شوبھادے کا افسانہ : ایک غیر ملکی دورہ (The Trip)
عالمی ادب کے اردو
تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 142 : ایک
غیر ملکی دورہ
تحریر: شوبھا دے
(ہندوستان)
ترجمہ: غلام حسین غازی
(شیخوپورہ، پاکستان)
رتیکا ،بے باک، پر تخیل
اور بے قابو خواہشات کی مالک تھی۔اس کا بلند اور پر ستائش تخیل، آج کی بات نہیں،
بلکہ ایسا تب سے تھا،جب وہ دہلی کے مضافات میں ایک بچے کے طور پر پروان چڑھ رہی
تھی۔مدت ہوئی تھی کہ اْس کے والدین نے اْسے اپنے دیگر بچوں کی نسبت اپنی الگ حیثیت
رکھنے والی بچی کو سمجھنا چھوڑ دیا ہوا تھا۔ اتنی مختلف تھی وہ ،کہ بسا اوقات اسکی
ماں سوچتی کہ بھگوان جانے آسمانوں پر کن ستاروں کا ملن ہوا تھا، جس لمحے وہ اس کی
کوکھ میں اتر آئی تھی۔ رتیکا بالکل الگ دکھتی تھی،اپنی حرکات و سکنات میں الگ اور
اپنے ردعمل بھی مختلف۔ وہ اتنی الگ اور مختلف تھی کہ اسکے خاندان کے لوگ اکثر اس
کے عمل اور ردعمل میں بے ہوش ہونے کے قریب پہنچ جاتے۔ا سکول میں بطورِ طالب علم یہ
خصوصیت اس کے لئے مزید مصائب کا سبب بنتی۔۔۔ اور یہی مصائب اور بڑھ گئے، جب جوان
ہونے پر وہ ایک ایسے مرد کی بیوی بنی، جو دولت ،طبقاتی رکھ رکھاؤ اور روپے پیسے
کی دوڑ میں جتا، ایک بیل تھا۔۔۔ وہ اپنی دل پذیر بیوی کی محبوبیت ، اندر سے حقیقی
اورحساس ترین دل رکھنے والی عورت سے بالکل نابلد تھا۔ ہتن اسے ایک وفاشعار اور ضبط
نفس رکھنے والی بیوی نہیں۔ بلکہ گھر کو صاف رکھنے والی عورت اور تین بچوں کی
بہترین تربیت کرنے والی ماں کے طور پرزیادہ جانتا تھا۔ لیکن کچھ دنوں سے رتیکا کی
تخیلاتی اڑانوں نے خوداُسے ڈرانا شروع کردیا تھا، جو ابھی تک وقوع پذیر بھی نہیں
ہوئی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بار بارآنے والے ایک ہی خواب کو ضرور بالضرور پو
را کر کے رہے گی۔۔۔ اور وہ اس پر ڈٹ چکی تھی۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے ،اتنی
دیر کہ وہ اپنے اس خواب کی تکمیل کے قابل ہی نہ رہے۔۔۔بس ایک بار وہ ویساشاندار
جینا چاہتی تھی۔ رتیکا اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے جیسی بیماری سے مبراء تھی۔ اس
نے اپنے آپ کو ایک دھوکے باز سمجھنا شروع کردیاتھا۔اور سبھی دھوکہ بازوں کی طرح
وہ یہ بھی بخوبی جانتی تھی کہ فریب کو منظر پر آنا ہی ہوتا ہے۔۔۔لیکن، وہ اپنی
تخیلاتی پروازوں کے دوران کسی بھی نتیجے کی پرواہ نہ کرتی۔۔۔آخر کار وہ تخیل کی
دنیا میں آزاد تھی، بلکہ اس دنیا کی رانی تھی۔ وہ اس تخیل کی تکمیل کے لیے اکثر
شدت اختیار کرجاتی۔
‘‘ اے بھگوان! کاش یہ
سب جلد ہی ہو جائے۔ اب میں مزید اپنی یہ بناوٹی دنیا زیادہ عرصہ برداشت نہیں کر
سکتی ،مصنوعی رویے۔ ‘‘
یہ دنیا اتنی بناوٹی
کیوں ہے ؟ اتنی مضبوط اورشدید خواہش کے باوجود کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوا تھا،اس
کے معمول کے فرائض میں کوئی کوتاہی نہ آئی تھی۔ وہ اپنے خاندان سے پہلے جیسی ہی
محبت کرتی رہی تھی۔۔۔بھرپورتوجہ کے ساتھ۔ وہ ہر فرد کو اس کی گفتگو کے مطابق جواب
دیتی تھی اور ہر درست کام اس کے وقت پر کرتی تھی۔اس کی مہارت کی تعریف ہوتی کہ وہ
کس طرح ہر کام ہر شخص کو بہترین انداز میں بھگتا دیتی۔ اس کی سہیلیاں اکثر اس سے
سیکھنے ،بلکہ نصیحت لینے آتیں کہ کس طرح وہ ہر کام کو متوازن ترین انداز میں سر
انجام دے سکتیں تھیں۔ اکثر ادھر ا ادھر جاتے لوگوں کو سن لیتی۔
‘‘ دیکھو ! یہ کس قدر
شاندار سلیقے سے ہر مشکل ترین کام کو آسانی سے کر لیتی ہے۔اور مجھے دیکھو ایک
چھوٹی سی ہنگامی صورت میں۔۔۔میں تو بکھر کر رہ جاتی ہوں ‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔وہ سنتی
اور مسکرا کر رہ جاتی۔
رتیکا ایسی عورتوں کو
اپنے پیچھے لگا لینے میں لطف لیتی تھی۔خاص طور پر ایسی عورتیں جو اپنی نوکری میں
کام کے بوجھ کی وجہ سے پریشان ہوتیں ،گھریلو بیویوں کو مشاورت دیتی کہ کس طرح پس
انداز کی ہوئی رقم استعمال کرنا چاہیے۔۔۔اور غمزدہ بیویوں کو پوری رہنمائی دیتی کہ
کس طرح اپنے آپ کو ناراض کئے بغیر اور خاوندوں کی سر درد بنے بغیر بہترین انداز
میں نبھانا ہے۔ہاں جی ! رتیکا یہ سب اور اس سے بھی زیادہ مشکل حالات میں آرام سے
یہ سب سنبھالتی چلی جاتی ،لیکن اس کا دماغ لگاتار ناقابل یقین تخیلاتی مقاصد کی
تکمیل کی طرف دوڑ رہا ہوتا۔۔۔نہ بیان کی جا سکنے والی سوچیں اور کسی گرتی شام کے
نارنجی رنگ میں ،کسی پسندیدہ اجنبی کے ساتھ وحشیانہ مباشرت۔
تکمیل ذات کی یہ خواہش
بڑھتی چلی جاتی ،لیکن اس کا خاوند اس کے معمولاتی رویے میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ
دیکھ سکتا تھا اورنہ وہ کچھ جانتا تھا۔۔۔ اور نہ ہی سمجھ سکتا تھا۔ وہ اس میں وہی
دیکھتا جو دیکھنا چاہتا تھا، ایک محبوب بیوی کے طور پر جو تقریبات میں بعض ادائوں
کے برعکس بہترین نشست و برخاست کا مظاہرہ کریں۔۔۔بطور ایک باضمیر اور ذمہ دار ماں
کے روپ میں اس نے ایسی ایک بھی میٹنگ ہر گز نہ چھوڑی تھی، جو اساتذہ اور والدین کے
مابین ہوتی۔۔۔اور ایک بہت ہی شکر گزار بستر پر شب بسری کا ساتھی جو کبھی بھی ‘‘ ناں
‘‘ نہ کہے۔ہِتن ایک سادہ لوح انسان تھا، جس کے نزدیک سب سے بڑا ازدواجی ہنگامہ یہی
ہو سکتا تھا کہ اس کی بیوی کہہ دے کہ۔۔۔ ‘‘میں بزنس ڈنر پر نہیں جانا چاہتی تھی کہ
آج موڈ نہیں ہے۔ ‘‘
‘‘سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا ‘‘۔۔۔ہِتن گلا پھاڑکر چلایا تھا، جب ایک بار اس نے بہانا بناتے ہوئے کہا تھا
کہ آج موڈ نہیں ہے۔ وہ چل دیا تھا۔ ‘‘ اس معاملہ میں کوئی موڈ شوڈ نہیں ہوتا۔
میری بیوی ہونے کی حیثیت سے یہ تمہارا فرض ہے کہ جہاں میں کہوں اور جب کہوں تم
میرے ساتھ چلو۔کیونکہ میں یہ سب ‘‘ ہم سب کے لیئے ‘‘ ہی تو کرتا ہوں۔کیو ں تم سمجھتی
ہو کہ مجھے اس تمام طبیعت خراب کردینے والے معاملات میں کوئی دلچسپی ہے؟رتیکا نے
سر جھکا دیا اورچہرے پر صبر کا تاثر بکھیر لیا۔ (وہ بلا اگلی دلیل دیئے مان جانے
میں ماہر ہو چکی ہوئی تھی )الماری کی طرف گئی کہ وہ ایک مناسب ساڑھی ڈھونڈے۔ اسکے
لئے یہ سب کتنا آسان تھا کہ وہ اپنے خاوند کو بیوقوف بنالے۔۔۔ اسے مطمئن کر لے۔۔۔
اس کی توجہ کسی اورجانب موڑ دے۔۔۔اور اس کے لئے یہ بے حد آسان تھا کہ وہ کبھی بھی
اسے بھول جائے۔
رتیکا بسا اوقات
سنجیدگی سے سوچتی ،آیا اس کے ساتھ کوئی بہت بڑا مسئلہ تھا ؟کیا دوسری عورتیں بھی
‘‘ایسی دماغی نفسیاتی علامات ‘‘ میں مبتلا ہو سکتی تھیں؟ رتیکا تصور کرتی کہ وہ
اپنی بہترین۔۔۔رازدار سہیلی۔۔۔انیشا کو فون کرکے پوچھ رہی ہے۔ ‘‘ کیا کبھی تمہارے
ساتھ بھی ایسا ہوا یا ایسا لمحہ جاں سوز آیا کہ تم اپنے گھر ،اپنے بچے ،اپنا
خاوند غرض ہر چیز چھوڑ کر کسی اجنبی کے ساتھ بھاگ جاؤ؟ اسے یاد آیا۔ ہاں ! خود
اس کے ساتھ ایک جاں سوز لمحہ۔۔۔ آیا کہ جب آپ زیست و مرگ کے واضح تصور کے درمیان
کہیں پر اسرار لمحے میں مقید ہو جائیں۔۔۔بالکل آیا تھا۔۔۔ صدیوں کے فیصلے کر دینے
والا ، برقی سرعت کے ساتھ گزر جانے والا ایک لمحہ۔
ہِتن نے خلاف توقع اسے
کاروباری دورے پر اپنے ساتھ بیرون ملک لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔انہیں لندن جانے سے
پہلے چار دن دبئی میں گزارنے تھے (ایک ایسی جگہ جس نے ہمیشہ سے رتیکا کے جذبات میں
ہلچل پیدا کر رکھی تھی) اس نے محض دبئی کی خا طر،ہتن جیسے غیر دلچسپ اور کسی بھی
ہنگامہ خیزی سے خالی دماغ شخص کے سفر کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ کرلیا۔چلو ،بالکل
متاثر کن نہیں تھا۔۔۔ اس نے اندر ہی اندر سوچا۔پھر ایک نئی جگہ کا تصور ہی اس کے
تن بدن میں آگ لگا دینے کے لئے کافی تھااور اسکے دل کے دھڑکن بلند ترین سطح پر
پہنچ جاتی تھی۔
امکانات! اوہ بھگوان!
امکانات!!!۔۔۔ وہ پر جوش انداز میں سوچتی۔۔۔ لیکن کہیں دور دل کے نہاں خانوں میں
یہ بھی چل رہا ہوتا کہ یہ سیر بھی پچھلی سیروں کی طرح بیکار ہی جائے گی۔۔۔کسی بھی
یادگار واقعے یاانمٹ نقوش چھوڑ جانے والے لمحے سے یکسر خالی۔۔۔ہاں ہر دورے پر بچوں
کے لئے خریدی گئی اشیاء کی طرح، یہ دورہ بھی ویسے ہی ہونے کا قوی امکان تھا۔جب
رتیکا ،در پیش دورے کے لئے سامان پیک کر رہی تھی تو وہ غیر متوقع مہم جوئی کی
تمنائوں کے بھرپور مزے لے رہی تھی۔۔۔کسی ناقابل تصور بڑے انبساط آگیں واقعہ کے
گزر جانے کی توقع وامید۔ہتن! ہاں ہتن عام لوگوں کی طرح ویسا تھا، جیسے معمول کی
بچکانہ مسرت، پر جوش ہو جانے والوں کو ہوتی ہے۔ وہ خوش مزاجی سے چہکتے ہوئے بولا۔
‘‘ میں تمہیں ابھی سے خبردار کرتا ہوں اب کی بار کوئی شاپنگ نہیں !بھئی میں کوئی
امیر آدمی نہیں ہوں۔ یاد رکھنا! ‘‘
رتیکا ان شوہرانہ جملوں
پر بظاہرمسکراتے ہوئے اندر ہی اندرمسوس کر رہ گئی۔ہاہ! شاپنگ ! ہتن کا یہی خیال
تھا کہ وہ جو بہت خوش دکھائی دے رہی تھی اسکی وجہ ‘‘ شاپنگ ہی ہے! ‘‘آہ! اسے نئی
لپ اسٹک یا کسی نئے پرفیوم کی کیا پرواہ تھی۔ہتن کتنا بے وقوف تھا کہ وہ اُس کی
تخیل کی پرواز کو محض اُسکی دنیاوی شاپنگ ہی سمجھ رہا تھا۔
دبئی میں اپنے قیام کے
تیسرے روز ،تھکے ماندے ،ہتن اور رتیکا کو لگتا تھا کہ وہ پیاس کے مارے ، ایک
چمکدار اسٹور سے دوسری دکان تک بھاگے پھر رہے تھے۔۔۔ رتیکا کی شدت پیاس سے زبان
تالو سے چپک چپک جا رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ کہیں سے یخ بستہ چائے کے دو گلاس
پینے کے ساتھ کچھ آرام کا وقفہ بھی میسر آجائے۔ وہ ہتن کی آستین سے بندھی چل
رہی تھی۔وہ بھی تھک چکا تھا۔۔۔اور ہلکا ہلکا تاثر دے رہا تھا کہ سستی ترین
الیکٹرونک اشیاء کی تلاش و خریداری میں صرف تگ و دو اور اسکی تھکاوٹ کی ذمہ دار
رتیکا تھی۔
‘‘ہاں !اب کیا ؟"
اس نے مختصراًاستفسار کیا۔
اس نے ایک سیلف سروس
والے چھوٹے سے کیفے کا سائن بورڈ پڑھتے اور اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ “مجھے سخت پیاس
ہے اور کیا ہم تھوڑی دیر سانسوں کو بھی بحال کر سکتے ہیں؟ “اس نے ادائے بے نیازی
سے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ابرو اٹھا کر وقت دیکھا۔۔۔پر اس کا ایسا انداز تھا
کہ جس سے رتیکا ہمیشہ چڑ کھاتی۔۔۔یوں ظاہر کرتا جیسے اس نے کہیں وقت دے رکھا ہو
اور لیٹ ہو رہا ہو۔۔۔اور وہ بھی رتیکا کی وجہ سے۔ بہر حال چارونا چار سا انداز
دکھاتے ہوئے وہ مان ہی گیا۔ وہ دونوں ہی اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے کرسیوں تک پہنچے
او ر ان پر ڈھیر ہو گئے۔۔۔ ان کی خریداری کے تھیلے ان کے گرد بکھر گئے۔ رتیکا
بھاری بھرکم چشمہ لگائے ہوئے تھی۔ اور اس کا لباس! ایسا لباس وہ بمبئی میں کبھی
بھی نہ پہنتی۔ قابل نفرت چست پینٹ اور ڈھیلی ڈھالی شرٹ۔ وہ ایک چھوٹی سی گول میز
پر بیٹھ گئی جبکہ ہتن اس کے لئے کولڈ ٹی لینے چلا گیا۔۔۔ اسی اثناء میں اسکی تھکی
نگاہ ایک انتہائی شاندار دکان پر پڑی، جہاں زنانہ جوتے انتہائی نفاست سے سجے پڑے
تھے۔ وہ دکان کیفے سے متصل تھی۔ اس میں جوتوں کی پیش کاری کچھ عام سے انداز سے ہٹ
کر بہت ہی اعلی ذوق کی ساتھ کی گئی تھی۔ اس نے سوچا، جس کسی نے بھی خشک گھا س اور
پتھروں کو رنگی گئی ریت پر سجایا تھا، وہ کوئی بلند ترین فنکارانہ ذہن کا مالک ہو
گا۔۔۔ خاص طور پر جس نفاست خیال سے مختلف رنگوں پر مختلف جوتوں کو سجایا گیا تھا۔
یہ بے حد خوبصورتی کے ساتھ پتھر کاری سے مزین تراشے ہوئے جوتے تھے۔ کلاسیکی انداز
میں جوتوں کو ایسا ڈھالا گیا ہو کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ انہیں پہنتے ہی وہ
جوتے اس کے پاؤں پرگداز انگلیوں سے سکون کی لہریں پیدا کرنا شروع کر دیں گے۔۔۔وہ
گہرے عنابی رنگ میں تھے۔۔۔کچھ گہرے گلابی۔۔۔کچھ مخملی سبز اور کچھ انتہائی چمکدار
نیلے رنگوں میں۔ ان کی ایڑیاں شاندار شاہانہ انداز میں گھڑ کر لگائی گئیں
تھیں۔۔۔چمڑا؟۔۔۔میٹ فنشنگ اور بے حد شفاف بھی!!!رتیکا ان جوتوں سے اپنی نگاہ ہٹا
ہی نہ سکی۔ وہ سبھی کھردری پتھر نما چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر اس قدر نفاست سے سجے
تھے کہ رتیکاکو یاد نہ پڑتا تھا کہ کبھی بھی اس نے اس طرح کی پیش کاری دیکھی ہو۔
اس نے چشم تصور میں دیکھا کہ اگر وہ انہیں پہنتی تو کس طرح اس کے پاؤں کی انگلیاں
اندر سکون محسوس کرتیں اوروہ شاندار چمڑ ا،ا س کے پاؤں سے چپک کر کیسا سکون مہیا
کرے ا ور اسکے ٹخنے کس قدر آنند سے مجسمہ کی گئیں ایڑیوں پر ٹکے ہوں۔۔۔حالانکہ
کبھی بھی جوتے میں اس کے لئے صحرزدگی نہ رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اس کے بائیں پیر
کا انگوٹھاکچھ غیر معمولی لمبا تھا،جوبند جوتے پہننے کے لئے درد سر تھا۔ باقی
باتوں کے علاوہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ سفر کرنا اسے ہمیشہ ناپسند ہی رہا۔۔۔حتا کے
ایئر پورٹ سے روانہ ہونے سے قبل اس کا پاؤں درد سے بھر جاتا۔ لیکن یہ جوتے ! یہ
اسے بے حد دلپذیر لگ رہے تھے۔۔۔اتنے دلپذیر کہ وہ انہیں پہنے بنا نہ رہ سکتی تھی۔
اس نے پر عزم ہوتے ہوئے سوچا ،
“ تو پھر کیا میں یہ
جوتے پہن سکتی ہوں۔ “
“ مجھے علم ہے میں ایسے
جوتوں کی مالک نہیں بن سکتی۔۔۔کیوں کہ ان کے لئے بھاری رقم درکار ہو گی۔۔۔لیکن میں
چاہ تو سکتی ہوں ناں! “
وہ انہیں غور سے دیکھتی
رہی۔۔۔ اس کی نگاہیں ان پر کی گئی فنکاری کی جزیات پر پھسلتی رہیں۔ تب ہی ایک مرد
انتہائی متوازن قدم بھرتا دکان سے برآمد ہوا۔ اس مردنے فوراً اس کے توجہ اپنی
جانب کھینچ لی۔ اس مرد نے بھی اس کو دیکھا۔ اس نے آج تک جتنے بھی مرد دیکھے تھے
،وہ ان میں اعلیٰ نظر والا انسان تھا۔ اور خوفناک حد تک شاہانہ اورشاندار۔ وہ کچھ
ہی فاصلے پر ایک ، متصلہ دکان پر گیا اور پھر تیزی سے واپس آگیا۔ اس کی نگاہوں کا
رتیکا کی نظروں سے دوبارہ ملاپ ہوا۔
اپنی حقیقی زندگی میں
رتیکا نے شاید ہی کبھی مردوں کو گھاس ڈالی ہو۔لیکن یہ آدمی بہت ہی غیر معمولی
تھا۔اب حلیہ شروع کرتے ہیں !
اس نے نفاست سے پونی
ٹیل باندھی ہوئی تھی۔ عام حالات میں رتیکا، پکی عمر کے مرد کو اس طرح بال بڑھائے
ہوئے ہونے پر لازماً تضحیک کا نشانہ بناتی۔ پریہ بندہ کوئی پر نچا مرغا نہ تھا
۔۔۔اس کا چہرہ بہت بہاریں دیکھ چکا اور تیکھے نقوش لئے ہوئے تھا۔۔۔اب اس عمر میں
پونی ٹیل بالکل ہی احمقانہ حد تک غیر موزوں ہوتی۔ لیکن وہ کسی ہپی کی طرح کے لباس
میں ملبوس میں نہ تھا۔ اس کے برعکس، اس کا لباس قدامت پسند کی علامت اور مہنگا
تھا۔ گرے ڈھیلی پینٹ اور کھلے گلے والی نیلی شرٹ اور بنا دباغت کئے بہترین سلائی
کڑھائی سے مزین آکسفورڈ شوز، اس کے بڑے بڑے پیروں پر سج رہے تھے۔اور ہاں ! اس کا
قد کوئی چھ فٹ سے اوپر نکل رہا تھا۔۔۔اورایک دم صحت مند چوڑا چکلا جسم۔رتیکا نے
تیزی سے سوچا ا سے دیکھ کر اسے کون یاد آرہا تھا۔۔۔غالباً بالی ووڈ کا کوئی فلم ا
سٹار؟
یہ مرد کسی یورپین فلم
میں کسی امیر زادی کا کوئی بستر کا ساتھی یا اس کا ذاتی محافظ کا جڑواں لگ رہا تھا۔
نہیں! اسے یاد آیا! اسے جاجیو آرمانی کے کسی اشتہار کا پختہ عمرمرد یادآیا۔ ایک
ایسا مرد جو سینکڑوں عورتوں کے ساتھ سوچکا ہو اور سینکڑوں عورتوں کے ساتھ ابھی بھی
سو سکتا ہو۔ ہاں! کوئی بے غیرت سا جسم فروش ہر گز نہیں!!! کوئی متکبر سا یا خالی
الدماغ بے وقوف جسم پھینک نہیں بلکہ اعلیٰ ذوق اور گہری حساسیت رکھنے والا انسان۔
ایک مدبر و دانا۔ ایسا مرد جو اپنے سکون کی خاطر تمام دھنوں میں بانسری بجا سکتا
ہو۔ جنسی تسکین کے بعد اسٹرابریاں کھانے والا اور جب اس کی محبوبہ سو رہی ہو تو
اسکے پیروں کے ناخنوں کو نفاست سے۔۔۔اتنی نفاست سے۔۔۔ اس سوئی ہوئی کو احساس تک
ہوئے بغیر۔۔۔ اسے لہو رنگ نیل پالش لگا رہا ہو۔
ہتن واپس آگیا اور
کھرد ری آواز میں مایوسی کی حد تک تاثر بھری آواز میں بولا۔۔۔ “آئس ٹی نہیں
ملی۔ ان کے پاس نہیں ہے۔ اور تم ہر کسی کی طرح پیپسی کیوں نہیں پی لیتی ہو۔ “
سارا سحر ٹوٹ گیا!رتیکا
کی بلند ترین تخیل کی پیدا کی دنیا، تیز ہوا میں ریت کے ذروں کی طرح معدوم ہو گئی۔
غبی سے انداز میں رتیکا بولی۔ “اوکے میں پیپسی پی لوں گی۔ افسوس کے چا ئے نہیں
ملی! کوئی بات نہیں۔ “
ہتن دوبارہ چلا
گیا۔رتیکا کی نگاہیں واپس دکان کے دروازے پر چلی گئیں۔وہ جان چکی تھی کہ وہ جلد ہی
دوبارہ باہر آئے گا۔۔۔بہت جلد ! اور وہ آبھی گیا۔ اس کا دل اپنے مقام سے یکبارگی
کھسکا اور اپنے اصل مقام پرآ کر زو ر سے دھڑکا، وہ دکان میں پہنچی، آیا وہ چلتا
ہوا اس تک آئے گا اور کہے گا۔ “ اعتراض تو نہیں اگر میں آپ کے ساتھ بیٹھ جاؤں
“؟ شاید اس نے سوچا ہو کہ وہ اکیلی ہے کیوں کہ ہتن تو زیادہ تر اپنی باری کے لئے
قطار میں ہی کھڑا رہا۔اور وہ خود بھی اب مکمل دلچسپی ظاہر کر رہی تھی۔ اس تصور پر
رتیکا پوری طر ح دمک اٹھی۔ شاید وہ کسی بڑے جرم کو حق بنانے پر تل گئی تھی۔غیر مرئی
پیغامات! اس مرد نے بھی سوچ لیا ہوگا کہ وہ کسی امیر آدمی کی اکتاہٹ کی ماری بیوی
تھی اورروٹین کی خریداری پر نکلی ہوئی تھی۔ اس نے اسے بھی دیکھا اور پھر ایسی ہی
کئی ایک کے ساتھ وہ سویا بھی ہوگا۔کس قدر بھیانک سنسنی!وہ واپس مڑا۔اس کی پشت بھی
جنسی دعوت نظارہ سے اتنی ہی بھرپور تھی، جتنا اس کے جسم کی سامنے سے رونما ئی۔شاید
اس سب سے بھی زیادہ ! اپنی چشم تصور میں اس نے اسے بے لباس کردیا۔ اس کی چشم تخیل
اپنی تمام حدود پار کر گئی۔۔۔ اس نے سوچا اس کا عضو تناسل بالکل مناسب ترین لمبا
ئی میں ہو گا اور خوب مضبوط پٹھوں والا بھی۔۔اگرچہ اس کی نفاست سے سلی ڈھیلی پینٹ
کے اندر سے ایسا اندازہ لگانا بہت دشوار تھا۔ وہ اسکی مضبوطی سے جما کر رکھتے
قدموں کے ساتھ ہلکی چکر دار چال پر دم بخود تھی۔۔۔اور۔۔۔جس طرح اس نے بے پروائی سے
اپنی آستین چڑھائیں۔۔۔ایک بالکل صفائی سے پونی ٹیل پر بندھی پٹی اپنی جگہ پرلا
جواب تاثر بکھیر رہی تھی۔چوڑی مربع نما پیشانی ۔ اس کے گالوں کے ابھری ہڈیاں تو
انمول قسم کے کیلسیم کی کانیں لگ رہی تھیں۔۔۔آنکھیں۔۔۔بحیرہ روم کے پانیوں جیسی
نیلگوں۔ او ہ یار!یہ مرد نہیں چلتا پھرتا مردانگی کا مجسم تاثر ہے۔۔۔اکیلی پینٹنگ
جس میں جذبات نگاری پر بھرپور توجہ دی گئی ہو۔دیکھنے والی کی بے بسی کی حد تک
شاندار انسان!
سہ پہلو پرنٹنگ میں
قدرت کا شاہکار!
وہ سوچ میں پڑھ گئی ،
وہ اس قدر احمقانہ ردعمل کا مظاہرہ کر رہی تھی؟ وہ خود !اس قسم کی عورت نہ تھی، جو
بندوں کو دیکھیں اور ان کے پیچھے لگ جائیں۔ وہ ایسی نہ تھی، جو نگاہوں سے ہی مردوں
کو نگل جائیں (اور ان میں سے زیادہ تر اس قابل تھے بھی نہیں)وہ کوئی جنسی جانور نہ
تھی۔(غیر جمالیاتی ہائے ے ے ہووہ ہووہ۔ اففف، مرگئی)لیکن اس دن اس وقت وہ اس jacket of a mills and
boonsرومانس میں اس مرد کے
سامنے گھٹنوں کے بل گر گئی تھی۔اب وہ دوبارہ مڑ کر اس کی طرف آرہا تھا۔۔۔بے حد
توجہ سے دیکھ رہا تھا۔ پوری طرح سے ماپ تول کر رہا تھا ؟وہ مڑ کر دوسری طرف بھی
دیکھ سکتی تھی لیکن بہانے سے, عدم دلچسپی کا تاثر دے رہی تھی۔ لیکن وہ ایسا نہ کر
سکی۔۔۔اس کے بجائے۔۔۔ اس نے پورے نخرے سے اپنا سیاہ چشمہ اتارا اور ٹیبل پرلکھ
دیئے۔ اس نے اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں پیوست کر ڈالیں۔۔۔ اس پر چھا جانے کی
نیت سے۔۔۔ تقریباً اسے دعوت دینے کے انداز میں کہ وہ کوشش کر کے دیکھے۔ لیکن اس
مرد نے ایسا نہ کیا۔وہ واپس شو اسٹور میں چلا گیا۔ رتیکا کو پورے وجود میں ذلت کا
احساس سرسراتا محسوس ہوا۔شاید وہ دکان کا مالک تھا؟ غالباًوہ اسے اپنی دکان میں
آنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ وہ اسے اپنی زمین پر بلاکر کھیلنا چاہتا تھا۔۔۔اور اس
نے اس پہلو پر غور بھی شروع کر دیا۔ہتن؟ ہتن کو تو وہ بڑی آسانی سے چکما دے سکتی
تھی۔ اس کو وہ ٹیبل پر بٹھا کے کہہ سکتی تھی۔ “جلدی واپس آتی ہوں۔۔۔ایک پیاری سی
چیز نظر آئی ہے۔۔۔فکر نہ کرنا خریدوں گی نہیں۔۔۔بس دیکھ کر آتی ہوں۔۔۔سامان کی
نگرانی صحیح سے کرنا “ پھر اطمینان سے چلی جائے گی۔۔۔ شاید کبھی واپس نہ آنے کے
لئے۔ رتیکا نے بددلی سے ہتن کو پلاسٹک ٹرے جو کاغذ کے پیپسی گلاسوں اور دیگر اشیاء
خوردونوش سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے اپنے لئے آلو کے چپس کا ایک لفافہ بھی ساتھ
خرید لیا تھا۔ہتن اسے بے حد بیچارہ لگا۔۔۔بہت معصوم۔۔۔بے حد احمق۔۔۔وہ کس بھدے
انداز میں لوگوں کے مجذو بانہ ہجوم سے بچتا بچاتا اس کی طرف آرہا تھا۔ اس کی
زبردست خواہش بنی کے وہ اپنا بیگ اٹھائے اور ہتن پر اعلان کر دے “بہت ہو گیا۔میں
تمہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں۔میں اس یکسانیت کو ٓمزید ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر
سکتی۔۔۔اور نہ ہی پہلے سے معلوم ہر بات کے انجام کو۔۔۔میں اپنی سوچوں سے ہی اکتا
گئی ہوں۔ میں جا رہی ہوں۔ “ لیکن! وہ جانتی تھی کہ وہ ایسا نہیں کہہ سکتی تھی اور
نہ ہی ایسا کر سکتی تھی۔ نہ ہی اب اور نہ ہی کبھی دوبارہ۔ وہ بہت دلربائی سے
مسکرائی اوراپنے شوہر سے مخاطب ہوئی۔۔۔ بے حد محبوبانہ بیویوں والی آواز میں۔۔۔
“تکلیف دینے کے لئے معذرت خواہ ہوں۔۔۔لیکن میں پیاس سے مر رہی تھی۔ “
انہوں نے خاموشی سے
جرعہ بہ جرعہ اپنے مشروبات ختم کیے۔ہتن کے چہرے پر پسینے کے ندیاں بہہ رہی تھیں۔
اس کی تھوڑی تھوڑی شیو بھی بڑھ چکی تھی۔۔۔اور شیو کرنی بھی چاہیے تھی۔ وہ اپنی
چھٹی کے لباس میں بہت بھدا بھی لگ رہا تھا۔ٹی شرٹ میں پھنسا پڑا تھا۔۔۔ اسکی توند
تو کافی نمایاں تھی، اسکے سر کا گنجا حصہ بھی۔ اسکی آنکھوں میں سفید حصے زردی
مائل دکھائی پڑ رہے تھے۔ اس کی ناک پر بلیک ہیڈز بھی نمایا ں تھے۔ ا س نے اس کے
نیچے لٹکے عضو خاص کا سوچا۔۔۔بہت بد صورت تھا۔بے رنگ ،چھونے میں کھردرا۔لمبا اور
گھٹیا ، کلیتہً کسی بھی مضبوط پٹھوں کے احساس سے خالی۔ ہر صبح جب ہتن، باتھ روم سے
نہا کر ننگا ہی کپڑوں کی الماری تک آتا تو وہ دیکھتی۔ اس کا ذَکر کتنا ڈھیلا اور
بے ڈھنگا سا ہلکا ہوتا۔ رتیکا ہمیشہ مردوں کے نچلے حصے کے عضو کے متعلق سوچتی تھی۔
اس نے خوشبو Obsession" "کے اشتہار
میں مرد کے نچلے حصے کی ایک خصوصیت کو محسوس کیا تھا۔ وہ بالکل مکمل تھا۔۔۔اپنے
جسم کے ساتھ ایستادہ۔۔۔گول۔۔۔اوپر اٹھا ہوا۔۔۔یکجا۔۔۔ اسے یقین ہو گیا کہ شو اسٹور
والے آدمی کا ویسا ہی ہوگا۔ تب اس نے جلدی جلدی سے جسم کی پیاس مارنے کے لئے
پیپسی حلق سے نیچے اتارلی۔ اس نے تصور کیا کہ وہ اس وقت دکان کے اندر کیا کر رہا
ہوگا؟ممکن ہے وہ محض ایک سیلز مین ہی ہو۔ ممکن ہے وہ عورتوں کے پیروں کو دیکھ
کر،چھو کرجنسی تسکین حاصل کرتا ہو۔ شاید وہ عورتوں کے شوا سٹور میں اس لئے ہو کہ
وہاں سینکڑوں نامعلوم اور انجانی ،عجیب و غریب عورتوں کے پیروں سے خیالی طور پر
منسلک ہو۔ نہیں ! ہر گز نہیں! وہ ہر گز اسکے اسٹور میں نہیں جائے گی۔
وہ دوبار ہ د کان سے
باہر آگیا۔اس بار ، اس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی۔ اس نے اس کی طرف دیکھااور ایک
لمحے کے ہزارویں حصہ کے لئے طنزیہ مسکراہٹ بکھیری۔۔۔کیو نکہ اس نے ہتن کو دیکھ لیا
تھا۔ اُس نے اس کے طنزیہ مسکراہٹ بھرے پیغام کو پورا سمجھ لیا اور کندھے اچکائے۔
اس نے بھی جواباً کندھے اچکائے۔ اس کی ساتھی عورت نے اسے اپنا مقبوضہ سمجھتے ہوئے
اس کے بازو کو پکڑ لیا۔
کیا وہ اس کی بیوی
تھی؟رتیکا نے فوراً تصور کیا کہ وہ دونوں ہم بستر ہیں اورکسی صورت میں بھی ایک
دوسرے کے لئے نا موزوں ہوتے۔ اس کے ساتھ عورت تانبے رنگی کرفت سی تھی۔ اور جس طرف
وہ اس کے بازو سے چمٹی ہوئی تھی اس سے اس کے عدم تحفظ کے احساس کا اظہار بھی ہو
رہا تھا۔ وہ غصیلی اور بے صبری بھی لگ رہی تھی۔۔۔ اسکے ماتھے پر گہری آڑی ترچھی
لکیر ان سب باتوں کی غماز تھیں۔ اس کی لپ اسٹک تو بالکل بھی۔۔۔ایک تیز اورنج رنگ
کی جو اسکے جسم کے رنگ سے ہر گز میل نہ کھاتی تھی۔ اس کے بال رنگ ہوئے اور کھردرے
تھے۔ رتیکا نے اس کے کپڑے دیکھے۔۔۔ بہت چست،چھوٹے اور بہت نمایاں سے۔لیکن اسکی
چھاتیاں بہت زبردست تھیں۔ اسکی ٹا نگیں مناسب تھیں ،بھلے اسکے ٹخنے بہت موٹے
تھے۔دراصل یہ اسکے انداز و اطوار تھے۔جو ہر گز دلکش نہ تھے۔۔۔تحکمانہ۔۔۔دھکم پیل
والے۔۔۔ اس کے ہاتھ اس مرد کے بازو کو ایسے جکڑے ہوئے تھے جیسے پنجے۔ اس سے پہلے
کہ وہ مڑ کر پار کر کے گلی میں جاکر منظر سے بالکل غائب ہو جاتے۔۔۔وہ واپس
مڑا۔۔۔آخری لمحات کے لئے۔۔۔او ر رتیکا کو ایسی شدت سے دیکھا جیسے وہ دونوں محبت
میں گرفتار ہو چکے ہوں۔ رتیکا کا ہاتھ جس میں پیپسی پینے والا اسٹرا پکڑا ہوا
تھا۔۔۔و ہ ہاتھ یک دم بے جان ہو کر میز پر گرا اور ایک خاص ا ونچی آواز پیدا کر
گیا۔ اس کی آنکھوں کا رنگ اڑ گیا۔ اسکے ہونٹوں کے کنارے ڈھیلے پڑ کر گر گئے۔ اور
چہرے کے تمام رنگ پھیکے پڑ گئے۔ اس نے محسوس کیا وہ دہل کر بیمار پڑ گئی اور بوڑھی
بھی ہو گئی ہو۔
ْاس نے اس کے تعاقب میں
نگاہ دوڑائی تو اسے لگا نیلا رنگ کہیں دور پھیل کر معدوم ہو گیا تھا۔ اس نے جھٹک
کر سر ہلایا۔گرم آنسو اسکی آنکھوں کے کٹوروں کو چھونے لگے۔رتیکا کو اپنے دل میں
کہیں دور نہاں خانوں میں ایک درد کی لہر کا احساس ہوا۔ بے حد مایوس کن صور ت
حال۔۔۔۔واقعی مایوس کن صورت حالت تھی۔ کاش اسے محض ایک گھنٹہ۔۔۔ایک محبوبیت اور
مخموریت سے بھرا۔۔۔۔صرف ایک گھنٹہ اس مرد کے ساتھ بتانے کو مل جاتا۔ محض ایک گھنٹہ
وہ ساری عمر ہی جی لیتی۔ یہ نہیں کہ ایک گھنٹہ۔۔۔خوابناک مباشرت سے بھرپور۔ بس
گفتگو۔ تھوڑالمس کا احساس۔ مزاح سے بھرپور باتیں۔۔۔ایک گھنٹہ۔ وہ اس مرد کے بال
کھول دیتی اور ان زلفوں کے نیچے گردن سے چپک جاتی۔ وہ منہ کھول کر اس کی زبان کو
اپنے حلق تک استقبال کا اذن دیتی۔وہ اسکی پشت پر چپتیں لگاتی۔۔۔ اسکے چہرے سے پیار
کرتی۔۔۔محض ایک گھنٹہ!!!بس یہ تو وہ تمام عمر سے۔۔۔صدیوں سے چاہتی آئی تھی۔ ایک
گھنٹہ۔۔۔۔جس میں پوری طرح سے دھڑکتی زندگی جی لیتی۔۔۔صدیوں کو لمحوں میں قید
کرلیتی۔ مجسم اپنی ذات کو محسوس کر لیتی۔ ایک گھنٹہ بنا کسی بناوٹ کے۔ کوئی حرکات
نہیں ،کوئی سکنات نہیں۔ کوئی فرائض نہیں ،کوئی ذمہ داریاں نہیں۔ ڈوریوں سے بندھی
پُتلی کی طرح نہیں۔ ہر یاد سے خالی ذہن کے ساتھ۔ کوئی مستقبل نہ ہوتا۔ بس ایک
گھنٹہ۔ کوئی پچھتاوے نہ ہوتے۔۔۔خاص طور پر بنا پچھتاووں کے۔
اس نے اپنے آپ کو دو
بارہ بحال کیا۔۔۔منتشر اجزائے قلب و بدن کو واپس گٹھڑی میں باندھا۔۔۔ انہی پرانے
کپڑوں کی گٹھڑی میں کسا۔ حتن جو اس کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔حقیقتاً پریشان
ہو چکا تھا۔ “کیا ہم کسی ڈاکٹر کے پا س چلیں ؟ تم بالکل زرد پڑ چکی ہو۔ “ رتیکا نے
اپنے تنگ شانے سیدھے کئے۔۔۔ اپنی آنکھوں پر گرے ہوئے بالوں کو سنوارا کیا۔۔۔اپنی
ٹھوڑی کواوپر اٹھایا۔ اپنا سرایک طرف جھکایا اور ہلکا تبسم بکھیرا۔۔۔بہت پر اسرار
مسکراہٹ سے لبوں کو آراستہ کیا اور بولی “میں ٹھیک ہوں۔۔۔بالکل ٹھیک۔۔۔اتنا بہتر
تو میں نے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔۔۔اور وہ بالکل سچ کہہ رہی تھی۔۔۔ اتنا اچھا اس
نے پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔
Original Title: The
Trip
Written by:
Shobha Rajadhyaksha,
also known as Shobhaa De (born 7 January 1948), is an Indian columnist and
novelist. De is best known for her depiction of socialites and sex in her works
of fiction, for which she has come to be known as the "Jackie Collins of
India". (Wikipedia)
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment