افسانہ نمبر 690 : انجن ٹربل، تحریر : آر کے نارائن(بھارت)، اردو ترجمہ : رومانیہ نور (ملتان)
افسانہ نمبر 690 : انجن ٹربل
تحریر : آر کے نارائن(بھارت)
کچھ سال پہلے ہمارے شہر میں (باتونی آدمی نے کہا) ایک تماشا کار آیا، جو "گیئٹی لینڈ" نام کے ایک تفریحی ادارے کا مالک تھا۔ راتوں رات ہمارے جمخانہ گراؤنڈز رنگ برنگی جھنڈیوں، بینروں اور روشن قمقموں سے جگمگا اُٹھے۔پورے ضلع سے لوگ اس تماشے کو دیکھنے اُمڈ پڑے۔ افتتاح کے ایک ہفتے کے اندر اندر، صرف ٹکٹ کی آمدنی سے روزانہ تقریباً پانچ سو روپے جمع ہونے لگے۔ گیئٹی لینڈ میں ہر قسم کی تفریح، جُوا، اور چھوٹے موٹے کرتب پیش کیے جاتے تھے۔ ہراسٹال پر دو آنے دے کر آپ کچھ بھی دیکھ سکتے تھے۔ بولتے ہوئے طوطوں سے لے کر موت کے کنوئیں میں چکر لگاتے موٹر سائیکل سوار تک! اس کے علاوہ وہاں قرعہ اندازی اور نشانہ بازی کے اسٹال بھی تھے، جہاں صرف ایک آنے میں آدمی سو روپے جیتنے کی امید رکھ سکتا تھا۔
شو کے ایک خاص گوشے کو غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔ یہاں آٹھ آنے کے ٹکٹ سے آپ کو پن کُشن، سلائی مشین، کیمرہ یا یہاں تک کہ ایک روڈ رولر انجن جیتنے کا موقع حاصل تھا۔ ایک شام، قرعہ اندازی میں ٹکٹ نمبر 1005 نکلا، اور اتفاق سے میرے پاس اس کا دوسرا آدھا حصہ تھا۔جب انعامات کی فہرست دیکھی گئی، تو اعلان کیا گیا کہ میں روڈ انجن کا مالک بن چکا ہوں! یہ مت پوچھئے کہ روڈ انجن ان انعامات میں شامل کیسے ہو گیا ۔ میں خود اس کا جواب نہیں دے سکتا!
میں بھونچکا رہ گیا۔ لوگ میرے گرد جمع ہو گئے اور یوں گھورنے لگے جیسے میں کوئی عجیب مخلوق ہوں۔ " ذرا سوچیے، کوئی روڈ انجن جیت جائے!" کچھ لوگ بڑبڑانے لگے اور ہنسنے لگے۔
یہ ایسا انعام نہیں تھا جسے کوئی فوراً اُٹھا کر گھر لے جائے۔ میں نے تماشا کار سے پوچھا کہ کیا وہ انجن منتقل کروانے میں میری مدد کرے گا؟ اس نے صرف ایک بورڈ کی طرف اشارہ کر دیا جس پر لکھا تھا کہ "ہر انعام یافتہ شخص کو انعام فوراً اور اپنی مدد آپ کے تحت لے جانا ہو گا۔" تاہم، میرے معاملے میں استثنا برتا گیا۔ انھوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ انجن سیزن کے اختتام تک جمخانہ گراؤنڈز میں ہی پڑا رہے گا، اور اس کے بعد مجھے خود ہی انتظام کرنا ہو گا۔ میں نے تماشا کار سے پوچھا، "کیا آپ کسی ڈرائیور کا بندوبست کر سکتے ہیں؟" وہ مسکرا کر بولا: "جسے یہ لانے کے لیے بلایا تھا، اُسے سو روپے دینے پڑے تھے، اور پانچ روپے یومیہ ۔ میں نے اسے رخصت کر دیا۔ میرا ارادہ تھا کہ اگر کوئی اسے نہ جیتا، تو میں یہیں چھوڑ دوں گا۔ یہ صرف تماشے کی چیز کے طور پر لایا تھا۔ بخدا ! کیسی مصیبت بن گئی ہے!"
میں نے معصومیت سے پوچھا: "کیا میں اسے کسی میونسپلٹی کو نہیں بیچ سکتا؟" اس کی ہنسی چھوٹ گئی: "میری پہلے ہی میونسپل والوں سے کافی ان بن ہے، میں ان سے دُور ہی رہنا بہتر سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔"
میرے دوستوں اور خیر خواہوں نے آ کر مجھے اس نئی "ملکیت" پر مبارکبادیں دینا شروع کر دیں۔
کسی کو ٹھیک سے اندازہ نہیں تھاکہ روڈ انجن کتنے کا بکے گا، لیکن سب کا ماننا تھا کہ یہ نفع بخش سودا ہے۔کچھ نے یہاں تک کہہ دیا:
"اگر تم اسے صرف کباڑ کے بھاؤ بیچ دو، تو بھی ہزاروں روپے کما سکتے ہو!" میں روز جمخانہ گراؤنڈز جا کر اپنے انجن کو دیکھتا۔ مجھے اس سے محبت ہو گئی تھی۔ اس کے چمکتے پیتل کے پرزے مجھے بہت پسند تھے۔ میں اس کے قریب کھڑا ہو کر اسے شفقت سے تھپتھپاتا، اس کے گرد چکر کاٹتا، اور ہر دن شو کے اختتام پر ہی گھر واپس جاتا۔ میں ایک غریب آدمی تھا۔مجھے لگا کہ شاید میری زندگی کی مشکلات اب ختم ہونے والی ہیں۔ لیکن ہم کتنے نادان ہوتے ہیں! مجھے ذرا سا بھی اندازہ نہ تھاکہ میری مشکلات تو اب شروع ہوئی تھیں...
جب تماشا کار نے اپنے اسٹال بند کیے اور سارا سامان سمیٹ کر روانہ ہو گیا، تو مجھے میونسپلٹی کی جانب سے نوٹس موصول ہوا کہ میں اپنے روڈ انجن کا بندوبست کروں۔ اگلے دن جب میں وہاں پہنچا، تو انجن تنہا کھڑا تھا، اور آس پاس کوئی بھی موجود نہ تھا۔ پورا میدان پھٹے بینروں اور کاغذی سجاوٹوں سے بھرا پڑا تھا۔ تماشا کار آگے بڑھ چکا تھا، اور انجن وہیں چھوڑ گیا تھا۔ ویسے بھی، یہ کہیں بھی محفوظ رہتا!
چند دن میں نے یوں ہی اسے چھوڑے رکھا، کیونکہ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا کروں۔ پھر میونسپلٹی کی طرف سے ایک اور نوٹس آ گیا: انجن کو فوری طور پر ہٹایا جائے، ورنہ جمخانہ گراؤنڈ پر قبضے کا کرایہ وصول کیا جائے گا۔ گہرے غور و فکر کے بعد میں نے کرایہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اگلے تین ماہ تک میں نے ہر ماہ دس روپے کرایہ دیا۔ جنابِ والا، میں ایک غریب آدمی تھا۔ وہ مکان، جس میں میں اور میری بیوی رہتے تھے، اس کا کرایہ صرف چار روپے ماہانہ تھا۔ اور یہاں، میں ایک روڈ انجن کے لیے دس روپے مہینہ دے رہا تھا! یہ کرایہ میرے محدود بجٹ پر بھاری پڑا، اور مجھے اپنی بیوی کے زیور گروی رکھنے پڑے۔ میری بیوی روزانہ پوچھتی: "آخر تم اس بھیانک چیز کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہو؟"اور میرے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ میں نے شہر بھر میں کسی بھی قیمت پر انجن کو بیچنے کی کوشش کی٬ ہر کسی کو پیش کش کی۔کسی نے مشورہ دیا: "مقامی کاسمپولیٹن کلب کے سیکریٹری سے بات کرو، شاید وہ دلچسپی لیں۔"جب میں ان کے پاس گیا، تو وہ ہنس پڑے اور بولے: "میں اس روڈ انجن کا کیا کروں؟" میں نے کوشش کی:"آپ کے پاس ٹینس کورٹ ہے، روزانہ اسے رول کرنے کے لیے استعمال کر لیں ۔میں خاص رعایت پر دے دوں گا۔"لیکن اُن کی مسکراہٹ دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں نے کچھ نہایت احمقانہ بات کر دی ہے۔ پھر کسی نے کہا:"میونسپل چیئرمین سے ملو شاید وہ اسے میونسپلٹی کے لیے خرید لے۔" میں ڈرتے ڈرتے ایک دن میونسپل آفس گیا۔ اپنے کوٹ کے بٹن بند کیے، اور چیئرمین کے دفتر میں داخل ہو کر مدعا بیان کیا۔میں انجن کوانتہائی رعایت پر دینے کو تیار تھا۔ میں نے میونسپل کی ذمے داریوں،اس چیئرمین کے عہد میں صفائی کی حالت، اور روڈ انجن کی اہمیت پر ایک لمبی تقریر شروع کی لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنی بات مکمل کرتا،مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ انجن تو شاید میں کسی بچے کو کھیلنے کے لیے بھی نہ بیچ سکوں!
میں اپنے محدود وسائل سے اس انجن کو جمخانہ گراؤنڈ میں رکھ کر اپنے آپ کو دیوالیہ بنا رہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ کبھی کوئی بڑی رقم ہاتھ آئے گی اور میری یہ تمام تکالیف اور خسارے پورے ہو جائیں گے۔ اب ایک نئی مصیبت آن پڑی: جمخانہ گراؤنڈ میں مویشیوں کی نمائش ہونی تھی۔ مجھے انجن کو ہٹانے کے لیے چوبیس گھنٹے کا وقت دیا گیا۔ نمائش شروع ہونے میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا،اور منتظمین کا عملہ پہنچ چکا تھا ۔وہ انجن کو فوراً ہٹوانا چاہتے تھے۔میں شدید پریشان ہو گیا پچاس میل کے اندر اندرکوئی بھی ایسا نہ تھاجو روڈ انجن چلانا جانتا ہو۔ میں نے ہر گزرتی بس کے ڈرائیور سے منت سماجت کی، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں اسٹیشن ماسٹر کے پاس بھی گیاکہ وہ ریل کے انجن ڈرائیور سے بات کرے لیکن اس نے صاف کہا: "مجھے اپنی لوکوموٹو کی فکر ہے، میں کسی کے لیے اسٹیشن سے نہیں اتر سکتا!" میونسپلٹی کی طرف سے دباؤ بڑھتا جا رہا تھا کہ انجن کو فوری ہٹایا جائے۔ میں نے سوچ بچار کیا۔ قریب کے مندر کے پجاری سے ملاقات کی اور کسی نہ کسی طرح اس کی ہمدردی حاصل کر لی۔ اس نے مجھے اپنے مندر کے ہاتھی کی مدد پیش کی۔ میں نے مزید پچاس مزدور بھی رکھے کہ وہ انجن کو پیچھے سے دھکیلیں۔ یقین جانیے، اس سارے انتظام نے میری تمام جمع پونجی نچوڑ لی۔ مزدور فی کس آٹھ آنے مانگ رہے تھے، اور مندر کا ہاتھی سات روپے یومیہ میں ملا، اوپر سے اسے ایک وقت کی خوراک دینا بھی لازمی تھا۔ میری منصوبہ بندی یہ تھی کہ انجن کو جمخانہ گراؤنڈ سے باہر نکال کر آدھے فرلانگ کے فاصلے پر واقع ایک میدان میں منتقل کر دوں۔ وہ میدان میرے ایک دوست کی ملکیت تھا۔اسے اگر میں انجن کچھ مہینے وہاں رکھتا، تو اسے کوئی اعتراض نہ تھا۔میں اس دوران مدراس جا کر کسی خریدار کی تلاش کرنا چاہتا تھا۔
میں نے ایک جوزف نامی شخص کی خدمات بھی حاصل کیں، جو ایک برخاست شدہ بس ڈرائیور تھا۔ اس نے کہا کہ اگرچہ وہ روڈ رولر کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، لیکن اگر اسے کسی طرح چلایاجائے، تو وہ اس کا اسٹیرنگ سنبھال سکتا ہے۔
یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا: ہاتھی مضبوط رسوں کے ذریعے انجن کے ساتھ جُتا ہوا تھا، پیچھے سے پچاس پُرعزم مزدور دھکا لگا رہے تھے، اور میرا دوست جوزف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ایک بڑی بھیڑ جمع تھی جو جوش و خروش سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔انجن نے حرکت شروع کی اور مجھے لگا جیسے یہ میری زندگی کا سب سے عظیم لمحہ ہو۔ جب انجن جمخانہ سے باہر آ کر سڑک پر پہنچا،تو اس نے عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیں۔سیدھا چلنے کے بجائے،انجن جھولتا ہوا، بل کھاتے انداز میں چلنے لگا۔ ہاتھی اسے ایک طرف کھینچ رہا تھا،جوزف پوری طاقت سے اسٹیئرنگ گھما رہا تھا جبکہ اُسے خود بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کدھر جا رہا ہے، اور پچاس مزدور پیچھے سےجہاں دل چاہا، زور لگا کر دھکیل رہے تھے۔ اس منتشر دھکم پیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ انجن ایک قریبی مکان کی حدبندی والی دیوار سے جا ٹکرایا اور دیوار کا خاصا حصہ مٹی میں ملا دیا۔یہ دیکھ کر ہجوم نےخوشی سے شور و غوغا مچا دیا۔ ہاتھی کو ہجوم کی یہ ہلڑ بازی پسند نہ آئی ۔وہ زور سے چنگھاڑا، رسے توڑ دیے، اور دیوار کا ایک اور حصہ لات مار کر گرا دیا۔ پچاس مزدور خوف کے مارے بھاگ نکلے،اور بھیڑ نے قیامت کا سماں پیدا کر دیا۔ اچانک کسی نے آ کر میرے منہ پر طمانچہ مارا —یہ احاطے کی دیوار کا مالک تھا۔ اسی وقت پولیس موقع پر پہنچ گئی اور مجھے گرفتار کر کے لے گئی۔
جب مجھے حوالات سے رہائی ملی، تو درج ذیل مصیبتیں میری منتظر تھیں:
1- دیوار کا جتنا حصہ گرایا گیا تھا،وہ مجھے دوبارہ تعمیر کرنا تھا۔
2- پچاس مزدوروں کی اجرت دینا تھی ۔ حالانکہ وہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے،مگر وہ وضاحت نہیں کرتے تھے کہ وہ مزدوری کے حقدار کیوں ہیں!
3- جوزف کو انجن دیوار پر چڑھانے کی فیس ادا کرنا تھی۔
4- مندر کے ہاتھی کا علاج کے لیے ادویات کی قیمت ادا کرنی تھی ۔ اس کے گھٹنے میں چوٹ آئی تھی جب اس نے دیوار گرائی تھی۔مندر کے حکام نے میری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ میں نے ہاتھی کو دیوار گرانے کے لیے کرائے پر نہیں لیا تھا!
5- اور سب سے آخر میں: انجن کو موجودہ جگہ سے فوراً ہٹانے کا مطالبہ۔
حضور! میں ایک غریب انسان تھا۔
میرے پاس ان اخراجات کو اداکرنے کا کوئی وسیلہ نہ تھا۔ جب میں گھر پہنچا تو بیوی نے پوچھا: "یہ میں تمھارے بارے میں شہر بھر میں کیا سن رہی ہوں؟" میں نے موقع پا کر اپنی پریشانیاں اسے بتانے کی کوشش کی۔ اس نے یہ سمجھا کہ میں پھر سے اس کے زیور مانگنے والا ہوں۔ وہ غصے میں آ گئی اور چیختے ہوئے کہنے لگی کہ وہ اپنے والد کو خط لکھے گی کہ آ کر اسے لے جائیں۔
میری عقل کام کرنا چھوڑ چکی تھی۔لوگ مجھے سڑک پر دیکھ کر مجھ پر ہنسنے لگے تھے۔ میں سنجیدگی سے یہ سوچنے لگا کہ کیوں نہ میں اپنے گاؤں بھاگ جاؤں۔میں نے طے کیا کہ میں اپنی بیوی کو واقعی اس کے والد کے ہاں بھجوانے کا بندوبست کروں گا —اور کسی کو کچھ بھی بتائے بغیر، ایک دن راتوں رات شہر سے غائب ہو جاؤں گا.
اسی موقع پر ایک نعمت غیر مترقبہ کی صورت میں ایک سوامی جی کا ظہور ہوا۔ ایک شام، ہمارے میونسپل چیئرمین کی سرپرستی میں شہر کے چھوٹے سے ٹاؤن ہال میں ایک شو منعقد ہوا۔یہ مفت مظاہرہ تھا اور ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں گیلری میں بیٹھا تھا۔ ہم سبھی حاضرین نے سوامی جی کے یوگ کے کرشمے دم بخود ہو کر دیکھے۔ وہ شیشے کے گلاسوں کو چبا کر مزے سے کھا گئے؛ نوکیلے کیلوں والے بورڈ پر لیٹ گئے؛ ہر قسم کے تیزاب سے غرارے کیے اور انہیں پی بھی لیا؛
سفید گرم لوہے کی سلاخیں چاٹیں؛
نوکیلے کیل چبائے اور نگل لیے؛
اپنی دل کی دھڑکن روک لی؛ اور زمین میں دفن ہو گئے۔ ہم سب حیرت اور سکتہ میں ان کا مظاہرہ دیکھتے رہے۔ پھر آخر میں وہ کھڑے ہوئے اور ایک تقریر کی جس میں کہا کہ وہ اپنے گرو (اُستاد) کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ان کی یہ کارکردگی اس لیے بھی قابلِ تعریف تھی کہ وہ یہ سب کچھ کسی فائدے یا دولت کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کے جذبے کے تحت کر رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اب وہ اپنا آخری اور سب سے بڑا کرتب دکھانے جا رہے ہیں۔ انھوں نے میونسپل چیئرمین کی طرف دیکھا اور کہا: "کیا آپ کے پاس کوئی روڈ انجن ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے سینے پر چلایا جائے!" چیئرمین شرمندہ ہو گیا،اور انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس کوئی انجن نہیں ہے ۔
سوامی جی نے اصرار کیا: "مجھے لازماً ایک روڈ انجن چاہیے!" چیئرمین نے بات ٹالنے کی کوشش کی: "کوئی ڈرائیور دستیاب نہیں ہے۔" سوامی جی نے کہا:"پریشان نہ ہوں، میرا معاون کسی بھی قسم کا انجن چلانے میں ماہر ہے۔" اسی لمحے میں نے گیلری سے کھڑے ہو کر چِلّا کر کہا: "ان سے انجن نہ مانگو... وہ مجھ سے مانگو!" اور آن کی آن میں ٬میں اسٹیج پر پہنچ گیا اور اتنا ہی اہم شخص بن گیا جتنا خود سوامی جی تھے۔ مجھے اچانک ہر طرف سے ملنے والی اس پذیرائی پر بہت خوشی ہوئی ۔ میونسپل چیئرمین پسِ منظر میں چلا گیا۔
سوامی جی کے ساتھ طے پایا کہ انجن کے بدلے وہ اسے جہاں میں کہوں وہاں لے جا کر چلائیں گے۔
اگرچہ میرا دل چاہا کہ میں اس سے کچھ امدادی رقم مانگوں، لیکن مجھے معلوم تھا کہ ایک "خدمت خلق" کے مشن پر آئے ہوئے شخص سے کچھ لینا فضول ہے۔
جلد ہی تمام لوگ جمخانہ کے سامنے والی دیوار کے قریب جمع ہو گئے۔ سوامی جی کا معاون واقعی انجن چلانے کا ماہر تھا۔تھوڑی ہی دیر میں میرا انجن فخر سے بھاپ چھوڑتا ہوا کھڑا تھا۔ یہ ایک خوش کن منظر تھا۔ سوامی جی نے دو تکیے منگوائے: ایک اپنے سر کے نیچے اور ایک پاؤں کے قریب رکھا۔ انھوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ انجن کو کیسے ان کے سینے سے گزارنا ہے۔ انھوں نے اپنے سینے پر چاک سے نشان لگایا اور کہا:
" انجن بالکل اسی لائن پر گزرنا چاہیے، نہ ایک انچ اِدھر نہ اُدھر!" انجن سیٹی مار کر تیار کھڑا تھا۔ تماشائیوں کے چہروں پر اداسی چھا گئی۔ یہ منظر خوفناک اور ہولناک لگنے لگا۔ سوامی جی تکیوں پر لیٹ گئے اور کہا: "جب میں 'اوم' کہوں، تب اسے چلا دینا۔" انھوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ لوگ سخت تناؤ میں یہ منظر دیکھنے لگے۔ میں تو عالمِ مسرت میں تھا— آخر کار میرا روڈ انجن حرکت میں آنے ہی والا تھا۔
اسی وقت، ایک پولیس انسپکٹر بھیڑ میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں خاکی لفافہ تھا۔ اس نے ہاتھ بلند کیا اور سوامی جی کے معاون کو بلاتے ہوئے کہا: "مجھے افسوس ہے، لیکن آپ یہ مظاہرہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ مجسٹریٹ نے انجن کو کسی پر چلانے سے سختی سے منع کر دیا ہے۔" سوامی جی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ وہاں خاصی افراتفری پھیل گئی۔ سوامی جی غصے سے بھر گئے اور بولے: "میں یہ مظاہرہ ملک کے سیکڑوں مقامات پر کر چکا ہوں، کبھی کسی نے مجھے نہیں روکا۔ یہ میرے گرو کا حکم ہے کہ میں یوگا کی طاقت کو عوام کے سامنے ظاہر کروں، اور کون ہے جو مجھے اس سے روک سکے؟"
"ایک مجسٹریٹ روک سکتا ہے" پولیس انسپکٹر نے سرد لہجے میں کہا:اور ساتھ ہی حکم نامہ لہرا دیا۔
سوامی جی چیخے:" تمھارا یا اس کا کیا اختیار بنتا ہے اس معاملے میں مداخلت کرنے کا؟" انسپکٹر بولا: "یہ میرے اختیار سے باہر ہے۔ مجسٹریٹ کا حکم یہی ہے۔ وہ آپ کو ہر مظاہرہ کرنے کی اجازت دیتا ہے سوائے پوٹاشیم سائنائیڈ نگلنے اور اس انجن کو اپنے سینے پر چلانے کے۔ آپ ہماری حدود سے باہر جو چاہیں کریں۔"
سوامی جی غصے سے بولے: "میں اس منحوس جگہ کو اسی وقت چھوڑ رہا ہوں!" اور وہ اپنے معاون کے ساتھ وہاں سے روانہ ہو گئے۔ میں نے اس کے معاون کا بازو پکڑا اور کہا:" تم نے انجن کو گرم تو کر ہی دیا ہے، اب اسے بس اُس کھیت تک پہنچا دو اور چلے جاؤ۔" اس نے مجھے گھور کر دیکھا، ہاتھ جھٹکا، اور غصے سے کہا: "میرے گرو اس قدر ناراض ہوں اور میں انجن چلاؤں؟ کیسے ہو سکتا ہے!"
وہ چلا گیا۔ میں نے زیر لب کہا: "شاید تم انجن صرف اس کے سینے پر چلانے کے لیے ہی آئے ہو؟"
میں نے فیصلہ کر لیا کہ چند دن میں شہر چھوڑ دوں گا، انجن کو اس کی قسمت پر چھوڑ کراور اس کے تمام مسائل سے جان چھڑا کر۔ لیکن قدرت نے مجھے ایک ناقابلِ یقین انداز میں بچا لیا۔ آپ کو یاد ہو گا اُس سال شمالی ہند میں زلزلہ آیا تھا جس نے کئی شہروں کو تباہ کر دیا۔ ہمارے شہر میں بھی اس کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ہم رات کے وقت اپنے بستروں سے اچھل پڑے، دروازے اور کھڑکیاں بجنے لگیں۔
اگلی صبح میں انجن کو آخری بار دیکھنے گیا۔ میری آنکھیں یقین کرنے سے قاصر تھیں ۔ انجن وہاں نہیں تھا! میں نےادھر ادھر دیکھا اور شور مچا دیا، تلاش شروع ہوئی۔ اور انجن ایک قریبی بیکار کنویں میں پایا گیا، اس کا پچھلا حصہ باہر نکلا ہوا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی ہو جائے۔ لیکن کنویں کے مالک نے جب یہ منظر دیکھا تو دل کھول کر ہنسا اور خوشی سے تمتماتے ہوئے بولا: "تم نے تو میرے لیے کام آسان کر دیا۔ یہ کنواں دنیا کی سب سے گندی جگہ تھا۔ میونسپلٹی مجھے ہر ہفتے بند کرنے کا نوٹس بھیج رہی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ بند کروانے کا خرچہ کیسے اٹھاؤں گا، لیکن تمہارا انجن تو بالکل ڈھکن کی طرح فِٹ بیٹھا ہے۔ بس اسے وہیں چھوڑ دو!"
میں ہچکچایا:
"لیکن... لیکن..."
وہ بولا: "کوئی 'اگر ٬مگر' نہیں۔ میں تمھارے خلاف دائر کیے گئے تمام مقدمے اور شکایات واپس لے لوں گا، گری ہوئی دیوار خود بنوا دوں گا، بس انجن کو وہیں رہنے دو۔"
میں نے کہا: "یہ کافی نہیں، اس انجن نے مجھے اور بھی بہت سے اخراجات میں ڈال دیا ہے۔" اس نے وہ سب اخراجات بھی ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔
کئی مہینوں بعد جب میں وہاں سے گزرا تو میں نے دیوار کے اوپر سے جھانک کر دیکھا ٬ کنویں کا منہ اچھی طرح سیمنٹ سے بند تھا۔ میں نے بہت گہری اطمینان بھری سانس لی۔
Original Title: Engine Trouble
Written by R. K. Narayan
Comments
Post a Comment