انتون چیخوف کا افسانہ : دل لگی (A Joke)
عالمی ادب کے اردو
تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 179: دل
لگی
تحریر: انتون چیخوف
(روس)
مترجم: محمد محمود
(اسلام آباد، پاکستان)
یہ سردیوں کی ایک روشن
دوپہر تھی ۔۔ ٹھنڈک سے جما دینے والے برف کے گالوں نے نادیہ کی کنپٹی پر بل کھاتے
بالوں کو چاندی کی طرح ایک چادر اُڑھا دی تھی۔ جس نے اس کے حسین چہرے کو ناک کے
نیچے تک ڈھک دیا تھا۔ وہ برف کی چوٹی پر میرا ہاتھ پکڑے سورج کی ان کرنوں کو دیکھ
رہی تھی، جو برف سے ڈھکی چٹان سے ایک منشور کی مانند منعکس ہورہی تھیں۔ ہمارے
نزدیک ہی سرخ ربن سے سجی ایک برف گاڑی کھڑی تھی۔
"آؤ برف گاڑی کی
سواری کرتے ہیں۔"
ندیزادہ پیٹرونا نے
نادیہ سے کہا! "صرف ایک دفعہ! میں یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں چوٹ نہیں لگے
گی۔"
مگر وہ تو اس خیال سے
ہی خوفزدہ تھی۔ اس کو تو برف کی چوٹی سے ڈھلوان کا آخری سرا ایک اندھے کنوئیں کی
مانند معلوم ہوتا تھا۔ اس میں ایسا کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی اور نیچے دیکھتے ہوئے
تو اس کی سانسیں ہی رک جاتی تھیں، اگر اس کو یہ فاصلہ اُڑ کر طے کرنا پڑتا تو شاید
اس کی تو جان ہی نکل جاتی۔
"میں تم سے التجا
کرتا ہوں۔" میں نے کہا۔ "ڈرو مت! یہ تو سرا سر بزدلی ہے۔"
بالآخر نادیہ نے میری
بات مان لی مگر اس کے چہرے سے موت کا خوف عیاں تھا۔ میں نے کپکپاتی نادیہ کو برف
گاڑی میں بیٹھایا اور اپنے بازوؤں سے اس کو سہارا دیتے ہوئے گاڑی کو برفانی
ڈھلوان سے ایک زور دار دھکا دے دیا۔ برف گاڑی ایک زناٹے کے ساتھ نیچے جانے لگی۔
ٹھنڈی اور تیز ہوا کے تھپیڑے ہمارے چہروں سے ٹکرانے لگے۔ ہمارے کان سائیں سائیں
کررہے تھے اور ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ہوا کے شدید جھٹکے ہماری گردن ہی نہ
توڑ ڈالیں۔ ہمیں ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی دیو سامنے دوڑ سامنے سے دوڑتا ہوا ہمیں
جہنم کی طرف دھکیل رہا ہو۔ اردگرد کی چیزیں نظروں کے سامنے دوڑتی ہوئی محسوس ہورہی
تھیں، ایسا لگتا تھا کہ بس اب مرے کہ تب مرے۔ اس دوران میں نے زیرِ لب آہستہ سے
سرگوشی کی۔
"نادیہ! مجھے تم
سے محبت ہے۔"
اب برف گاڑی کی رفتار
کم ہورہی تھی، ہوا کے تھپیڑے بھی تھم رہے تھے اور ہماری سانسیں بھی بحال ہونے لگی
تھیں۔ آخرکار ہم سطح زمین پر پہنچ گئے۔ میں نے نادیہ کو دیکھا تو اس کو سانس لینے
میں دشواری ہورہی تھی اور وہ تقریباً ایک زندہ لاش لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے گاڑی
سے نکلنے میں اس کی مدد کی۔ خوف سے کھلی ہوئی آنکھوں سے اس نے میری طرف دیکھتے
ہوئے کہا، "میری توبہ جو میں دوبارہ برف گاڑی میں بیٹھوں۔
میری تو جان ہی نکل گئی
تھی۔"
کچھ ہی دیر میں اس نے
اپنے آپ کو سنبھالا اور میری طرف پر تجسس نگاہوں سے دیکھا اور سوچنے لگی کہ آیا
وہ سرگوشی میں نے کی تھی یا یہ اس کا اپنا وہم تھا۔
اس دوران میں سگریٹ کے
کش لگاتا ہوا اپنے دستانوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔
نادیہ نے میرا بازو
پکڑا اور ہم دونوں کافی دیر تک برفانی چوٹی کے ساتھ ساتھ چہل قدمی کرتے رہے، مگر
اس پہیلی نے اس کو بے چین کیے رکھاکہ آیا وہ الفاظ اس نے واقعی سنے تھے یا نہیں ؟
۔۔۔۔ وہ ہاں اور نہ کی تکرار میں اُلجھی رہی۔ آخر یہ سوال اس کے لیے زندگی اور
موت کا مسئلہ بن گیا اور سوال تھا بھی بہت اہم ۔
نادیہ مایوسی اور بے
چینی کی کیفیت میں چبھتی ہوئی نگاہوں سے میری طرف دیکھتی رہی۔ وہ ہاں ہوں میں بات
کرتے ہوئے اس انتظار میں تھی کہ میں کیا جواب دیتا ہوں۔ میں اس کے چہرے کو دیکھ کر
لطف اندوز ہورہا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی، پر کہہ نہیں
پارہی تھی، شاید اس کو الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے۔
پھر اچانک ہی اس نے مجھ
سے نظریں چراتے ہوئےکہا: "پتہ ہے کیا؟"
میں نے کہا :
"بتاؤ"
"آؤ دوبارہ برف
گاڑی کی سواری کریں۔"
ہم دونوں دوبارہ
ڈگمگاتے قدموں سے پھر پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے اور میں نے پھر خوف سے زرد، کپکپاتی
نادیہ کو برف گاڑی میں بٹھایا، اب ہم دوبارہ اتھاہ گہرائی کی طرف محوئے پرواز تھے۔
طوفانی ہوا پھر پوری شدت سے ٹکرا رہی تھی اور جب ہماری گاڑی فراٹے بھر رہی تھی تو
میں نے پھر سرگوشی کی: "نادیہ مجھے تم سے محبت ہے۔"
گاڑی رکنے پر نادیہ نے
پہاڑی کی چوٹی پر ایک نظر ڈالی اور مڑ کر میرے جذبات سے عاری سپاٹ چہرے کو دیکھنے
لگی اس کی بے قراری اور بے چینی نہ صرف اس کے چہرے سے عیاں تھی بلکہ اس کا دوپٹہ
اور بکھری زلفیں بھی اس کی حیرانی کا پتہ دے رہی تھیں کہ آیا وہ الفاظ واقعی اس
نے سنے تھے یا یہ اس کی خام خیالی تھی؟
اس غیر یقینی کی کیفیت
نے اُس معصوم لڑکی کے صبر کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ بس اب رو
پڑے گی۔
میں نے اس سے کہا:
"بہتر ہوگا کہ ہم گھر چلے جائیں۔"
"ہاں! مگر۔۔۔۔۔
مجھے یوں چوٹی سے نیچے آنا اچھا لگا۔"
وہ شرماتی ہوئی بولی۔
"کیا ہم پھر سے سلائیڈ لیں؟"
اسے سلائیڈ لینا پسند
تھا مگر پھر بھی وہ پچھلی بار کی طرح گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے کپکپارہی تھی اور
خوف سے اس کی سانسیں رکی جارہی تھیں۔
اب ہم تیسری دفعہ پہاڑ
سے اتر رہے تھے اس دفعہ نادیہ کی نظر یں میرے ہونٹوں پر جمی تھیں۔ مگر میں نے اپنے
منہ پر رومال رکھ کر کھانسنے لگا اور جیسے ہی ہم ڈھلوان کے بیچوں بیچ پہنچے تو میں
نے پھر آھستہ سے سرگوشی کی۔ "نادیہ مجھے تم سے محبت ہے!"
بالآخر راز راز ہی
رہا۔ نادیہ اب خاموش تھی مگر اس کی روح بے قرار تھی۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی۔
خیر میں نے اسے گھر چھوڑا مگر سارے راستے وہ خود کو یقین دلاتی رہی کہ میں
باآوازِ بلند اظہارِ محبت کروں گا۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ ہوا سرگوشی کرے
اور میں بھی یہ نہیں چاہتا تھا۔
اگلی صبح مجھے نادیہ کا
رقعہ ملا۔۔ لکھا تھا۔
"اگر تم آج
سلائیڈ کے لیے جاؤ تو مجھے بھی ساتھ لے لینا۔"
اُس دن کے بعد یہ ہمارا
روز کا معمول بن گیا، اور جب بھی ہم سلائیڈ کے بیچوں بیچ ہوتے تو میں پھر سرگوشی
کردیتا کہ "نادیہ! مجھے تم سے پیار ہے۔"
جلد ہی نادیہ کو ان
لفظوں کی سرگوشی کا ایسا نشہ سا ہوگیا کہ اب وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھی۔
مگر ایسا نہیں تھا کہ اب وہ سلائیڈ سے خوفزدہ نہیں تھی ۔ہر بار نیچے آتے ہوئے وہ
اُن لفظوں کے سحر میں ہوتی اور ہر بار میں اور ہوا ہی مشکوک ٹھہرتے۔ نادیہ کے لیے
یہ ایک پہیلی ہی رہی اور بظاہر لگتا کہ اب اس کو اس بات کی پروا ہی نہیں تھی کہ
کون یہ سرگوشی کررہا ہے۔ میں یا ہوا؟۔وہ تو بس ان لفظوں کے سحر میں مدہوش رہنا
چاہتی تھی۔
ایک دن میں اکیلا ہی
اسکیٹ گراؤنڈ کی طرف چل پڑا، وہاں لوگوں کی بھیڑ میں نادیہ مجھے تلاش کرتے ہوئے
اکیلے ہی آہستہ آہستہ چوٹی پر چڑھ رہی تھی۔ وہ شاید اکیلے ایسا کرتے ہوئے ڈر رہی
تھی اور خوف سے اس کا چہرہ سفید پڑگیا تھا، جیسے وہ کسی تختۂ دار کی طرف بڑھ رہی
ہو، بہرحال وہ لڑکھڑاتی ، ڈگمگاتی نیچے دیکھے بغیر چوٹی پر پہنچ گئی۔
اس نے یہ تہیہ کر لیا
تھا کہ اکیلے ہی سلائیڈ کرکے دیکھتی ہے کہ آیا وہ مدھرے الفاظ سنائی دیتے ہیں یا
نہیں؟
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے
میں نے دیکھا کہ خوف اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور خود
کو گاڑی اور ڈھلوان کے سپرد کردیا۔
سلائیڈ اپنی پوری رفتار
سے زمین کی طرف بڑھنے لگی۔ آیا نادیہ کو وہ سرگوشی سنائی دی یا نہیں یہ تو مجھے
نہیں پتا۔میں نے صرف اتنا دیکھا کہ جب وہ گاڑی سے اتر رہی تھی تو بہت تھک چکی تھی
اور اب بھی اسی بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔ شاید تنہا سواری کے خوف نے نادیہ کو
کچھ سننے، سمجھنے کی صلاحیت ہی سے محروم کردیا تھا۔
پھر مارچ کا مہینہ
آگیا۔۔۔ سورج کی مشفق کرنیں بہار کی آمد کا پتا دے رہی تھیں۔۔۔۔ برفانی چوٹی کی
سفید چادر اب اتر چکی تھی اور اس کی خوبصورتی بھی ماند پڑچکی تھی۔ برف پر پھسلنے
کا موسم اب ختم ہوچکا تھا۔ اب نہ وہ تیز سرد ہوائیں تھیں اور نہ ہی بے چاری نادیہ
کو وہ میٹھی سرگوشی سنائی دے سکتی تھی اور میں بھی جلد ہی پیٹرس برگ جانے والاتھا۔۔۔۔۔
شاید ہمیشہ کے لیے ۔۔
اپنی روانگی سے دودن
پہلے میں ایک شام گھر کے لان میں خاموش بیٹھا تھا۔ ہوا ابھی بھی ٹھنڈی تھی گھاس کے
کناروں پر اب بھی برف کے گالے جمے تھے۔ نادیہ اور میرے گھروں کو جدا کرنے والے
جنگلے کی سلاخیں کافی ٹھنڈی تھیں۔ فضا میں بہار کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔
کوے کائیں کائیں کرتے
اپنے گھونسلوں میں لوٹ رہے تھے۔ میں اٹھا اور جنگلے کے پاس کافی دیر کھڑا نادیہ کے
گھر کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اسی اثنا میں نادیہ گھر کے لان میں آئی اور ایک لمبی
انگڑائی لیتے ہوئے افسردہ نظروں سے آسمان میں کہیں دور دیکھنے لگی۔
بہار کی یخ بستہ ہوائیں
اس کے چہرے کو مزید غمگین بنارہی تھی۔ وہ شاید خیالوں ہی خیالوں میں وہ وقت یاد
کررہی تھی۔ جب یہ خون جمادینے والی سرد ہوائیں ایک طوفان کی طرح ہمارے چہروں سے
ٹکرائیں اور پھر نادیہ کو وہی پیار بھری سرگوشی سنائی دیتی تھی۔ اسی اداسی کے عالم
میں آنسو کا ایک قطرہ اس کی آنکھ سے ٹپکا اور زمین میں جذب ہوگیا۔ اس نے اپنے
دونوں ہاتھ اس طرح فضا میں بلند کردیے جیسے وہ دعاگو ہو کہ اے کاش! وہ مدبھری
سرگوشی ایک دفعہ پھر اس کانوں سے ٹکرا جائے۔
سرگوشی کی منتظر نادیہ
کے لیے میں نے پھر آہستہ سے کہا:
"نادیہ! مجھے تم
سے محبت ہے۔"
یہ سنتے ہی نادیہ نے بے
ساختہ چیخ ماری ۔ خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی ۔۔۔۔ اس نے باد بہار کو گلے لگانے
کے لیے اپنے ہاتھوں کو پھیلا دیا۔
میں اپنا سامان پیک
کرنے گھر کے اند ر چلا گیا۔۔
اب تو یہ سب ماضی کی
یادیں ہیں۔ نادیہ کی شادی ہوچکی ہے۔ شادی میں اس کی مرضی شامل تھی یا نہیں اس سے
کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔ وہ اب ایک لاٹ صاحب کی سیکرٹری کے فرائض انجام دیتی ہے،
اس کے تین بچے ہیں۔ اور یہ کہ ہم کبھی برف پر ایک ساتھ سلائیڈ کرتے تھے، اسے آج
بھی یاد ہے کہ ہواؤں نے کبھی سرگوشی میں اسے محبت کا پیغام دیا تھا۔ مگر یہ سب تو
ماضی کی حسین یادوں کا حصہ ہیں، جو اسے بہت عزیز ہیں۔
اب جب کہ میں بوڑھا
ہوچکا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں نے وہ پیار بھری سرگوشی کیوں کی تھی، اس شرارت کا
مقصد کیا تھا۔۔۔۔
(انگریزی سے اردو
ترجمہ)
English Title: A Joke
Written by:
Anton Chekhov
(1860-1904), Russian physician, renowned short story author and playwright.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment