اوہنری کا افسانہ : سراغ رساں (The Sleuths)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 438 : سراغ رساں
تحریر: او ہنری(
امریکہ)
مترجم: افشاں نور
(اوکاڑہ)
بڑے شہر میں ایک آدمی
ایسے گم ہوجاتا ہے جیسے کسی موم بتی کے شعلے کو اچانک اور مکمل طور پر بجھا دیا
جائے۔ انکوائری کی تمام ایجنسیاں، کھوج لگانے والے شکاری کتے، شہر کی بھول بھلیوں
کے سراغ رساں، قیاس آرائیاں کرنے والے نجی جاسوس تلاش کے لیے بلائے جاتے ہیں۔ غالب
امکان یہی ہوتا ہے کہ اس شخص کا چہرہ دوبارہ دکھائی نہیں دے گا۔ کبھی کبھار کھویا
ہوا شخص شیبوئگن میں یا ٹیری ہاؤٹ کے جنگلات میں، اپنے آپ کو سمتھ پکارتے ہوئے
اپنے سودے کے بل سمیت دوبارہ نمودار ہوتا ہے جسے مخصوص وقت کے واقعات کے علاوہ کچھ
یاد نہیں ہوتا۔ بعض اوقات دریاؤں کو کھنگالنے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ شاید کہیں
وہ گائے کے اچھے پکے ہوئے قتلوں کا انتظار کر رہا ہو، ریستورانوں کی چھان پھٹک
کرنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اگلی جگہ پہنچ چکا ہے۔ تختہ سیاہ پر بنے چاک کے
انسان کو مٹانے کی طرح انسان کا ایسا خاتمہ ڈرامہ نگاری کے سب سے متاثر کن موضوعات
میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں مریم سنائیڈر کا معاملہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
مِیکس نامی ایک ادھیڑ
عمر شخص، اپنی بہن مسز میری سنائیڈر کو تلاش کرنے مغرب سے نیو یارک آیا۔ وہ باون
برس کی ایک بیوہ تھی جو آس پاس کے پر ہجوم علاقے میں سال بھر سے ایک سستے فلیٹ میں
رہ رہی تھی۔ میری سنائیڈر کے پتے پر اسے پتہ چلا کہ اسے وہاں سے گئے ایک ماہ سے
زیادہ ہو چلا تھا۔ اس کا نیا پتہ اسے کوئی نہیں بتا سکا۔
باہر آکر مسٹر مِیکس نے
کونے پر کھڑے ایک پولیس والے سے بات کی اور اپنی پریشانی بیان کی۔
”میری بہن بہت غریب
ہے،" اس نے کہا ، "اور میں اسے ڈھونڈنے کے لیے بے چین ہوں۔ میں نے حال
ہی میں سیسے کی ایک کان میں کافی پیسہ کمایا ہے اور میں اپنی خوشحالی اپنی بہن کے
ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے اشتہار لگانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ پڑھ
نہیں سکتی۔“
پولیس اہلکار نے اپنی
مونچھوں کو تاؤ دیا۔ سوچ میں ڈوبا ہوا وہ اتنا طاقتور لگ رہا تھا کہ مِیکس قریب
قریب اپنی بہن میری کے خوشی کے آنسو اپنی ہلکی نیلی ٹائی پر گرتے ہوئے محسوس کر
سکتا تھا۔
پولیس والے نے کہا،
"آپ نیچے کینال اسٹریٹ کے آس پاس جائیں اور جو سب سے بڑا ٹھیلا آپ کو ملے اسے
چلانے کا کام حاصل کریں۔ وہاں نیچے اکثر ٹھیلے بوڑھی عورتوں سے ٹکراتے رہتے ہیں۔
ہو سکتا ہے آپ ان کے درمیان اسے دیکھ سکیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے تو بہتر
ہے آپ ہیڈ کوارٹر جائیں اور انہیں محترمہ کے لیے ائیر پولیس بھیجنے کو کہیں۔
پولیس ہیڈ کوارٹر میں
مِیکس کو تیار مدد ملی۔ ایک عمومی الارم بجایا گیا، اور میری سنائیڈر کے بھائی کے
پاس جو ایک تصویر تھی، اس کی کاپیاں اسٹیشنوں میں تقسیم کی گئیں۔ ملبری اسٹریٹ میں
چیف نے جاسوس مُولنز کو اس کیس کی ذمہ داری سونپی۔ جاسوس نے مِیکس کو ایک طرف لے جا
کر کہا:
”یہ کیس حل کرنا کوئی
بہت مشکل نہیں ہے۔ اپنی قلمیں منڈوا دیں، اپنی جیبیں اچھے سگاروں سے بھریں، اور آج
دوپہر تین بجے والڈورف کیفے میں مجھ سے ملیں۔“
مِیکس نے ایسا ہی کیا۔
وہ وہاں مُولنز سے ملا۔ انہوں نے شراب کی ایک بوتل منگوائی جبکہ جاسوس نے گمشدہ خاتون
کے متعلق سوالات کیے۔
مُولنز نے کہا، ”ایسا
ہے کہ نیو یارک ایک بڑا شہر ہے لیکن ہم جاسوسی کا کام منظم طریقے سے کرتے ہیں۔ آپ
کی بہن کو ڈھونڈنے کے دو طریقے ہیں۔ ہم پہلے ان میں سے ایک کو آزمائیں گے۔ آپ نے
کہا وہ باون برس کی ہیں؟“
”اس سے کچھ اوپر“،
مِیکس نے کہا۔
جاسوس نے اس مغربی کو
سب سے بڑے روزناموں میں سے ایک کی شاخ کے تشہیری دفتر پہنچایا۔ وہاں اس نے درج ذیل
’اشتہار‘ لکھا اور اسے مِیکس کو تھما دیا:
"ایک نئے نغمانی
طربیے کے لیے ایک سو پرکشش گانے والی لڑکیوں کے گروہ کی فوری ضرورت ہے۔ نمبر
براڈوے پر دن بھر درخواست دیں۔"
میکس ناراض تھا۔ اس نے
کہا، ”میری بہن ایک غریب، محنتی، بوڑھی عورت ہے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ اس قسم
کا اشتہار اسے ڈھونڈنے میں کیا مدد دے گا۔“
”ٹھیک ہے“، جاسوس نے
کہا۔ ”میرا خیال ہے کہ آپ نیویارک کو نہیں جانتے۔ لیکن اگر آپ کو اس منصوبے پر
کوئی اعتراض ہے تو ہم دوسرا منصوبہ آزما لیتے ہیں۔ مگر اس پہ یقیناً زیادہ خرچ آئے
گا.“
”اخراجات کی کوئی پرواہ
نہیں“، مِیکس نے کہا۔ ”ہم اسے آزمائیں گے۔“
سراغ رساں اسے واپس
والڈورف لے گیا۔ اس نے مشورہ دیا، ”دو سونے کے کمرے اور ایک بیٹھک بک کروائیں اور
آئیے چلتے ہیں۔“
یہ ہوگیا اور انہیں
چوتھی منزل باہم ملحقہ کمروں کا ایک شاندار سلسلہ دکھایا گیا۔ مِیکس پریشان لگ رہا
تھا۔ جاسوس مخمل کی ایک کرسی میں دھنس گیا، اور اپنا سگار کا ڈبہ نکال لیا۔ وہ
بولا، ”بڑے میاں میں تمہیں بتانا بھول گیا کہ تمہیں یہ کمرے ماہانہ بنیاد پر لینے
چاہئیں تھے۔ یوں وہ تم سے اتنی رقم نہ اینٹھ لیتے۔“
”ماہانہ بنیاد پر؟“
مِیکس حیران ہوا ”کیا مطلب؟“
”اوہ، اس طرح اس منصوبے
پر کام کرنے میں وقت لگے گا۔ میں نے بتایا تھا اس سے آپ کا زیادہ خرچہ ہوگا۔ ہمیں
بہار تک انتظار کرنا ہو گا۔ تب تک شہر کی نئی ڈائریکٹری آ چکی ہوگی۔ عین ممکن ہے
آپ کی بہن کا نام اور پتہ اس میں درج ہو۔“
مِیکس نے فوری طور پر
شہری جاسوس سے جان چھڑائی۔ اگلے دن کسی نے اسے نیو یارک کے مشہور نجی جاسوس شمروک
جولنیس سے ملنے کا مشورہ دیا جس کی فیس خاصی تگڑی تھی مگر وہ اسرار اور جرائم کو
حل کرنے میں معجزے دکھاتا تھا۔
اس بڑے جاسوس کے گھر کے
دالان میں دو گھنٹے انتظار کے بعد، مِیکس کی اس سے ملاقات کروائی گئی۔ جولنیس
ارغوانی رنگ کے ایک ڈھیلے ڈھالے چوغے میں ملبوس، ہاتھی دانت کی ایک جڑاؤ شطرنج کی
میز پر بیٹھا اپنے سامنے ایک میگزین رکھے، ’ان‘ کے اسرار کو حل کرنے کی کوشش کر
رہا تھا۔ مشہور جاسوس کا پتلا، دانشورانہ چہرہ، تیکھی آنکھیں اور فی لفظ کی شرح
اتنے مشہور ہیں کہ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
مِیکس نے اپنا مقصد
بیان کیا۔ شمروک جولنیس نے کہا، ”اگر میں کامیاب رہا تو میری فیس پانچ سو ڈالر
ہوگی۔“ مِیکس نے اس قیمت پر معاہدہ طے کیا۔ ”مسٹر میکس میں آپ کا معاملہ سنبھالوں
گا۔“ آخرکار جولنیس نے کہا، ”اس شہر میں لوگوں کی گمشدگی ہمیشہ میرے لیے ایک دلچسپ
مسئلہ رہی ہے۔ مجھے ایک کیس یاد ہے جسے میں نے ایک سال پہلے کامیابی سے حل کیا
تھا۔ کلارک نامی ایک خاندان ایک چھوٹے سے فلیٹ سے اچانک غائب ہوگیا جس میں وہ رہ
رہے تھے۔ میں نے سراغ کے لیے فلیٹ کی عمارت کو دو ماہ تک دیکھا۔ ایک دن اس بات نے
مجھے حیران کیا کہ ایک مخصوص گوالا اور ایک سودا لانے والا لڑکا اپنا سامان اوپر
لے جاتے ہوئے ہمیشہ پیچھے کی جانب چلتے تھے ۔ اس مشاہدے سے پیدا ہونے والے خیال کے
بعد میں نے فوراً اس لاپتہ خاندان کو تلاش کر لیا۔ وہ ہال کے اس پار فلیٹ میں
منتقل ہو گئے تھے اور اپنا نام کرالک رکھ دیا تھا۔ شمروک جولنیس اور اس کا مؤکل اس
کرائے کے فلیٹ میں گئے جہاں میری سنائیڈر رہتی رہی تھی اور جاسوس نے وہ کمرہ
دکھانے کو کہا جس میں وہ رہتی تھی۔ اس کی گمشدگی کے بعد سے یہاں کوئی کرایہ دار نہ
آیا تھا۔ کمرہ چھوٹا، گندا اور ناقص طریقے سے آراستہ تھا۔ مِیکس اداسی سے ٹوٹی
ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا جبکہ عظیم جاسوس نے سراغ کے لیے دیواروں، فرش اور پرانے،
خستہ حال فرنیچر کی تلاشی لی۔
آدھے گھنٹے کے اختتام
پر جولنیس بظاہر کچھ ناقابل فہم اشیاء جمع کر چکا تھا--ایک سستی سیاہ ٹوپی والی
پن، ایک تھیٹر پروگرام سے پھٹا ہوا ٹکڑا اور ایک چھوٹے سے کارڈ کا ایک سرا جس پر
لفظ "بائیں" اور "C12" کے حروف لکھے تھے۔
شمروک جولنیس اپنا سر
اپنے ہاتھ پر ٹکائے اور اپنے دانشورانہ چہرے پر محویت لیے دس منٹ تک کارنس پر جھکا
رہا۔ اس کے بعد وہ حرکت کرتے ہوئے چلّایا:
”آئیے مسٹر مِیکس مسئلہ
حل ہو گیا۔ میں آپ کو براہ راست اس گھر میں لے جا سکتا ہوں جہاں آپ کی بہن رہتی
ہے۔ اور آپ کو اس کی فلاح و بہبود کے بارے میں کوئی خوف نہیں ہوگا کیونکہ اسے کم
از کم موجودہ وقت کے لیے بھرپور طریقے سے فنڈ مہیا کیے گئے ہیں۔“
مِیکس نے خوشی اور تعجب
کو مساوی تناسب میں محسوس کیا۔ ”آپ نے یہ کیسے کیا؟“ اس نے تعریفی لہجے میں پوچھا۔
جولنیس کی واحد کمزوری شاید پیشہ ورانہ فخر تھی جس میں اس کی شاندار کامیابیوں کو
دخل تھا۔ وہ اپنے طریقے بیان کرکے اپنے سامعین کو حیران کرنے اور انہیں موہ لینے
کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔
ایک چھوٹی سی میز پر
اپنے سراغ پھیلاتے ہوئے جولنیس نے کہا، ”میں نے شہر کے کچھ حصوں کو نکالا جہاں مسز
سنائیڈر جا سکتی ہیں۔ کیا آپ یہ ٹوپی کی پن دیکھ رہے ہیں؟ یہ بروکلین کو فہرست سے
نکالتی ہے۔ کوئی بھی خاتون بروکلین کے پل پر اس بات کا یقین کیے بغیر کہ اس کے پاس
ایک ٹوپی کی پن ہے، جس سے وہ سیٹ پر جم کر بیٹھ سکتی ہے، گاڑی میں سوار ہونے کی
کوشش نہیں کرتی ۔اور اب میں آپ کو دکھاؤں گا کہ وہ ہارلم نہیں جا سکتی تھی۔ اس
دروازے کے پیچھے دیوار میں دو ہک ہیں۔ ان میں سے ایک پر مسز سنائیڈر نے اپنی ٹوپی
لٹکا رکھی ہے اور دوسری پر اپنی شال۔ آپ مشاہدہ کریں گے کہ لٹکی ہوئی شال کے نچلے
حصے نے آہستہ آہستہ پلستر کی ہوئی دیوار پر ایک مٹی کی لکیر بنادی ہے۔نشان واضح
ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ شال پر کوئی جھالر نہیں ہے۔ اب، کیا کبھی کوئی ایسا معاملہ
ہوا کہ ایک ادھیڑ عمر عورت شال اوڑھے ہارلم جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہوئی جبکہ
دروازے کو پکڑنے کے لیے اس کی شال پر کوئی جھالر یا کنارے نہ ہوں اور اس کے پیچھے
آنے والے مسافروں کو تاخیر ہوگئی ہو۔ لہذا ہم ہارلم کو فہرست سےنکالتے ہیں۔ اس لیے
میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ مسز سنائیڈر بہت دور منتقل نہیں ہوئی ہیں۔ کارڈ کے
اس پھٹے ہوئے ٹکڑے پر آپ کو لفظ "بائیں"، حرف "C" اور نمبر "12" نظر آتا ہے۔ اب میں جانتا ہوں کہ
نمبر 12 ایونیو ’سی‘ ایک اول درجے کا دارالاقامہ ہے جو آپ کی بہن کے وسائل سے بہت
دور ہے- جیسا کہ ہمیں اندازہ ہے۔ لیکن پھر مجھے تھیٹر پروگرام کا یہ عجیب و غریب
شکل میں مڑا ترا ٹکڑا ملا۔ اس سے کیا مطلب نکلتا ہے۔ جناب مِیکس عین ممکن ہے آپ کے
لیے یہ کوئی معنی نہ رکھتا ہو لیکن یہ اس شخص کو بہت کچھ بتا سکتا ہے جس کی عادات
اور تربیت میں چھوٹی سے چھوٹی باتوں کا علم رکھنا ہو۔ آپ نے مجھے بتایا کہ آپ کی
بہن رگڑائی ستھرائی کرنے والی خاتون تھیں۔ وہ دفاتر اور دالانوں کے فرش صاف کرتی
تھیں۔ فرض کریں انہیں ایسا ہی کام تھیٹر میں کرنے کے لیے ملا۔ مسٹر مِیکس، اکثر
قیمتی زیورات کہاں گم ہوتے ہیں؟ یقیناً تھیٹروں میں۔ پروگرام کے اس ٹکڑے کو دیکھیں
مسٹر مِیکس۔ اس میں گولائی کے تاثر کا مشاہدہ کریں۔ یہ کسی انگوٹھی کے گرد لپیٹا
گیا ہے۔ شاید کوئی قیمتی انگوٹھی۔ مسز سنائیڈر کو تھیٹر میں کام کے دوران یہ
انگوٹھی ملی۔ انہوں نے جلدی میں ایک پروگرام کا ٹکڑا پھاڑا، احتیاط سے انگوٹھی کو
لپیٹا اور اسے اپنے سینے میں اڑس لیا۔ اگلے دن انہوں نے اسے ہٹایا اور اپنے بڑھتے
ہوئے ذرائع کے ساتھ انہوں نے رہنے کے لیے ایک زیادہ آرام دہ جگہ کی تلاش کی۔ جب
میں اس سلسلے میں یہاں تک پہنچتا ہوں تو مجھے نمبر 12 ایونیو ’سی‘ کے بارے میں کچھ
ناممکن نہیں لگتا۔ مسٹر مِیکس ہمیں آپ کی بہن وہیں ملے گی۔شمروک جولنیس نے ایک
کامیاب فنکار کی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی قائل کرنے والی تقریر کا اختتام کیا۔ میکس
کے پاس تعریف کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ وہ دونوں نمبر 12 ایونیو ’سی‘ گئے۔ یہ ایک
خوشحال اور معزز محلے میں پرانی طرز کا بھورے پتھر سے بنا مکان تھا۔ انہوں نے
گھنٹی بجائی اور پوچھ گچھ پر انہیں پتہ چلا کہ مسز سنائیڈر کو وہاں کوئی نہیں
جانتا اور یہ کہ چھ ماہ سے کوئی نیا مکین اس گھر میں نہیں آیا تھا۔ جب وہ دوبارہ
فٹ پاتھ پر پہنچے تو مِیکس نے ان سراغوں کا جائزہ لیا جو وہ اپنی بہن کے پرانے
کمرے سے لایا تھا۔
”میں کوئی جاسوس نہیں
ہوں“ اس نے تھیٹر پروگرام کا ٹکڑا اپنی ناک تک لے جاتے ہوئے جولنیس کو کہا، ”لیکن
مجھے لگتا ہے اس کاغذ میں انگوٹھی لپیٹنے کی بجائے یہ پیپرمنٹ کی گولی تھی۔ اور یہ
ٹکڑا جس میں پتہ لکھا ہے، مجھے کسی سیٹ کوپن کا سرا لگتا ہے- نمبر 12، قطار ’سی‘،
بائیں جانب کا راستہ۔“
شمروک جولنیس کی آنکھوں
میں کسی دور اندیش کا سا تاثر تھا۔ ”میرا خیال ہے آپ کو جَگِنز سے مشورہ کرنا
چاہیے۔“ اس نے کہا۔
”جَگِنز کون ہے؟“ مِیکس
نے پوچھا۔
”وہ جاسوسوں کے ایک
جدید مکتب کا سربراہ ہے۔ ان کے طریقے ہمارے طریقوں سے مختلف ہیں لیکن کہتے ہیں
جَگِنز نے کچھ انتہائی پریشان کن معاملات حل کیے ہیں۔ میں آپ کو اس کے پاس لے جاؤں
گا۔“ جولنیس نے کہا۔
انہیں عظیم تر جَگِنز
اپنے دفتر میں ملا۔ وہ ہلکے بالوں والا ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا۔ وہ ناتھنیل
ہاتھورن کے متوسط طبقے کے کام کو پڑھنے میں مشغول تھا۔ مختلف مکاتب کے دو عظیم
جاسوسوں نے رسمی انداز میں مصافحہ کیا اور مِیکس کا تعارف کروایا گیا۔
”حقائق بیان کریں“
جَگِنز نے پڑھتے پڑھتے کہا۔
جب مِیکس رک گیا تو بڑے
جاسوس نے اپنی کتاب بند کی اور کہا: "کیا میں ٹھیک سمجھا ہوں کہ آپ کی بہن کی
عمر باون سال ہے، اس کی ناک کے ایک طرف ایک بڑا تل ہے اور یہ کہ وہ انتہائی سادہ
چہرے اور شخصیت والی، صفائی ستھرائی کر کے قلیل آمدن کمانے والی ایک بہت غریب بیوہ
ہے؟“
”وہ بالکل ایسی ہی ہے۔“
میکس نے اعتراف کیا۔ جَگِنز اٹھا اور اپنی ٹوپی پہنی۔ ”پندرہ منٹ میں میں اس کا
موجودہ پتہ لے کر واپس آتا ہوں“ اس نے کہا۔ شمروک جولنیس کا رنگ پیلا پڑ گیا لیکن
مجبوراً مسکرا دیا۔ مقررہ وقت کے اندر جَگِنز واپس آیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے
کاغذ کی ایک چھوٹی سی پرچی کو دیکھا۔
اس نے سکون سے اعلان
کیا، ”آپ کی بہن مریم سنائیڈر، چلٹن اسٹریٹ نمبر 162 میں ملیں گی۔ وہ پانچویں منزل
پر ایک پچھلے ہال کمرے میں رہ رہی ہیں۔ مکان یہاں سے صرف چار بلاک کے فاصلے پر
ہے۔“ اس نے مِیکس کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ ”میں ضرور یہ کہوں گا کہ
اگر آپ جاکر اس بیان کی تصدیق کریں اور پھر یہاں واپس آئیں تو مسٹر جولنیس آپ کا
انتظار کریں گے۔“
مِیکس تیزی سے چلا گیا۔
بیس منٹ بعد وہ چمکتے چہرے کے ساتھ واپس آیا۔ وہ چلّایا ”وہ وہیں ہے اور ٹھیک ہے۔
اپنی فیس بتائیں۔“
”دو ڈالر“، جَگِنز نے
کہا
جب مِیکس فیس کا معاملہ
نپٹا کر چلا گیا تو شمروک جولنیس اپنی ٹوپی اپنے ہاتھ میں پکڑے جگنز کے سامنے کھڑا
ہوا۔ ”اگر میں بہت زیادہ نہیں پوچھ رہا“ اس نے لڑکھڑاتے ہوئے کہا، ”کیا آپ مجھ پر
مزید احسان کریں گے؟ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟“
”یقینا نہیں“ جگنز نے
خوشگوار انداز میں کہا۔ ”میں آپ کو بتاتا ہوں میں نے یہ کیسے کیا۔ آپ کو مسز
سنائیڈر کی تفصیل یاد ہے؟
کیا آپ کو کبھی ایسی
کسی عورت کا پتہ چلا جو چاک سے بنی اپنی ہی بڑی تصویر کی قیمت ہفتہ وار قسطوں میں
ادا نہ کر رہی ہو؟
ملک میں اس قسم کی سب
سے بڑی فیکٹری بالکل کونے میں ہے۔ میں وہاں گیا اور کتابوں سے اس کا پتہ نکال لیا۔
اور بس۔“
Original Title :
The Sleuths
Written by:
William Sydney Porter (September 11, 1862 – June 5, 1910), better
known by his pen name O. Henry, was an American short story writer.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment