ایڈ تھ پرگیٹر کا افسانہ : للّی ہاتھ (The Lily hand)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر
491 : للّی ہاتھ
تحریر : ایڈ تھ پرگیٹر (برطانیہ)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
جس دن فیلپ (Felipe) فوت
ہوا اس دن عورتوں نے نیو بانڈ سٹریٹ کی
ٹریفک بند کر دی تھی ۔اس کی اونچے درجے کی بہترین دکان کے باہر وہ روتے پیٹتے ،بے
ہوش ہو رہی تھیں اورانہیں ہسٹیریا کے دورے
پڑ رہے تھے ۔ ان کے سوگ سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک اور ویلنتینو (Valentino) تھا ۔
میں اس واقعہکی
تفصیلات اکٹھی کرنے کے لیے بذاتِ خود وہاں موجود تھا ۔
اپنی ساری زندگی کو ایک
روایت کے درجے تک پہنچانے کے لئے اس نے جو اس سے بن سکا کیا ۔ اس کی شاہانہ عوامی
زندگی ، شاندار کپڑے ، خوبصورت دوست اور اس کے گھر کے سادہ کسی راہب کی خانقاہ
جیسے کمرے جہاں بستر کے سرہانے آبنوس کفن رکھا ہوتا ، جن میں وہ گھر پہنچ کر اپنا
آپ چھپا لیتا ,کی کہانیاں زبان زد عام تھیں ۔ اس کے چاہنے والے یہ ماننے کو تیار
نہیں تھے کہ یہ سب شہرت حاصل کرنے کا ڈھونگ ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک مخلص
مذہبی صوفی ہے ۔ یہ اس کے عظیم پیشے ،فن آرائش گری
(Cosmetician) کا ہی ایک رخ تھا ۔
انہوں نے اسے اس کفن میں پرسکون اور خاموش لیٹے ہوئے دیکھا تھا جب وہ آخری
پارٹی سے گھر آیا تھا ۔ کچھ عرصے سے اسے دل کا عارضہ لاحق تھا ۔ اس دفعہ اس نے
ضرور اسے آتے ہوئے
محسوس کیا ہو گا اور اس میں لیٹ کر انتظار کرنے لگا ۔
بانڈ سٹریٹ کی کھڑکی تک پہنچنے والا شور ماتمی جلوس سے
زیادہ نفاست سے خالی عورتوں کی چیخ و پکار جیسا تھا ۔ یقین کریں یا نہ کریں ،وہ
منظر اور اس کے ساتھ وہ شور ایک صحافی کی زندگی میں بھی بہت اہم تھا ۔ میں سوچنے
پر مجبور ہو گیا کہ ہر شخص کتنا کم فیلپ کی زندگی کے بارے میں جانتا تھا اور ساتھ
ہی میں حیران و پریشان تھا کہ وہ کیا تھا جو کسی کو معلوم نہیں تھا ۔
اس کھڑکی کو ہی لے لیں ۔یہ چھوٹی سی تھی اس پر نرم سلک
کے پردے لٹکے تھے ،جو عموماً پھیکے زرد
رنگ کے ہوتے ۔بعض اوقات یکدم گہرے سرمئی سبز تقریباً” سیاہ ہو جاتے ۔ اس میں کچھ
خاص نہیں تھا بس پھولوں کے بہت خوبصورت چھو ٹے سے انتظامات اور اس سب کے پیش منظر
میں اس کے ذاتی نشان کے سرمئی حروف اور ان کے بلکل پیچھے نشان بذات خود ، "للی
ہاتھ"
ہر شخص اس سے واقف تھا ۔یہ بالکل منفرد تھا ،یوں سمجھ
لیں کہ پورے برطانیہ میں سب سے زیادہ مشہور تجارتی نشان ۔ انتہائی اعلی آپس میں
جڑے دو باوقار ہاتھ ۔ جو سفید جیڈ( انتہائی قیمتی پتھر ) سے اس کی اپنی ڈرائینگ کے
مطابق بناۓ گئے تھے ۔ ( ان کے
بارے میں یہی مشہور تھا )
میں سوچنے لگا ۔ کیوں ؟ کیا اس کی زندگی میں واقعی کوئی
عورت تھی ،کوئی خاص عورت ،جسے وہ اپنے دماغ سے نکالنے سے قاصر رہا ؟ اس لئے کہ میں
جب بھی واپس آتا اور ان ہاتھوں کو دیکھتا تو میرا یقین اتنا ہی پختہ ہو جاتا کہ
کوئی بھی ان ہاتھوں کو خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا ۔ کیونکہ ان پر تصویر سازی ( marks of portraiture )کے
نشانات موجود تھے ۔
تو وہ کون تھی ؟ ۔اس میں ضرور کوئی کہانی پوشیدہ تھی
۔اگر وہ ہمیں معلوم ہو جاۓ
۔ جتنا میں اس کے بارے میں سوچتا اتنا ہی میرا تجسس بڑھتا جاتا ۔
میری بہترین مددگار سیاہ کوٹ اور سکرٹ میں ملبوس اس کی
سیکرٹری تھی ۔ میں ماتمی جلوس کے ساتھ رہا اور آخر کار اس کے تر بتر ہونے کے بعد
میں اسے تلاش کر کے کچھ پینے پلانے لے گیا ۔
"
اگر تم نے اس کے لئے دس سال کام کیا ہے۔ " میں نے
پوچھا ،" تو تمہیں ضرور اس کے بارے میں ان سب لوگوں کی نسبت زیادہ معلوم ہو
گا ۔"
"یہ مشکل نہیں ہے ۔" اس نے کہا ۔
"لیکن اگر میں آپ کو کچھ بتاؤں تو بھی آپ کو کچھ زیادہ پتہ نہیں چلے گا ۔ “
میں نے پوچھا ،” مجھے لگتا ہے ،اس کے والدین ہیں ؟ “
"
اگر تھے , تو بھی اس نے بہت عرصہ قبل ان سے جان چھڑا لی
تھی ۔ مالدار ہونے سے بھی پہلے ۔ میں اس کے پاس اس وقت ملازم ہوئی جب اس نے اپنا
پہلا لندن سیلون کھولا ۔ اس نے پہلے ہی تمام محنت کر لی تھی ۔اپنا کاروبار متعارف
کرانے سے پہلے ہی وہ اپنی شخصیت تعمیر کر چکا تھا ۔اور جس دن وہ اس جگہ منتقل ہوا
اس نے وہ شخصیت اپنا لی ۔ مجھے شک ہے کہ اس وقت سے کسی نے بھی کبھی اسے یہاں تک کہ
خود اس نے بھی باتھ روم آئینے میں اپنا آپ ننگا دیکھا ہو گا ۔ "
"اور اس کا نشان ؟ " میں نے پوچھا
،” کیا وہ بھی تیار تھا ؟ “
"نہیں ، اس نے اپنی کامیابی کا علم ہونے
کے ایک مہینے بعد ان ہاتھوں کی ڈرائنگ پر کام شروع کیا تھا ۔ میں جانتی ہوں میں نے
اسے اپنے دفتر میں ان پر کام کرتے دیکھا تھا ۔ یہ کوئی راز نہیں تھا ۔ "
"
تو کیا اس کے لئے اس کے سامنے کوئی ماڈل نہیں تھا ؟ "
اس نے اپنا سر ہلایا ۔
نہیں اس کے سامنے بیٹھی کوئی پراسرار خوبصورتی نہیں تھی ۔ اگر تم ایسا کچھ سوچ رہے
ہو تو ۔ میں خود بھی بعض اوقات حیران ہوتی تھی ۔اس نے توقف کیا اور ایک اور گلاس
کا آرڈر کیا ۔
"
تم جانتے ہو" ، اس نے فوراً کہا، میں خود حیران ہوا کرتی تھی کہ کیا اس کے
ساتھ ہی کچھ۔ غلط ہے ۔ فیلپ جان بوجھ کر ہر جگہ خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ دکھائی
دیتا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی زندگی کے استقبالیہ کمرے سے آگے نہ جا سکی
۔ میں تمہیں پورے یقین سے بتا سکتی ہوں کہ وہ ایک ٹھنڈی بوڑھی کنواری کی طرح زندگی
گزار رہا تھا ۔یہی وہ بات تھی جس کی وجہ سے میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ اس سارے معاملے
میں کچھ بہت انوکھی بات تھی ۔اور پھر اس کے ماضی کے حوالے سے بھی کچھ معاملہ تھا
جسے وہ دفن کر چکا تھا ۔ کچھ بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا ماسواۓ
کسی حادثے کے ۔ وہ لندن اس وقت آیا جب وہ سب سے اوپر پہنچنے کے لیے تیار تھا اور
جو کچھ ماضی میں اس کے ساتھ بیتا تھا وہ اسے ہمیشہ کے لئے جھٹک چکا تھا ۔اور پھر
ایک تیسری عجیب،انوکھی بات تھی ۔۔۔۔۔۔تمہیں معلوم ہے اس کا مذہب بھی تھا ؟ “
“
مجھے معلوم ہے ،ایسا ہونا بہت ضروری تھا ۔ “
"ٹھیک ہے ، اس کا بھی اتنا ہی ضروری مذہب
تھا جتنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اس کے مذہب کے حوالے
سے کچھ بھی نارمل اور پرجوش نہیں تھا ۔ وہ مذہب کو اسی طرح لیتا تھا جیسے کوئی صحت
بابت خبطی رجسٹرڈ دوائیوں کو لیتا ہے ، یا ڈوبتا ہوا شخص پانی میں تیرتی لکڑی کو ۔
کیونکہ یہ مقدس تھا اور اس کے پیچھ کچھ تھا ۔
“
"اس کے ماضی میں سے کچھ ،—جب کہ اس کا
کوئی ماضی تھا ہی نہیں ۔" میں نے کہا
۔
"کچھ ایسا— جو اس نے کسی کے ساتھ کیا
،کسی وقت ، مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے ؟ کچھ ایسا جسکے بعد اس نے اپنی زندگی کا
نو بٹّہ دس 9/10 حصہ زیر زمین دفنانے میں گزارا اور ایک بٹا دس ۱/۱۰ پچھتانے میں ۔ جب وہ
گناہ / جرم کی بات کرتا تو وہ اس بارے میں سنجیدہ ہوتا
. mea culpa , mea culpa mea maxima culpa / میری
غلطی ،میرا گناہ — “
اس نے اپنا گلاس خالی کیا اور وہ ٹرے میں رکھتے ہوۓ
ہلکا سا ٹرے کے ساتھ ٹکرایا ۔
"
اور تم نے اس سے کیا نتیجہ نکالا " میں نے اس سے بہت مختلف نظر آنے کی کوشش کی جو
وہ مجھے محسوس کروانا چاہ رہی تھی اور پوچھا۔
"
اس سب سے میں نے وہی نتیجہ اخذ کیا جو تم نے کیا ،"
اس نے جواب دیا ،” ایک عورت ۔ “
پیچھے ماضی میں کسی وقت
،جس کے بارے میں ہم زیادہ گفتگو نہیں کرتے ،وقت , جسے وہ بھلانا چاہتا تھا ،ایک
عورت جس کے ساتھ اس نے بہت برا کیا اور پھر اسے چھوڑ دیا —- میں کیسے جان سکتی ہوں
کہ اس نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟ بہرحال جو بھی تھا حتمی تھا ۔ جو ہمیشہ اس کا پیچھا
کرتا رہا ۔ اور اگر تم مجھ سے پوچھو تو اسی کی وجہ سے ہی وہ نسوانی حسن سے کبھی
دور نہیں رہ سکا ۔ لیکن اسے اپنا زندگی بھر کا کام بنا لیا — اور اسی کی وجہ سے اس
نے اپنے آپ کو آئندہ کسی عورت کے ساتھ جانے نہیں دیا ۔اور میرا خیال ہے کہ اسکا
چہرہ ہمیشہ ان کے درمیان آ جاتا — اور اس کے ہاتھ ، میں نے تمہیں ہاتھوں کو دیکھتے
ہوے دیکھا ،” اس نے کہا ۔ “ تم وہی سوچ رہے تھے جو میں اکثر سوچتی تھی — وہ حقیقی
عورت تھی ۔ “
میں نے جنازے کی تفصیل
جاری کی ۔جو ایک طرح سے اعلی سطحی خواتین کا بلوہ تھا ۔ سب ایک ہی قسم کی عورتیں
تھیں اس کی گاہک، جو اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ چکی تھیں . ان میں سے ایک بھی ایسی
نہ تھی جسے دیکھ کر لگے کہ اس کی بھی کوئی کہانی ہے ۔ بعد میں با لکل آخر میں جب
ہجوم چھٹ چکا تھا تو مجھے ایک خاص شکل نظر آئی ۔ جو خمیدہ بدن درمیانی عمر کی
پنجوں تک اپنے ذوق کے مطابق سیاہ اور بنفشی رنگ بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھی ۔
وہ منکسرالمزاجی سے چلتی ہوئی آئی ۔گل بنفشہ کا ایک چھوٹا گچھا قبر کی پائنتی رکھا
اور کچھ منٹ اسے دیکھتی کھڑی رہی ۔ پھر مڑی اور حیا داری سے رخصت ہو گئی ۔
میں اس کے پیچھے گیا
۔پہلے چوک پر اسے پکڑ لیا اور گفتگو کی کوشش کی ۔میں نے اسے بتایا کہ میں رپورٹر/
نامہ نگار ہوں .لیکن وہ کسی بھی طرح رام نہیں ہو رہی تھی ۔
جب میں نے اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے کہا ،
“ نہیں ،میں اس کی رشتہ دار نہیں ہوں ۔بس اتنی سی بات ہے کہ ایک دفعہ وہ میرا
کرایہ دار تھا ،بہت عرصہ پہلے ،اتنا مشہور انسان بننے سے پہلے ۔یہ میرے جیسی بوڑھی
عورت کے لئے یاد رکھنے کی بات ہے ۔
میں اسے چائے پلانے لے
گیا ۔اور پاگلوں کی طرح اس کی خوشامد کی ۔ اس کا خاوند مر چکا تھا اور لندن میں
اپنی بہن کے ساتھ رہنے لگی تھی ۔لیکن اس سے پہلے وہ لیورپول میں بورڈنگ ہاؤس چلاتی
تھی ۔بیس سال یا اس سے بھی پہلے ایک اٹھارہ سالہ لڑکا اس کے ساتھ رہتا تھا ۔وہ
نوجوان ایک کیمسٹ کے پاس کام کرتا تھا ۔جس کی شہر میں تین دکانیں تھیں اور چھوٹے
پیمانے پر کاسمیٹکس (زیبائشی اشیاء) تیار
کرتا تھا ۔اور وہ نوجوان فیلپ تھا اس کا نام جارج فلپس تھا ۔
اس نے مجھے کیمسٹ کا نام
بتایا ،جس پر میں کئی دن سوچتا رہا۔ اور بلآ خر میں لیور پول کے لئے روانہ ہو گیا
۔ وہ اس وقت اٹھارہ سال کا تھا ،بغیر کسی لڑکی کے تنازعے کے ،کرایہ پر رہتا تھا ،
جس سے ظاہر تھا کہ اس کا خاندان سے کوئی مضبوط تعلق نہیں تھا ۔ اور اب وہ فلپ تھا
، مشہور ، اور عورت — جی عورت — کہیں ماضی میں ۔
کیمسٹ نے کچھ سال قبل
اپنا کاروبار اپنے بیٹوں کے حوالے کر دیا تھا ۔لیکن بوڑھا کیمسٹ ابھی زندہ تھا
,گوداموں میں گڑ بڑ کرتا ،ہر کسی کے کام میں مداخلت کرتا رہتا تھا ۔ جب میں نے
اپنا تعارف کرایا اور اپنا مقصد بیان کیا تو وہ زرا بھی متاثر نہیں ہوا ۔ اس کے
نزدیک عظیم فیلپ ایک نام سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا ۔ لیکن اسے پرانے دنوں کی
یادیں دہرانا اچھا لگا ۔ وہ بات چیت کرنے لگا اور میں اس بات چیت کا رخ اپنی مرض
کے موضوع کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا رہا ۔اور سیلاب میں سے ٹکڑے پکڑتا رہا ۔
خوش قسمتی سے یہ وہ پرانی
قائم کردہ دکان تھی جسے اپنے بہت پرانے ریکارڈ رکھنے پر فخر تھا ۔ انہوں نے اپنے
پرانے حساب کتاب کے کھاتے نکالے اور ان میں گرائمر سکول سے فارغ لڑکا جارج فلپس
موجود تھا ۔ جس کا پتہ گھاٹ پر ایک پنجرنگا کوارٹر تھا ۔لیکن کام شروع کرنے کے تین
مہینے بعد ہی اس کا پتہ بوڑھی عورت کے بہت زیادہ باعزت بورڈنگ ہاؤس میں تبدیل ہو
گیا ۔ جونہی اس نے اپنے آپ کو محفوظ جانا تو اسنے فورا” نشیبی زمینوں کو چھوڑ دیا
۔ وہ اپنی ترقی کے رستے پر گامزن ہو چکا تھا ۔ لیورپول اور بانڈ سٹریٹ کے درمیان
کے سفر میں کوئی حادثہ ہوا ۔ جتنا زیادہ میں اس پر سوچتا اتنا ہی مجھے یقین ہوتا
گیا کہ وہ کوئی مہلک حادثہ تھا ۔ اس دوران میں مسلسل" ہاتھوں " کو
دیکھتا رہا ۔ and they had begun to look to me like a
piece of exorcism that had gone wrong .
بوڑھے نے مجھے بتایا کہ اسے وہ اچھی طرح یاد ہے ,یہ بتاتے
ہوۓ وہ بڑی خوشی سے پرانے سالوں
کے رجسٹر دیکھ رہا تھا ۔ " وہ ہوشیار لڑکا تھا مجھے یہ سن کر کوئی حیرانی نہیں
ہوئی کہ وہ کامیاب انسان بنا ۔ اس نے بننا ہی تھا ۔بہت محنتی تھا ،ہر وقت نئے
تجربات کرتا رہتا تھا۔ میں ہمیشہ سوچتا
تھا وہ ضرور کچھ حاصل کر لے گا ۔"
میں نے پوچھا ، " کیا وہ لڑکیوں کا پیچھا کر کے
وقت ضائع کرتا تھا ؟ "
"
نہیں ،اور اگر وہ اس کے پیچھے جاتیں تو زیادہ دور نہ جا
سکتیں ۔ میں یہ پکی بات بتا رہا ہوں ۔ وہ
عورتوں سے ایک فاصلہ قائم رکھتا ۔"
"
کیا آپ کبھی اس کے خاندان سے ملے ؟ "میں نے پوچھا
۔
"میرا ہمیشہ یہی خیال رہا کہ وہ یتیم ہے
۔ لیکن کوئی بچا کچھا ہو سکتا ہے "،اس نے بالکل لاتعلقی سے جواب دیا ۔ اس نے
مجھے اس فرم کے بارے میں بتایا جس میں اس نے نوکری چھوڑنے کے بعد شمولیت اختیار کر
لی تھی ۔ میں وہاں سے کافی مطمئن نکلا ۔ میرے پاس کافی وقت تھا اس لئے میں گھاٹ کی
جانب وہ مکان دیکھنے چلا گیا ۔ لیکن وہ مکان اب وہاں موجود نہیں تھا ۔نہ ہی وہ
سٹریٹ موجود تھی ۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا ماسواۓ
ان خالی جگہوں میں سے ایک جو آپ بہت سارے شہروں میں جنگ کے بعد دیکھتے ہیں ۔ اگر میرے
پاس ٹرین کے آنے تک ایک گھنٹہ نہ ہوتا تو میں کبھی مذید چھان بین نہ کرتا ، لیکن وقت
ہونے کی وجہ سے میں میونسپل دفتر چلا گیا ۔ اور ان لوگوں کے بارے میں تحقیق کی جو
بم برسنے کے بعد وہ جگہ چھوڑ گئے تھے — جہاں ان کے گھر تھے اور کیا کوئی فلپس نامی
شخص زندہ بچا۔ پتہ چلا کہ اس نام کا ایک رنڈوا تھا جو بچ گیا اس لئیے کہ وہ ریٹارڈ
ملاح تھا۔وہ ڈیوٹی کے سلسلے میں اس وقت مرسی ٹگز میں جاۓ
وقوعہ جہاں بمباری ہوئی تھی سے دور تھا ۔ انہوں نے مجھے اس کا پتہ دے دیا ۔ جو شہر
سے باہر بنے بناۓ
گھروں کی کالونی کا تھا جس میں جنگ سے زندہ بچنے والوں کو بسایا گیا تھا ۔ان کے خیال
میں مجھے اسی فلپس کی تلاش تھی ۔
میں فوراً وہاں پہنچا ۔
اتنی بھاگ دوڑ کے بعد فیلپ کے باپ یا جو بھی ان کا رشتہ تھا کو نہ ملنا بہت غلط
تھا ۔اس ساری بھاگ دوڑ کا مجھے معاوضہ نہیں ملنا تھا لیکن یہ سب میرے تجسس کے لئے
ضروری تھا ۔
میں صحیح مکان تک پہنچ
گیا ۔ دروازہ کھٹکھٹایا ۔ وہ دروازے پر آیا ۔اور مجھے گھورنے لگا ۔ وہ ایک معقول
بوڑھا تھا ، باقاعدہ ملاحوں جیسا ،صاف ستھرا ،حجامت بنی ہوئی ، ساگوانی رنگت ، اور
دیکھنے میں مضبوط ۔ اس کے پیچھے اس کا چھوٹا سا گھر چمک رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر
تنہا رہنے والے شخص کی بے نیازی تھی ۔
لیکن اس کی آنکھوں کی سختی اس بے نیازی کو کنوارے پن کی بے نیازی سے مختلف کر رہی
تھی ۔
میں نے اسے بتایا کہ میں
ایک متجسس نامہ نگار ہوں جو کسی دوسرے کے معاملے کو اپنے دماغ سے نہیں نکال سکتا
۔اس نے مجھے گھر سے باہر نہیں نکالا ۔میرے خیال میں ملاقاتی کا آنا اس کے لئے ایک
ایک عیاشی تھی اور وہ اس سے لطف انداز ہونا چاہتا تھا ۔ اس نے مجھے اندر بلایا اور
میرے ساتھ بیٹھ گیا ۔میں نےاسے اپنی سگریٹ کی ڈبیا پیش کی لیکن اسے اپنا پائپ
زیادہ پسند تھا ۔ یہ بالکل معمولی سا گھر تھا لیکن اسے بہت سے گھروں سے جو میں نے
دیکھے ہوۓ تھے سے بہتر صاف رکھا
گیا تھا ۔
میں نے کہا ، " اگر
میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ کا بیٹا حال ہی میں فوت ہوا اور وہ ایک کامیاب انسان
تھا ۔اسی وجہ سے میں اس کے بچپن کے بارے میں جاننے کے لئے یہاں آیا ہوں ۔" اس
کے ساتھ میں اسے دیکھ رہا تھا کہ آیا وہ سمجھ رہا ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔ اس
لئے کہ فیلپ کی تصاویر ہو سکتا ہے اس تک نہ پہنچی ہوں ۔ لیکن وہ سب جانتا تھا ۔وہ
بہت ساری ایسی باتیں جانتا تھا جن کے بارے میں اس نے کبھی گفتگو نہیں کی تھی ۔ جس
انداز سے وہ مجھے دیکھ رہا تھا ، بغیر حیران ہوئے، اس سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس عورت سے بھی
واقف تھا ۔ اس لیےکہ وہ پہلے سے ہی اس جگہ تھا اور ٹھیک ٹھیک اس کا تعین کرنا جہاں
میں پہنچا اس کے لئے بچوں کا کھیل تھا ۔اور تب مجھے احساس ہوا کہ میرے پاؤں کے
نیچے سے زمین کھسکنے لگی ہے ۔ وہ کیسے جانتا ہے ؟ جارج فلپس (George
Phillips) کے یہاں سے چلے جانے سے پہلے وہ سب کچھ ۔۔۔
وہ حادثہ نہیں ہو سکتا تھا ۔
میں کافی دیر باتیں کرتا
رہا ۔مجھے اپنے مدعا پر آنے تک وقت گزارنا تھا ۔ وہ بغیر کچھ کہے سنتا رہا ۔جب
میرے پاس باتیں ختم ہونے لگیں تو اس نے اپنا پائپ جھاڑا اور بولا :
"
تو تم یہاں کسی رومانس کی تلاش میں آئے ہو ،وہ تمہیں نہیں
ملے گا ۔ وہ ہمارا اکلوتا بیٹا تھا اور ہم نے اس کے لئے بھرپور کوشش کی اور جب وہ کام کر رہا تھا تو اچانک ایک دن وہ
آیا اور کہا کہ وہ ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ رہا ہے ۔ہم نے اجازت دے دی ۔ ہم اسے مذید
کچھ سالوں تک روک سکتے تھے، لیکن اس کا دل
ہمیں پہلے ہی چھوڑ چکا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ وہ کہاں جا رہا تھا ،اسے وہاں جانا ہی
تھا ہم اس کے رستے کی رکاوٹ تھے ۔تو اس نے ہمیں چھوڑ دیا ۔ آپ کسی کے دل کو نہیں
روک سکتے ۔ اگر یہی درست لفظ ہے ( دل ) جو اس کے پاس تھا ۔ مجھے اس کے علاوہ کوئی
اور کہانی کھوجنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تم بھی اپنا وقت ہی ضائع کرو گے ۔ "
میں لاجواب خاموش تھا ۔
اب وہ بول رہا تھا ۔اس میں کچھ خاص نہیں تھا ۔ میں وقت اپنے نیچے سے پھسلتے محسوس
کر سکتا تھا اور یہ کہ جلد ہی مجھے دروازے سے باہر ہونا ہے ۔ اس نے مجھے دیکھا اور
کہا ، " میں تو اس کے بغیر زندہ رہ گیا لیکن اس کی ماں نہیں ۔ وہ کسی بھی
کامل ترین مخلوق کے قریب ترین تھی ۔اور وہ اسے اسی طرح پیار کرتی تھی جس طرح
عورتیں اپنے اکلوتے بیٹے کو جس کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کے اٹھارہ سال گزارے
ہوں ،پیار کرتی ہیں ۔ جونہی اسے تنخواہ ملنے لگی جس پر وہ گزر بسر کر سکتا تھا تو
وہ آیا اور اس نے ماں کو بتایا کہ وہ ان سے تعلق ختم کر رہا ہے ۔اور یہ کہ وہ اس
کی ترقی کے امکانات کو تباہ نہیں کرے گی ۔ وہ چلا گیا اور اس نے اسے جانے دیا ۔ لیکن
اس کے بعد وہ کبھی بھی حقیقتاً زندہ نہیں
رہی ۔ اس نے ماں کا دل توڑ دیا تھا ۔کیا تمہیں معلوم کہ لوگ ابھی بھی اس طرح مر
جاتے ہیں ؟ وہ اس کے بعد ایک سال بمشکل زندہ رہی ۔ آخری خط جو میں نے اسے لکھا وہ
اسے بتانے کے لئے تھا کہ وہ مر چکی ہے ۔ لیکن اس نے اس کا بھی کبھی جواب نہیں دیا
۔ وہ آگے بڑھتا رہا اور ایک کامیاب انسان بن گیا بالکل اپنے جیسے جیسوں کی طرح۔۔۔ دوسروں کے کندھوں پر بندوق
رکھ کر ۔ “
اس کی ماں ! یہ ایسی اچانک بات تھی ، کہ میں فوری طور پر اسے
قبول نہ کرسکا ۔ یہ ایسا انکشاف تھا جس کا میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا ۔ اور
میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا ،کیوں؟ ،کیوں ؟ اس کا کیا مطلب ہوا ؟ لیکن بہت سی ایسی
باتیں ہیں جو میں نہیں کر سکتا۔ جو میں کر
سکتا تھا وہ یہ تھا کہ بڑبڑاتے ہوئے معافی مانگی اور اس سارے معاملے کو ختم کر
دینے کا وعدہ کیا اور پھر وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تاکہ اسے اکیلا چھوڑ دوں ۔ میں
کھڑا ہو گیا اور اس نے مجھے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی ، اور میں جانتا ہوں کہ جب
تک میں زندہ رہوں گا مجھے یہ جواب طلب "کیوں " زندہ کھا جائے گا ۔ اتنا زیادہ جاننے کے بعد یہ سب
کیوں کا نہ جاننا ۔
جب میں وہاں سے نکل رہا تھا تو اس نے میرے کندھے پر
ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ،" بیٹا ،اسے دل پر نہ لے لینا ،یہ اس کے ساتھ ساتھ دنیا
کی بھی غلطی ہے ۔ " اس نے سوچا بات مجھے سمجھ آ گئی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں
آئی تھی ۔
اور تب میں نے تصویر دیکھی ۔یہ کافی بڑی تھی ۔جو دروازے
کے ساتھ رکھی میز پر موجود تھی ۔جس کی میں نے آتے وقت پشت ہی دیکھی تھی ۔یہ ایک
عورت کی تھی ۔تین چوتھائی لمبائی ،اور دونوں ہاتھ گود میں جوڑ کر رکھے ہوئے۔
اس کے بعد میں سمجھ گیا ۔مجھے ہر بات واضع ہو گئی ۔
خصوصاً وہ قیمت جو اسے چکانی پڑی ۔
Mea
culpa ,mea culpa . mea maxima culpa / میرا قصور ،میرا
قصور ، میں قصور وار ہوں ! ۔ میرے خدا ، لیکن وہ خوبصورت تھی ! وہ خوبصورت ترین
اشیاء میں سے ایک تھی ،جو میں نے دیکھی تھیں ۔ حالانکہ اس وقت وہ تصویر مدھم پڑ
چکی تھی ۔ آخر اسے مرے ہوۓ
بیس سال گزر چکے تھے ، ایک جوان عورت ہاتھ کے بنے جمپر اور سیاہ سکرٹ میں ملبوس ،بڑی
مہربان سیاہ آنکھیں اور گھنگھریالے بال , اور اس کی ہڈیوں کی لکیروں میں انتہائی اضافی
نزاکت ، جو بعض اوقات آپ کو بندر گاہ کی عورتوں میں نظر آتی ہے .اس کی مسکراہٹ
پرجوش اور مہربان ترین تھی ۔ اور اس کی نگاہ ایسی کہ ، بچے بھاگے آئیں اور ہاتھ اس
کی گود میں بڑے سکون سے جڑے رکھے تھے ،جنہیں فیلپ نے پوری دنیا میں مشہور کر دیا
تھا تا کہ اپنے ضمیر سے اسے اتار سکے ( اس کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا بوجھ )
اور اس کی خوبصورتی اپنی نگاہوں سے دور کر سکے ۔— کردار کے سفید جیڈ کے ہاتھ ، دی
للی ہینڈز ( للی کے ہاتھ )
لیکن یہ ہاتھ سیاہ تھے ۔
اصل عنوان : The
Lily hand
مصنفہ کا تعارف
ایڈ تھ پار گیٹر
(Edith
Pargeter) انگریز مصنفہ تھی ۔جس نے ادب کی بہت مختلف
اصناف میں لکھا ۔جن میں بالخصوص تاریخ اور تاریخی ادب
مشہور ہے ۔ پراسرار ، جاسوسی ناول بھی
لکھے ۔ لیکن اس کے چیک کلاسیکل ادب کے انگلش تراجم کو بہت پذیرائی ملی۔ اپنے قلمی نام ایلس پیٹرز سے بھی جانی جاتی ہیں
۔
ستمبر 28 سال 1913 کو میڈلی ٹیل فورڈ برطانیہ میں پیدا
ہوئیں ۔ اور 14 اکتوبر 1995 میں ٹیل فورڈ برطانیہ میں وفات ہائی ۔
برٹش کرائم رائٹرز ایسوسی ایشن اور میسٹری رائیٹرز آف
امریکہ سے آوارڈ حاصل کئے اس کے علاوہ OBE آفیسر
آف دی آرڈر آف دی برٹش ایمپائر سے بھی ایوارڈ جیتا ۔
/www.facebook.com/groups/AAKUT
Comments
Post a Comment