افسانہ نمبر 692 : تاریکی میں ملاقات , تحریر : گوگی وا تھیانگو (کینیا), اردو ترجمہ: جاوید بسام (کراچی)

 

افسانہ نمبر 692 : تاریکی میں ملاقات

 تحریر : گوگی وا تھیانگو (کینیا)

اردو ترجمہ: جاوید بسام (کراچی)

 


وہ دہلیز پر کھڑا تھا کہ اس نے اپنے بوڑھے، کمزور، لیکن ہر دم مستعد باپ کو آتے دیکھا۔ وہ گلی میں ایک میلا سوتی کپڑے کا تھیلا جھلاتے ہوئے جھونپڑی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ تھیلا وہ ہر جگہ اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ جان کو معلوم تھا کہ اس میں کیا ہوگا۔ مقدس بائبل، ایک حمد کی کتاب، شاید ایک نوٹ بک اور ایک قلم۔ اس کے والد ایک مبلغ تھے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ انہوں نے بیوی کو کہانیاں سنانے سے منع کردیا تھا۔ یہ بہت سال پہلے کی بات ہے۔ ماں نے کہا: ”اب مجھ سے کہانی کی فرمائش مت کرنا، ورنہ تمہارے والد ناراض ہوں گے۔“ وہ اس سے بہت ڈرتی تھی۔

 

جان، جھونپڑی میں داخل ہوا اور ماں کو خبردار کیا کہ بابا آرہے ہیں۔ جب وہ اندر آیا تو جان خاموشی سے ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ پہلے دہلیز پر ہچکچاتا رہا پھر باہر چلا گیا۔

 

جان!... اے جان!“

جی بابا؟

یہاں آؤ!“

وہ پلٹا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ اس میں وسوسے پیدا ہو رہے تھے کہ کیا راز فاش ہوگیا ہے؟

بیٹھ جاؤ۔ تم کہاں جا رہے ہو؟

سیر کرنے بابا۔“ جان نے گول مول جواب دیا۔

گاؤں میں؟

جی، یوں ہی ... کسی خاص جگہ نہیں۔

 

جان نے محسوس کیا کہ وہ اسے غور سے دیکھ رہے ہیں، جیسے اس کا چہرہ پڑھ رہے ہوں۔ جان نے رسان سے آہ بھری۔ اسے اپنے باپ کا اس طرح دیکھنے کا انداز پسند نہیں آیا۔ وہ ہمیشہ اسے اسی طرح دیکھتا تھا، جیسے جان ایک ”گناہ گار“ ہو جس پر ہر وقت نگاہ رکھنی ضروری ہو۔

ہاں میں ہوں۔“ اس کے دل نے کہا۔ پھر اس نے شرمساری سے باپ سے نظریں چراتے ہوئے ماں کی طرف دیکھا، لیکن وہ اطمینان سے آلو چھیل رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ اسے آس پاس کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔

تم مجھ سے نظریں کیوں نہیں ملاتے؟ کیا تم نے کوئی غلط کام کیا ہے؟“باپ نے پوچھا۔

جان خوف سے کانپ اٹھا، لیکن اس کا چہرہ پرسکون رہا۔ وہ اپنے دل کی تیز دھڑکنوں کو سن رہا تھا جو پانی پمپ کرنے والے انجن کی طرح حرکت میں تھا۔ اسے شک گزرا کہ باپ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ کیوں مجھے اذیت دے رہے ہیں؟ وہ کیوں نہیں بتاتے کہ انہیں معلوم ہوگیا ہے؟ کسی آواز نے سرگوشی کی۔ نہیں، وہ نہیں جانتے، ورنہ وہ پہلے ہی میری تزلیل کر چکے ہوتے۔ جان کو کچھ تسلی ہوئی۔ وہ بہادری سے باپ کا مقابلہ کررہا تھا جو اس پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔

 

تم کب جا رہے ہو؟“ انہوں نے پوچھا۔

 

یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ جان نے سوچا۔

اگلے ہفتے، منگل کو۔“ اس نے جواب دیا۔

 

اچھا! کل ہم سفر کے لیے درکار چیزیں خرید لیں گے… کیا تم سن رہے ہو؟

 

جی بابا۔

 

تیار رہنا۔

جی بابا۔

اب تم جا سکتے ہو۔

شکریہ بابا۔“ وہ دروازے کی طرف بڑھا۔

جان !“

جی؟“ اس کے دل کی دھڑکن سینے میں رک سی گئی۔

 

لگتا ہے تم جلدی میں ہو... میں نہیں چاہتا کہ تم گاؤں میں گھومتے پھرو ... میں نے سنا ہے کہ تمھارے دوست رخصتی کا جشن منانا چاہتے ہیں؟ میں گاؤں میں کسی قسم کا شور شرابہ نہیں چاہتا، سمجھے۔

 

سوزانا، باپ بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو توجہ سے سن رہی تھی۔ اس نے بوڑھے ضدی آدمی پر ایک نظر ڈالی جو مدتوں کا ساتھی تھا۔ ان کی شادی بہت عرصے پہلے ہوئی تھی۔ اب اتنے سال گزر گئے تھے کہ اسے گنتی بھی یاد نہیں تھی۔ وہ خوش تھے، پھر اس کے شوہر نے عیسائیت قبول کرلی اور گھر کی ہر چیز پر مذہب کی مہر لگ گئی۔ یہاں تک کہ اس نے بیٹے کو پریوں کی کہانیاں سنانے سے بھی منع کردیا۔ ”اسے مسیح کے بارے میں بتاؤ، مسیح نے ہمارے لیے دکھ جھیلے ہیں۔ ہمارے بیٹے کو خدا کے بارے میں جاننا چاہیے۔“ اس نے بھی عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ باپ، اس کو کس طرح اخلاقی اذیت کا نشانہ بنا رہا ہے۔

جان اپنے باپ کے زیر سایہ دائمی خوف میں پلا بڑھا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ اُس کی بیٹے سے محبت تھی، یا وہ اس حقیقت کو دل سے نکال رہا تھا کہ دونوں نے شادی سے پہلے گناہ کیا تھا اور جان گناہ کا پھل تھا؟ لیکن وہ اس کے لیے قصور وار نہیں تھا۔ اگر کسی کو ناراض ہونے کا حق تھا، تو وہ جان تھا۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ کیا اس کو شک ہے… لیکن نہیں۔ جب وہ فورٹ ہال سے نکلے تو وہ بہت چھوٹا تھا۔ اس نے پھر اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ وہ خاموش تھا اور اپنا بایاں ہاتھ جھلاہٹ میں گال پر پھیر رہا تھا۔

سوزانا نے پوچھا۔ ”تم ہر وقت اسے کیوں ستاتے رہتے ہو؟ گویا وہ تمہارا بیٹا نہیں ہے۔ یا تم... “

اوہ سسٹر …“اس کی آواز میں التجا تھی۔ وہ جھگڑا کرنا چاہ رہی تھی، لیکن وہ جھگڑنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ عورت کے لیے کچھ سمجھنا واقعی مشکل ہوتا ہے۔ ایک عورت ہمیشہ عورت ہی رہتی ہے، خواہ وہ شیطان کی چالوں سے بچ جائے۔ ان کے بیٹے کو امان چاہیے۔ اسے خدا کے سائے میں پروان چڑھنا چاہیے۔ اس نے جھک کر بیوی کی طرف دیکھا۔ یہ وہی تھی جس نے اسے گناہ کرنے پر مجبور کیا تھا، لیکن یہ بہت پرانی بات تھی۔ اب اس کی روح محفوظ تھی اور جان کو گناہ کے راستے پر نہیں چلنا چاہیے تھا۔

 

ہمیں حکم دو۔ ہم چلے جائیں گے۔ تم جانتے ہو کہ میں ہمیشہ فورٹ ہال واپس جانے کے لیے تیار رہتی ہوں۔

سسٹر.... “ اس نے جلدی سے مداخلت کی۔ وہ اسے ہمیشہ سسٹر کہتا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں دعا کی۔ خداوند، ہماری سسٹر سوزانا کے ساتھ رہیے۔

سسٹر! میں چاہتا ہوں کہ ہمارا بیٹا ایمان کے سائے میں بڑا ہو۔“ اس نے تیز آواز میں کہا۔

لیکن تم اسے تنگ کیوں کرتے ہو؟ تم نے اسے ہمیشہ خوفزدہ رکھا ہے۔

کیوں؟ مجھ سے ڈرنے کی اس کے پاس کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں اسے نقصان پہنچانا نہیں چاہتا۔

اسٹینلے! تم چاہتے ہو، تم… تم… نے ہمیشہ اس کے ساتھ ظلم کیا ہے…“ وہ اپنی کرسی سے اچانک اٹھی تو آلو کے چھلکے قمیض سے گرے اور فرش پر بکھر گئے۔

 

اس کی آواز کی شدت سے وہ چونک گیا۔ اس نے پہلے کبھی اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ خُداوند، شیطان کو اُس سے دور کر۔ اسے بچائیں۔ اس نے دل میں دعا کی اور نظریں چرالیں۔ یہ حیرت کی بات تھی، لیکن ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے ڈرتا ہے۔ اگر گاؤں کے لوگوں کو یہ بات پتا چلتی تو وہ یقین نہ کرتے۔ آخر اس نے بائبل اٹھالی۔ اتوار کو اسے تبلیغ کرنی تھی۔

 

سوزانا ایک لمبی دبلی پتلی عورت تھی جس کے چہرے پر سابقہ خوبصورتی کے آثار ابھی باقی تھے، وہ بیٹھ گئی اور دوبارہ آلو اٹھائے۔ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اسے کس بات کی فکر ہے۔ کیا یہ درپیش سفر کی گھبراہٹ تھی؟ بہرحال وہ اس کے لیے پریشان تھی۔ 

 

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دریں اثنا جان گھر کی طرف جانے والے راستے پر بے مقصد گھوم رہا تھا۔ پھر وہ ایک بڑے ببول کے درخت کے پاس رکا۔ جہاں سے پورا گاؤں دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے سامنے گھاس اور مٹی سے بنی قطار در قطار جھونپڑیاں تھیں جن کی چھتوں سے نکلی چمنیاں جنت کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ جھونپڑیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت سی عورتیں کھیتوں سے واپس آچکی ہیں۔

 

مغرب میں سورج دھندلی پہاڑیوں کے پیچھے تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ جان نے دور نظر دوڑائی۔ جہاں جھونپڑیوں کی گنجان قطاریں میکنو گاؤں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ وہ ماؤ ماؤ بغاوت کے دوران پورے ملک میں پروان چڑھنے والے نئے مشروم قصبوں میں سے ایک تھا اور بہت بدنما لگ رہا تھا۔

 

اس کے دل میں درد کی ایک لہر سی اٹھی۔ وہ بے ساختہ پکارنے والا تھا۔ میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔ تم نے مجھے پھنسا دیا ہے۔ میں تم سے دور ہو جاؤں گا۔ اگر تم نہ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا، لیکن اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

 

ایک عورت گاؤں کی طرف جانے والے راستے پر آتی نظر آئی۔ اس نے کمر پر کونی (مقامی جھاڑی) کا ایک گٹّھا اٹھایا ہوا تھا۔ جس کے وزن سے اس کی کمر کمان کی طرح مڑ گئی تھی۔ جان نے اسے سلام کیا۔

 

جونی تم کیسے ہو؟

مدر میں ٹھیک ہوں۔“ اس نے سکون سے جواب دیا، اس کی آواز میں تلخی کا کوئی تاثر نہیں تھا۔

 

جان خوش اخلاق لڑکا تھا۔ یہ بات سب کو معلوم تھی۔ وہ قبیلے کے دوسرے پڑھے لکھے اور مغرور لڑکوں کی طرح نہیں تھا جو انگریزی بولنے والی سفید اور سیاہ فام بیویوں کے ساتھ بیرون ملک سے واپس آئے تھے۔ وہ یورپیوں کی طرح برتاؤ کرتے تھے، لیکن جان ایک ہردل عزیز نوجوان اور عاجزی اور حسن اخلاق کا کامل نمونہ تھا۔ سب اس سے پیار کرتے اور جانتے تھے کہ وہ ایک پادری کا بیٹا ہے۔ وہ اپنے قبیلے سے کبھی غداری نہیں کرے گا۔

تم کب جا رہے ہو؟“عورت نے پوچھا۔

اگلے ہفتے۔

"کہاں؟

 ماکریرے۔

 میکیلیے... “ وہ ہنس پڑی۔ اس نے مضحکہ خیز انداز میں یہ لفظ بولا تھا۔ وہ اس سے لطف اندوز ہوئی، لیکن جان کو تکلیف ہوئی کہ سب کو اس بات کا علم ہے۔

تمہاری کامیابی کے لیے نیک تمنائیں۔

 مدر آپ کا شکریہ۔

 

اس نے ایک بار پھر اس عجیب نام کا تلفظ ادا کرنے کی کوشش کی، "میکیلیے" پھر مسکرائی۔ وہ بھاری بوجھ سے تھک چکی تھی۔ آخر کسی گدھے کی طرح ہانپتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ جان کی خوش خلقی سے وہ خوش نظر آرہی تھی۔

 

جان خاصی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا ایسی عورت کو کس چیز نے زندہ رکھا ہے، دن رات سخت محنت کرنا، پھر بھی خوش رہنا؟ کیا اسے زندگی پر بہت یقین ہے؟ یا قبیلے پر اس کا ایمان ہے؟ وہ سفید فاموں کے طریقوں سے متاثر نہیں ہوئی، گویا زندگی سے جڑے رہنے کے لیے اس کے پاس کوئی نادر چیز موجود ہے۔

 

 جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی تو اسے فخر محسوس ہوا کہ لوگ اس کی عزت کرتے اور اس کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہیں۔ حالاں کہ... جلد ہی باپ کو بلکہ سب کو پتہ چل جائے گا۔ وہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اسے زیادہ خوف کس کا تھا۔ باپ کے غصے کا یا گاؤں کے سادہ لوح لوگوں کا کہ ان کا اعتماد مجروح ہوگا۔ اسے سب کچھ برباد ہونے کا ڈر تھا۔

جان مقامی چائے خانے پر پہنچا تو بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ جنہوں نے اس کی روانگی پر نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ان کو معلوم تھا کہ پادری کے بیٹے نے کینیا میں سفید فاموں کی تعلیم مکمل کرلی ہے اور اب یوگنڈا میں پڑھنے جا رہا ہے۔ یہ سواحلی ہفت روزہ بارزا میں چھپا تھا۔ وہ چائے خانے پر زیادہ دیر نہیں رکا۔

 

سورج غروب ہوچکا تھا اور اندھیرا چھا رہا تھا۔ رات کا کھانا میز پر لگا دیا گیا تھا۔ سخت گیر باپ بائبل پڑھ رہا تھا۔ جان کے اندر آنے پر اس نے توجہ نہیں دی۔ گھر میں عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔

 

جونی تم کیوں اداس ہو؟“آخر ماں نے خاموشی توڑی۔

 

کچھ نہیں ماں۔“ جان ایک دھیمی گھبراہٹ آمیز ہنسی ہنس کر بولا۔ پھر اس نے خوفزدہ نظروں سے باپ کی طرف دیکھا۔ اسے امید تھی کہ واموہو نے ابھی تک پردہ فاش نہیں کیا ہوگا۔

 

اس نے کھانا کھایا اور مردانہ جھونپڑی میں چلا گیا۔ وہاں ہر نوجوان کی اپنی جھونپڑی تھی۔ جان کو لڑکیوں کو ساتھ لانے کی اجازت نہیں تھی۔ حتاکہ لڑکی کے قریب کھڑا ہونا بھی نامناسب سمجھا جاتا تھا۔ وہ باپ کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ آسانی سے اسے مار سکتا تھا۔ جان کو اس کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے تھی، جیسا کہ دوسرے پڑھے لکھے لڑکوں نے کی تھی۔ اس نے لالٹین جلائی تو محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ لالٹین کی زرد روشنی دھیرے دھیرے ٹمٹما رہی تھی۔ اس نے عجلت میں اپنی چادر اور کوفیا (ٹوپی) اٹھائی جو پلنگ پر پڑی تھی اور لالٹین جلتی چھوڑ دی، تاکہ باپ کو شک نہ ہو۔ پھر غصے سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹا۔ وہ کتنا بزدل ہے، جب کہ اس کے ساتھی بہادر ہیں۔

 

وہ ایک خاموش سائے کی طرح صحن عبور کر کے گلی میں نکل آیا۔ جہاں ادھر ادھر لڑکے لڑکیاں گپ شپ اور سرگوشیاں کررہے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے۔ وہ مجھ سے زیادہ آزاد ہیں۔ اس نے سوچا۔

 

وہ ان کی خوشیوں پر رشک کرتا تھا۔ وہ واضح طور پر اس ضابطہ اخلاق سے باہر تھے جس کے ذریعے تعلیم یافتہ افراد کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ کیا وہ خوشی سے ان کے ساتھ جگہ بدل لیتا؟ وہ دیر تک سوچتا رہا۔ آخر گاؤں کے درمیان ایک جھونپڑی کے پاس پہنچا اور سوچنے لگا کہ کیا کرنا چاہیے۔ باہر انتظار کرے؟ اگر اس کی ماں آگئی؟ آخر اس نے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔

 

اندر آجاؤ، ہم گھر پر ہیں۔“آہٹ سن کر کوئی بولا۔

 

جان نے ٹوپی سر سے اتار لی۔ وہ سب وہاں موجود تھے، سوائے اس کے جس کو وہ تلاش کر رہا تھا۔ چولہے میں آگ بجھ چکی تھی۔ بس لالٹین کا مدہم شعلہ، جھونپڑی کو روشن کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ دیوار پر اس کا دیو ہیکل سایہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔

 

اس نے آواز بدل کر واموہو کے والدین کو سلام کیا۔ وہ دعا کر رہا تھا کہ وہ اسے نہ پہچانیں، لیکن انہوں نے پہچان لیا اور وہاں ہلچل مچ گئی۔ اس کی آمد ان کے لیے ایک انوکھی بات تھی۔ ایک پڑھا لکھا لڑکا جو گوروں کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اور اس سے بڑھ کر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ملک جا رہا تھا... کچھ بھی ممکن ہے۔ کیا ہوگا اگر وہ ان کی واموہو کو پسند کرلے؟ اگرچہ وہ ان پڑھ تھی، لیکن بدصورت نہیں تھی۔ اس کی دلکشی اور مسکراہٹ کسی بھی نوجوان کا دل موہ لے سکتی تھی۔

 

اسٹول لو، بیٹھ جاؤ۔“ عورت بولی۔

نہیں۔“ اس نے جواب دیا اور تلخی کے ساتھ محسوس کیا کہ اس نے لفظ ”مدر“ کا اضافہ نہیں کیا۔

واموہو کہاں ہے؟“اس نے پوچھا۔

عورت نے ایک فاتحانہ نظر اپنے شوہر پر ڈالی۔ اس نے جواب میں سمجھ داری سے سر ہلایا۔ جان نے مایوسی سے ہونٹ کاٹے، وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔

وہ پتی لینے گئی ہے۔ ازراہ کرم بیٹھ جاؤ۔ وہ ابھی آئے گی اور ہم ساتھ چائے پیے گے۔

 

’’مجھے ڈر لگتا ہے…‘‘ وہ بے ساختہ بڑبڑایا اور کچھ ناقابل سماعت الفاظ بولتے ہوئے پلٹا۔ جوں ہی وہ باہر نکلا واموہو سے تقریباً ٹکرا گیا جو واپس آرہی تھی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔

 

جلد ہی جھونپڑی میں جوش خروش سے گفتگو ہونے لگی۔”کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ عورت کی آنکھ پر بھروسہ کرو۔“ماں بولی۔

 

تم ان نوجوانوں کو نہیں جانتی۔“باپ نے کہا۔

لیکن جان ایسا نہیں ہے۔ وہ سب کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ وہ ایک پادری کا بیٹا ہے۔

تم بھول گئیں کہ ہماری بیٹی کا ختنہ ہوا تھا۔

بوڑھے نے کہا اور اسے اپنی جوانی یاد آگئی۔ وہ خیالوں میں گم ہوگیا۔ اس نے اپنے لیے ایک نیک لڑکی تلاش کرلی تھی، جو کسی دوسرے مرد کو نہیں جانتی تھی۔ اس نے شادی کی اور وہ خوش تھے۔ ریکا قبیلے کے دوسرے مردوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ تمام لڑکیاں کنواری تھیں، کسی لڑکی کو ہاتھ لگانا بھی ممنوع تھا۔ یہاں تک کہ آپ غلطی سے ایک بستر پر بھی نہیں سو سکتے تھے۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے۔ پھر گورے اپنا اجنبی مذہب اور طرز زندگی لے کر آئے، جس کی تقلید قبیلے کے لوگ بھی کرنے لگے۔ پرانا طرز زندگی ختم ہوا اور نئے عقیدے نے قبیلے کو بکھیر دیا۔ اس نئے عقیدے کی پیروی کرنے والے مردوں نے اپنی بیٹیوں کی ختنہ کرنے کی اجازت نہیں دی، نہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو ان لڑکیوں سے شادی کرنے کی اجازت دی جن کے ساتھ یہ رسم ادا کی گئی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوان سفید فاموں کے ملک کا سفر کرنے لگے۔ وہاں سے وہ سفید فام عورتوں کو یا ماڈرن سیاہ فام عورتوں کو ساتھ لاتے، جو انگریزی بولتی تھیں۔ یہ امر کتنا نفرت انگیز تھا، باقی نوجوان جو رہ گئے۔ انہوں نے کنواری لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسایا، پھر انہیں بچوں کے ساتھ چھوڑ گئے۔

 

تو پھر؟“ بیوی نے اعتراض کیا۔” کیا ہماری واموہو گاؤں کی تمام لڑکیوں سے بہتر نہیں ہے؟ اور جان دوسروں کی طرح ہے؟

ایسا نہیں، وہ سب ایک جیسے ہیں اور سب سے بدتر وہ ہیں جو سفید فاموں کے رسم و رواج کی سفید مٹی سے داغے ہوئے ہیں۔ ان میں کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں۔

بوڑھے باپ نے لکڑی اٹھائی اور چولہے میں بجھتی ہوئی آگ کو کریدنے لگا۔ ایک عجیب بے حسی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ ہیجان سے کانپ رہا تھا اور قبیلے کے لیے خوفزدہ تھا۔ کیوں کہ وہ دیکھ رہا تھا کہ کس طرح غیر ملکی رسم و رواج صرف پڑھے لکھے لوگوں کی زندگیوں میں نہیں بلکہ پورے قبیلے کی زندگیوں میں داخل ہوچکے ہیں۔ بوڑھا لرز رہا تھا، ذہنی طور پر اپنے لوگوں کا ماتم کر رہا تھا، جو تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے۔ ان کا نہ کوئی ماضی تھا اور نہ مستقبل۔ پھر اس نے آگ بھڑکانی بند کردی اور فرش کی طرف دیکھنے لگا۔

جان کیوں آیا تھا؟ کیا خیال ہے؟ کیا تم نے بیٹی کے رویے میں کوئی عجیب بات دیکھی ہے؟“ اس نے پوچھا۔

بیوی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ امید افزاء سوچوں میں گم تھی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جان اور واموہو خاموشی سے ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں چل رہے تھے۔ وہ گلیاں اور موڑ ان کے لیے مانوس تھے۔ واموہو کے قدم تیز تھے۔ وہ خوش تھی۔ جبکہ جان بھاری قدموں سے چل رہا تھا۔ وہ لوگوں کا سامنا کرنے سے کترا رہے تھے۔ حالانکہ وہاں پہلے ہی کافی اندھیرا تھا اور سڑک پر شاذ و نادر ہی کوئی دکھائی دیتا تھا، لیکن وہ شرمندہ کیوں ہوں؟ واموہو خوبصورت تھی، شاید پورے لیمورو کی سب سے خوبصورت لڑکی۔ وہ اس کے ساتھ نظر آنے سے ڈر رہا تھا۔ اسے احساس نہیں تھا کہ اس کا رویہ واموہو سے بدل گیا ہے۔ پہلے وہ اس سے پیار کرتا تھا، لیکن اب اسے یقین نہیں تھا۔ بہرکیف اس کا کوئی بھی دوست ایسی لڑکی پر فخر کرتا۔

 

گاؤں کی آخری جھونپڑی سے گزرتے ہوئے جان رک گیا۔ واموہو بھی رک گئی۔ ان دونوں نے اس دوران ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا تھا۔ غالباً اس لیے کہ خاموشی الفاظ سے زیادہ فصیح تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔

کیا انہیں معلوم ہوگیا؟“جان نے پوچھا

 واموہو خاموش رہی، شاید اس کے سوال کے بارے میں غور کررہی تھی۔

جلدی بتاؤ۔ پلیز جواب دو۔“ جان نے التجا کی۔ اسے تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی، ایک بوڑھے آدمی کی تھکاوٹ جو اچانک اپنے سفر کے اختتام کو پہنچ گیا ہو۔

وہ نہیں جانتے۔ تم نے مزید ایک ہفتہ دینے کو کہا تھا۔ آج آخری دن ہے۔“اس نے جواب دیا۔

 

ہاں، میں اسی لیے آیا ہوں۔“ جان نے سرگوشی کی اور اس کی طرف دیکھا، لیکن وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔ ان کے درمیان اندھیرا تھا۔ اس نے تصور میں اپنے والد کو دیکھا جو مذہبی جنونیت میں ظالم اور مغرور تھا۔

 اس نے سوچا۔ میں ایک پادری کا بیٹا ہوں، سب میری عزت کرتے ہیں، مجھے کالج جانا چاہیے، لیکن سب کچھ برباد ہو رہا ہے؟ اس کی خواہش تھی کہ سب پہلے جیسا ہو جائے۔

یہ تمھاری غلطی ہے۔“ آخر اس نے الزام لگایا۔ حالاں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ غلط تھا۔

تم مجھے یہ کیوں کہتے رہتے ہو؟ کیا تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے؟“ واموہو نے پوچھا۔

جان نے آہ بھری۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کرے۔

اسے وہ کہانی یاد آئی جو اس کی ماں اسے بچپن میں سناتی تھی ... بہت عرصہ پہلے ایک لڑکی کہیں رہتی تھی۔ ان کا گھر ایک پہاڑ کے پیچھے تھا۔ ایک دن وہاں ایک اجنبی آیا۔ وہ لمبا، خوبصورت اور دودھیا سفید دانتوں والا آدمی تھا۔ ماں نے اجنبی کو کھانا دیا۔ اس نے انہیں پہاڑی کے پیچھے ایک خوبصورت سرزمین کے بارے میں بتایا۔ لڑکی اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ چپکے سے اجنبی کے ساتھ بھاگ گئی۔ لیکن راستے میں اجنبی اریمو میں بدل گیا، ایک بدصورت شیطان جس کی پیٹھ پر لمبے بالوں میں دوسرا منہ بھی چھپا تھا۔ لڑکی خوفزدہ ہو کر واپس گھر کی طرف بھاگی۔ اریمو نے اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ جب وہ پہاڑ پر پہنچی تو دیکھا کہ گھر غائب ہے۔ وہ بیچاری اب کہاں جاتی۔ وہ خوبصورت سرزمین پر بھی نہیں جاسکی تھی۔ کیوں کہ اریمو اس راستے پر موجود تھا۔

 

تم انہیں کب بتاؤ گے؟“لڑکی نے پوچھا۔

آج رات۔“ وہ یاسیت کا شکار تھا۔ اسے اگلے ہفتے میکریرے کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اگر وہ اسے انتظار پر آمادہ کر لے تو ممکن ہے کہ جب واپس آئے تو تمام پریشانیاں ختم ہوچکی ہوں۔ بصورت دیگر حکومت اس کا وظیفہ منسوخ  کر دیتی۔ وہ خوفزدہ تھا۔ اس کی آواز میں التجا بھری ہوئی تھی۔ ”سنو واموہو، تم کتنے عرصے سے ہو؟... میرا مطلب ہے، اس طرح؟

 

میں نے تمہیں بارہا بتایا ہے کہ میں تین ماہ سے حاملہ ہوں۔ کل ماں کو مجھ پر کچھ شک گزرا ہے۔اس نے کہا کہ میں اس عورت کی طرح سانس لے رہی ہوں جس کے پیٹ میں بچہ ہو۔

 

تم مزید تین ہفتے انتظار کرسکتی ہو؟

وہ زور سے ہنسی۔”اوہ شیطان!“ وہ اس کی چال سمجھتی تھی۔ اس کی ہنسی ہمیشہ جان میں خوش کن جذبات کو جنم دیتی تھی۔

اچھا کم از کم کل تک انتظار کرو۔ میں کچھ سوچتا ہوں۔

ٹھیک ہے، لیکن میں مزید انتظار نہیں کر سکتی، کیا تم مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتے؟

 

اس نے شادی کیوں نہیں کی؟ وہ اتنی خوبصورت ہے، لیکن کیا میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں؟ جان سوچ رہا تھا۔

 

واموہو چلی گئی۔ جان کو لگا جیسے وہ جان بوجھ کر اسے بلیک میل کر رہی ہے۔ اس کے گھٹنے کانپنے اور طاقت کھونے لگے۔ وہ جگہ سے ہل بھی نہ سکا اور یوں لگا کہ زمین میں دھنس گیا ہو۔ اس کے گالوں پر پسینہ بہہ رہا تھا، جیسے وہ چلچلاتی دھوپ میں کافی دیر سے بھاگ رہا ہو، لیکن یہ ٹھنڈا پسینہ تھا۔ وہ گھاس پر لیٹ گیا۔ وہ کسی چیز کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا، لیکن یہ سوچ کر مسلسل تڑپ رہا تھا کہ وہ اپنے والد، اپنی ماں، ریورنڈ تھامس کارسٹن سے کیسے نظریں ملائے گا؟ جو اس پر اتنا اعتماد کرتے ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ ہر کسی کی طرح وہ بھی اپنی تمام تر تعلیم کے باوجود بے بس ہے۔ واموہو کے لیے بھی یہ مشکل وقت تھا۔

 

کیا اسے شادی کرنی چاہیے؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کرے۔ اس کی پرورش ایک کیلونسٹ والد نے کی تھی اور اس کے اسکول کا ہیڈ ماسٹر بھی کیلونسٹ مشنری تھا۔ جان نے دعا کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کس سے دعا مانگ رہا تھا؟ کارسٹن کے خدا سے؟ یہ جھوٹ لگ رہا تھا۔ گویا وہ توہین رسالت کر رہا تھا۔ کیا وہ قبیلے کے دیوتا سے دعا کر سکتا تھا؟ اسے گناہ اور جرم کے احساس نے کچل دیا۔

 

کچھ دیر بعد جان اپنی سوچوں سے چونک اٹھا۔ وہ کہاں تھا؟ واموہو چلی گئی تھی۔ اس نے جان کو ایک دن کی مہلت دی تھی۔ وہ اٹھا اور بے دلی سے گھر کی طرف چل دیا۔ اچھا ہوا کہ اندھیرے نے پوری زمین اور اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا  تھا۔ اسے مختلف جھونپڑیوں سے بلند قہقہے، گرما گرم گفتگو اور جھگڑوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور کھلے دروازوں میں چراغوں کے نارنجی شعلے ٹمٹما رہے تھے۔ "گاؤں کے ستارے" اس نے سوچا۔ پھر نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں۔"خدا کے ستارے" ٹھنڈے اور بہت دور۔ وہ اس کی طرف بے توجہی سے دیکھ رہے تھے۔ اسے ادھر ادھر لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹولیاں ملیں، وہ چہلیں کر رہے تھے۔ زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ جان نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ ان پر بھی حساب کی گھڑی آئے گی۔

 

جان لڑکھڑا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں تمام توقعات اور مستقبل کے تمام امکانات کو ٹھکرا کر لڑکی سے شادی کیوں نہ کر سکا؟ نہیں، نہیں، یہ ناممکن تھا۔ اس کا ختنہ کیا گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس کے والد اور چرچ ایسی شادی پر کبھی رضامند نہیں ہوں گے۔ وہ ان پڑھ تھی، بمشکل چوتھی جماعت سے فارغ ہوئی تھی۔ اگر اس نے واموہو سے شادی کی تو وہ یونیورسٹی جانے کے اپنے خواب کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دے گا۔

اس نے تیز چلنے کی کوشش کی۔ اس کی طاقت لوٹ رہی تھی۔ اس نے خیالوں میں الزام لگانے والوں کے سامنے اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وہ کیا کرسکتا ہے؟ لڑکی نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ وہ حسین تھی اور اس کی مسکراہٹ بہت سحر انگیز تھی۔ گاؤں میں اس جیسی کوئی لڑکی نہیں تھی اور گاؤں میں کسی لڑکی کے پاس تعلیم کے اعلیٰ معیار کا کوئی دکھاوا نہیں تھا۔ وہاں لڑکیوں کی تعلیم کا رحجان نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بہت سارے افریقی باہر چلے گئے اور شادی کر کے واپس آئے۔ اس کی بھی خواہش تھی۔ وہ بھی دور دراز کے ملک، خاص طور پر امریکہ جانا چاہتا ہے، جہاں بہت سے طلباء جاتے تھے، کاش واموہو تعلیم یافتہ ہوتی… اور اگر اس کا ختنہ نہ ہوا ہوتا۔ تب وہ شاید بغاوت کر سکتا۔

 

ماں کی جھونپڑی میں ابھی تک روشنی ہو رہی تھی۔ کیا وہ اندر جا کر رات کی نماز  پڑھے؟ نہیں، اسے اپنے والدین کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس کی جھونپڑی میں اندھیرا تھا، لیکن اسے امید تھی کہ والد نے اس کی غیر موجودگی کو محسوس نہیں کیا ہوگا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جان نے سوتے میں ایک خواب دیکھا اور ڈر کر اٹھ گیا۔ اگرچہ وہ توہم پرست نہیں تھا، لیکن اسے برے خواب پسند نہیں تھے۔ اس نے ختنہ کا خواب دیکھا تھا۔ اس کی ابتداء قبائلی انداز میں ہوئی تھی۔ کوئی اجنبی آیا جسے وہ نہیں پہچانتا تھا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ ایک انجان جگہ پر پہنچے۔ جہاں اس نے خود کو اکیلا پایا، نامعلوم شخص غائب ہوچکا تھا۔ پھر ایک بھوت نمودار ہوا۔ جان نے اسے پہچان لیا۔ وہ اس گھر کا بھوت تھا جسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ بھوت نے اسے پکڑ لیا اور کھینچنے لگا۔ پھر ایک اور بھوت نمودار ہوا۔ یہ اس زمین کا بھوت تھا جس میں وہ آیا تھا۔ اس نے بھی جان کو پکڑ لیا۔ دونوں اسے مختلف سمتوں میں کھینچ رہے تھے۔ پھر ادھر ادھر سے مزید بھوت نمودار ہوئے اور اسے کھینچنے لگے۔ بھوت غیر مرئی تھے۔ وہ ان سے خود کو چھڑا نہیں سکتا تھا، اچانک اس نے خود کو دوسری جگہ دیکھا۔ اسے ایک لڑکی نظر آئی۔ پریوں کی کہانی کی لڑکی۔ اسے خیال آیا کہ اس کی مدد کرنی چاہیے۔ وہ اسے راستہ دکھائے گا، لیکن جب وہ قریب گیا تو وہ غائب ہوگئی۔ وہ پھر اکیلا رہ گیا، کوئی خوفناک چیز اس کے قریب آرہی تھی۔ وہ سو کر اٹھا تو ٹھنڈے پسینے میں نہایا ہوا تھا۔

 

اس کا خواب ایک برا شگون تھا۔ وہ موت کی پیشین گوئی کرتا تھا۔ جان ہنسا۔ تم خوابوں پر کیسے یقین کر سکتے ہو؟ اس نے کھڑکی کھولی۔ وہ جولائی کی ایک شاندار صبح تھی۔ آس پاس کی ہر چیز دھند میں ڈوبی ہوئی تھی۔ گاؤں کے قریب کی پہاڑیاں، پہاڑی سلسلے، وادیاں اور پہاڑی میدان دھند میں کھو گئے تھے۔ سب کچھ غیر معمولی لگ رہا تھا۔ یہ لیمورو کی سحر انگیز دلکشی تھی۔ تضادات کی سرزمین جو بعض اوقات انتہائی متضاد احساس بیدار کرتی تھی۔ جان پر کبھی اس کی آبائی سرزمین کا سحر طاری ہوجاتا۔ وہ اسے چھونا، گلے لگانا، گھاس پر لیٹنا چاہتا۔ بعض اوقات اسے لیمورو کی دھول، تپتی دھوپ اور کچی سڑکیں پسند نہیں آتی تھیں، لیکن پھر بھی آپ گرمی، بارش، دھول اور دھند کے عادی ہوسکتے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہاں رہنا چاہتا تھا اور مرنے کے بعد لیمورو میں ہی دفن ہونا چاہتا تھا... لیکن وہاں انسانی عنصر بھی تھا، جس کی برائیاں اور لوگوں کی خیانتیں نئے بدصورت دیہات میں مجسم ہوگئی تھی۔ اسے پھر واموہو کا خیال آیا اور وہ افسردہ ہوگیا۔

 

صبح اسے والد کے ساتھ خریداری کے لیے جانا تھا۔ وہ کمبل پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا اور گلی میں چلا گیا۔ باپ کے بارے میں سوچ کر وہ مزید پریشان ہوگیا تھا۔ ان کے تعلقات بہتر نہیں ہو رہے تھے۔ اس نے تفکرات کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ آج کی رات یوم حساب تھی۔ وہ چونک گیا۔ وہ کتنا بدقسمت تھا۔ یہ اس کے ساتھ اس وقت ہوا جب وہ میکریرے جانے والا تھا۔ اگر باپ کا خواب پورا ہو جاتا تو شاید وہ ایک دوسرے کے قریب آجاتے۔

 

وہ شاپنگ کرنے روانہ ہوگئے۔ جان سارا دن خاموشی سے اپنے والد کے پیچھے ایک دکان سے دوسری دکان تک چلتا رہا۔ جہاں انہوں نے ہندوستانیوں سے سفر کے لیے چیزیں خریدیں۔ وہ سارا دن سوچتا رہا کہ وہ اپنے باپ سے اتنا ڈرتا کیوں ہے؟ وہ اس کے خوف کے سائے میں بڑا ہوا تھا، جب اس کا باپ بولتا یا حکم دیتا تو اس پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی، صرف وہ ہی نہیں بلکہ ہر کوئی اسٹینلے سے ڈرتا تھا۔

 

اس نے بڑے جوش و خروش سے تبلیغ کی۔ وہ اپنے پیرو کاروں کو جہنم کے دروازے، سے بھی دور رکھنا چاہتا تھا۔ ہنگامی حالت کے دوران بھی وہ تبلیغ کرتا رہا، ڈانٹ ڈپٹ اور ملامت کرتا رہا کہ جو برائی سے نہیں بچا اسے جہنم میں ہلاک کرنے کی سزا دی جائے گی۔

 

علاوہ ازیں اسٹینلے کو روزمرہ کی زندگی میں ایک سخت گیر معلم اخلاق کے طور پر جانا جاتا تھا، لیکن اس کے پیرو کاروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ اگر کسی بالغ نے قواعد کو توڑا تو اسے برادری سے خارج کر دیا گیا یا دین بدر کردیا گیا۔ نوجوان مردوں اور عورتوں کو صرف قریب کھڑے ہونے کی وجہ سے خارج کیا جا سکتا تھا۔ یہ بے حیائی سمجھا جاتا تھا۔ کیوں کہ اس سے چرچ کی بدنامی ہوتی اور یہ خدا کی طرف سے تجویز کردہ اصولوں کے خلاف رویہ تھا۔ پھر بہت سے نوجوانوں نے رات کو اپنی گرل فرینڈ سے ملنا اور دن کے وقت چرچ جاکر دونوں آقاؤں کی خدمت کرنے کی کوشش کی۔ متبادل یہ تھا کہ چرچ جانا مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔

 

اسٹینلے نے گاؤں والوں سے باپ جیسا سلوک کیا۔ لہذا سب سے پہلے وہ اپنے آپ کے ساتھ سخت تھا اور یقیناً اپنے خاندان کے ساتھ بھی، وہ مطالبہ کرتا تھا کہ وہ دوسروں کے لئے ایک مثال بنیں. اس نے اپنے بیٹے سے خاص امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، لیکن یہ امیدیں اور زیادہ بنیادی سوچ کے ساتھ گھل مل گئی تھیں۔ وہ کبھی نہیں بھول سکے گا کہ اس نے شادی سے پہلے گناہ کیا تھا۔ اس نے "نئے رجحانات" کے زیر اثر اپنے قبیلے کو دھوکہ دیا تھا۔

 

انہوں نے جلدی جلدی اپنی شاپنگ ختم کی۔ باپ نے ان کے درمیان طے پانے والے خاموش معاہدے کو قائم رکھا اور پچھلی رات کی بابت ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ وہ گھر واپس آئے اور بیٹے نے سوچا کہ سب ٹھیک ہے، اچانک والد نے اسے پکارا۔”جان !“

 

جی بابا۔

تم کل رات نماز پڑھنے کیوں نہیں آئے؟

بھول گیا تھا۔

تم کہاں تھے؟

آپ مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں؟ آپ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کہاں تھا؟ کسی دن میں آپ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوں گا۔ جان نے سوچا، لیکن اس نے دفعتاً محسوس کیا کہ اس میں باغی جذبہ دم توڑ رہا ہے، یہ تب شدید ہوتا جب کچھ غیر معمولی ہوا ہو۔ باپ کے خلاف لڑنے کے لیے اسے ہمت کی ضرورت تھی جس کی اس میں کمی تھی۔

میں.. میرا مطلب ہے… “

تم کو نماز کے بغیر بستر پر نہیں جانا چاہئے۔ آج رات ضرور آنا۔

میں آؤں گا۔

 

اس کی آواز میں کسی چیز نے باپ کو دیکھنے پر مجبور کردیا، لیکن جان مطمئن تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کو ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہوا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔

 

شام اتر آئی تھی۔ جان نے کپڑے بدلے اور لڑکھڑاتے قدموں سے مقتل کی طرف روانہ ہوگیا، حساب کی گھڑی قریب آرہی تھی۔ اسے کوئی حل نہیں ملا تھا۔ جلد ہی سب کو پتہ چل جائے گا۔ یہاں تک کہ مسٹر کارسٹن کو بھی۔ اُسے ان کی دعا کے آخری الفاظ یاد آئے۔ اگرچہ وہ یاد کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ الفاظ بار بار اس کے ذہن میں چلے آتے۔ وہ ہوا میں معلق، اس کی روح کے اندھیرے میں چمکتے دکھائی دیتے تھے۔”تم دنیا میں جا رہے ہو۔ دنیا تمہیں بھوکے شیر کی طرح نگلنے کے لیے تیار ہے۔ دنیا سے ہوشیار رہو، ثابت قدم رہو، جیسا کہ یسوع نے سکھایا تھا۔“جان نے درد محسوس کیا، ایسا درد جو ان الفاظ کو یاد کرتے ہی اس کے جسم میں دوڑ جاتا تھا۔ اس نے آئندہ کے بارے میں غور کیا۔ ہاں، وہ جنت کے دروازے سے جہنم کے کھلے دروازے میں جا گرے گا۔ آہ! وہ تصور کر سکتا تھا کہ لوگ کیا کہے گے۔ سب اس کی صحبت سے گریز کریں گے، سب اس کی طرف حقارت سے دیکھے گے۔ جان کے ساتھ مصیبت یہ تھی کہ اس کے تخیل نے ”نیکی“ کی بلندیوں سے گرنے کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا، لوگوں اور نتائج کا خوف ان تمام چیزوں سے بڑھ کر تھا جس نے اسے آئندہ کے بارے میں اتنا برا سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔

 

اس نے اپنے لیے ہر طرح کی سزائیں سوچیں اور جب اس نے کوئی راستہ ڈھونے کی کوشش کی تو ذہن میں خیال آیا کہ کہیں غائب ہو جائے، کہیں بھاگ جائے۔ وہ خود کو سنبھال نہیں پارہا تھا۔ وہ اپنے باپ اور لوگوں سے ڈرتا تھا اور واموہو کے لیے، اپنے جذبات کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس سے کیا کہے گا؟ آخر وہ طے شدہ جگہ پر پہنچ گیا۔ وہ حالات سے ناامید تھا، اچانک وہ بولا: ”سنو واموہو! میں تمہیں پیسے دے دیتا ہوں ...تم کہہ سکتی ہو کہ اس کا زمہ دار کوئی اور ہے۔ بہت سی لڑکیوں نے ایسا کیا ہے... پھر تم جس سے کہو گی۔ وہ تم سے شادی کرلے گا۔ میرے لیے یہ اب ممکن نہیں۔ تم جانتی ہو...“

کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟۔۔۔۔ یہ تم کیسے کر سکتے ہو؟ تم... “

میں تم کو دو سو شلنگ دوں گا۔

نہیں۔

تین سو۔

 

نہیں!“وہ دیوانہ وار چیخ اٹھی۔ یہ اس کے لیے انتہائی دل شکن بات تھی۔

 

چار سو... پانچ سو... چھ سو!“ جان نے سکون سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کی آواز بلند ہوگئی۔ وہ ہیجان میں مبتلا تھا۔ مایوسی و نا امیدی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کہہ رہا ہے؟ وہ سانس لیے بغیر تیزی سے الفاظ بول رہا تھا۔ اعداد بجلی کی طرح ایک دوسرے کا پیچھا کرنے لگے، نو ہزار... دس... بیس... وہ پاگل ہوگیا تھا۔

 

وہ اندھیرے میں لڑکی کی طرف بڑھا اور اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر دھیمی آواز میں اس سے التجا کرنے لگا۔ اس کے باطن میں کہیں خوف پھر سر اٹھا رہا تھا، باپ کا اور ساتھی دیہاتیوں کا خوف۔ وہ واموہو کو زور زور سے ہلا رہا ہے، جبکہ اس کا دماغ اسے بتا رہا تھا کہ وہ اسے آہستگی سے تھپتھپا رہا ہے۔ ہاں وہ پاگل ہوگیا تھا۔ یہ تعداد اب پچاس ہزار شلنگ تک پہنچ چکی تھی اور مزید بڑھ رہی تھی۔ واموہو خوفزدہ تھی۔ اس نے خود کو اس سے آزاد کرایا اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ ایک مذہبی پادری کا جنونی اور پڑھا لکھا بیٹا اس کے پیچھے بھاگا اور اسے پیار بھرے الفاظ سے پکارا۔ آخر اسے پکڑ کر پوری طاقت سے جھجھوڑنا شروع کر دیا، اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرنے لگا… واموہو نے اچانک خوفناک چیخ ماری اور زمین پر گر گئی۔ یہ سب اچانک ہوا۔ جان کی مزاحمت ختم ہوگئی، وہ آندھی کی زد میں آئے درخت کے پتے کی طرح کانپنے لگا۔ پھر خوف کے عالم میں گھر کی طرف بھاگا۔ عنقریب سب کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے پیدا کیا اور پھر قتل کردیا۔

 

A Meeting in the Dark.

by Ngugi wa Thiong’o.

 

 

 

مصنف کا تعارف۔

گوگی وا تھیانگو ۔(1938-2025) ایک کینیائی ادیب اور ماہرِ تعلیم تھا، اسے مشرقی افریقا کے نمایاں ترین ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور جدید افریقی ادب کی اہم شخصیت مانا جاتا ہے۔ وہ 5 جنوری 1938 کو کینیا کے قصبے لیمورو میں پیدا ہوا۔ پیشے کے لحاظ سے معلم تھا، علاوہ ازیں اس کا کام مختلف جہات میں نظر آتا ہے۔ وہ معروف ناول نگار، افسانہ نویس، ڈراما نگار، نقاد اور مضمون نویس بھی تھا۔ اس کے قابل ذکر ناولوں میں "رونا نہیں، بچہ"، "گندم کا ایک دانہ"، "ڈیول آن دی کراس"، "مٹیگاری" اور "خون کی پنکھڑیاں" شامل ہیں۔ اس کی تحریروں کا محور استعمار اور افریقی معاشروں پر اس کے اثرات، شناخت، ثقافت، زبان، سماجی انصاف اور انسانی حقوق، افریقہ میں سیاست اور گورننس رہا ہے۔ گوگی کو متعدد بار نوبل انعام برائے ادب کے لیے ممکنہ امیدوار تصور کیا جاتا رہا۔ اس نے 28 مئی 2025 کو جارجیا، امریکہ میں وفات پائی۔

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق