اوہنری کا افسانہ : سرِراہے (While the Auto Waits)
عالمی ادب
کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر
489 : سرِ راہے
تحریر :
او ہنری (امریکہ)
مترجم : رومانیہ نور (ملتان)
جھٹپٹے کے آغاز کے ساتھ ہی اس پر
سکون چھوٹے سے پارک کے خاموش گوشے میں سرمئی رنگ کے لباس میں ملبوس وہ لڑکی پھر سے
چلی آئی۔ وہ ایک بنچ پر بیٹھ گئی اور ایک کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔ تاریکی
چھانے میں ابھی آدھا گھنٹا تھا لہذا تحریر تب تک مکمل ہو سکتی تھی۔ ایک بار پھر
دہراتے ہوئے کہ اس کا لباس سرمئی تھا اور اس کے بے عیب تناسب اور ناز و ادا کو چھپانے کے لیے کافی سادہ تھا۔ ایک بڑے جالی
دار نقاب نے اس کے ہیٹ اور چہرے کو مقید
کر دیا تھا جو اس کے اندر شاداں و فرحان و تاباں اپنے جمال سے بے خبر تھا۔ وہ اسی
وقت کل اور اس سے پچھلے روز بھی یہاں آئی تھی ؛ اور وہاں کوئی موجود تھا جسے اس
بات کی خبر تھی۔
وہ نوجوان جو اس بات سے با خبر تھا
آس پاس ہی منڈلا رہا تھا اور من ہی من میں دعا کر رہا تھا کہ اسے اس سے بات کرنے
کا موقع مل جائے۔ اس کی دعاؤں کا صلہ یوں ملا کہ ایک ورق پلٹتے ہوئے کتاب اس کی
انگلیوں سے پھسلی اور بینچ سے اچھل کر پورے ایک گز کے فاصلے پر جا گری۔
نوجوان فی الفور اس پر جھپٹا اور
اس ادا سے کتاب مالکن کو واپس کی جو عموما عوامی مقامات اور پارکوں میں عام پھلتی پھولتی نظر آتی ہے۔ جو بہادری اور امید
کا مرکب ہے اور گشت پر موجود پولیس والے کے لیے احترام سے بھرا ہوا۔ اس نے خطرہ
مول لے کر خوش گوار آواز میں موسم کے متعلق بے تکا تبصرہ کیا اور یہ ایسا تعارفی
موضوع ہے جو دنیا میں زیادہ تر نا خوشی کا
ذمہ دار ہے۔ وہ پر اعتماد انداز میں کھڑا چند ثانیے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار
کرتا رہا۔
لڑکی نے بنظر غائر اسے دیکھا ۔ اس
کے صاف ستھرے مگر عامیانہ لباس کا جائزہ لیا ۔ اس کے چہرے مہرے پر کوئی خاص جذباتی
اظہار کا شائبہ نہیں تھا جو اسے دیگر افراد سے ممتاز کرتا۔
"اگر آپ پسند کریں تو آپ بیٹھ سکتے ہیں۔ " اس نے برضا و رغبت دھیمی آواز
میں اسے کہا۔ " یقینا میں آپ سے ایسے
ہی متوقع عمل کا خواہش مند ہوں۔ "
" پڑھنے کے لیے روشنی کم ہے میں گفتگو کو ترجیح دوں گی۔ "
قسمت کا دست ِنگر تعمیل کرتے ہوئے
اس کے برابر نشست پر ڈھے گیا۔
"کیا آپ کو معلوم ہے۔ " اس نے اسی انداز سے بات شروع کی جس سے پارکوں کے
چئیر مین اپنی میٹنگز کا آغاز کرتے ہیں ، " کہ اب تک کے عرصہ میں ، میں نے
جتنی بھی لڑکیاں دیکھی ہیں آپ ان سب سے حسین ہیں۔ میری نظر کل بھی آپ پر پڑی تھی ۔
کیا آپ کو احساس نہیں ہوا کہ کوئی آپ کی آنکھوں کے چراغوں سے بھسم ہو گیا ، کیا آپ
کو ایسا لگا جان ِ من ؟ "
"آپ جو کوئی بھی ہیں " لڑکی نے برفیلے لہجے میں کہا " آپ کو یاد
رکھنا چاہیے کہ میں ایک معزز خاتون ہوں۔ میں آپ کا تبصرہ محض اس لیے صرف نظر کیے
دیتی ہوں کہ اس قسم کی غلطیوں کا ارتکاب آپ کے طبقے میں غیر فطری نہیں۔ میں نے آپ
کو بیٹھنے کے لیے مدعو کیا۔ اگر میری دعوت مجھے آپ کی جان ِ من بناتی ہے تو سمجھیے
اسے واپس لیا جاتا ہے۔ "
" میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں ." لڑکا متاسف ہو کر بولا۔ اس کے اطمینان
کا اظہار توبہ اور عاجزی میں بدل گیا۔ "یہ میری غلطی تھی۔ آپ جانتی ہیں -----
میرا مطلب ہے پارکوں میں ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ آپ کو معلوم ہے __ یعنی یقینا آپ
نہیں جانتیں ، لیکن ___"
"مہربانی فرما کر اس موضوع کو ترک کر دیجیے۔ بے شک مجھے سب پتا ہے۔ آپ مجھے ان
لوگوں کے متعلق بتائیے جو ہر راستے پر چلے جا رہے ہیں، بھیڑ بنا رہے ہیں۔ یہ کدھر
جا رہے ہیں ؟ یہ اتنی جلدی میں کیوں ہیں ؟ کیا وہ خوش ہیں؟ "
نو جوان اپنی شوخ ادا سے تائب ہو
چکا تھا اور اب غور و خوض والا رویہ اپنا لیا تھا وہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ اب لڑکی اس سے کون سا کردار نبھانے
کی متمنی ہے۔
"انہیں دیکھنا بہت دلچسپ ہے ۔" اس کے مزاج کا قیاس لگاتے ہوئے اس نےجواب دیا۔ "یہ زندگی کا شاندار ڈرامہ
ہے۔ کچھ شام کے کھانے کے لیے جا رہے ہیں اور کچھ __ دوسری جگہوں پر ۔ ہر کوئی
حیران ہے کہ ان کی سر گزشت کی تاریخ کیا ہے۔ "
"میں حیران نہیں ہوتی " لڑکی نے کہا " میں اتنی متجسس نہیں ہوں۔ میں
یہاں صرف بیٹھنے کے لیے آتی ہوں تاکہ انسانیت کی عظیم دھڑکنوں کو سن سکوں۔ زندگی
کا اک ایسا حلقہ میرے حصے میں آیا ہے جہاں اس کی دھڑکن کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ کیا
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے آ پ سے کیوں بات کی ؟ مسٹر __؟"
"پارکن سٹیکر" نوجوان نے جواب دیا۔ تب جوش اور امید کی مدھم پڑتی لو پھر
سے روشن ہو گئی۔
"نہیں " لڑکی نے اپنی نازک انگلی اٹھاتے اور دھیما سا مسکراتے ہوئے کہا۔
" آپ فورا اسے جان جائیں گے ۔ کسی کا نام صیغہ راز میں رکھنا ناممکن ہے اور
اسی طرح کسی کی صورت بھی۔ میری خادمہ کا یہ ہیٹ اور نقاب میرا بھیس بدل دیتے ہیں۔
آپ نے شوفر کو اس کی جانب تکتے دیکھا ہو گا جبکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے نہیں
دیکھا۔ دو ٹوک بات کروں تو پانچ یا چھ نام ہیں جو مقدس ہستیوں سے منسوب ہیں اور
میری پیدائش کے حادثے میں انہیں میں سے ایک نام میرا رکھا گیا۔ میں آپ سے مخاطب
ہوں مسٹر سٹیکن پوٹ ___"
"پارکن سٹیکر " ، نوجوان نے شائستگی سے تصحیح کی۔
"__مسٹر پارکن اسٹیکر ، کیونکہ میں ایک بار کے لیے ایک کھرے آدمی سے بات کرنا
چاہتی تھی جو کہ دولت کی حقیر چمک دمک اور سماجی برتری کے مفروضے سے بے نیاز ہو۔
اوہ ! آپ نہیں جانتے کہ میں اس سے کس قدر تنگ ہوں __ پیسہ ، پیسہ ، پیسہ ! اور ان
مردوں سے جو مجھے گھیرے ہوئے ہیں ، کٹھ پتلی کی طرح ناچتے رہتے ہیں، سب ایک ہی وضع قطع کے ہیں۔ میں خوشیوں کی لذت
سے ، زیورات سے ، سفر سے ، سماج سے ، ہر طرح کی آسائشوں سے اوب گئی ہوں۔ "
" میرا تو یہی خیال تھا " نوجوان نے ہچکچاتے ہوئے کہا "کہ دولت لازماً
ایک اچھی چیز ہوتی ہو گی۔ "
"آسودگی کی خواہش تو ہوتی ہے لیکن جب آپ کے پاس اتنی لاکھوں کی دولت ہو کہ ___!" اس نے مایوسی کے اشارے سے فقرہ
ختم کیا۔ اس نے بولنا جاری رکھا ۔ " پریشانی اس کی یکسانیت میں ہے۔ ڈرائیوز ، ضیافتیں ، تھئیٹر ، محفل ِ رقص ،
عشائیے ، ان سب پر ضرورت سے زیادہ دولت کا مظاہرہ اور ملمع سازی کی جاتی ہے۔ بعض
اوقات تو شیمپین کے گلاس میں برف کی کھنک بھی مجھے پاگل کرنے کو کافی ہوتی ہے۔"
مسٹر پارکن اسٹیکر نے بھولے پن اور
دلچسپی سے اسے دیکھا۔
وہ بولا " مجھے ہمیشہ دولت
مند اور فیشن پرست لوگوں کے طریق ِ زندگی کے بارے میں پڑھنا اور جاننا پسند رہا
ہے۔ میں فرض کرتا ہوں کہ میں کچھ شیخی خور ہوں لیکن میں ہمیشہ اپنی معلومات درست
رکھنا پسند کرتا ہوں۔ اب میں نے یہ رائے تشکیل دی تھی کہ شیمپین بوتل میں ٹھنڈی کی
جاتی ہے نہ کہ گلاس میں برف ڈال کر۔ "
لڑکی نے حقیقتا ً لطف اندوز ہوتے
ہوئے ایک مدھر قہقہہ لگایا ؛
"آپ کو معلوم ہونا چاہیے " اس نے شفیق انداز میں سمجھایا " کہ ہم غیر
معمولی لوگ اپنے آباء کی نظیر سے ہٹ کر کچھ کرنے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بس اب شیمپین
میں برف ڈالنا اک جنون ہے۔ اس کی ابتدا والڈ روف کی ضیافت میں ٹارٹری سے آنے والے
ایک شہزادے نے کی۔ یہ جنون جلد ہی کسی اور خواہش کو جنم دے گا بالکل اسی طرح جیسے
اس ہفتے میڈیسن ایونیو پر ایک عشائیے میں ہر مہمان کی پلیٹ کے ساتھ سبز رنگ کا
دستانہ رکھا گیا تھا جسے زیتون کھانے کے دوران استعمال کرنا تھا۔"
"اچھا ، میں سمجھ گیا " نوجوان نے عاجزی سے تسلیم کیا۔
" اندرون خانے کے یہ معاملات عوام الناس میں معروف نہیں ہوتے۔ "
لڑکی نے سر کو ہلکا سا خم دے کر
نوجوان کے اعتراف کو قبول کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔ " کبھی کبھی تو میں سوچتی
ہوں کہ اگر میں نے کبھی کسی سے پیار کیا تو کسی ادنیٰ حیثیت شخص سے کروں گی۔کوئی
ایسا جو جانفشاں ہو اور نکھٹو نہ ہو۔مگر ، بلا شبہ حیثیت اور دولت میری خواہش سے
زیادہ مضبوط ثابت ہوں گے۔ ابھی بھی میں دو لوگوں میں محصور ہوں۔ ایک جرمنی کا نواب
ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی ایک بیوی کہیں نہ کہیں رہتی ہے یا موجود تھی جو اس کے
ظلم اور بے اعتدال روئیے کی وجہ سے پاگل ہو گئی۔ دوسرا ایک انگریز رئیس ہے وہ اتنا
سرد مزاج اور مادہ پرست ہے کہ میں اس پر نواب کی شیطانیت کو ترجیح دیتی ہوں۔ ایسا
کیا ہے جو مجھے آپ سے یہ سب کہنے پر مجبور کر رہا ہے ، مسٹر پیکن اسٹیکر ؟ "
"پارکن اسٹیکر " نوجوان نے سانس بھری۔ بے شک آپ نہیں جان سکتیں کہ در
حقیقت میں آپ کے اعتماد کا کس قدر معترف ہوں۔
"
لڑکی نے پر سکون اور بے لاگ طور پر
اس کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جو ان کے مابین شخصی حیثیت کے فرق کے لیے موزوں
تھا۔
"آپ کام کیا کرتے ہیں ، مسٹر پارکن اسٹیکر ؟"
اس نے دریافت کیا۔
" بہت ہی معمولی سا کام ہے لیکن مجھے امید ہے کہ میں دنیا میں سر اٹھانے کے قابل
ہو جاؤں گا۔ کیا آپ واقعی سنجیدہ تھیں جب آپ نے یہ کہا کہ آپ کسی ادنیٰ حیثیت شخص
سے محبت کر سکتی ہیں۔ "
"میں نے سچ کہا تھا لیکن میں نے کہا تھا 'ہو سکتا ہے ' آپ کو علم ہے کہ بڑا
نواب اور رئیس بھی تو موجود ہیں ہاں ؛ کوئی بھی کام کمتر نہیں ہوسکتا اگر اس کو
کرنے والا ویسا ہی شخص ہو جیسا میں چاہتی ہوں۔"
مسٹر پارکن اسٹیکر نے ظاہر کر دیا
" میں ایک ریستوران میں کام کرتا ہوں۔ "
"ویٹر تو نہیں ہو ؟ " اس نے ملتجی انداز میں پوچھا " محنت میں عظمت
ہے لیکن کسی کا ذاتی خدمت گار ، آپ جانتے ہیں _چاکری اور ___"
" میں کیشئیر ہوں ویٹر نہیں ہوں " پارک کی مخالف سمت سڑک کے سامنے شاندار
برقی نشان جگمگا رہا تھا 'ریستوران ' ___"میں وہاں اس ریستوران میں کیشئیر
ہوں۔ "
لڑکی نے اپنی بائیں کلائی پر بندھے
خوب صورت ڈیزائین کے کڑے میں لگی گھڑی میں وقت دیکھا اور سرعت سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اس نے کتاب اپنی کمر سے لٹکتے چمکدار جالی دار تھیلے میں ٹھونسی تاہم کتاب کا حجم
اس میں سمانے کے لیے کہیں زیادہ تھا۔
"آپ اس وقت کام پر موجود کیوں نہیں ؟" اس نے پوچھا ۔
" میں رات کی شفٹ میں کام کرتا ہوں " نوجوان نے بتایا " ابھی میرا
دورانیہ شروع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے ۔ کیا میں آپ سے دوبارہ ملنے کی امید
نہیں رکھ سکتا ؟"
"میں نہیں جانتی۔ شاید __ لیکن ایسی کسک دوبارہ مجھ میں نہ جاگے۔ اب مجھے چلنا
چاہیے ۔ ایک ضیافت ہے ، ڈرامہ دیکھنے جانا ہے __ اور اف ! وہی پرانے ایک ہی جیسے
معمولات ۔ شاید آ پ نے داخل ہوتے وقت پارک کی بالائی نکڑ پر ایک گاڑی کھڑی دیکھی
ہو وہ جو سفید رنگ کی ہے۔ "
"اور سرخ پہئیے ہیں ؟ " نوجوان نے بھنوئیں سکوڑتے ہوئے پوچھا ۔
" ہاں میں ہمیشہ اسی میں آتی ہوں ۔ ڈرائیور وہاں میرا انتظار کرتا ہے وہ سمجھتا
ہے میں چوک کے پار ڈیپارٹمنٹل سٹور میں
خریداری کرنے گئی ہوں ۔ زندگی کی ایسی پابندیوں کا ذرا تصور کرو جس میں ہمیں اپنے
ڈرائیوروں کو بھی دھوکہ دینا پڑتا ہے۔ شب بخیر !"
"مگر اب تاریکی پھیل گئی ہے " مسٹر پارکن اسٹیکر نے کہا "اور پارک بد
تمیز مردوں سے بھرا ہوا ہے ۔ کیا میں آپ کے ساتھ نہ چلوں __"
" اگر آپ کو میری خواہشات کا ذرا سا بھی احترام ہے تو " لڑکی نے سختی سے
کہا " میرے جانے کے دس منٹ بعد تک آپ اس بینچ سے ہلیں گے بھی نہیں۔ میرا مقصد
آپ کو کوئی الزام دینا نہیں لیکن آپ شاید جانتے ہوں کہ گاڑیوں پر عموماً ان کے مالکان کے مونو گرام لگے ہوتے ہیں۔ دوبارہ
خدا حافظ ، شب بخیر "
وہ تیز روی اور متانت سے چلتی ہوئی
شام کے ملگجے اندھیرے میں نکل گئی۔ جب تک وہ پارک کے کنارے فٹ پاتھ پر پہنچی اور
اس نکڑ کی جانب مڑی جہاں گاڑی کھڑی تھی ' نو جوان اس کے دلکش سراپے کو تکتا رہا۔
پھر اس نے لاپروا اور بلا جھجھک انداز میں اس کے راستے کے متوازی اسے خوب اچھی طرح
نظر میں رکھتے ہوئے پارک کے درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان چکر لگانا شروع کر دیا۔
جب وہ نکڑ پر پہنچی تو اس نے موٹر
گاڑی پر نظر ڈالنے کے لیے اپنا سر موڑا ، پھر سڑک پار کرتے ہوئے وہاں سے گزر گئی۔
ایک کھڑی ہوئی ٹیکسی کے پیچھے چھپ کر نوجوان نے اس کی حرکات کا قریب سے مشاہدہ
جاری رکھا۔ پارک کے سامنے والی گلی کے فٹ پاتھ سے گزرتے ہوئے وہ ایک جگمگاتے ہوئے
سائن والے ریستوران میں داخل ہو گئی۔ یہ جگہ ان
واضح طور پر چمکدار عمارتوں میں سے ایک تھی جو تمام سفید روغن اور شیشے سے
بنی ہوئی تھی۔ جہاں ہر کوئی سستے میں کھانا کھا سکتا ہے۔ لڑکی ریستوران کے عقبہ
حصے میں گھس گئی۔ جہاں سے وہ اپنے ہیٹ اور نقاب کے بغیر بر آمد ہوئی۔
کیشیئر کی میز بالکل سامنے تھی۔
ایک سرخ بالوں والی لڑکی گھڑیال کی جانب نظر دوڑاتی ہوئی سٹول سے اتری۔ جونہی اس
نے ایسا کیا ایک سرمئی لباس والی لڑکی نے اس کی جگہ سنبھال لی۔
نوجوان نے ہاتھ جیبوں میں ڈالے اور
آہستہ آہستہ فٹ پاتھ پر چلتا ہوا واپس آ گیا۔ نکڑ پر اس کا پاؤں ایک چھوٹی سی
کاغذی جلد والی کتاب سے ٹکرایا اور اسے گھاس کے کنارے تک سرکا دیا۔ اس کے تصویری
سر ورق سے اس نے پہچانا کہ یہ تو وہی کتاب ہے جو لڑکی پڑھتی رہی تھی۔ اس نے لا
پروائی سے کتاب اٹھائی اور دیکھا ۔ اس کا عنوان تھا۔
' نیو
عریبین نائیٹس ' جس کے مصنف کا نام سٹیونسن تھا ۔ اس نے کتاب دوبارہ گھاس پر پھینک
دی اور چند ثانیے متذبذب کھڑا رہا۔ پھر اس نے موٹر گاڑی میں قدم رکھا اور گدی سے
ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اور شوفر سے دو الفاظ کہے " کلب ہینری "
Original Title : While the
Auto Waits
Written by:
William Sydney Porter
(September 11, 1862 – June 5, 1910), better known by his pen name O. Henry,
was an American short story writer. His stories are known for their surprise
endings.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment