کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ : انکشافات (Revelations)

  عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 301 : انکشافات

تحریر : کیتھرائین مینسفیلڈ ( نیوزی لینڈ)

ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی ( نیوزی لینڈ)

 

 


مونیکاٹائرل (Monica Tyrell)کے لیے صبح کے آٹھ بجے سے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تک کا وقت بے حد تکلیف دہ ہوا کرتا تھا جب وہ اپنی اعصابی کمزوری سے پریشان رہتی تھی۔ایسا نہیں تھا کہ وہ اس پر قابو نہ پاسکتی تھی  (اس کے مطابق ) "شاید اگر وہ دس سال چھوٹی ہوتی………" اب چونکہ وہ تینتیس(۳۳) سال کی ہو چکی تھی ، جب بھی موقع ہوتا ، عجیب انداز میں اپنی عمر کا ذکر ضرور کردیا کرتی۔اکثر اپنے دوستوں کی طرف سنجیدہ اور بچکانہ نگاہوں سے دیکھ کر کہتی : " ہاں ، مجھے یاد ہے کیسے بیس سال پہلے …… " یا پھر رالف(Ralph) کی توجہ ان لڑکیوں کی طرف مرکوز کرواتے ہوئے جو اپنی خوبصورت بانہوں ، خوبصورت آواز اور ہچکچاتی حرکات کے ساتھ ہوٹل میں ان کے قریب بیٹھی ہوتیں۔ " شاید اگر میں دس سال چھوٹی ہوتی…… "

"تم ،کیوں نہیں ، میری(Marie) کو اپنے کمرے کے باہر تعینات کردیتیں ، تاکہ وہ ہر آنے والے کو روکے اور اس وقت تک کمرے کے اندر داخل نہ ہونے دے جب تک کہ تم گھنٹی بجا کر اجازت نہ دے دو؟"

" کاش یہ سب اتنا آسان ہوتا !" اس نے دستانے نکال کر پھینکے اور اپنی انگلیوں سے آنکھوں کو سہلانے لگی۔ "اول تو یہ کہ ہر دم مجھے یہ احساس رہے گا کہ میری باہر بیٹھی ، روڈ (Rudd) اور مسز مون (Mrs. Moon) پر نظر رکھ رہی ہے۔دراصل میری ذہنی مریضوں کے لیے جیل کی نگراں اور نرس کے ملے جلے کردار کی مالک ہے۔اور پھر ڈاک آجاتی ہے۔اور جب ایک بار ڈاک آجائے تو پھر کون خطوط کو پڑھنے کے لیے گیارہ بجنے کا انتظار کرتا ؟"

اس کی آنکھیں چمک اٹھیں : اس نے فوری مونیکا کو آغوش میں لیتے ہوے کہا ،" میرے خطوط، عزیزہ ؟"

" شاید"، اس نے آہستہ سے ہکلاتے ہوے کہا ، اور مسکراتے ہوے اس کے سرخ بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچنے لگی : "یا خدا ! کیسی بیوقوفی کی بات ہے !"

لیکن آج صبح وہ نیند سے اس وقت جاگی جب سامنے کے دروازہ کے زور سےبند ہونے کی آواز آئی۔ پورا فلیٹ جیسے لڑکھڑا گیا۔ کیا تھا یہ؟ وہ ایک جھٹکے سے لحاف کو مضبوطی سے پکڑ تے ہوئے بستر پر اچھل پڑی۔اس کا دل دھڑکنے لگا۔کیا ہوسکتا تھا یہ؟ پھر اسے راہداری میں آوازیں سنائی دیں۔میری نے دستک دی اور جیسے ہی دروازہ کھلا ، تیز پھاڑتی ہوئی آواز کے ساتھ چلمن اور پردے اڑنے لگے۔۔۔ ایک دوسرے میں الجھتے ہوئے، جھٹکتے ہوئے۔چلمن کے لٹکن کھڑکی سے ٹکرانے لگے۔میری کشتی نیچے رکھتے ہوے چیختی ہوئی بھاگی " وہ دیکھیں ! ، یہ ہوائیں ہیں میڈم ، یہ بے قابو ہوائیں ہیں۔"

چلمن کو اوپر موڑتے ہی کھڑکی ایک جھٹکےسے اوپر چلی گئی اور کمرہ سرمئی مائل سفید روشنی سے بھر گیا۔میری نے وسیع اور بے رنگ آسمان کی ایک جھلک دیکھی اور دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا کسی پھٹی ہوئی قمیض کی طرح گھسٹتا ہوا چلا جا رہا تھا ، اس سے پہلے کہ وہ اپنی آستین سے اپنی آنکھیں بند کرتی۔

میری ! پردے ! جلدی کرو ، پردے !” مونیکا واپس بستر پر گر پڑی۔اور تب ہی " رنگ ۔ رنگ ، پنگ ۔ پنگ ، رنگ ۔ ٹنگ ، پنگ ۔ پنگ" ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے لگی۔اس کی تکلیف کم ہونے لگی تھی ، جس کی وجہ سے وہ قدرے پر سکون دکھائی دے رہی تھی۔"میری ، دیکھو کس کا فون ہے؟"

"صاحب کا فون ہے ۔ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا آپ ان کے ساتھ آج دیڑھ بجے پرینسس(Princess)میں لنچ کے لیے آئینگی ؟" ہاں ، وہ صاحب کا ہی فون تھا۔وہ چاہتے تھے کہ ان کا پیغام فوری میڈم تک پہنچا دیا جائے۔ جواب دینے کی بجائے، مونیکا نے کپ نیچے رکھا اور حیرت زدہ آواز میں میری سے وقت پوچھا۔اس وقت ساڑھے نو بجے تھے۔وہ ابھی بھی ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ ساکت بیٹھی رہی۔" صاحب سے کہہ دینا کہ میں نہیں آسکتی ۔"اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ لیکن جیسے ہی دروازہ بند ہوا ، غصہ کے طوفان نے اسے چاروں طرف سے گھیرلیا۔اس نے کیسے ہمت کی؟ رالف(Ralph) کی کیسے ہمت ہوئی یہ کہنے کی ، جب کہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ صبح کے وقت میری اعصابی کیفیت کتنی تکلیف دہ ہوتی تھی۔ کیا اس نے بتایا نہیں تھا ، اگرچہ کہ ڈھکے انداز میں ، کیونکہ وہ رالف تو یہ سب کہہ نہیں سکتی تھی۔اسے سمجھ جانا چاہیے تھا کہ وہ ایک ناقابل معافی عمل تھا۔

اور پھر وہ بھی اس خوفناک تیز ہواؤں والی صبح۔ وہ آخر کیا سوچتا تھا؟ کیا وہ مونیکا کا وقتی جنون تھا ، ایک نسوانی حماقت جسے ہنسی میں اڑادیا جاسکتا تھا ؟ آخر کیوں ؟ جبکہ گذشتہ رات ہی اس نے ریلف سے کہا تھا: " صرف تم میرے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہو ۔" اور اس نے جواب دیا تھا: " میری پیاری ، تم شائد یقین نہ کرو ، لیکن میں لامحدود طور پر تم سے بہتر تمھیں جانتا ہوں۔تمھارا ہر نازک خیال ، اور احساس میرے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں۔ تم ہنسنے لگے تھے۔ اور مجھے تمھارے ہونٹوں کی شکل سے پیار ہو گیا ۔" -- اور پھر وہ میز پر جھک گیا تھا --- "مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ کون کیا دیکھتا ہے ، میں دل کی اتہا گہرائیوں سے تمھیں چاہتا ہوں۔ میں تو پہاڑوں کی چوٹی پر تمھارے ساتھ ہونا چاہتا ہوں جہاں ساری دنیا کی سرچ لائٹیں تم پر مرکوز کردوں۔"

" یا خدا !" مونیکا نے اپنا سر تھام لیا۔کیا یہ ممکن تھا کہ اسی نے یہ ساری باتیں کہی تھیں؟ کتنے ناقابل بھروسہ ہوتے ہیں یہ مرد ! اور مونیکا نے ایسے مرد سے محبت کی۔آخر وہ کیسے ایسے مرد سے محبت کر سکتی تھی جو اس طرح کی باتیں کیا کرتا تھا؟ کئی مہینوں پہلے ہوئی ڈنر پارٹی کے بعد سے اب تک وہ کیا کرتی رہی تھی ، جب اس نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ دوبارہ آسکتا تھا اس کی"دھیمی سی عریبین (Arabian) مسکراہٹ دیکھنے کے لیے ؟" اُف ، کتنی بڑی بیوقوفی __ انتہائی درجہ کی ناسمجھی __ اور پھر اس وقت ، زندگی میں پہلی مرتبہ اسے ایک عجیب سا سنسنی خیز احساس ہوا۔

" کوئلہ ! کوئلہ ! کوئلہ ! پرانا لوہا ! پرانا لوہا ! " نیچے سے آوازیں آنے لگی تھیں۔سب کچھ ختم ہو گیا۔کیا وہ سمجھ پایا تھا اسے ؟ وہ کچھ بھی تو نہیں سمجھ پایا تھا۔اس طوفانی صبح فون کی گھنٹی کا بجنا اس کے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔کیا وہ سمجھ پایا تھا ؟ وہ تو بس ہنس ہی سکتی تھی۔ "تم نے اُس وقت مجھے فون کیا ، جب کوئی مجھے سمجھنے والا شخص کبھی نہ کرتا ۔" اب سب ختم ہو گیا تھا۔اور جب میری نے کہا ، "صاحب نے جواب دیا کہ وہ داخلی ورانڈے میں ان کا انتظار کرینگے ، ہو سکتا ہے کہ میڈم اپنا ذہن بدل دیں۔ " مونیکا نے کہا : " وربینا (Verbena ) کے پھول نہیں چاہیے بلکہ میری، کارنیشن ( Carnations) کے پھول ، بہت سارے۔"

وہ ایک ، تیز اور تند ہواؤں کے ساتھ خطرناک برفیلی صبح تھی۔ مونیکا ، بے رنگ اور زرد چہرہ لیے ، آئینہ کے سامنے بیٹھی تھی۔ملازمہ اس کے بال سنوار رہی تھی--- سارے بال پیچھے کردیے --- بڑی بڑی آنکھوں اور کہرے سرخ ہونٹوں کے ساتھ اس کا چہرہ ماسک کی طرح لگ رہا تھا۔جیسے ہی اس نے آئینہ میں خود کو دیکھا ، تو ایک بے حد انجانے احساس نے ، غیرمعمولی جوش نے اسے آہستہ آہستہ گھیرنا شروع کیا ، یہاں تک کہ اس نے چاہا کہ دونوں ہاتھ پھیلا کر قہقہے لگائے ، ہر چیز تتر بتر کردے۔ میری کو حیرانی میں ڈالتے ہوے چیخنے لگی : " میں آزاد ہوں ، میں آزاد ہوں ، میں ہواؤں کی طرح آزاد ہوں ۔" اس وقت یہ ارتعاش ، یہ لرزنا ، یہ جوش ، یہ ہواؤں میں اڑتی دنیا صرف اس کی تھی۔ اس کی مملکت تھی۔اس کا تعلق کسی سے نہیں بلکہ صرف زندگی سے تھا۔

" ایسے ہی ہوگا ، میری ،" اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ "میری ٹوپی ، میرا کوٹ اور میرا بیگ لا دو اور ٹیکسی بھی بلوا دو۔" آخر وہ جا کہاں رہی تھی؟ شاید کہیں بھی۔اس خاموش آسیب زدہ ، نسوانی سجاوٹ سے مزئین گھر میں ، بے زبان میری کے ساتھ کب تک رہ سکتی تھی۔اسے اس ماحول سے باہر نکلنا ہوگا ؛ جلدی جانا چاہیے ۔۔۔ کہیں بھی ، کہیں بھی۔

" ٹیکسی آگئی ہے ، میڈم ۔" جیسے ہی اس نے صدر دروازہ کھولا ، تیز ہوا کے جھونکے کے زور سے وہ فٹ پاتھ پر بہتی چلی گئی۔کہاں جانا ؟ اس نے اپنے حواس ٹھیک کیے اور مسکراتے ہوے ڈرائیور کے جذبات سے عاری چہرہ کی طرف دیکھتے ہوئےکہا کہ انھیں ہئیر ڈریسر (Hairdresser) کے یہاں لے جائیں۔وہ اپنے ہئیر ڈریسر کے بغیر کیا کر سکتی تھی ؟ جب کبھی مونیکا کو کہیں جانا نہیں ہوتا یا کچھ کرنے کے لیے نہیں ہوتا تو وہ وہیں چلی جایا کرتی تھی۔ بالوں کو لہریے بناتے ہوئے وہ کوئی منصوبہ بنا لے گی۔ڈرائیور بے حد تیز رفتار سے کار چلا رہا تھا ، جس کی وجہ سے وہ بار بار ایک طرف سے دوسری طرف لڑھکتی رہی۔لیکن وہ تو چاہ رہی تھی کہ وہ مزید تیز کرتا رہے رفتار کو۔پرینسیس(Princes ) سے دیڑھ بجے ، بال سنوارنے کے بعد ، ہنس کے پروں سے بنی ٹوکری میں بیٹھی کسی عربی بلی کی طرح ، کسی سنجیدہ اور مسرور بچے کی طرح ، کسی معصوم مخلوق کی طرح ……" پھر کبھی نہیں ،" مٹھیوں کو بھینچ کر چیخ اٹھی۔ لیکن ٹیکسی رک چکی تھی۔اور ڈرائیور دروازہ کھولے اس کے باہر نکلنے کا منتظر تھا۔

ہئیر ڈریسر کی دوکان کافی گرمائی ہوئی اور منور تھی۔صابن اور جلے ہوے کاغذوں کی بو کے ساتھ وہاں دیوار کے پھولوں کی ( سرخ پھولوں کی بیلیں جو پرانی دیواروں پر اگ جاتی ہیں) ، اور بالوں میں لگانے والے خوشبودار روغن کی خوشبو بھی پھیلی ہوئی تھی۔کاؤنٹر کے پیچھے ایک بےحد موٹی ، سفید فام خاتون ، سر پر بالوں کو پف کی طرح بناے ___ جیسے کا لے سیٹن کے ٹکڑے پر پاؤڈر لگانے والا پف سجا دیا گیا ہو۔ مونیکا کو ایک احساس تھا کہ اس دوکان کے لوگ اسے پسند کرتے تھے ، اسے سمجھتے تھے ___ ایک حقیقی وجود ___ اس کے کئی دوستوں سے زیادہ جو اس بات کا دعویٰ کرتے تھے۔ مونیکا اپنا ایک حقیقی وجود رکھتی تھی۔ وہ میڈم کے ساتھ اکثر گفتگو کیا کرتی ، گو کہ بالکل اجنبیوں کی طرح ۔ دوسرا شخص جسے وہ پسند کرتی تھی ، وہ تھا جارج ، جوان ، سیاہ فام ، پتلا سا ۔۔۔ اس کے بال بنانے والا۔

لیکن آج ۔۔۔۔ عجیب بات تھی ! میڈم نے ٹھیک طرح بات نہیں کی۔ان کا سفید چہرہ پھیکا پڑ چکا تھا ، نیلی آنکھوں کے اطراف سرخ دائرےدکھائی دے رہے تھے ، موٹی موٹی انگلیوں میں سجی انگوٹھیاں کانچ کے بے جان ٹکڑوں کی طرح مدھم دکھائی دے رہی تھیں۔جب اس نے دیوار پر لگے فون سے جارج سے رابطہ کیا تو اس کی آواز میں عجیب سا انداز تھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ لیکن مونیکا اس صورتحال پر یقین کرنے کے لیے

ہرگز تیار نہیں تھی۔وہ انکار کر رہی تھی۔لیکن یہ سب اس کا تخیل تھا۔اس نے بے صبری سے وہاں کی گرم ،خوشبودار ہوا کو سونگھا اور مخمل کے پردے کو ہٹا کر چھوٹے سے حجرے(cubicle ۔ اُطاقچہ) میں داخل ہوگئی۔

اس نے اپنی ٹوپی اور کوٹ نکال کر کھونٹی پر لٹکا دیا۔لیکن ابھی تک جارج کا کوئی پتہ نہیں تھا۔پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ جارج اس کی کرسی کو پکڑ کر کھڑا نہیں تھا ، اس کی ٹوپی کو کھونٹی سے لٹکانے کے لیے وہاں نہیں تھا ، یا اس کا بیگ اپنی انگلیوں میں گھمانے کے لیے جیسے ایسی کوئی چیز اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو ___ جیسے پریوں کی دنیا کی کوئی چیز ہو۔لیکن دوکان میں یہ غیر معمولی خاموشی کیسی تھی ! میڈم کی بھی کوئی آواز نہیں تھی۔ صرف زوروں کی ہوائیں چل رہی تھیں جس کی وجہ سے پرانی عمارت ڈگمگانے لگی تھی۔اور ان خواتین کی تصویریں جن کے با لوں کے اسٹائیل کی وجہ دیوار پر لگی تھیں ، جھک کر نیچے چالاک اور عیار مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہی تھیں۔اس ماحول کو دیکھ کر مونیکا سوچنے لگی کہ اسے وہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔بڑی جان لیوا غلطی کی تھی اس نے۔ جارج کہاں تھا؟ اگر وہ ابھی نہ آے تو وہ اگلے ہی لمحہ وہاں سے نکل جائیگی۔اس نے خود کو دیکھے بغیر ، چوغہ اتار دیا۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے کانچ کے خانہ سے کریم کا ڈبہ اٹھا کر کھولا تو اس نے محسوس کیا اس کے دل کو جیسے جھٹکا لگا ہو۔ شاید اس کی خوشی ۔۔۔اس کی حیرت انگیز خوشی ۔۔۔آزادی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

"میں اب یہاں نہیں رکوں گی، چلی جاوٰں گی۔" اس نے اپنی ٹوپی اٹھائی اور اسی وقت قدموں کی آواز سنائی دی۔ مونیکا نے آئینہ میں دیکھا کہ جارج سر جھکائے داخل ہورہا تھا۔عجیب سی گستاخانہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔وہ فوری پلٹی اور دیکھا کہ اس کی مسکراہٹ کھسیانی ہنسی میں تبدیل ہو چکی تھی۔لگتا تھا تازہ تازہ شیو کیا ہوا تھا۔

"معذرت چاہتا ہوں ، آپ کو انتظار کرنا پڑا۔" کچھ پھسلتے ہوئے ، کچھ لڑکھڑاتے ہوے آگے بڑھتے ہوے جارج نے آہستہ سے کہا۔

لیکن مونیکا تو رکنے والی نہیں تھی۔ لہٰذا اس نے کہنا شروع کیا ، “ مجھے ڈر ہے ۔” لیکن جارج نے گیس جلادی اور چمٹا (tongs) گرم ہونے کے لیے رکھ دیا۔اور چوغہ لیکر انتظار کرنے لگا۔

"ہوائیں چل رہی ہیں۔" جارج نے بتایا اور مونیکا نے اس کی بات پر یقین کیا۔مونیکا نےجارج کی تازہ انگلیوں کا لمس اپنی ٹھوڑی کے نیچے محسوس کیا جب وہ چوغہ کو گردن کے پاس پِن لگا رہا تھا۔اور کرسی میں دھنستے ہوئے اس نے کہا، "ہاں باہر ہوائیں بہت تیز ہیں ۔" پھر خاموشی چھا گئی۔جارج نے ایک ماہر ہیر ڈریسر کی طرح اسکے بالوں سے ساری پنس نکالی۔ بال اس کی پیٹھ پر گر پڑے لیکن ہمیشہ کی طرح اس نے ان خوبصورت ، نرم اور وزنی بالوں کو نہیں سنبھالا۔اور نہ ہی وہ جملہ دہرایا ،" بہت خوبصورتی سے سنبھالے ہوئے۔" اس نے ایسے ہی بالوں کو نیچے گرنے دیا، اور ، دراز سے برش نکالنے لگا ۔ پھر وہ بدحواسی کے ساتھ کھانسنے لگا ، پھر گلا صاف کیا اور کمزور آواز میں کہا ، " یہ تو کچھ زیادہ سخت ہے ، یا یہ کہ تھا۔"

مونیکا کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔اس کے ہاتھ سےبرش بالوں پر گرگیا۔کتنا غمگین موقعہ تھا۔ پہلے تو وہ پتوں کی طرح ہلکے سے اور تیزی سے گرا اور پھر بوجھ کی طرح اس کے دل کو کھینچنے لگا۔" بس ، کافی ہے ،" مونیکا نے چیختے ہوے خود کو آزاد کر لیا۔

جارجنے گھبرا کر پوچھا ،" کیا کچھ زیادہ تکلیف تو نہیں ہوئی؟" وہ جھک کر چمٹے کو دیکھنے لگا۔ "معذرت چاہتا ہوں۔" تب ہی کاغذوں کے جلنے کی بو آنے لگی جو مونیکا کو بے حد پسند تھی۔اور وہ گرم چمٹے کو گھماتے ہوے باہر دیکھ کر کہنے لگا ، " شاید بارش ہوگی۔" پھر اس نے مونیکا کے بالوں کی ایک لٹ لیکر اسے بنانا چاہا تو اس نے فوری اسے روک دیا کہ وہ اس سے زیادہ برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ وہ جارج کی طرف دیکھنے لگی ۔۔ سفید چوغہ میں کسی راہبہ کی طرح۔ "کیا کوئی پریشانی کی بات ہے یہاں ؟ کچھ ہوا ہے کیا؟" لیکن جارج نے بے اطمینانی سے کندھے اچکائے اور منہ بنا کر جواب دیا ، " نہیں ، نہیں میڈم۔ صرف ایک چھوٹی سی واردات۔" اور پھر وہ دوبارہ اس کے بالوں کی لٹ ہاتھ میں لی۔ لیکن مونیکا تو بالکل بھی تیار نہیں تھی۔وہاں کچھ بہت ہی خوفناک واقعہ وقوع پزیر ہوا تھا۔خاموشی ___ خاموشی جیسے برف کے چھوٹے چھوٹے بہتے ہوئے گولے نیچے گر رہے ہوں۔حجرے کے اندرسردی سے مونیکا پر کپکپی چھا گئی ___ وہاں ہر طرف سردی اور روشنی چھائی رہتی تھی۔نکّل ( سفید دھات) کے بنے نلکے ، فوارے اور پانی چھڑکنے کے آلات ( sprays) ، سب ہلاکت خیزی کی نشانیاں لگتی تھیں۔ہواؤں سے کھڑکیوں کے دروازے چوکھٹوں سے ٹکرانے لگے ، ایک لوہے کا ٹکڑا کہیں سے ٹوٹ کر آ گرا۔جارجاس کے اوپر سے جھک کر چمٹے کو بدلنے لگا۔مونیکا سوچنے لگی ، ہائے ، کتنی خوفناک تھی زندگی۔تنہائی کتنی بھیانک ہوتی ہے۔زندگی کی ہوا کے ساتھ ہم بھی پتوں کی طرح گھومتے رہتے ہیں ، کوئی نہیں جانتا ، کسی کو پرواہ نہیں کہ ہم کہاں جا کر گرینگے اور کس اندھی ندی میں بہتے چلے جائینگے۔احساسات کا بوجھ گلے پر بڑھنے لگا جس سے درد ہونے لگا۔اس نے چیخنا چاہا، "بس ٹھیک ہے۔" اس نے صرف سرگوشی کی۔ " مجھے پنیں دے دیں۔" اور جارج ایک اطاعت گذار کی طرح خاموش اس کے بازو کھڑا تھا۔ اچانک ہی اس نے ہاتھ چھوڑ دیے اور سسکیاں لینے لگی۔اب حالات اس کی قوت برداشت سے باہر ہو چلے تھے۔کاٹھ کے بنے آدمی کی طرح جارج نے آہستہ سے سرکتے ہوئے اس کا ہیٹ ، اور نقاب اسے دے دیے۔اس نے مونیکا سے نوٹ لیے اور بقیہ اسے واپس کردیے جو اس نے اپنے بیگ میں ڈال دیے۔اب وہ کہاں جا رہی تھی؟

جارجنے برش اٹھا کر دھیمی آواز میں کہا ،" تمھارے کوٹ پر کچھ پاؤڈر گرا ہے ،" اور اسے صاف کردیا۔اور پھر اچانکمونیکا کی طرف دیکھ کر برش کو ہوا میں لہراتے ہوے کہنے لگا : "میڈم ، آپ چونکہ میری پرانی گاہک ہیں ، اس لیے سچ بتاتا ہوں ۔۔۔ میری چھوٹی سی بیٹی ، میری پہلی اولاد ، آج صبح اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔ “ اور اس کا سفید چہرہ مرجھا گیا اور وہ مڑ کر مونیکا کے چوغہ کو برش سے صاف کرنے لگا۔" اوہ ، اوہ،" مونیکا رونے لگی۔ وہ بھاگ کر ٹیکسی میں جا بیٹھی۔ غصہ میں بھرا ڈرائیور کود کر کار سے باہر آیا ، دروازہ زور سے بند کیا ، " کہاں جانا ہے ؟"

پرینسس (Princes)،سسکتے ہوئے مونیکا نے بتایا۔سارا راستہ اسے اگر کچھ دکھائی دے رہا تھا تو بس ایک چھوٹی سی ، سنہرے بالوں والی ، نیک ، موم کی گڑیا جس کے ننھے ننھے ہاتھ اور پیر ایک دوسرے پر ڈالے پرسکون لیٹی تھی۔ اچانک راستہ میںمونیکا کو پھولوں کی دوکان دکھائی دی ، جو سفید پھولوں سے بھری پڑی تھی۔وادی سے لائے گئے سفید للی کے پھول ، سفید بنفشہ کے پھول ، دوہرے سفید بنفشہ کے پھول سفید مخملی فیتہ سے بندھے ۔۔۔ ایک بہترین خیال اس کے ذہن میں کوندا ۔سفید پھولوں کا گلدستہ ، ایک انجان دوست کی طرف سے۔ ایک ایسا دوست جو سمجھتا ہے ۔۔۔ ایک ننھی بچی کے لیے ۔۔۔ مونیکا نے ہلکے سے کھڑکی کے شیشے پر دستک دی ، لیکن ڈرائیور نے سنا نہیں اور وہ پرینسس پہنچ چکے تھے۔

 

 

Original Title: Revelations

Written by:

Katherine Mansfield (Newzealand: 14 October 1888 – 9 January 1923) 

 

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

 

 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق