاتا ہوا گزرا تھا۔ گاہک حالات کا جائزہ لینے کے لئے تیزی سے دروازے کی طرف
لپکا۔ مس مارتھا نے اس اچانک موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔ نمائشی اشیاء کی آئینہ
دار الماری کے نچلے خانے میں تازہ مکھن کی ٹکیہ پڑی تھی جو دس منٹ پہلے ہی گوالا
دے کر گیا تھا۔ ایک چاقو سے گہرا چیر لگا کرمس مارتھا نے مکھن کی اچھی خاصی مقدار
روٹی میں بھر کر اسے دوبارہ اچھی طرح سے دبا دیا۔
جب گاہک پلٹ کر آیا تو
وہ روٹیاں لفافے میں باندھ رہی تھی۔ جب وہ خلافِ معمول خوشگوار بات چیت کے بعد چلا
گیا تو مس مارتھا خود پر مسکرائ، یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ اُس کی دھڑکنیں بے
ترتیب نہ ہوئ ہوں۔
کیا وہ زیادہ ہی بے باک
ہو رہی ہے؟ کیا وہ برا منائے گا؟ ''مگر یقیناً ایسا نہیں ہو گا، اشیائے خوردنی کی
کون سا کوئ زبان ہوتی ہے۔ مکھن کسی کی غیر شرمیلی پیش قدمی کی علامت تھوڑی ہے''
سارا دن اس کا ذہن مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا رہا۔ '' اُس نے برش اور رنگوں کی
تختی رکھ دی ہو گی، پاس ہی اس کا ایزل کھڑا ہو گا جس پر وہ تصویر لگی ہو گی جو
تنقید سے بالاترہوگی۔ اب وہ کھانے کی تیاری کر رہا ہو گا۔۔۔پانی اور خشک روٹی۔۔۔وہ
روٹی کا نوالہ بنائے گا۔۔۔آہ۔۔۔۔۔مس مارتھا کے گال حیا سے شہابی ہو گئے۔ کیا وہ ان
ہاتھوں کے بارے میں سوچے گا جنھوں نے مکھن کو روٹی میں رکھا۔۔۔۔سوچے گا بھی یا
نہیں۔۔۔۔۔۔
صدر دروازے کی گھنٹی
وحشیانہ طور پر جھنجھنا اٹھی۔ کوئ شور مچاتا ہوا اندر آ رہا تھا۔ مس مارتھا تیزی
سے سامنے کی جانب آئ۔ وہاں دو آدمی کھڑے تھے۔ ایک نوجوان شخص تھا جو پائپ پی رہا
تھا اُس کو مارتھا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔دوسرا اس کا مصور تھا، اس کا
چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا، ہیٹ سر کی پشت پر گرا ہوا تھا بال انتہائ بے ترتیبی
سے منتشر تھے۔ اس نے بھنچی ہوئ مٹھیاں وحشی پن سے مس مارتھا کے چہرے پر لہرائیں،
'' احمق! بے وقوف! بدھو! کاٹھ کی الو۔۔۔۔ '' وہ ہذیانی انداز میں چلایا۔ نوجوان
شخص نے اسے کھینچ کر باہر لے جانے کی کوشش کی۔ '' میں نہیں جاؤں گا، وہ غصے سے
بولا، میں اسے بتاؤں گا'' گاہک نے مس مارتھا کے کائنٹر پر مکہ مارا، '' تم نے مجھے
تباہ و برباد کر دیا'' وہ چلایا۔ اس کی نیلی آنکھیں چشمے کے پیچھے شعلہ بار ہو رہی
تھیں۔ '' مجھے بتانے دو بے جا مداخلت کار بلی۔۔۔۔'' اور جرمن میں نجانے کیا کیا
اول فول بکنے لگا۔
مس مارتھا نقاہت سے
الماریوں پر جھک گئ اور ایک ہاتھ سے نیلے دائروں والی پیٹی سے کمر کو تھام لیا۔
نوجوان آدمی نے اس کو گریبان سے پکڑ کر کہا، '' اب آبھی جاؤ، تم بہت کچھ کہہ چکے
ہو'' اور غصے سے تنتناتے آدمی کو کھینچتا ہوا دروازے سے باہر گلی میں لے گیا۔ کچھ
دیر بعد نوجوان آدمی واپس آیا،'' مادام ذرا اندازہ کیجئے میں آپ کو کیا بتانے والا
ہوں۔۔۔۔۔۔اصل کہانی کیا ہے۔۔۔۔۔ اِس منہ ماری کی وجہ کیا ہے۔۔۔۔۔ یہ بلم برگر ہے
ایک ماہر تعمیراتی نقشہ نویس۔ میں اس کے ساتھ ایک ہی دفتر میں کام کرتا ہوں۔ وہ ایک
نئے سٹی ہال کا نقشہ بنانے کے منصوبے پر تین ماہ سے سخت محنت کر رہا تھا۔ یہ ایک
انعامی مقابلہ تھا۔اس نے کل آخر کار حتمی طور پر روشنائ سے خاکہ مکمل کر لیا تھا۔
آپ کو معلوم ہے نا کہ خاکہ ہمیشہ پہلے کچی پنسل سے بنایا جاتا ہے۔ وہ باسی روٹی کے
چورے سے پنسل کی لکیریں مٹاتا تھا کیونکہ یہ انڈین ربر کی نسبت بہتر صفائ کرتا ہے۔
بلم برگر یہاں سے باسی روٹی خریدا کرتا تھا۔ اور آپ جانتی ہیں نا کہ وہ مکھن اس
کام کے لئے ٹھیک نہیں تھا۔ بلم برگر کا منصوبہ اب کسی کام کا نہیں رہا سوائے
سینڈوچ لپیٹنے والے کاغذ کے۔''
مس مارتھا عقبی کمرے
میں چلی گئ۔ نیلی دائروں والی سلک کی پیٹی اتاری اور پہلے والی بھوری اونی پیٹی جو
وہ اکثر پہنے رکھتی تھی پہن لی۔ پھر اس نے بہی دانے اور سہاگے کا آمیزہ کھڑکی سے
باہر کوڑے کے ڈرم میں پھینک دیا۔
Original Title:
Witches loaves
Written by O. Henry
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment