اوہنری کا افسانہ : کھوٹا سکّہ (One dollar's worth)
عالمی
ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 161 :
کھوٹا سکّہ
تحریر: او ہنری
(امریکہ)
مترجم: رومانیہ نور
(ملتان، پاکستان)
ریاستہائے متحدہ امریکہ
کی ضلعی عدالت کے جج نے رِیو گرینڈ ( امریکہ کا ایک مرکزی دریا) کے کنارے لیٹے
ہوئے ایک صبح اپنی ڈاک میں مندرجہ ذیل مراسلہ وصول کیا۔
''جج صاحب!
جب تم نے مجھے چار
سالوں کے لئے جیل میں بھیجا تھا تو تم نے مجھے ایک بات کہی تھی۔ دیگر تلخ باتوں کے
ساتھ تم نے مجھے چکّی سانپ ( امریکہ میں پایا جانے والا سانپ جس کی دم سے آواز
نکلتی ہے) کہا تھا۔ ہو سکتا۔ہے میں ان سے ایک ہوں۔ بہر حال اب تم میری پھنکار
سننا۔ میری بیٹی مر گئی۔۔۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں کہ غربت اور ذلت نے مل کر اسے مار دیا۔
جج صاحب تمھاری بھی ایک بیٹی ہے۔ میں تمھیں بتاؤں گا کہ کسی اپنے کو کھونے کا
احساس کیا ہوتا ہے۔ اور میں اس ضلعی سرکاری وکیل کو بھی ڈسوں گا جو میرے خلاف بولا
تھا۔ اب میں آزاد ہوں۔ اور میرا گمان ہے کہ میں مکمل طور پر چکی سانپ کے روپ میں
ڈھل چکا ہوں۔ میں بالکل اسی کی طرح محسوس کرتا ہوں۔ میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا بس
میری پھنکار سن لو۔ اور دھیان رکھنا کہ میں تمھیں کب ڈستا ہوں۔
'' تمھارا ادب گزار چکی
سانپ''
جج ڈروینٹ نے خط کو لا
پروائی سے ایک طرف اچھال دیا۔ سزا یافتہ مجرموں کی جانب سے ایسی دھمکیوں کا موصول
ہونا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ اس نے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کیا۔ چونکہ جج
اپنے تعلقات میں باریک بیں تھا سو بعد ازاں اس نے خط نوجوان سرکاری وکیل لٹل فِیلڈ
کو بھی دکھایا جس کا نام دھمکی میں شامل تھا۔
لٹل فیلڈ نے استہزائیہ
ہنسی کے ساتھ خط کو دیکھا۔ لیکن جج کی بیٹی کے ذکر پر اس نے بھنوئیں چڑھائیں۔
کیونکہ وہ اور نینسی ڈروینٹ اس موسمِ خزاں میں شادی کرنے والے تھے۔
لٹل فیلڈ عدالت میں
کلرک کے پاس گیا اور تمام ریکارڈ کی چھان بین کی۔ انھوں نے اندازہ لگایا کہ خط
میکسیکو سیم نے بھیجا ہے جو دوغلی نسل کا ایک بے باک مجرم تھا اور جس کو قتلِ عمد
پر چار سال پہلے سزا ہوئی تھی۔ سرکاری فرائض کے اژدھام میں معاملہ اس کے ذہن سے
اتر گیا۔ اور منتقم مزاج سانپ کی پھنکار کو بھلا دیا گیا۔
براؤنز وِل میں عدالتی
کاروائی جاری تھی۔ زیادہ تر مقدمات سمگلنگ، جعل سازی، ڈاکخانہ ڈکیتی اور سرحد پر
وفاقی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات سے متعلق تھے۔ ایک مقدمہ میکسیکن نوجوان
رافیل اورٹِز کا بھی تھا جس کو ایک ہوشیار ڈپٹی مارشل نے جعلی ڈالر کا سکہ چلاتے
ہوئے گرفتار کیا تھا۔ اس کی سابقہ ایمانداری اور راست بازی مشکوک ہو گئی تھی۔ مگر
یہ اس پر لگنے والا پہلا ثابت شدہ الزام تھا۔اورٹز مخمور اور مطمئین انداز میں
سگریٹ پیتا ہوا ٹرائل کے انتظار میں جیل چلا گیا۔
کِلپَیٹرک ضلعی سرکاری
وکیل کے عدالتی دفتر میں سکہ لے کر آیا اور اس کےحوالے کر دیا۔ ڈپٹی اور معزز
دواساز حلفیہ بیان دینے کے لئے تیار تھے کہ یہ سکہ ایک دوا کی شیشی کی قیمت کے طور
پر ادا کیا گیا۔
سیسے سے بنا ہوا سکہ
ایک گھٹیا نقل تھی۔ اس کی شکل و صورت بد نما اور مدھم تھی۔ ضلعی سرکاری وکیل کل
صبح کے عدالتی مقدمات کی فہرست کی تیاری میں مشغول تھا جس میں اورٹز کا مقدمہ بھی
زیرِ سماعت ہونا تھا۔
'' سکے کی قدر و قیمت
کی پرکھ کے لئے مہنگے ماہرین کی ضرورت نہیں ہے۔کِل کیا اس کی ضرورت ہے؟ ''اس نے
دھپا مار کر سکہ میز پر گرا دیا۔ اس میں سے کسی لئی سے بنی چیز سے زیادہ جھنکار بر
آمد نہ ہوئی۔
''میرا خیال ہے کہ یہ
گریسر(میکسیکن کے لئے تحقیر آمیز خطاب) سلاخوں کے پیچھے ہی ٹھیک ہے۔ '' ڈپٹی نے
ہولسٹر کو سہل کرتے ہوئے کہا۔ ''تم نے اسے بے بس کر دیا ہے۔اگر محض ایک بار ایسا
ہوا ہوتا تو یہ میکسیکن غلط طریقے سے اتنی آمدن نہ بنا سکتے۔میں جانتا ہوں یہ کالا
بدمعاش جعل سازوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ میں نے
چالاکی کرتے ہوئے اسے پکڑا ہے۔ دریا کنارے میکسیکن جھگیوں میں اس کی محبوبہ رہتی
ہے۔ جب میں اس کی نگرانی کر رہا تھا تو ایک دن اسے دیکھا تھا۔ وہ اپنی شہابی رنگت
کے باعث بہت خوب صورت ہے۔''
لٹل فیلڈ نے سکہ جیب
میں ڈالا اور مقدمے سے متعلقہ میمورنڈم لفافے میں کھسکایا۔ تبھی ایک روشن، دلکش
اورکسی معصوم بچے کے جیسا بے تکلف اور خوش مزاج چہرہ دروازے میں نمودار ہوا۔ نینسی
ڈروینٹ کمرے میں داخل ہوئی۔
''اوہ باب 12 بج گئے
ہیں کیا عدالت ابھی تک کل تک کے لئے مؤخّر نہیں ہوئی؟'' وہ لٹل فیلڈ سے مخاطب
ہوئی۔ ''
''یہ بند ہو گئی ہے۔''
سرکاری وکیل نے کہا۔ '' اور میں اس بات پر خوش ہوں کہ مجھے بہت سے فیصلوں کی دیکھ
بھال کرنی ہے۔اور۔۔۔۔۔۔
''بس اب آگئے نا اپنی
اوقات پر! میں حیران ہوں کہ تم اور بابا کبھی بھی قانون کی کتاب بند نہیں کرتے۔
میں آج شام مرغِ باراں کے شکار کے لئے تمھیں ساتھ لے کر جانا چاہتی ہوں۔مرغزار
انھیں کے دم سے آباد ہے۔ براہِ مہربانی نہ مت کہنا۔ میں اپنی بنا گھوڑے کی نئی
بارہ بور بندوق کو آزمانا چاہتی ہوں۔''
میں نے اصطبل کے ملازم
کو کہا ہے کہ وہ'' فلائی'' اور ''بَیس'' ( گھوڑوں کے نام) کو رَتھ میں جوتے۔ وہ
گولیوں سے بِدکتے نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تم ضرور جاؤ گے''
وہ اس خزاں میں شادی
کرنے والے تھے۔ سِحر اپنے عروج پر تھا۔ مرغِ باراں کا شکار قانونی ذمہ داریوں پر
حاوی ہو گیا۔لٹل فیلڈ نے کاغذات سمیٹنا شروع کر دیے۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
کِلپیٹرک نے جواب دیا۔ ایک خوبصورت سیاہ آنکھوں اور مرجھائی ہوئی رنگت کی لڑکی
کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے سر پر ایک کالی شال ڈالی ہوئی تھی جو اس کے گلے کے گرد
لپٹی ہوئی تھی۔
وہ غمزدہ اور دکھی
انداز میں روانی سے سپینی زبان میں بات کرنے لگی۔ لٹل فیلڈ سپینی زبان نہیں جانتا
تھا۔ ڈپٹی جانتا تھا۔ اس نے حصے بخروں میں لڑکی کی بات کی ترجمانی کی۔
'' وہ آپ سے ملنے آئی
ہے لٹل فیلڈ۔ اس کا نام جویا ٹریویناس ہے۔ وہ رافیل کے متعلق آپ سے ملنا چاہتی ہے۔
وہ رافیل کی
ساتھی اور محبوبہ ہے۔
وہ کہتی ہے کہ رافیل بے قصور ہے۔ وہ جعلی سکہ اس کا تھا جو رافیل کے ذریعےچلوایا۔
مسٹر لٹل فیلڈ اس کی بات کا یقین نہ کرنا۔ ان میکسیکن لڑکیوں کا یہی طریقۂ واردات
ہوتا ہے۔ جب یہ اپنے ساتھی سے ناطہ جوڑتی ہیں تو اس کی خاطر چوری اور قتل سے بھی
گریز نہیں کرتیں۔ محبت میں مبتلا کسی عورت کا کبھی یقین مت کرنا۔''
''مسٹر کِلپَیٹرک!''
وہ جواپنے جذبات پر بے
جا استدلال کی کوشش کر رہا تھا ایک لمحے کو تو نینسی کے برہم اندازِ تخاطب سے
بوکھلا گیا۔ تب اس نے سنبھل کر روداد کا ترجمہ جاری رکھا۔
" وہ کہتی ہے کہ
اگر آپ رافیل کو رہا کر دیں تو وہ جیل میں اس کی جگہ جانے کو تیار ہے۔ اس کا کہنا
ہے کہ وہ بخار سے قریب المرگ تھی۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اسے دوا نہ ملی تو وہ
جانبر نہ ہو سکے گی۔ اس لئے اورٹز نے دواخانے پر جعلی سکہ اداکیا۔ اس کی جان تو بچ
گئی مگر رافیل کی جان داؤ پر لگ گئی۔ اس کی گفتگو میں محبت اور اس قسم کی بہت ساری
باتیں ہیں جو آپ سننا گوارا نہیں کریں گے۔''
ضلعی سرکاری وکیل کے
لئے یہ ایک پرانی کہانی تھی۔ '' اس کو بتا دو'' وہ بولا'' میں کچھ نہیں کرسکتا۔
صبح کیس عدالت میں لگے گا اور اسے اپنی لڑائی عدالت کے سامنے لڑنی ہو گی۔''
نینسی ڈروینٹ اس قدر
سنگ دل نہیں تھی۔ وہ ترحم آمیز نظروں سے کبھی جویا تو کبھی لٹل فیلڈ کو دیکھتی۔
ڈپٹی نے لٹل فیلڈ کے الفاظ لڑکی کے سامنے دہرا دیے۔ وہ دھیمی آواز میں ایک دو جملے
بڑ بڑائی، شال چہرے کے گرد سختی سے لپیٹی اوردل شکستہ ہو کر کمرے سے چلی گئی۔
'' اب اس نے کیا کہا
تھا؟'' سرکاری وکیل نے پوچھا۔
''کچھ خاص نہیں۔''ڈپٹی
نے بتایا۔ ''اس نے کہا جب کسی لڑکی کی زندگی، جس سے تم محبت کرتے ہو خطرے میں
دیکھو تو رافیل اورٹز کو یاد کر لینا۔ ''
کِلپَیٹرک برآمدے میں
ٹہلتا ہوا مارشل کے دفتر کی جانب بڑھ گیا۔
'' باب کیا تم ان کے
لئے کچھ نہیں کر سکتے؟'' نینسی نے استفسار کیا۔ '' یہ معمولی سی بات ہے ۔ صرف ایک
نقلی سکہ دو زندگیوں کی خوشیاں تباہ کر دے گا۔ اس پر موت کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
اورٹز نے اس کی جان بچانے کے لئے ایسا کیا۔ کیا قانون رحم کے جذبات سے آشنا
نہیں؟''
'' نہیں قانون میں اس
کی کوئی جگہ نہیں۔ اور سرکاری وکیل کے فرائض میں تو ہر گز نہیں۔ میں یقین دہانی
کراتا ہوں کہ قانونی کاروائی میں کوئی کینہ پروری نہیں کی جائے گی۔ لیکن جب جرم
ثابت ہو جائے تو سزا دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ۔ گواہ جعلی سکہ کی ادائیگی کی شہادت
دے گا جو کہ میری جیب میں بطورِثبوت موجود ہے۔ پنچوں میں کوئی میکسیکن نہیں ہے اور
مسٹر گریسر کٹہرا چھوڑنے سے پہلے ہی مجرم ٹھہرا دیا جائے گا۔
اس سہ پہر مرغِ باراں
کا شکار بہت عمدہ رہا۔ کھیل کے جوش و خروش میں رافیل اور جویا کا دکھ فراموش ہو
گیا۔ سرکاری وکیل اور نینسی ڈروینٹ قصبے سے باہر تین میل تک سر سبز اور ہموار سڑک
کے ہمراہ آئے۔ تب انھوں نے پیڈرا کی کھاڑی کی جانب ایک ٹیڑھے میڑھے گھاس پھونس کے
میدان کو عبور کیا۔ اس کھاڑی کے پار مرغزار میں مرغِ باراں کا پسندیدہ ٹھکانہ تھا۔
جب وہ کھاڑی کے قریب پہنچنے والے تھے تو انھیں اپنے دائیں جانب گھوڑے کی ٹاپوں کی
آواز سنائی دی۔ انھوں نے ایک سیاہ بالوں اور سانولے چہرے والے شخص کو جنگل کی جانب
آتے ہوئے دیکھا۔ جیسا کہ وہ ان کا پیچھا کرتا ہوا آیا ہو۔
'' میں نے اس شخص کو
کہیں دیکھا ہے'' لٹل فیلڈ نے کہا جس کی چہرہ شناسی کی یادداشت اچھی تھی۔ لیکن میں
اس کو اچھی طرح پہچان نہیں سکا۔ میرے خیال میں کوئی مویشی پال ہے جو مختصر راستے
سے گھر جا رہا ہے۔''
انھوں نے ایک گھنٹہ
مرغزار میں گزارا۔ رتھ سے گولیاں چلاتے ہوئے نینسی ڈروینٹ بیرونی دنیا میں گھومنے
پھرنے والی ایک چست اور فعال لڑکی لگ رہی تھی جو اپنی بارہ بور بندوق کے ساتھ بہت
خوش تھی۔ اس نے مارے ہوئے شکار سے تھیلا بھر لیا۔
وہ میانہ رو رفتار سے
گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہ پیڈرا کی کھاڑی سے کوئی سو گز آگے آگئے تو جنگل کی
جانب سے ایک سوار ان کی طرف بڑھا۔
''یہ تو وہی شخص ہے جسے
ہم نے آتے ہوئے دیکھا تھا'' مس ڈرونٹ نے یاد دلایا۔
جیسے ہی ان کے مابین
فاصلہ کم ہوا، سرکاری وکیل نے یکلخت لگام کھینچ لی۔ اس کی نگاہیں گھڑ سوار پر جمی
ہوئی تھیں۔ اس شخص نے بندوق غلاف سے نکال کر ہاتھ میں تھام لی تھی۔
''اب میں نے تمھیں
پہچان لیا میکسیکو سیم! لٹل فیلڈ نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔ تو یہ تم ہی تھے
جو اس مراسلے میں پھنکار رہے تھے۔''
میکسیکو سیم نے زیادہ
عرصہ تک چیزوں کو شک و شبہ میں نہ رکھا۔ اس نے آتشیں اسلحہ سے متعلقہ معاملات پر
عمدگی سے نظر رکھی ہوئی تھی۔ چناچہ جب وہ گولی داغنے کی درست پہنچ میں تھا اور خود
آٹھ نمبر شاٹ کی رسائی کے خطرے کی حد سے باہر تھا تو اس نے بندوق تان لی اور رتھ
کے سواروں پر فائر کھول دیا۔
پہلی گولی لٹل فیلڈ اور
مس ڈروینٹ سے دو انچ کے فاصلے پر عقبی نشست کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ دوسری گولی
پائیدان سے ہوتی ہوئی لٹل فیلڈ کی ٹانگ میں آ کر لگی۔
سرکاری وکیل نے بعجلت
ریڑھی سےدھکیل کر نینسی کو زمین پر لٹایا۔ وہ کچھ زرد پڑ رہی تھی۔ مگر کوئی سوال
نہ کیا۔ اس کی فطرت تھی کہ کسی بھی اچانک پیدا شدہ صورت حال کو فضول بحث کئے بغیر
قبول کر لیتی تھی۔ انھوں نے اپنی بندوقیں ہاتھوں میں لے لیں۔ لٹل فیلڈ نے تیزی سے
سیٹ پر پڑے ڈبے سے کارتوسوں کی مٹھی بھر کر جیب میں ٹھونس لی۔
''گھوڑوں کے پیچھے رہو
نین!'' اس نے ہدایات جاری کیں۔ ''یہ ایک خونی شخص ہے۔ اسے ایک مرتبہ میں نے جیل
بھجوایا تھا۔ وہ محفوظ رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اتنے فاصلے سے
ہماری گولی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔''
''ٹھیک ہے باب'' نینسی
نے مضبوط لہجے میں کہا۔ '' میں خوف زدہ نہیں ہوں مگر تم بھی میرےقریب رہو ۔رک جاؤ
بیس اور اب ساکت کھڑے رہو'' ۔اس نے بیس کی ایال کو سہلایا۔ لٹل فیلڈ بندوق تیار
کئے کھڑا تھا اور دعا کر رہا تھا کہ مجرم رسائی میں آجائے۔
لیکن میکسیکو سیم اپنی
دشمنی کو محفوظ خطوط پر نبھا رہا تھا۔ اس کا معاملہ مرغِ باراں کے شکار سے مختلف
نوعیت کا تھا۔ اس کی درست نگاہی نے خطرے کے علاقے کے گرد ایک تصوراتی حصار کھینچ
لیا تھا۔ اس کا گھوڑا دائیں گھوما اور اس نےگھوڑے کے دفاعی قلعے میں محصور سرکاری
وکیل کے ہیٹ پر گولی چلا دی۔ جیسے ہی اس سے گھوم کر پلٹنے میں اندازے کی غلطی ہوئی
تو لٹل فیلڈ کی گن چمکی۔ لیکن میکسیکو سیم نے جھکائی دے کر سر کو بچا لیا۔ گولی کی
غیر نقصان دِہ ضرب سے سے کچھ ٹکڑے اس کے گھوڑے کو لگے جس کی وجہ سے وہ اچھل کر
حفاظتی خطوط پر واپس آگیا۔
شعلہ بار مجرم نے
دوبارہ گولی چلائی۔ اس مرتبہ نینسی کی طرف سے ہلکی سی کراہ ابھری۔ لٹل فیلڈ دہکتی
ہوئی نگاہوں کے ساتھ گھومااور دیکھا کہ خون قطرہ قطرہ نینسی کے رخساروں سے ٹپک رہا
تھا۔
'' میں مضروب نہیں ہوئی
باب! صرف ایک چھرا ٹکرایا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس نے پہئے کے رداس کو گولی ماری ہے۔''
''خدایا!!!'' لٹل فیلڈ
نے فریاد کی '' کاش اس وقت میرے پاس سیسے کی بڑی گولی ہوتی''
مجرم نے گھوڑا بالکل
ساکت کر لیا اور اجتیاط سے نشانہ باندھا۔ تیزی سے آتی ہوئی گولی فلائی کی گردن میں
گھس گئی۔وہ خرخرایا اور زین کے بل گر گیا۔ بیس کی غلط فہمی دور ہو گئی کہ گولیاں
مرغِ باراں پر چلائی جا رہی ہیں۔ اس نے رسیاں تڑائیں اور سرپٹ بھاگ نکلا۔ میکسیکن
سیم نے مہارت سے گولی نینسی ڈروینٹ کی شکاری جیکٹ میں ماری۔
''لیٹ جاؤ! لیٹ جاؤ! ''
لٹل فیلڈ چلایا۔ گھوڑے کے قریب ہو جاؤ۔ زمین پر چت لیٹ جاؤ'' اس نے نین کو گرے
ہوئے گھوڑے کی پشت کی مخالف سمت میں تقریباً گھاس پر اچھال دیا۔ اسی لمحے عجیب طور
پرمیکسیکن لڑکی کے الفاظ اس کے ذہن میں گونجے۔'' جب اس لڑکی کی جان کو خطرہ ہو جس
سے تم محبت کرتے ہو تو رافیل اورٹز کو یاد کر لینا''
لٹل فیلڈ جذباتی انداز
میں پکارا '' گھوڑے کی پشت کے اوپرسے اس پر فائر کھول دو نین۔ جتنی تیزی سے تم
فائر کر سکتی ہو کرو۔ تم اسے مجروح نہیں کر سکتیں لیکن چند لمحوں کے لئے اسے بھٹکا
ضرور سکتی ہو۔ اسی اثنا میں ، میں کوئی منصوبہ سوچنے کی کوشش کرتا ہوں۔''
نینسی نے ایک اچٹتی سی
نگاہ لٹل فیلڈ پر ڈالی اور اس کو جیبی چاقو نکالتے اور کھولتے دیکھا۔ تب اس نے
احکامات کی پیروی میں دشمن پر تابڑ توڑ فائرنگ جاری رکھنےکے لئے منہ موڑ لیا۔
میکسیکو سیم نے تحمل
سےبے ضرر گولیوں کی باڑھ رکنے کا انتظار کیا۔ اس کے پاس وافر وقت تھا۔ ا س نے
پرندوں کو شکار کرنے والی بے ضرر گولیوں کا خطرہ مول لینے میں احتیاط کی۔ اور اپنی
چوڑی جھکی ہوئی چھجے دار ٹوپی کو چہرے پر کھسکا لیا جب تک کہ فائرنگ رک نہ گئی۔
وہ تھوڑا قریب کھسک آیا
اور گھوڑے کے اوپر سے اپنے دشمن کو دیکھ کر محتاط انداز میں گولی چلا دی۔ ان دونوں
میں سے کسی نے حرکت نہ کی۔ اس نے اپنے گھوڑے کو چند قدم اور آگے بڑھایا۔ اس نے
سرکاری وکیل کو ایک گھٹنے پر اٹھتے اور شاٹ گن سیدھی کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اپنی
چھجے دار ٹوپی چہرے پر کھینچ لی اور ننھے ننھے چھروں کی بے ضرر سنسناہٹ کا انتظار
کرنے لگا۔
شاٹ گن ایک بھاری آواز
کے ساتھ شعلہ زن ہوئی۔ میکسیکو سیم نے ایک آہ بھری اور کمزور پڑ کر گھوڑے سے ڈھے
گیا۔ ۔۔۔ پھنکارنے والا سانپ اب مردہ حالت میں تھا۔
اگلی صبح دس بجے عدالت
لگی۔ یونائیٹڈ سٹیٹ بنام رافیل اورٹز کا مقدمہ پیش ہوا۔ سرکاری وکیل بازو پٹی میں
لٹکائے کھڑا ہوا اور عدالت سے مخاطب ہوا،
''جناب عالی! میں اپنے
دعویٰ سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اگرچہ دفاعی ملزم کو غلطی تسلیم کرنی چاہیئے تھی لیکن
سزا دینے کے لئےحکومت کے ہاتھ میں کافی ثبوت نہیں ہیں۔ جعلی سکہ جو کہ بطورِ ثبوت
پیش کیا گیا تھا اور جس کی بنیاد پر یہ مقدمہ داخلِ عدالت کیا گیا تھا اب بطورِ
گواہی دستیاب نہیں ہے۔ لہذا میری گزارش ہے کہ مقدمہ خارج کر دیا جائے۔''
دوپہر کے وقفے میں
کِلپَیٹرک سرکاری وکیل کے دفتر میں داخل ہوا۔ '' میں میکسیکو سیم کے معائنے کے لئے
گیا تھا۔ انھوں نے اسے گرا ہوا پایا تھا۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے بوڑھا میکسیکو
سیم بہت سخت جان تھا۔ لڑکے حیران تھے کہ تم نے کیا چیز فائر کی تھی۔ کچھ کی رائے
ہے کہ جیسے وہ کیل ہوں۔ میں نے آج تک ایسی گن نہیں دیکھی جو اتنے چھید کر دے جیسا
کہ میکسیکو سیم کے جسم پر تھے۔ ''
''میں نے اس پر تمھارے
جعلی سکے والے مقدمے کا ثبوت چلایا تھا۔ میرے لئے یہ بہت کارآمد ثابت ہوا اور
مخالف کے لئے اتنا ہی برا جتنا برا یہ ناکارہ رقم کے طور پر ہے۔ وہ بہت آسانی سے
بے ڈول گولی میں تراشا گیا تھا۔ کیا تم جھگیوں میں جا کر معلوم کر سکتے ہو کہ وہ
میکسیکن لڑکی کہاں رہتی ہے؟
مس ڈروینٹ اس کے بارے
میں جاننا چاہتی ہے۔''
Original Tilte: One
dollar's worth
Written by:
William Sydney Porter
(September 11, 1862 – June 5, 1910), known by his pen name O. Henry, was
an American short story writer. His stories are known for their surprise
endings.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment