کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ : کبوتر اور کبوتری (Mr. and Mrs. Dove)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 495 :             کبوتر اور کبوتری

 تحریر : کیتھرین مینسفیلڈ  (نیوزی لینڈ)

مترجم : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی (نیوزی لینڈ)

 

 


       بے شک وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کوئی شخص بہتر نہیں ہو سکتا ، کہ اس کے پاس موقع فراہم کرنے والا کوئی  جن یا بھوت تو ہوتا نہیں ، اور نہ ہی کوئی دنیاوی مدد۔ اس طرح کا خیال یا تصور بھی اوٹ پٹانگ اور مضحکہ خیز تھا۔ اتنا مضحکہ خیز کہ وہ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لے گا کہ اگر لڑکی کا باپ  —— خیر اس کا باپ جو کچھ بھی طےکرے ، وہ پوری طرح سے سمجھ جائے گا۔ یہ احساس اس کے لیے انتہائی مایوس کن تھا کہ وہ دن اس کا انگلینڈ میں سچ مچ آخری دن تھا ، خدا جانتا ہے کہ وہ کتنے عرصہ سے خود کو اس کے لیے تیار کرتا رہا تھا۔

 

          اور پھر اس وقت بھی …… اس نے الماری کی دراز سے ایک نیلی اور کریم رنگ کی چوکڑی والی ٹائی نکالی اور پلنگ کے کونے پر بیٹھ گیا۔ فرض کریں کہ لڑکی جواب میں کہہ دے ،" کیا بدتمیزی ہے !"   تو کیا وہ حیران ہوگا ؟کبھی نہیں ، اس نے نرم کالر کو اٹھا کر ٹائی کے اوپر جھکاتے ہوے طے کیا ۔ اسے اسی طرح کے جواب کی توقع تھی۔ اس نے سوچا نہیں تھا ، کہ اگر وہ حالات کو زیادہ سنجید گی سے لیتا تو لڑکی نے اور کیا کہا ہوتا۔

 

             تو یہ بات تھی ! گھبراتے ہوئے اس نے آئینہ کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی ٹائی کی گرہ تنگ کی ، دونوں ہاتھوں سے بال جمائے ، جیکٹ کے جیبوں پر لگی پٹیوں کو باہر نکالا۔ وہ روہڈیشیا (Rhodesia) میں ، تقریباً ساری ہی جگہوں  پر پھلوں کے باغات میں کام کرتے ہوئے سالانہ پانچ سو سے چھے سو (500 to 600) پونڈکمانے والا شخص تھا۔ کوئی بچت بھی نہیں تھی ۔ ایک پینی بھی اس کے پاس  نہیں ہوتی   تھی۔ اگلے چار سال تک اس کی آمدنی میں کسی اضافہ کی امید بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ جہاں تک دیکھنے دکھانے کا تعلق تھا ، وہ اس دوڑ میں کہیں تھا ہی نہیں۔ وہ اپنی صحت کے بارے میں بھی فخر نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ  مشرقی افریقہ میں اس کے کاروبار میں ہونے والے نقصان نے اسے اس بری طرح متاثر کیا کہ وہ چھے مہینے کی رخصت لینے پر مجبور ہوگیا تھا۔ وہ ابھی بھی ، اس شام ، آئینہ میں خود کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ وہ تو ہمیشہ سے زیادہ خوفزدہ اور سہما ہوا سا دکھائی دے رہا تھا۔ غضب خدا کا ! یہ کیا ہوگیا ؟ اس کے بال سبز اور چمکدار دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کیا حما قت ہے ؟ اس کے بال تو کبھی کسی موقع پر سبز تھے ہی  نہیں ۔  وہ تو ڈھلوان کی طرح نیچے کی طرف جاتے تھے۔ اور پھر تب ہی سبز روشنی شیشہ پر تھرتھرائی ؛ وہ دراصل باہر کے درخت کا سایہ تھا۔ ریجی  پلٹا ، سگریٹ کیس نکالا ، لیکن یہ سوچ کر کہ اس کی ماں خواب گاہ میں سگریٹ پینے کو ناپسند کرتی تھی ، اسے فوری سگریٹ کیس میں واپس رکھ دیا۔ اور تیزی سے الماری کے پاس چلا گیا۔ نہیں ، اسے تو گھسیٹا جاتا ، اگر وہ کوئی بھی چیز اپنی پسند سے کرتا ، جب وہ … آہ ! … وہ مکمل طور پر خاموش ، ہاتھ باندھے الماری سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔

             ایک امیر باپ کی اکلوتی بیٹی کی حیثیت کے علاوہ بھی وہ گرد و نواح میں دور دور تک مشہور تھی ؛ اس کی خوبصورتی اور ذہانت — ذہانت !—  وہ تو اس سے بھی زیادہ قابلیت کی حامل تھی —— دنیا میں ایسی بھی کوئی چیز تھی  جو وہ کر نہیں سکتی تھی ؟ نوجوان کو پورا یقین تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتی تھی —  باوجود اس حقیقت کے کہ وہ  ماں اور باپ کی چہیتی تھی ، اور وہ ان کے لیے ، اور وہ اسے اس کی مرضی کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت دے دیتے جیسے ………… ایک انسان کی سوچ سے کہیں زیادہ ۔ اس کی محبت اس قدر شدید تھی کہ وہ اسے  پانے کی امید چھوڑ نہیں سکتا تھا ۔ خیر ، کیا یہ امید تھی ؟ یا وہ ایک عجیب ، سہما سا احساس کہ صرف اس کی دیکھ بھال کرنے کا ایک موقع ہی مل جائے  ، وہ اسے اپنی ذمہ داری بنالے اور دیکھے کہ اسے ہر وہ چیز حاصل ہوجائے  جو وہ چاہتی تھی ، اور یہ کہ ایسی کوئی چیز اس کے قریب بھی نہ آئے جو اس کے لیے صحیح نہ ہو —  صرف محبت ؟ یہ کیسی محبت تھی ! وہ الماری سے مزید لپٹ کر کھڑا رہا ، اور دھیمی آواز میں کہنے لگا ،  " میں اس سے محبت کرتا ہوں، میں اس سے محبت کرتا ہوں ! "  ایک لمحہ کے لیے اس نے محسوس کیا جیسے وہ لڑکی کے ساتھ رات میں اومتالی (Umtali , now known Mutare ) کے راستہ پر تھا ۔  وہ ایک کونہ میں بیٹھی محو خواب تھی ۔ اس کی نرم سی ٹھوڑی   اس کے نرم کالر کے اندر سمٹ گئی تھی ، اور اس کی سنہری پلکیں  اس کے گالوں پر جھک گئی تھیں ۔ وہ محبت بھری نظروں سے اس کی نازک سی ناک  ، خوبصورت ہونٹ ، کسی بچے کے کانوں کی طرح معصوم کان ، جنھیں اس کے سنہرے بالوں کی لٹوں نے نصف ڈھک رکھا تھا، دیکھے جا رہا تھا۔ وہ بہت  د ور اندھیرے اور گرم موسم میں جنگل سے گذر رہے تھے۔ پھر وہ جاگ گئی ، اور کہا ، " کیا میں سو گئی تھی ؟" اور اس نے جواب دیا ، "کیا تم ٹھیک ہو ، دیکھو ، —— " اور وہ آگے کی طرف لڑکی  کے اوپر جھک گیا ۔ وہ پر مسرت لمحہ ایسی نعمت کا احساس تھا کہ اس سے آگے وہ اس خواب کو جاری نہیں رکھ پا یا ۔ لیکن اس احساس نے اسے اتنی ہمت دلوادی کہ اس نے سیڑھیوں سے نیچے جا کر ،  ہال سے اپنا تنکوں کا ہیٹ   اٹھایا ، اور سامنے کا دروازہ بند کرتے ہوے کہہ پا یا ، " ٹھیک ہے ، میں تو بس اپنی قسمت آزما سکتا ہوں ، اور بس۔"

               لیکن اس کی قسمت نے تو اسے ایک ناگوار تصادم سے ہی ہم کنار کردیا ، تقریباً فوری ہی ۔ ماں  باغ میں ، چنّی اوربڈّی ( Chinny and Biddy)پیکس ( Pekes — پیکنگ کے چینی کتے) کے ساتھ سیر کرہی تھی۔ بلا شبہ ریجینالڈ ( Reginald) ماں کو بہت پسند کرتا تھا ۔ وہ — اس کا مطلب تھا اس کا ہر ایک کے لیے ہمدردی کا جذ بہ رکھنا ، اس کا بے انتہا صبر و تحمل  وغیرہ ۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ ایک سخت دل اور بے رحم ماں بھی تھی۔ ریجی کی زندگی میں ایسے لمحات بھی تھے  ، اور ایسے بہت سارے لمحات تھے ، جن کے بارے میں سوچ کر انکل ایلک  نے اپنی موت سے پہلے اس کے لیے ایک پھلوں کا باغ چھوڑا تھا کہ کسی بیوہ کا اکلوتا بیٹا ہونا بذات خود اس کے لیے ایک سزا ہی تھی۔ اور اس کو مزید سخت بنانے میں اس کی ماں کا مثبت رویہ زیادہ ذمہ دار تھا۔ وہ نہ صرف ماں اور باپ  دونوں کا کردار نبھا رہی تھی ، بلکہ وہ خود سے لڑتی رہی تھی ، اور صوبہ کے حاکم سے تعلقات سے پہلے ، ریجی کے پہلی بار جیبوں والی پتلوں حاصل کرنے سے پہلے ، کہ جب کبھی ریجی گھر سے دوری کو محسوس کرتے ہوئے اداس ہوجائے تو ، تاروں بھری رات میں اندھیرے برآمدہ  میں بیٹھا گرام فون کی چیخوں کو سنتے ہوئے ،" پیاری ، محبت کے سوا زندگی کیا ہے ؟ "، اس کے تصور میں صرف اس کی ماں کی تصویر ابھرتی تھی — لحیم شحیم شخصیت ، چنّی اور بڈّی کے ساتھ باغ کے راستوں پر چہل قد می  کرتے ہوئے ………

         ماں ، جو بڑی سی قینچی لے کر کسی مرے ہوئے کا سر کاٹنے کے لیے تیار تھی ، جیسے ہی ریجی کو دیکھا ، رک گئی۔

" تم کہیں باہر تو نہیں جارہے ہو ، ریجینا لڈ ؟" اسے باہر جاتا دیکھ کر ماں نے پوچھا۔

" میں چائے کے وقت تک واپس آجاؤں گا ۔"   ریجی نے دونوں ہاتھ تیزی سے جیکٹ کی جیبوں میں ڈالتے ہوے ، کمزور سی آواز میں کہا ۔

           کوئی چھوٹا سا حصہ دکھائی دیا۔ اور پھر پورا سر ہی آگے آگیا۔ ریجی تقریباً اچھل پڑا۔

" میں نے سوچا تھا کہ شاید تم اپنی یہ آخری شام ماں کے ساتھ گذارو گے ، “ اس نے کہا۔

 

 

           خاموشی ۔ پیکس گھورتے رہے ۔ ماں کے کہے ہوے ہر لفظ کو جیسے وہ سمجھ گئے تھے۔ بڈّ ی زبان باہر نکالے لیٹ گئی ؛ وہ کافی موٹی اور چمکدار تھی جیسے وہ ٹافی کا نصف پگھلا ہوا ٹکڑا ہو۔ لیکن ، چنّی کی چینی کے برتنوں جیسی آنکھیں اداسی کے ساتھ ریجینالڈ کو دیکھے جارہی تھیں۔ وہ کمزوری سے ایسے سونگھے جا رہا تھا جیسے ساری دنیا ہی ایک قسم کی ناخوشگوار بو میں ڈوبی ہوئی تھی۔ قینچی نے پھر ٹکڑے کرنے شروع کردیے ۔ بیچارے فقیر ؛ وہ اپنے حصہ کا انتظار کر رہے تھے۔

 

" ویسے تم جا کہاں رہے ہو ، اگر تمھاری ماں پوچھے تو؟"ماں نے پوچھا۔

 

 

           گفتگو آخر ختم ہوئی اور وہ تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا اور کرنل پروکٹر (Colonel Proctor) کے گھر کی طرف چل د یا ۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک بہترین  دوپہر تھی ۔ ساری صبح بارش ہوتی رہی تھی ، گرما کی آخری بارش ، گرم ، تیز ، مختصربارش ، اور اب سارا آسمان صاف تھا سوائے بادلوں کے ٹکڑوں کی لکیر کے جو بطخ کے چوزوں کی طرح ، جنگل کے اوپر تیر رہے تھے۔ اور ہوا بس اتنی تھی کہ درختوں کے پتوں پر رکے پانی کے قطرے گر جائیں ؛ تارہ کی شکل کا ایک گرم قطرہ جھنکار کے ساتھ اس کے ہاتھ پر گرا۔ دوسرا اس کے ہیٹ پر ڈھول کی تھاپ جیسی آواز کے ساتھ گرا۔ خالی سڑک چمکنے لگی تھی ، اور جھاڑیاں سدا بہار کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہی تھیں۔ کاٹج باغات میں گل ذخیرہ (hollyhock) کے اونچے اور روشن درخت اپنے چھوٹے پھولوں کے ساتھ بہار دکھا رہے تھے۔ اور یہیں تھی کرنل پروکٹر کی حویلی — یہاں وہ ہمیشہ سے تھی۔ اس نے ہاتھ  گیٹ پر رکھا ہی تھا کہ اس کی کہنی کے لمس سے بکائن (lilac) کی جھاڑیوں میں حرکت ہوئی ، اور اور پھولوں کی پتیاں اور زرگل (pollen) اس کے کوٹ کی آستین پر گر کر پھیل گئے تھے ۔ لیکن تھوڑا رکیں ۔ ویسے یہ سب کچھ بہت جلد ہو رہا تھا۔ اسے ایک بار پھر ساری چیزوں پر مستحکم انداز میں  غور کرنا ہوگا۔ وہ گلاب کی جھاڑیوں کے درمیان بنے راستہ پر چل رہا تھا۔ یہ اس طرح سے نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن اچانک ہی اس کا ہاتھ گھنٹی پرچلا گیا ، اس نے بٹن دبایا اور وہ زوروں سے گرجدار آواز کے ساتھ بجنے لگی جیسے کہ گھر کو آگ لگ گئی ہو ۔ ملازمہ شاید برآمدہ میں ہی تھی ، فوراً ہی صدر دروازہ کھل گیا ، اور ریجی نے اس پریشان کرتی گھنٹی کی آواز کے بند ہونے سے پہلے خود کو دیوان خانہ میں اکیلے بند پایا۔ عجیب بات یہ تھی کہ جب گھنٹی بجنی بند ہوگئی  ، اس بڑے اور دھند لی روشنی والے کمرے میں ایک شاندار پیانو (piano ) پر اس نے ایک چھتری پڑی دیکھی،  جس نے اس کا نہ صرف حوصلہ بڑھا یا بلکہ اسے جذباتی بھی کردیا۔ وہاں کافی خاموشی تھی ، پھر بھی شایدکسی لمحہ دروازہ کھل جائے اور اس کی قسمت کا فیصلہ بھی ہوجائے۔ اس کے احساسات کچھ  اس طرح کے تھے جیسے وہ کسی ڈینٹسٹ (dentist) کے پاس بیٹھا ہو ؛ وہ تو تقریباً لا پرواہ قسم کا شخص تھا۔ لیکن اسی وقت ، انتہائی حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے خود کو کہتے ہوے سنا  ، "اے خدا ، تو جانتا ہے —  تو نے میرے لیے کچھ بہت زیادہ نہیں کیا ……"

 “Lord , Thou knowest __ Thou hast not done much for me …”

 

 

اور یہاں پہنچ  کر  وہ خود کو حالات کے حوالے کردیتا ہے ؛ اور اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ کس حد تک سنجیدہ ہے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ دروازہ کا دستہ گھوما ۔ اینی (Anne) داخل ہوئی، اندھیرے میں ان کے درمیانی فاصلہ کو طے کیا ، مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا  اور ہلکی سی نرم آواز میں  کہا ، "معذرت چاہتی ہوں ، بابا باہر گئے ہوئے ہیں ، اور مما ہیٹس (hats) کی تلاش میں  شہر گئی ہوئی ہیں ۔ اور یہاں صرف میں ہوں تمھارا ساتھ دینے کے لیے ، ریجی ۔"

 

          ریجی نے ہانپتے ہوے  ہیٹ (hat) اپنے جیکٹ کی گنڈ یوں میں لگا دیا ، اور ہکلاتے ہوے گویا ہوا ، "درحقیقت میں صرف تمھیں …… الوداع کہنے کے لیے آیا ہوں۔"

 

 

" اوہ !"اینی نے ایک قدم پیچھے ہٹ کر  اپنی سرمئی آنکھوں کو گھماتے ہوئے کہا —— " اتنی مختصر سی ملاقات !"

 

          پھر اسے دیکھتے ہوئے ، ٹھوڈی اونچی کئے ، کافی لانبی اور ہلکی سی گرجدار آواز کے ساتھ   ہنسنے لگی ، اور پھر وہ پیانو کے پاس چلی گئی اور چھتری کی جھالر سے کھیلتے ہوئے ، پیانو کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی۔

 

" میں بے حد شرمندہ ہوں ، "اینی نے کہا ،  " اس طرح ہنسنے کے لیے ۔ مجھے نہیں پتہ میں نے ایسے کیوں کیا ۔ وہ صرف ایک خراب عادت ہے۔"  اور اچانک ہی اس نے اپنا پیر زمین پر مارا، اپنی اونی جیکٹ سے سفید رومال نکالا ۔   " سچ میں مجھے خود پر قابو رکھنا چاہیے ، بڑی بیہودگی ہے ، " اس نے کہا۔

 

" خدا کے لیے   ، اینی،"   ریجی نے اونچی آواز میں کہا،  " مجھے تمھارا ہنسنا پسند ہے ! میں اس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کر سکتا ———  "

 

 

         لیکن حقیقت یہ تھی ، اور وہ دونوں بھی جانتے تھے، کہ وہ ہمیشہ ایسے نہیں ہنسا کرتی تھی ؛ یہ کوئی اس کی عادت بھی نہیں تھی ۔ وہ جس دن ملے تھے، تب سے ہی ، اس پہلے لمحہ سے ہی ، کسی خاص وجہ سے ہی ریجی نے خدا سے خواہش کی تھی وہ سمجھ گیا تھا کہ  اینی نے اس کو دیکھ کر ہنسا تھا۔ کیوں ؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کہاں تھے، یا کس بارے میں باتیں کررہے ہوں ۔ وہ کتنی ہی سنجیدہ گفتگو میں مصروف ہوں —— کسی بھی قیمت پر ، جہاں تک ریجی کا تعلق تھا —- لیکن تب ہی اچانک ، بات چیت کے دوران ، اینی اس کی طرف نظر دوڑاتی ،  چہرے پر لرزش سی ہوتی ، ہونٹ ایک دوسرے سے جدا  ہوتے ، آنکھیں رقص کرنے لگتیں ، اور وہ ہنسنے لگ جاتی ۔

 

           ایک اور عجیب بات یہ تھی کہ ، ریجی کے خیال سے وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ کیوں اس طرح سے ہنسا کرتی تھی۔ ریجی دیکھ چکا تھا کیسے وہ منہ پھیر لیتی تھی، گھورنے لگتی تھی، پریشان دکھائی دیتی تھی، دونوں ہاتھوں کو ملنے لگ جاتی تھی۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ایک طویل ، نرم گرجدار آواز سنائی دیتی ، یہاں تک کے وہ روتی بھی تھی ،"میں نہیں جانتی میں کیوں ہنستی ہوں ۔"  یہ ایک معمہ تھا ……

 

         اینی نے اپنے رومال کو تہہ کیا اور پرے رکھ دیا۔ "بیٹھ جاؤ،" اس نے کہا۔  " اور سگریٹ سلگالو ، سگریٹ پیوگے نہیں ؟ تمھارے پہلو میں رکھے اس چھوٹے ڈبہ میں سگریٹ پڑے ہیں  ۔ میں بھی ایک لے لوں گی۔" ریجی نے دیا سلائی کی ڈبیہ سے ایک تیلی نکال کر اینی کے لیے سلگائی اور جب وہ آگے جھکی تو ننھے سے شعلہ کی روشنی میں اس کی انگوٹھی کا موتی چمک اٹھا۔

 

" تم کل جارہے ہو نا؟ " اینی نے پوچھا۔

 

      " ہاں ، کل ، ہمیشہ کی طرح ،"ریجی نے سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوے جواب دیا۔ یہ کیوں اتنا پریشان دکھائی دے رہا تھا ؟ ویسے 'پریشان' کوئی مناسب لفظ نہیں ہے۔

 

         " یہ ۔۔۔۔ یہ یقین کرنا تو خوفناک طور پر مشکل تھا ۔"   اس نے بات کو آگے بڑھایا۔

 

 

         " ہاں ۔۔۔۔ ہے نا؟"  اینی نے نرمی سے کہا اور آگے جھک کر سگریٹ کی راکھ راکھدان میں گرادی۔  کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی — بہت خوبصورت — اور اتنی بڑی کرسی میں وہ اتنی چھوٹی سی دکھائی دے رہی تھی۔ ریجینالڈ کا دل لطیف جذبات سے بھر گیا ، لیکن اس کی نرم آواز  سن کر گھبرا جاتا تھا۔

 

" مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے تم یہاں کئی برسوں سے رہ رہے ہو،"  اینی نے کہا۔

 

       ریجینا لڈ  نے سگریٹ کا گہرا کش لیا ۔" واپس جانے کا تصور ہی بڑا خوفناک ہے ،" اس نے کہا۔

 

       "کوُ ۔ رو ۔ کو ۔ کو ۔ کو ،" خاموشی کو چیرتی ہوئی آواز آئی۔

 

" لیکن تمھیں تو باہر رہنا پسند ہے ، ہے نا ؟"  اینی نے اپنی مو تیوں کی مالا سے کھیلتے ہوے کہا ۔ "میرے والد کل رات ہی کہہ رہے تھےکہ تم کتنے خوش قسمت ہو جو اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی جیتے ہو۔"  اور وہ ریجی کی طرف دیکھنے لگی۔  ریجینالڈ کے چہرے پر کمزور سی مسکراہٹ ابھر آئی۔  " میں خود کو اتنا قسمت والا سمجھتے ہوے ڈرتا  ہوں،"اس نے سرسری طور پر کہہ دیا۔

 

     " روو ۔ کو۔ کو ۔ کو ، "  دوبارہ وہی آواز سنائی دی۔ اور اینی بڑبڑائی ، "تمھارا مطلب ہے تنہائی ۔"

"       آوہ ، تنہائی کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے ،"  ریجینالڈ نےسگریٹ کو سبز راکھدان میں مسلتے ہوئے کہا۔   "میں کسی بھی حد تک اس تنہائی کو برداشت کر سکتا ہوں  ، بلکہ پسند کرتا ہوں ۔ دراصل اس بات کا تصور —— "  اچانک ، وہ کسی  خوف کے احساس کے تحت شرمندگی سی محسوس کرنے لگا تھا۔

 

" روو۔ کو۔ کو۔ کو ! روو ۔ کو۔ کو۔ کو !"

 

 

                  اینی اچھل کر کھڑی ہوگئی۔   " چلو اور چل کر میرے کبوتروں کو الوداع کہہ دو ،"     اس نے کہا۔  "وہ بازو والے برآمدے میں منتقل ہو گئے ہیں ۔ تمھیں کبوتر پسند ہیں ۔ ہیں نا ، ریجی ؟"

 

" بہت زیادہ ،"  ریجی نے اس کے لیے فرینچ کھڑکی کا دروازہ کھول کر بازو کھڑے ہوتے ہوے کافی پر جوش انداز میں کہا ، اور  اینی  اس کو نظرانداز کرتے ہوئے کبوتروں کی طرف ہنستی ہوئی باہر دوڑی چلی گئی۔

 

 

            کبوتروں  کے ڈربے  میں سرخ ریت پر دونوں کبوتر ایک دوسرے کے آگے اور پیچھے گھوم رہے تھے۔ ان میں سے ایک ہمیشہ ہی دوسرے سے آگے چل رہا تھا۔ ان میں سے ایک اپنی آواز میں کچھ کہتا ہوا آگے دوڑا جا رہا تھا جبکہ دوسرا سر جھکائے اس کی پیروی کر رہا تھا۔" دیکھا تم نے ،"   اینی نے وضاحت دی ، " وہ جو سامنے ہے وہ کبوتری (Mrs. Dove) ہے ۔ وہ کبوتر ( Mr. Dove) کو دیکھ کر ہنستی ہوئی آگے دوڑتی ہے اور کبوتر سر جھکائے اس کے پیچھے۔ اور کبوتر کی اس حرکت پر کبوتری مزید ہنسنے لگتی ہے۔  وہ دور بھاگتی جاتی ہے  اور اس کے پیچھے  ،"   اینی چیختی ہوئی  فرش پر اکڑوں بیٹھ گئی ،  "بیچارہ کبوتر سر جھکائے اس کے پیچھے چلا آتا ہے …… اور جانتے ہو ، بس یہی ان کی  مکمل زندگی ہے۔ وہ اور کچھ نہیں کرتے۔"    وہ کھڑی ہو گئی ،  کبوتروں کے ڈربے پر رکھے تھیلے سے کچھ زرد دانے نکالے۔

" روہڈیشیا میں رہتے ہوئے ، ریجی ، جب بھی تم انھیں تم یاد کروگے ، یقیناً وہ یہی کررہے ہوں گے …… "

 

          ریجی کی حرکات و سکنات سے ایسا کوئی اندازہ نہیں ہو سکا کہ اس نے کبوتروں کی طرف دیکھا بھی ہو یا اینی کی باتیں سنی ہوں۔ کافی کوشش کے بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ اپنا راز اینی کے حوالے کررہا تھا، " اینی ، تم کیا سوچتی ہو ، کیا تم کبھی میرا خیال کروگی ؟"   اور آخر یہ ہو گیا ۔ یہ ہوچکا ۔ اور پھر مختصر سی خاموشی کے بعد ریجینالڈ  روشن باغ ، لرزتا نیلا آسمان ، برآمدے کے ستون پر لگی بیل کے پھڑ پھڑاتے پتوں کو دیکھنے لگا تھا۔ اور اینی  ہتھیلی پر رکھے مکئی کے دانوں میں انگلی گھمائے جا رہی تھی۔ پھر اس نے آہستہ سے اپنی مٹھی بند کرلی ، اور نئی دنیا دھندلی پڑگئی جب اینی نے آہستہ سے کہا ، " اس طرح تونہیں ، کبھی نہیں۔"   لیکن اس کے پاس اتنا وقت نہیں بچا تھا  ، اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ محسوس کرتا ، اینی تیزی سے جانے لگی تھی ، اور وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے سیڑھیوں سے اتر کر ، باغ کی راہداریوں  ، گلابی گلابوں کی کمانوں کے نیچے سے ، سبزہ زار سے گذرتے ہوے چل پڑا ۔ اور وہاں ، بےفکر اگی جڑی بوٹیوں کے پیچھے اینی نے پلٹ کر ریجینالڈ کو دیکھا۔   " ایسا نہیں ہے کہ میں تمھیں پسند نہیں کرتی ، "  اینی نے کہا۔   "میں پسند کرتی ہوں تمھیں ۔ لیکن —"   اس کی آنکھیں پھیل گئیں      " اس طرح سے نہیں۔"  اس کے چہرے پر تھرتھراہٹ کے آثار نمودار ہوگئے —   "کوئی بھی تمھیں پسند کیے بغیر نہیں رہ سکتا —"  اس کے ہونٹ ایک دوسرے سے الگ ہوئے ، اور وہ خود کو روک نہیں سکی ۔ اس نے ہنسنا شروع کردیا۔    "دیکھو ، دیکھو ، " وہ چیخی ،  "تمھاری ٹائی تو دیکھو۔ اس وقت،   جب کسی انسان کو سنجیدہ ہونا چاہیے، تمھاری ٹائی مجھے اس بو۔ٹائی (bow-tie) کی یاد دلا تی ہے جو تصویروں میں بلیاں پہنی ہوتی ہیں! اوہ ، مجھے درشت ہونے پر معاف کر دیں !"

 

         ریجی نے اس کا چھوٹا سا گرم اور ملائم ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔   " معاف کرنے کا تو سوال ہی پید ا نہیں ہوتا ، " اس نے جلدی سے کہا، "کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور مجھے پورا یقین ہے اور میں جانتا بھی ہوں ، کیوں تمھیں ہنساتا ہوں ۔ کیونکہ ہر طرح سے تمھارا درجہ مجھ سے کہیں اونچا ہے  ، اور میرا وجود کچھ  مضحکہ خیز ۔ میں سمجھتا ہوں  ، اینی۔  لیکن اگر میں ——"

 

 

" نہیں ، نہیں ۔"   اینی نے زور سے ریجی کا ہاتھ دبا یا ،  "ایسا نہیں ہے ۔ یہ سب غلط ہے۔ میرا درجہ کوئی تم سب سے اونچا نہیں ہے۔ تم مجھ سے کہیں زیادہ بہتر ہو ۔ تم حیرت انگیز طور پر بے غرض ، اور… اور نرم د ل اور سادہ ہو۔ میں تو ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوں۔ تم مجھے جانتے نہیں ہو۔ میں تو بہت ہی عجیب قسم کی انسان ہوں ۔ "   اینی نے بتایا۔  "مداخلت نہ کرو ۔ اور ان سب کے علاوہ بات یہ نہیں ہے۔ بات یہ  ہے کہ۔۔"  اس نے سر کو جھٹکا دیا —    " میں کسی ایسے شخص سے شادی نہیں کر سکتی جس پر میں ہنستی رہی ہوں۔ تم ہی سوچو ۔ جس شخص کے ساتھ  میں شادی کرنا چاہوں گی۔۔۔ "   اینی نے آہستہ سے سانس لی۔ وہ ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ  کھینچ لیا، اور ریجی کی طرف دیکھتے ہوے عجیب سے ، خوابیدہ انداز میں مسکرانے لگی ۔ “ میں جس شخص سے شادی کروں گی—“

 

         اور ریجی کو لگا کوئی دراز قد ، خوبصورت ، ذہین اجنبی اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس کی جگہ لے لی ہو۔ ایسا شخص جسے ہم نے مل کر اکثر تھیٹر میں دیکھا تھا، کہیں سے اچانک اسٹیج پر آتے ہوے ، بغیر کچھ کہے ہیروئین کو اپنی بانہوں میں لیتے ہوے ، اور ایک زبردست ، طویل منظر کے بعد ہیروئین کو لیکر کہیں جاتے ہوے ……

 

          ریجی نے جھک کر  اپنے اس تخیل کی عزت افزائی کی۔  " ہاں ، میں سمجھتا ہوں ، "  اس نے بھرائی سی آواز میں کہا ۔

 " کیا تم ؟ "  اینی نے کہا۔   " اوہ ، مجھے امید ہے تم سمجھ جاؤگے ۔  ۔کیونکہ یہ ایک خوفناک احساس ہے، جس کی وضاحت بہت مشکل ہے۔ تم جانتے ہو  میں نے کبھی  ۔۔۔۔ "   وہ خاموش ہوگئی۔ ریجی نے اس کی طرف دیکھا ۔ وہ مسکرا رہی تھی۔   "ہے نا مزاحیہ ؟ " اینی نے کہا۔ "میں تم سے کچھ بھی کہہ سکتی ہوں ۔ میں شروع سے ایسی ہی ہوں۔"

 

        ریجی نے مسکرانے کی کوشش کی یہ کہنے کے لیے کہ ،  "میں خوش ہوں ۔"   لیکن اینی بولتی رہی ۔  " میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو اتنا پسند نہیں کیا ، جتنا تم کو کرتی ہوں ۔ مجھے کسی کے ساتھ اتنی  خوشی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ لیکن میں یقیناً محبت کے بارے میں وہ نہیں کہہ رہی ہوں  جو لوگ کہتے ہیں یا کتابیں کہتی ہیں۔  تم سمجھ رہے ہو ؟  اوہ ، کاش تم جان پاتے کہ میں کس قدر خوف زدہ ہوں ۔ لیکن ہم دونوں اسی طرح ہوں گے ……  جیسے کبوتر اور کبوتری ہوتے ہیں۔ "

 

            فیصلہ ہو گیا۔ ریجینالڈ کو لگا یہ آخری فیصلہ تھا ، اور اتنا صحیح کہ اسے برداشت کرنا مشکل تھا۔   " ذہن پر زیادہ بار ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ "  اس نے کہا ،  اور پلٹ کر سبزہ زار کی طرف دیکھنے لگا۔ وہاں باغبان کا چھوٹا سا گھر تھا اور قریب ہی ایک سدا بہار (ilex tree) کا درخت بھی تھا۔  چمنی کے اوپر نیلے رنگ کا شفاف دھواں نکل رہا تھا جو مصنوعی دکھائی دے رہا تھا۔  اس کے گلے میں درد ہونے لگا ! کیا وہ بات کرسکے گا ؟ اس نے انجیکشن لیا ہوا تھا ۔  اس نے سخت آواز میں کہا ، اور وہ سبزہ زار سے ہوتے ہوئے  گھر کی طرف چلنے لگا ۔ لیکن اینی اس کے پیچھے بھاگی ۔ " نہیں ، نہیں ، تم ابھی نہیں جا سکتے  ،"   اس نے التجا کی۔  "تم اس طرح کے احساسات کے ساتھ  نہیں جا سکتے۔ "    اور وہ مغموم سی ، اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے اسے گھورنے لگی۔

 

" اوہ ، ٹھیک ہے ،"   ریجی نے خود کو حرکت دیتے ہوئے کہا ۔ "میں جاؤں گا ۔۔۔۔ میں جاؤں گا۔۔۔۔۔"  اور وہ ہاتھ  ہلاتا رہا جیسے کہہ رہا ہو ، "اس الجھن سے باہر نکل جاؤ ۔"

 

" لیکن یہ بہت ناخوشگوار ہے ، "   اینی کہنے لگی ، اور پھر وہ اپنے ہاتھ باندھ کر ریجی کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

   

" یقیناً تم سمجھ سکتے ہو کہ ہمارا شادی کرنا کتنا خطرناک ہو سکتا تھا ، ہے نا ؟ "

 

" اوہ ، بالکل ، بالکل ،  "   ریجی نے تھکی ہوئی نظروں سے اینی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

 

      " کتنا غلط اور ناگوار احساس تھا ۔ میرا مطلب کہ یہ سب کبوتر اور کبوتری کے لیے تو صحیح ہو سکتا ہے ، لیکن حقیقی زندگی میں کیسے ممکن ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ سوچو ؟ "

 

" اوہ ، بالکل ،  "   کہتے ہوئے ریجی چلنے لگا۔

 

             لیکن اینی نے پھر اسے روکا ۔ اس کی آستین پکڑ کر کھینچا ، اور اس کے تعجب کی انتہا باقی نہ رہی جب اس نے ، اس بار بجائے ہنسنے کہ کسی چھوٹی سی بچی کی طرح رونی صورت بنالی تھی۔

 

" پھر ، اگر آپ سمجھتے ہیں تو کیوں اتنے نا خوش ہو ؟"اس نے روتے ہوئے کہا۔  "اتنے خوفزدہ کیوں ہو ؟ اتنی ناگواری کیوں ؟  "

 

      ریجی نے گلا صاف کیا ، ہاتھ  ہلایا۔   " میں کچھ نہیں کرسکتا ،  " اس نے کہا ،  "میں ایک صدمہ سے گذر چکا ہوں ۔ اگر میں خود کو روک لوں، میں اس قابل ہوجاؤں گا ۔۔۔۔"

" تم کیسے خود کو منقطع کرنے کی بات کر سکتے ہو؟  " اینی نے حقارت آمیز انداز میں کہا  اور اپنا پیر زمین پر دے مارا ؛ اینی کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔  " تم کیسے اتنے ظالم ہو سکتے ہو؟  میں تمھیں اس وقت نہیں جانے دوں گی، جب تک مجھے یقین نہ ہوجائے کہ تم اتنے ہی خوش ہو جتنے اس وقت تھے جب تم نے مجھ سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔   یقیناً تمھیں سوچنا چاہیے ، اور یہ بہت آسان ہے۔ "

 

         لیکن ریجینالڈ کو یہ سب اتنا آسان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اسے تو یہ سب ناممکن حد تک مشکل دکھائی دے رہا تھا ۔

 

" اگر میں تم سے شادی نہیں کرسکی تو کیسے جان پاؤں گی کہ تم دور جا چکے ہو ، وہ تمھاری عجیب سی ماں کو خطوط لکھتے ہوئے ، اور یہ کہ تم تکلیف میں ہو ، اور یہ سب میرا قصور ہے ؟  "

 

" وہ تمھاری غلطی نہیں ہے۔ ایسا مت سو چو ۔ یہ صرف قسمت کی بات ہے ۔  "  ریجی نے اس کا ہاتھ اپنی آستین سے الگ کیا اور چوم لیا۔   "مجھ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، میری چھوٹی سی ، پیاری اینی ،  "  اس نے انتہائی نرمی سے کہا۔ اور اس بار وہ تقریباً  دوڑتا ہوا ، گلابی کمانوں اور باغ کے راستوں سے ہوتا ہوا چلا گیا۔

 

" روو ۔ کو۔ کو۔ کو! "  برآمدہ سے آوازیں آنے لگیں۔ اور باغ سے "ریجی  ، ریجی ۔  "

 

         وہ رکا اور پلٹ کر دیکھا۔ لیکن جب اینی نے ریجی کا ڈرا ، سہما اور الجھن سے بھرا چہرہ دیکھا تو اپنی ہنسی روک نہیں سکی۔

 

" واپس آجاؤ ، مسٹر کبوتر، "    اینی نے کہا۔ اور ریجینالڈ  آہستہ آہستہ سبزہ زار پر چلتا ہوا واپس آگیا۔

 

 

 Original Title: Mr. and Mrs. Dove

Written by:

Katherine Mansfield (14 October 1888 – 9 January 1923) was a New Zealand writer, essayist and journalist, widely considered one of the most influential and important authors of the modernist movement. Her works are celebrated across the world, and have been published in 25 languages.

          

www.facebook.com/groups/AAKUT/

                

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق