کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ : چائے کی پیالی (A Cup of Tea)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 139 : چائے کی پیالی

تحریر: کیتھرین مینسفیلڈ (نیوزی لینڈ)

مترجم: ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی (نیوزی لینڈ)




روزمیری فیل( Rosemary Fell) ویسے تو خوبصورتی کے زمرے میں تو نہیں آسکتی تھی۔ البتہ کسی حد تک دلکش کہا جا سکتا تھا اگر اجزأ میں دیکھیں۔ لیکن یہ تو بڑا ظلم ہےکہ کسی کی شخصیت کو پرزوں میں دیکھا جائے۔ وہ ایک جوان، عقلمند، ماڈرن، نہایت عمدہ، اور خوشنما لباس زیب تن کرنے والی شادی شدہ اور بے حد امیر خاتون تھی۔ اسکا مطالعہ بڑا حیرت انگیز تھا۔ اسکی پارٹیوں میں آنے والے مہمان سماج کی بڑی اہم شخصیتوں میں سے ہوتے اورفنکار بڑے عجیب و غریب تھے جو اس کی اپنی دریافتیں تھیں۔ پھر بھی وہ سارے بہت ہی معقول اور دلچسپ لوگ ہوا کرتے تھے۔

اسکا شوہر بےحد چاہنے والا اور اسکی خواہشات کی قدر کرنے والا شخص تھا۔ یہ دونوں صرف خوشحال ہی نہیں تھے بلکہ بےحد امیر تھے۔ روزمیری اگر خریداری کرنا چاہیگی تو سیدھے پیرس جائیگی جبکہ ہم جیسے لوگ بانڈ اسٹریٹ(Bond Street)چلے جاتے ہیں۔ پھول خریدنے کے لیے اس کی کار پھولوں کی صحیح دکان پر رکی اور اس نے دکان میں داخل ہو کر اپنی روشن مہارت کی غمازی کرتی ہوئی آنکھوں کو بڑی بیگانہ روی سے چاروں طرف دوڑایا اور کہا” میں وہ اور وہ چاہتی ہوں۔ مجھے چار گچھے ان پھولوں کے دے دیں۔اور گلابوں سے بھرا پورا گلدان بھی۔ ہاں مجھے سارے گلاب چاہیے۔ لائلیک (lilac) نہیں چاہیے۔ بڑے بے شکل سے ہو تے ہیں۔ “خدمتگار سر جھکا کر لائلیک کو نظروں سے دور کرنے لگتا ہے کہ شائد انکے بارے کہی ہوئی بات پوری طرح سے صحیح ہو۔ لائلیک خطرناک حد تک بدصورت ہوں۔ “اور وہ چھوٹے موٹے ٹیولپس(Tulips) دے دینا۔ وہ لال اور سفید والے۔ “دکاندار لڑکی تمام پھولوں کو سفید کاغذ میں لپیٹے اسکے پیچھے پیچھے کار تک چلی گئ۔

سرما کی ایک شام وہ کرزن سٹریٹ(Curzon Street)آثار قدیمہ کی ایک چھوٹی سی دکان پر کچھ خریدنے کے لیئے گئ۔ اس دکان کو پسند کرنے کی اسکے پاس دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ جو بھی خریدیں وہ آپکی اپنی ذاتی ملکیت ہو جاتی ہے۔ اور دوسرے وہ دکاندار اسکی خدمت کرنے کو مضحکہ خیز حد تک پسند کرتا تھا۔ جب بھی وہ دکان پر آتی،وہ کھل اٹھتا۔ دکاندار نے اپنے دونوں ہاتھ کس لیے،اتنا مسرور ہوا کہ بمشکل کچھ کہہ سکا۔ خوشامدانہ رویہ ایک طرح سے۔

“دیکھیے میڈم،” دکاندار نے بہت ہی مودبانہ انداز میں کہا،”میں اپنی چیزوں سے بے حد پیار کرتا ہوں۔ میں انھیں اپنے سے ہرگز بھی جدا نہیں کرونگا ایسے لوگوں کے لیے جو انکی قدر نہیں کر سکتے۔ جو نفیس احساسات،جو آج کل بہت کمیاب ہیں، نہ رکھتے ہوں”۔ اور ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے چھوٹی سی مربع شکل چیز کو نیلے مخمل سے نکال کر کاؤنٹر پر رکھ دیا۔

ویسے دکاندار نے وہ ڈبہ(jewellery box) روزمیری کے لیے ہی محفوظ کر رکھا تھا کیونکہ اس نے کسی اور گاہک کو دکھایا ہی نہیں۔ بہت ہی شاندار اور خوبصورت میناکاری سےمزئین چمکدار زیور کا ڈبہ، مانو جیسے کریم میں ڈبو کر تندور میں بھنا کر تیار کیا گیا ہو۔ ڈھکن کے اوپر ایک چھوٹی سی مخلوق پھولوں سے لدے درخت کے نیچے کھڑی تھی اور اس سے بھی چھوٹی مخلوق اسکی گردن میں بانہوں کا ہار بنائے کھڑی ہو۔ اسکی ننھی سی ٹوپی جیسے کسی پھول کی پتی شاخ سے لٹک رہی ہو۔ ہرے رنگ کے خوبصورت ربن(ribbon )اس ننھی مخلوق کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث تھے۔ اور ایک گلابی رنگ کا بادل ایک فرشتہ کی طرح انکے سروں پر سایہ فگن ہو کر تیر رہا تھا۔ روزمیری نے اپنے لانبے دستانوں سے ہاتھ باہر نکالے۔ اس طرح کی چیزوں کو پرکھنے کے لیے وہ اسی طرح اپنے دستانے اتار لیا کرتی تھی۔ اس نے بہت پسند کیا بلکہ اسے تو ڈبہ سے جیسے عشق ہو گیا۔ اور بس اسے تو یہ لینا ہی تھا۔ اس ڈبہ کو کبھی کھولتے اور کبھی بند کرتے ہوئے وہ ایک دلکش احساس کو نظرانداز نہیں کرسکی۔ دکاندار بھی اپنے ذہن کے اندھیرے غار میں شائد کچھ اسی طرح سے سوچ رہا تھا۔ اس نے ایک پنسل اٹھائ، کاؤنٹر پر آگے کی طرف جھکا اور بہت آہستہ سے پھسپھسایا،”میڈم میں آپکی نظر اس چھوٹے سے مجسمہ کی کُرتی (dress)پر بنے پھولوں کی طرف مبذول کروانے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ “

“بےحد دلکش!”روزمیری نے پھولوں کو سراہا۔ “لیکن قیمت کیا ہے ؟”ایک لمحہ کے لیےایسا لگا کہ شائد دکاندار نے سنا ہی نہ ہو۔ اور پھر ایک سرگوشی سی سنای دی،”اٹھائیس گینیز (28guineas)،میڈم”

“اٹھائیس گینیز؟” روزمیری نے ننھا ڈبہ نیچے رکھ دیا اور اپنے دستانے پہن لیے۔ اٹھائیس گینیز کسی امیر شخص کے لیے بھی مہنگی قیمت ہے۔ اس نے تزبزب کے عالم میں وہاں رکھی گول مٹول سی چائے کی کیتلی کو دیکھا اور دکاندار سے کہا”ٹھیک ہے آپ اسے میرے لیے محفوظ رکھیں۔ رکھیں گے نا؟ میں آونگی………”

دکاندار نے سر جھکا کر اقرار کیا کہ اس ڈبہ کو محفوظ رکھنا جیسے اسکی انسانیت کا تقاضہ ہے۔ شائد وہ اس ڈبہ کو روزمیری کے لیے ہمیشہ ہی رکھ سکتا ہے۔

وہ دکان سے باہر آئی۔ سرما کی شام تھی۔ بارش ہو رہی تھی۔ اندھیرا بڑھنے لگا۔ ہوا بےحد سرد تھی اور سڑک پر لگے لیمپ منظر کو مزید اداس کر رہے تھے۔ جیسے کسی وجہ سے پچھتا رہے ہوں ،افسوس کر رہے ہوں۔ لوگ تیزی سے، اپنے چھاتے کھولے،گھروں کی طرف جارہے تھے۔ روزمیری نے دستانوں میں چھپے ہاتھ اپنے سینہ پر رکھا اور ایک خواہش ابھری کہ کاش وہ ننھا ڈبہ بھی اسوقت میرے ہاتھوں میں ہوتا۔ کار تو قریب ہی تھی،لیکن کبھی زندگی میں ایسے ناگوار لمحات آتے ہیں جب انسان کسی محفوظ جگہ کھڑا ہو کر تھوڑی دیر کے لیے باہر دیکھتا ہے۔ لیکن اپنے دماغ میں اسطرح کے خیالات کو جگہ دینے کی بجائے گھر جا کر اچھی سی چائے پی جائے۔ اسی لمحہ ایک نوجوان ،دبلی پتلی،سیاہ سی لڑکی کہیں سے آ کھڑی ہوئ اور سسکتے ہوئے کہا”میڈم،کیا میں آپ سے بات کرسکتی ہوں؟

“مجھ سے بات کرنا چاہتی ہو؟”روزمیری نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ ایک جوان ،بڑی بڑی آنکھوں والی تقریباً اسی کی ہم عمر،تھکی ہوئ لڑکی اپنے کوٹ کے کالر کو مضبوطی سے پکڑے ہوے سردی سے کانپ رہی تھی۔

“م۔ میڈم”۔ وہ ہکلائی۔ “کیا آپ مجھے ایک کپ چائے خریدنے کے لیے کچھ پیسے دینگی؟”

“ایک چائے کی پیالی؟”سادہ اور سنجیدہ سی آواز۔ وہ کسی بھی طرح ایک فقیر کی آواز تو بالکل نہیں تھی۔ روزمیری نے پوچھا،”تمہارے پاس بالکل پیسے نہیں ہیں”؟

“نہیں، میڈم” آواز آئی۔

“ کتنی غیر معمولی بات ہے!”روزمیری نےشام کے اندھیرے میں دیکھتے ہوئے کچھ سوچا۔ لڑکی ٹکٹکی لگائے اسکی طرف دیکھتی رہی۔ واقعی عجیب بات ہے۔ اچانک اسکے ذہن میں ڈاسٹووسکی(Dostoevsky ) کے ناول سے جیسے کوئی صورت حال نکل آئی ہو کہ اسطرح شام کے اندھیرے میں کسی سے ملاقات۔ کیوں نہ میں اس لڑکی کو اپنے گھر لیجاؤں؟کیا یہ سنسنی خیز نہ ہوگا؟اپنے دوستوں کو حیران کرسکتی ہوں کہ،”میں بس ایسے ہی اس لڑکی کو گھر لے آئی”۔

پس روزمیری نے لڑکی سے کہا،”میرے گھر چل کر ساتھ میں چائے پیتے ہیں۔ “

لڑکی چونکتے ہوے تھوڑا سا پیچھے ہٹی۔ ایک لمحہ کے لیے وہ کانپنا بھی بھول گئی۔ روزمیری نے اسکے ہاتھ کو آہستہ سےچھوا اور مسکراتے ہوے کہا،”ہاں میرے کہنے کا مطلب یہی ہے۔ “ “کیوں ۔۔۔نہیں آؤگی؟ میرے ساتھ میری کار میں چلو اور میرے ساتھ چائے پی لو۔ “

“ آپ۔ آپ کا یہ مطلب نہیں ہے، میڈم” بڑی دُکھی آواز میں لڑکی نے کہا۔

“ لیکن میں چاہتی ہوں” روزمیری چلائی۔ “میں چاہتی ہوں۔ مجھے خوشی ہوگی۔ آؤ میرے ساتھ۔ “

لڑکی نے اپنی انگلیوں کو اپنے ہونٹوں پر رکھا اور روزمیری سے کہا۔ “ کہیں آپ مجھے پولیس اسٹیشن تو نہیں لیجاؤگی؟”

“ پولیس اسٹیشن!” روزمیری ہنس پڑی۔ “ میں اتنی ظالم تو نہیں۔ میں صرف تمہیں کچھ گرمی دینا چاہتی ہوں اور سننا چاہتی ہوں اگر تم کچھ کہنا چاہو تو………………”بھوکے پیٹ انسان جلدی متاثر ہو جاتا ہے۔ ملازم نے کار کا دروازہ کھولا اور دوسرے ہی لمحہ شام کے اندھیرے کو چیرتی ہوئی دونوں کار میں بیٹھ گیں۔

روزمیری کے چہرے پر فاتحانہ خوشی کے تاثرات چھلکنے لگے۔ اس نے لڑکی کی طرف،جو اب اسکی قید میں تھی، گہری نظروں سے دیکھتے ہوے اپنے آپ سے کہا،”آخر میں نے تمھیں حاصل کر ہی لیا۔ “ویسے اسکا دل اس لڑکی کے لیے تمام تر ہمدردیوں سے بھرا تھا،اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ زندگی میں حیرت انگیز واقعات ہوتے ہیں اور پریوں والی گاڈ مدرس(godmothers ) حقیقت میں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ امیر لوگوں کے بھی دل ہوتے ہیں۔ اور یہ دونوں خواتین بہنوں کی طرح ہیں۔ اور پھر اضطراری انداز میں لڑکی کی طرف مڑتے ہوے کہا،” تم ڈرو نہیں، ورنہ تم کیوں چلی آئیں؟ ہم دونوں عورتیں ہیں۔ اگر میں زیادہ خوش نصیب ہوں تو تمھیں بھی چاہیے کہ…………”

پتہ نہیں جملہ کس انداز میں ختم ہوتا کہ اسی لمحہ کار ایک عالیشان مکان کے سامنےرک گئی۔ گھنٹی بجائی گئی،دروازہ کھلا، روزمیری بہت ہی اچھے اور تحفظانہ انداز میں ہم آغوش کرتے ہوے لڑکی کو ہال میں لے آئی۔ یہاں کی ہلکی سی گرمی، نرمی،روشنی، خوشبو یہ سب ایک کے لیے جانی پہچانی تھیں تو دوسری نے انکے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ بڑا دلکش اور موہ لینے والا منظر تھا۔ وہ محسوس کرنے لگی مانو وہ ایک چھوٹی سی امیر بچی ہے جو اپنی نرسری(Nursary) میں ہو جہاں سارے کپ بورڈس(cupboards ) اور ڈبے کھولنے ہوں۔

“آؤ، اوپر چلی آؤ” روزمیری نے کہا “ اوپر میرے کمرہ میں چلی آؤ”۔ ویسے بھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ گھر کے ملازمین اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھیں۔ یہاں تک کہ اس نے طے کیا وہ جینی(Jeanne) کو بھی نہیں بلائیگی،بلکہ وہ خود ہی اسکی مدد کریگی تاکہ وہ اپنے آپ کو کچھ آزاد محسوس کرے۔

“وہاں”۔ روزمیری نے کہا جیسے ہی وہ بہت بڑی خوابگاہ جو خوبصورت پردوں،سنہرے فرنیچر اور کشنس،ہلکے پیلے اور نیلے رنگوں کے کمبلوں سے مزئین تھی، داخل ہوئیں۔ لڑکی کچھ گھبرائ سی بس دروازے کے بیچ کھڑی ہو گئی۔ لیکن روزمیری نے کوئی خاص دھیان نہ دیتے ہوئے کہا،”آؤ اور بیٹھ جاؤ “پھر اسکی کرسی کو کھینچ کر آتش دان کے قریب لےآئی،” اس کرسی میں تمھیں آرام ملے گا،تھوڑی گرمی لے لو،بہت سردی ہے۔ “

“میں اتنی ہمت نہیں کر سکتی، میڈم” لڑکی نے کہا اور تھوڑی سی پیچھے ہٹ گئی۔

“اوہ، پلیز” روزمیری آگے بڑھی “ تمھیں اسطرح ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بیٹھ جاؤ۔ میں چیزیں رکھ دوں پھر ہم دوسرے کمرے میں جا کر چائے پیتے ہیں۔ تم اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو؟”ہلکے سے دھکا دے کر اس مجسمہ نما شکل کو جھولے میں بٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بالکل پہلے کی طرح ہی کھڑی رہی____دونوں ہاتھ جسم سے لگے ہوئے اور منہ تھوڑا سا کھلا ہوا۔ سچ کہا جائےتو وہ ایک طرح سے بیوقوف لگ رہی تھی۔ روزمیری نے کسی قسم کی رغبت دکھائے بغیر کہا،”کیا تم اپنا ہیٹ(hat) نکالو گی نہیں؟ تمہارے خوبصورت بال سب گیلے ہو چکے ہیں۔ اور بغیر ہیٹ کے انسان زیادہ آرام دہ محسوس کرتا ہے، ہے نا؟”

سرگوشی سنائی دی،” بہت اچھا ،میڈم”۔ اور چرمرایا ہوا ہیٹ نکال دیا گیا۔

“ اور تمہارا کوٹ نکالنے میں مجھے تمہاری مدد کرنے دو۔ “روزمیری نے کہا۔

لڑکی کرسی کا سہارا لےکر کھڑی ہو گئی۔ روزمیری کو اسکا کوٹ نکالنے میں بڑی محنت کرنی پڑ رہی تھی،لیکن لڑکی کی طرف سے کوئی مدد نہیں تھی۔ روزمیری کے ذہن میں ایک خیال آکر چلا گیا کہ کوئی شخص اگر کسی کی مدد کر رہا ہو تو اس مدد لینے والے شخص کی بھی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اپنا کچھ تو ردعمل دکھائے ورنہ تو یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لڑکی نے کوٹ اور ہیٹ دونوں فرش پر ڈال دیے۔ روزمیری اپنے لیے سگریٹ لینے جا ہی رہی تھی کہ لڑکی بڑی ہلکی سی آواز میں گویا ہوئی، “معافی چاہتی ہوں ،میڈم، لیکن میں شائد بےہوش ہوجاؤنگی اگر ابھی مجھے کھانے کے لیے کچھ نہ ملے۔ “

“Good Heavens” میں بھی کیا بھلکڑ ہوں۔ “روزمیری نے گھنٹی بجائی اور کہا،” چائے، چائے ابھی! اور کچھ برانڈی بھی،فوری

ملازمہ روزمیری کے احکامات کے مطابق وہ لانے کے لیے چلی گئی۔ تبھی لڑکی چلائی،” مجھے برانڈی نہیں چاہیے۔ میں نے کبھی برانڈی نہیں پی۔ صرف ایک کپ چائے چاہیے میڈم،” اور رونے لگی۔

بڑا شدید اور دلچسپ احساس کا لمحہ تھا۔ روزمیری کرسی کے پاس دوزانوں ہو کر بیٹھ گئی۔ “ رو نہیں، بیچاری بچی” روزمیری نے کہا،”رو نہیں” اپنا خوبصورت رومال اسکو دےدیا۔ وہ اتنی متاثر ہوئی کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اس نے اس دبلی پتلی سی چڑیا جیسی لڑکی کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔

بالآخر لڑکی کی جھجک ختم ہوئی۔ ہر چیز بھلا کر بس اتنا یاد رہا کہ بس دونوں عورتیں ہیں۔ “اسطرح سے نہیں چلیگا۔ میں اسے زیادہ برداشت نہیں کر پاونگی۔ مجھے خود کچھ کرنا ہو گا۔ “

“تمھیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں تمہاری دیکھ بھال کرونگی۔ اب رونا بند کرو۔ دیکھتی نہیں ہو کہ یہ کتنی اچھی بات ہوئی کہ ہم ملے۔ اب ہم چائے پینگے اور تم اپنے بارے میں سب کچھ مجھے بتاؤ گی۔ میں کچھ انتظام کردونگی۔ وعدہ کرتی ہوں۔ بس اب رونا بند کر دو۔ دیکھو کتنا تھک گئی ہو۔ پلیز! “

لڑکی نے رونا بند کیا اور روزمیری نے میز برابر کی اور ڈھیر سارے کھانے سجادیے۔ سینڈوچیس، بریڈ اور بٹر اور جیسے ہی لڑکی کا کپ خالی ہو تا روزمیری پھر سے اسے چائے،کریم اور شکر سے بھر دیتی۔ لوگ کہتے ہیں شکر مقوی غذا ہے۔ روزمیری نے تو کچھ نہیں کھا یا۔ سگریٹ پیتے ہوئے ہوشیاری کے ساتھ بار بار اس کی طرف دیکھتی بھی جاتی،کہیں وہ کھانے میں جھجک نہ محسوس کرے۔

مختصر سے کھانے نے حیرت انگیز اثر دکھایا۔ چائے کی میز ہٹا لینے کے بعد ایک نئی شخصیت، ایک ہلکا، کمزور سا وجود الجھے بالوں، گہرے ہونٹوں، روشن آنکھوں کے ساتھ کرسی پر دراز ہو گئی جیسے کہ ایک میٹھی سی تھکن محسوس کر رہی ہو روزمیری نے نیا سگریٹ جلا لیا اور اس لڑکی کے بارے میں سننے کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا۔

“ اور گذشتہ تم نے کب کھانا کھایا تھا؟” بہت ہی ملائم لہجہ میں پوچھا۔

اسی وقت دروازے کے ہینڈل (handle)کے گھومنے کی آواز آئی۔

“روزمیری، کیا میں اندر آسکتا ہوں؟”یہ فلپ(Philip) کی آواز تھی۔

“ ہاں بالکل “

وہ داخل ہو گیا۔ “اوہ! معافی چاہتا ہوں” وہ رک گیا اور دیکھنے لگا۔

“ کوئی بات نہیں” روزمیری نے مسکراتے ہوے کہا” یہ میری دوست مس…………”

“ اسمتھ(Smith) میڈم “ اس کمزور لڑکی نے بےخوف ہو کر جواب دیا۔

“ اسمتھ” روزمیری نے کہا۔ “ ہم ایسے ہی بات چیت کر رہے ہیں”

“اوہ، ہاں” فلپ نے کہا “ بالکل” اور اسکی نظریں اس کوٹ اور ہیٹ پر پڑیں جو ابھی تک فرش پر پڑے تھے۔ وہ آتش دان کے قریب پشت کر کے بیٹھ گیا۔ “ بڑی خطرناک دوپہر تھی”۔ اس لڑکی کی طرف پرتجسس انداز میں دیکھا اور پھر روزمیری کی طرف رخ کیا،”ہے نا؟”روزمیری نے جواب دیا”بہت خراب”۔

فلپ نے مسکراتے ہوے کہا،” دراصل میں چاہتا ہوں کہ تم کچھ دیر کے لیے لائبریری میں آؤ۔ آؤگی؟ مس اسمتھ سے معذرت کے ساتھ؟”

مس اسمتھ نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے فلپ کی طرف دیکھا۔ لیکن اسکی بجائے روزمیری نے جواب دےدیا،” بے شک۔ اسے کیا اعتراض ہوگا۔ “ اور دونوں کمرے سے باہر چلے گئے۔

“میں کہتا ہوں” فلپ نے کہا جب وہ اکیلے ہوئے۔ “بتاؤ یہ کون ہے؟ اور ان سب کا مطلب کیا ہے؟”

روزمیری ہنسنے لگی اور کہا۔ “ میں نے اسے کرزن اسٹریٹ سے اٹھایا۔ سچ میں۔ اسکو اٹھایا ہی ہے۔ وہ مجھ سے ایک کپ چائے کے لیے پیسے مانگ رہی تھی اور میں اسے گھر لے آئی۔ “

“آخر تم اسکے ساتھ کرنے والی کیا ہو؟”فلپ قدرے جھلایا۔

“ اسکے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئیں۔ “روزمیری نے جلدی سے کہا “ اسکی دیکھ بھال کرنی ہے۔ میں نہیں جانتی کیسے۔ ابھی تک ہم نے اس سلسلہ میں کوئی بات نہیں کی۔ لیکن اپنے برتاؤ اور سلوک سے میں نے اسے یہ احساس دلوادیا کہ ،وہ میری پیاری سی بچی ہے۔ “

فلپ نے کہا،” تم بالکل پاگل ہو۔ یہ اسطرح اتنی آسانی سے ہونے والا نہیں۔ “

“میں جانتی تھی تم یہی کہوگے۔ “روزمیری نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ “ کیوں نہیں ہوگا؟ میں چاہتی ہوں اور یہ وجہ کافی ہے۔ ویسے بھی ایسے واقعات تو ہمارے پڑھنے میں بھی آتے ہیں۔ بس میں نے طےکر لیا ہے…………”

“لیکن” فلپ نے آہستہ سے کہا، “ وہ مسحور کن حد تک خوبصورت ہے۔ “

“ خوبصورت!”روزمیری کا چہرا حیرت اور غصہ سے تمتما اٹھا،” کیا تم ایسا سوچتے ہو؟ میں نے تو اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔ “

“ اوہ گاڈ!” فلپ نے ماچس کی تیلی سلگائی۔ “ بے حد خوبصورت ہے، دوبارہ دیکھیں۔ میں تو جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا، اسکو دیکھتا ہی رہ گیا۔ خیر…… میرے خیال سے تم بہت بڑی غلطی کرنے جارہی ہو۔ معاف کرنا ،ڈارلنگ ، اگر میں کچھ سخت ہو رہا ہوں۔ لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا مس اسمتھ ہمارے ساتھ رات کا کھانا کھائیگی؟ میں کچھ دیر The Milliner’s Gazette دیکھنا چاہتا ہوں۔ “

“ نا معقول انسان!” روزمیری نے کہا اور تیزی سے لائبریری سے باہر چلی گئی۔ اپنے بیڈروم میں نہیں گئی، بلکہ اسٹڈی میں جا کر میز کے سامنے بیٹھ گئی۔ ‘خوبصورت! بےحد خوبصورت! متاثر ہوا!’ اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے چیک بک کھینچی۔ پھر سوچا کہ چیک دینے کا شائد کوئی مطلب نہ ہو۔ پھر اس نے میز کی دراز کھولی، پانچ پونڈ کے نوٹس نکالے، دو واپس رکھ دیے۔ اور تین نوٹس ہاتھ میں مسلتے ہوے بیڈروم میں چلی آئی۔

آدھ گھنٹے کے بعد روزمیری دوبارہ لائبریری میں داخل ہوئی۔

“ میں صرف اتنا کہنا چاہتی تھی تمھیں” روزمیری نے جو دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑی تھی،فلپ کی طرف گھورتے ہوے کہا”مس اسمتھ ہمارے ساتھ رات کا کھانا نہیں کھائیگی”

فلپ نے پیپر نیچے رکھا “ اوہ، کیا ہوا؟ وہ گذشتہ کئے گئے وعدے؟”

روزمیری فلپ کے قریب آکر اسکے گھٹنے پر بیٹھ گئی اور کہا، “وہ جانے کی ضد کرنے لگی، اس لیے میں نے بیچاری لڑکی کو کچھ پیسے دے دیے۔ اب اسکی مرضی کے خلاف تو میں اسے نہیں روک سکتی تھی نا؟”

روزمیری نے اپنے بال بنائے۔ میک اپ کیا۔ موتیوں کے ہار پہنے۔ فلپ کے گالوں کو آہستہ سے چھوا اور کہا،”تم مجھے پسند کرتے ہو نا؟” اسکی میٹھی لیکن بھرائی آواز سے فلپ پریشان ہو اٹھا۔

“ہاں، بہت پسند کرتا ہوں” اس نے کہا اور روزمیری کو مضبوطی سے بانہوں میں بھر لیا،” kiss me”.

تھوڑی سی خاموشی۔

پھر روزمیری نےخوابیدہ آواز میں کہا، “میں نے آج ایک بہت دلفریب چھوٹا سا زیور کا ڈبہ دیکھا۔ اسکی قیمت اٹھائیس گینیز ہے۔ کیا میں لے سکتی ہوں؟”

فلپ نے جواب دیا،” ہاں بالکل، فضول خرچ انسان!”

لیکن دراصل روزمیری کچھ اور کہنا چاہتی تھی۔

“فلپ” اس نے سرگوشی کرتے ہوئے اسکے سینہ پر اپنا سر رکھ دیا،” کیا میں خوبصورت ہوں؟”



Original Title: A Cup of Tea

Written by:

Katherine Mansfield( 14 October 1888 – 9 January 1923) was a prominent New Zealand modernist short story writer who was born and brought up in colonial New Zealand and wrote under the pen name of Katherine Mansfield. At 19, Mansfield left New Zealand and settled in the United Kingdom, where she became a friend of writers such as D.H. Lawrence and Virginia Woolf. In 1917, she was diagnosed with extra-pulmonary tuberculosis, which led to her death at age 34. (Wikipedia)

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

.

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق