گی دے موپاساں کا افسانہ : چاندنی (Moonlight)
عالمی ادب کے اردو
تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 221 :
چاندنی
تحریر: گی دے موپاساں
(فرانس)
مترجم : حمزہ حسن شیخ
(اسلام آباد پاکستان)
میڈم جولی روبیئر اپنی
بڑی بہن ، میڈم ہنریٹ لیٹور کا انتظار کر رہی تھی، جوابھی ابھی سویئزرلینڈ سے لوٹی
تھی۔ لیٹور خاندان تقریبا پانچ ہفتے پہلے ہی اپنا گھر چھوڑ گیا تھا۔ میڈم ہنریٹ نے
اکیلے اپنے خاوند کو واپس اپنی جاگیر کلوادوز کی اجازت دے دی تھی، جہاں کچھ کاروبار
کو اس کی توجہ کی ضرورت تھی اور وہ اپنی بہن کے ساتھ کچھ دن گزارنے کے لیے پیرس
آیا تھا۔ رات ہو گئی۔ ایک خاموش کمرے میں، میڈم روبیر غائب دماغی کے ساتھ ملجگی
اندھیرے میں کچھ پڑھنے میں مصروف تھی ، جب بھی وہ کوئی آواز سنتی تو اپنی آنکھیں
ضروراٹھاتی۔
آخرکار اس نے دروازے
پر گھنٹی کی آواز سنی اور اس کی بہن نمودار ہوئی جس نے ایک سفرانہ چوغہ پہنا ہوا
تھا اور بغیر کسی روایتی سلام دعا کے، انہوں نے بہت ہی محبت کے ساتھ ایک دوسرے کو
گلے لگا لیا، صرف چند لمحوں کے لیے ایک دوسرے کو جدا کرتے ہوئے تاکہ وہ ایک دوسرے
سے دوبارہ گلے لگا سکیں۔ پھر انہوں نے اپنی صحت ، اپنے اپنے خاندانوں اور ہزاروں
دوسری چیزوں کے بارے میں باتیں کیں۔ گپ شپ لگاتے ، جلدی میں بال جھٹکاتے ، ٹوٹے
ہوئے جملوں کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتی گئیں جبکہ میڈم ہیرنٹ اپنا ہیٹ
اور نقاب اتار رہی تھی۔
اب خاصا اندھیرا ہو چکا
تھا۔ میڈم روبیر نے ایک لیمپ کے لیے گھنٹی بجائی اور جونہی یہ لایا گیا ، اس نے
اپنی بہن کے چہرے کا جائزہ لیا اور ایک بار پھر اس کا جی چاہا کہ وہ اپنی بہن کو
گلے لگا لے۔ لیکن اس کے خود کو روک لیا ، خوفزادہ سی ہوئی اور اس کے ظاہری وجود پہ
حیران رہ گئی۔
میڈم لیٹور کی
کنپٹیوںپہ، سفید بالوں کی دو بڑی لٹیں تھیں۔ جبکہ اس کے باقی سارے بال، بہت چمکدار
، سیاہ فام کالے تھے؛ لیکن وہاں اکیلے، ا س کے سر کے دونوں جانب ، چاندی کی دو
لہریں سی تیرتی نظر آتیں جو فورا ہی اپنے اردگرد پھیلے ہوئے سیاہ جنگل میں گم ہو
تی دکھائی دیتیں۔ وہ کم و پیش صرف چوبیس سال کی تھی اور یہ تبدیلی اس میں یک لخت
آئی تھی جب وہ سوئیزرلینڈ سے لوٹی تھی۔
بغیر کسی حرکت کے، میڈم
روبیر نے حیرانی کے ساتھ اس کو دیکھا ، اس کی آنکھوں میں آنسو تیر آئے کہ ہو نہ
ہو اس کی بہن کا کسی ناگہانی اور پراسرار مصیبت سے سامنا ہو ا ہے۔ اس نے پوچھا؛
’’کیا بات ہے، ہنریٹ؟‘‘
ایک اداس چہرے کے ساتھ
مسکراتے ہوئے، ایک ایسی مسکراہٹ جو کہ بیمار دل کے ساتھ ہو، دوسری نے جواب دیا:
’’کیوں، کچھ بھی نہیں،
میں تم کو یقین دلاتی ہوں۔ کیا تم نے میرے سفید بال دیکھ لئے ہیں؟‘‘ لیکن میڈم
روبیر نے تیزی کے ساتھ اس کو کندھوں سے تھام لیا اور اس پر کھوجتی ہوئی نگاہیں
ڈالتے ہوئے دوبارہ پوچھا:
’’کیا مسئلہ ہے تمہارے
ساتھ ؟ مجھے بتائو تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ اور اگر تم نے مجھ سے جھوٹ بولا، مجھے
بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔‘‘
اب وہ دونوں آمنے
سامنے تھیں اور میڈم ہنریٹ ، جو بالکل ایسے دکھائی دے رہی تھیں جیسے وہ بے ہوش
ہونے والی ہو، اس کی جھکی ہوئی آنکھوں کے کونوں پہ موتیوں کی طرح آنسو ابھر آئے
تھے۔
اس کی بہن نے دوبارہ
بات شروع کی:
ـ’’کیا ہوا ہے تمہیں؟ کیا
مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ مجھے جواب دو۔۔!‘‘پھر ڈوبی ہوئی آواز میں، دوسری نے
بڑبڑاتے ہوئے کہا:
’’میرا۔۔۔ میرا ایک
محبوب ہے۔‘‘اور اپنا چہرہ چھوٹی بہن کے کندھے میں چھپاتے ہوئے ، اس نے آہیں
بھریں۔
پھر، جب اسے تھوڑا سا
سکون آیا اور اس کی چھاتیوں کے ابھار کچھ دھیمے پڑ گئے ، اس نے خود کو اس سے جدا
کرنا شروع کر دیا، جیسے کہ وہ اپنا راز اس کے سامنے اگلنا چاہتی ہو اور غموں کے اس
غبار کو ایک ہمدردانہ دل میں منتقل کرنا چاہتی ہو۔
دونوں عورتیں ایک دوسرے
کے ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئے ، ایک صوفے کی جانب چلی گئیں جو کہ کمرے کے ایک
اندھیرے کونے میں رکھا تھا ۔ وہاںوہ ایک دوسرے میں کھو گئیں۔چھوٹی بہن نے اپنا
بازو بڑی بہن کی گردن میں حمائل کیا اور اسے اپنے دل کے قریب کرتے ہوئے اس کو غور
سے سننے لگی۔
’’آہ! میں جانتی ہوں
کہ میرے لیے کوئی بہانہ نہ تھا؛ میں خود کو بھی نہ سمجھ سکی اور اس دن کے بعد، میں
محسوس کرتی ہوں جیسا کہ میں پاگل تھی۔ میری جان،اپنے لیے بہت محتاط رہو۔۔۔ بہت ہی
محتاط۔۔۔!!! اگر تم صرف یہ جان لو کہ ہم کتنے کمزور ہیں، کتنے جلدی ہم گھائل ہو
جاتے ہیں اور محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اس میں بہت ہی کم وقت لگتا ہے، بہت ہی
کم وقت، بہت ہی کم۔۔۔ یہ درد کا ایک لمحہ ہے، دکھ کے ان اچانک احساسات میں سے ایک
جو آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، آپ پہ ساری آرزویں کھل جاتیں ہیں، آپ کی
بانہیں، محبت کرنے کے لیے، کسی چیز کے پیار میں کھونے کے لیے جس سے کچھ خاص لمحوں
میں ہم کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔
’’تم میرے خاوند کو
جانتی ہو، اور تم یہ بھی جانتی ہو کہ مجھے اس سے کتنا پیار ہے ؛ لیکن وہ بہت بڑی
عمر کا اور سمجھدار ہے اور وہ کبھی بھی ایک عورت کے دل کے نرم جذبات کی لہر کو
محسوس نہیں کر سکتا۔ وہ ہمیشہ ہی ایک جیسا رہا ہے، ہمیشہ اچھا، ہمیشہ مسکراتا ہوا،
ہمیشہ مہربان اور ہمیشہ ہی کامل۔۔۔اوہو! کیسے میں کبھی کبھار یہ خواہش کرتی کہ وہ
مجھے اپنی بانہوں میں گرمجوشی کے ساتھ لپیٹ لے، کہ وہ مجھے اپنے سست اور مدہوش
بوسوں کے ساتھ گلے لگا لے جو کوئی بھی دو وجودوں کو ایک کر دیتے ہیں، جو ایک گونگے
اعتماد کی طرح ہوتا ہے!کس طرح میں نے خواہش کی تھی کہ وہ بیوقوف تھے ، بالکل
کمزور، تاکہ اس کو میری ضرورت رہے ، میرے پیار کی اور میرے آنسووں کی۔۔۔!!!
’’یہ سب کچھ بہت ہی
احمقانہ محسوس ہوتا ہے؛ لیکن ہم عورتیں اس طرح ہی ہوتی ہیں۔ ہم اس مسئلے میں کیا
کر سکتی ہیں؟‘‘
’’اور ابھی بھی اس کو
دھوکہ دینے کا کوئی بھی خیال میرے دماغ میں نہیں ہے۔ اور اب یہ محبت کے بغیر، کسی
وجہ کے بغیر اور کسی چیز کے بغیر ہو چکا ہے، صرف وصرف اس وجہ سے کیونکہ ایک رات
جھیل لوسرنیں پر چاند چمکا ہے۔
’’سارے مہینے کے دوران،
جب ہم ایک ساتھ سفر کر رہے تھے، میرے خاوند نے اپنی دھیمی بے پروائی سے میرے جوش و
جذبے کو بے حس کر دیااور میرے شاعرانہ جوش و جذبے کو بجھا کے رکھ دیا۔ جب ہم سورج
ابھرتے وقت، پہاڑوں سے نیچے راستوں پر اتر رہے تھے، جب کہ چار گھوڑے جانفشانی کے
ساتھ ایک ساتھ سرپٹ دوڑ رہے تھے، ہم نے صبح کی شفاف دھندلاہٹ میں، وادیاں، جنگل،
ندیاں اور گائوں دیکھے، میں نے خوشی سے اپنے ہاتھوں سے تالیاں بجائیں اور اسے کہا:
’’جان! یہ سب کتنا پیارا نظارہ ہے! مجھے ایک بوسہ دو!ابھی مجھے ایک بوسہ کرو!ــ‘‘اس نے صرف سرد مہر ہمدردانہ
مسکراہٹ کے ساتھ اتنا سا جواب دیا:’’اس بات کی کوئی وجہ نہیںکہ ہم کیوں ایک دوسرے
کو پیار کریں ، صرف اس وجہ سے کہ تم کو یہ نظارہ پسند آ گیا ہے۔‘‘
’’اور اس کے الفاظ نے
مجھے اور میرے دل کو منجمد کر دیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب لوگ ایک دوسرے
سے محبت کرتے ہیں، ان کو پہلے سے زیادہ محبت کی تبدیلیوں کو محسوس کرنا چاہیے جب
ایسے خوبصورت مناظر ان کے اردگرد موجود ہوں۔
’’دراصل، میرا من شاعری
کے لیے مچل رہا تھا جس کا اس نے مجھے اظہار نہیں کرنے دیا۔ میں بالکل ایک بوائیلر
کی طرح تھی جو کہ بھاپ سے بھرا ہوتا ہے اور ساحرانہ طور پر بند ہوتا ہے۔
’’ایک شام (ہم فلولین
کے ایک ہوٹل میں چار دن سے ٹھہرے ہوئے تھے)رابرٹ، بیماری کے باعث اپنے شدید سر درد
کی وجہ سے ، رات کے کھانے کے فورا بعد جلدی ہی سونے کے لیے چلا گیااور میں بالکل
اکیلی واک کے لیے جھیل کنارے چلی گئی۔
’’یہ ایک ایسی رات تھی
جس کے بارے میں ہم پریوںوالی کہانیوں میں پڑھتے ہیں۔ آسمان کے بالکل پیچ میں،
پورا چاند کھلا ہوا تھا۔ اونچے اونچے پہاڑ، اپنے برفیلے اوج کے ساتھ ایسے دکھائی
دیتے تھے جیسے انہوں نے چاندی کے تاج پہنے ہوں؛ جھیل کے پانیوں میں، ننھی چمکتی لہروں
کے ہلکورے چمک رہے تھے۔ ہوا بہت خوشگوار تھی ، ایک چبھنے والی گرمی کے ساتھ جو
ہمیں کمزور کر دیتی ہے جبکہ ہم بظاہر کسی وجہ کے بغیر کسی چیز کے شدید زیر اثربے
ہوش ہونے والے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیسا احسا س ہے، ایسے لمحوں میں، دل کیسے ڈھرکتا
ہے !اس کی کتنی تیز ڈھرکن ہوتی ہے اور اس کے جذبات کتنے شدید ہوتے ہیں!
’’میں نیچے گھاس پہ
بیٹھ گئی اور اس وسیع ، اداس اور دل موہ لینے والی جھیل کو دیکھا اور ایک عجیب سا
خیال میرے ذہن میں آیا۔ محبت کی پیاس کی نہ بجھنے والی چاہ نے مجھے جکڑ لیا، یہ
میری زندگی کی غمگین سستی کے خلاف میرے رویے کی تبدیلی تھی۔ کیا! یہ میری قسمت میں
کبھی نہیں ہو گا کہ میں بانہوں میں بانہوں لے کر گھوموں، ایک ایسے شخص کے ساتھ جس
سے میں محبت کرتی ہوں، اس جھیل کنارے کے ساتھ ساتھ جس کو چاند کی کرنیں چومتی ہیں۔
کیا میں اپنے لبوں پہ کبھی بھی گہرے ، دل کش اور مدہوش کر دینے والے بوسوں کو
محسوس نہیں کر سکتی؟جن کا تبادلہ محبت کرنے والے لوگ راتوں کو کرتے ہیں ، رات جسے
خدا نے اسی پیار اور چاہت کے لیے بنایا ہے۔ کیا میں کبھی بھی گرم جوشی کو، گرمیوں
کی راتوں کو چاندنی کے سایوں میں پگھلا دینے والی محبت کو نہیں جان پائوں گی؟
’’اور میں ایک پاگل
عورت کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔ مجھے اپنے پیچھے کچھ چیز حرکت کرتی محسوس ہوئی۔
وہاں ایک
شخص کھڑا مجھے گھور رہا
تھا۔ جب میں نے اپنا چہرہ پیچھے کی جانب موڑا، وہ مجھے پہچان گیا اور میری جانب
بڑھتے ہوئے کہا:
’’میڈم، کیا آپ رو رہی
ہیں؟‘‘
’’یہ ایک نوجوان بیرسٹر
تھا جو اپنی ماں کے ساتھ کہیں جا رہا تھا اور جیسے ہم اکثر ملتے رہتے تھے۔ اس کی
آنکھیں متواتر مجھے دیکھ رہی تھیں۔
’’میں بہت گھبرا گئی
کیونکہ مجھے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ میں اسے کیا جواب دوں یا اس صورت حال کے
بارے میں کیا کہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں بیمار ہوں۔ ‘‘
’’وہ میرے پہلو میں ،
عزت دار اور عام سے انداز میں ساتھ ساتھ چلنے لگا اور میرے ساتھ گفتگو شروع کر دی
کہ میں نے اس سفر کے دوران کیا کیا دیکھا تھا۔ جو سب کچھ میں نے محسوس کیا تھا ،
اس نے وہ سب الفا ظ میں ترجمہ کر دیا؛ جو جو سنسنی مجھے اس سفر میں ملی، وہ اسے
مکمل طور پہ سمجھ گیا،مجھے سے بھی زیادہ اچھے انداز میں ، جو میں نے خود محسوس کی
تھی۔ اور بالکل اچانک ہی ، اس نے الفرئڈ ڈی موزے کے کچھ اشعارپڑھے ۔ ایک ناقابل
بیان جذبے کے زیر اثر ، مجھے اپنا دم گھٹا ہوا محسوس ہوا۔ مجھے ایسا دکھائی دیا
جیسے کہ سارے پہاڑ، جھیل، چاندنی ، سب کچھ ان تمام ناقابل بیان خوبصورتی کے بارے
مجھ سے گا رہی تھیں۔
’’اور ایسا ہی ہوا،
مجھے نہیں معلوم کیسے، مجھے نہیں معلوم کیوں، ایک قسم کے ہذیان میں ہی سب کچھ ہو
گیااور اس کے لیے۔میں نے اسے دوبارہ اس کے رخصت کی صبح تک نہیں دیکھا ۔ اس نے مجھے
اپنا کارڈ دیا!ـ‘‘
اوراپنی بہن کی بانہوں
میں ڈوبتے ہوئے، میڈم لیٹور آہوں میں ڈوب گئی جو کہ بعد میں چیخوں میں بدل گئی۔
پھرمیڈم روبیر نے
سنجیدہ اور ٹھہری آواز میں ، بہت نرمی سے اسے کہا:
’’دیکھو بہن، اکثر
اوقات یہ مرد نہیں ہوتا جس سے ہم محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں لیکن یہ باذات خود
محبت ہوتی ہے ۔ اور تمہاری حقیقی محبوب ، اس رات کو چاندنی تھی۔‘‘
(انگریزی سے اردو
ترجمہ)
English Tilte: Moonlight
Written by:
Guy de Maupassant ( 5 August 1850 – 6 July 1893) was a French
writer, remembered as a master of the short story form, and as a representative
of the naturalist school of writers, who depicted human lives and destinies and
social forces in disillusioned and often pessimistic terms.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment