موہن داس گپتا کا افسانہ : باوفا

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 21: با وفا

تحریر: موہن داس گپتا ( ہندوستان)

مترجم: ابو الفرح ہمایوں (کراچی، پاکستان)




مجھے اور اشوک مترا کو حالات نے اتفاقاً یکجا کردیا تھا۔ ان دنوں میں سرکاری فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں کلکتہ سے رانی بیڑا آیا ہوا تھا۔ اس علاقے میں ایک قیمتی دھات دریافت ہوئی تھی اور اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے حکومت نے یہاں ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیرِاعظم افتتاح کے لیے بذاتِ خود تشریف لانے والے تھے۔ میں اس پروجیکٹ کا مینیجر تھا۔ دو اسسٹنٹ انجینیئر میرے ماتحت تھے، جن میں ایک اشوک مترا تھا۔ اشوک بڑا ہی باصلاحیت اور ذہین نوجوان تھا۔ میں اسے بے حد عزیز رکھتا تھا۔ چناچہ پچھلے دنوں جب اس نے اجازت دے دی۔ وہ حسبِ وعدہ دو ہفتے بعد ہی لوٹ آیا۔ میں جانتا تھا کہ نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر واپس آجانا اسے کتنا شاق گزرا ہوگا۔ میں نے اشوک کی محبت سے مجبور ہوکر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

میں اکثر اس کے خیمے میں چلا جاتا اور ہم دونوں ہنسی مذاق میں اچھا وقت گزار لیتے۔ ایک دن اس کے تکیے کے نیچے رکھی ہوئی ایک تصویر پر میری نظر پڑگئی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ اس کی بیوی کی تصویر ہے۔ "تم اسے یہاں اپنے پاس کیوں نہیں بلا لیتے۔" میں نے اسے مشورہ دیا۔ "یہ جگہ اس قدر خوب صورت اور من موہنی ہے کہ تم لوگوں کو ہنی مون کا لطف آجائے گا۔ میں تمہارے لیے علیحدہ خیمے کا بندوبست کردوں گا۔"

اشوک کا چہرہ کھل اُٹھا، لیکن یہ بات وہ اپنے والدین سے کہتے ہوئے شرم محسوس کرتا تھا، لٰہذا ایک دوست کی حیثیت سے یہ فرض بھی مجھے ہی انجام دینا پڑا۔ میں نے اُس کے باپ کو خط لکھ دیا اور ایک ہفتے بعد ہی جواب آگیا کہ اشوک جب چاہے آکر اپنی دلہن کو لے جائے۔

اشوک مترا چھٹی لے کر چلا گیا اور میں اس کا انتظار کرنے لگا۔ دس روز کے بعد ٹیلیگرام ملا کہ وہ لوگ آج ہی شام کی ٹرین سے پہنچ رہے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ کے دروازے پر ایک نوجوان اور دلکش عورت ہلکے بادامی رنگ کی بنگوری ریشمی ساڑھی میں ملبوس کھڑی تھی۔ کھلی سینڈل میں اس کے پیروں کے ناخن کافی لمبے اور نوکیلے نظر آرہے تھے۔ چہرے پر بلا کی معصومیت اور دل آویزی تھی۔ پہلی نظر میں وہ کافی جاذبِ نظر دکھائی دیتی تھی۔ اشوک نے ہم دونوں کا تعارف کرایا۔ اُس نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔ میں نے بھی دعائیں دیں اور پھر جب ہم لوگ جیپ میں سوار ہونے لگے تو اشوک نے ایک عجیب لیکن عاجزانہ درخواست کی۔ "ڈرائیونگ میں کروں گا۔"

مجھے معلوم تھا کہ اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے۔ یقیناً وہ اپنی دلہن کے سامنے اپنی شخصیت نمایاں کرنا چاہتا تھا۔ میں چپ چاپ پچھلی نشست پر بیٹھ گیا۔ "آپ کو یہ جگہ ضرور پسند آئے گی۔" میں نیلما سے مخاطب ہوا۔ "یہاں کا ماحول اتنا خوبصورت ہے کہ آپ کا دل یہاں سے جانے کو کبھی نہیں چاہے گا۔"

"جی نہیں۔ شہری لڑکیاں اس قسم کے خشک ماحول کو پسند نہیں کرتی ہیں۔ دیکھ لیجیئے گا۔ ایک ہفتہ میں ہی اکتا کر واپس جانے کی ضد کرنے لگے گی۔" اشوک نے تبصرہ کیا۔

نیلما بالکل خاموش تھی۔ اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نازک سی کم عمر اور کم سخن لڑکی تاریخ میں ایم اے ہوگی۔ مجھے یہ فکر بھی تھی کہ یہ دھان پان سی لڑکی خیمے میں تنہا کیوں کر رہے گی۔ جب کہ اشوک صبح سے شام تک اور کبھی کبھی رات میں بھی اپنی ڈیوٹی پر ہوگا۔

دوسرے روز جب میں ان سے ملنے گیا تو ملازم نے بتایا کہ وہ کہیں باہر گئے ہیں۔ میں واپسی کے لیے مڑا۔ ابھی چند ہی قدم چلا تھا کہ کچھ دُور دونوں میاں بیوی نظر آگئے۔ میں دھیرے دھیرے چلتا ان کے نزدیک پہنچ گیا، لیکن انہیں میری آمد کی خبر نہ ہوئی۔ اشوک کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا اور ایک پستہ قد، صحت مند آدمی قمیص پینٹ پہنے اس کے قریب کھڑا تھا۔ نیلما کا چہرہ فق تھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنے شوہر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہی تھی، لیکن اشوک مسلسل چلائے جارہا تھا۔ "تم کہاں رہتے ہو؟ میں پولیس میں تمہاری رپورٹ کروں گا۔ آئندہ اس جگہ تمہاری صورت نظر نہ آئے۔"

اس آدمی نے عاجزی سے جواب دیا، "معاف کردیجیے صاحب! آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔" وہ اشوک کے قدموں پہ جھکا۔ لیکن اشوک سخت غصے میں تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ زیادہ جھکا تو اشوک اپنا بوٹ اُس کے منہ پر دے مارے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اشوک نے اپنی بیوی کا بازو سختی سے پکڑا اور شدید غصے کے عالم میں واپسی کے لیے مڑا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر نرمی سی آگئی۔

میں نے پوچھا، "کیا معاملہ ہے؟"

اُس نے ذرا تلخ انداز میں جواب دیا، "وہ پاگل احمق ڈرائیور، شاید اس کا نام ہیرا ہے میرے پیچھے پڑ گیا تھا کہ مجھے کوئی ملازمت دلودیجیئے۔ کم بخت کو ذرا بھی احساس نہیں کہ ہمیں تنہائی چاہیئے۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، وہ پیچھے پیچھے چلا آتا ہے، احمق، پاجی، گدھا۔" اشوک کا پارہ چڑھنے لگا۔

میں دھیرے سے مسکرایا۔ واقعی اشوک کو تنہائی کی ضرورت تھی۔ میری مسکراہٹ کا مفہوم سمجھ کر وہ جھینپ سا گیا۔

نیلما کافی دنوں سے پہاڑٰ پر جانے کے لیے بے قرار تھی اور ہم لوگ کام کی زیادتی کی وجہ سے مسلسل اُسے ٹال رہے تھے، لیکن ایک دن جب اس کی ضد شدت اختیار کرگئی تو میں نے وعدہ کرلیا کہ کل ہم لوگ ضرور چلیں گے۔ دوسرے دن اشوک نے مجھے بتایا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ کام پر واپس نہیں آئے گا۔ میں نے اسے اجازت دے دی۔ مجھے اس نے کچھ نہیں بتایا کہ اس کا ارادہ کیا ہے۔ بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اپنی نئی نویلی دلہن کو لے کر پہاڑی کی طرف نکل گیا ہوگا۔ میں خود بھی آج تک اس بات کا احساس ہے کہ اگر میں اس روز اشوک کو چھٹٰی نہ دیتا تو شاید وہ واقعہ پیش نہ آتا۔ میں آج تک پچھتاوے کی آگ میں سلگ رہا ہوں۔

شام ہوگئی۔ اندھیرا پھیلنے لگا۔ اچانک تیز ہوا چلنے لگی۔ آسمان پر کالے کالے بادل چھاگئے اور پھر فوراً ہی موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ میں اپنے خیمے میں بیٹھا بارش سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ایک قُلی تیزی سے میری طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔ میرے پاس آتے ہی میرے کچھ پوچھنے سے قبل اس نے جلدی جلدی بولنا شروع کردیا، "سر! اشوک صاحب نے ایکسیڈنٹ کردیا ہے۔ ایک عورت ان کی جیپ کے نیجے آکر ہلاک ہوگئی ہے اور اشوک بابو بھی زخمی ہیں۔"

"اور میم صاحب ؟" میں بے اختیار چلا اٹھا۔

"وہ خیریت سے ہیں۔ انہیں کچھ نہیں ہوا۔" اس نے بتایا۔

"اچھا میں دیکھتا ہوں تم فوراً پولیس اسٹیشن چلے جاؤ اور پولیس کو اطلاع دے دو۔" میں نے اس آدمی کو سمجھا کر روانہ کردیا۔

بارش اب کچھ ہلکی پڑچکی تھی، لیکن ہوا بے حد سرد اور تیز تھی۔ میں نے اپنا رین کوٹ پہنا اور جیپ لے کر موقعہ واردات کی طرف روانہ ہوگیا۔ اشوک اور نیلما گاڑی کے قریب ہی زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجمع ان کے گرد جمع تھا اور مرنے والی کے عزیز و اقارب رونے دھونے میں مصروف تھے۔ میں نے نیلما اور اشوک کو وہاں سے ہٹا کر ایک مقامی آدمی کے گھر لے جاکر بٹھا دیا۔ مجھے رہ رہ کر یہ خیال آرہا تھا کہ بہت جلد پولیس آجائے گی اور اشوک گرفتار ہوجائے گا۔ بلا لائسنس سرکاری گاڑی چلانے کا جرم اور پھر ایک انسانی جان کا ضیاع۔ دونوں جرم سنگین نوعیت کے تھے اور اشوک کو طویل مدت قید کی سزا ملنی لازمی تھی۔ مجھے بے حد افسوس ہورہا تھا۔ ایک بے حد نفیس اور ذہین شخص حالات سے مار کھا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اشوک کو مارفیا کا انجکشن لگا دیا، لیکن میرا دھیان مسلسل اشوک اور اس کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی طرف لگا ہوا تھا۔ میں سخت پریشان تھا کہ اس صورتِ حال پر کیسے قابو پایا جائے۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ نیلما بہت دیر سے نظر نہیں آرہی ہے۔ شاید وہ چپ چاپ باہر نکل گئی تھی۔ مجھے ڈر محسوس ہوا کہ کہیں وہ کوئی قدم نہ اُٹھا لے۔ پولیس کسی بھی لمحے پہنچنے والی تھی۔ میں چیپ لے کر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کچھ دیر بعد پانی مین چلتے ہوئے قدموں کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ ٹارچ کی روشنی میں میں نے کسی لڑکی کا سایہ اپنی ہی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا۔ نیلما تھی۔ اس کے کپڑے گیلے ہوکر اس کے جسم سےبالکل چپک گئے تھے۔ اس نے اپنی ویران نگاہیں میرے چہرے پر گاڑ دیں اور پھر شاید اس کی ہمت جواب دےگئی۔ وہ گرنے لگی۔ میں تیزی سے آگے بڑھا اور اسے سیدھا کھڑا کرنے کی کوشش کی۔

"اس سخت آزمائش کے موقع پر خود کو قابو میں رکھو نیلما۔ اشوک کو تمہاری ضرورت ہے۔" بڑی مشکل سے میں اسے جیپ تک لایا۔ مجھے اس سے چند باتیں معلوم کرنی تھیں، لیکن حادثے نے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی تھی۔ اسے یقیناً گہرا صدمہ پہنچا تھا۔ "تم اتنی دیر سے کہاں غائب تھیں؟" میں نے پوچھ لیا۔

نیلما مردہ سے لہجے میں دھیرے دھیرے بتانے لگی، "مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض لائسنس یافتہ اور تجربہ کار ڈرائیور ایسے موقعوں پر تمام الزام اپنے سر لے کر اپنے مالک، یا افسر کی جان بچا لیتے ہیں۔ اس قربانی کا معاوضہ انہیں ادا کرنا پڑتا ہے۔ میں اسی سلسلے میں ہیرا سے بات کرنے گئی تھی۔ وہ مان گیا ہے اور ابھی جائے حادثہ پر پہنچنے والا ہے۔ وہ پولیس کو یہی بیان دے گا کہ حادثے کے وقت وہ جیپ چلا رہا تھا اور جو کچھ ہوا وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔"

پولیس آچکی تھی اور اپنی کاروائی میں مصروف تھی۔ ہیرا نے وہی بیان دیا، جو نیلما مجھے بتا چکی تھی، لیکن پھر بھی یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ اپنے بیان سے پھر نہ جائے۔ چپکے سے میں نے ہیرا کے کان میں پوچھا، "بتاؤ تمہیں کتنی رقم چاہیئے؟ اسکے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو۔"

اس نے شدید نفرت سے میری طرف دیکھا۔ اس کی سُرخ آنکھیں تیزی سے گردش کررہی تھیں۔ میں ڈر گیا کہ نہ معلوم اس کا کیا ارادہ ہے، لیکن فوراً ہی اس کی حالت اعتدال پر آگئی، اس نے صرف ایک جملہ کہا، جس کا مطلب میں فوری طور پر کچھ نہ سمجھ سکا۔ "مجھے کچھ نہیں چاہیئے، یوں بھی میری مانگ پوری کرنا آپ کے بس کی بات نہیں۔"وہ تیزی سے پولیس انسپکٹر کی طرف بڑھا اور اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا، مگر میں نے اندازہ لگا لیا کہ نیلما نے اسے پہلے ہی اچھی خاصی رقم دے دی ہوگی، یا بعد میں دینے کا وعدہ کرلیا ہوگا۔ جب پولیس اسے لے کر چلی گئی تو میں نے سکون کا سانس لیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جاتے ہی ہیرا کا نام ڈرائیور کی حیثیت سے ملازموں کی فہرست میں چھ ماہ پہلے کی تاریخ میں درج کرلوں گا تاکہ تحقیقات کے دوران کوئی اڑچن پیش نہ آئے۔

میں نے نیلما اور اشوک کو اپنی جیپ میں بٹھایا اور واپس اپنے خیموں کی جانب چل پڑا۔ اشوک تو خاموش تھا ہی، لیکن بالکل اجڑی اجڑی سی لگ رہی تھی۔ میں نے دونوں کو ان کے خیمے میں پہنچا دیا۔ "تمہارے ذہنوں پر شدید بوجھ ہے تم آرام سے سوجاؤ۔ میں بعد میں آؤں گا۔" میں نے ان دونوں کو وہاں چھوڑا اور اپنے خیمے میں آگیا۔ مجھے خوشی تھی کہ نیلما نے حالات کو بڑی خوش اسلوبی سے سنبھا ل لیا تھا۔ اس چھوٹی سی گڑیا میں بے پناہ قوتِ برداشت اور حالات پر قابو پانے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔

دوسرے روز جب میں اشوک کو دیکھنے گیا تو نیلما باہر ہی کھڑی مل گئی۔ اس کے لمبے لمبے بال کمر تک بکھرے ہوئے تھے اور ایک آوارہ لٹ اس کے گالوں پر لہرا رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ چونک اٹھی اور کچھ گھبرا سی گئی۔ اس کے چہرے پر حادثے کا اثر اب بھی موجود تھا۔ اس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر نجانے کچھ گھبرا سی گئی۔ اس کے چہرے پر حادثے کا اثر اب بھی موجود تھا۔ اس کا افسردہ چہرہ دیکھ کر نجانے کیوں میرا دل کانپ سا گیا۔ ایک بہادر لڑکی، جس نے ایسے خطرناک حالات کا اس قدر دلیری سے مقابلہ کیا، اب ہمت ہار گئی تھی۔ گو اس کے شوہر کو زیادہ چوٹ بھی نہیں آئی تھی، لیکن ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اس لڑکی نے ذہنی طور پر اس حادثے کو قبول نہیں کیا اور میرا اندازہ درست ثابت ہوا۔ بعد میں مجھے اشوک نے بتایا کہ وہ اکثر نیند میں اچانک ایک چیخ مار کر اُٹھ جاتی ہے اور زار و قطار رونے لگتی ہے۔ اور زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے قریب بالکل نہیں آنے دیتی تھی۔ ہم دونوں کو سخت حیرت تھی کہ اس کے اندر سے وہ طاقت اور ہمت کہاں غائب ہوگئی ہے، جس نے اسے اپنے شوہر کی مدد پر آمادہ کیا تھا۔ اس کا جسم دن بدن لاغر ہوتا جارہا تھا۔ اس کے چہرے کی تمام شادابی اور شگفتگی رخصت ہوچکی تھی۔ اس کی ویران آنکھیں ہر دم ڈری ڈری سی نظر آنے لگی تھیں۔ ایک روز اشوک مجھے بتانے لگا، "تمہیں معلوم ہے نیلما نے ہیرا ڈرائیور کی مدد اور اعانت کیسے حاصل کی؟ اس نے وہ خاندانی چوڑیاں اس کے حوالے کردیں جنہیں وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتی تھی۔ نیلما کی ماں نے اسے نصیحت کی تھی کہ ان چوڑیوں کو خود سے کبھی جدا نہ کرے، ورنہ وہ کسی حادثے کا شکار ہوجائے گی، مگر میری خاطر اسے اپنی پیاری چوڑیوں کی قربانی دینی پڑی۔"

مجھے کام کے سلسلے میں کچھ عرصے کے لیے باہر جانا پڑا۔ پندرہ روز بعد واپس لوٹا تو دیکھا کہ اشوک کا چہرہ بھی بالکل بے رونق ہے اور وہ بیمار بیمار لگ رہا ہے۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ نیلما کی وجہ سے اسکی یہ حالت ہوگئی ہے۔ نیلما کی حالت روز بروز خراب ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ باہر بیٹھی آتی جاتی گاڑیوں کو وحشت سے دیکھا کرتی۔ اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہتا اور کسی بات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، ہم کوئی کہانی یا افسانہ پڑھتے ہیں تو عام طور پر پوری کہانی پڑھے بغیر اس کے انجام کا اندازہ لگا لیتے ہیں ، لیکن حقیقی زندگی میں جب ایسی کوئی کہانی جنم لیتی ہے تو ہماری آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔ ہمارے احساسات بے حس ہوجاتے ہیں اور ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت استعمال کرنا بھول جاتے ہیں۔ آخر ہم اس موقع پر اس بات کا اندازہ لگانے میں کیوں ناکام رہتے ہیں کہ ہم، جس کہانی سے گزر رہے ہیں اسکا انجام کیا ہوگا؟ اور ایسا ہی نیلما کی کہانی میں بھی ہوا۔ ہم لوگ انجام کے بارے میں کوئی اندازہ نہ لگا سکے اور حادثہ ہوگیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نیلما خودکشی کرلے گی۔ دن بھر پتھروں پر بیٹھ کر اُداس نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھنے والی لڑکی ایک دن اچانک اُٹھی اور اس سے قبل کہ ہم لوگ ہوشیار ہوتے، وہ تیز رفتار دیوہیکل ریلوے انجن کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ ایک لمحے میں اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ اس اچانک اور المناک حادثے نے مجھے اور دوسرے لوگوں کو جو دُکھ پہنچایا، اس کا تو ذکر ہی کیا، لیکن اشوک کا غم کسی سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ اس کی حالت پاگلوں جیسی ہوچکی تھی۔ میں نے اسے دفتر سے طویل رخصت دلادی، لیکن وہ اپنے گاؤں نہیں گیا، بلکہ وہیں رانی بیڑا میں مقیم رہا۔ ایک روز وہ مجھے اپنے خیمے میں لے گیا۔ اور ایک خط میرے ہاتھوں میں تھما کر چپ چاپ میری شکل دیکھنے لگا۔ میں نے پوچھا، "کیا نیلما کا آخری خط ہے؟" بے اختیار وہ سسک پڑا۔ اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں نے خط پڑھنا شروع کیا؛

"میری زندگی! میری جان! تم سلامت رہو ہزار برس۔"

میں اپنے دل آزار رویے پر سخت شرمندہ ہوں اور تم سے معافی کی طلب گار ہوں۔ پچھلی رات جب تم رہ رہ کر میری خوشامد کررہے تھے اور واسطے دے رہے تھے کہ میں اپنی الجھن اور تم سے دور رہنے کی وجہ بتادوں، لیکن میں نے جواب میں خاموشی اختیار کیے رکھی۔ میں واقعی بہت بُری عورت ہوں کہ تمہاری گریہ وزاری سے میرا دل نہ پسیجا۔ بہرحال، یہ خط پڑھ کر تم جان جاؤ گےکہ مجھ پر کیا حادثہ گزر چکا ہے۔ ایسا حادثہ جو ایک عورت اپنی زبان سے کبھی ادا نہیں کرسکتی۔ اگر ہوسکے تو مجھے معاف کردینا۔

ذرا یاد کرو۔ ایک صبح ہم لوگ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سیر کے لیے نکلے۔ تم بڑی ترنگ میں تھے۔ کبھی تم پہاڑیوں کی طرف اشارہ کرتے، کبھی جنگلوں کی طرف اور کبھی قُلیوں کے ایستادہ خیموں کی جانب۔ تم خوشی اور فخر کے جذبات سے بھرپور تھے۔ گویا اس تمام علاقے کے بلا شرکت غیرے مالک ہو، اور تب اچانک ہی وہ پستہ قد مکروہ شکل آدمی سامنے آگیا اور ملازمت کے لیے تمہاری منت سماجت کرنے لگا۔ اس کی خوفناک شخصیت میں کوئی بات ضرور تھی، جس نے میرے دل پر دہشت طاری کردی۔ اس سے قبل بھی وہ دو تین بار میرے پاس آچکا تھا تا کہ میں تم سے اس کی سفارش کردوں، لیکن میں نے تم سے ذکر نہیں کیا۔

اس رات جب تم جیپ چلا رہے تھے، تم بے حد خوشگوار موڈ میں تھے۔ تمہار اندازِ محبت بڑا ہی دلفریب تھا۔ ہم دونوں مستقبل کے سہانے سپنوں میں گم تھے کہ اچانک اسٹیرنگ پر تمہارا ہاتھ بہک گیا۔ جیپ بے قابو ہوگئی اور وہ منحوس حادثہ ہوگیا۔ سب سے پہلا صدمہ مجھے اپنے آپ کو دیکھ کر ہوا کہ میں بالکل محفوظ تھی، لیکن تم زخمی تھے درد و کرب سے بے تحاشا چلا رہے تھے۔ بے ہوش ہونے سے قبل تم نے بڑے حسرت ناک انداز میں کہا تھا، "نیلما ! میں مر رہا ہوں۔" اور میری نظر میں مختلف چہرے گشت کرنے لگے۔ تمہارا ضعیف باپ، ایک اسکول ماسٹر، جس نے تمہیں اعلٰی تعلیم دلانے کے لیے بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ بوڑھی اور کمزور ماں، جس نے نجانے کتنے ارمانوں سے تمہارے سر پر سہرا سجایا تھا۔ تمہارا چھوٹا بھائی جو ابھی اعلٰی تعلیم حاصل کررہا تھا اور تمہاری دو غیر شادی شدہ بہنیں، جن کا واحد سہارا صرف تم تھے۔ ان سب چہروں کے ساتھ ایک اور چہرہ بار بار میری نگاہوں کے سامنے آجاتا۔ وہ چہرہ ہیرا کا چہرہ تھا۔ اس وقت یہی چہرہ میری اُمیدوں کا مرکز تھا۔

مجھے نہیں معلوم کہ میرے جسم میں انجانی قوت کہاں سے آگئی۔ میں بے اختیار ہیرا کی جھونپڑی کی طرف چل پڑی، وہ تنہا تھا اور اسے حادثے کی خبر مل چکی تھی۔ چند روز قبل تم نے اسے نفرت سے دھتکار دیا تھا اور وقت کی گردش دیکھو کہ اب میں اس کے آگے گڑ گڑا رہی تھی ۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہے رہے تھے۔ میری عاجزی کا آخرکار اس پر اثر ہوا۔ اُس کے چہرے پر کچھ تبدیلی نظر آئی۔ اُس کی ذردیدہ نگاہیں میرے پورے جسم کا جائزہ لے رہی تھیں۔ اُس کا مختصر سا سینہ شدتِ جذنات سے پھول اور پچک رہا تھا۔ میں چپ چاپ کھڑی بس اسے دیکھے جارہی تھی۔ چند لمحے یوں ہی گزر گئے اور پھر میں نے اپنے بدن پر سے ایک ایک کرکے تمام زیور اُتارے اور اُس کے قدموں میں ڈال دیے ، تمہیں بھگوان کا واسطہ۔ میرے پتی کو بچالو۔ میں اس کے آگے گڑ گڑانے لگی۔

اس نے استہزائیہ قہقہہ لگایا اور اپنے غلیظ ہونٹوں پر مکروہ مسکراہٹ سجائے میری جانب بڑھا۔ مجھے اس وقت کچھ بھی سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں اس کے خوفناک ارادوں کو محسوس کرنے کے باوجود خاموش ساکت و جامد کھڑی تھی۔ جلدی کرو پولیس آنے والی ہوگی۔ میں نے ایک بار پھر التجا کی۔

اس نے آگے بڑھ کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ 'دولت کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلے سال جب مکرجی نے ایک آدمی کو کُچل دیا تھا تو میں نے الزام اپنے سر لے کر کافی لمبی رقم لے لی تھی۔ اس تم سے کوئی اور چیز لوں گا۔'

اور اس کے بعد۔۔۔۔ مجھے الزام نہ دینا۔۔۔۔ کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ میں اس قربانی کے بغیر تمہیں بچا نہیں سکتی تھی۔ میرے پاس کوئی سوچنے کا وقت بھی نہیں تھا اور جب تک میں کچھ سمجھ پاتی ، بات کافی آگے پہنچ چکی تھی۔ میرا کچلا ہوا جسم بالکل بے حس تھا۔ میں اپنے ہوش و حواس سے گزر چکی تھی۔ چند لمحوں بعد میں نے محسوس کیا کہ کوئی مجھے جھنجھوڑ رہا ہے۔ پھر پانی کے جند قطرے میرے چہرے پر گرے اور میں ہوش میں آگئی۔ ہیرا میرے کانوں میں سرگوشی کررہا تھا۔ تم فوراً چلی جاؤ۔ میں اپنا ڈرائیونگ لائسنس لے کر ابھی آتا ہوں۔ تمہارا شوہر خوش قسمت ہے کہ جیل جانے سے بچ جائے تا۔'

میں خاموشی سے اُٹھی اور واپس جانے کے لیے چل پڑی۔ جب تم نے سنا کہ تمہارا وقار اور عزت سب کچھ محفوظ ہے تو تم نے شدتِ جزبات سے بے خود ہوکر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔ تمہارے چہرے پر اعتماد و سکون کی جھلک دیکھ کر میں شرم و ندامت کے احساس سے پاگل ہوگئی۔ میں نے تمہیں بتایا کہ اپنی خاندانی اور اپنی عزیز از جان چوڑیاں قربان کرکے تمہیں دوبارہ حاصل کیا ہے تو تم نے میری بات کا یقین کرلیا۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ راز ایک نہ ایک دن آخر کھل ہی جانے گا۔ ہیرا بہت ہی کم ظرف اور کمینہ آدمی ہے۔ وہ جب جیل سے چھوٹ کر آئے گا تو میری کہانی خوب نمک مرچ لگاکر تمام دنیا کو سنائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ تم میری مجبوری سمجھ کر مجھے معاف کردو، لیکن میں اپنے آپ کو کیسے معاف کردوں؟ میرا ضمیر مجھے مسلسل کچوکے لگارہا ہے اور اب اس عذاب سے نجات کا واحد حل یہی ہے، جس پر عمل کرنے جارہی ہوں۔"



تمہاری بدنصیب

نیلما

(بنگالی زبان کے افسانے کا انگریزی کے توسط سے اردو ترجمہ)

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 


 

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق