خوشونت سنگھ کا افسانہ : انٹرویو (The Interview)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر
462 : انٹرویو
تحریر : خوش ونت سنگھ (بھارت)
مترجم : صفدر سحر(گھڑی اختیار خان، رحیم یار خان)
دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی، قبل اس کے کہ میں اندر
آنے کا کہتا، دروازہ کھلا اور استقبالیہ پر موجود لڑکی آہستگی سے کمرے میں داخل
ہوئی، دروازہ بند کیا اور میرے قریب آکر سرگوشی کرتے ہوئے کہا: "سر! کوئی
مسٹر ٹاور ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔"
"کیا
انہوں نے ملنے کے لیے وقت لے رکھا ہے۔"
"نہیں
سر! نہ ہی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کس سلسلے میں ملنا چاہتے ہیں، بس ان کا اصرار
ہے کہ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ کیا میں کہہ دوں کہ آپ مصروف ہیں۔"
دستک ہوئے بغیر دروازہ ایک بار پھر کھلا۔ بے ڈول اور
بھاری جسامت کا حامل ایک شخص جس نے ڈھیلی قمیض پہن رکھی تھی، اندر داخل ہوا۔۔۔
بھورے بالوں والی ایک ادھیڑ عمر عورت، جس کی عمر 40 سال کے لگ بھگ ہوگی اور ایک
چھوٹی سی بچی بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آگئے۔
"ہیلو!
غالباً آپ صبح کی کافی پینے کا پروگرام بنارہے ہیں۔ ہمیں آپ کے ساتھ کافی پی کر
بڑی خوشی ہوگی۔۔۔ میرا نام سٹان ٹاورز ہے، یہ میری بیوی مارگری ٹاورز اور یہ ہے میری
بیٹی پیم ۔۔۔ پیم بیٹا! انکل کو ہیلو کہیں۔"
پیم نے کہا اور لالی پاپ چوستے ہوئے دھڑام سے خود کو
سامنے موجود چمڑے کی کرسی میں گرا دیا۔ میں نے آگے بڑھ کر مارگری سے مصافحہ کیا۔
اس کے چہرے پر تھکاوٹ آمیز مسکراہٹ تھی۔ وہ پیم کے ساتھ ہی کرسی کے بازو پر بیٹھ
گئی اور لاپروائی سے دیواروں پر موجود تصویریں دیکھنے لگی۔ اکتاہٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
مسٹر ٹاورز نے استقبالیہ گرل کو رخصت کرنے والے لہجے میں
مخاطب کرتے ہوئے کہا: "مارگری اور میرے لیے کریم اور چینی۔۔۔ اور میرا خیال
ہے کہ پیم کچھ نہیں لے گی وہ لالی پاپ کے ساتھ مصروف ہے ۔۔۔۔ کیوں پیم بیٹا!"
پیم کرسی پر ہی کھڑی ہوگئی، لالی پاپ منہ سے نکالتے اور
رال بہاتے ہوئے مدہم سی آواز نکالی "جی ہاں" اور ایک بار پھر کرسی میں
دبک کر بیٹھ گئی۔
مسٹر ٹاورز میرے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئے۔ اپنی جیب سے
سگریٹ کا پیکٹ نکالا، ایک سگریٹ کو تھوڑا سا باہر نکال کے پیکٹ میری طرف بڑھا دیا۔
میں نے شکرئیے کے ساتھ انکار میں گردن ہلا دی۔
مسٹر ٹاورز نے اپنے لیے سگریٹ جلائی، اطمینان سے پورے
کمرے کا جائزہ لیا اور اس کے ساتھ ہی منہ سے دھوئیں کے مرغولے چھوڑتے رہے۔"
"ہم
لوگ یہاں گھوم رہے تھے، کرنے کو کوئی کام نہیں تھا۔ میں نے مارگری سے پوچھا کہ کیا
کرنا چاہیئے، اسے خود معلوم نہیں تھا کہ کیا کرنا چاہیے۔۔۔۔ اس لیے میں نے کہا آج
ہم امریکی سفیر اور بھارتی ہائی کمشنر سے ملتے ہیں۔ مارگری بولی۔ کیا تم انہیں
جانتے ہو؟ میں نے اسے کہا۔ جب تک ملیں گے نہیں تو جانیں گے کیسے؟ ہم دونوں سے ملے،
لیکن جو کچھ میں جاننا چاہتا تھا، اس کے بارے میں معلومات، ہمیں بھارتی تعلقات
عامہ کے افسر سے ہی مل سکتی تھیں۔ اس لیے ہم آپ کو زحمت دینے آئے ہیں۔ مجھے امید
ہے آپ نے برا نہیں منایا ہوگا۔۔۔ کیا آپ نے برا منایا ہے؟"
"نہیں
۔۔ نہیں۔۔۔ بالکل نہیں۔"
میں نے مارگری کو دیکھا جس کے چہرے پر ایک لمحے کو
مسکراہٹ پھیلی اور اگلے ہی لمحے غائب ہوگئی۔ اس کے لہجے سے یہی لگ رہا تھا کہ اس
کو ان تمام معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔
"ہم
شکاگو سے آرہے ہیں۔۔۔۔ آپ کبھی شکاگو گئے ہیں؟"
"میں
معافی چاہتا ہوں۔ کبھی اتفاق نہیں ہوا۔"
"دراصل
میں ایک ماہر مسکومات (سکہ شناسی کے فن کا ماہر) ہوں۔ آپ تو یقیناً سکوں کے بارے
میں جانتے ہوں گے۔۔۔ اوہو! میں بھی کتنا احمق ہوں کہ شعبہ تعلقات عامہ کے افسر سے یہ
سوال کررہا ہوں۔۔۔۔ آپ تو یقیناً جانتے ہوں گے۔"
میں حواس باختہ انداز میں مسکرایا۔۔۔۔ "جی! یقیناً"
اگر میں کہوں کہ میرا شمار دنیا کے 9 بڑے ماہرین ِ
مسکومات میں ہوتا ہے تو میرا خیال ہے یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔۔۔۔ سکہ شناسی کے متعلق
شایع ہونے والے عالمی رسالوں میں میرے مضمون اور تحقیقی مقالے اکثر شایع ہوتے رہتے
ہیں۔۔۔ اور ہاں آپ کے ملک سے شایع ہونے واہے "کلکتہ نکسمیٹیکل جرنل" کے
سالانہ نمبر میں بھی میرا مضمون شایع ہوتا ہے۔۔۔۔ آ پ کلکتہ میں فعال، نمسمیٹیکل
سوسائٹی، سے تو ضرور آگاہ ہوں گے۔"
"جی۔۔
جی۔۔۔۔ یہ تو معروف سوسائٹی ہے۔"
"مجھے
یقین تھا آپ ضرور جانتے ہوں گے۔۔۔۔ ایک زمانے میں جرمنی کے ماہرین مسکومات کا طوطی
بولتا تھا۔ وہاں بڑی تعداد میں سکہ شناسی کے ماہر موجود تھے۔ نامعلوم اب وہ کہاں
چلے گئے ہیں۔"
میں نے گفتگو میں شامل رہنے کے ارادے سے کہا۔
"شاید
اب روسی اس میدان میں آگے نکل گئے ہیں۔۔۔۔ کرپ کے کام کی ہی مثال لے لیں۔"
ٹاورز مضطرب ہوتے ہوئے بولا۔
"نہیں
۔۔نہیں۔۔ میں کرپ کے کام کی بات نہیں
کررہا۔ وہ تو صرف توپوں اور اسلحہ سازی کے متعلق ہے۔۔۔۔ اس کو تو دفعہ مارو، میں
تو فرانس کے شاربونو اور آپ کے ملک ہندوستان کے بینر جی کے کام سے دلچسپی رکھتا
ہوں۔ کیوں مارگ۔"
مارگری کے چہرے پر ایک بار پھر وہی لمحاتی مسکراہٹ آئی
اور غائب ہوگئی۔ "علم، مسکومات، علم مسکومات۔۔ یہ لفظ اتنا زیادہ استعمال
ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگ ہی اس کی حقیقت جانتے ہیں۔۔۔۔ کرپ کے کام کا اس سے کوئی
تعلق نہیں۔۔۔۔ یہ بندوقوں اور توپوں کا علم نہیں ہے۔۔۔ علم مسکومات کا تعلق تو بینر
جی کے کام سے ہے۔۔۔ آپ بینر جی کو جانتے ہیں۔۔۔ اوہو! میں بھی کتنا احمق ہوں۔ آپ
تو یقیناً انہیں جانتے ہوں گے۔"
مجھے مسٹر ٹاورز کے جملوں سے بچنے کی کوئی راہ نظر نہیں
آرہی تھی۔
"معافی
چاہتا ہوں۔ بدقسمتی سے مجھے بینر جی سے ملنے کا اتفاق ابھی تک نہیں ہوا، لیکن ان
کا نام تو محفلوں میں ہر جگہ زیرِ بحث رہتا ہے۔"
"میرا
خیال ہے آپ کو ان سے ضرور ملنا چاہیے۔۔۔ جب آپ
ہندوستان جائیں تو ضرور ملیے گا بلکہ انہیں میرا بھی سلام کہیے گا۔۔۔ آجکل Numismatist رسائل میں میرے اور ان کے
درمیان زبردست نزاعی بحث چل رہی ہے۔۔۔ یہ بحث 'طولن کھیم' مقبرے کی کھدائی کے
دوران ہونے والی دریافتوں کے متعلق ہے۔"
"میں
نے اس حوالے سے رسالوں کا مطالعہ تو نہیں کیا، لیکن کیا، لیکن موہنجو دڑو کھدائی کے حوالے سے میں نے ڈاکٹر بینر جی کی
ایک کتاب دیکھی تھی۔۔۔ غالباً وہ بینرجی ہی کی کتاب تھی۔" میں نے استفہامیہ
انداز سے پوچھا۔
"اس
کتاب کے متعلق تو میں نے بھی نہیں سنا۔۔۔۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ بینر جی ماہر
آثارِ قدیمہ بھی ہیں۔"
دروازہ ایک بار پھر کملا۔ استقبالیہ گرل کافی اور بسکٹ
کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔ مجھے سانس لینے کا موقع مل گیا۔ اس کی آمد میرے لیے
بالکل ایسے تھی جسے کسی ناک آؤٹ ہوتے باکسر کے لیے اس وقت بجنے والی گھنٹی جب 9
تک گنتی ہوچکی ہو۔ باکسر اس وقت جو سکون محسوس کرتا ہے، میں بھی اسی سکون کو محسوس
کررہا تھا۔
"مس
فوبس! کیا آپ یہ چٹ مس میری مین تک پہنچا دیں گی۔"
میں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر دوچار لکیریں ماریں اور چٹ
مس فوبس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اس کے ہاتھ سے کافی لیتے ہی میں نے فوراً مسٹر ٹاورز
سے گفتگو چھیڑ دی۔
"مسٹر
ٹاورز! آپ کا ہندوستان کے بارے میں کیا خیال ہے۔"
"ہاں
! اچھا ہے۔"
"کیا
آپ وہاں جانا پسند نہیں کریں گی۔"
"جی!
بالکل"
"آپ
ضرور جائیے گا۔ ہندوستان آپ کو پسند آئے گا۔ وہاں کے لوگ، وہاں کی ثقافت یہاں سے
قدرے مختلف ہے، مجھے یقین ہے آپ اسے پسند کریں گی۔"
"جی!
بالکل"
اب میں پیم کی طرف متوجہ ہوا، جا لالی پاپ کھانے کے بعد
سکون سے بیٹھی اپنا ناک کھجا رہی تھی۔
"کیا
پیم بھی ہندوستان جانا پسند کرے گی۔"
پیم شرما گئی۔ اس کے ماں باپ نے اسے قہر آلود نظروں سے
گھورا اور مارگری نے جلدی سے رومال اس کی طرف بڑھا دیا۔ ٹاورز ایک بار پھر حملہ
آور ہوا۔
"آپ
نے بینر جی کی جس کتاب کا ذکر کیا ہے، میں اسے ضرور پڑھنا چاہوں گا۔۔۔۔۔ آپ کا
کہنا یہ ہے کہ مذکورہ کتاب موہنجو دڑو سے متعلق ہے۔"
"شاید
۔۔۔۔ میرا خیال ہے میں کسی اور کتاب کے ساتھ خلط ملط کررہا ہوں۔"
"نہیں
۔۔۔ نہیں۔۔۔ میرا خیال ہے کہ بینر جی نے ضرور اس موضوع پر کچھ لکھا ہوگا ۔۔۔
موہنجو دڑو میں کئی ایسی چیزیں ہیں جو ایک ماہر
جو ایک ماہر مسکومات کے لیے بے حد دلچسپ ہیں، بینر جی نے لازماً اس حوالے یہ
یہ کتاب لکھی ہوگی۔"
"یقیناً
انہوں نے اس حوالے سے لکھا ہوگا۔۔۔۔ دراصل یہ کتاب میں نے کافی عرصہ پہلے دیکھی تھی،
مجھے تو درست طور پر یہ بھی یاد نہیں کہ کتاب کا اصل موضوع کیا تھا۔"
"علم
مسکومات ہوگا۔۔۔ یقیناً علم ِ مسکومات۔"
دروازہ ایک بار پھر کھلا۔ اس بار مس میری مین ایک کتاب
کھولے کمرے میں داخل ہوئیں۔ چشمہ اس کے ناک کے سرے پر ٹکا ہوا تھا۔ اس نے مسکرا کر
مسٹر اور مسز ٹاورز کی طرف دیکھا اور بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ "ہاں! یہ رہا Numismatics ۔۔۔۔ یہ لفظ لاطینی زبان کے لفظ Numisma سے اخذ کیا گیا
ہے۔ یہ ایسا علم ہے۔۔۔۔"
"مس میری مین! ان سے ملیے ، یہ ہیں مسٹر ٹاورز۔ دنیا
کے نامور ماہر مسکومات۔ مسٹر ٹاورز! یہ مس میری مین ہیں، میری سیکرٹری، ان کو سکوں
میں کافی دلچسپی ہے۔"
یہ کہہ کر ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ میں ڈکشنری مس میری
کے ہاتھ سے لے لی۔ "اوہو! آپ اب آرہی ہیں۔" مسٹر ٹاورز اپنے نئے شکار
کی طرف لپکے اور گرمجوشی سے میری مین سے مصافحہ کیا۔
"سکوں
میں دلچسپی رکھنے والے کسی شخص کو مل کر، مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ میں ہمیشہ یہ
کہتا رہتا ہوں کہ لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ علم مسکومات نے دنیا کی قدیم تاریخ کی
تدوین میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔"
ہواس باختہ میری مین نے پوچھا، "تو کیا لوگوں کو
اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔"
"قطعاً
نہیں ہے۔" مسٹر ٹاورز نے زور دیتے ہوئے کہا۔
"علم
مسکومات دراصل وہ علم ہے جو کھدائیوں سے حاصل شدہ معلومات میں سلسلہ وار ربط پیدا
کرتا ہے۔ اگر یہ علم نہ ہوتا تو لوگ انڈو گریک ، انڈوستچپن، حتیٰ کہ انڈوپارتھئین
ادوار کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہ کہہ پاتے۔ آپ کو پتہ ہے ڈاکٹر بینر جی نے
کس طرح کاٹھیاوار کے بادشاہوں کا مکمل شجرہ نسب دریافت کیا، اسی علم کے ذریعے۔۔۔"
مس میری بین نے مشکوک انداز میں کہا۔ "ہاں ! شاید
ایسا ہی ہے۔"
میں نے جلدی سے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
"مسٹر
ٹاورز ، جو میں آپ کو موہنجودڑو کے بارے میں بتا رہا تھا۔" یوں ظاہر ہوئے جیسے
ڈکشنری سے پڑھ رہا ہوں۔ "موہنجو دڑو نے علم مسکومات کے حوالے سے اہم معلومات
فراہم کی ہیں۔" مسٹر ٹاورز نے گرمجوشی سے "آہا" کہا اور بولے۔
"میں
نے کہا تھا ناں۔ مجھے دکھائیے۔ کیا یہ بینر جی کی کتاب ہے۔"
اور قبل اس کے کہ میں کچھ کہہ یا کر پاتا ، مسٹر
ٹاورز نے ڈکشنری میرے ہاتھوں سے چین لی۔
Original Title: The
Interview
Book: The Portrait of a
Lady: Collected Stories
Written by:
Khushwant Singh
(born Khushal Singh, 2 February 1915 – 20 March 2014) was an Indian author,
lawyer, diplomat, journalist and politician.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment