انتون چیخوف کا افسانہ : ساحرہ (The Witch)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر
75 : ساحرہ
تحریر: انتون چیخوف (روس)
مترجم: سعادت حسن منٹو
(لاہور)
رات کی تاریکی چھا رہی تھی، کلیسا کا محافظ سیفلے گیکِن (Savely Gykin)اپنی جھونپڑی میں جو گرجا
کے ساتھ ملحق تھی ،اپنے لمبے چوڑے بستر پر دراز تھا۔ گو اسے مرغیوں کی طرح جلدسو
جانے کی عادت تھی مگر ابھی بیدار تھا۔ اس کے سُرخ اور بکھرے ہوئے بال میلے کچیلے
لحاف سے باہر نکلے ہوئے تھے اور بھاری غلیظ پاؤں دوسری طرف سے نظر آرہے تھے ۔ وہ
کچھ سننے میں مصروف نظر آتا تھا۔ اس کی جھونپڑی اس دیوار سے ہم کنار تھی جو کلیسا
کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھے۔ وہ کچھ سننے میں مصروف نظر آتا تھا۔ اس کی جھونپڑی
اس دیوار سے ہمکنار تھی جو کلیسا کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھی۔ اس کے دریچے میدان
کی طرف کھلتے تھے۔ باہر میدان میں ایک ہنگامہ کارزار برپا تھا۔ یہ معلوم کرنا کہ
کس کی ہستی صفحہ گیتی سے نابود کی جارہی ہے۔ یا کس کی تباہی کے لیے قدرت اس قدر
مضطرب و ہنگامہ آرا ہے، بہت دشوار تھا لیکن پھر بھی پیہم چیخ وپکار سے ظاہر ہوتا
تھا کہ کوئی نہ کوئی ضرور گرفتارِ بلا ہے۔۔۔۔۔ میدان میں کوئی فاتح لشکر پورے جوش
و خروش سے اپنی سرگرمی کا مظاہرہ کرتا معلوم ہوتا تھا۔ تند ہوائیں جنگل اور کلیسا
کی چھت سے دست و گریباں ہورہی تھیں اور کھڑکیوں کو اپنے گھونسوں کا تختہ مشق بنارہی
تھیں اور اپنے مہیب پنجوں سے ہر چیز کے بخیے ادھیڑنے میں مصروف تھیں۔ اسی محشر خیز
فضا میں محصور کسی مفتوح کی رقت انگیز آہ وزاری اور نالہ و بکا کی صدا آرہی تھی۔
چھت
، آتش دان یا دریچے میں کوئ غیر مرئی چیز سسکیاں بھر رہی تھی۔ یہ صدا کسی مدد کی
طالب معلوم نہ ہوتی تھی بلکہ انتہائی صدمے کی ایک مایوس چیخ تھی جو اس بات کی مظہر
تھی کہ اب وقت گزر چکا ہے اور تلافی کا خیال عبث ہے۔
برفانی
تودوں پر یخ کی باریک چادریں بچھی تھیں۔ ان پر اور درختوں کے پتوں پر آنسوؤں کے
قطرے تھر تھر اتے رہے تھے سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر کیچڑ اور پگھلتی ہوئی برف کا سیلاب
کروٹیں لے رہا تھا۔ قصہ مختصر یہ منظر سخت ہولناک تھا۔ مگر شاید افلاک کی نظروں سے
ظلمتِ شب نے اس بلا خیز طوفان کو اوجھل کر رکھا تھا کہ وہ بدستور برف باری میں
مشغول تھے۔ ہوا کسی مخمور کی طرح لڑکھڑا رہی تھی۔ جو برف کے گالوں کو ہر طرف آوارہ
پریشان کررہی تھی۔
سیفلے
نے ان طوفانی آوازوں کو سُنا اور بہت متفکر ہوا۔ بات دراصل یہ تھی کہ وہ جانتا تھا
کہ یہ تمام ہنگامہ کسی کے دستِ قدرت کا متحرک ہے۔ بہر حال اسے اس بارے میں شبہ
ضروری تھا۔ اس نے لحاف کے اندر غصے میں اپنی انگلی ہلاتے ہوئے کہا۔
"مجھے معلوم ہے۔ مجھے اس کی وجہ اچھی طرح
معلوم ہے۔"
کھڑکی کے پاس محافظ کی بیوی رعیسہ فلوفنا (Raissa Nilovna) ایک اسٹول پر بیٹھی ہوئی
تھی۔ ایک دوسرے سٹول پر لالٹین پڑی تھی جس کی مدھم اور لرزاں روشنی اس کے چوڑے
شانوں، سڈول اور جاذبِ نظر جسم کے نقشے اور سیاہ بالوں پر جو دراز ہونے کی وجہ سے
فرش کو چوم رہے تھے۔ رقص کررہی تھی۔ وہ موٹے اور کھر درے ٹاٹ کی بوریاں بنانے میں
مصروف تھی۔ اس کے ہاتھ پھرتی سے کام کررہے تھے لیکن اس کے تمام اعضاء، ابرو ہونٹ
اور سپید گردن ساکن تھے۔ ایسا معلوم ہوتا
تھاگویا وہ محو خواب ہیں۔
کبھی
کبھی وہ اپنا سر اوپر اٹھاتی کہ گردن کی تکان دور کرسکے اور چند لمحوں کے لیے دریچے
کی طرف دیکھ کر جس کے باہر طوفان باد وباراں غضب ڈھا رہا تھا۔ وہ پھر گردن جھکا کر
اپنے کام میں مشغول ہوجاتی۔
اس
کے خوبصورت چہرے، ابھری ہوئی ناک اور گالوں کے گڑھوں سے کسی قسم کی مسرت، خواہش یا
غم کے آثار ہویدا نہ تھے۔۔۔ خوبصورت فوارہ اگر جاری نہ ہو تو کچھ ظاہر نہیں کرنا۔
آخرکار
اس نے ایک بوری کو ختم کرلیا اور اسے ایک طرف پھینک دیا۔ پھر اپنے جسم کو بڑے تکلف
سے سیدھا کرکے اس نے اپنی غیر متحرک اور بے نور آنکھیں کھڑکی کی طرف گاڑ دیں ۔۔۔
کھڑکی کے شیشے اشک آسا قطروں کے ہمراہ تیرتے معلوم ہوتے تھے اور برف کے ان گالوں
سے سپید ہورہے تھے جو ان گرتے رعیسہ کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے اور پگھل جاتے
۔۔۔۔۔ محافظ نے باآوازِ بلند کہا: "بستر پر آجاؤ۔" مگر رعیسہ خاموش بیٹھی
رہی یکایک اسکی پلکیں کانپنے لگیں اور آنکھوں میں توجہ کی ایک چمک سی پیدا ہوئی۔
سیفلے
جو لحاف کے اندر اس کے چہرے کی بیرنگیوں کا بغور ملاحظہ کررہا تھا۔ بستر سے اپنا
سر نکال کر بولا، "کیا معاملہ ہے؟"
"کچھ
نہیں۔۔۔۔ میں نے خیال کیا تھا کہ کوئی آرہا ہے۔" رعیسہ نے جواب دیا۔
یہ
سُن کر محافظ نے لحاف کو اپنے بازوؤں اور
ٹانگوں سے ایک طرف کو دھکیل دیا اور گھٹنوں کے بل جھک کر اپنی بیوی کی طرف متعجب
نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ لیمپ کی سہمی ہوئی روشنی اس کے ریش دار چہرے اور بکھرے ہوئے
کھردرے بالوں پر پڑ رہی تھی۔
"سُن
رہے ہو کچھ۔"
آندھی
کے شور میں محافظ کو ایک مدھم جھنکار کی آواز سنائی دی جو اس مچھر کی صدا کے
مترادف تھی جو کسی کے گال پر بیٹھنا چاہتا ہو اور ہٹانے پر غصے میں پورے زور سے
بھنبھنائے۔
"غالباً
ڈاک جارہی ہے۔" سیفلے نے اپنی ایڑیوں کا سہارا لیتے ہوئے کہا۔
گرجے
سے دومیل کے فاصلہ پر وہ سڑک واقع تھی جس پر ڈاک گاڑی گزرا کرتی تھی۔ آندھیوں کے
موسم میں جب ہوا سڑک سے کلیسا کی طرف رخ بدلتی تھی تو گھنٹی کی آواز جھونپڑی کے مکینوں
تک پہنچ جایا کرتی تھی۔
"میرے
اللہ! ذرا خیال تو کرو لوگ اس موسم میں بھی گاڑیوں پر سوار پھرتے ہیں۔"
رعیسہ نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"لیکن
یہ سرکاری کام ہے۔ اس میں کسی کی مرضی کو کیا دخل؟"
"اب
گاڑی گزر چکی ہے۔" سیفلے نے لحاف اوڑھتے ہوئے کہا۔
لیکن
وہ ابھی اچھی طرح لحاف اوڑھنے بھی نہ پایا تھا کہ اس نے گھنٹی کی آواز کو صاف طور
پر سُنا۔ اس پر اس نے اپنی بیوی کی طرف پریشان نگاہوں سے دیکھا۔ بستر سے باہر نکل
آیا اور آتشدان کے پاس ٹہلنے لگ گیا۔ گھنٹی کی آواز کچھ دیر تک سنائی دیتی رہی۔
پھر یکایک بند ہوگئی۔ جیسے وہ پھر کبھی سنائی نہ دے گی۔
"میرے
خیال میں اب آواز قطعاً بند ہے۔" سیفلے نے ٹھہر کر اپنی بیوی پر نظریں جماتے
ہوئے کہا لیکن جونہی ہوا کا ایک جھونکا کھڑکی کے راستے اندر داخل ہوا گھنٹی کی ٹن
ٹن دوبارہ سنائی دینے لگی۔ سیفلے کا رنگ زرد پڑگیا۔ گلاصاف کرتے ہوئے وہ دروازے کی طرف ننگے پاؤں لپکا۔
"ڈاکیہ
آندھی میں اپنا راستہ کھو بیٹھا ہے۔" وہ اپنی بیوی کی طرف ملامت آمیز نگاہوں
سے دیکھتا ہوا چلایا۔
"سنتی
ہو؟ ڈاکیہ راستہ بھول گیا ہے۔۔۔ مجھے ۔۔۔ معلوم ہے۔ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ میں۔۔۔۔
میں اسے بالکل نہیں سمجھ سکتا؟" پھر وہ گنگناتا ہوا بولا۔ "میں اس حرکت
کو بخوبی سمجھتا ہوں ۔۔۔۔ لعنت ہو تم پر!
"
"کیا
سمجھے ہو تم؟"رعیسہ نے اپنی نگاہوں کو کھڑکی سے جدا کیے بغیر اپنے خاوند سے
دریافت کیا۔
"میں
جانتا ہوں کہ یہ سب تیری کارستانی ہے۔۔۔۔ تیری شیطان کی خالہ۔۔۔ یہ تیری چالاکی ہے
لعنت ہو تم پر! یہ برفباری اور ڈاکیے کی گمراہی
سب کچھ تیرا ہی کیا ہے۔۔۔ تیرا! "
"تم
دیوانے ۔۔۔ احمق ! "اس کی بیوی نے آہستہ جواب دیا۔
"میں
ایک عرصہ سے تیرا مشاہدہ کررہا ہوں اور اب میں آخری نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں۔۔۔۔ شادی
کے پہلے روز ہی میں نے سمجھ لیا تھا کہ تیری رگوں میں کسی کُتی کا خون موج زن ہے۔"
"اُف!
رعیسہ نے شانے ہلاتے ہوئے کہا۔ "بیوقوف خدا سے ڈرو۔"
"جادوگرنی
ہمیشہ جادوگرنی ہوتی ہے۔" سیفلے نے
آنسوؤں بھری آواز میں اپنی ناک صاف کرتے ہوئے کہا، "اگرچہ تم میری بیوی ہو
اور پادری خاندان سے تعلق رکھتی ہو لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ تمہیں مذہب سے کوئی
نسبت نہیں ہے۔۔۔ خدایا ہم پر رحم فرمائیو! پچھلے سال ہمارے پیغمبر کی برسی پر برف
باری ہوئی، بتاؤ اس روز کیا واقعہ پیش آ یا تھا۔۔۔؟ ایک مستری پناہ لینے کے لیے
ہمارے گھر آدھمکا پھر سینٹ الیکسی (St. Alexey) کے
عرس پر برف کا تودہ دریا میں ٹوٹ گیا اور ساری رات تیرے ساتھ سرگوشیاں کرتا
رہا۔۔۔ ملعون حیوان! جب صبح کو باہر نکلا
اور میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نمودار تھے۔ گال
اندر پچکے ہوئے تھے۔ اگست کے دنوں میں دو آندھیاں آئیں اور ان کے ساتھ ہی یہاں
دو شکاری آن موجود ہوئے۔ یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے! لعنت ہو ان
پر! ۔۔ مگر اب تم کیکڑے کی طرح سرخ کیوں ہورہی ہو؟"
"تمہیں
کچھ معلوم نہیں ہے۔"
"کیا
معلوم نہیں ہے؟ ۔۔ تو اس سال سردیوں میں کرسمس کے موقع پر جب دن رات آندھی چلتی
رہی تھی۔ کیا ہوا تھا؟"
ایک
منشی راستہ بھول کر یہاں آگرجا۔
"سبگ
ناہنجار۔۔۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ تمہیں وہ پسند آگیا! لعین کہیں کا! بیہودہ قد زمین
سے ایک فٹ اونچا۔ چہرے پر پھنسیاں اور گردن مڑی ہوئی۔۔۔ اگر شکیل ہوتا تو علیحدہ
بات تھی۔۔ مگر وہ۔۔۔ اُف ۔۔۔۔ وہ تو شیطان کی طرح مکروہ صورت تھا۔"
یہ
کہہ کر محافظ نے سانس لیا اور ہونٹوں کو صاف کرتے ہوئے سننے لگا گھنٹی کی صدا سنائی
نہ دے رہی تھی لیکن ہوا بدستور چھت کے ساتھ ٹکرا کر شور پیدا کررہی تھی۔ یکایک تاریکی
میں پھر وہی جھنکار نمودار ہوئی۔
"اب
وہی کچھ ہونے والا ہے۔" سیفلے نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ "ڈاکیہ
یونہی گمراہ نہیں پھر رہا ہے، میری آنکھیں نکلوا دینا۔ اگر وہ تمہاری تلاش نہ
کررہا ہو۔ آہ، شیطان اپنے کام سے اچھے پیسے بنا لیتا ہے اور تمہاری اچھی طرح مدد
بھی کرسکتا ہے! وہ پھر پھرا کر یہیں آجائے گا ۔ میں جانتا ہوں۔۔ خوب سمجھتا ہوں!
تم اسے چھپا نہیں سکتی ہو ۔۔ تم شیطان کی خالہ ۔۔۔ چالاک کافرہ! جونہی آندھی شروع
ہوئی مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ تم کس لیے جاگ رہی ہو ۔۔۔
"
"اب
تم اور کسی احمق میں کیا فرق ہے؟" بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ "کیا کہہ
رہے ہو کہ یہ آندھیاں میں لاتی ہوں۔۔۔ دماغ میں بھوسہ بھرا ہے تمہارے! "
"ہوں
۔۔۔ دانت دکھاتی رہو۔۔ یہ تمہارا کرنا ہو یا
نہ ہو۔ بہرحال میں تو سمجھتا ہوں کہ جب کبھی تمہارا خون جوش مارتا ہے تو طوفانی
موسم یقینی ہے اور جب موسم طوفانی ہو تو سر پھرے نوجوانوں کی یہاں پر آمد مسلمات
میں سے ہوتی ہے۔ جب اسی قسم کے واقعے کئی بار پیش آچکے ہیں تو یقینی امر ہے کہ تم
ہی ان سب کی محرک ہو! "
اپنی
گفتگو کو زیادہ مؤثر بنانے کی خاطر محافظ نے اپنی انگلی پیشانی پر رکھی۔ بائیں
آنکھ کو بند کرلیا اور ایک ایک لفظ کو ٹھہر ٹھہر کر ادا کرنے لگا۔ "اگر تم
واقعی نسل انسانی سے تعلق رکھتی ہو اور جادوگرنی نہیں ہو تو تمہیں غور کرنا چاہیئے
کہ یہ سب مستری ،مُنشی اور شکاری انسان نہیں تھے بلکہ شیطان ان کا بھیس بدلے ہوئے
تھا۔۔۔ آہ! تمہیں اس کے متعلق ضروری غور کرنا چاہیئے۔
"
"سیفلے
تم جاہل ہو۔" اس کی بیوی نے اس کے چہرے کی طرف ہمدردانہ نظریں اٹھاتے ہوئے
کہا۔
"جب
ابا زندہ تھے تو ہمارے یہاں ہر قسم کے لوگ ملیریا کے علاج کے لیے آیا کرتے تھے۔
وہ ہر روز ہی آتے۔ مگر اس وقت کسی نے بھی انھیں شیطان کے نام سے نہ پکارا مگر ان
دنوں جب کوئی بھولا بھٹکا مسافر طوفانی موسم میں پناہ لینے کے لئے یہاں آجاتا ہے
تو تم اس کی آمد پر حیرانی ظاہر کرتے ہو اور جاہلوں کی طرح ہر قسم کے شبہات کو
اپنے دل و دماغ میں جمع کرلیتے ہو۔"
بیوی
کا استدلال سیفلے پر اثر انداز ہوا۔ وہ ننگے پاؤں کھڑا سر جھکا ئے اس پر غور
کررہا تھا۔ دراصل ابھی تک اسے اپنے شبہات کی صحت پر پورا یقین نہ تھا۔ بیوی کی معنی
خیز گفتگو نے اس کے شک کو تھوڑی دیر کے لیے بالکل رفع کر دیا۔ مگر فوراً ہی اسے
کچھ خیال آیا اور وہ سر ہلاتا ہوا بولا۔
"مگر
یہ کبھی نہیں ہوا کہ بوڑھے یا اپاہج پناہ لینے کے لیے آئے ہوں بلکہ اس کے برعکس
ہمیشہ نوجوان ہی رات کاٹنے کے لیے یہاں آدھمکے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اگر ان کی
آمد آرام طلبی تک ہی محدود ہو تو الگ بات ہے مگر وہ تو شرارتیں کیا کرتے ہیں۔۔
نہیں ۔ دنیا میں تمہاری صفت سے بڑھ کر چالاک اور ریاکار اور کوئی مخلوق نہیں ہوسکتی۔
عقلِ سلیم کا مادہ تم میں رَتی بھر بھی نہیں۔ مگر ریاکاری اُف ۔۔ کچھ پوچھو ہی نہیں۔۔
خدا بچائے۔ پھر ڈاکیے کی گھنٹی کی آواز آرہی ہے! آندھی شروع ہونے پر ہی میں
تمہارے دل کی بات جان گیا تھا۔۔۔ یہ سب تیری فسوں سازی ہے۔۔۔ مکڑی۔"
"تم
خواہ مخواہ مجھے اپنا مشق کیوں بنارہے ہو؟ بے ایمان کہیں کے! " اس کی بیوی
صبر کھوچکی تھی۔ "آخر تم 'کُول تار' کی طرح اس بات پر کیوں جمے ہوئے ہو۔"
"میں
اپنی بات پر اس لیے جما ہوا ہوں کہ اگر۔۔۔۔خدا بچائے۔۔۔!! اسی قسم کا واقعہ پھر
ظہور پذیر ہوا۔۔۔"
"۔۔سنتی
ہو؟ اگر آج رات پھر کوئی ایسی ایسی بات ہوئی تو میں صبح اٹھتے ہی سیدھا فادرنکوڈم
کے پاس جاؤں گا اور ساری رام کہانی کہہ سناؤں گا۔ میں صاف الفاظ میں کہہ دوں گا۔
" گستاخی معاف۔ مگر بیوی ضرور جادوگرنی ہے۔ وہ پوچھے گا؟ ہوں : کیا تم جاننا چاہتی ہو کہ تم کیسے
جادوگرنی ہو؟۔۔۔میں اسے بتادوں گا مگر لعنت ہو تم پر اے عورت۔ روز محشر ہی کو نہیں
بلکہ تم اس زندگی میں ہی اپنے کیے کی سزا بھگت لوگی۔ میں یونہی نہیں کہہ رہا۔
تمہاری نوعیت کے لوگوں کے لیے مقدس کتاب میں ایسے الفاظ موجود ہیں۔"
یکایک
کھڑکی پر ایسی بلند اور غیر معمولی دستک ہوئی کہ سیفلے کا رنگ زرد پڑگیا اور قریب
تھا کہ وہ خوف کے مارے پیچھے کی طرف گر پڑے۔ اس کی بیوی بھی سخت خوف زدہ ہوگئی۔
"ازراہ
خدا، ہمیں اندر آنے دیجیئے۔" ہم باہر سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ محافظ اور اس کی
بیوی نے ایک لرزاں اور بھدی آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا۔ " یہاں کون صاحب رہتے
ہیں؟ خدا کے لیے رحم فرما کر ہمیں اپنے یہاں پناہ دیجیئے۔ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔"
"تم
کون ہو۔" رعیسہ نے دریافت کیا۔ وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے سے خائف تھی۔
"ڈاکیے"
دوسری آواز نے کہا۔
"تم
اپنے ارادے میں کامیاب ہوگئی ہو۔" سیفلے نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔
"غلطی
کا کوئی امکان نہیں۔ میں بجا کہہ رہا ہوں۔ خیر یہ دروازہ کھول دو۔"
یہ
کہہ کر محافظ دو چھلانگوں میں اپنے بستر پر پہنچ کر پروں والی چٹائی پر لیٹ گیا
اور دیوار کی طرف منہ موڑ کر بڑبڑانے لگا۔ فوراً ہی اس نے اپنی پشت پر سرد ہوا کا
جھونکا محسوس کیا۔ دروازہ کھلا اور ساتھ ہی ایک لمبا تڑنگا جوان برف سے لت پت دہلیز
پر نمودار ہوا۔ اس کے پیچھے ایک اور آدمی اسی ہیٔیت کزائی میں دکھائی دے رہا تھا۔
"تھیلے
بھی اندر لے آؤں کیا؟" دوسرے آدمی نے اپنے ساتھ والےسے بھدی آواز میں
پوچھا۔
"تم
انہیں باہر کیونکر چھوڑ سکتے ہو۔" یہ کہتے ہوئے پہلے شخص نے اپنی برساتی کو
اتارنا شروع کیا۔ مگر فوراً ہی یہ عمل ترک کرکے اسے ٹوپی سمیت کھینچ کر انگیٹھی کے
پاس پھینک دیا۔ پھر اپنا بڑا کوٹ اتار کر ایک طرف رکھنے کے بعد علیک سلیک کیے بغیر
جھونپڑی میں ادھر اُدھر ٹہلنا شروع کردیا۔
یہ
ڈاکیہ ایک خوب رو نوجوان تھا۔ ایک بھدی سی وردی اور بڑے بڑے بوٹ پہنے ہوئے تھا۔
ادھر ادھر ٹہلنے سے جب اس کے سرد جسم میں حرارت عود کر آگئی تو وہ ایک میز کے قریب
بیٹھ گیا۔ کیچڑ آلود پاؤں بوریوں پر پھیلا دیئے اور ٹھوڑی کو ہاتھ کا سہارا دے
کر خاموشی سے سوچنے لگا۔ اس کا چہرہ بعض جگہوں پہ سردی کی وجہ سے سرخ ہوگیا تھا۔
اس کے علاوہ اس طوفان کی کوفت کے آثار بھی اس کے چہرے پر نمایاں طور پر ظاہر تھے
جس سے وہ ابھی ابھی رہائی حاصل کرکے آیا تھا گو غم و غصے نے اس کی حالت میں ایک
تغیر پیدا کر رکھا تھا مگر وہ اس پگھلتی ہوئی برف کے باوجود جو اس کے ابروؤں،
مونچھوں اور داڑھی پر جم رہی تھی خوش شکل معلوم ہورہا تھا۔
"یہ
کتوں جیسی زندگی ہے! " ڈاکیے نے دیواروں پر اس انداز میں نگاہیں گھماتے ہوئے
دبی زبان میں کہا ۔۔ جیسے وہ یقین نہیں کررہا
ہے کہ وہ کسی گرم جگہ میں محفوظ ہے۔" اگر آپکی روشنی دکھائی نہ دیتی
تو ہماری تباہی یقینی تھی! خدا ہی جانتا ہے یہ طوفان کب تھمے گا۔ اس ذلیل زندگی کا
کوئی انجام نہیں! ہم اس وقت کس جگہ موجود ہیں۔ اس نے محافظ کی بیوی سے مخاطب ہوکر
دریافت کیا۔"
" گلوئیوسکی
پہاڑی(Gulyaevsky Hill) پر۔۔
'جنرل کالی نویسکی' کی جاگیر کے پاس" رعیسہ نے چونک کر شرماتے ہوئے جواب دیا۔
"سُن
رہے ہو سٹی پین(stepan)؟"
ڈاکیے نے مڑکر اپنے ساتھی کوچوان کو کہا۔ جو ابھی تک اپنے کاندھوں پر ڈاک کا تھیلا
اٹھائے دروازے میں کھڑا تھا۔
"ہم
لوگ گلوئیوسکی پہاڑی پر پہنچ چکے ہیں۔"
"جی
ہاں۔۔۔ پھر تو ہم کافی دور پہنچ گئے ہیں۔" ان الفاظ کو کوچوان نے نیک بھدی
آہ سنا آواز میں کہا اور ساتھ ہی باہر جاکر ایک اور تھیلا اٹھالیا۔ ایک بار پھر
باہر گیا اور ڈاکیے کی تلوار اور پیٹی اٹھا لایا۔
ان
چیزوں کو احتیاط سے دیوار کے ساتھ رکھ کر وہ باہر والے کمرے میں چلا گیا اور وہاں
بیٹھ کر سگریٹ پینا شروع کردیا۔
"شاید
آپ اس سفر کے بعد تھوڑی سی چائے پسند فرمائیں گے؟" رعیسہ نے ڈاکیے سے دریافت
کیا۔
"ہم
یہاں چائے پینے کے لیے کیونکر ٹھہر سکتے ہیں۔" ڈاکیے نے تیوری چڑھاتے ہوئے
کہا، "ہمیں جلدی کرنی چاہیئے۔ تھوڑی
دیر آگ تاپنے کے بعد ہمیں جلد روانہ ہوجانا چاہیئے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ ہم ڈاک گاڑی
کو کھو بیٹھیں گے۔ دس منٹ اور سستانے کے بعد ہم یہاں سے اپنی راہ لیں گے۔ آپ ہمیں
راستہ دکھا دیجیئے گا۔ یہی آپ کی عنایت ہوگی۔"
"یہ
موسم بھی ایک عذاب ہے۔" رعیسہ نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"ہوں۔۔۔
جی ہاں۔۔۔ مگر کیا میں دریافت کرسکتا ہوں کہ آپ کون ہیں۔"
"ہم
یہاں گرجے کے ساتھ رہتے ہیں۔ پادری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ وہ میرا خاوند ہے
جو سورہا ہے۔۔۔ سیفلے! اٹھو اور اپنے
مہمانوں کی خیر و عافیت دریافت کرو۔۔۔ آج سے اٹھارہ مہینے پہلے یہ گرجا ہوا کرتا
تھا۔۔۔ بے شک جب یہاں شرفا ٫سکونت پذیر تھے تو عبادت کے لیے بہت سے لوگ جمع ہوجایا
کرتے تھے۔ مگر اب کہ شرفاء قریب قریب یہ جگہ چھوڑ چکے ہیں۔ میرا یہ کہنا غالباً
فضول ہوگا کہ اب پادری کا ذریعہ معاش بالکل محدود ہوچکا ہے۔۔ سیفلے ریٹائر ہونے کے
قریب ہے۔ ان دنوں وہ گرجے کی رکھوالی پر نوکر ہے۔"
اس
کے بعد فوراً ہی ڈاکیے کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر سیفلے جنرل کی بیوی کے پاس جائے
اور لاٹ پادری کے نام ایک سفارشی چھٹی کی درخواست کرے تو ایک اچھی نوکری مل جانا یقینی
ہے۔
"لیکن
سیفلے جنرل کی بیوی کے پاس جاتا ہی نہیں وہ سخت کاہل ہے اور لوگوں سے ڈرتا ہے۔ ۔
بہرکیف ہم گرجے سے منسلک ہیں۔" رعیسہ نے اپنی گفتگو میں ان الفاظ کا اضافہ
کرتے ہوئے کہا۔
"آپ
کی گزر کیسے ہوتی ہے؟" ڈاکیے نے دریافت کیا۔
"اس
کلیسا کے ساتھ ایک باغ اور مرغزار ملحق ہے۔ مگر ہم اس زمین سے کچھ زیادہ حاصل نہیں
کرسکتے۔ رعیسہ نے سرد آہ بھری۔ "بوڑھا فادر نکوڈم (Father Nikodim)سینٹ
نکولس کی برسیاں منانے کی خاطر سال میں دو دفعہ یہاں آدھمکتا ہے اور تمام فصل
اپنے ہمراہ لے جاتا ہے۔ اس صورت میں ہمارے لیے کیا خاک باقی رہتا ہے۔"
"تم
جھوٹ بول رہی ہو،" سیفلے نے لیٹے لیٹے بلند آواز میں کہا، "فادر نکوڈم
خدا رسیدہ بزرگ ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا بھی ہے تو اس کا حق ہے۔"
"تم
میاں بیوی آپس میں ناراض معلوم ہوتے ہو۔" ڈاکیے نے رعیسہ سے دریافت کیا۔
"تمہاری شادی کو بھلا کتنا عرصہ گزر چکا ہے؟"
پچھلی
اتوار کو پورے تین سال گزر گئے ہیں۔
میرا
باپ اس گرجے کا محافظ ہوا کرتا تھا جب اس کے مرنے کا وقت آیا تو اس نے گرجے کے
متعلقین کو کہلا بھیجا کہ وہ اپنے یہاں سے کوئی گنوار آدمی بھیج دیں تاکہ اس کی وفات کے بعد وہ شخص میرے خاوند کی حیثیت
سے اس کی جگہ پر بدستور قابض رہے ۔۔ یہ ہے ہماری شادی کا قصہ۔"
"یعنی
ایک تیر سے دو شکار۔" ڈاکیے نے سیفلے کی پشت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "بیوی
بھی مل گئی اور ملازمت بھی۔"
یہ
سن کر سیفلے غصے میں میں اپنی ٹانگوں کو جنبش دے کر دیوار کے زیادہ قریب ہوگیا اسی
اثنا میں ڈاکیہ میز سے اٹھ کر ڈاک کے تھیلے پر بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد اس نے
دونوں تھیلوں کو آپس میں ملا دیا اور تلوار کو ایک طرف رکھنے کے بعد فرش پر پاؤں
لٹکائے اُن سے لپٹ گیا۔
"یہ
کتوں جیسی زندگی ہے۔" اس نے اپنے ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھتے ہوئے اور آنکھیں
بند کرتے ہوئے کہا:
"وحشی
تاتاری کو بھی ایسی زندگی نصیب نہ ہو! "
دفعتاً کمرے میں خاموشی طاری ہوگئی۔ سوائے سیفلے کے
خراٹوں اور ڈاکیہ کے تنفس کی آواز کے اور کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ ڈاکیہ ہر سانس
کے ساتھ ۔۔ ہا ہا ہا۔۔ ایسی آواز پیدا کررہا تھا۔ وقتاً فوقتاً تھیلوں پر متحرک
رہتے تھے۔
تھوڑی
دیر کے بعد سیفلے نے چپکے سے لحاف کے باہر سر نکال کر کمرے میں نگاہ دوڑانی شروع کی۔
اس کی بیوی سٹول پر بیٹھی اپنی گالوں پر ہاتھ جمائے ڈاکیے کے چہرے کی طرف دیکھ رہی
تھی۔ اس کا چہرہ کسی خوفزدہ یا متحیر انسان کی طرح غیر متحرک تھا۔
"کسے
آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی ہو تم ؟ " سیفلے نے دبی زبان سے غصہ آمیز
لہجہ میں کہا۔
"اس
سے تمہیں کیا واسطہ؟ تم سوئے رہو! " اس کی بیوی نے ڈاکیے کے چہرے پر سے اپنی
نگاہیں جدا کیے بغیر جواب دیا۔
اس
پر سیفلے نے غصے میں اپنی چھاتی سے ساری ہوا سانس کے ذریعے سے باہر نکالی اور کروٹ
بدل کر دیوار کی طرف منہ کرلیا۔ تین منٹ کے بعد وہ پھر مضطرب ہو کر اٹھااور بستر میں
گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور سرہانے پر ہاتھ رکھ کر اپنی بیوی کی طرف استفہامی نظروں
سے دیکھنے لگا۔ وہ ہنوز سٹول پر خاموش بیٹھی ڈاکیہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے گال
زرد اور آنکھیں کسی پراسرار آگ سے دہک رہی تھیں۔ محافظ نے اپنا گلا صاف کیا اور
پیٹ کے بل چارپائی سے نیچے اترنے کے بعد ایک رومال سے ڈاکیے کا چہرہ اس سے ڈھانپ دیا۔
"یہ
کس لیے؟" رعیسہ نے اپنے خاوند سے دریافت کیا۔ "لیمپ کی روشنی اب اس کی
آنکھوں سے دور رہے گی ۔"
"اس
سے بہتر ہے کہ لیمپ کو ہی گل کردو۔"
سیفلے
نے غیر متمعین نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا لیمپ کی جانب پھونک مارنے کی خاطر
اپنے لب بڑھائے۔ مگر فوراً ہی کچھ سوچ کر ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
"کیا
یہ بھی تمہاری شیطانی چالاکی نہیں ہے۔۔۔آہ! دنیا میں عورت ذات سے بڑھ کر اور کوئی
ریاکار نہیں ہوسکتا۔"
"آہ!
تم بھدے شیطان۔" اس کی بیوی غصے میں غرائی۔ "ذرا ٹھہر تو جاؤ تم۔۔ "
یہ کہتے ہوئے اس نے پھر ڈاکیے کی طرف بغور دیکھنا شروع
کیا۔
رعیسہ کو اس
امر کی چنداں پروا نہ تھی کہ ڈاکیے کا چہرہ ڈھانپا ہوا ہے۔ وہ صرف چہرے ہی میں
دلچسپی نہیں لے رہی تھی بلکہ اس کے سارے جسم میں ڈاکیے کی چھاتی جوڑی اور مضبوط تھی۔
ہاتھ خوش شکل اور نازک تھے۔ ٹانگیں گوشت سے بھری ہوئی اور سیفلے کی بھدی اور لکڑی
جیسی ٹانگوں سے کہیں ملائم و خوب صورت تھیں۔ درحقیقت سیفلے اور ڈاکیے کا کوئی
مقابلہ ہی نہیں ہوسکتا تھا۔
"میں
بھدا شیطان ہی سہی۔" سیفلے نے چند لمحات کے توقف کے بعد کہا۔ "مگر ان
لوگوں کا یہاں سونے سے کیا مطلب ہے؟"
وہ
سرکاری کام کرتے ہیں۔ اگر دیر ہوگئی تو اس کے لیے ہمیں جواب دینا پڑے گا۔ اگر کسی
کا فرض خطوط کے تھیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ہے تو پھر سو جانا ہے تو پھر
سو جانا کیا معنی رکھتا ہے۔ فرض کی ادائیگی لازم ہے۔ اے میاں۔" سیفلے نے باہر
والے کمرے کی طرف رخ کرکے پکارا۔ "اے میاں کوچوان۔۔۔ تمہارا نام کیا ہے؟ آؤ
میں تمہیں راستہ بتادوں۔ ڈاکیے کو اس طرح سونا نہیں چاہیئے۔"
سیفلے
جواب بستر پر سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ڈاکیے کی طرف لپکا اور اسے آستین سے پکڑ کو
جھنجھوڑ نے لگا۔
"جناب
ڈاکیہ صاحب، اگر آپ کو جانا ہے تو اب روانہ ہوجائے۔۔ اگر جانے کا ارادہ نہیں تو یہ
درست طرزِ عمل نہیں ہے۔۔ اس طرح سورہنے سے کام نہیں چلے گا۔"
ڈاکیہ
اچھل کر بیدار ہوگیا اور تھوڑی دیر ادھر اُدھر متحیر نگاہوں سے دیکھ کر پھر سوگیا۔
"مگر
جاگ رہے ہو تو میاں؟" سیفلے بولتا گیا۔ "تمہاری نوکری یہی ہے کہ وقتِ
مقررہ پر ڈاک لے کر پہنچو۔۔ سن رہے ہو کیا؟"
"چلو
آؤ میں تمہیں راستہ دکھا دوں؟"
ڈاکیے
نے آنکھیں کھولیں۔ جسم گرم ہونے اور تھوڑی دیر سو لینے کے بعد اس کا جسم آرام کا
عادی ہوگیا تھا۔ نیم خوابیدہ حالت میں اسے محافظ کی بیوی کی سپید گردن اور غیر
متحرک آنکھیں نظر آئیں۔ وہ مسکرایا اور
آنکھیں بند کرلیں۔ گویا وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔
"مگر
اس موسم میں آپ کیونکر گھر سے باہر قدم
رکھ سکتے ہیں۔" ڈاکیے نے نیم خوابی کی حالت میں ایک زنانہ آواز سنی۔
"آپ
کو تھوڑی سی نیند اور لے لینی چاہیئے۔ مفید ثابت ہوگی۔"
"مگر
ڈاک کی ترسیل کا کیا انتظام ہوگا؟"
ساتھ
ہی رعیسہ کے خاوند کی آواز آئی " ڈاک کون لے جائے گا؟"
"کیا
کندھوں پر اٹھا کرلے جاؤ گی۔۔ خدا یا ۔۔ یہ تو بتاؤ؟"
ڈاکیے
نے اپنی آنکھیں پھر کھولیں۔ رعیسہ کے گالوں اور چاہ غغیب کی دلکشی کی طرف توجہ دی
اپنی موجودہ حالت پر غور کیا اور سیفلے کا مطلب سمجھ گیا۔ اس خیال نے کہ اب اسے
باہر تاریکی اور منجمد کردینے والی سردی میں نکلنا پڑے گا۔ اس کے جسم پر ایک سرد
لہر دوڑ ا دی۔ وہ آنکھیں جھپکنے لگ گیا۔
دیر
تو ہر حالت میں ہوجائے گی۔ اس نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ " تو پھر کیوں نہ دو
گھڑی اور سُولوں۔"
"شاید
ہم وقت پر پہنچ جائیں۔ "باہر والے کمرے سے آواز آئی۔ "شاید آج ڈاک
گاڑی بھی دیر سے آئے۔"
یہ سن کر ڈاکیہ اُٹھا اور ایک سست آواز میں انگڑائیاں
لیتا ہوا اپنا کوٹ پہننے لگا۔
سیفلے
یہ دیکھ کر جامے میں پھولا نہیں سما رہا تھا کہ اس کے ناخواندہ مہمان جانے کی تیاری
کررہے ہیں۔
"ذرا
ہاتھ تو بٹائیے گا۔" کوچوان نے ڈاک کا ایک تھیلا اٹھاتے ہوئے سیفلے سے کہا۔
محافظ
نے فوراً ہی تعمیل کی اور کوچوان کے ساتھ مل کر ڈاک کے تھیلے باہر برآمدے میں
رکھوادیے۔
اس اثنا میں ڈاکیہ نے اپنی برساتی پہن رہا تھا اور
محافظ کی بیوی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ملائے اس کی روح میں جھانکنے کی سعی کررہی
تھی۔
"چائے
کا ایک پیالہ تو پی لیجیئے ۔۔" رعیسہ
نے ڈاکیے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
"کوئی
عذر تو نہیں ہے۔ مگر آپ دیکھ رہی ہیں کہ اب ہم رخصت ہونے والے ہیں۔۔ یہ الگ بات
ہے کہ ہمیں دیر ہوچکی ہے۔"
"آپ
ضروری ٹھہریے۔" رعیسہ نے آنکھیں جھکا کر ڈاکیے کی آستین پکڑے ہوئے کہا۔
ڈاکیہ
جس نے اب برساتی پہن لی تھی۔ رعیسہ کے پاس کھڑا ہونے میں ایک خاص لطف محسوس کررہا
تھا۔
"کیسی
۔۔۔ کیسی حسین گردن ہے! " یہ کہہ کر اس نے اپنی دوانگلیوں سے رعیسہ کی گردن
کو چھوا اور یہ دیکھا کہ وہ برا نہیں مان رہی اس کی گردن اور شانوں پر ہاتھ پھیرنا
شروع کردیا۔
"تم
بہت۔۔"
تھوڑی
دیر کے لیے ٹھہرو ۔۔ چائے تو پیتے جاؤ۔"
"اسے
یوں نہ رکھیے۔۔۔ اس طرح الٹا دیجیئے۔" باہر سے کوچوان کی آواز سنائی دے رہی
تھی۔
"آپ
کو ٹھہرنا ہوگا۔۔ دیکھیئےنا ہوا کس تیزی سے چل رہی ہے۔"
یہ
سُن کر ڈاکیہ ایک ایسی خواہش سے بالکل مغلوب ہوگیا جس کی موجودگی میں ڈاک کے تھیلے
ڈاک گاڑی ۔۔ دنیا کی ہر ایک چیز بھول جایا کرتی ہے۔ اس نے خوف زدہ انداز میں
دروازے کی طرف نگاہیں اٹھائیں جیسےوہ اپنے آپ کو چھپانا چاہتا ہے۔ یا وہاں سے
فرار ہوجانا ہے۔ پھر رعیسہ کو کمر سے پکڑ کر روشنی گل کرنے کے لیے لیمپ کی جانب
جھکا مگر فوراً ہی پرے ہٹ گیا۔ باہر والے کمرے میں کسی کی چاپ سنائی دی اور ساتھ ہی
کوچوان دہلیز میں آنمودار ہوا۔
"گاڑی
تیار ہے۔" اس نے آتے ہی ڈاکیے سے کہا۔
یہ
سن کر ڈاکیہ چند لمحے خاموش کھڑا رہا۔ پھر عزم کرنے کے بعد کوچوان کے ہمراہ باہر
چل دیا۔ رعیسہ اب اکیلی رہ گئی۔
"آئیے
اب ہمیں راستہ بتا دیجیئے۔" اس نے برآمدے میں ڈاکیے کو اپنے خاوند سے گفتگو
کرتے ہوئے سنا۔ اس کے ساتھ ہی ایک گھنٹی کی صدا آئی۔ کچھ توقف کے بعد دوسری بجی
پھر گھنٹیوں کی ٹن ٹن کا ایک سلسلہ فضا میں پھیل گیا۔
جب
تھوڑی دیر کے بعد گھنٹیوں کی آواز آہستہ آہستہ غائب ہوگئی۔ تو رعیسہ اٹھی اور
ادھر اُدھر ٹہلنا شروع کردیا۔ پہلے پہل وہ زرد تھی۔ مگر ایسا اب اس کے چہرے پر سرخی
رقص کررہی تھی۔ سانس پھول رہی تھی اور آنکھیں کسی وحشت خیز غصے سے چمک رہی تھیں۔
جھونپڑی میں ادھر اُدھر ٹہلتی ہوئی وہ ایک بھپری ہوئی شیرنی کی طرح معلوم دے رہی
تھی جسے کسی نے پنجرے میں سلاخ سے چھیڑ دیا ہو۔ ایک لمحے کے لیے کھڑی ہوکر اس نے
اپنی جائے رہائش کا جائزہ لیا۔ کمرے کا قریب قریب نصف حصہ چارپائی نے روکا ہوا
تھا۔ جس پر ایک غلیظ بستر اور میلے تکیے
اوندھے سیدھے پڑے تھے۔ بستر جو چیتھڑوں کا ایک ڈھیر تھا۔ رہائش سیفلے کے منتشر اور
کھر درے بالوں کے مانند معلوم ہورہا تھا۔ بستر سے اس دروازے تک جو باہر والے سرد
کمرے کی طرف کھلتا تھا آتشدان بنا ہوا تھا جس کے آس پاس برتن بکھرے پڑے تھے۔
کمرے کی ہر شے مع غیر حاضر سیفلے کے اس درجہ غلیظ، بھدی اور مکروہ تھی کہ اس گندی
فضا میں کسی عورت کی سپید گردن اور نازک بدن کی موجودگی سخت حیرت خیز تھی۔
رعیسہ
دوڑ کر بستر کی طرف لپکی اور اس انداز میں ہاتھ پھیلائے جیسے وہ اس بستر کو ہوا میں
اچھال اچھال کر اس کی دھجیاں بکھیر دینا چاہتی ہے۔ مگر فوراً ہی غلاظت سے ہاتھ
بھرنے کا خیال کرکے وہ پیچھے ہٹ گئی اور پھر ادھر اُدھر ٹہلنا شروع کردیا۔
جب
وہ گھنٹے کے بعد سیفلے تھکا ہوا اور برف سے لت پت واپس آیا تو اس وقت رعیسہ کپڑے
اتار کر بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ گو اس کی آنکھیں بند تھیں مگر اس کے چہرے کے رنگ
کا تغیر و تبدل صاف طور پر چغلیاں کھا رہا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے۔ گھر واپس آتے
وقت سیفلے نے قسم کھائی تھی کہ وہ دوسرے روز تک اپنی بیوی سے ہم کلام نہ ہوگا بلکہ
اسے ہاتھ تک نہ لگائے گا مگر وہ طنز کیے بغیر نہ رہ سکا۔
"دھری
رہ گئی نا تمہاری سب جادوگری۔۔ کہاں ہے۔ اب وہ تمہارا ؟"
اس
کی بیوی خاموش رہی ۔ مگر تھوڑی پر ایک ہلکی سی لرزش نمودار ہوئی سیفلے نے لباس
اتارا اور رعیسہ کے ساتھ دیوار کی طرف منہ
کرکے لیٹ گئی۔
" میں
کل ہی فادر نکوڈم کو تمہاری ساری کرتوت کہہ سناؤں گا۔"
اس
پر رعیسہ نے کروٹ بدلی اور اس کیطرف چمکتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر کہا:
"کسی
جنگل میں دوسری بیوی کی تلاش کرو۔۔۔ مردود کہیں کے! میں تم ایسے کمینے مسخرے اور
افیونی انسان کی بیوی نہیں بن سکتی ۔۔۔ خدا مجھے معاف کرئے!!
"
"بس
بس اب سو رہو۔"
"میں
کس قدر جلے نصیب والی ہوں۔" رعیسہ رونی آواز میں بولی۔ "اگر تم نہ ہوتے
تو میں یقیناً کسی اچھے مرد کے پلے بندھتی۔"
تھوڑی
دیر اور چلا کر رعیسہ نے ایک آہ بھرنے کے بعد خاموشی اختیار کرلی۔۔۔ باہر طوفان
بدستور جاری تھا۔ جھونپڑی کی دیواروں، دودکش اور انگیٹھی میں سے کسی غیر مرئی چیز
کے سسکیاں بھرنے کی آواز آرہی تھی۔ سیفلے کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ صدائے گریہ
خود اس کے کانوں اور سینے میں موجود ہے۔ آج رات کے واقعہ نے اس کے درینہ شبہات کو
صحیح ثابت کردیا تھا۔ اب اسے یقین تھا کہ اس کی بیوی شیطان سے مل کر آندھیاں لاتی
ہے۔ مگر اس کے غم میں یہ امر اور اضافہ کرتا تھا کہ یہ اسراریہ محیر العقول کی
قدرت۔ اس عورت کے حسن کو زیادہ تابانی بخشتے ہیں جو اس کے پہلو میں لیٹی ہوئی ہے
اور یہ کہ جب وہ بلا ارادہ اس کی طرف شاعرانہ انداز میں نگاہیں اٹھاتا ہے تو وہ
پہلے سے کہیں زیادہ حسین معلوم ہوتی ہے۔
"ساحرہ
۔۔۔ ذلیل عورت!! اس نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔
مگر
تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد جب وہ خاموش ہوکر سوگئی تو سیفلے نے اس کے سر کو اپنی
انگلیوں سے چھوا۔۔ اس کی گھنی زلف کو چند لمحوں کے لیے ہاتھ پکڑے رکھا۔ وہ نیند میں
اپنے خاوند کی اس حرکت سے بے خبر تھی۔ یہ دیکھ سیفلے نے اور جرأت پا کر اس کی
گردن تھپکنا شروع کردی۔
"ہٹو پرے" رعیسہ چلائی اور ساتھ ہی اپنی کہنی
اس شدت سے اس کی ناک پر ماری کہ سیفلے کو آنکھوں کے سامنے تارے نظر آگئے۔
اس
کی ناک کا درد بہت جلد رفع ہوگیا۔ مگر دل پر لگی چوٹ بدستور موجود ہے۔
(انگریزی سے
اردو ترجمہ)
English Title:
The Witch
Written by: Anton Chekhov
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment