کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ : گارڈن پارٹی (The Garden Party)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 148 :
گارڈن پارٹی
تحریر: کیتھرین
مینسفیلڈ (نیوزی لینڈ)
مترجم: ڈاکٹر صہبا جمال
شاذلی (نیوزی لینڈ)
بالآخر موسم خوشگوار ہو
گیا۔ گارڈن پارٹی کے لیے اس سے زیادہ مناسب دن نہیں مل سکتا تھا۔ بغیر ہوا کے،
ہلکی سی گرمی اور صاف و شفاف آسمان جہاں کوئی بادل نہیں ... نیلے آسمان نے جیسے
ہلکے سنہرے رنگ کی دھند کا گھونگٹ اوڑھ لیا ہو، جو کبھی کبھی گرما کے ابتدائی دنوں
میں دکھائی دیتا ہے۔ مالی صبح سے باغ کی صفائی میں لگا تھا اور آخر اس نے لان (lawn) کی ساری گھاس کی
کٹائی کردی، جھاڑو لگا دی اور باغ کے اس حصہ تک صفائی کر دی جہاں گلاب نما پھو لوں
اور گلبہار کے پھولوں کے پودے اپنی روشنی بکھیرا کرتے تھے۔ گلاب کے پھول بلا
مبالغہ باغ والی پارٹیوں میں لوگوں کو بہت متاثر کرتے تھے۔ ہر شخص گلابوں کے بارے
میں واقفیت رکھتا ہے۔ تمام پودے اسطرح سے سر جھکائے کھڑے تھے جیسے آنے والے فرشتوں
کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔
ابھی ناشتہ سے فراغت
ہوئی نہیں تھی کہ لوگ خیمہ نصب کرنے کے لیے آگئے تھے۔
“ مما، خیمہ کہاں نصب
کروایا جاے؟”
“ میری بچی! مجھ سے
پوچھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ میں نے طئے کر لیا ھیکہ اس سال سارا کام تم بچوں پر
چھوڑتی ہوں۔ تم بھول جاؤ کہ میں تمھاری ماں ہوں۔ بس مجھے ایک اعزازی مہمان ہی
سمجھو۔ ”
میگ(Meg) کے لیے ممکن نہیں تھا
کہ وہ ان لوگوں کی نگرانی کرے کیوںکہ اس نے ابھی ابھی اپنے بال دھوئے تھے اور اب
کافی پینے کے لیے بیٹھ گئی تھی۔ بالوں کی لٹیں اسکے گالوں پر چپکی ہوئی تھیں۔
ہوزئے(Jose) تو بس تتلی کی طرح
چوغہ(جاپانی روائتی، ڈھیلا ڈھالا لباس) پہنے ہوئے تھی۔
“ لارا(Laura) تمھیں ہی جانا پڑیگا۔
تم ہی ذوق جمال رکھتی ہو۔ ”
لارا جو مسکہ لگی ڈبل
روٹی کا ٹکڑا کھا رہی تھی،وہی لیکر باغ کی طرف بھاگی۔ اسے انتظامات کرنا اچھا لگتا
تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ اس سے بہتر یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔
چار آدمی آستینیں چڑھا
کر باغ کے راستہ پر کھڑے تھے۔ انکے ساتھ کینوس(canvas) میں لپٹے ڈنڈے تھے اور بڑا سا اوزار کا بکسا تھا۔ کافی ہوشیار لگ
رہے تھے۔ لارا سوچنے لگی کاش اس نے مسکہ لگی ڈبل روٹی نا لایا ہوتا کیونکہ وہاں
اسے رکھنے کی کوئی جگہ تھی نہیں اور وہ اسے پھینکنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ ایک سخت
انسان بننے کی کوشش کرتے ہوئے ان کے قریب آئی۔
“ گڈ مارننگ” (Good morning) لارا نے اپنی ماں کی
آواز اور لہجہ میں کہا اور خود ہی خفت محسوس کرتے ہوئے ہکلانے لگی “اوہ—ارے—-اچھا
تو آپ لوگ آگئے۔ خیمہ نصب کرنے کے لیے؟”
“ہاں صحیح کہا آپ
نے،مس(Miss)،” ان میں سے
دبلے،لمبے اور سیاہ رنگ والے شخص نے کہا،” ہاں یہ خیمہ کے لئے ہی ہے۔ “ اسکی
مسکراہٹ بڑی سادی اور دوستانہ تھی کہ لارا نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ وہ دل ہی دل
میں اس شخص کی چھوٹی لیکن گہرے نیلے رنگ کی آنکھوں کو سراہنے لگی۔ پھر اس نے
دوسروں کی طرف دیکھا۔ وہ سب بھی مسکرا رہے تھے اور انکی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ
جیسے کہہ رہے ہوں،” خوش رہو، ہم تمھیں کھا نہیں جائینگے۔ ”
مزدور بڑے بھلے لوگ
تھے۔ صبح بڑی خوشگوار تھی! لیکن اسے یہ سب نہیں سوچنا تھا۔ اسے تو ایک کاروباری
انداز میں بات کرنی ہوگی۔
“ اچھا تو للی لان(Lily-lawn) کے بارے میں کیا خیال
ہے؟ کیا وہ مناسب رہیگا؟”لارا نے للی لان کی طرف اشارہ کیا۔ سب نے اس طرف دیکھا۔
ان میں سے ایک نے، جو موٹا تازہ تھا، اپنا نچلا ہونٹ آگے کی طرف نکالا، جبکہ دراز
قد شخص نے بھنویں چڑھا کر دیکھا اور کہا،” میرے خیال میں یہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ جگہ
زیادہ نمایاں نہیں ہے بلکہ تھوڑی پوشیدہ ہے۔ کیا تم خیمہ ایسی جگہ نصب کرنا چاہوگی
کہ مہمانوں کی ناپسندیدگی کا طمانچہ لگے۔ میرے ساتھ آئیں۔”
لارا کچھ دیر کے لیے
حیران رہ گئی کیا مزدور کو اسکے ساتھ احترام کے تقاضہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسطرح
تو بات نہیں کرنی چاہیے؟ لیکن اس نے اپنی سوچ کے دروازہ کو بند کیا اور اسکے پیچھے
چل پڑی۔
“ وہ ٹینس کورٹ(Tennis- court) کا کو نہ کیسا
رہیگا؟”اس نے اپنی رائے دی۔
“ لیکن بینڈ(گانے اور
بجانے والوں کا گروپ) صرف کو نہ میں ہو جائیگا۔ ”
“ آپ نے بینڈ بھی
بلوایا ہے؟” ان میں سے ایک مزدور نے کہا جو کچھ پریشان حال لگ رہا تھا۔ رنگت بھی
پیلی پڑ چکی تھی۔ اس نے اپنی نظریں ٹینس کورٹ کی طرف گھمائیں۔ جانے کیا چل رہا تھا
اسکے دماغ میں؟ “بہت چھوٹا سا گروپ ہے۔ “ لارا نے بڑی نرمی سے جواب دیا۔ اس مزدور
کو شائد اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہو نا چاہیے کہ بینڈ چھوٹا ہے۔ لیکن دراز قد
آدمی نے مداخلت کرتے ہوے کہا،” دیکھیے مس وہ جگہ ،درختوں کے قریب،وہاں ،اچھی
رہیگی۔ ”
لیکن کرا کاہ کے درخت
چھپ جائینگے جبکہ وہ اپنے بڑے بڑے چمکتے ہوے پتوں اور پیلے رنگ کے پھلوں کے گچھوں
کے ساتھ انتہائی خوبصورت لگتے ہیں۔ (کرا کاہ نیوزیلینڈ میں پایا جانے والا ایک عام
ساحلی نارنجی رنگ کا بیر نما پھل ہے جس میں زہریلے بیج ہوتے ہیں کہ جب تک انھیں
بھنا نا جائے۔ )
کرا کاہ کے درخت بڑے
فخریہ انداز میں غرور و تکبر کے ساتھ تنہا کھڑے ہو کر جیسے اپنے پتوں اور پھلوں کو
بڑی شان کے ساتھ سورج کی خدمت میں پیش کر رہے ہوں۔ کیا محض خیمہ کی خاطر انھیں
چھپا دیا جانا مناسب ہو گا؟ بہرحال مزدوروں نے اپنا کام شروع کردیا۔ کرا کاہ کے
درختوں کو آخر نظروں سے اوجھل ہونا ہی تھا۔ لارا کی نظر اونچے قد والے مزدور پر
پڑی۔ وہ بڑی احتیاط سے لیونڈر(Lavender) کے پودے کے پاس جھکا اور اسکی ٹہنی کو آہستہ سے مسل کر اسکی
خوشبو سونگھنے لگا۔ لارا کو اسکی یہ ادا بہت اچھی لگی۔ اور وہ سوچنے لگی کہ اسکے
ملنے والوں میں کتنے لوگ ہیں جو اسطرح سے لیونڈر کی خوشبو کے بارے میں سوچتے بھی
ہیں۔ وہ اب کرا کاہ کے درختوں کے بارے میں بھول چکی تھی اور سوچنے لگی کہ یہ مزدور
تو بہت غیر معمولی قسم کے لوگ ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ میرے ان بیوقوف دوستوں کی
جگہ یہ مزدور ہی میرے دوست ہوتے۔
دراز قد والا مزدور ایک
لفافہ کی پشت پر کچھ ڈرائینگ بنا رہا تھا۔ لارا کا ذہن کسی اور سمت میں سوچنے لگا۔
یہ بے معنی طبقاتی اختلافات کو یکسر ختم ہونا چاہئے۔ ویسے وہ کبھی ایسا کوئی فرق
محسوس نہیں کرتی۔ مزدوروں کی ہتوڑیوں کے ٹھوکے جانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ کوئی
سیٹی بجا رہا تھا،کوئی گنگنا رہا تھا۔ “ٹھیک ہو دوست؟” ایک دوستانہ برتاؤ ،صرف یہ
بتانے کے لیے کہ وہ کتنی خوش ہے۔ اور وہ ان احمقانہ رسومات کو قطعی ناپسند کرتی
ہے۔ اسکی مسکہ لگی ڈبل روٹی ابھی تک اسکے ہاتھ میں تھی۔ لارا نے ایک ٹکڑا کھایا
اور اس ڈرائینگ کی طرف غور سے دیکھنے لگی۔ لارا خود کو بھی ایک کام کرنے والی لڑکی
ہی سمجھ رہی تھی۔
“ لارا، لارا، کہاں ہو
تم؟ ٹیلیفون، لارا” گھر کے اندر سے آواز آئی۔
“ آرہی ہوں !” کہتی
ہوئی وہ بھاگی، لا ن سے، راستہ سے، سیڑھیوں سے ہو کر، ور انڈے سے پیش گاہ پہنچی۔
ہال میں دیکھا کہ اسکے والد اور بھائی لاری(Laurie)دفتر جانے کے لیے اپنے ہیٹس(hats) پر برش کر رہے تھے۔
“ میرے خیال سے، لارا”
لاری نے عجلت میں کہا، “آپ میرے کوٹ کو دوپہر سے پہلے ،ایک نظر دیکھ لیں۔ شائد
استری کی ضرورت ہو۔ ”
لارا نے بھی اتنی ہی
عجلت میں جواب دیا، پھر دوڑ کر لاری کو گلے لگا لیا،اور ہانپتے ہوئے کہا،“اوہ! کیا
تم نہیں جانتے مجھے پارٹیاں کتنی پسند ہیں؟”
“ بہت!” لاری نے مردانہ
آواز میں کہا اور بہن کو گلے لگا لیا پھر فوری ہلکے سے دھکا دیتے ہوئے کہا، “جلدی
جاؤ ،تمھارا فون”
ٹیلیفون —“ ہاں، ہاں،
اوہ ہاں۔ کٹی(Kitty)؟ گڈ مارننگ ڈیر (Good morning dear)۔ لنچ پر آجاو۔ ضرور
آئیں۔ مجھے خوشی ہوگی۔ بے شک۔ بہت ہی ہلکا سا کھانا ہوگا—-کچھ سینڈویچس(sandwiches ) اور انڈے کی مٹھائی(Meringue-shells) وغیرہ۔ ہاں۔ کیا یہ
بہترین صبح نہیں ہے؟ ایک منٹ،لائن پر رہیں۔ مما بلا رہی ہیں۔” لارا نے وہیں آواز
لگائی “کیا ہے ،مما؟ سنائی نہیں دے رہا۔ ”
مسز شیریڈن (Mrs Sheridan) کی آواز سیڑھیوں سے
تیرتی ہوئی پہنچی،“اس سے کہو کہ وہ وہی خوبصورت ہیٹ پہن کر آے جو اس نے گذشتہ
اتوار کو پہنا تھا۔ ”
“ مما کہہ رہی ہیں کہ
تم وہی پیاری سی ہیٹ پہن کر آنا جو تم نے پچھلے اتوار کو پہنا تھا۔ اچھا۔ ٹھیک ایک
بجے۔ بائی بائی۔ ”
لارا نے ریسیور(Receiver) رکھا، انگڑائی لیتے
ہوئے گہری سانس لی “ ہوو” اور جلدی سے اپنے آپ کو تیار کیا۔ مزدوروں کے کام کرنے
کی آوازیں آرہی تھیں۔ محسوس ہو رہا تھا جیسے گھر کے سارے دروازے کھلے ہوں۔ اور پھر
وزنی پیانو کو اپنی جگہ سے ہٹاتے ہوئے اسکے پہیوں کے گھسیٹے جانے سے پیدا ہونے
والی نامعقول سی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ہلکی،ہلکی ہوائیں کھڑکیوں اور
دروازوں سے نکل کر ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ ساتھ
ہی دھوپ نے بھی اپنے چھوٹے سے بڑے پیارے دو نشان، ایک دوات پر اور دوسرا نقرئی
فوٹو فریم پر، بنا رکھے تھے۔ وہ بھی آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ وہ ان نقرئی تاروں (stars)کو چوم لینا چاہتی
تھی۔
سامنے کے دروازے کی
گھنٹی زوروں سے بجنے لگی اور سیڈی(Sadie) کی لاپرواہ سی آواز سنائی دی، “ مجھے نہیں پتہ۔ ٹھہریں۔ میں مسز
شریڈن سے پوچھتی ہوں۔ ”
لارا نے ہال میں داخل
ہوتے ہوئے پوچھا،“کیا بات ہے، سیڈی؟”
“گل فروش،مس لارا۔”
وہاں دروازے کے اندرونی
حصہ میں بہت ساری اقسام کی للی سے بھری کشتیاں رکھی تھیں۔ گلابی کینا للی،بڑے بڑے
اور تازہ پھول اپنی قرمزی ٹہنیوں پر اپنی روشنی بکھیرتے ہوئے۔
“ اوہ ! سیڈی”لارا
نےکراہتے ہوئے کہا اور للی کے پودوں پر جھک گئی جیسے انکی گرمی اپنے اندر سمو لینا
چاہتی ہو۔
“ شائد کوئی غلطی ہوئی
ہو۔” لارا نے کمزور سی آواز میں کہا، “بھلا کو کوئی اتنے سارے پھول کیوں منگوائے
گا ؟ سیڈی،مما کہاں ہیں؟”
اور تب ہی مسز شیریڈن
وہاں پہنچ گئیں۔ “ یہ سب ٹھیک ہے۔” انھوں نے سکون سے کہا۔ “ ہاں ، میں نے منگوائے
ہیں۔ خوبصورت ہیں نا؟” لارا کا ہاتھ دباتے ہوے کہا۔ “ کل دکان کے سامنے سے گذرتے
ہوئے میں نے یہ کینا للی دیکھے اور چاہا کہ زندگی میں ایک بار میں کینا للی کے
پھول خریدوں اور اس گارڈن پارٹی سے زیادہ مناسب کونسا موقع ہوسکتا ہے۔ ”
“ لیکن میرے خیال سے آپ
نے کہا تھا کہ آپ مداخلت نہیں کرینگی۔” لارا نے کہا۔
سیڈی چلی گئی۔ گل فروش
ابھی تک اپنی وین(van) کے ساتھ انتظار کررہا
تھا۔
لارا نے بڑی شفقت کے
ساتھ، پیار کا اظہار کرتے ہوئے،ماں کی گردن میں اپنی بانہوں کا ہار ڈال دیا۔
“ میری پیاری بچی، کیا
تمہیں اپنی ماں کا منطقی ہونا پسند نہیں؟ ہے نا؟ ٹھیک نہیں ہے۔ دیکھو وہ شخص یہیں
ہے۔ ”
گل فروش مزید للی کے
پھولوں سے بھری کشتی لے آیا تھا۔
“ دروازے کے پیچھے،پورچ
کے دونوں طرف سجا دو، پلیز” مسز شیریڈن نے کہا، “ لارا تم متفق ہو نا؟”
“ اوہ، ہاں بالکل ،
مما”
بیٹھک میں میگ(Meg) ،ہوزئے(Jose) اور ہنس (Hans) ملکر بالآخر پیانو کو
ہٹانے میں کامیاب ہو گئے۔
“اب ہم اس اوور کوٹ کو
دیوار پر لٹکا دیں، اور کرسیوں کے علاوہ ہر چیز اس کمرہ سے ہٹا دیں، کیا خیال ہے؟”
“ بالکل۔ ”
“ ہنس،یہ میزیں اسموکنگ
روم میں منتقل کر دیں اور صفائی کرنے والوں سے کہہ کر قالین پر لگے دھبوں کو صاف
کروا دیں—ایک منٹ، ہنس—-”
ہوزئے کو ملازموں کو
حکم دینا اچھا لگتا تھا اور وہ بھی اسکے احکامات کو بجا لانے میں خوشی محسوس
کرتے—-وہ انھیں محسوس کرواتی کہ وہ کسی ڈرامے میں اپنے کردار ادا کررہے ہوں۔
“مما اور لارا سے کہنا
کہ وہ فوراُُ یہاں آئیں۔ ”
“ بہت اچھا ،مس ہوزئے۔
”
پھر میگ کی طرف مڑ کر
کہا”میں سننا چاہتی ہوں کہ پیانو کیسے کام کر رہا ہے، ہو سکتا ھیکہ مجھ سے گانے کی
فرمائش کی جائے۔ دیکھیں، کوشش کریں
“یہ زندگی تھکن ہے۔”
پیانو سے زوردار آوازیں
نکلیں۔ ہوزئے کچھ پریشان ہو گئی۔ اور جب ماں اور لارا وہاں پہنچیں،وہ دُکھی اور
تذبذب میں دکھائی دی۔
“ یہ زندگی تھکن ہے
ایک آنسو۔ ایک آہ
محبت جو بدلتی ہے
اور پھر۔۔۔۔الوداع!
‘الوداع’ کے لفظ پر
اگرچہ کہ پیانو نے بڑی مایوس کن آواز نکالی، اسکے چہرے پر ناموافق لیکن روشن سی
مسکراہٹ ابھر آئی۔
“ مما، کیا میری آواز
ٹھیک نہیں ہے ؟”
“یہ زندگی تھکن ہے
امیدیں آتی ہیں مرنے کے
لیے
ایک خواب۔۔۔۔ایک بیداری
اسی وقت سیڈی داخل ہوتی
ہے۔ “ کیا بات ہے سیڈی؟”
“ مئیم ،کوک(کھانا
بنانے والی) جاننا چاہتی ھیکہ کیا آپ کے پاس سینڈویچس پر لگانے کے لیے فلیگس ہیں؟”
“ سینڈویچس کے لیے
فلیگس، سیڈی؟”مسز شیریڈن کی آواز گونجی۔ انکے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے بچوں نے
اندازہ لگا لیا کہ انکے پاس فلیگس نہیں ہیں۔
“ دیکھتی ہوں” اور سیڈی
سے کہا، “کوک سے کہہ دو کہ میں دس منٹ میں فلیگس کا انتظام کرتی ہوں۔” سیڈی چلی
گئی۔
“ اور لارا” ماں نے بڑی
جلدی میں کہا “ میرے ساتھ اسموکنگ روم میں آؤ۔ میں نے یہیں پر کہیں مہمانوں کے نام
کسی لفافہ کی پشت پر لکھے تھے۔ انکی ایک فہرست بنا دینا۔ میگ فوری چھت پر جاؤ اور
اپنے سر پر بندھی اس گیلی توال کو نکالو۔ ہوزۓ، تم اسی لمحہ اپنی ڈریسنگ ختم کرو۔ بچوں ،سن لیا نا تم سب نے یا پھر
میں تمھارے والد سے کہوں جب وہ گھر آئینگے۔ ۔۔اور ہوزۓ، کوک کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرلیں۔ مجھے تو صبح سے اسکا چہرا
دیکھ کر گھبراہٹ سی ہو رہی ہے۔
وہ لفافہ آخرڈائینگ
روم(Dining room) میں دیوار پر لگی
گھڑی پیچھے رکھا مل گیا۔ مسز شیریڈن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر لفافہ وہاں
کیسے پہنچا۔
“ ضرور تم میں سے کسی
نے میرے بیگ سے چرا لیا ہوگا۔ مجھے واضح طور پر یاد ہے——کریم چیز اور لیمن کرڈ تیار
ہیں ؟”
“ہاں”
“ انڈے اور————“ مسز
شیریڈن نے اسکے ہاتھ سے لفافہ لے لیا” یہ تو چوہے کی طرح لگ رہا ہے۔ یہ چوہا تو
نہیں ہے نا؟”
“ زیتون، آپ کے
پسندیدہ” لارا نے کہا۔
“ ہاں ،بےشک، زیتون—کیا
زبردست ملاپ ہے۔ انڈے اور زیتون۔ ”
سارا کام ختم ہو چکا
تھا۔ لارا انھیں باورچی خانہ میں رکھ آئی۔ ہوزۓ کوک کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ وہ خوفزدہ بالکل بھی نہیں
لگ رہی تھی۔
“ اتنے نادر اور عمدہ
سینڈویچس میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ “ہوزۓ
نے پر مسرت آواز میں کہا۔ “ کتنے اقسام ہیں آپ نے بتایا؟ پندرہ؟”
“ پندرہ، مس ہوزۓ۔ ”
“ میں تمہیں اتنے اچھے
سینڈویچس بنانے پر مبارکباد دیتی ہوں۔ ”
کوک مسکراتے ہوے چھری
سے پرت صاف کرنے لگی۔
“گاڈ بر(Godber )آچکا ہے۔ ” سیڈی نے
اطلاع دی۔
اسکا مطلب تھا کہ کریم
پفس(Cream puffs) آچُکے تھے۔ گاڈبرس
اپنے کریم پفس کے لیے بہت مشہور تھے۔ گھر میں بنانے کے بارے میں تو کوئی سوچ بھی
نہیں سکتا۔
“ اندر لا لو اور میز
پر رکھ دو۔ ” کوک نے حکم دیا۔
سیڈی نے ساری چیزیں
اندر لا کر رکھ دیں اور دروازہ کی طرف چل دی۔ لارا اور ہوزۓ اب اتنی چھوٹی نہیں رہیں
کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ کرتیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کر سکتیں کہ
پفس بہت دلکش تھے۔ کوک اچھی طرح سے انھیں جمانے لگی۔
“ کیا وہ واپس بھی
لیجاتے ہیں۔ ؟”
“ میرے خیال سے لیجاتے
ہیں۔” ہوزۓ نے کہا جسے واپس لیجانا
پسند نہیں تھا۔ “ کتنے خوبصورت، ہلکے اور ملائم ہیں یہ۔ ”
“ ہر شخص کے لیے ایک تو
ضرور ہے، میری بچیوں “۔ کوک نے بڑے اطمینان سے کہا۔ “ پھر بھی پتہ نہیں”———
اتنے دلکش کریم پفس،
ناشتہ کے فوری بعد۔ یہ تصور ہی کسی کو کپکپانے کے لیے کافی ہے۔ لارا اور ہوزۓ اپنی انگلیوں پر لگی پھینٹی
ہوئی کریم کو چاٹ کر اسکے ذائقہ سے لطف اندوز ہونے لگی تھیں۔
“ چلیں ، پچھلے راستہ
سے باغ میں چلتے ہیں”۔ لارا نے کہا۔ “ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ مزدوروں نے خیمہ
تیار کیا یا نہیں۔ ویسے وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ ” لیکن پچھلی طرف سے جانے والا
دروازہ مسدود تھا کیونکہ وہاں کوک،سیڈی،گاڈبر کا آدمی اور ہنس کھڑے تھے۔ شائد کچھ
ہوا تھا۔
کوک بڑی خراب سی صورت
بناے کھڑی تھی۔ سیڈی نے اپنا ایک ہاتھ اپنے گال پر اسطرح سے رکھا تھا جیسے اسکے
دانت میں درد ہو رہا ہو۔ ہنس سارے معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ صرف گاڈبر
کا آدمی آرام اور سکون سے دکھائی دے رہا تھا۔ شائد یہ اسکی کہانی ہو۔
“ کیا بات ہے؟ کیا
ہوا؟”
“ ایک خوفناک حادثہ
ہوا” کوک نے کہا۔ “ ایک آدمی مر گیا ہے۔ ”
“ ایک آدمی مر گیا!
کہاں؟ کیسے؟ کب؟”
گاڈبر کے آدمی کو لگا
کہ کوئی اوراسکی کہانی نہ لے اڑے——
“ کیا آپ جانتی ہیں،
مس،ان چھوٹے چھوٹے مکانات کو ،وہاں نیچے؟” جانتی ہیں؟”
وہ تو جانتی تھی۔
“ وہاں ایک غریب آدمی
،اسکاٹ(scott) گاڑی بان رہتا تھا۔
اسکے گھوڑے نے اسکو، ہاکے اسٹریٹ(Hawke Street) پر ایک ٹریکشن انجن( Traction Engine) پر پھینک دیا۔ وہ سر کے بل گرا۔ اور مر گیا۔ ”
“ مر گیا!” لارا نے
گھور کر گاڈبر کے آدمی کی طرف دیکھا۔
“ مر چکا تھا جب لوگوں
نے اسے اٹھایا۔ “ گاڈبر کا آدمی کچھ مزہ لیتے ہوے کہنے لگا۔ “ جب میں یہاں آیا، وہ
لوگ لاش کو گھر لیجا رہے تھے۔ “ پھر کوک کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا، “وہ اپنے
بعد ایک بیوہ اور پانچ چھوٹے بچوں کو چھوڑ گیا ہے۔ ”
“ ہوزۓ، یہاں آؤ۔” لارا نے
بہن کی آستین کو پکڑ کر اسے گھسیٹتی ہوئی، باورچی خانہ سے ہوتی ، سبز دروازہ پر
پہنچ کر رکی اور کہا،“ہوزۓ
! کیا ہم یہ سب روک سکتے ہیں ؟”
“ ہر چیز روک
دیں؟لارا”ہوزۓ تعجب سے چیخ پڑی۔ “ کیا
کہنا چاہتی ہو؟”
“ بالکل، گا رڈن پارٹی
کو روک دینا چاہیے۔” ہوزۓ
تصنع سے کیوں کام لے رہی ہے ؟
ہوزۓ ابھی تک حیرت زدہ تھی۔
“گارڈن پارٹی روک دیں؟ پیاری لارا،اتنی فضول سی بات تو نہ کرو۔ ہم بالکل ایسا کچھ نہیں
کر سکتے۔ کوئی ہم سے یہ امید بھی نہیں کر سکتا۔ اس قدر حد سے زیادہ نہ جاؤ۔ ”
“ لیکن اچھا نہیں لگتا
کہ ہم گارڈن پارٹی کا لطف لیں اور ہماری گیٹ کے سامنے ایک آدمی مرا پڑا ہے۔”
ویسے شائد یہ واقعی
زیادتی تھی ان چھوٹے مکانوں میں رہنے والوں کے لیے جو ڈھلوان کے نشیب میں اپنی
بستیوں کو بسانے ہوے تھے۔ اور جسکی اونچائی پر شیریڈنس کی حویلی اپنی امارت کو لیے
کھڑی تھی۔ انکے درمیان ایک بہت چوڑی سڑک گذرتی تھی۔ دراصل یہ بستی تو آنکھوں کا
خار تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے کتھیا رنگ کے مکانات تھے۔ وہاں باغ کے ٹکڑوں میں،
گوبھی،ٹماٹر کے ڈبے اور بیمار مرغیوں علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ انکی چمنیوں سے
نکلنے والا دھواں بھی انکی غربت کا اعلان کرتا تھا۔ برخلاف اسکے شیریڈنس کی چمنی
سے دھواں نکل کر نقرئی پروں کی طرح فضا میں پھیل جاتا تھا۔ زیادہ تر لوگ
دھوبی،جھاڑو دینے والے، موچی وغیرہ تھے۔ بچے مکھیوں کے جھنڈ کی طرح ادھر ادھر
بھاگتے پھرتے۔ شیریڈنس خاندان کے بچوں کو وہاں جانے کی قطعی اجازت نہیں تھی۔ خاص
طور پر انکی خراب زبان کے لیے۔ لیکن بڑے ہونے پر وہ کبھی کبھار چلے جاتے تھے۔ بہت
گھٹیا اور نفرت انگیز ماحول تھا۔ پھر بھی انسان کو ہر جگہ جانا چاہئیے، ہر چیز کو
دیکھنا چاہیئے۔ لہذا وہ وہاں گیے۔
“ اور ذرا سونچیں یہاں
کے بینڈ کی آواز اس غریب عورت کے کانوں کو کیسے لگے گی؟” لارا نے کہا
“ اوہ، لارا!” ہوزۓ نے کافی حد تک ناراضگی
سے کہا، “ اگر تم اسطرح سے ہر وقت جب بھی کوئی حادثہ ہو،میوزک کو بند کرتی رہوگی تو
تمھاری زندگی بڑی سخت ہو جائیگی۔ میں خود بھی تمھارے ساتھ انکے غم میں برابر کی شریک
ہوں۔ مجھے بھی پوری ہمدردی ہے۔ “ اپنی بہن کی طرف سخت نظروں سے دیکھا جیسے وہ بچپن
میں آپس میں لڑائی کرتے ہوے دیکھا کرتی تھی۔ بڑے نرم لہجے میں کہا، “ تمھارے اسطرح
جذباتی ہونے سے کیا وہ شرابی مزدور دوبارہ زندہ ہو جائیگا؟”
“ شرابی! کس نے کہا کہ
وہ شرابی تھا؟”لارا نے غصہ میں پلٹ کر ہوزۓ سے کہا، “ یہ میں سیدھے مما سے کہنے جارہی ہوں۔ ”
“ ضرور۔” ہوزۓ نے آہستہ سے کہا۔
“ مما، کیا میں اندر
آسکتی ہوں۔” لارا نے دروازہ کا دستہ گھماتے ہوۓ پوچھا۔
“بالکل۔ کیوں ،کیا بات
ہے؟تمھارے چہرے کا رنگ ایسا کیوں ہے ؟”مسز شیریڈن نے اپنے ڈریسنگ ٹیبل سے پلٹ کر
کہا جہاں وہ نئے ہیٹ(hat) کو پہن دیکھ رہی
تھیں۔
“ مما، ایک آدمی مار
دیا گیا ہے۔ “لارا نے کہنا شروع کیا۔
“ گارڈن میں تو نہیں؟”
ماں نے مداخلت کی۔
“ نہیں، نہیں۔ ”
“ اوہ ! تم نے تو ڈرا
ہی دیا ۔” مسز شیریڈن نے سکون کی سانس لی اور ہیٹ نکال اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا۔
“ لیکن سنئے، مما” لارا
نے ٹوٹتی سانسوں کے درمیاں کہا “ بےشک ہم یہ پارٹی نہیں رکھ سکتے،کیا یہ صحیح
ہوگا؟”اس نے التجا کی،” یہ بینڈ، مہمان———وہ یہ سب سنیں گے ، مما۔ وہ ہمارے قریبی
پڑوسی ہیں!”
لارا کے تعجب کی حد نہ
رہی جب اس نے دیکھا کہ ماں کا برتاؤ بھی ہوزۓ کی طرح ہی تھا۔ وہ خوش تھیں اور لارا کی بات کو سنجیدگی سے لینے
سے انکار کر دیا۔
“ لیکن ، میری
بیٹی،اپنی عقل استعمال کریں۔ اتفاق سے ہمیں یہ اطلاع ملی۔ اگر کوئی عام حالات میں
مرجاتا ہے————-میری سمجھ میں نہیں آتا ان تنگ گھروں میں یہ لوگ زندہ کیسے ہیں———تب
بھی ہمیں پارٹی تو رکھنی ہی چاہیے تھی، رکھنی چاہیے تھی نا؟”
یہاں لارا کا جواب “
ہاں ” ہی ہونا چاہیے تھا لیکن وہ محسوس کر رہی تھی کہ یہ غلط ہے۔
“ مما، کیا یہ ہماری
طرف سے بے دردی اور سنگ دلی کا مظاہرہ نہیں ہوگا؟”
“جا ناں!” مسز شیریڈن
اٹھ کر اپنے ہیٹ کے ساتھ لارا کے قریب آگیں اور کہا” میری بچی! یہ ہیٹ تمھارے لیے
ہے۔ تمہارے لیے ہی بنا ہے۔ میرے لیے تو بہت بچکانہ ہے۔ تمھیں اسطرح سے میں نے کبھی
نہیں دیکھا۔ اپنے آپ کو دیکھو۔ “اور چھوٹا آئینہ اسکو دکھایا۔
“ لیکن ، مما۰۰۰۰۰۰۰”
لارا نے پھر سے کہنا
شروع کیا۔ وہ آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھ نہیں سکی اور چہرہ دوسری طرف کر لیا۔
اس مرتبہ مسز شیریڈن نے
آخر صبر کا دامن چھوڑ دیا جیسا ہوزۓ
نے کیا تھا۔ “ تم بڑی نا معقول ہو رہی ہو، لارا ،” مسز شیریڈن نے سرد مہری سے کہا۔
“ ان لوگوں کے لیے ہماری کی گئی قربانیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اور یہ کوئی
ہمدردانہ یا دوستانہ رویہ نہیں ھیکہ سارے لوگوں کی خوشیوں کو تباہ کیا جاے،جیسے تم
اسوقت کر رہی ہو۔ ”
“ میری سمجھ میں نہیں
آرہا ہے۔ ” کہتی ہوئی لارا جلدی سے اپنی خواب گاہ میں چلی گئی۔ وہاں اتفاق سے اسکی
نظر آئینہ پر پڑی جہاں ایک دلکش لڑکی دکھائی دے رہی تھی جو بہت ہی خوبصورت کالے
رنگ کا ہیٹ جو سنہرے رنگ کے پھولوں اور کالے مخمل کے فیتےسے سجا تھا، پہنے ہوے
تھی۔ اس نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ اتنی خوبصورت بھی لگ سکتی تھی۔ “ شائد ماں
صحیح کہتی ہے۔ ” لارا نے سوچا ،کیا میں عجیب ہوں؟ شائد۔ ایک لمحہ کے لیے اسکی نظر
کے سامنے وہ منظر آگیا—-وہ غریب عورت، اسکے چھوٹے بچے اور لاش جو گھر میں لائی
گئی۔ لیکن یہ سب دھندلا غیر حقیقی، کسی اخبار میں چھپی تصویر کی مانند لگ رہا تھا۔
آخر اس نے طئے کیا کہ پارٹی ختم ہونے کے بعد اس بارے میں سوچے گی۔ اور کسی طرح یہ
بہترین منصوبہ لگ رہا تھا۔
دوپہر کا کھانا تقریباً
دیڑھ بجے تک ختم ہو چکا تھا۔ تقریباً ڈھائی بجے وہ سب پارٹی کے لیے تیار تھے۔ سبز
رنگ کے لباس میں ملبوس بینڈ کے لوگ بھی پہنچ گیے اور ٹینس کورٹ میں انکا سارا ساز
و سامان جما دیا۔
“ مائی ڈئیر!” کٹی میٹ
لئینڈ(Kitty Mait Land) نے کھنکدار آواز میں
کہا، “یہ سب مینڈکوں کی طرح نہیں دکھائی دے رہے؟ انکا انتظام تو تالاب کے پاس کیا
جانا چاہئے تھا۔ اور انکے کنڈکٹر کو درمیان میں پتہ پر۔ ”
لاری وہاں پہنچ گیا۔
انکے لباس کو سراہتے ہوے انکا خیر مقدم کیا۔ لاری کو دیکھ کر لارا کو پھر اس حادثہ
کی یاد آئی۔ وہ لاری سے کہنا چاہتی تھی۔ اگر لاری سب کے ساتھ متفق ہو جائے تو سب
ٹھیک رہیگا۔ اور وہ اسکے پیچھے ہال میں چلی گئی۔
“لاری!”
“ ہیلو ” لاری نے
سیڑھیوں پر چڑھتے ہوے پلٹ کر لارا کو دیکھا تو اسکا چہرہ خوشی سے پھول گیا اور اس
نے اپنی آنکھیں حیرت سے گھماتے ہوے کہا، “ یقین کریں لارا——تم بلا کی جاذب نظر لگ
رہی ہو، اور تمھارا یہ خوبصورت ہیٹ تمھاری دلکشی میں اضافہ کا باعث ہے۔ ”
“ اچھا؟” لارا نے
مسکراتے ہوے مدھم آواز میں کہا۔ اسکے بعد لاری سے اس نے مزید کچھ نہیں کہا۔
بڑی تعداد میں لوگ آنے
شروع ہو گئے۔ بینڈ نے موسیقی شروع کردی۔ خدمتگار(waiters) گھر اور خیمہ کے درمیان دوڑ رہے تھے۔ جس طرف نظر دوڑائیں، جوڑے
لان پر چہل قدمی کرتے ہوے،پھولوں پر جھکے ہوے، ایک دوسرے سے سلام دعا کرتے ہوے
دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا بہت سارے خوبصورت پرندے شیریڈنس کے باغ میں،
اپنے راستے جاتے ہوے،اس دوپہر کے لیے رک گئے ہوں،——-کہاں جاتے ہوۓ؟
آہ! یہ کیا خوشی ہے، جو
ہمیں ایسے لوگوں سے مل کر ہوتی ہے جو خود بہت خوشحال ہیں۔
“ لارا! تم کتنی اچھی
دکھائی دے رہی ہو!”
“ کیا خوبصورت بنا ہوا
ہیٹ!”
“ لارا، تم اسپینش(Spanish) دکھائی دے رہی ہو۔
میں نے تمھیں اتنا دلکش پہلے کبھی نہیں دیکھا۔”
لارا شرم سے سرخ ہوتے
ہوے، سب سے آہستہ آہستہ پوچھتی رہی، “آپ نے چائے لی؟ آپ آیسکریم نہیں لینگے ؟ یہ
پیشن فروٹ(Passion fruit) کی بنی قلفی بہت خاص
ہے۔”
پھر وہ اپنے والد کی
طرف بھاگ کر گئی اور کہا “ہمیں بینڈ والوں کو بھی مشروبات دینے چاہیے۔ ”
اور یہ مکمل دوپہر
آہستہ آہستہ اختتام کو پہنچنے لگی۔ چمک دھیمی ہونے لگی۔
“ اتنی زبردست گارڈن
پارٹی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ”
“ بہت بڑی
کامیابی۔۔۔۔۔”
“ بہترین۔ ”
لارا ماں کے شانہ بہ
شانہ پورچ میں کھڑے ہو کر سارے مہمانوں کو الوداع کہتی رہی۔
“ سب ختم ہو گیا، سب
ختم ہو گیا، خدا کا شکر ہے۔ “ مسز شیریڈن نے کہا، “سب سمیٹ لو، لارا۔ میں کافی تھک
چکی ہوں۔ چلیں کچھ کافی لے لیں۔ ہاں ، پارٹی بے حد کامیاب رہی۔ لیکن اوہ، یہ
پارٹیاں۔ بچوں تم کیوں ان پارٹیوں کے لیے اصرار کرتے ہو!”
سارے گھر والے اب خیمہ
میں بیٹھ گئے، جو اب پوری طرح خالی تھا۔
“ سینڈویچ کیجیے
ڈیڈی—-دیکھیں یہ فلیگ میں نے لکھے ہیں۔ ”
“ شکریہ۔ ” مسٹر شیریڈن
نے سینڈویچ کھاتے ہوے کہا، میرے خیال سے آپ لوگوں نے اُس وحشتناک حادثہ کے بارے
میں سنا نہیں جو آج پیش آیا ؟”
“ جانم !” مسز شیریڈن
نے ہاتھ اٹھاتے ہوے کہا۔ “ ہم نے سنا ہے۔ اس خبر نے تو تقریباً پارٹی کو تباہ ہی
کر کے رکھ دیا تھا۔ لارا کا اصرار تھا کہ اسے ملتوی ہی کر دیا جاے۔ ”
“ اوہ، ماں!”لارا نہیں
چاہتی تھی کہ اُسے مزید تنگ کیا جاۓ۔
“ بہت ہی خوفناک معاملہ
تھا۔” مسٹر شیریڈن نے کہا۔ “ وہ آدمی شادی شدہ بھی تھا، نیچے کی بستی میں رہتا
تھا، اور اپنے بعد ایک بیوی اور آدھا درجن بچوں کو چھوڑ گیا ہے۔ ایسا لوگ کہہ رہے
تھے۔ ”
ایک ناگوار سی خاموشی
پھیل گئی۔
مسز شیریڈن بےقرار ہو
اٹھیں۔ انھوں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ میز پر بہت سارے سینڈویچس ،کیک،پفس بچے ہوے پڑے
تھے۔ ایک بہترین خیال انکے ذہن میں آیا۔
“ میں جانتی ہوں۔”
انھوں نے کہا، ایک ٹوکری بنائیں اور ان غریبوں کو اچھی غذا پہنچا دیں۔ یہ بڑی
ضیافت ہو جائیگی بچوں کے لیے۔ تم راضی ہو نا؟ اور صحیح ھیکہ ہمیں پڑوسیوں سے
ملاقاتیں رکھنی چاہئیے۔ کیا کہتی ہوتم لارا! یہ سب تیار کرنے کا کیا مطلب ہے۔ “ماں
اپنی جگہ سے اٹھیں۔ “ مجھے سیڑھیوں کے پاس والی الماری سے بڑی ٹوکری دینا۔ ”
“ لیکن مما کیا آپ
سوچتی ہیں کہ یہ سچ مچ اچھا خیال ہے؟”لارا نے پوچھا۔ وہ انوکھی اور سب سے مختلف
سوچ رکھتی تھی۔ “پارٹی سے بچا کچھا کھانا لیجانا۔ کیا وہ غریب عورت اسے واقعی پسند
کریگی؟”
“بے شک! کیا معاملہ ہے،
آج تمھارے ساتھ؟ ابھی کوئی ایک یا دو گھنٹے پہلے تم مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ ہمیں
ہمدرد ہونا چاہیئے۔ اور اب—”
ٹھیک ہے۔ لارا ٹوکری
لینے کے لیے دوڑی۔ وہ بھری ہوئی تھی۔ ماں نے ڈھیر ساری چیزوں سے اسے بھر دیا تھا۔
“ تم خود ہی انھیں
لیجاو۔ “ ماں نے کہا” بس جلدی سے چلی جاؤ۔ رکو۔ للی کے پھول بھی ساتھ لیجاو۔ اسطرح
کے لوگ للی کے پھولوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ”
عملی تصور رکھنے والی
ہوزۓ نے کہا۔ “ لیکن ٹہنیاں
اسکے جالی والے فراک کو خراب کردیں گی۔ ”
“ پھر کیا صرف ٹوکری۔”
“ اور لارا—” ماں اسکے
پیچھے خیمہ سے باہر آکئیں۔ “کسی صورت میں نہیں۔ ”
“ کیا مما؟”
ماں نہیں چاہتی تھیں کہ
کوئی غیر ضروری خیالات بچوں کے ذہن میں ڈالے جائیں۔ “ کچھ نہیں ! تم چلی جاؤ”
شام کا اندھیرا پھیلنے
لگا تھا۔ سڑک سفید روشنی سے چمک رہی تھی۔ اور وہاں نیچے سایہ میں غریبوں کے چھوٹے
چھوٹے مکانات تھے۔ دوپہر کی پارٹی کے بعد کافی خاموشی ہو گئی تھی۔ اور وہ وہاں
نچلے حصہ کی طرف جا رہی تھی جہاں ایک آدمی مردہ پڑا تھا، اور اسکو اسکا احساس بھی
نہیں تھا۔ کیوں نہیں؟ وہ ایک منٹ کے لیے رکی۔ اسے ایسا لگا کہ پیار،آوازیں، چمچوں
کی کھنک، قہقہے، پیروں سے کچلی جانے والی گھاس کی بو، سب اسکے اندر سمویا ہوا ہے۔
اسکے پاس اب کسی چیز کے لیے جگہ نہیں تھی۔ کتنا عجیب تھا۔ اس نے مدھم ہوتے ہوۓ آسمان کی طرف دیکھا اور
سوچا کہ “ہاں، پارٹی بہت کامیاب رہی۔ ”
اب اس نے چوڑی سڑک کو
پار کر لیا۔ اندھیری اور دھوئیں سے بھری گلی شروع ہو گئی تھی۔ شال اوڑھی اور اونی
ٹوپیاں پہنی ہوئی خواتین تیزی کے ساتھ گذر گئیں۔ آدمی باڑھ۔ سے لگے کھڑے تھے۔ بچے
دروازوں میں کھیل رہے تھے۔ ہلکی سی بھنبھناتی آوازیں ان گھروں سے آنے لگی تھیں۔
کچھ گھروں سے ٹمٹماتی روشنی اور سایہ کیکڑے کی طرح کھڑکیوں کے سامنے سے گذر رہے
تھے۔ لارا نے اپنی رفتار بڑھادی۔ اس نے سوچا بہتر ہوتا اگر اس نے کوٹ پہن لیا
ہوتا۔ اسکا فراک جھلملا رہا تھا اور وہ بڑی سی خوبصورت ہیٹ——-ہیٹ دوسری پہننی
چاہیے تھی! کیالوگاسکی طرف دیکھ رہے تھے؟ ضرور دیکھ رہے ہونگے۔ یہ سراسر غلطی تھی۔
کیا واپس جانا چاہئیے؟ نہیں۔ کافی دیر ہو چکی تھی۔ یہی گھر تھا۔ بہت سارے لوگ باہر
کھڑے تھے۔ گیٹ کے قریب ایک۔ ضعیف عورت بیساکھی لیے ،کرسی پر بیٹھی نگرانی کررہی
تھی۔ آوازیں بند ہو گئیں۔ لوگوں نے ہٹ کر اسے راستہ دےدیا۔ اسے لگا جیسے وہاں لارا
کی آمد متوقع تھی۔
لارا کافی گھبرا گئی
تھی۔ اپنی ہیٹ کے فیتے کو مروڑتے ہوے اس نے قریب کھڑی عورت سے پوچھا،” کیا یہ مسز
اسکاٹ کا گھر ہے؟” عورت نے مسکراتے ہوے کہا، “ یہی ہے، بیٹی۔ ”
اوہ! یہاں سے نکل جانا
چاہئیے آوارہ تنگ راستہ سے گذرتے ہوے کہا، “اے خدا، میری مدد فرما———“اور دستک دی۔
وہ ان گھورتی ہوئی نظروں سے بچنا چاہتی تھی، یا اپنا چہرہ کسی کی شال سے ڈھک لینا
چاہتی تھی۔ میں بس یہ ٹوکری رکھ دوں اور واپس چلی جاتی ہوں۔ اسکے خالی ہونے کا بھی
انتظار نہیں کرسکتی۔ اُسی وقت دروازہ کھلا۔ ایک چھوٹی سی عورت، کالا لباس پہنے،
اندھیرے سے باہر آئی۔
لارا نے پوچھا ،” کیا
تم مسز اسکاٹ(Mrs Scott) ہو ؟”
لیکن اسے تعجب ہوا جب
اس عورت نے کہا،” اندر چلی آئیں بی بی”
“نہیں “لارا نے کہا “
میں اندر نہیں آنا چاہتی۔ میں صرف یہ ٹوکری یہاں چھوڑنا چاہتی ہوں۔ ماں نے بھیجا
ہے۔ ”
وہ چھوٹی سی عورت نے،
اندھیری گلی میں جاتے ہوے جیسے سنا ہی نہیں———“ ادھر سے آئیں،پلیز بی بی”چکنی آواز
میں عورت نے کہا اور لارا اسکے پیچھے چل پڑی۔ اس نے اپنے آپ کو ایک خستہ حال
باورچی خانہ میں پایا۔ جہاں ایک دھویں سے بھرا چراغ روشنی بکھیر رہا تھا۔ وہیں پر ایک
عورت بیٹھی تھی۔
“ ایم(Em)”۔ اُس عورت نے کہا ،”
ایم! یہ لڑکی ہے۔ “اور لارا کی طرف پلٹ کر کہا، “ میں اسکی بہن ہوں۔ آپ اسے معاف
کردیں۔ معاف کردینگی نا ؟”
اوہ! بالکل!” لارا نے
کہا۔ “ پلیز ، پلیز انھیں پریشان نہ کریں۔ میں—میں صرف یہ چھوڑنا چاہتی ہوں—”
اسی لمحہ وہ آتش دان کے
قریب بیٹھی عورت گھوم کر پلٹی—اسکا چہرہ لال اور سوجا ہوا، آنکھیں اور ہونٹ بھی
سوجے ہوے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکی سمجھ میں نہیں آیا کہ لارا وہاں کیوں
تھی۔ کیا مطلب تھا۔ اور یہ اجنبی لڑکی اس ٹوکری کے ساتھ باورچی خانہ میں کیا کر
رہی تھی؟ یہ سب کیا تھا؟ اور مظلوم چہرہ شکنوں سے بھر گیا۔
“ ٹھیک ہے۔” دوسری عورت
نے کہا، “ لڑکی کا شکریہ ادا کر دونگی۔ ” اور مزید کہنے لگی “ آپ اسے معاف کر
دیںگی، مجھے یقین ہے۔” اور اسکا چہرہ بھی سوجا ہوا تھا،پھر بھی مسکرا نے کی کوشش
کر رہی تھی۔
لارا وہاں سے بھاگ جانا
چاہتی تھی۔ وہ تنگ راستہ سے گذرتی ہوئی سیدھی خوابگاہ میں پہنچی جہاں اس آدمی کی
لاش رکھی تھی۔
“ کیا تم اسے ایک نظر
دیکھنا چاہوگی؟” ایم کی بہن نے کہا، اور لارا کے پاس سے گذرتے ہوے وہ بستر کے پاس
چلی گئی۔ “ ڈرو نہیں بی بی—“اس نے اپنائیت سے کہا اور اسی اپنائیت سے لاش کے چہرے
سے چادر ہٹائی۔ “ اۓ—یہ ایک تصویر کی طرح ہے۔
دکھانے کے لیے تو کچھ نہیں ہے۔ میرے ساتھ آؤ—” لارا اسکے قریب آگئی۔
وہاں ایک نو جوان گہری
نیند میں سویا ہوا تھا۔ بہت گہری نیند میں کہ وہ ہم دونوں سے بہت بہت دور تھا—کتنا
دور،کتنا پُر سکون—وہ ایک خواب دیکھ رہا تھا۔ اسکو پھر کبھی نہیں جگانا تھا۔ اسکا
سر تکیہ میں دھنس گیا تھا، آنکھیں بند تھیں، وہ اندھی ہو چکی تھیں ان پپوٹوں کے
اندر—وہ اپنے خواب کے حوالے ہو چکا تھا۔ یہ گارڈن پارٹیاں، ٹوکریاں، جالی کے لباس
اسکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔وہ ان سب چیزوں سے بہت دور جا چکا تھا۔وہ بہت ہی
عمدہ اور خوبصورت تھا۔جب پارٹی میں سب لوگ ہنس رہے تھے،بینڈ سے نکلنے والی موسیقی
سے لوگ لطف اندوز ہو رہے تھے، یہ شخص اپنی بستی میں آیا—خوشی، خوشی—سب ٹھیک ہے، اس
سوے ہوے چہرے نے کہا—یہ بس اسی طرح ہونا تھا۔میں مطمئین ہوں۔
یہاں آنسو تو بہانے
چاہئیے—لارا وہاں سے بغیر کچھ کہے جا نہیں سکتی تھی۔اسنے بچہ کی طرح سسکی لی—-
“ میرے ہیٹ کے لیئے
مجھے معاف کر دینا۔” لارا نے کہا
اور بس ایم کی بہن کا
انتظار کیے بغیر وہ دروازہ سے نکل گئی۔اس تنگ راستہ سے ہوتی ہوئی لوگوں کے قریب سے
باہر چلی گئی—-گلی کے نکڑ پر لاری مل گیا۔وہ سایہ سے نکل کر آگے آگیا۔“ لارا، یہ
تم ہو؟”
“ہاں”
“مما پریشان ہو رہی
تھیں۔ سب ٹھیک ہے؟”
“ہاں، بالکل، اوہ،
لاری!” لارا نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
“ میں پوچھ رہا ہوں، تم
رو نہیں رہی ہو نا؟” بھائی نے پوچھا۔
لارا نے مثبت انداز میں
سر ہلایا—
لاری نے بہن کو گلے لگا
لیا—“ رو نہیں”—-بڑی گرم جوشی اور محبت سے کہا۔
“کیا وہاں ماحول بہت
ناخوشگوار تھا؟”
“ نہیں ” لارا نے سسکی
لی—“بہت کمال کا تھا۔لیکن لاری۔ ” وہ خاموش ہوگئی اور بھائی کی طرف دیکھا۔“کیا ہے
یہ زندگی—؟یہ زندگی نہیں ہے—” لیکن زندگی کیا تھی، وہ وضاحت نہیں کرسکی۔کوئی بات
نہیں۔وہ بالکل سمجھ گیا۔
“ نہیں ہے، میری پیاری
بہن۔” لاری نے کہا۔
Original Title: The
Garden Party
Written by:
Katherine Mansfield
(14 October 1888 – 9 January 1923) was a prominent New Zealand modernist short
story writer.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment