گی دے موپاساں کا افسانہ : آتشِ یخ بستہ ( Rust)

 

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر  81 :  آتشِ یخ بستہ

تحریر: گے د موپساں (فرانس)

انگریزی سےاردو  ترجمہ: ڈاکٹر ریاض قدیر (بہاولپور، پاکستان)

 




وہ شکار کا بے حد شوقین تھا۔ اس کا یہ جذبہ اتنا شدید تھا کہ اس کی کبھی مکمل تسکین نہ ہوپائی۔ صبح سے شام تک جانوروں اور پرندوں کا  شکار کرتا رہتا۔ مگر اس پر تھکن کے کوئی آثار دکھائی نہ دیتے۔ گرمی، سردی، بہار، خزاں میں اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ہر اس جگہ جاپہنچتا جہاں اسے شکار ملنے کی توقع ہوتی۔ حتٰی کہ تیز بارشوں کے موسم میں جب جنگل اور میدان پانی اور دلدل سے بھرے ہوتے تب بھی اس پر یہی جنون طاری رہتا۔ ایسے میں اس کے کپڑے کیچڑ سے لت پت اور جوتے اور موزے گارے اور مٹی سے خراب ہوجاتے۔

               کچھ پرندے اور جانور اس کے جال میں پھنس جاتے۔ کچھ پر اسے گولی چلانا پڑتی اور کچھ کو وہ بھاگ کر پکڑ لیتا۔ شکار کے علاوہ نہ تو وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتا اور نہ ہی کسی اور موضوع پر گفتگو کرنا پسند کرتا۔ حتٰی کہ اس کے خواب بھی شکار گاہ سے متعلق ہوتے۔ وہ کہتا؛

                    "بھلا وہ بھی کوئی انسان ہے جو شکار نہیں کھیلتا۔"

          اس کی عمر پچاس برس سے کچھ زیادہ تھی مگر ابھی تک چاق و چوبند، چست، توانا اور صحت مند تھا۔ مونچھیں چھوٹی رکھتا تھا تاکہ نشانہ لیتے ہوئے الجھن نہ ہو۔ لوگ اسے بیرن کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کا پورا نام بیرن بیسکٹر ڈی۔ کوت لیئر تھا۔ وہ جنگل سے کچھ فاصلے پر ایک بڑی حویلی میں رہتا تھا، جو اسے اپنے باپ دادا سے وراثت میں ملی تھی۔ اس علاقے کے تمام شرفاء سے علیک سلیک تھی مگر اس کا آنا جانا صرف ایک ہی گھر میں تھا۔ اور وہ تھا اس کے بچپن کے دوست 'کورویل' کا گھر۔ جو نہ صرف اس کے ہمسائے تھے بلکہ ان سے کئی پشتوں سے اس کی عزیزداری چلی آرہی تھی۔ اس گھر کا ہر فرد اس کی عزت کرتا تھا۔ اس سے محبت کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اس کے ناز نخرے بھی اٹھائے جاتے تھے اور اس کی خوب خاطر خدمت کی جاتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کہتا تھا کہ

          "اگر مجھے شکار کا اتنا شوق نہ ہوتا تو میں ہر وقت یہیں پڑا رہتا۔"

     اس کے بچپن کا دوست 'کوردیل'  ایک کاشتکار تھا۔ جس کا شمار علاقے کے معززین میں ہوتا تھا۔ اور جو اپنی بیوی، بیٹی اور داماد 'دارن'  کے ساتھ پُر سکون اور خوش حال زندگی گزار رہا تھا۔

                 بیرن کبھی کبھی اپنے دوست کے گھر راحت کے کھانے پر مدعو کیا جاتا اور دیر تک اپنے شکار کی باتیں کرتا رہتا۔ وہ انہیں بتاتا تھا کہ اس کا کتا مدور کیسے جھٹ پٹ شکار کو پکڑتا ہے اور وہ کیسے گولی چلنے کی آواز کے ساتھ ہی اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں کسی پرندے یا چھوٹے جانور کے گرنے کا امکان ہوتا ہے۔ وہ اس قدر انہماک اور جزئیات کے ساتھ تصویر کشی کرتا کہ کورویل ، اس کی بیوی، بیٹی اور داماد کھل کر ہنستے۔ اگر موضوع ء سخن بدل جاتا تو وہ سننا بند کر دیتا اور اپنے منہ سے شکار کے دوران پیدا ہونے والی آوازیں نکالنا شروع کر دیتا۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد شکار تھا۔ جس میں وہ اتنا محو تھا کہ اسے اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ بڑھاپا اس کی دیلیز پر دستک دینے لگا ہے۔

             ایک دن اس پر دردِ شقیقہ کا شدید حملہ ہوا۔ جس کی وجہ سے اسے دو ماہ تک آرام کرنا پڑا۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ دور تھا۔ تنہائی اور بے زاری جان لیواتھی۔ ایک منٹ گزارنا بھی دشوار ہوگیا۔ اس کے دو ملازم تھے۔ ایک اس کا کھانا پکاتا اور اس کی تیمارداری کرتا۔ دوسرا سودا سلف لاکر دیتا اور باہر کے کام کاج کرتا تھا۔ مگر نوکر افرادِ خانہ کا نعم البدل نہیں ہوتے۔ اس لیے اسے اکیلے پن سے نفرت ہوگئی۔

           وہ کسی اپنے سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اپنی کامیابیوں پر ہنسنا اور ناکامیوں پر افسوس کرنا چاہتا تھا۔ سارا دن یا تو آرام کرسی پر بیٹھ کر خلا میں گھورتا رہتا یا پھر بستر پر کروٹیں بدلتا رہتا تھا۔ جس سے اس کے بستر پر بچھی ہوئی چادر پر بے شمار شکنیں پڑ جاتیں اور اس کی اُلجھن میں مزید اضافہ ہوجاتا۔

                  کبھی کبھی اس کے دوست کورویل کے گھر سے خواتین اس کی مزاج پرسی کے لیے آجاتیں۔ جس کی اسے بےحد خوشی ہوتی۔ وہ اس کے لیے چائے بناتیں، اس کے کمرے میں ہیٹر جلاتیں اور اسے طرح طرح کے کھانے بنا کر کھلاتیں۔ رخصت ہونے لگتیں تو کہتا؛

          "میرا دل چاہتا ہے آپ لوگ ہمیشہ یہیں رہ جائیں۔"

       آخرکار وہ روبہ صحت ہونے لگا۔ اس نے شکار کے لیے بھی جانا شروع کردیا تھا۔ اب وہ کورویل کے گھر روز رات کا کھانا کھانے آتا مگر اس میں وہ پہلے جیسی قوت اور بشاشت نہ رہی۔ اسے یہ خوف دامن گیر رہتا تھا کہ خدا نہ خواستہ موسم کی تبدیلی سے پہلے بیماری کا ایسا کوئی دوسرا حملہ ہوگیا تو وہ کیسے زندہ بچے گا؟ ایک مرتبہ رات کو واپس جانے لگا تو گھر کی خواتین نے گرم شال اور مفلر میں اسے لپیٹ دیا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس قسم کی توجہ اور محبت کی اسے اشد ضرورت ہے۔ اس کی وجہ شاید اس کے اندر کا خوف تھا۔ اس لیے وہ بولا؛

                   "اگر اس بیماری کا دوبارہ حملہ ہوگیا تو میں دوسری دنیا کو سدھار جاؤں گا۔" اس کے جانے کے بعد کورویل کی بیٹی نے اپنی ماں سے کہہ؛

                "اماں ان کی شادی کے لیے ہمیں کوئی عورت تلاش کرنی چاہیئے۔"

یہ سن کر سب خوش ہوگئے۔ "واہ۔ واہ۔" "کیا زبردست تجویز ہے۔"

"یہ خیال ہمیں پہلے کیوں نہ آیا؟ یہی بیرن کے تمام مسائل کا حل ہے۔"

              اس رات وہ دیر تک اس موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ انہوں اپنے جاننے والوں  میں تمام بیوہ عورتوں کے بارے میں تفصیلاً گفتگو کی۔ ان میں سے ہر ایک کی شخصیت سماجی مقام و مرتبہ، مالی حالات اور ذاتی زمہ داریوں کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی۔ آخر کار ایک نام پر وہ سب متفق ہوگئے۔ یہ تھی 'برتھا ولرز'  جو اپنی خوش مزاجی، خوش حالی، خوب صورتی، خوب سیرتی اور معزز ہونے کی بنا پر ہر دل عزیز تھی ۔ چنانچہ اسے دعوت دی گئی کہ وہ چند دن ان کے ہاں حویلی میں رہنے کے لیے آجائے۔ جس پر وہ خوش ہوئی۔ شاید گھر میں اکیلے رہنے کی وجہ سے وہ بھی بور ہوگئی تھی۔ اس لیے اگلے ہی روز وہ وہاں پہنچ گئی۔

            اس کی طبعی خوش مزاجی اور خوش خلقی سب کو پسند آئی۔ بیرن تو اس کا دیوانہ ہوگیا۔ وہ اس سے گھنٹوں باتیں کرتی رہتی۔ خرگوشوں اور پرندوں کی عادات کے بارے میں طرح طرح کے سوالات پوچھتی۔ جن کے جوابات پر مسکراتی، وہ جانوروں کے بارے میں گفتگو کرتا رہتا۔ کبھی کبھی اسے لگتا کہ وہ جانوروں کو پکڑنے کے حیرت انگیز واقعات سن کر وہ دل کھول کر ہنستی۔ وہ بھی اس کے شوق سے بہت متاثر ہوا۔ اس کی توجہ پاکر وہ بہت خوش رہنے لگا۔ اس لیے ایک شام اسے شکار پر چلنے کی دعوت دے دی۔ جس کی اسے خوش گوار حیرت ہوئی۔ باقی سب لوگ خوش تھے۔ اس لیے انہوں نے اسے شکار کا لباس مہیا کیا اور تمام لوازمات سے لیس کرکے اس کے ساتھ روانہ کردیا۔ بیرن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جیسے اپنی زندگی کا پہلا شکار کر نے جارہا ہو۔ اسے ایک کھیت میں لے گیا اور ہاتھ میں بندوق دے کر اسے ہوا کی سمت اور جانوروں کے ردِعمل اور ان کے بھاگنے کی رفتار کے بارے میں سب کچھ سمجھا دیا۔

                   مدور بھی مستی میں تھا۔ وہ برتھا کی جانب قلابازیاں لگاتا کبھی الٹا لیٹ جاتا اور کبھی پچھلے پنجوں کے بل کھڑا ہونے کی کوشش کرتا۔ بیرن اپنی نئی سٹوڈنٹ کے پیچھے کھڑا تھا۔ وہ اب بھی اس کے بارے میں خاصا فکر مند تھا۔ وہ ہکلایا۔ "دھ۔ دھیان سے ، آرام سے یہ سب تہ ۔ تیہ۔ تیتر ہیں۔ وہ بھی اتنے بڑے بڑے ۔۔۔"

                     اس کی بات ختم ہونے سے پہلے اسے شور سنائی دیا  بَرر  بَرر ۔۔۔۔۔ بَرر بَرر اور پرندوں کا ایک بڑا غول فضا میں بلند ہوا۔ برتھا حیران رہ گئی۔ اس کے حواس قابو میں نہ رہے۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور فائر کرکے دونوں بیرل خالی کردیئے۔ بندوق کے وزن اور دباؤ کی وجہ سے وہ پیچھے کی طرف لڑکھڑائی۔ جب اس کے حواس درست ہوئے تو اس نے دیکھا کہ بیرن اس کے پیچھے کسی دیوانے کی طرح رقص کررہا تھا۔ اور مدور دو  بھاری بھر کم تیتر اٹھا کر لارہا تھا ۔ بیرن کو اس دن اس سے محبت ہوگئی۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا؛

                    "یار کیا عورت ہے؟"

              ایک دن سیر کے دوران برتھا کی تعریفوں میں اس نے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تو کورویل بولا؛

                      "یار تم اس سے شادی کیوں نہیں کرلیتے؟"

                    یہ سُن کر بیرن سکتے میں آگیا۔ "ش۔ ش۔ شادی ۔۔۔؟ مہ مہ میں ۔۔۔۔۔ ؟ اچھا ؟ ۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔" پھر وہ خاموشی ہوگیا۔ اور اچانک اپنے دوست کو خدا حافظ کہہ کر تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔

                   اس واقعے کے بعد وہ تین دن تک نظر نہ آیا۔ ہر کوئی پریشان تھا۔ جب آیا تو قدرے سہما ہوا اور سنجیدہ تھا۔ کورویل کو ایک طرف لے جاکر کہنے لگا۔

                           "مجھے تمہاری تجویز بہت پسند آئی ہے۔ اسے مجھ سے شادی کے لیے رضا مند کرو۔ دیکھا جائے گا۔ ایسی عورت تو صرف اور صرف میرے لیے بنی ہے۔ ہم ہر روز اکٹھے شکار پر جایا کریں گے۔"

                                کورویل کو یقین تھاکہ وہ انکار نہیں کرے گی۔ اس نے کہا؛

                "بہتر کہ تم خود ہی اس سلسلے میں اس بات کرو۔ دوسری صورت میں میں کرلوں گا؟"

         بیرن کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے پھر وہ کچھ سوچ کر بولا۔

              "نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ مجھے پہلے پیرس جاناہے۔۔۔۔ صرف۔۔۔۔ صرف۔۔۔۔ دو تین روز کے لیے۔۔۔۔ کل چلا جاؤں گا۔۔۔۔"

             "واپس آتے ہی تمہیں اپنا حتمی جواب دوں گا۔"

             اس نے کچھ اور بتانے سے گریز کیا۔ اس لیے وہ اس کے پیرس جانے کا سبب نہ جان سکا۔

               اس کا یہ مختصر دورہ طویل ہوگیا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ پھر دو اور پھر تین۔ مگر وہ واپس نہ آیا۔ کورویل کے گھر میں سب پریشان تھے۔ ان کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات جنم لیتے۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بیرن کیا سوچ رہا ہے؟ اس کا کیا ارادہ ہے؟ شادی کرنا چاہتا ہے یا نہیں؟ اور اب ایسی صورتِ حال میں وہ برتھا کو کیا جواب دیں؟ ہر شام اس کے گھر کا چکر لگا کر آتے مگر انہیں اس کی کوئی خبر نہ ملتی۔ اس کے نوکروں کے پاس اس کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔

                 ایک شام ان کے ہاں کچھ   دوست چائے پر مدعو تھے، جس کا مزا اس وقت دوبالا ہوگیا جب برتھا نے انہیں گانے سنا کر محظوظ کیا۔ ایسے میں ملازم نے اطلاع دی کہ ان سے کوئی صاحب ملنے کے لیے آئے ہیں۔ کورویل نے باہر نکل کر دیکھا تو یہ بیرن تھا۔ جس کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ کپڑے میلے کچیلے تھے اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ کمزور اور بوڑھا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔ پھر وہ بولا؛

              "یار میں ابھی ابھی پیرس سے واپس آیا ہوں۔ کپڑے بھی نہیں بدلے۔ سوچا سب سے پہلے تم سے مل لوں۔۔۔"

            اس کی آواز میں تھکن کا عنصر نمایاں تھا۔ وہ ہچکچایا۔ پھر شرمندگی سے بولا؛

               "یار میں ۔۔۔۔ دراصل۔۔۔ صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ وہ میری شادی والا معاملہ ختم سمجھو۔"

      یہ سُن کر کورویل حیران رہ گیا۔ "کیا مطلب ؟ کیوں ؟ یار ایسا مت کرو۔۔۔۔" پھر وہ اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولا:

                 "شی !!! بس چپ کرو؟ کوئی سوال نہ کرنا۔۔۔ کوئی وجہ نہ پوچھنا۔۔۔ تھوڑے کو بہت سمجھنا ۔۔۔۔ کیوں کہ بتانا میرے لیے نہ صرف باعثِ شرم ہے بلکہ بہت تکلیف دہ بھی ہے۔ شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ میں سچ سچ بتادوں اور سچ یہی ہے کہ مجھے کسی خاتون کی زندگی خراب کرنے کا کوئی حق نہیں۔ میں اب آپ کے گھر بھی نہیں آنا چاہتا۔ خاص طور پر جب تک وہ آپ کے گھر میں موجود ہے۔ کیوں کہ میں اس کا سامنا نہیں کرسکتا۔ خدا حافظ۔" پھر وہ چلا گیا۔

                   سب گھر والے اس رات دیر تک اس موضوع پر بات چیت کرتے رہے۔ انہوں نے ہر پہلو پر غور کیا۔ ہر ممکنہ صورتِ حال پر تبصرہ کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ضرور بیرن کے اپنے بچے ہیں، جنہیں وہ سب کے سامنے نہیں لاسکتا۔ اور شاید انہیں بچوں نے اسے شادی کرنے سے منع کردیا ہے یا پھر اس کی کوئی پرانی محبت ہے جو اسے ایسا کرنے سے روک رہی ہے۔ ہو نہ ہو کوئی اسی طرح کا معاملہ ہے۔ مگر اب کسی صورت میں بھی اس کی برتھا کو سمجھا بجھا کر واپس اپنے گھر بھیج دیا۔ اس لیے وہ اسی طرح بیوگی کی حالت میں ہی لوٹ گئی۔

                اس واقعے کو تین مہینے مزید گزر گئے۔ اور وہ بھی آہستہ آہستہ اس قصے کو بھولنے لگے۔ ایک دن بڑے خوشگوار موڈ میں کھانا کھا کر بیرن کورویل کے ساتھ اس کے گھر سے روانہ ہوا تو راستے میں اس بولا؛

                 "یار میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ مجھے تمہاری جاننے والی خاتون برتھا پر کس قدر افسوس ہے؟"

وہ پہلے ہی اس حوالے سے اس سے ناراض تھا۔ بُولا؛

                 "چھوڑو یار اگر کسی آدمی کے معاشقے کا کوئی ایسا راز ہو جو سماجی طور پر قابلِ اعتراض ہوتو اسے کسی اور عورت سے تعلقات بڑھانے ہی نہیں چاہیئں۔ تمہیں پہلے ہی برتھا کا ہاتھ نہیں تھامنا چاہیئے تھا۔"

                  "راز۔۔۔ کیسا راز۔۔۔ میرا کوئی راز واز نہیں جناب۔"

          "اچھا ؟ اب کوئی ایسی خطرناک وجہ تو ضرور ہے نا جس کی بنا پر تم اس سے پیچھے ہٹ گئے ہو۔"

بیرن شرم سار ہوگیا۔ اپنے منہ سے سگار نکالتے ہوئے بولا۔

              "ہاں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیا ہوا ہے۔ میں نے اس کا کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا۔"

                 "لیکن تمہیں پہلے ہی سب اونچ نیچ دیکھ کر قدم آگے بڑھانا چاہیئے تھا۔"

          بیرن نے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں ان کی باتیں کوئی اور نہ سن لے پھر افسردہ انداز میں آہستہ آہستہ بولا؛

              "مجھے معلوم ہے کہ میرے رویے سے تمہیں دکھ پہنچا ہے۔ اس لیے میں تمہیں سب کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ شاید اس طرح تم مجھے معاف کردو۔ پچھلے بیس برس سے میں نے اپنی زندگی میں شکار کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کچھ اور سوچا ہے۔ عورت کے تو قریب بھی نہیں پھٹکا۔ جب برتھا سے شادی کا معاملہ سامنے آیا تو مجھے خیال آیا کہ اب میں اس قابل ہوں بھی کہ نہیں؟ میری آخری محبوبہ کو بھی مجھ سے جدا ہوئے تقریباً سولہ برس گزر چکے ہیں۔ اس کے بعد میرا جسم آج تک کسی قسم کے لمس سے آشنا نہیں ہوا۔ تمہیں پتا ہے ہم اس علاقے میں رہتے ہیں۔ جہاں کھلے عام تو کیا چھپ کر بھی عورتوں سے میل ملاپ ممکن نہیں۔ اس لیے میں پیرس چلا گیا تھا۔ تاکہ اپنی جسمانی و جنسی حالت کے بارےمیں جان سکوں۔ کیوں کہ مجھے خوف تھا کہ شادی کے بعد اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل نہ ہوا تو کیا ہوگا؟ حدتِ شباب اور سلگتی جوانی کو رخصت ہوئے مدت گزر چکی۔۔۔۔ ہر اچھے  انسان کو یہ پہلو دیکھنا چاہیئے۔"

        پیرس پہنچ کر عورتوں سے ملاقاتیں شروع کردیں۔ ان میں سے کچھ بے حد حسین تھیں مگر کچھ نہ ہوا۔ ۔۔۔ انہوں نے مجھے گرم کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ انہوں نے ایسے ایسے طریقے آزمائے جن سے ٹھنڈے سے ٹھنڈے مردمیں  بھی بجلیاں بھر جائیں۔ کچھ بہت خوب صورت لڑکیوں نے میرے جسم کے ہر حصّے کو چاکلیٹ سمجھ کر برتا مگر میں تو، ٹھنڈا گوشت، نکلا۔ اس طرح تین ہفتے گزر گئے۔ میں نے ہر قسم کے خشک میوہ جات اور مرغن سے مرغن کھانے کھائے مگر میرے اندر حرارت نہ پیدا ہوئی۔ اس دوران سارے پیرس میں گھوما۔ ہر بار میں گیا۔ ہر بازار میں قسمت آزمائی۔ مگر 'ٹھنڈا گوشت' ٹھنڈا ہی رہا۔ اس حالت میں میں نے پیچھے ہٹ جانا ہی مناسب سمجھا۔"

            کورویل بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کررہا تھا۔ وہ بولا۔

                   "    مجھے تم سے گہری ہمدردی ہے۔ خدا حافظ۔"

                   گھر آکر اس نے خوب مزے لے لے کر اپنی بیوی کو یہ قصّہ سنایا۔ مگر وہ نہ ہنسی بلکہ گہری سنجیدگی سے اسے سننے کے بعد بولی؛

        "بیرن بیوقوف ہے، وہ دراصل خوف میں مبتلا ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے اس کے اندر حرارت پیدا نہیں ہوئی۔ میں برتھا کو بلا رہی ہوں کہ وہ جلد از جلد یہاں پہنچ جائے۔"

                 کورویل نے اسے پیرس کی خوب صورت لڑکیوں کی طرف سے کی جانے والی بے کار کوششوں کے بارے میں بتایا تو وہ بگڑ کر بُولی؛

                   "کم عقل بکواس بند کرو! جب کوئی مرد اپنے گھر میں اپنی پسند کی عورت کے ساتھ پیار محبت سے رہتا ہے تو ٹھنڈے سے 'ٹھنڈے گوشت' میں بھی حرارت آجاتی ہے۔"

                     کورویل اسے حیرانی سے دیکھتا رہ گیا۔

                  سلسلے گرمیء جاں کے جتنے بھی تھے

                    خوف کے خنجرِ سر د سے کٹ گئے    

 

(انگریزی سے اردو ترجمہ)

 

English Title: Rust

 Written by:

Guy de Maupassant (5 August 1850 – 6 July 1893) was a French writer, remembered as a master of the short story form, and as a representative of the naturalist school of writers, who depicted human lives and destinies and social forces in disillusioned and often pessimistic terms.

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق