افسانہ نمبر 691 : وینا ٹاٹا کی مکمل موت، تحریر : پی۔پدمراجو، اردو ترجمہ: حنظلہ خلیق (شرق پور)

 

  افسانہ نمبر 691 :  وینا ٹاٹا کی مکمل موت

 تحریر : پی۔پدمراجو (آندھرا پردیش ۔ بھارت)

اردو ترجمہ: حنظلہ خلیق (شرق پور)

 


کسی نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ہمارا وینا ٹاٹا اس طرح مر جائے گا۔ جو کچھ وہ کرتا تھا، دوسروں کی طرح کبھی نہیں کرتا تھا۔ مگر آخرکار مر وہ بھی عام لوگوں کی طرح ہی گیا۔ جب ٹاٹا کا انتقال ہوا، تب تک وہ ٹاٹا، جو ہمارے دلوں میں بسا تھا، شاید پہلے ہی جا چکا تھا۔ یا یوں کہیے کہ وہ اس سے کچھ گھنٹے پہلے ہی رخصت ہو چکا تھا۔ ہم سب کا پختہ یقین تھا کہ ٹاٹا کبھی اس طرح نہیں مرے گا۔

رتّی — وہ عورت جو تاڑی(مشروب) بناتی ہے اور برسوں سے ٹاٹا کے ساتھ ہے — اُس صبح جلدی اُٹھ گئی تھی اور گائے دوہنے کھیتوں کی طرف نکل گئی۔ جب وہ لوٹی، تو سات بجنے والے تھے۔ ٹاٹا کے بیدار ہونے کا کوئی نشان نہ تھا۔ جھلّا کر اُس نے دروازہ دھکیل کر کھولا اور اندر داخل ہوئی۔ اُسی وقت میں بھی نہر کے کنارے قضائے حاجت کے لیے جا رہا تھا۔ اندر سے رتّی کی خفا ہوتی آواز سنائی دی:

"اُٹھو! اب کیا سونا، دن چڑھ آیا ہے!"

"روز کا یہی تماشا... ابھی تک سو رہے ہیں..."

پھر اچانک اُس کی آواز بدل گئی۔

"ٹاٹا!... ٹاٹا! ٹا۔۔۔"وہ ایک ایسی آواز نکال بیٹھی جو کبھی اس سے سنی نہ گئی تھی۔ میں نے بھی دروازہ دھکیلا اور اندر چلا گیا۔مجھے دیکھ کر رتّی ششدر رہ گئی۔"ٹا۔۔۔ٹا!"رتّی روئی نہیں، مگر وہ رونے کے قریب ضرور ہو گئی۔حقیقت تو یہ ہے کہ رتّی کبھی روتی نہیں۔ نہ کبھی ہنستی ہے، نہ کبھی آنسو بہاتی ہے۔ خوشی کے بڑے سے بڑے موقع پر بھی اُس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آتی۔ اور غم کی سب سے بڑی خبر بھی اس کی آنکھ کو نم نہیں کرتی۔لیکن یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ٹاٹا کوئی عام شخص تھا یا رتّی کو اُس سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔

میں نے جب "ٹاٹا" کہا تو شاید آپ لوگ الجھ گئے ہوں — دادا، نانا، یا کیا؟ لیکن بات یہ ہے کہ وہ سب کے لیے ٹاٹا تھا۔ ہر کوئی جیسے ٹاٹا کو اپنے خیال میں دیکھتا تھا، وہ اُسی شکل میں دکھائی دیتا تھا۔ وہ بزرگوں کی طرح کی ایک مخلوق، ایک صنف، ایک مثال تھا۔ ہر زبان پر بس ایک ہی نام تھا: "ٹاٹا"۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُسے اور کس نام سے پکارا جائے۔ یہاں تک کہ رتّی بھی اُسے صرف "ٹاٹا" ہی کہتی تھی۔اصل میں پندرہ برس ہو گئے ہیں جب سے ہمارا وینا ٹاٹا مرنا شروع ہوا۔وہ ہر سال کم از کم ایک بار مرتا—اور اگلے برس پھر مرنے کے لیے زندہ رہتا۔ گاؤں والے اس تسلسل سے عاجز آ گئے تھے؛ اُنھیں لگتا تھا وہ کبھی مرے گا ہی نہیں۔ مگر اس بار وہ یوں مرا کہ دوبارہ جی اُٹھنے کا کوئی امکان نہ رہا۔

وینا ٹاٹا جیسا آدمی زندگی پر بہت کم یقین رکھتا تھا، مگر موت پر بالکل بھی نہیں رکھتا تھا۔ اس کا استدلال تھا:

موت کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں، زندگی کے بارے میں سب کو کچھ نہ کچھ پتہ ہے؛ لہٰذا اس انجانی موت کے مقابلے میں جانی پہچانی زندگی ہی بہتر ہے۔ وہ پوچھتا، ‘‘اگر واقعی مر جانا ہی خیر ہے تو پوری دنیا ایک ساتھ کیوں نہ مر جائے؟’’

چند ہی دن پہلے کی بات ہے کہ گاؤں کے سارے لوگ اُسے ’’خطرناک آدمی‘‘ کہنے لگے تھے۔ دیہات میں بڑے مردوں کا کسی نہ کسی عورت کو رکھ لینا معمول سمجھا جاتا ہے۔ جس کے پاس عورت ہو ضروری نہیں کہ وہ مہذب ہو،مگر ہر ’’مہذب‘‘بوڑھے کے پاس کوئی نہ کوئی عورت ضرور ہوتی ہے—ایک طرح کی سماجی شناخت!

ہمارے گاؤں میں مگر ایک ایسا ’’مہذب‘‘ بزرگ تھا جس نے کبھی عورت نہ رکھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تو نہ تھا، مگر چونکہ اُس کے رشتے دار دُور دُور کے شہروں میں پڑھے لکھے تھے، دنیا داری کے معاملے میں وہ خود کو سب سے زیادہ عالم سمجھتا۔ روزانہ اخبار پڑھتا اور گاؤں کے بُزرگوں کو تفصیل سناتا۔ عورت نہ رکھنے کے سبب ہی سب بُزرگ اُس کی انفرادیت کے قائل تھے۔ بیواؤں کی دوبارہ شادی جیسے رسوم کے باطنی مقاصد پر—حالانکہ اس نے اپنی بیوہ بیٹی کی دوسری شادی نہ کی—وہ وقتاً فوقتاً درس دیتا۔ بےشمار موضوعات پر وعظ و بیان کرتا۔ گہری واقفیت کے باوجود اپنی بیوہ بیٹی کی دوسری شادی سے گریز ہی وہ وجہ تھی جس نے اُسے گاؤں میں بےپناہ عزت دلائی۔ ایک اور سبب بھی تھا:

وہ کہتا، ‘‘مرد و زن کے تعلقات میں ایک محدود سی آزادی ہونی چاہیے؛ اگر کوئی مرد کسی عورت کو رکھ لے تو یہ گناہ نہیں۔ شادی مقدس سہی، مگر اتنی نازک بھی نہیں کہ فوراََ ٹوٹ جائے۔’’یہ سن کر وہ سارے بزرگ جو اس عمل کو گناہ سمجھتے تھے اور پھر بھی خود کو روک نہ پاتے، دل ہی دل میں مطمئن ہو جاتے۔علم و فہم کے باوجود، چونکہ اس نے کبھی عورت نہ رکھی، سبھی نے اُسے نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ ’’وینا ٹاٹا‘‘ کہہ کر پکارا—وہی ٹاٹا جو اب پندرہ برس کی ادھوری موتوں کے بعد آخرکار مکمل طور پر رخصت ہو چکا تھا۔

ایک دن وہ صاحب ٹاٹا کے گھر آئے اور اُسے اپنے ہاں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی برہمن نے ٹاٹا کو کھانے پر بلایا۔ ٹاٹا کو ذرا عجیب سا محسوس ہوا۔

’’کیوں؟‘‘ اُس نے ذرا کڑک کر پوچھا۔

’’کچھ خاص نہیں۔ میرے والد کی برسی ہے۔ آپ کو ہم سب سے الگ تھلگ دیکھ کر دل کو اچھا نہیں لگتا۔۔۔ کب سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو بلاؤں۔‘‘

’’پھر روکا کس نے؟‘‘

وہ صاحب ہلکا سا کھانسے اور نرمی سے گویا ہوئے: ’’میں ایسی باتوں کی زیادہ پروا نہیں کرتا۔ ہر ایک کی اپنی پسند، اپنا مزاج ہوتا ہے۔ بس اُسی وجہ سے...‘‘ وہ جملہ مکمل نہ کر سکا۔

ٹاٹا نے فوراً بات کاٹ دی:

’’ذرا میری سنو۔ تم مجھے دعوت دینے آئے ہو گویا کوئی احسان کرنے۔ اب عادتوں کی بات چھیڑی ہے، تو سنو! مجھے دوسروں کے گھروں میں آنے جانے کی عادت نہیں۔

تم رتّی کی بات کر رہے ہو نا؟‘‘

’’کبھی نہیں، ٹاٹا گرو! ہرگز نہیں۔ ایسی باتوں کی مجھے پروا نہیں۔ میں تو آپ کی ہمت کا قائل ہوں۔ بھلا یہ کوئی بڑی غلطی ہے؟‘‘

’’اگر یہ غلطی نہیں، تو پھر تم نے خود کوئی عورت کیوں نہیں رکھی؟ میرے سامنے واعظ نہ جھاڑو! میں جو کچھ کرتا ہوں، اپنی مرضی سے کرتا ہوں۔مجھے تمھاری منظوری کی کوئی پروا نہیں کہ یہ غلطی ہے یا نہیں۔‘‘یہ سن کر وہ مہمان سہما، اور خاموشی سے واپس چلا گیا۔

 

گاؤں میں ایسے کئی لوگ تھے جنہوں نے عورتیں رکھی ہوئی تھیں،مگر یہ سب خفیہ انداز میں کرتے۔جیسے سب جانتے ہوئے بھی کچھ نہ جانتے ہوں۔اور یہی چالاکی سماجی طور پر تسلیم شدہ تھی۔مگر وینا ٹاٹا نے اس ’’روایت‘‘ کو توڑ دیا۔

رتّی کو کھلے عام اپنے گھر میں رکھ لیا۔ یہ بات لوگوں کے حلق سے نیچے نہ اُتری۔ نہ اسے کھل کر برا کہہ سکتے تھے،نہ ہضم کر پاتے تھے۔ یوں، وہ سب کی نظر میں ’’خطرناک آدمی‘‘ ٹھہرا۔ جن کے چھوٹے بچے تھے، اُن کے ماں باپ نے اُس کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا۔

اب اگر وینا ٹاٹا کی اصل موت کی کہانی سننی ہو تو اُسے خود سنانی چاہیے تھی۔مگر وہ تب مرا ہی نہیں تھا۔ وہ اکثر کہتا،

’’او رے! میں تو مور جیسا آدمی ہوں!‘‘

مگر یہ صرف ایک ڈینگ تھی۔ اُس کی آوارہ مزاجی محض عادت نہ تھی۔ وہ کبھی "بوگم گلی" کی طرف نہ گیا۔ اس کے باوجود اُس میں ایک اندرونی شدت تھی، ایک طرح کی تپش۔ ٹاٹا کی زندگی کے ہر واقعے کو الگ الگ دیکھنا پڑے گا۔ انہی میں سے ایک لمحہ تھا — رتّی کا پہلا لمس۔۔۔۔

رتّی کے پیچھے بھی ایک لمبی داستان ہے۔ وہ اور اُس کا بھائی، دونوں یتیم تھے۔ جب وہ بڑی ہوئی، تو اُس کی شادی کی کوئی کوشش وقت پر نہ ہوئی۔رتّی فطرتاً خاموش، ضدی، اور قریب نہ آنے والی تھی،مگر عمر اپنا جادو دکھا چکی تھی۔

ایک مضبوط بدن کا تاڑی نکالنے والا جوان، رنگون جانے کو تھا۔ رتّی نے اُسے عجیب سی نظر سے دیکھا، اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھینکی۔

وہ جوان بھی مُسکرایا، اور رتّی، اُس کے ساتھ ہی رنگون چلی گئی۔ مگر چند مہینوں بعد جب وہ تنہا واپس لوٹی، تو چھ مہینے کے پیٹ سے تھی۔اُس کے بھائی نے اُسے مارا۔ رتّی نہ روئی، نہ کچھ بولی، نہ کوئی شکایت کی۔ بھائی نے کسی حکیم سے دوا دلوائی۔حمل ساقط ہو گیا، مگر رتّی جھونپڑی سے باہر، زمین پر پڑی چار دن تک موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا رہی۔ پھر سنبھلی، اُٹھی، اور جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

اس سارے واقعے کو اُس نے قدرت کا ایک کھیل سمجھ کر قبول کر لیا۔ کسی کا نام زبان پر نہ لائی۔مگر اُس دن کے بعد اگر کوئی نوجوان اُس پر نگاہ اٹھا کر دیکھتا، تو وہ آسمان سر پر اُٹھا لیتی، اور بعض اوقات مار پیٹ پر اُتر آتی۔اُس دن کے بعد وہ نہ کبھی روئی، نہ ہنسی، اور نہ ہی کسی مرد کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔بعد میں رتّی نے وینا ٹاٹا کے مکان میں نوکرانی کے طور پر کام شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اُس کی صحت بحال ہونے لگی۔اُس کی چھاتیوں میں وہ چمک آ گئی جو شاید رنگون جانے کے دنوں میں بھی نہ تھی۔

اُس کے ہاتھ پہلے سے کہیں زیادہ ملائم ہو چکے تھے۔مگر عمر، اپنی چالاکیوں سے پیچھے نہ ہٹی۔

رتّی اب ایک پکے ہوئے لیموں کی مانند تھی

مگر اگر اُس کے چہرے کی طرف دیکھا جائے تو ایسا لگتا جیسے کانٹے نے ڈس لینے کے لیے منہ کھول رکھا ہو۔یہ وہ دن تھے جب وینا ٹاٹا کی بیوی اور بیٹا دونوں حیات تھے۔ قدرتی طور پر، وینا ٹاٹا — جو خود کو مور جیسا سمجھتا تھا — ایک دن جب رتّی فرش صاف کر رہی تھی، اُس نے رتی پر ایک خاص نگاہ ڈالی۔رتّی دھاڑی۔

ٹاٹا، تھوڑا سا گھبرا ضرور گیا، مگر ہمت جمع کر کے اُس کے قریب گیا اور حلق میں رُکی ہوئی آواز سے پکارا: ’’رتّی۔۔۔‘‘

رتّی تن کر کھڑی ہوئی اور زور دار تھپڑ رسید کیا۔

اُسی شام سے اُس نے کام پر آنا چھوڑ دیا۔ کچھ عرصے تک ٹاٹا نے رتّی کو یاد نہ کیا۔اگرچہ اُس کی جگہ ایک اور نوکرانی آ گئی، مگر اُس سے ٹاٹا کو کبھی وہ تھپڑ نہ ملا۔

گاؤں میں ہیضے کی وبا پھیل گئی۔وینا ٹاٹا بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ پھر ایک دن بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا، اُس کے بیٹے کا ہیضے میں مبتلا ہو کر انت ہو چکا تھا۔اسے پہلے اپنی موت سے بچنے کا شعور ہوا،پھر بیٹے کے نہ بچنے کا۔

مگر نہ اُسے کوئی غصہ آیا، نہ دکھ۔ بس بھوک محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر نے پھر بھی اُسے چار دن تک کچھ کھانے نہ دیا۔

جب پہلی بار پیٹ بھرا، تو وہ رو پڑا — بس اس لیے کہ نہ رونا خلافِ فطرت ہوتا۔ کہنے لگا، ’’میں کیوں نہ مرا؟‘‘مگر دل کے کسی کونے میں یہ اطمینان ضرور تھا کہ وہ اب بھی زندہ ہے۔ کچھ دن گزر گئے۔سب کو لگا کہ ہیضہ اب گاؤں سے رخصت ہو رہا ہے۔ مگر شاید اُس نے سوچا ہو ،

’’کیوں چلا جاؤں جب سب یہی سمجھ رہے ہیں؟‘‘ چنانچہ وہ اچانک لوٹا، اور اس بار اُس نے ٹاٹا کی بیوی کو آ دبوچا۔ چار دن گزرے۔ پانچویں دن شام تک ایسا لگنے لگا کہ بیماری کچھ کم ہوئی ہے۔اس وقت تک وینا ٹاٹا پوری طرح سنبھل چکا تھا۔ گھر کا سارا کھانا پکانا، سارے کام اُسی کے ذمے تھے۔ کبھی کبھار بیزار ہو کر، وہ بیوی کو پانی وغیرہ بھی لا کر دے دیتا جب وہ مانگتی۔

چار دنوں سے جاگتی آنکھوں پر ایک مدہوشی سی طاری ہوئی۔خواب میں اُس کا بیٹا مسکرایا —پوری دانتوں بھری ہنسی کے ساتھ۔

’’ٹھہر جا، احمق!‘‘

وہ کہنا چاہتا تھا، مگر ہچکچا گیا۔اُس نے خواب میں دیکھا کہ ایک وِمان آسمان کی جانب روانہ ہے، اُس کا بیٹا مڑ کر اُسے دیکھ رہا ہے۔ آسمان پھٹ رہا ہے، اور اُس سے ایک چمکتا ہوا ریلا زمین پر آ رہا ہے —جس میں وہیل جیسی بڑی مچھلیاں بہہ رہی ہیں۔پھر اُن سے ایک بادشاہ اور اُس کا وزیر اُترتے ہیں — چمکتے لباسوں میں۔ پھر جانے اور کیا کیا دکھائی دیتا ہے۔اِدھر خواب میں شیطانوں کی لڑائی کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی ہے — اور اُدھر وینا ٹاٹا ہڑبڑا کر جاگ جاتا ہے۔چراغ بجھ چکا تھا۔وینا ٹاٹا پلنگ کے قریب آیا۔

پلنگ سے دھیمی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ اُس نے مریضہ کو ہلایا، آواز دی۔ بس ایک ’’اُوں۔۔۔‘‘ کی آواز نکلی، اور وہ پھر بڑبڑانے لگی۔ ’’یہ سب کیا تماشا ہے؟‘‘ ٹاٹا نے سوچا۔ دروازہ کہاں ہے، کچھ پتہ نہ چلا، وہ وہیں پلنگ کے پاس بیٹھ گیا۔ پلنگ ہلکا سا لرزنے لگا۔ ٹاٹا کانپ اٹھا۔ مریضہ پر کسی عورت کا ہاتھ تھا۔

وہ شدید کپکپا رہی تھی۔ ٹاٹا نے جھٹکے سے ہاتھ ہٹایا۔سرگوشیاں تھم گئیں۔کیڑوں کی رینگتی آواز جیسے یکدم بلند ہو گئی۔اندھیرے میں سب کچھ گرہوں میں بدلتا جا رہا تھا۔ ’’یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘وینا ٹاٹا نے سوچا۔اُسی لمحے کچھ یکایک رُک گیا—مریضہ کی لرزش۔ اس نے آہستہ سے پکارا۔کوئی جواب نہ آیا۔ کسی انجان خطرے کے خوف سے، وہ زور سے آواز بھی نہ دے سکا۔

ایک ہلکی سی خراٹے جیسی آواز سنائی دی،

ایسی جیسے آری لکڑی کاٹ رہی ہو۔ وینا ٹاٹا کے دل پر برف سی جم گئی۔ کچھ دیر تک وہ ایسے تڑپتا رہا جیسے کوئی شخص پانی میں ڈوبتا ہو،

پھر دروازہ کھولا اور باہر نکل آیا۔

وہ ایسا لرزا جیسے پیچھے کوئی سایہ تعاقب میں ہو۔ گاؤں سے نکل کر کھیتوں کی طرف چل پڑا۔دھندلائے دماغ کو چیر کرخیالات نکالنے کی کوشش کرتا رہا۔کھیت، درخت، سب تاریکی میں گم تھے۔وہ بلا سمت کھالوں کے کنارے کنارے چلتا رہا۔درخت ایسے لگ رہے تھے جیسے گاؤں کی دیویاں اپنے بال کھولے کھڑی ہوں۔ ندیوں کا پانی کبھی کبھار یوں چمکتا جیسے سانپ سرک رہا ہو۔ کہیں کہیں، مویشی نیم خوابی میں جگالی کر رہے تھے۔ ایک تاڑی کے درخت سےپھٹے ہوئے گچھے میں سے رس ٹپک رہا تھا،

کیونکہ مٹکا ٹھیک سے بند نہ تھا۔ ایک قطرہ، میٹھا اور تازہ، وینا ٹاٹا کے چہرے پر آ گرا .

’’تھو۔۔۔‘‘ اُس کے منہ سے نکلا۔

’’کون ہے؟‘‘ ایک عورت کی آواز ابھری۔

’’تھو۔۔۔‘‘ ٹاٹا نے دوبارہ کہا۔

’’بات کیوں نہیں کرتے؟ کون ہے؟‘‘

دائیں جانب، ایک اُبھری ہوئی جگہ پر گھاس کی چارپائی چرمرائی۔ کوئی ساڑی سنبھالتے ہوئے اُٹھا اور قریب آنے لگا۔

’’کیا ہے؟‘‘

وینا ٹاٹا بولا۔

’’میں پوچھ رہی ہوں، کون ہے؟‘‘

’’میں ہوں۔‘‘

’’کون؟ کیا آپ ٹاٹا گرو ہیں؟‘‘

مگر وینا ٹاٹا اُس عورت کی آواز پہچان نہ پایا جیسے کوئی زخمی پرندہ ہو، وہ زمین پر گر گیا اور بیٹھ گیا۔ وہ عورت جوش سے قریب آئی

اور اُسے پکڑ کر بولی:

’’آیّا! ہوں ‘‘

‘‘پاؤں پھسل گیا تھا، جانے دو، ٹھیک ہوں۔’’ ٹاٹا سنبھلتا ہوا بولا۔ اندھیرے کے بیچوں بیچ اُٹھتے ہوئے ایک جیتے جاگتے وجود کو دیکھ کر ٹاٹا کو جھنجھلاہٹ ہوئی۔ اُس کا لمس اُسے ناگوار لگا۔

وہ فوراً بچ نکلنے کا سوچنے لگا۔ وہ اُس کے سوالات کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

’’اس وقت رات گئے کیوں آئے؟‘‘

’’پیشاب لگا تھا۔‘‘

اُس کا دل چاہا کہ اُس کا گلا گھونٹ دے، مگر یکدم اُس کے تن کی طاقت جیسے تحلیل ہو گئی۔

وہ وہیں بیٹھا رہا۔ ’’ادھر کیوں آئے؟ کیا بات ہے؟‘‘

’’آیا! شاید میں خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔ یہ کون سی طرف ہے؟‘‘

’’یہ مغربی کھیت ہیں۔‘‘

’’تو کیا میں بند پار کر کے آیا؟‘‘

’’آپ الجھن میں لگ رہے ہیں۔‘‘

وینا ٹاٹا اندر ہی اندر سوچنے لگا۔آہستہ آہستہ اُسے یاد آنے لگا کہ وہ واقعی بند پار کر کے آیا تھا۔ اور دھیرے دھیرے اُسے بات کرنے والے شخص کی پہچان بھی ہونے لگی۔

’’رتّی!‘‘ اُس نے یکایک کہا۔

’’اب تک نہ پہچانا؟‘‘

رتّی نے طنزاً کہا۔ ٹاٹا اٹھا اور کھڑا ہو گیا۔

’’بی بی کیسی ہیں؟‘‘ اچانک گھر یاد آیا

خراٹے، کپکپاہٹ، وہ سب کچھ۔ دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔

’’ٹھیک ہیں... کل کچھ کھانے کو دوں گا۔‘‘

اُسے یوں لگا جیسے اُس اندھیرے میں زندگی اُس کے اندر تڑپ رہی ہو۔

’’رتّی!‘‘ اُس نے کہا۔

رتّی نے نیچی پگڈنڈی پار کی اور دوسری طرف چلی گئی۔ ٹاٹا بھی پیچھے پیچھے گیا۔

وہ ایک جگہ کھڑی اُس کا انتظار کر رہی تھی۔

ٹاٹا نے اُسے بانہوں میں بھر لیا۔

’’ایک منٹ ٹھہرو...‘‘

وہ ہچکچائی، سنبھلنے کی کوشش کی، مگر اُس نے چیخ ماری نہیں۔ ٹاٹا کے اندر جیسے کوئی وحشی جانور جاگ اٹھا ہو۔ رتّی کے اندر کچھ دیر ضد اور انکار نے سر اٹھایا، مگر اُس کے جسم کا وہ تابناک اُبال جو برسوں سے دبا بیٹھا تھا،

اس رات غالب آ گیا۔ وہ ہانپتی ہوئی اُس کے حوالے ہو گئی۔ ٹاٹا اُس قربت سے نہ نکل سکا

جب تک آسمان پر صبح کا ستارہ نمودار نہ ہو گیا۔اچانک اُس کا دل بھر آیا۔

’’رتّی!‘‘ وہ بولا۔

’’ٹاٹا گرو!‘‘ وہ پکار اٹھی۔

اُس نے اپنی آواز درست کی، اور لاپرواہی سے کہا: ’’شاید اب تک میری بیوی مر چکی ہو گی۔‘‘

’’کیا!‘‘ وہ سناٹے سے بولی۔

’’ارے ٹاٹاگارو! تو پھر چلو واپس چلتے ہیں۔‘‘

مگر اس بار ٹاٹا کو گھر کا خوف نہ رہا۔

اُسے لگا جیسے اُس کے کندھوں سے ایک بھاری بوجھ ہٹ گیا ہو—کیونکہ اب وہ خود بھی

مر چکا تھا۔ پلنگ کے دونوں کناروں پر

ابھی ابھی مرے ہوئے— وینا ٹاٹا اور رتّی صبح ہونے تک بیٹھے رہے۔ رتّی نے لاش کی طرف دیکھا تک نہیں۔ وہ بس ٹاٹا کو حیرت سے دیکھتی رہی۔

کتنا وحشی ہو گیا تھا وہ اُس رات!

مگر اُسی رات، اُس کے دل میں ٹاٹا کے لیے ایک بے کراں احترام، ایک گہرا پیار جاگا۔ اُس نے اُس رات ٹاٹا کو سراپا سراہا۔ وینا ٹاٹا اُس رات مر گیا۔

مگر رتّی کی وجہ سے وہ جیتا رہا۔ آخر کار کہنا یہ ہے کہ ہمارا ٹاٹا ایک زبردست زندگی کا آدمی تھا۔ اور پھر بھی وہ یوں چلا گیا جیسے کسی کو خبر بھی نہ ہوئی ہو۔

 

مصنف کا تعارف:

Sri Palagummi Padmaraju – నెచ్చెలి

پی۔پدمراجو

Palagummi Padmaraju

 جنہیں عرف عام میں P. Padmaraju کہا جاتا ہے، 24 جون 1915 کو تروپتی پورم (ضلع ویسٹ گوڈاوری، آندھرا پردیش) میں پیدا ہوئے اور 17 فروری 1983 کو وفات پائی ۔ انہوں نے ککینڈیٰ کے گورنمنٹ پی آر کالج میں 1939 سے 1952 تک بطور سائنس لیکچرر خدمات انجام دیں ۔ اپنے خاندانی ماحول میں موسیقی کا بھی اثر تھا کیونکہ ان کے بھائی پالاگُمی وشناتھم ویینا نواز، موسيقار اور شاعر تھے ۔

                ادبی کیریئر کی شروعات پدمراجو نے قلیل کہانیوں سے کی، ان کی پہلی کہانی "Subbi" کے نام سے شائع ہوئی، اور انہوں نے تقریباً ساٹھ مختصر کہانیوں پر مشتمل تین مجموعے—Galivana, Padava Prayanam, اور Eduruchusina Muhurtham—تشہیر کیے ۔ "Galivana" کے لیے انہیں 1985 میں ان کے ادب میں نمایاں خدمات پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ ان کی مشہور کہانی "Cyclone" نے 1952 میں نیو یارک ہیرالڈ ٹریبون کا بین الاقوامی ایوارڈ جیتا، جس میں دنیا بھر کے 23 ممالک سے برائے نام 59 کہانیوں کے بیچ شامل تھی ۔

                ناول نگاری میں بھی انہوں نے اپنی جگہ بنائی۔ ان کے چند نمایاں ناولوں میں Batikina College, Nalla Regadi, Ramarajyaniki Rahadaari اور Rendo Ashokudi Munalla Palana شامل ہیں ۔ ان کے طرزِ تحریر میں سادہ زبان، گہرے سماجی اور ثقافتی موضوعات کی عکاسی، اور کرداروں کی نفسیاتی پرتیں نمایاں ہیں۔

                ادبی کاوشوں کے علاوہ پدمراجو نے فلمی دنیا میں بھی اہم شراکت دی۔ انہوں نے کہانی، مکالمے اور اشعار لکھے، اور ان کے کام شامل ہیں Bangaru Papa (1954)، Bhagya Rekha (1957)، Shanti Nivasam (1960)، Bangaru Panjaram (1965)، Rangula Ratnam (1966)، اور Stri (1995) جیسی فلمیں ۔ ان کے فلمی کاموں میں معاشرتی اور جذباتی حقائق کی جھلک ملتی ہے، جو ان کی بقول "عام آدمی کی کہانی" کو بیان کرتی ہیں۔

                مختصراً کہا جائے تو پدمراجو کا ادبی سفر ساٹھ مختصر کہانیوں، متعدد ناولوں اور فلموں تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کا خاصہ ان کی کردار نگاری اور معاشرتی حساسیت ہے۔ Cyclone جیسے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ کام، اور Galivana پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ امتیازی کامیابیاں ہیں۔ ناولوں میں وہ کالج کے ماحول، روایتی زندگی، اور سماجی روابط پر توجہ دیتے ہیں، جبکہ قِصّہ مختصر کہانیوں میں چھوٹے مناظر اور جذباتی جھلک پر گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔

                نتیجہ یہ ہے کہ P. Padmaraju نہ صرف تلگو ادب بلکہ تلگو سنیما میں بھی گہرا نقوش چھوڑ گئے۔ ان کی کہانیاں آج بھی معاشرتی موضوعات، انسانی وجدان اور مخصوص حالات کا گہرائی سے پیش کنندہ ادب کی نمائندگی کرتی ہیں، جو ان کے نمایاں ادبی مقام کی دلیل ہیں۔


ترجمہ نگار




 

ترجمہ نگار کا تعارف

حنظلہ خلیق الرحمان

نوجوان مترجم ، ادیب اور سکالر ہیں۔شرقپور شریف. پنجاب کے رہائشی ہیں۔ایک لائبریری میں ریسرچ فیلو ہیں اور لاہور ایک اسلامی انسٹیوٹ میں عربی زبان و ادب کے استاذ ہیں۔ وہ جامعہ لاہور الاسلامیہ سے عربی زبان و ادب میں فاضل ہیں ، جامعہ پنجاب سے انگریزی ادب میں ماسٹرز ہیں ۔ کئی ایک اسلامی و ادبی شعبوں سے وابستہ ہیں ۔مختلف رسائل اور بلاگز میں ان کی تحریریں اور مضامین شائع ہوتے ہیں ۔عربی ادب پر انہوں نے کئی ایک مقالے اور مضامین تصنیف کیے ہیں۔ انگریزی ادب کے کئی گوشے بھی ترجمہ کر چکے ہیں ۔ہندوستانی زبان و ادب بالخصوص جنوبی ہند اور راجستھانی ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ کاسمولوجی اور فلسفہ پر بھی چند تحقیقی آرٹیکلز لکھ چکے ہیں۔
hanzlah012@gmail.com
0307- 4952997


نوٹ:
حنظلہ اس گروپ "عالمی ادب کے اردو تراجم" کے فعال رکن ہیں۔ ان کے منتخب کردہ فن پاروں اور ان کے تراجم باقاعدگی سے گروپ میں شائع ہوتے رہتے ہیں، جنہیں قارئین نے پسند کیا ہے۔ ان تراجم کو گروپ میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں چند منتخب تراجم کے لنکس پیش کیے جا رہے ہیں: (1) افسانہ نمبر 691: وینا ٹاٹا کی مکمل موت لنک: https://www.facebook.com/share/p/19HkHfbwdN/

(2) افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر لنک: https://www.facebook.com/share/p/1AcLbPLUJc/
(3) افسانہ نمبر 621 : رسی لنک: https://www.facebook.com/share/p/16kppaJqSW/

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق