کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ : مرحوم کرنل کی بیٹیاں (The Daughters of the Late Colonel)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 288 : مرحوم کرنل کی بیٹیاں

تحریر : کیتھرین مینسفیلڈ (نیوزی لینڈ)

مترجم : ڈاکٹر صہبا جمال شازلی (نیوزی لینڈ)




I

 

 وہ ہفتہ ان کی زندگیوں کا مصروف ترین ہفتہ رہا۔اگر وہ اپنے بستر پر بھی جاتیں تو صرف ان کے جسم کچھ آرام لے لیتے تھے لیکن ذہن مختلف مسائل کو سلجھانے کی کوشش کرنے لگتے ؛ کیسے حالات سے باہر نکلا جاے ، کچھ کہتے ہوے ، کچھ تعجب کرتے ہوے ، کچھ طۓ کرتے ہوے ، کچھ یاد کرتے ہوے کہاں ، کیسے……

کونسٹینشا(Constantia) ایک مجسمہ کی طرح دونوں ہاتھ دونوں جانب سیدھے کیے ، پیر ایک دوسرے پر ڈالے ، چادر اپنی تھوڈی تک کھینچے ، مسلسل چھت کو گھورے جارہی تھی۔

کیا پا پا کوئی اعتراز کر سکتے ہیں اگر ہم ان کی اونچی ٹوپی قلی کو دے دیں؟

قلی کو؟”، جوسفین(Josephine) چونک کر چیخی۔ “ آخر قلی ہی کیوں؟ کیا غیرمعمولی خیال ہے!”

کیونکہ”، کونسٹینشا نے آہستہ سے کہا ، “ اسے اکثر جنازوں کے ساتھ جانا ہوتا ہے۔ اور میں نے قبرستان میں دیکھا تھا صرف وہی اونچی کالی ٹوپی پہنے تھا۔” کچھ وقفہ کے بعد وہ پھر کہنے لگی۔ “ اور تب ہی میں نے سوچا کہ وہ اس اونچی ٹوپی کی کتنی قدر کریگا۔ جس طرح سے وہ پاپا کی خدمت کیا کرتا تھا ، ہمیں اسے کوئی تحفہ تو دینا ہی چاہیے۔

لیکن ،” جوسفین نے تکیہ کو پٹخ کر اندھیرے میں کونسٹینشا کو گھورتے ہوے کہا، “ پاپا کا سر!”اور پھر اچانک ہی ، اس ناخوشگوار لمحہ میں ، وہ قہقہہ لگا کر بےوقوفوں کی طرح ہنسنے لگی۔اس لیے نہیں کہ وہ ہنسنا چاہتی تھی ،بلکہ یہ اس کی عادت تھی۔کئی سال پہلے ہی جب وہ دیر رات باتیں کرتی ہوئی جاگتی رہتیں ، ان کے بستر کھینچ کر قریب کردیے گیے تھے۔ اور اب قلی کا سر ،غائب ہوتے ہوے اچانک نمودار ہوگیا ، جیسے ان کے پا پا کی ٹوپی کے نیچے جلتی ہوئی موم بتی۔قہقہے بلند ہوتے رہے۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو مضبوطی سے جکڑتے ہوے انھیں روکنے کی کوشش کی ، اور غصہ سے اندھیرے میں دیکھتے ہوے بہت ناگواری اور سختی کے ساتھ

کہا ، “ یاد رکھنا۔

ہم کل فیصلہ کرینگے ،” اس نے جواب دیا۔

کونسٹینشا نے کوئی خاص توجہ نہ دیتے ہوے ، بس ایک آہ بھری۔

کیا ہمیں اپنی پوشاکیں (dressing-gowns) بھی رنگ کرنے کے لیے دےدینا چاہیے؟

سیاہ ؟” جوسفین تقریباً چیخ پڑی۔

ہاں ، تو اور کیا ؟” کونسٹینشا نے کہا۔” میں سوچ رہی تھی__ یہ کچھ اچھا نہیں لگتا کہ جب ہم باہر نکلیں تو کالے کپڑے پہن لیں ، اور جب ہم گھر پر ہوں ___”

پریشان نہ ہوں ،ہمیں کوئی نہیں دیکھتا ،” جوسفین نے یہ کہتے ہوے بستر کی چادر کو اتنی زور سے جھٹکا کہ اس کا گاؤن اس کے پیروں سے کافی اوپر اٹھ گیاجسے اس نے تکیوں پر رینگتے ہوے ٹھیک کیا۔

کیٹ(Kate) دیکھے گی ،” کونسٹینشا نے کہا۔ “ اور پوسٹ مین تو لازمی دیکھے گا۔

جوسفین اپنی گہری سرخ رنگ کی چپلوں کے بارے میں سوچنے لگی جو اس کے ڈریسنگ گاؤن کے ساتھ موزوں ہونگی ، اور کونسٹینشا کی ہری چپلیں اس کے لباس کے ساتھ۔ سیاہ ! دو سیاہ ڈریسنگ گاؤن ،دو سیاہ مخملی چپلوں کے ساتھ ، آہستہ سے غسلخانہ کی طرف جاتی ہوئی دو کالی بلیوں کی طرح دکھائی دینگی۔

میں نہیں سمجھتی کہ یہ انتہائی ضروری ہے۔

کافی دیر خاموشی رہی۔پھر کونسٹینشا کہنے لگی ، “ ہمیں اخبارات میں یہ اطلاع بھجوادینی چاہیے کہ اگلے دن کا سیلون میل(Ceylon mail) ضرور دیکھ لیں……ویسے اب تک ہمیں کتنے خطوط وصول ہوے ہیں؟

تییس(۲۳)۔

جوسفین سارے ہی خطوط کا جواب دے چکی تھی ، اور تییس مرتبہ وہ جب بھی اس جملہ پر آتی “ ہمارے پاپا کا ساتھ چھوٹ جانا ہمارے لیے بے حد تکلیف دہ ہے ،” وہ ٹوٹ جایا کرتی اور اپنے آنسووں کو خشک کرنے کے لیے اسے رومال کی ضرورت ہوتی اور کبھی تو اسے اپنے نیلے آنسووں کو جذب کرنے کے لیے جاذب کاغذ بھی استعمال کرنا پڑا تھا۔ حیرت ہے ! اس کو اتنے بناوٹی عمل کو تییس مرتبہ دوہرانے کی ضرورت نہیں تھی ۔اب بھی اگر وہ غمگین ہو کر کہے “ ہمارے پاپا کا چھوٹ جانا ہمارے لیے بے حد تکلیف دہ ہے ،” اسے رولینا چاہیے ،اگر وہ چاہے۔

کونسٹینشا نے پوچھا ،” کیا تمھارے پاس حسب ضرورت معقول تعداد میں ڈاک ٹکٹ ہیں ؟

اوہ ، میں کیسے کہہ سکتی ہوں ؟” جوسفین نے غصہ سے کہا۔ “ کیا اس وقت مجھ سے یہ پوچھنا مناسب ہے؟

میں صرف جاننا چاہ رہی تھی۔” کونسٹینشا نے نرمی سے جواب دیا۔

پھر خاموشی چھا گئی۔تب ہی ہلکی سی آہٹ ہوئی ، تیز چلنے کی آواز اور پھر ہلکے سے اچھلنے کی آواز ہوئی۔

چوہا ،” کونسٹینشا نے کہا۔

چوہا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں کوئی کھانے کے چورے نہیں پڑے ہیں ،” جوسفین نے جواب دیا۔

لیکن وہ تو نہیں جانتا کہ یہاں کھانے کے چورے نہیں پڑے ہیں۔” کونسٹینشا نے کہا۔

ہمدردی کے جذبات نے اس کا دل مروڑ کر رکھ دیا۔بیچارہ چھوٹی سی جان ! اس نے محسوس کیا کہ کاش اس نے بسکٹ کے کچھ ٹکڑے سنگھار میز پر رکھ چھوڑے ہوتے۔ڈھونڈنے پر کچھ نہیں پانا ، کتنی ناگواری کا باعث ہوسکتا تھا۔کیا کریگا بیچارہ؟

میری سمجھ میں نہیں آتا وہ کیسے اپنی زندگی گذارتے ہونگے ،” اس نے آہستہ سے کہا۔

کون؟” جوسفین نے جواب طلب کیا۔

اور کونسٹینشا نے ضرورت سے زیادہ اونچی آواز میں کہا ،” چوہے۔

جوسفین کو غصہ آگیا۔ “ اوہ ، کیا بیوقوفی ہے، کون(Con)!” اس نے کہا۔ “ چوہوں کا اس سے کیا لینا دینا ہے۔تم سو رہی ہو۔

میں نہیں سمجھتی کہ میں سورہی ہوں۔” کونسٹینشا نے کہا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کیں اور سوگئی۔

جوسفین نے اپنی کمر سیدھی کی ، گھٹنوں کو کھینچ کر قریب کیا ، ہاتھوں کو موڑ کر ہتھیلیوں کو کانوں کے نیچے رکھا ، اور گال کو تکیہ پر رکھ لیا۔

II

ایک دوسری وجہ حالات کو الجھانے کی تھی نرس اینڈروز(Andrews) جو وہاں پورا ایک ہفتہ رکنے والی تھی۔ دراصل غلطی انھی کی تھی۔اس صبح جب ڈاکٹر جاچکا تھا ،جوسفین نے کونسٹینشا کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کیا “ کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم نرس اینڈروز کو ایک ہفتہ کے لیے اپنا مہمان بنا کر روک لیں ؟

بہت اچھا خیال ہے ،” کونسٹینشا نے خوش ہوتے ہوے کہا۔

میں سوچتی ہوں ،” جوسفین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا ، “ مجھے آج سہ پہر ہی اس کی تنخواہ دینے کے بعد کہہ دینا چاہیے ، ‘ نرس اینڈروز تم نے ہمارے لیے بہت کیا ہے۔ اگر تم اس ہفتہ ہماری مہمان بن کر رہوگی تو مجھے اور میری بہن کو بہت خوشی ہوگی۔’ اس صورت میں ایسے بھی کہا جا سکتا کہ ہماری مہمان بنے___”

لیکن کہیں وہ ہم سے مزید پیسوں کی امید نہ لگا بیٹھے !” کونسٹینشا چیخ اٹھی۔

کوئی نہیں جانتا ،” جوسفین نے نہایت مدبرانہ انداز میں جواب دیا۔

نرس اینڈروز تو بہت خوش تھی ۔لیکن ایک پریشانی تھی۔وہ یہ کہ اب انھیں سارے کھانے وقت پر اور روائتی انداز میں ایک جگہ کھانے ہونگے۔ورنہ وہ اکیلی تھیں اور جب اور جہاں چاہتیں کیٹ سے کہہ کر کھانے کی کشتی وہیں منگوالیتیں ، اگر کیٹ برا نہ مانے تو ، جہاں بھی وہ ہوتیں۔کھانے کے اوقات کی پابندی کا دباؤ ختم ہو جانے کے بعد اب یہ تو ایک آزمائش ہی ہوگی۔

نرس اینڈروز بس مسکہ کے بارے میں تھوڑی سی خوفزدہ تھی۔وہ دونوں اس احساس کے تحت پریشان تھیں کہ آخر وہ صرف مسکہ کی خاطر ہماری مہربانیوں کا ناجائز فائدہ کیسے اٹھا سکتی تھی۔اور پھر اس کی وہ پاگل بنا دینے والی عادت ، بریڈ کا چھوٹا سا ٹکڑا مانگنا تاکہ اسکی پلیٹ میں بچی ہوئی چیزو ں کو ختم کر سکے۔اور پھر آخر میں ، بے خیالی میں ___ یقیناً وہ بےخیالی تو نہیں تھی ___پھر دوبارہ مدد مانگنا۔یہ سب دیکھ کر جوسفین کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوجاتا اور وہ میزپوش پر اپنی نظریں ایسے جما دیتی جیسے اس نے کوئی عجیب قسم کا چھوٹا سا کیڑا دیکھ لیا ہو جو اپنے جال سے نکل کر رینگتا ہوا وہاں پہنچ گیا ہو۔لیکن کونسٹینشا کا لانبا اور خوف سے زرد ہوا چہرہ مزید کھنچ گیا ، اور وہ دور ، بہت دور صحرا میں ان اونٹوں کی ، کھلی ہوئی اون کی ڈوری کی طرح سیدھی جانے والی قطار سے بھی آگے دیکھنے لگتی ……

جب میں لیڈی ٹیوکس(Lady Tukes) کے یہاں تھی، ان کے پاس مسکہ رکھنے کے لیے بہت ہی عمدہ سا آلہ تھا۔ وہ ایک سلور رنگ کا کیوپڈ(Cupid) ایک کانچ کے برتن کے کنارے پر ایک چھوٹا سا کانٹا(fork) لیے کھڑا تھا۔ جب بھی آپ کو مسکہ چاہیے ، اس کے پیر کو دبائیں اور وہ جھک کر آپکی بریڈ پر مسکہ لگا دیتا۔بڑا اچھا کھیل لگتا تھا۔

جوسفین کی قوت برداشت جواب دے رہی تھی ، لہٰذا اس نے صرف اتنا کہا ،” اس طرح کی اشیاء کا استعمال فضول خرچی کہلاتا ہے۔

لیکن کیوں ؟” نرس اینڈروز نے اپنی عینک کے پیچھے سے جھانکتے ہوے کہا۔ “ وہاں تو کوئی بھی اپنی ضرورت سے زیادہ مسکہ لیتا ہی نہیں تھا۔

فون بج رہا ہے ،کون(Con) ، جوسفین نے چیخ کر کہا ، ویسے وہ فون پر جواب دینے کے لیے خود پربھروسہ نہیں کر سکتی تھی۔

ہماری قابل فخر ، کیٹ(Kate) ، کھانے کے کمرے میں یہ دیکھنے کے لیے آئی کہ اس کی رانیوں کو کچھ اور چاہیے تو نہیں۔کچھ مذاق کرتے ہوے اور مکئی کے حلوہ کو گرنے سے بچاتے ہوے ، پلیٹیں اٹھانے لگی ۔

جام (jam) ، پلیز ، کیٹ ،” جوسفین نے بڑی نرمی سے کہا۔

کیٹ نے جھک کر کھانے کے کمرے کی چھوٹی الماری کھولی ، جام کے مرتبان کا ڈھکن کھولا ، دیکھا وہ خالی تھا ، اسے میز پر رکھا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔

نرس اینڈروز نے شک ظاہر کیا ،” مجھے ڈر ھیکہ شائد اور جام نہیں ہے۔

اوہ ، کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے!” جوسفین نے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوے کہا۔” ہمیں اس سے بہتر کیا کرنا چاہیے تھا ؟

کونسٹینشا کچھ تذبذب میں دکھائی دے رہی تھی۔اس نے آہستہ سے کہا ، “ ہم کیٹ کو مزید پریشان نہیں کر سکتے۔

نرس اینڈروز نے دونوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر اپنی عینک کے پیچھے سے ہر طرف نظریں دوڑائیں۔ کونسٹینشا مایوسی کے عالم میں اپنے اونٹوں کے پاس چلی گئی۔جوسفین ماتھے پر بل ڈالے ، بہت گہرائی سے کسی خاص بات پر اپنی ساری توجہ مرکوز کیے ہوے تھی۔یہ بیوقوف عورت اگر نہ ہوتی ، تو وہ اور کون ، یقیناً مکئی کا حلوہ کھا لیے ہوتے۔ اچانک ہی اسے خیال آیا۔

مجھے پتہ ہے ،” جوسفین نے کہا ۔” کھانے کے کمرے کی الماری میں تھوڑا نارنگی کا حلوہ رکھا ہے۔کون ، وہ لے آنا۔

امید کرتی ہوں کہ ، “ نرس اینڈروز نے ہنستے ہوے کہا۔ اس کی ہنسی جیسے کوئی دوا کے گلاس میں چمچ گھما رہا ہو۔ “ وہ نارنگی کا حلوہ کڑوا نہ ہو۔

III

لیکن ، خیر وہ کوئی طویل عرصہ کے لیے تو رہنے آئی نہیں تھی ، اور وہ خیریت سےچلی بھی جائے ۔البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہمارے پاپا کے لیے اپنے دل میں بہت ہمدردی رکھتی تھی۔اور انکی زندگی کے آخری دنوں میں تو وہ دن اور رات ان کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔ویسے کونسٹینشا اور جوسفین کے خیال میں اس نے ضرورت سے زیادہ ہی خدمت کی ، شائد وہ انھیں چھوڑ کر جانا ہی نہیں چاہتی ہو۔جب وہ دونوں نرس اینڈروز کو الوداع کہنے کے لیے اندر گئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ وہ ان کے والد کے بستر کے بازو ، جھوٹ موٹ ، ان کی کلائی تھامے اپنی گھڑی پر نظریں جماے بیٹھی تھی۔ویسے یہ کوئی ضروری بھی نہیں تھا بلکہ بیکار تھا۔دونوں کو لگا کہ ان کے والد ان سے کچھ کہنا چاہتے تھے ___ کچھ جو صرف ان کے درمیان نجی تھا۔اس بارے میں نہیں کہ ان کے پاس کیا تھا___ بلکہ اس سے بہت آگے ، بہت دور ! وہ لیٹے ہوے تھے اور ان کا چہرہ اور جسم نیلا ہوچکاتھا، اور وہ اپنی بیٹیوں کو تو دیکھ بھی نہیں سکے جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔اور پھر جب وہ حیران کھڑی تھیں کہ کیا کیا جاے ، انھوں نے اچانک ایک آنکھ کھولی۔اوہ ، کیا فرق پڑ گیا ہوتا ، کیا فرق پڑ جاتا اگر وہ اپنی دونوں آنکھیں کھول دیتے۔ ان کے ذہنوں میں اپنے والد کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے ، لوگوں سے کہنا کتنا آسان ہوجاتا۔ لیکن نہیں ___ انھوں نے تو صرف ایک ہی آنکھ کھولی۔ ایک سرسری نظر دونوں پر ڈالی اور پھر …… وہ چلے گئے۔

IV

 

انھیں ، سینٹ جون(St. John’s) کے مسٹر فیرولس(Farolles) کا اس شام آنا عجیب سا لگا۔اندھیرے ڈرائنگ روم میں ان کی طرف آتے ہوے ان کے پہلے الفاظ تھے ، “ مجھے یقین ہے ، آخری سفر بہت پرسکون رہا ہوگا۔

بالکل ،” جوسفین نے کمزور آواز میں کہا۔اور دونوں نے یہ محسوس کرتے ہوے سر جھکا لیا کہ ان کی آنکھ تو کسی طرح سے پر سکون نہیں تھی۔

آپ تشریف رکھیں۔” جوسفین نے مہمان سے کہا۔

شکریہ ، مس پینر(Miss Pinner) ،مسٹر فیرولس نے ممنونیت سے کہا ۔” انھوں نے اپنے کوٹ کا پچھلا حصہ احتیاط سے تہہ کیا اور پاپا کی آرام کرسی پر بیٹھنے لگے ، جیسے ہی کرسی کو چھوا وہ اچانک اچک کر کھڑے ہوگیے اور دوسری کرسی پر جا بیٹھے۔

انھوں نے کھنکار کر گلا صاف کیا ۔ جوسفین نے اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں پھنسا رکھے تھے جبکہ کونسٹینشا کا چہرہ غیرواضح تاثرات سے بھرا تھا۔

میں آپ کو ، مس پینر ، اور مس کونسٹینشا ، یہ احساس دلوانا چاہتا ہوں کہ میں تمھاری مدد کرنا چاہتا ہوں ۔میں آپ دونوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں اگر آپ لوگ اجازت دیں تو۔یہی مواقع ہیں ،” مسٹر فیرولس نے بڑی سادگی اور خلوص سے کہا ،” خدا چاہتا ھیکہ ہم ایک دوسرے کے کام آئیں۔

بہت شکریہ ، مسٹر فیرولس ،” جوسفین اور کونسٹینشا دونوں نے ایک ساتھ کہا۔

کوئی بات نہیں ،” مسٹر فیرولس نے دھیمے سے جواب دیا۔انھوں نے اپنے دستانے نکالے اور آگے کی طرف جھکے۔ “ اگر آپ کو مقدس تقریب اور دعا کروانی ہو تو مجھے کسی بھی وقت بتا دینا۔ اس طرح کی ایک چھوٹی سی تقریب کافی مددگار ثابت ہوتی ہے ___ بڑا اطمینان بخشتی ہے،” اپنے مشورے میں اضافہ کرتے ہوے کہا۔

لیکن چھوٹی سی مقدس تقریب کے تصور سے بھی وہ خوفزدہ ہوگئیں۔کیا ڈرائنگ روم میں ہی سارا انتظام کرنا ہوگا ___ نہیں ___ کوئی قربان گاہ وغیرہ نہیں ہو گی۔پیانو (piano) کتنا وزنی تھا۔کونسٹینشا نے سوچا ، مسٹر فیرولس اپنا گلاس لیکر کس کے سہارے کھڑے رہ سکیں گے۔اور کیٹ بار بار اندر داخل ہو کر مداخلت کرتی رہیگی ، جوسفین نے سوچا۔اور فرض کرلیں کہ اچانک گھنٹی بج جاے؟ ہوسکتا ھیکہ کوئی اہم شخص ہو جو ماتم زدہ گھر میں تعزیت کے لیے آیا ہو۔کیا انھیں احترام کے ساتھ اٹھ کر باہر جانا چاہیے ، یا پھر وہ بیان کے ختم ہونے کا انتظار کریں ……اور اذیت کے ساتھ بیٹھے رہیں۔

آپ اگر اس مقدس تقریب کو بعد میں کبھی کروانا چاہیں تو کیٹ کے ذریعہ اطلاع بھجوا دینا۔” مسٹر فیرولس نے کہا۔

ہاں ، ہاں بالکل ، بہت شکریہ !” دونوں نے کہہ دیا۔

مسٹر فیرولس اٹھے ، گول میز سے اپنا ہیٹ اٹھایا اور بہت نرمی سے کہا “ اور تعزیت اور ماتمی جلسہ کے انتظامات میں دیکھ لونگا ___ آخر میں تمھارے والد کا پرانا دوست رہا ہوں ، اور تمھارا بھی ، مس پینر اور مس کونسٹینشا؟

جوسفین اور کونسٹینشا بھی کھڑی ہو گئیں۔

میں چاہتی ہوں کہ یہ بالکل سادہ طریقہ سے ہو ،” جوسفین نے پرعزم انداز میں کہا ، “ زیادہ مہنگا نہ ہو ، اور ساتھ ہی ، میں چاہتی ہوں ___ “

ایسا کہ جو ایک یادگار ہو ،” کونسٹینشا نے سوچا ، جیسے کہ جوسفین کوئی نائٹ گاؤن خریدنے جارہی ہو۔ لیکن یقیناً جوسفین نے ایسا کچھ کہا نہیں۔ “ ایسا جو ہمارے والد کی شخصیت کے معیار کے مطابق ہو۔” بہت مایوس تھی وہ۔

میں ہمارے ایک دوست ، مسٹر نائٹ (Mr. Knight) سے بھی ملاقات کرونگا ، “ مسٹر فیرولس نے تسلی دیتے ہوے کہا۔” میں ان سے کہونگا کہ وہ آپ دونوں سے ملیں۔مجھے یقین ھیکہ وہ آپ کے لیے ضرور مددگار ثابت ہونگے۔

v

خیر ، کسی بھی طرح سے تجہیز و تکفین اور اس کے بعد ہونے والی ساری تقریبات ختم ہوگئیں ، اگرچہ کہ وہاں کوئی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ ان کے والد کبھی بھی واپس آنے والے نہیں تھے۔البتہ ، قبرستان میں جب کافن ( جنازہ) نیچے رکھا گیا تب جوسفین ایک خوفزدہ لمحہ سے گذری یہ سوچ کر کہ اس نے اور کونسٹینشا نے اپنے والد سے اجازت لیے بغیر یہ سب کردیا۔جب انھیں پتہ چلے گا تو وہ کیا کہیں گے ؟ جلد یا بدیر ، انھیں پتہ تو چل ہی جائیگا۔ جیسے وہ ہمیشہ جان لیا کرتے تھے۔ “ دفن کردیا۔ تم دونوں لڑکیوں نے مل کر مجھے دفن کردیا !” اسے ان کی چھڑی کے زمین پر مارنے کی آواز بھی سنائی دینے لگی تھی۔اب وہ کیا کہیں گی۔کیا وجہ بتائیں گی ؟بڑا ہی ہولناک اور بے رحمی کا کام تھا۔بے حد ناگوار حرکت کی تھی ایک ایسے شخص کے ساتھ جو اس لمحہ بے بس پڑا تھا۔دوسرے سارے لوگ اس واقعہ کو قدرت کا نظام سمجھ رہے تھے۔وہ سب تو اجنبی تھے جو نہیں سمجھ سکتے تھے کہ موت جیسے سانحہ سے گذرنے والے وہ آخری شخص ہونے چاہیے تھے۔نہیں ، اس سب کی ذمہ دار صرف جوسفین اور کونسٹینشا ہی ہونگی۔لوگوں سے بھری ٹیکسی میں داخل ہوتے ہوے اس نے اخراجات کے بارے میں سوچا۔جب وہ بل دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟

اور جیسے اس نے اپنے والد کی گرجتی ہوئی آواز کو سنا۔” کیا چاہتے ہو تم لوگ کہ میں اس بیہودہ تفریح کے لیے کیے گیے اخراجات کو ادا کروں ؟

اوہ ،” بیچاری جوسفین نے کراہتے ہوے کہا ، “ کون ، ہمیں یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا !”

اور کونسٹینشا نے ، جو پہلے ہی لیمو کی طرح پیلی پڑ چکی تھی ، گھبرا کر سرگوشی کی ، “ کیا کردیا ،جُگ (Jug)؟

انھیں پاپا کو ایسے ہی دفن کردینا چاہیے تھا ، “ کہتے ہوے جوسفین ٹوٹ کر رونے لگی اپنے نئے تعزیتی رومال کو چہرے پر لگاے۔

لیکن ہم اور کیا کرسکتے تھے ؟ “ کونسٹینشا نے تعجب سے پوچھا۔” ہم انھیں نہیں رکھ سکتے تھے ، جُگ ___ ہم انھیں بغیر دفن کیے اس چھوٹے سے فلیٹ میں تھوڑی نہ رکھ سکتے تھے ۔

جوسفین نے رومال سے اپنی ناک صاف کی۔ ٹیکسی میں اس کی گنجائش سے بہت زیادہ لوگ بیٹھے تھے۔

میں نہیں جانتی ،” جوسفین نے مایوسی سے کہا۔” بڑا خوفناک ہے یہ سب۔ ہمیں کم از کم ایک بار کوشش کرنی چاہیے تھی اسے یقینی بنانے کے لیے۔لیکن اب یہ بات تو یقینی ھیکہ ___” اس کے آنسو پھر بہنے لگے ___” پاپا ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریں گے__کبھی نہیں !”

VI

دو دن بعد جب وہ اپنے والد کے کمرے میں ان کی چیزیں سمیٹنے کے لیے گئیں تو انھیں احساس ہوا ، جو اس سے پہلے شائد کبھی نہیں ہوا تھا ، کہ وہ انھیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔انھوں نے کافی غور و فکر کے بعد ایک فہرست تیار کی تھی کہ والد کے انتقال کے بعد انھیں کیا کرنا تھا جس میں سب سے آخر میں لکھا تھا ،’ پاپا کی چیزوں کا اچھی طرح سے معائینہ کرکے انھیں حتمی طور پر کہیں محفوظ کردیا جاے۔’ لیکن ناشتہ کے بعد تو کچھ اور ہی گفتگو ہوئی۔

اچھا تو کیا تم تیار ہو ، کون؟

ہاں ، جُگ ___ جب تم تیار ہو۔

میرے خیال سے جتنی جلدی اس کام کو نپٹا دیں ، بہتر ہوگا۔

 

ہال میں کافی اندھیرا تھا۔ویسے برسوں سے اس گھر کا اصول تھا چاہے کچھ ہوجاے ، صبح کے وقت پاپا کو پریشان نہ کیا جاے۔اور اب وہ بغیر دستک دیے دروازہ کھولنے جا رہی تھیں۔ اس تصور سے ہی کونسٹینشا کی آنکھیں غیرمعمولی طور پر پھیل چکی تھیں ؛ جوسفین کے پیر بھی لڑکھڑانے لگے تھے۔

تم ___ پہلے چلی جاو ،” اس نے ہانپتے ہوے کونسٹینشا کو دھکا دیتے ہوے کہا۔

لیکن کونسٹینشا نے وہی کہا جو وہ ہمیشہ ایسے موقعوں پر کہا کرتی تھی ، “ نہیں ، جُگ ، یہ مناسب نہیں ہے۔ تم بڑی ہو۔

جوسفین کہنے ہی جارہی تھی ___ جو وہ کسی اور موقع پر ہرگز نہ کہتی ___ اب آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہا ، “ لیکن تم دراز قد ہو ،” تب ہی باورچیخانہ کے دروازہ پر کیٹ کھڑی دکھائی دی ……جوسفین نے دروازہ کے دستہ کو پکڑ کر گھمانے کی بہت ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہی ، “ بہت سخت ہے ۔” کیا کیٹ کو کسی طرح بھی بیوقوف بنایا جاسکتا تھا!

انھیں مدد نہیں مل سکی۔وہ لڑکی …… پھر ان کے پیچھے دروازہ بند ہوگیا ، لیکن وہ اپنے پاپا کے کمرے میں نہیں تھیں۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اچانک ہی کسی دیوار میں سے گذر کر غلطی سے کسی اور ہی فلیٹ میں پہنچ چکی تھیں۔کیا دروازہ بالکل ہمارے پیچھے تھا ؟ وہ دونوں کافی گھبراچکی تھیں۔جوسفین جانتی تھی اگر دروازہ سختی سے بند تھا تو یہ وہی دروازہ تھا ؛ کونسٹینشا نے محسوس کیا جیسے خوابوں میں دکھائی دینے والے دروازوں کو دستے نہیں ہوتے۔لیکن یہاں پر شائد سردی کی وجہ سے عجیب طرح سے بند ہوگیا تھا۔یا سفیدی ___ کونسی ؟ ہر چیز ڈھکی تھی۔پردے نیچے تک کھنچے ہوی تھے۔آئینہ کو بھی کپڑے سے ڈھک دیا گیا تھا۔ایک چادر نے بستر کو چھپا رکھا تھا۔بڑا سا سفید کاغذ کا بنا پنکھا آتشدان میں ٹھونس دیا گیا تھا۔کونسٹینشا نے ڈرتے ڈرتے اپنا ہاتھ آگے کیا اس امید میں کہ برف کا ٹکڑا اس کے ہاتھ پر گر پڑے۔جوسفین نے اپنی ناک میں عجیب سی جھنجھناہٹ محسوس کی ، جیسے کہ اس کی ناک منجمد ہو چکی ہو۔تب ہی نیچے زمین پر پڑے کوئلوں کے ٹکڑوں پر چلتی ہوئی ٹیکسی کی گھڑگھڑاہٹ نے وہاں چھائی خاموشی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔

میرے خیال سے بہتر ہوگا کہ میں پردہ ہٹا دوں ،” جوسفین نے ہمت کرتے ہوے کہا۔

ہاں ، اچھا خیال ہے ،” کونسٹینشا نے آہستہ سے کہا۔

جیسے ہی انھوں نے پردے کو چھوا ،وہ تیزی سے اوپر چلاگیا ، اس کے پیچھے ڈوری بھی اوپر جا کر پردے کی ڈنڈی سے لپٹتی چلی گئی۔اور اس میں پھنسا پھندنا جیسے خود کو آزاد کروانے کی جدو جہد کررہا تھا۔کونسٹینشا کی قوت برداشت کے لیے اب یہ بہت زیادہ ہوگیا تھا۔

کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اس کام کو کسی اور دن کے لیے رکھ دیں ؟” اس نے سرگوشی کی۔

کیوں ؟” جوسفین غصہ سے چلائی ،اور ھمیشہ کی طرح یہ محسوس کر کے مطمئین ہوگئی کہ کونسٹینشا ضرور گھبرا گئی تھی۔ “ یہ کام کسی صورت ہوجانا چاہیے۔لیکن میں چاہونگی کہ تم کوئی سرگوشیاں نہ کرو ، کون ۔

مجھے نہیں پتہ کہ میں نے سرگوشی کی تھی ، “ کونسٹینشا نے آہستہ سے کہا۔

اور تم اس بستر کی طرف کیوں گھورے جارہی ہو ؟ “ جوسفین نے بےباکی سے اونچی آواز میں کہا ، “ کچھ نہیں ہے بستر پر۔

اوہ ، جُگ ، ایسا نہ کہو !” بیچاری کونی نے کہا۔” اونچی آواز میں تو کسی قیمت پر نہیں ۔

جوسفین نے محسوس کیا کہ واقعی وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی۔پھر وہ تیزی سی مڑی اور الماری کی دراز میں ہاتھ ڈالا ، پھر جلد ہی ہاتھ نکال کر دراز کو واپس بند کردیا۔

کونی !” اس نے ہانپتے ہوے ، الماری کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے ہوے کہا۔

اوہ ، جُگ __ کیا بات ہے ؟

جوسفین کی نظروں میں تو بس آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔وہ بہت ہی غیرمعمولی احساس میں ڈوبی ہوئی تھی اس منظر کے لیے جس سے ابھی ابھی اس نے فرار حاصل کیا تھا۔ وہ کیسے کونسٹینشا کو بتاتی کہ الماری کی درازوں میں اسے ان کے پاپا دکھائی دیے تھے ؟سب سے اوپر کی دراز میں وہ اپنے رومال اور نیکٹائیوں کے ساتھ تھے۔دوسری دراز میں وہ اپنی قمیضوں اور سونے کے کپڑوں کے ساتھ ، اور سب سے نیچے کی دراز میں سوٹس کے ساتھ۔وہ ، دروازہ کے ہینڈل کے پیچھے چھپ کر ، ہم پر نظر رکھے ہوے تھے ___ تاکہ موقع پاتے ہی اچھل کر باہر آجائیں۔

اس نے مزاحیہ انداز میں رونی صورت بناکر ، جیسے وہ پرانے دنوں میں بنایا کرتی تھی جب اسے رونا ہوتا تھا ، کونسٹینشا کی طرف دیکھا۔

میں نہیں کھول سکتی ، “ اس نے درد سے روتے ہوے کہا۔

نہیں ، نہ کھولیں ، جُگ ، “ کونسٹینشا نے سنجیدگی سے کہا۔ “ بہت بہتر ہوگا کہ نہ ہی کھولا جاے۔کوئی بھی چیز نہ کھولیں۔ ایک طویل عرصہ تک تو کسی بھی قیمت پر نہیں۔

لیکن ___ لیکن یہ تو ہماری کمزوری ہوگی ،” جوسفین نے ٹوٹتے ہوے کہا۔

لیکن کیوں نہ ایک بار کمزور ہو جائیں ، جُگ ؟” کونسٹینشا نے بحث کی۔” اگر وہ کمزور ی ہے تو ۔

اور پھر اس کی بےرنگ نگاہیں مقفل لکھنے کی میز سے ہٹ کر چمکتی ہوئی کپڑوں کی الماری کی طرف گئیں ، اور اس کی سانسیں بےقابو ہونے لگیں ، وہ ہانپنے لگی۔ “ ہم اپنی زندگیوں میں کیوں نہ ایک مرتبہ کمزور ہوجائیں ، جُگ ؟ یہ بالکل قابل درگزر ہے۔ چلیں کمزور ہوجاتے ہیں ___ کمزور ہوجاؤ ، جُگ۔ کمزور ہوجانا مضبوط رہنے سے زیادہ اچھاہے۔

پھر اس نے وہ حیران کن دلیری کا کام کیا جو اس نے دو مرتبہ اپنی زندگیوں میں کیا تھا : وہ سیدھی کپڑوں کی الماری کے قریب گئی ، چابی کو گھمایا اور قفل سے باہر نکال لیا۔ اور پھر جوسفین کو اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دکھاتے ہوے واضح کرنا چاہا کہ وہ جانتی تھی کہ اس نے کیا کیا ___ اس نے جان بوجھ کر یہ خطرہ مول لیا کہ پاپا کو ان کے اوور کوٹس کے ساتھ اندر ہی رہنے دیا۔

اگر وہ بھاری الماری ڈھلک کر کونسٹینشا پر گر پڑے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کردے تو جوسفین کو کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا کچھ ہوا نہیں۔کمرے میں ہمیشہ سے زیادہ خاموشی چھا گئی ۔ اور سرد ہوا کے ساتھ برف کے گولے جوسفین کے کندھوں اور گھٹنوں پر گرنے لگے تھے۔وہ سردی سے کانپنے لگی تھی۔

آجاؤ ،جُگ ،” کونسٹینشا نے اپنی وہی عجیب اور بےحس سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ؛ اور جوسفین اس کے پیچھے چل دی بالکل اسی طرح جیسے پچھلی مرتبہ اس نے کیا تھا ، جب کونسٹینشا نے بینی ( Benny) کو تالاب میں دھکا دے دیا تھا۔

VII

لیکن ذھنی دباؤ اپنا اثر دکھا رہا تھا جب وہ کھانے کے کمرے میں داخل ہوئیں۔وہ وہاں بیٹھ گئیں اور کانپتے ہوے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔

میں نہیں سمجھتی کہ میں کسی طرح پرسکون ہو پاؤنگی۔” جوسفین نے کہا ، “ جب تک کہ میں کچھ لے نہ لوں۔کیا تم کیٹ سے کہہ کر دو پیالی گرم پانی منگواسکتی ہو ؟

کیوں نہیں ، ضرور ،” کونسٹینشا نے دھیان سے جواب دیا۔ وہ بالکل حسب معمول تھی۔” میں گھنٹی بجانے کی بجاے خود باورچیخانے تک جاکر اس سے کہونگی۔

ہاں ، جاو ،” جوسفین نے کرسی پر ڈھیر ہوتے ہوے کہا۔ اور کہنا اس سے کہ صرف دو پیالی ، کون ، اور کشتی پر کچھ نہیں چاہیے۔

کیا وہ جگ بھی نہ لاے ؟ یا لاے؟” کونسٹینشا نے ایسے کہا جیسے جگ نہ رکھنے پر شائد کیٹ ناراض ہی نہ ہوجاے۔

ارے نہیں ، ہرگز بھی نہیں ! جگ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔وہ سیدھے کیتلی سے پیالیوں میں ڈال دیگی۔” جوسفین نے چیخ کر کہا ، اس احساس کے تحت کے یہ بےشک محنت کی بچت ہوگی۔

پیالی کے گرم کناروں نے جیسے ہی سرد ہونٹوں کو چھووا ، وہ تھرتھرانے لگے۔جوسفین نے اپنے چھوٹے ، گلابی ہاتھوں سے پیالی کو تھام لیا۔

بینی (Benny) کی بات کریں ،” جوسفین نے کہا۔

اگرچہ کہ بینی کا کوئی ذکر نہیں تھا ، کونسٹینشا کو لگا کہ جیسے وہ بھی وہاں ہو۔

وہ امید لگاے بیٹھا ہوگا کہ ہم اسے پاپا کی کوئی چیز بھجوائیں۔لیکن بڑی مشکل ھیکہ سری لنکا کو آخر کیا بھیجا جاے۔

تمھارا مطلب کہ بحری جہاز پر چیزیں ادھر اُدھر ہوجاتی ہیں ، “ کونسٹینشا نے غیرواضح دھیمی آواز میں کہا۔

نہیں ، گم ہوجاتی ہیں ،” جوسفین نے تیزی سے کہا۔” تمھیں پتہ ہے وہاں پوسٹ آفس نہیں ہوتے ہیں۔صرف ہرکارے ہوتے ہیں۔

دونوں خاموشی سے ایک سیاہ فام شخص ، سفید سوتی کپڑے کا زیرجامہ پہنے ، ہاتھوں میں بڑا سا خاکی کاغذ میں لپٹا پارسل لیے ، اپنی زندگی کی خاطر ،سوکھے کھیتوں سے بھاگتا چلا جا رہا تھا۔جوسفین کے لیے وہ ایک پستہ قد، سیاہ فام شخص تھا جو تیزی سے دوڑتے ہوے کسی چمکتی ہوئی چیونٹی کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن کونسٹینشا کا ہرکارہ انجان اور محنتی ، دراز قد ، دبلا پتلا سا تھا جس کی وجہ سے وہ کونسٹینشا کی نظر میں قطعی ناپسندیدہ تھا۔بینی سفید کپڑوں میں ملبوس ، شاہ بلوط کی لکڑی سے بنی ٹوپی پہنے برآمدہ میں کھڑا تھا۔اس کا سیدھا ہاتھ اوپر اور نیچے مسلسل حرکت کر رہا تھا ،جیسے ان کے پاپا بے چینی کے عالم میں کیا کرتے تھے۔اور اس کے پیچھے ہلڈا (Hilda) ، نامانوس بھابھی ، جھولنے والی کرسی میں بیٹھی ‘ٹیٹلر ‘(Tatler) کے صفحوں کو تھپتھپا رہی تھی۔

میرے خیال سے پاپا کی گھڑی بہت زیادہ مناسب تحفہ ہوگا ، “ جوسفین نے کہا۔

کونسٹینشا نے تعجب سے نظریں اٹھا کر دیکھا۔

اوہ ، کیا تم ایک سونے کی گھڑی کسی دیسی کو دے کر بھروسہ کر سکتی ہو ؟

یقیناً میں اسے اس طرح سے چھپا کر بھیجونگی کہ کوئی پہچان نہیں پائیگا کی وہ گھڑی تھی۔” جوسفین نے کہا۔اسے بھی منصوبہ اچھا لگا کہ پارسل کو ایسی شکل دی جاے کہ کوئی بھی اندازہ نہ لگا پاے کہ وہ کیا تھا۔ایک لمحہ کے لیے تو اس نے یہ بھی سوچا کہ گھڑی کو کارڈبورڈ کے ڈبے (cardboard box) میں ، ایک خوبصورت اور مضبوط کارڈبورڈ کا ڈبہ جو اس نے کئی دنوں سے اٹھا رکھا تھا ، چھپا کر بھجوایا جاے۔لیکن اس موقع کے لیے شائد یہ مناسب نہ ہو۔کیونکہ اس پر لکھا تھا : ۲۸ کی اوسط خواتین۔زائد مضبوط بسکس۔( Busks۔ یوروپین خواتین وہیل مچھلی کی نصف گول ہڈی ،فیشن کے لیے اپنے کولھوں پر لگالیا کرتی تھیں۔) لیکن یہ بینی کے لیے حد سے زیادہ خلاف توقع ہوگا کہ جب وہ کھولیگا تو اس میں والد کی گھڑی نکلےگی۔

اور کیا وہ اندر سے بجنے نہیں لگے گی ___ میرا مطلب گھڑی کی آواز ،” کونسٹینشا نے کہا جو ابھی بھی مقامی لوگوں کی زیورات کی چاہت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔” کم از کم ،” اس نے مزید کہا ،” ایسے وقت ہم بھجوا رہے ہیں ، یہ بہت عجیب ہوگا۔

VIII

جوسفین نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ تو اپنی سوچوں کی اڑان کے نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی۔اچانک ہی اسے سیرل(Cyril) یاد آگیا۔کیا یہ زیادہ مناسب نہیں ہوگا کہ ان کا اکلوتا پوتا اس گھڑی کا حقدار بنے؟ اور سیرل بہت قدر شناس تھا اور ایک نوجوان کے لیے سونے کی گھڑی بڑی اہمیت کی حامل ہوسکتی تھی۔بینی نے تو ،بہت ممکن تھا کہ اب گھڑی پہننے کی عادت چھوڑ دی ہو ؛ اور ان گرم موسم والے مقامات پر لوگ کبھی کبھار ہی ویسٹ کوٹ پہنتے تھے۔جبکہ سیرل لندن میں پورا سال پہن سکتا تھا۔اور جوسفین اور کونسٹینشا کے لیے خوشی کا موقع تھا جب وہ چاۓ پر آیا تھا ، اور وہ گھڑی اس کی کلائی پرتھی۔” سیرل تمھیں اپنے دادا کی گھڑی مل گئی۔” ان کے لیے یہ کافی اطمینان بخش بات تھی۔

پیارے بچے ! تمھیں بڑا صدمہ ہوا ہوگا جب تمھیں اطلاع ملی ، گو کہ تحریر کافی ہمدردانہ انداز میں تھی !وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں ؛ لیکن بد قسمتی سے سانحہ ہی اتنا دکھی کردینے والا تھا۔

کتنا اچھا ہوتا اگر وہ اس وقت زندہ ہوتے ، “ جوسفین نے کہا۔

اور وہ بے حد خوش ہوے ہوتے ، “ کونسٹینشا نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دے دیا۔

بہرحال ، جب وہ واپس آگیا تو وہ اپنی آنٹیز کے یہاں چاۓ پر ضرور آجایا کرتا۔سیرل کا چاۓ پر آنا ان کے لیے ضیافت کا موقع ہو تا تھا۔

سیرل ، اب تمھیں ہمارے کیک سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔تمھاری آنٹی کون اور میں نے صبح ہی ، بزرڈ (Buszard) کی دوکان سے لایا ہے۔ہم جانتے ہیں کسی انسان کی کھانے کی چاہت کیا ہوتی ہے۔اس لیے شرماؤ نہیں اور چاۓ کا لطف لو۔

جوسفین نے بڑی لاپرواہی سے اتنے عمدہ کیک کو کاٹا۔جس کو خریدنے کے لیے اس نے اپنے لیے سردیوں میں پہننے والے دستانے ، اور کونسٹینشا کے بہترین جوتوں کے اندر رکھنے کے لیے تلوے کی قربانی دی تھی۔لیکن سیرل تو بہت ہی غیرانسانی قسم کی رغبت رکھتا تھا۔

آنٹی جوسفین ، میں کہہ رہا ہوں کہ میں بالکل نہیں کھاسکتا۔آپ جانتی ہیں میں نے بس ابھی لنچ کیا تھا۔

اوہ ، سیرل ، یہ سچ نہیں ہوسکتا! اور اب چار بجے سے زیادہ وقت ہورہا ہے،” جوسفین نے تقریباً چیختے ہوے کہا۔کونسٹینشا چھری لے کر چاکلیٹ رول کو کاٹنے کے لیے تیار تھی۔

یہ کہ ، پھر وہی ، “ سیرل نے بتایا۔ “ مجھے وکٹوریہ میں کسی شخص سے ملنا تھا ، اور اس نے اتنا انتظار کروایا … صرف وہی وقت تھا میرے پاس لنچ کرنے کے لیے اور یہاں آنے کے لیے۔ اور اس نے مجھے دیا ___ اکتاہٹ “ ___ سیرل نے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھ لیا ___ “ کیا خوفناک ذہنی دھچکا ،” سیرل نے کہا۔

آج کا دن اور دنوں کے مقابلہ میں کافی ناامیدی میں گذرا __ پھر بھی اسے جاننا نہیں چاہیے تھا۔

لیکن تم میرنگ ( انڈے کی مٹھائی) تو ضرور لوگے ، لوگے نا ، سیرل ؟” آنٹی جوسفین نے کہا۔یہ مٹھائی خاص طور پر تمھارے لیے منگوائی ہے۔تمھارے والد بہت پسند کیا کرتے تھے ،اور امید ہے تمھیں بھی پسند ہوگی۔

میں ، آنٹی جوسفین،” سیرل نے جذباتی انداز میں کہا۔ “ آپ برا تو نہیں مانے گی اگر میں اس میں سے آدھا لے لوں شروعات کے لیے ؟

بالکل نہیں ، پیارے بچے ؛ ہم تمھیں اتنے سے پر ہر گز اکتفا کرنے نہیں دینگے۔

کیا تمھارے والد کو ابھی بھی میرنگ اتنی ہی پسند ہے ؟” آنٹی کون نے بڑی نرمی سے پوچھا اور فوراً ہی اپنے خول سے باہر آنے پر گھبرا گئی۔

دراصل میں نہیں جانتا ، آنٹی کون ،” سیرل نے زندہ دلی سے کہا۔لیکن دونوں نے تعجب سے ایک دوسرے کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا۔

نہیں جانتے ؟ “ جوسفین نے قدرے سختی سے کہا۔ “ تمھارے والد کے بارے میں اتنی بڑی بات کیسے نہیں جانتے ، سیرل ؟

واقعی ،” آنٹی کون نے آہستہ سے کہا۔

سیرل نے بات ہنسی میں اڑانے کی کوشش کی۔” اوہ ، کافی عرصہ ہو گیا ہے جب ___” ان کے چہروں کو دیکھ کر اس کی زبان لڑکھڑانے لگی تھی اور وہ خاموش ہو گیا۔

پھر بھی ، “ جوسفین نے کہا۔اور آنٹی کون صرف دیکھتی رہ گئی۔

سیرل نے چاۓ کا کپ نیچے رکھا۔ “ تھوڑا رکیں ،” اس نے اونچی آواز میں کہا۔ “ تھوڑا رکیں ، آنٹی جوسفین۔ میں کس بارے میں سوچ رہا ہوں ؟

اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ وہ خود کے چہروں پر دوبارہ خوشی کے تاثرات لانے لگی تھیں۔سیرل نے اپنے گھٹنے پر چماٹ لگائی۔

یقیناً ،” اس نے کہا ، “ میرنگ کے بارے میں۔ میں کیسے بھول گیا ؟ ہاں ، آنٹی جوسفین ، آپ پوری طرح سے صحیح ہیں۔والد تو خطرناک حد تک میرنگ کے شوقین ہیں۔

وہ صرف خوش ہی نہیں ہوئیں بلکہ آنٹی جوسفین کا چہرہ تو خوشی سے سرخ ہوگیا ، اور آنٹی کون نے گہری سانس لی۔

اور اب ، سیرل ، تم چل کر پاپا سے مل لو ،” جوسفین نے کہا۔ “ وہ جانتے ہیں کہ آج تم آنے والے تھے۔

جی مناسب ،” سیرل نے دل سے اور پُر عزم انداز میں کہا۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اچانک گھڑی کی طرف دیکھا۔

آنٹی کون ، کیا آپ کی گھڑی کچھ سست تو نہیں ہے؟ پانچ بجنے کے فوری بعد مجھے پیڈنگٹن (Paddington) میں کسی شخص سے ملنا ہے۔ مجھے ڈر ھیکہ میں دادا کے ساتھ زیادہ دیر نہیں ٹھہر پاؤنگا۔

اوہ ، وہ تم سے زیادہ دیر رکنے کی امید بھی نہیں رکھتے !” آنٹی جوسفین نے کہا۔

کونسٹینشا ابھی تک گھڑی کی طرف ٹکٹکی باندھے کھڑی تھی۔وہ طۓ نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ تیز چل رہی تھی یا آہستہ۔ اسے یقین تھا کہ دونوں میں سے کوئی ایک بات صحیح ہو سکتی تھی۔کچھ بھی ہو اب وہ جو ہے سو ہے۔

سیرل تاخیر کررہا تھا۔ “ کیا آپ ہمارے ساتھ نہیں آرہی ہیں ، آنٹی کون؟

بالکل، “ جوسفین نے کہا ، “ ہم سب جائینگے۔ آجاو کون۔

IX

انھوں نے دروازہ پر دستک دی ، اور اپنی آنٹیوں کے ساتھ سیرل بھی گرم اور دلکش کمرہ میں داخل ہوگیا۔

آجاو ،” دادا پنر (Grandfather Pinner) نے کہا۔ “ وہیں پر مت رک جاو۔کیا ہے یہ ؟ کیا چل رہا ہے آج کل ؟

وہ بھڑکتے ہوے آتش دان کے سامنے اپنی چھڑی کو پکڑے ، موٹا سا کمبل پیروں پر ڈالے ، بیٹھے تھے۔ان کی گود میں ، سلک کا ،ہلکے پیلے رنگ کا رومال پڑا تھا۔

یہ سیرل ہے ، پاپا ،” جوسفین نے جھجھکتے ہوے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا دیا۔

گڈ آفٹرنون ، دادا،” سیرل نے آنٹی جوسفین سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوے کہا۔

داداپینر نے تو سیرل کی طرف اپنی نظریں داغ دیں ، جیسی کہ ان کی عادت تھی۔آنٹی کون کہاں تھیں ؟ وہ آنٹی جوسفین کے پہلو میں ہاتھ باندھے کھڑی تھیں ، اور مسلسل دادا پر نظریں جماے تھی۔

اچھا ، “ دادا پینر نے اپنی چھڑی کو زمین پر مارتے ہوے کہا ، “ تم کیا کہنا چاہتے ہو مجھ سے ؟

کیا کہنا تھا اسے ؟ سیرل بیوقوف کی طرح مسکرانے لگا۔کمرے کا ماحول میں گھٹن بڑھنے لگی۔

لیکن آنٹی جوسفین فوری اس کے بچاؤ کے لیے آگے آگئی۔اور زندہ دلی سے کہنے لگی ، “ سیرل کہنا چاہتا ھیکہ اس کے پاپا ابھی تک میرنگ کے شوقین ہیں۔

اوہ “ دادا نے اپنے ہاتھ کو موڑ کر انڈے کے خول کی طرح اپنے کان پر رکھتے ہوے کہا۔

جوسفین نے اپنی بات دہرائی ، “ سیرل کہہ رہا ھیکہ اس کے پاپا ابھی بھی میرنگ کے شوقین ہیں۔

سنائی نہیں دے رہا ہے ، “ بوڑھے کرنل پینر نے کہا۔اور چھڑی سے جوسفین کو بازو ہٹا کر ، چھڑی کا رخ سیرل کی طرف کیا اور کہا ، “ بتاو وہ کیا کہنے کی کوشش کر رہی ہے۔

( میرے خدا !) “ میں ؟” سیرل نے شرمندگی سے آنٹی جوسفین کی طرف گھورتے ہوے ہوے کہا۔

کہو ، بیٹے ،” اس نے مسکراتے ہوے کہا۔ “ انھیں بے حد خوشی ہوگی۔

چلو ، کہنا شروع کرو !” کرنل پینر نے زمین پر اپنی چھڑی کو مارتے ہوے زوردار آواز میں کہا۔

اور سیرل آگے کی طرف جھک کر چیخ پڑا ، “ پاپا کو میرنگ ابھی بھی بہت پسند ہے۔

یہ سنتے ہی دادا پینر ایسے اچھل پڑے جیسے انھیں بندوق کی گولی لگی ہو۔

چیخو نہیں !” کرنل زور سے چلاے۔ “ آخر اس لڑکے کے ساتھ مسلہ کیا ہے ؟ میرنگس ( Meringues)! کیا اس بارے میں کیا؟

اوہ ، آنٹی جوسفین ، کیا ہمیں اسی طرح جاری رکھنا ہوگا ؟ “انتہائی مایوسی کے عالم میں سیرل نے کراہتے ہوے کہا۔

کوئی خاص بات نہیں ہے ، میرے پیارے بچے ،” آنٹی جوسفین نے ایسے کہا جیسے وہ کسی ڈینٹسٹ کے یہاں بیٹھے ہوں۔” بہت جلد ان کی سمجھ میں آجائیگا۔” اور آہستہ سے سیرل سے کہا ، “ وہ دراصل بہرے ہوتے جارہے ہیں ۔” پھر جوسفین آگے کو جھکی اور اونچی آواز میں کہا ، “ میرے پیارے پاپا ، سیرل صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ اس کے پاپا کو ابھی بھی میرنگ بہت پسند ہے۔

کرنل پینر نے اس بار صاف صاف سنا ، کچھ سوچتے ہوے ، سیرل کو سر سے پاؤں تک دیکھتے رہے۔

ایسی کیا غیرمعمولی بات تھی !” دادا پینر نے کہا۔” اتنی کیا خاص بات تھی کہ یہ مجھے بتانے کے لیے اتنی مسافت طئے کرکے آے ہیں !”

اور سیرل کو بھی ایسے ہی محسوس ہونے لگا تھا۔

جوسفین نے موضوع بدلتے ہوے کہا ،” ہاں ، میں سیرل کو گھڑی بھجوادونگی۔

یہ بہت اچھی بات ہوگی ،” کونسٹینشا نے کہا۔ “ مجھے یاد پڑتا ہے گذشتہ جب یہ آیا تھا ، وقت کے بارے میں کچھ مسلہ تھا۔

 

X

 

کیٹ کے اچانک ، طوفان کی طرح داخل ہونے سے ، جیسے کہ اس نے کوئی نئی دریافت کر لی ہو ،ان کی گفتگو کا تسلسل ٹوٹ گیا۔

تلی ہوئی یا ابلی ہو ئی ؟” بےباک آواز میں پوچھا۔

تلی ہوئی یا ابلی ہوئی ؟ جوسفین اور کونسٹینشا ایک لمحہ کے لیے حیران رہ گئیں۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔

تلی ہوئی یا ابلی ہوئی کیا ، کیٹ ؟” جوسفین نے دھیان دیتے ہوے پوچھا۔

کیٹ نے سونگھتے ہوے کہا ، “ مچھلی ۔

ہاں تو تم نے فوری کیوں نہیں کہہ دیا ؟” جوسفین نے ہلکے سے ڈانٹتے ہوے کہا۔ “ تم نے کیسے اندازہ لگا لیا کہ ہم خود ہی سمجھ جائینگے ، کیٹ؟ دنیا میں ہزاروں چیزیں ہیں جو تلی ہوئی یا ابلی ہوئی ہیں۔” اور اس تمام مظاہرہ کے بعد چہک کر اس نے کونسٹینشا سے پوچھاکون ، تم کیسی مچھلی کھانا پسند کروگی ؟

میرے خیال سے تلی ہوئی زیادہ اچھی رہیگی۔” کونسٹینشا نے جواب دیا۔” اس کے علاوہ ابلی ہوئی مچھلی بھی بہت اچھی ہوگی۔ویسے مجھے تو دونوں ہی پسند ہیں …اگر تم … ۔ ایسی صورت میں __”

میں تل دونگی ، “ کہتے ہوے کیٹ اچھل کر مڑی ، دروازہ کھلا چھوڑ کر ،کچن کا دروازہ زور سے بند کرتی ہوئی ،چلی گئی۔

جوسفین نے کونسٹینشا کو گھور کر دیکھا ؛ اس نے اپنی بھنویں اتنی چڑھائیں کہ وہ اس کے بالوں سے جاملیں۔پھر وہ کھڑی ہو گئی اور رعب دار آواز میں کہا ،” کونسٹینشا کیا تم میرے ساتھ ڈرائینگ روم میں آؤگی ؟ مجھے تم سے بے حد ضروری بات کرنی ہے۔

جب بھی انھیں کیٹ کے بارے میں کوئی بات کرنی ہوتی وہ ہمیشہ ہی ڈرائینگ روم میں چلی جایا کرتیں۔

جوسفین نے دروازہ بند کیا۔ “ بیٹھ جاؤ ، کونسٹینشا ،” اسی رعب دار آواز میں کہا۔ایسا لگ رہا تھا وہ کونسٹینشا سے پہلی مرتبہ مل رہی ہو۔کونسٹینشا نے مبہم انداز میں نظریں گھمائیں کسی کرسی کے لیے ، جیسے وہ خود کو وہاں اجنبی محسوس کر رہی تھی۔

سوال یہ ہے ،” جوسفین نے آگے کی طرف جھکتے ہوے کہا ، “ کیا ہمیں اسے رکھنابھی چاہیے یا نہیں۔

یہ سوال تو ہے ، “ کونسٹینشا نے متفق ہو کر جواب دیا۔

اور اس دفعہ ،” جوسفین نے مضبوطی سے کہا ، “ یقیناً کوئی واضح فیصلہ کرنا ہوگا۔

ایک لمحہ کے لیے لگا کہ کونسٹینشا ، ہمیشہ کی طرح ، غصہ کریگی لیکن اس نے پرسکون ہوکر کہا ،“ہاں ، جُگ ۔

دیکھو ، کون ،” جوسفین نے وضاحت کی ، “ آج ہر چیز بدل رہی ہے۔” کونسٹینشا نے فوری نظریں اٹھا کر دیکھا۔ “ میرا مطلب ھیکہ ،” جوسفین نے اپنی بات جاری رکھی ، “ اب ہم کیٹ پر منحصر نہیں ہیں جیسے ہوا کرتے تھے۔” وہ ہلکے سے شرمائی۔ “ اب پاپا کے لیے بھی کھانا پکانے کی ضرورت نہیں رہی۔

بالکل صحیح ،” کونسٹینشا نے متفق ہوتے ہوے کہا۔” پاپا کو تو یقیناً کسی قسم کے پکوان کی ضرورت نہیں ہے ___”

جوسفین نے کچھ توقف کے بعد کہا ، “ کیا تم نیند میں ہو ، کون ؟ نہیں نا ؟

نیند میں، جُگ ؟” کونسٹینشا نے آنکھیں پھیلا کر دکھادیں۔

ٹھیک ہے ، اب زیادہ دھیان دو ،” جوسفین نے تیزی سے کہا اور دوبارہ موضوع کی طرف واپس پلٹیں ۔ “ اب اگر ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں “ ___ مشکل سے سانس لیتے ہوے،اور دروازہ کی طرف دیکھتی ہوئی ___ “ کیٹ کو نوٹس دینی ہوگی ،”___ پھر اونچی آواز میں کہا ___ “ ہم اپنے کھانے کا انتظام کر سکتے ہیں ۔

کیوں نہیں ؟ “ کونسٹینشا نے بھی چیخ کر کہا اور مسکراے بغیر نہ رہ سکی ، کیونکہ خیال بذات خود بڑا دلچسپ تھا۔دونوں ہاتوں کو ایک دوسرے کی گرفت میں لیکر پوچھا ، “ ہم کیسے گذاریں گے زندگی ، جُگ؟

کئی طرح کے انڈے بنا کر !” جُگ نے باوقار انداز میں کہا۔” اور اس کے علاوہ پکی پکائی غذائیں دستیاب ہیں۔

لیکن ، میں نے ہمیشہ سناہے ،” کونسٹینشا نےکہا، “ وہ بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔

نہیں اگر ہم کچھ کم قیمت پر لیں۔” لیکن جوسفین نے خود کو اس مسحور کن موضوع سے ہٹاتے ہوے ، کونسٹینشا کو اپنے پیچھے کھینچتی ہوئی چلی گئی۔

اب ہمیں کیا طئے کرنا ہے ، پھر بھی ، کیا ہم واقعی کیٹ پر بھروسہ کرسکتے ہیں یا نہیں۔

کونسٹینشا پیچھے جھکی اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

کیا یہ عجیب نہیں ، جُگ ،” اس نے کہا ، “ کہ اس ایک موضوع پر میں کبھی اپنے ذہن کو تیار نہیں کر پائی ؟

XI

وہ کبھی اپنے ذہن کو تیار نہیں کرپائی۔سب سے بڑی مشکل تھی کسی بھی بات کو ثابت کرنے کی۔کوئی کیسے کسی کی غلطی کو ثابت کرسکتا تھا۔فرض کریں کہ کیٹ قصداً سامنے کھڑی ہو کر منہ بناۓ۔ ہوسکتا ھیکہ وہ ٹھیک نہ ہو ، اسے کوئی تکلیف ہو۔ کیا یہ کسی صورت بھی ناممکن نہیں ہوگا کہ اس سے پوچھا جاے کہ وہ منہ کیوں بنا رہی تھی۔؟ اور کیٹ کا جواب ہو “ نہیں “ ___ اور ضرور اس کا جواب ہوگا “نہیں “ ___ کیا حیثیت رہ جائیگی ! کتنی نازیبا حرکت ہوگی! کونسٹینشا کو کئی بار شک تھا ، بلکہ اسے یقین تھا کہ کیٹ ، جب وہ اور جوسفین نہ ہوں ، ان کی الماری کے پاس جایا کرتی تھی ، کچھ چوری کرنے کے لیے نہیں بلکہ جاسوسی کے مقصد سے۔متعدد بار وہ اپنا نیلم کا صلیب لینے کے لیے فوری واپس ہوتی تو وہ اسے ہر بار کسی نئی جگہ پر ہی ملتا ، اس کی جالی کی ٹائیوں کے نیچے یا شام کے ڈریس کے کالر کے اوپر۔ویسے اس نے کئی بار کیٹ کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے جال بھی بچھاے۔اس نے اکثر اشیاء کو ایک خاص انداز میں ترتیب دیکر جوسفین کو گواہ کے طور پر بلا کر دکھا دیتی۔

یہ دیکھیں ، جُگ ؟

بالکل ، کون۔

اب ہم بتا سکتے ہیں۔

لیکن وہ تو ثبوت نہ چھوڑنے کے معاملہ میں مہارت رکھتی تھی۔اگر اشیاء مختلف ترتیب میں دکھائی دیں تو وہ ایک جھٹکے سے دراز بند کردیتی تھی ۔

جُگ ، تم ہی فیصلہ کرو ۔ میں تو بالکل نہیں کرسکتی۔بہت مشکل ہے۔

لیکن کچھ وقفہ کے بعد ، اس پر نظریں جما کر ، جوسفین نے گہری سانس لی ، “ اب تم نے میرے ذہن میں شک ڈال دیا ہے ، کون ، مجھے یقین ھیکہ میں خود بھی کچھ نہیں کہہ سکتی۔

پھر بھی اس کو ہم مزید آگے نہیں بڑھا سکتے ، “ جوسفین نے کہا ، “ اگر ہم نے اس وقت اسے ملتوی کر دیا تو ___”

XII

اسی لمحہ سڑک پر موسیقار نے اپنے پیپے (barrel-organ) پر تھاپ لگائی ، اور جوسفین اور کونسٹینشا اچھل کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔

کون ، بھاگو ،” جوسفین نے کہا۔ “ تیزی سے بھاگو۔” چھے پینس( sixpence) ہیں وہاں ___”

 

تب انھیں یاد آیا لیکن کیا فرق پڑتا تھا۔اب انھیں کبھی اس موسیقار کو روکنے کی ضرورت نہیں پڑیگی۔اب کبھی بھی کوئی ان دونوں سے نہیں کہےگا کہ اس بندر سے کہو کہ وہ اپنی آواز لیکر کہیں اور چلاجاے۔اب کبھی بھی ان کے تاخیر کرنے پر وہ زور دار آواز نہیں گونجے گی ۔وہ موسیقار چاہے تو سارا دن موسیقی کی دھنیں بجاتا رہے ، کوئی لکڑی زمین پر پٹخی نہیں جائیگی۔

اب لکڑی زمین پر کبھی نہیں ماری جائیگی

اب لکڑی زمین پر کبھی نہیں ماری جائیگی

بیرل بجتا رہا۔

ساری مشکل ثبوت کی تھی۔ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ ، کونسٹینشا آخر کیا سوچ رہی تھی۔وہ بڑی مختلف لگ رہی تھی۔

جُگ ، جُگ ،” کونسٹینشا نے نرمی سے اس کا ہاتھ دباتے ہوے کہا ،” جانتی ہو کیا دن ہے آج ؟ سنیچر ہے ۔ایک ہفتہ ہوچکا ہے ، پورا ایک ہفتہ۔

ایک ہفتہ ہوچکا پاپا کو گذرے ہوے

ایک ہفتہ ہوچکا پاپا کو گذرے ہوے ،

بیرل آرگن بجتا رہا۔اور جوسفین بھی ، عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کوئی باعمل اور سمجھدار شخصیت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ہندوستانی قالین پر ، ہلکے سرخ رنگ کے سورج کی روشنی کا مربع دکھائی دے رہا تھا ؛ جو آ اور جا رہا تھا ___ کبھی ٹھہر جاتا اور کبھی گہرا ہو جاتا ___ یہاں تک کہ وہ سنہری ہو کر چمکنے لگا تھا۔

سورج نکل چکا ہے ،” جوسفین نے کہا جیسے کہ اس سے کوئی فرق پڑا ہو۔

بیرل آرگن کے اطراف چمکتے ہوے نوٹوں کا انبار لگ چکا تھا۔

کونسٹینشا نے اپنے لانبے اور سرد ہاتھ پھیلاے جیسے کہ وہ ان نوٹوں کو پکڑ لیگی ، اور پھر ہاتھ نیچے گرا دیے۔پھر وہ آتشدان کے قریب سے گذرتے ہوے ، اپنے پسندیدہ بدھا کے مجسمہ کے پاس چلی گئی۔پتھر پر سونے کی ملمع کاری سے مزئین ، یہ بدھا کی شبیہ کی مسکراہٹ ہمیشہ اسے ایک انوکھا احساس دلاتی تھی ___ ایک قسم کا درد ، لیکن خوشگوار درد جو آج کی مسکراہٹ سے بہتر لگ رہا تھا۔وہ کچھ جانتا تھا ، اس کے پاس کوئی راز تھا۔ “ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتیں ،” جیسے اس کا بدھا کہہ رہا ہو۔اوہ ، کیا ہوسکتا تھا؟ پھر بھی اسے ہمیشہ احساس ہوتا تھا کہ …، کچھ تھا۔

سورج کی روشنی کھڑکیوں کے راستہ چور کی طرح اندر داخل ہو کر فرنیچر اور تصویروں کو منور کرنے لگی تھی۔ جوسفین دیکھ رہی تھی کہ جب روشنی پیانو پر رکھی اس کی ماں کی توسیع شدہ تصویر پر پہنچی تو مانو وہ تذبذب میں پڑ گئی ہو ، یہ دیکھ کر کہ ماں کا آخر کیا باقی رہا سواے کانوں کے مخروطی شکل کے بندوں کے اور کالے رنگ کے پروں سے بنے اسکارف کے۔ جوسفین حیران تھی کہ آخر مرنے والوں کی تصویریں ہمیشہ ماند کیوں پڑجاتیں۔جیسے ہی کوئی انسان مرتا ہے ، اس کی تصویریں بھی مرجاتی ہیں۔لیکن مما کی یہ تصویر تو بہت پرانی تھی ، تقریباً پنیتیس (۳۵) سال پرانی تھی۔جوسفین کو یاد آیا کہ کیسے اس نے کرسی پر کھڑی ہوکر ، اس پروں والے اسکارف کی طرف اشارہ کرکے کونسٹینشا سے کہا تھا کہ وہ سانپ تھا جس نے مما کو نگل لیا جب وہ سری لنکا(Ceylon)میں تھیں۔کیا حالات مختلف ہوتے اگر موت نے مما کو ہم سے جدا نہ کیا ہوتا ؟ اس کی سمجھ میں نہیں آیا آخر کیوں چلی گئیں ان کی مما ؟ آنٹی فلورینس ( Aunt Florence) انکی اسکول کی تعلیم مکمل ہونے تک انھی کے ساتھ رہیں ، ان کے تین مرتبہ جگہوں کے تبدیل کرنے تک ، اور ان کی سالانہ تعطیلات کے دوران بھی۔ ………ہاں ، اور اس دوران کئی ملازم بھی تبدیل ہوتے رہے تھے۔

کچھ چھوٹی چھوٹی چڑیاں کھڑکی کی چوکھٹ پر بیٹھی چہچہا رہی تھیں ، لیکن جوسفین کو لگا وہاں کوئی چڑیاں نہیں تھیں ،بلکہ یہ تو اس کے اندرونی وجود کی وہ عجیب سی رونے کی آوازیں تھیں۔اس کا کمزور اور مایوس وجود آخر کیوں رورہا تھا ؟

اگر مما زندہ ہوتیں تو ضرور ہماری شادیاں ہوگئی ہوتیں۔لیکن افسوس کہ ہمارے لیے مناسب رشتے دستیاب نہیں تھے۔پاپا کے کچھ اینگلوانڈین دوست ہوا کرتے تھے، لیکن ان سے جھگڑے کے بعدان سے بھی رابطہ ختم ہوگیا۔اور اس کے بعد تو جوسفین اور کونسٹینشا کسی نوجوان سے نہیں مل پائیں سواے پادریوں کے۔کیسے کسی مرد سے ملاقات کی جاسکتی تھی ؟ اگر مل بھی لیا جاے تو کیسے اس کے بارے میں اتنا جانا جاے کہ وہ اجنبی باقی نہ رہے ؟ کسی کی جرات مندانہ سرگرمیوں سے متاثر ہوکر ان سے ایک ملاقات ، یا کسی کا آپ کا پیچھا کر نا، کافی نہیں اس کو زندگی کا ساتھی بنانے کے لیے۔ویسے بھی کسی نے جوسفین کا یا کونسٹینشا کا کبھی پیچھا بھی نہیں کیا۔البتہ ایسٹ بورن (Eastbourne) میں ان کے بورڈنگ ہاؤس کے اطراف ایک پراسرار شخص دیکھا گیا تھا ، جس نے ان کے کمرے کے باہر گرم پانی کے جگ پر ایک خط چسپاں کر گیا تھا ! لیکن اس سے پہلے کہ کونی(Connie) اسے پڑھ پاتی ، جگ سے نکلنے والی بھاپ تحریر کو دھندلا چکی تھی ؛ یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ وہ کس سے مخاطب تھا۔اور پھر وہ چلا گیا۔ بس اتنا ہی قصہ تھا۔اور اس کے بعد جو باقی رہ گیا تھا ، وہ پاپا کی خدمت اور ان کی دیکھ بھال کرنا ___ ان کی مرضی کے خلاف جاے بغیر۔لیکن اب کیا؟ اب کیا؟ چوری سے سورج کی روشنی نے جوسفین کو ہلکے سے چھوا۔ اس نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ روشنی کی کرنوں نے اسے کھڑکی تک پہنچا دیا تھا ……

جب تک بیرل ۔آرگن بجتا رہا ، کونسٹینشا مسلسل بودھا کے سامنے حیرت کے ساتھ اسے دیکھتی کھڑی رہی۔لیکن اس بار اسکی حیرت ،ہمیشہ کی طرح مبہم اور غیرواضح نہیں تھی بلکہ اس میں اشتیاق تھا۔اسے یاد تھا جب وہ نیۓ نیۓ یہان آے تھے ، کیسے وہ مکمل چاند کی رات کو اپنے بستر سے آہستہ سے نکل کر وہ فرش پر دونوں ہاتھ پھیلا کر لیٹ جایا کرتی تھی جیسے اسے سولی پر چڑھا دیا گیا ہو۔کیوں مکمل چاند اسے ایسا سوچنے پر مجبور کیا کرتا تھا۔پردے پر رقص کرتی تصویریں اس کی طرف رشک بھری نظروں سے دیکھنے لگتیں ، لیکن اس کو برا نہیں لگتا تھا۔اسے وہ بھی یاد تھا ، جب بھی وہ ساحل سمندر پر جاتے تو کیسے وہ اکیلی ہی بہت دور ، پانی کے بہت قریب جاکر پانی کی بےچین لہروں کو دیکھتے ہوے خود کے ہی بناے گیت گایا کرتی تھی۔وہ اور ہی دنیا تھی ، دن بھر بھاگتی پھرنا، تھیلوں میں اشیاء بھر کر گھر لے آنا، ان پر گھروالوں کی منظوری لینا ، جُگ کے ساتھ گفتگو کرنا ، پھر دوبارہ انھیں منظوری کے لیے لے جانا ، پاپا کے لیے کھانے کی طشت تیار کرنا اور دھیان رکھنا کہ کہیں وہ کسی بات پر ناراض نہ ہوجائیں۔لیکن لگتا ہے ماضی کی وہ تمام یادیں کسی اندھیری سرنگ میں جاچھپی تھیں۔ان کا تعلق حقیقت سے نہیں تھا۔اور جب وہ اس اندھیری سرنگ سے باہر آتی ، چاند کی روشنی میں ، یا ساحل سمندر پر یا طوفان میں ، تب وہ حقیقی طور پر خود کو محسوس کرتی۔ان سب کا آخر کیا مطلب ہوسکتا تھا؟ وہ ہمیشہ چاہتی کیا تھی ؟ یہ سب کس طرف لے جا رہا تھا ؟ اور اب کیا؟ اب کیا؟

وہ غیرواضح تاثرات کے ساتھ بودھا سے ہٹ کر جوسفین کے پاس چلی گئی۔وہ جوسفین کو مستقبل کے بارے میں کچھ بہت ہی خوفناک باتیں بتانا چاہتی تھی ___ اور شائد کچھ اور بھی ………

کیا تم کچھ سوچتی نہیں ہو شائد ___” اس نے کہنا شروع کیا۔

لیکن جوسفین نے مداخلت کی۔ “ میں حیران ہوں ، اگر اب ___” وہ بڑبڑائی۔ پھر دونوں خاموش ہوگئیں اور بات آگے بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کا ا نتظار کرنے لگیں۔

کہتی جاؤ ،کون ،” آخر جوسفین نے پہل کی۔

نہیں ، نہیں جُگ ، آپ کے بعد ،” کونسٹینشا نے کہا۔

نہیں ،تم کہو ، جو کہنا چاہ رہی تھیں۔ شروع کرو ،” جوسفین نے کہا۔

میں …… میں بہتر ھیکہ وہ پہلے سنوں جو آپ کہنے جارہی تھیں ، “ کونسٹینشا نے کہا۔

بیوقوف مت بنو ، کون۔

واقعی ، جُگ ۔

کونی !”

اوہ ، جُگ !”

ساری مشکل تھی کسی بات کو ثابت کرنے کی۔پھر کونسٹینشا نے کمزور لہجے میں کہا ، “ میں وہ نہیں کہہ سکتی جو میں کہنے جارہی تھی ، جُگ ، کیونکہ میں وہ سب بھول چکی ہوں …… جو میں کہنے جارہی تھی۔

جوسفین کچھ وقفہ کے لیے خاموش رہی۔ وہ ٹکٹکی باندھے بڑے سے بادل کے ٹکڑے کو دیکھے جارہی تھی جہاں کچھ دیر پہلے سورج تھا۔اور مختصر سا جواب دیا ، “ میں بھی بھول چکی ہوں۔

 

 Original Title: The Daughters of the Late Colonel

Written by:

Katherine Mansfield (Newzealand: 14 October 1888 – 9 January 1923) 

 

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

 

 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق