انتون چیخوف کا افسانہ : ہائے عوام ۔۔۔! (Oh! The Public)

 

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 241 : ہائے عوام۔۔۔۔!

تحریر: انتون چیخوف (روس)

انگریزی سے ترجمہ:حمزہ حسن شیخ (اسلام آباد)

 


’’یہیں پر، میں نے پینا چھوڑ دی تھی! کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ کچھ بھی مجھے اس کی طرف راغب نہیں کرسکتی۔ یہی وقت ہے کہ میں نے اپنا ہاتھ تھامنا ہے۔ مجھے خود کو بحال کرنا ہے اور کام کرنا ہے۔۔۔۔ آپ خوش ہیں کہ آپ اپنی تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اپنا کام دیانت داری، دل جمعی اور احتیاط سے کرنا چاہیے۔ آرام اور نیند کو بالائے طاق رکھ کر۔ نوکری کو لات مارنا کوئی آسان کام نہیں۔’میرے لڑکے! تمھیں یہاں کچھ نہ کرنے کی تنخواہ نہیں دی جارہی۔ یہ بالکل بھی اچھی بات نہیں۔۔۔۔ اور کبھی اچھا عمل نہیں۔‘‘

ہیڈٹکٹ کلکٹرPodtyaginخود کو اس طرح کے بے شمار لیکچر دینے کے بعد، اپنے کام کی جانب واپسی کے لیے ایک لطف انگیز خواہش محسوس کرنے لگاتھا۔ رات کا ایک بجاتھا لیکن اس کے باوجود وہ ٹکٹ کلکٹر کو جگاتا تھا اور اُن کو ساتھ لے کر ریلوے ڈبوں میں ٹکٹ چیک کرنے کے لیے گھومتا پھرتا۔

’’ٹکٹ۔۔۔کٹ۔۔۔پل۔۔۔لیز۔۔۔۔پلیز‘‘ وہ تیزی سے ناخن چباتے ہوئے چیختیا۔ ریلوے ڈبوں کی دھیمی روشنی میں، لحافوں میں لپٹے سوئے ہوئے ہیولوں کو وہ ہلاتا، جگاتا، اُن کے سر سے پکڑ کر اُن کو زور سے ہلاتا اور اُن کے ٹکٹ چیک کرتا۔

’’ٹک۔۔۔کٹ۔۔۔۔ٹکٹ۔۔۔پل۔۔۔لیز۔۔۔پلیز‘‘Podtyaginنے ایک سیکنڈ کلاس ڈبے کے مسافر کو جگاتے ہوئے مطالبہ کیا، وہ ایک بہت کمزور اور پتلا سا شخص تھاجس نے پرون سے بنے کوٹ اور ایک کمبل کے ایک ٹکڑے سے خود کو لپیٹا ہوا تھا اور اس کے اردگرد تکیے پڑے تھے۔

’’ٹکٹ پلیز۔۔۔۔‘‘

اُس کمزور اور لاغر سے شخص نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ مکمل نیند میں ڈوباہواتھا۔ ٹکٹ کلکٹر نے دوبارہ اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھااور بے صبری سے دوبارہ کہا۔

’’ٹکٹ۔۔۔کٹ۔۔۔ٹکٹ۔۔۔پل۔۔۔لیز۔۔۔پلیز۔‘‘

مسافر نے اپنی خواب آلود آنکھیں کھولنا شروع کیں اور Podtyaginکو ہوشیاری سے دیکھا۔

’’کیا۔۔۔۔؟ کون۔۔۔۔؟۔۔۔۔او۔۔۔۔‘‘

’’آپ سے آسان زبان میں پوچھا گیا ہے۔۔۔ٹکٹ پلیز۔۔۔اگر پلیز دے سکتے ہیں تو۔۔۔!‘‘

’’میرے خُدایا!‘‘ وہ کمزور اور لاغر شخص بُرا منہ بناتے ہوئے منمنایا۔’’خُدا پوچھے! میں جوڑوں کے درد کا مریض ہوں اور پچھلی تین راتوں سے نہیں سویا ہوں۔۔۔ میں نے سونے کے لیے ابھی افیم کھائی ہے اور تم۔۔۔ اپنی ٹکٹ کے ساتھ۔۔۔! یہ ظلم ہے۔۔۔۔۱ یہ بے رحمی ہے۔۔۔۔! اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ میرے لیے سونا کتنا مشکل کام ہے، تم مجھے اس بکواس کام کے لیے کبھی بھی نہ جگاتے۔۔۔۔یہ ظلم ہے۔۔۔۔! یہ بے ہودگی ہے۔۔۔!اور تمھیں میری ٹکٹ کا کیا کرنا ہے۔۔۔۔! یہ یقینا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔!‘‘

Podtyaginپچکا رہ جاتا ہے کہ وہ اپنا جرم تسلیم کرے یا نہیں اور پھر اپنا جرم ماننے کا فیصلہ کرتا ہے۔

’’یہاں پر مت چیخو! یہ کوئی سرائے نہیں ہے۔۔۔۔!‘‘

’’نہیں، سرائوں میں زیادہ انسانیت دوست لوگ ہوتے ہیں۔۔۔۔‘‘ مسافر نے کھانستے ہوئے کہا، ’’شاید، تم مجھے کسی اور وقت سونے دو گے! یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔ میں نے کئی بار بیرون ملک سفر کیا ہے، تمام جگہوں پر اور وہاں پر کسی نے بھی کبھی میری ٹکٹ کے بارے میں نہیں پوچھا اور یہاں پر تم مجھ سے بار بار اس کے بارے میں ایسے پوچھ رہے ہو جیسے تمھارے پیچھے کوئی بھوت لگا ہو۔۔۔۔‘‘

’’اچھا، پھر تو آپ کو بیرون ملک ہی جانا چاہیے کیوں کہ آپ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘

’’یہ بالکل بے وقوفی ہے، جناب! ہاں۔۔۔۔! اگرچہ یہ کافی نہیں ہے کہ مسافروں کو اس گھٹن اور باسی ہوااور پسینے کے بھوبھکے سے مار دیا جائے۔ وہ سُرخ فیتے سے ہمارے گلے گھونٹنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ اس سب پرتف ہے۔۔۔۔!اُن کے پاس ٹکٹ ضرور ہوناچاہیے! ہائے میرے خدایا۔۔۔۔! یہ کیسا جذبہ ہے۔۔۔۔! اگر کمپنی کو ا س بات سے کوئی فائدہ ہوتا۔۔۔۔تو آدھے سے زیادہ مسافر بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کررہے ہوتے۔۔۔‘‘

’’سنیں،جناب!‘‘Podtyaginغصے سے چلایا۔’’اگر آپ نے اپنی بکواس بند نہ کی اور عوام کو پریشان کرتے رہے تو میں آپ کواگلے سٹیشن پر ٹرین سے اُتار دوں گااور اس واقعے کی رپورٹ کردوںگا۔‘‘

’’یہ توہین آمیز ہے۔۔۔!‘‘ لوگوں نے آواز اٹھائی جو اُن کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔

’’ایذا رسانی سراسر تکلیف ہے۔۔۔! سنواور اس پر تھوڑا غور کرو۔۔۔‘‘

’’لیکن یہ حضرت خود ہی اتنے بدتمیزاور بداخلاق ہیں۔۔۔!Podtyaginنے تھوڑا سا ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’اچھی بات۔۔۔میں ٹکٹ نہیں دیکھوں گا۔۔۔جیسا آپ لوگ کہیں۔۔۔صرف،۔۔۔یقینا جیسا کہ آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ ایسا کرنا میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں اپنی ڈیوٹی پر نہ ہوتا۔۔۔تب۔۔۔یقینا آپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ سکتے تھے۔۔۔یا جس کسی سے بھی آپ پوچھنا چاہیں۔۔۔‘‘

Podtyaginنے اپنے کندھے اُچکائے اور وہاں سے چلتا بنا۔ پہلے پہل اس کو سُبکی محسوس ہوئی اور کچھ حد تک دل پہ چوٹ سی محسوس ہوئی۔ تب دو یا تین ڈبے گزرنے کے بعد، اُس کو ایک یقینی سی بے چینی محسوس ہوئی لیکن ویسی نہیں جیسی اُس کے ٹکٹ چیک کرنے والے سینے کی گہرائی میں کبھی نہ اُبھری تھی۔

’’لیکن صرف ٹکٹ چیک کرنے کے لیے کسی سوئے ہوئے شخص کو جگانا ضروری نہ تھا۔‘‘ اُس نے سوچا، ’’اگر یہ میری غلطی نہ تھی۔۔۔وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ شوخی میں کیا ہے۔۔۔وہ نہیں جانتے کہ میں اپنے فرض میں جکڑا ہوا ہُوں۔ اگر وہ اس بات پر یقین نہیں کرتے تو میں اسٹیشن ماسٹر کو اُن کے پاس لاسکتاہوں۔‘‘

ہر اسٹیشن پر ٹرین پانچ منٹ کے لیے رُکتی ہے۔ تیسری گھنٹی سے پہلے Podtyaginایک بار پھر دوبارہ اسی سیکنڈ کلاس ڈبے میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے سرخ ٹوپی پہلے اسٹیشن ماسٹر بھی ٹہلتا ہوا اندرداخل ہوا۔

’’یہ صاحب یہاں پر ہیں۔‘‘ Podtyaginنے بات شروع کی۔ ’’یہ کہتے ہیں کہ مجھے ٹکٹ کے بارے میں پوچھنے کا کوئی حق نہیں اور۔۔۔۔اور انھوں نے مجھ پر الزام تراشی کی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، جناب اسٹیشن ماسٹر صاحب کہ آپ ان حضرات کو بتائیں کہ۔۔۔۔قانون کے مطابق مجھے ٹکٹ کا پوچھنا چاہیے یا صرف خود کو خوش رکھنا چاہیے۔‘‘ Podtyaginنے اُس لاغر شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’جناب! آپ اسٹیشن ماسٹر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں یہاں پر اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو۔۔۔۔‘‘

’’وہ بیمار شخص دوبار ہ اپنی سیٹ پر دراز ہوچکاتھا، اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور بُرا منہ بناتے ہوئے اپنی سیٹ پر دوبارہ لڑھک گیا۔

’’میرے خدایا! میں نے ابھی دوبارہ افیم کھائی ہے اور ابھی مجھے اونگھ آئی تھی کہ یہ دوبارہ آن ٹپکا ہے۔ میں تمھاری التجا کرتاہوں کہ مجھ پر کچھ رحم کھائو۔‘‘

آپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ سکتے ہیں۔۔۔۔کہ مجھے آپ کی ٹکٹ کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے یا نہیں۔۔۔‘‘

’’یہ ناقابلِ برداشت ہے۔۔۔۔! یہ لو اپنی ٹکٹ۔۔۔یہ پکڑو۔۔۔۔! میں تمھیں پانچ روپے زیادہ دوں گا اگر تم مجھے سکون سے مرنے دو گے! کیا تم کبھی بھی بیمارنہیں ہوئے ہو؟ سنگ دل لوگ۔۔۔!‘‘

’’یہ بالکل غیرقانونی عمل ہے۔۔۔۔! فوجی لباس میں ملبوس ایک شخص نے غصے سے کہا ’’میرے پاس اس کے صبر کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔‘‘

’’چھوڑا۔۔۔۔‘‘ اسٹیشن ماسٹر نے ماتھے پر تیوری سجاتے ہوئے کہااور وہ  Podtyaginکو آستین سے پکڑ کر نیچے لے گیا۔

 Podtyaginنے اپنے کندھے اُچکائے اور آہستگی سے اسٹیشن ماسٹر کے پیچھے چل پڑا۔

’’یہ کسی بات سے بھی خوش نہیں ہیں۔۔۔۔!‘‘ اس نے حیرت سے سوچا، ’’اس کی خاطر میں اسٹیشن ماسٹر کو لے کر آیا تاکہ وہ سمجھ سکے اور اُس کی تشویش ختم ہو اور وہ۔۔۔۔قسم سے۔۔۔۔!‘‘

اگلے اسٹیشن پر ٹرین دس منٹ کے لیے رُکی۔ دوسری گھنٹی سے پہلے، جب  Podtyaginاسٹیشن کے کیفے ٹیریا میں کھڑا سوڈا واٹر پی رہاتھا۔ د وحضرات جن میں سے ایک انجینئر کی یونیفارم اور دوسرے نے فوجی کوٹ پہنا ہواتھا، اس کی جانب آئے۔

’’سنو! ٹکٹ کلکٹر!‘‘ انجینئر نے  Podtyaginکو مخاطب کرتے ہوئے بات شروع کی، ’’اس بیمار شخص کے ساتھ تمھارے رویے نے سب کو غصے اور حیرت سے دوچار کیا ہے۔جس جس نے بھی یہ واقعہ دیکھا ہے۔ میرا نام Puzitskyہے۔ میں ایک انجینئرہوں اور یہ ایک کرنل ہے۔ اگر تم نے اس مسافر سے معافی نہ مانگی تو ہم دونوں ٹریفک منیجرکے پاس تمھاری شکایت کریں گے جو کہ ہمارا دوست ہے۔‘‘

’’حضرات! لیکن میں کیوں۔۔۔لیکن آپ کیوں۔۔۔‘‘ Podtyaginاُن کی بات سُن کر بوکھلاگیا۔

’’ہمیں وضاحتیں نہیں چاہئیں لیکن ہم تمھیں خبردار کرتے ہیں۔ اگر تم نے معافی نہ مانگی تو ہم اس کو انصاف ضرور دلوائیں گے۔‘‘

’’یقینا۔۔۔۔ضرور میں معافی مانگوں گا۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔‘‘

آدھے گھنٹے کے بعد Podtyaginنے معافی مانگنے کے لیے اپنے ذہن کو آمادہ کرتے ہوئے معافی طلب جملہ بھی سوچ لیاتھا جو نہ صرف ان کی شان و شوکت پر حرف آئے بغیر مسافرکومطمئن کردے گا۔ وہ آہستہ قدم اٹھاتا ڈبے میں چلنے لگا۔

’’محترم!‘‘ اس نے اس بیمار شخص کو مخاطب کیا۔۔۔۔’’سُنیں جناب۔۔۔۔!‘‘

بیمار شخص نے آنکھیں کھولیں اور اُچھل پڑا۔۔۔۔’’کیا ہے۔۔۔۔؟‘‘

’’میں۔۔۔۔یہ کہنا چاہتاہوں۔۔۔۔کہ آپ پر میں نے الزام دھرا۔۔۔۔‘‘

’’اوہو! پانی۔۔۔۔‘‘ بیمار نے اپنا دل پکڑ کر سسکی بھری۔’’میں نے ابھی ہی افیم کی تیسری خوراک لی ہے، ابھی سویا ہی تھا اور۔۔۔۔دوبارہ تم۔۔۔۔او ہ میرے خدایا! یہ اذیت کب ختم ہوگی۔۔۔۔!‘‘

’’میں صرف۔۔۔۔آپ سے معذرت۔۔۔۔‘‘

’’اوہو۔۔۔۔! مجھے اگلے اسٹیشن پر ٹرین سے اُتار دو۔۔۔۔! میں اب اس ٹرین پر مزید سفر نہیں کرسکتا۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں مررہاہوں۔۔۔۔‘‘

’’یہ بہت ہی اذیت ناک اور توہین آمیز ہے۔۔۔۔! عوام غصے سے چلائی۔

’’دفع ہوجائو یہاں سے! تمھیں اس بے ہودگی اور بدتمیزی پر جرمانہ کیاجائے۔۔۔۔! نکل جائو۔۔۔۔دفع ہوجائو۔۔۔۔‘‘

 Podtyaginنے مایوسی سے اپنا ہاتھ لہرایا، منمنایا اور ڈبے سے باہرنکل گیا۔ وہ اپنے آرام کرنے والے کمرے میں گیا۔ پریشانی کی حالت میں میزپر بیٹھ گیااور شکایت کرنے لگا۔

’’ہائے یہ عوام! کوئی بات بھی ان کے لیے گراں نہیں! یہاں پر کام کرنے اور اچھے سے اچھا کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔! کوئی بھی نشے میں ڈوبا ہوا سب کے سامنے آپ کی بے عزتی کردیتا ہے۔۔۔! اگر آپ کچھ بھی نہ کرو۔۔۔۔تو بھی وہ غصہ کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہو تو بھی اُن کو غصہ آتا ہے۔ اس لیے، کچھ بھی نہیں کرناچاہیے اور صرف پینی چاہیے۔۔۔!‘‘

 Podtyaginنے شراب کی پوری بوتل اپنے اندر اُنڈیلی اور مزیدکام، فرض اور ایمانداری کے بارے میں سوچنا ترک کردیا۔

(انگریزی سے اردو ترجمہ)

 

English Title: Oh! The Public

Written by:

Anton Chekhov (29 January 1860 – 15 July 1904) was a Russian playwright and short-story writer, who is considered to be among the greatest writers of short fiction in history.

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق