افسانہ نمبر 687 : کافکا کا دوست || مصنف : آئزک بشواس سنگر || مترجم : ناصر بغدادی

  افسانہ نمبر 687 : کافکا کا دوست

 مصنف :  آئزک بشواس سنگر

مترجم : ناصر بغدادی

 


                فرانز کافکا کی تحریریں پڑھنے سے کافی پہلے میں اس کا تذکرہ اس کے قریبی دوست ژاک کھون (JACQUES KOHN) کی زبانی بارہا سن چکا تھا۔ ژاک یہودی تھیٹر کا ایک سابق اداکار تھا۔ لفظ سابق ایک خاص توضیح کا متقاضی ہے۔ جن دنوں میں اس سے متعارف ہوا تھا، اسے تھیٹر کی زندگی کو خیر باد کہے ایک طویل عرصہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی کی شروعات ہو چکی تھی اور وارسا (WARSAW) کا یہودی تھیٹر اپنے سر پرستوں اور ناظرین کی خاصی بڑی تعداد سے آہستہ آہستہ محروم ہوتا جا رہا تھا۔ ژاک از خود ایک بیمار اور ٹوٹا پھوٹا سا انسان تھا۔ کپڑوں کی فرسودگی اور پرانے پن کے باوجود اس کا لباس خاصا مکّلف ہوا کرتا تھا، یک چشمی عینک، ارفع ، مگر دقیا نوسی کالر اور چمڑے کے مخصوص جوتوں میں اس کی شخصیت انسانوں کی بھیڑ میں تمام تر جزئیات کے ساتھ بڑی نمایاں نظر آتی تھی۔ وارسا کے یہودی ادبا کے کلب میں اکثر بذلہ سنج سر پھرے اسے ازراہ تفنن "لارڈ" کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں ہم دونوں اکثر و بیشتر ملا کرتے   تھے۔ اس کے زعفرانی بالوں کے جو چند گچھے اس کی کھوپڑی پر بچ گئے تھے، ژاک انہیں کنگھی سے خوب سنوار کر پُل جیسی شکل دیا کرتا تھا۔ کبھی کبھی تھیٹر کی گزری ہوئی زندگی کی یاد کو تازہ کرنے کے بہانے وہ یدش (YIDDISH) زبان کو خالص جرمن لہجے میں بولنے کی کوشش کرتا اور ایسے موقعوں پر جب اچانک اس کے دماغ کی کوئی رگ پھڑک اٹھتی تو  وہ اپنے اور کافکا کے دیرینہ تعلقات سے متعلق گفتگو کا نا مختتم سلسلہ شروع کر دیتا !

                کچھ عرصے قبل ژاک نے اشاعت کی غرض سے اخبارات میں مضامین بھی بھیجنے شروع کر دیئے تھے، مگر اب اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ مدیران نے متفقہ طور پر اس کے مسودوں کو   نا قابلِ اشاعت قرار دے دیا تھا ۔ وہ لیز نو (LESZNO) اسٹریٹ پر واقع ایک مکان کے چھوٹے سے کمرے میں کسمپرسی کے عالم میں اپنے شب و روز گزار رہا تھا۔ اس کے بارے میں ایک لطیفہ نما کہاوت کلب کے تقریباً ہر ممبر کو معلوم تھی اور اکثر موقعوں پر موضوع گفتگو بھی بنی رہتی تھی!

                "تمام دن وہ آکسیجن ٹینٹ میں پڑا رہتا ہے، مگر رات ہوتے ہی وہ ڈان وان) (DON JUAN بن کر اُبھرتا ہے۔"

 

                ہم ہمیشہ شام کو کلب میں ملا کرتے تھے۔ دروازہ ژاک کھون کے داخلے کے لیے آہستہ آہستہ کھلتا اور وہ اس طمطراق سے داخل ہوتا جیسے یورپ کی کوئی عظیم المرتبت شخصیت مفلوک الحال لوگوں کے پسماندہ علاقے کے معائنہ کے لیے چلی آرہی ہو! وہ یوں چاروں طرف دیکھتا جیسے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہو کہ فضا میں رچی بسی لہسن، سستے تمبا کو اور مسالہ جات کی تو اس کی مخصوص طبیعت پر گراں گزر رہی ہو۔ وہ گہرے تنفر سے اطراف کی میزوں کو دیکھتا جن کہ اس کی طبیعت پر پر اخبارات سگریٹ کے بچے  کھچے ٹکڑوں اور راکھ دونوں کا ڈھیر جمع ہوتا ۔ جوں ہی میری نظر اس پر پڑتی میرے ہاتھ میکانکی انداز میں جیبوں کی طرف چلے جاتے اور میں اس لمحے کا منتظر ہوتا جب اس کا مجھ سے قرض مانگنا تشکیک سے بالا تر ایک یقینی امر ہو جاتا  !!

                اس شام ژاک کچھ زیادہ ہی خوشگوار موڈ میں تھا۔ دلنشیں مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنے دانتوں کی نمائش کی۔ پھر اپنی لانبی لانبی انگلیوں والے استخوانی پنجے کو مصافحہ کی غرض سے آگے بڑھا دیا۔

                "آج رات اُبھرتے ہوئے ستارے کی کیا مصروفیات ہیں؟ اس کا لہجہ اس کے اثباتی موڈ کا غماز تھا۔ اس نے ا  اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھایا۔ ”میں یہ بات گہری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ جہاں کہیں میں صلاحیت اور انسانی جو ہر کو دیکھتا ہوں تو فوری پہچان جاتا ہوں، اگر چہ خودمجھ میں اس چیز کا فقدان ہے۔ جب ۱۹۱۱ء میں ہم نے پراگ (PRAGUE) میں ڈرامہ اسٹیج کیا تھا تو کوئی شخص کا فکا کے نام سے واقف نہ تھا۔ میں اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ میرے سامنے غیر معمولی ذہانت کی حامل شخصیت کھڑی ہے اور وہی لمحہ ہماری غیر فانی دوستی کا نقطہ آغاز بن گیا ۔“

                اگر چہ یہ گھسی پٹی کہانی میں بارہا اس کی زبانی سن چکا تھا، مگر میں خوب جانتا تھا کہ اس بار پھر سنے بنا کوئی چارہ نہیں۔ وہ بے تکلفی سے میری ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ ویٹرس نے ہمارے لیے چائے اور کچھ کھانے کی چیزیں لانے میں کسی تاخیر سے کام نہیں لیا۔ اپنی عجیب و غریب آنکھوں پر جھکی ہوئی خمیدہ ابروؤں کو اس نے اُٹھایا۔ چائے کو غلط انداز نظروں سے دیکھا۔ پھر اپنے کپ میں شکر کی پانچ ٹکیاں ڈال کر ہولے ہولے چمچ ہلانے لگا۔

                ماضی پر کوئی اپنا پیٹ نہیں بھر سکتا ، بسکٹ کا ایک ٹکڑا توڑتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔ اس نوع کی ایکٹنگ اس کی زندگی کا جزولاینفک بن چکی تھی، اس کے ہر انداز اور ہر عمل میں اداکاری کا پرانا طلسم رچا بسا نظر آتا تھا۔

                اس کا حقیقی نام جانکل تھا ،ژاک نہیں۔   اس کا جائے تولد پولینڈ کا ایک دور افتادہ حصہ تھا، مگر پراگ، ویانا، برلن اور پیرس میں اس نے اپنی زندگی کا ایک معتد بہ حصہ گزارا تھا۔ نہ صرف یدش (YIDDISH) تھیٹر میں اس نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے بلکہ فرانس اور جرمنی میں اسٹیج پر بارہا اس نے اپنا پارٹ بڑی خوش اسلوبی اور مؤثر انداز سے ادا کیا تھا۔ اس کے وقت کی شهره آفاق شخصیتیں اور مہتم بالشان مشاہیر اس کے قریب ترین دوستوں میں سے تھے۔ اسرائیل زانگ دل ( ISRAEL SANG WILL) جیسی معروف ہستی کو وہ متعدد بار شرفِ میزبانی کا موقع دے چکا تھا۔ اس نے مجھے وہ گراں مایہ اور نایاب خطوط دکھائے تھے جو اسے نہ صرف کافکا کی جانب سے موصول ہوئے تھے بلکہ دیگر قد آور معاصرین نے بڑی محبت اور عقیدت سے ژاک کو تحریر کیے تھے۔ ان سب نے احساس بے تکلفی سے معانقہ کرتے ہوئے ڈاک کو اس کے پہلے نام سے مخاطب کیا تھا۔ مزید برآں اس نے اپنی شخصیت کو تاریخی بنانے کی غرض سے وہ تصاویر بھی مجھے دکھائی تھیں جن میں وہ اپنے وقت کی مشہور ترین ہستیوں کے ساتھ بڑا نمایاں نظر آتا تھا !!

                وہ ہر لحاظ سے منفرد تھا۔ جس شان استغنا سے وہ اپنے ہاتھ کی چھڑی ہلاتے ہوئے قدم اُٹھاتا تو میری نظروں کے سامنے ایک یادگار نظارہ مجسم ہو کر رہ جاتا۔ حتی کہ اس کی تمباکو نوشی کا انداز بھی وارسا کے ہر تمباکو نوش کے مقابلے میں اچھوتے پن اور انفرادیت کا حامل تھا۔ اس کا پیرا یٔہ گفتگو اور طرز عمل بلا شبہ خوش خلقی اور شائستگی کا منہ بولتی تصویر تھا۔ مجھے کوئی موقع یاد نہیں جب اس نے میرے احساسات کو لعن طعن کاہدف بنایا ہو اور ان سب سے بالاتر ژاک کا خواتین کے باب میں مہذبانہ انداز مجھے بے حد پسند تھا۔ میں لڑکیوں کے رو برولڑ کیوں ہی کی طرح شرم سے گلابی گلابی سا ہو جاتا تھا، مگر ژاک کا تیقن ایسے مواقع پر کسی کاؤنٹ (COUNT) کے آہنی جذبے کی طرح نا قابلِ تسخیر نظر آتا۔ اس میں ایک مثبت خوبی یہ بھی تھی کہ غیر خوبصورت اور جاذبیت سے محروم لڑکیوں سے باتیں کرتے ہوئے ان کے نازک جذبات کے نازک آبگینوں کو پیش نظر رکھتا۔ ہر ایک کو تھوڑا بہت خوش کرنے کے فن میں اسے ید طولی حاصل تھا !!

                تصنع اور بناوٹ سے مبرا ایک راست باز کے لہجے میں اس نے مجھے مخاطب کیا۔ میرے نوجوان دوست! مردانگی اب میرا جو ہر نہیں ، اب میں اس منزل پر پہنچ چکا ہوں جہاں عورت کا حسن مقنا طیسی محسوس نہیں ہوتا ۔ ڈھکے چھپے عیوب مجھ گرگ پیر سے چھپ نہیں سکتے ۔ احمریں ہونٹوں کی مسکراہٹ، مہکتے سرسراتے ملبوس اور میک اپ سے لدے پھندے چہرے مجھے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ اگر چہ میرے منہ میں کوئی دانت نہیں ، مگر جب عورت منہ کھولتی ہے تو میں جان جاتا ہوں کہ وہ کتنے دانتوں سے محروم ہے۔

                "  کافکا کے سامنے بھی سب سے بڑی یہی ایک مشکل تھی ۔ جب وہ کاغذ قلم لے کر لکھنے بیٹھتا تو ساری خامیاں اس کے سامنے آجاتیں ۔ اس کی اپنی اور سارے دنیا والوں کی ! تھیٹر کی زندگی میں جو عیوب مجھے نظر آئے۔ کافکا نے انہیں ادب کی دنیا میں دیکھا۔ ہمارا یہ مشترک اندازِ نظر ہم دونوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب لے آیا ، مگر ستم ظریفی تو دیکھو۔ جب تھیٹر کا غائرانہ نظر سے جائزہ لینے کا وقت آیا تو کافکا کی آنکھوں پر پردہ پڑ چکا تھا۔ ایک سستی بازاری قسم کی اداکارہ کی  محبت کا بھوت اس کے سر پر سوار ہو گیا۔ اس کی جنوں انگیز حالت کا خیال آتا ہے تو اب بھی مجھ پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے ! شاید یہ ضروری نہیں کہ لافانیت حاصل کرنے کے لیے انسان کا انتخاب بھی ارفع ہو!!

                "تم نے ایک بار پوچھا تھا کیا چیز مجھے زندہ رکھتی ہے؟ کس چیز نے مجھے افلاس و نکبت، بیمار  و دلّدر  اور سب سے بدتر نا امیدی و یاس برداشت کرنے کی قوت دی ہے؟ یہ ایک بڑا معقول سوال ہے۔ میرے نوجوان دوست ! یہی سوال میرے ذہن میں اس وقت اُبھرا تھا جب میں نے جوب کی کتاب (BOOK OF JOB) کا مطالعہ کیا تھا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ جوب ذہنی اذیتوں کے دل شکن دور سے گزر کر بھی زندہ رہا؟ کیا اس لیے کہ بالآخر اس کا گھر اس کی بیٹیوں، گدھوں اور اونٹوں سے بھر جائے ؟ نہیں یہ بات نہیں ! اس کا جواب تو زندگی کے ابدی کھیل سے متعلق ہے۔ ہم سب شطرنج کے کھلاڑی ہیں اور مقدر ہمارا حریف ہے۔ وہ چال چلتا ہے۔ ہم چال چلتے ہیں۔ وہ ہمیں شکست دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم شکست سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ جیت ہمارا مقدر نہیں، مگر بلاڈٹ کے مقابلہ کیسے ہم شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار بھی نہیں ہوتے ۔

                "اور یہی حال تمہارے دوست ژاک کھون کا ہے ! اس کا مد مقابل ایک سخت گیر فرشتہ ہے وہ مجھ سے مقابلہ کرتے وقت ہر وہ چال چلتا ہے جو اس ، جو اس کی زنبیل میں موجود ہے۔ یہ موسم سرما کے  جان لیو لمحات ہیں میرے کمرے میں اسٹوو کے جلنے کے باوجود سردی اپنا لوہا منوا رہی ہے، وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کمبل میں لپٹا کپکپا رہا ہوں ۔ نا قابل برداشت یخ بستگی کے پیش نظر جو چیز مجھے کمرے میں نظر آتی ہے میں اسے جسم سے لپیٹ لیتا ہوں ، مگر زندہ رہنے کا جذبہ میرے جسم کے اندر کی توانائی کو برقرار رکھتا ہے!

                ”میرے عزیز دوست ! جب بھی تمہیں شطرنج کھیلنے کا خیال آئے تمہیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ تمہارا مقابل گرگ باراں دیدہ ہو! میں بذات خود اپنے حریف کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ بسا اوقات تو میں   اس کی اختراع پسندی سے محظوظ   بھی ہوتا ہوں ۔ وہ دور، اپنے تیسرے یا شاید ساتویں آسمان کے دور افتادہ آفس میں براجمان ہمارے چھوٹے سے سیارے پر حکمرانی کرتا ہے۔ اس کے فرائض منصبی کا اہم ترین جزو ژاک کھون کو صید کرنا ہے۔ وہ مجھے کس طرح زندہ رکھتا ہے یہ ایک معجزہ سے کم نہیں۔ اندھیرے میں کانٹ (KANT) کے فلسفہ کے اجزائے ترکیبی بے عمل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ زمان و مکاں کا تصور مفقود ہو جاتا ہے۔ تم کوئی شے ہاتھ میں لیتے ہو اور اچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ غائب ہو گئی ہے۔ میرے گیس لیمپ کو جلانا آسان کام نہیں۔ ماچس کی ساری تیلیاں نہ معلوم کہاں گم ہو جاتی ہیں !

                "کچھ عرصے قبل آدھی رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں، میں نے اپنا دروازہ کھٹکھٹانے کے ساتھ ہی کسی عورت کی آواز سنی۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ چیخ رہی تھی کہ  ہنس رہی تھی۔ باہر کون ہو سکتا ہے؟ میں نے اپنے آپ سے کہا۔ میرے دریافت کرنے پر بھی دروازے پر دھما کے جاری پر   رہے۔ پھر میں نے کراہنے کی آواز سنی اور اس کے ساتھ ہی کوئی چیز دھم سے زمین پر گری۔ مجھ میں دروازہ کھولنے کی بالکل ہمت نہیں تھی۔ میں نے بدحواسی میں ماچس کو تلاش کیا اور بعد میں محسوس کیا کہ وہ تو میرے ہاتھ میں ہے۔ میں اپنے بستر سے اُٹھا ، جلدی سے گیس لیمپ کو روشن کیا۔ ڈرینگ گاؤن جسم پر لپیٹ کر جب میں پاؤں میں سلیپر ڈال رہا تھا تو عین اسی لمحے آئینے میں مجھے اپنی جھلک نظر آئی۔ میرے اپنے چہرے کے انعکاس نے مجھے خوفزدہ کر دیا۔ مجھے اپنا چہرہ گہر ا سبز دکھائی دیا۔ جس پر داڑھی اُگی ہوئی تھی۔ میں نے اپنے حوصلے کے بکھرتے ہوئے شیرازہ کو یکجا کیا اور بالآخر دروازہ کھول دیا ... میرے سامنے ایک کم عمر عورت ننگے پاؤں کھڑی تھی۔ اس کے جسم پر ٹائٹ گاؤن تھا جس پر اس نے سمور کی کھال کا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کا چہرہ زردیوں کی آماجگاہ تھااور اس کے سنہری بال بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے!

                ” مادام! خیریت تو ہے نا؟“ میں نے پوچھا۔

                " ابھی ابھی کسی نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔"  اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ ”میں تمہارے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ مجھے اندر آنے دو۔ بس صبح ہوتے ہی یہاں سے چلی جاؤں گی ۔“

میں پوچھنا چاہتا تھا کہ کس نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی ہے، مگر میں نے دیکھا کہ وہ نصف منجمد ہو چکی ہے اور پھر وہ نشے میں دھت بھی لگ رہی تھی۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تومیں نے دیکھا کہ اس کی کلائی میں ہیروں کا کنگن چمک رہا تھا؟“

                "میرا کمرہ گرم نہیں ہے۔"  میں نے اس سے کہا۔

                 " سٹرک پر مرنے سے یہ کہیں بہتر ہے۔"

                 " بس یوں حالات نے اتفاقی طور پر ہم دونوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیا کروں؟ میرے کمرے میں صرف ایک بستر تھا۔ اس محترمہ کے لیے فالتو بستر کا بندوبست ا کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا۔ میں شراب نہیں پیتا ہوں ، مگر مجھے یاد آیا کہ میرے ایک دوست نے کو نیاک (COGNAC) کی ایک بوتل مجھے بطور تحفہ دی تھی اور پھر اس وقت کچھ بسکٹ بھی میرے پاس تھے۔ شرف میزبانی حاصل کرنے کے لیے میں نے یہ چیزیں اس کے سامنے رکھ دیں ۔ شراب نے جیسے اسے از سر نو زندہ کر دیا تھا۔

                "ما دام ! کیا آپ کا قیام اسی بلڈنگ میں ہے؟“

                "نہیں! "نفی میں جواب دینے کے بعد اس نے مجھے اس جگہ کا پتا بتایا جہاں وہ رہتی تھی۔

                میں فوری سمجھ گیا کہ اس کا تعلق طبقہ امراء سے ہے۔ بات سے بات نکلتی ہے اور کچھ دیر کی گفتگو کے بعد مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ خاندانِ اشرافیہ کی ایک بیوہ ہے اور اس عمارت کے ایک فلیٹ میں اس کا محبوب قیام پذیر تھا۔ ایک وحشی مرد جس نے اپنے گھر شیر کے بچے پال رکھے تھے۔ وہ خود ایک اعلیٰ ترین خاندان سے متعلق تھا ، مگر ان دنوں اس کے اہلِ خاندان نے مکمل طور پر اس کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اقدام قتل کے جرم میں ایک بار وہ جیل بھی جا چکا تھا۔ چونکہ کم عمر خاتون اپنی ساس کے ساتھ رہتی تھی اور وہ وحشی مرد اس سے وہاں ملنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے بے تابی دل سے مجبور ہو کر اس رات وہ خود اس سے ملنے چلی آئی تھی۔ بہر حال خدا معلوم کیسے اس کا دماغ اچانک اُلٹ گیا تھا۔ پہلے تو اس نے خاتون کی بیدردی سے پٹائی کی پھر اس پر اچانک پستول نکال لیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کو جھانسہ دے کر وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ میرا دروازہ کھٹکھٹانے سے قبل کم عمر خاتون نے عمارت کے ہر دروازے پر اپنی قسمت کو آزمایا تھا، مگر کسی کا دروازہ وَ انہیں ہوا تھا !

                "مادام! "میں نے اسے مخاطب کیا ۔ ” آپ کا محبوب یقیناً آپ کی تلاش میں یہیں کہیں گھوم رہا ہوگا ۔ فرض کیجیے اسے یہ معلوم ہو گیا کہ آپ اس وقت میرے غریب خانے میں موجود ہیں؟ آپ خوب جانتی ہیں کہ میں کوئی خطاب یافتہ شخص نہیں ۔“

                "وہ ہنگامہ آرائی کی جرات نہیں کر سکتا ۔" اس کا تیقن آہنی تھا۔ ان دنوں وہ پیرول (PAROLE) پر جیل سے باہر ہے ۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ پھر بولی ۔

                "خدا را آج کی رات مجھے اپنی پناہ گاہ میں رہنے دو۔“ پھر وہ بڑ بڑانے لگی ۔ ”بس آج ہمارے درمیان سارے رشتے ٹوٹ چکے ہیں ۔“ کل آپ کس طرح گھر جائیں گی؟“ میں نے اس سے پوچھا۔

                 " مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ۔“ اس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔ بہر حال میں دیسے بھی اپنی زندگی سے بیزار ہو چکی ہوں ، مگر مجھے اس کے ہاتھوں مرنا قبول نہیں ہے۔“

                " کسی بھی حالت میں آج کی رات مجھے نیند نہیں آسکتی۔“ یہ میری آواز تھی ۔ ” آپ بےتکلف ہو کر میرے بستر پر استراحت فرمائیں، میں کرسی پر آرام کرلوں گا۔“

                 " نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔ تم نہ تو کم عمر ہو اور نہ ہی تمہاری طبیعت ٹھیک نظر آتی ہے۔ تم اپنے بستر پر واپس چلے جاؤ میں اسی جگہ ٹھیک ہوں ۔"

                "کچھ دیر کی حجت اور بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ ہم دونوں مشترکہ طور پر بستر کو استعمال کریں گے۔" میں نے ایک بار پھر اسے یقین دلایا۔

                ” میری عمر نے عورت کے باب میں مجھے مجبور محض بنا دیا ہے۔ "اور اس کے چہرے کے نقوش اس امر کے نماز تھے کہ میری بات پر اسے کامل یقین آگیا ہے۔

                "ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا ؟ یکلخت اعلیٰ ترین خاندان کی ایک کم عمر حسینہ میرے بستر پر میرے ساتھ موجود تھی۔ وہ زہرہ وش جو بہ امر اتفاقی وہاں پہنچ گئی تھی۔ باہر اس کا وحشی محبوب کسی بھی لمحے دروازہ توڑ کر کمرے میں داخل ہو سکتا تھا۔ اس خدشہ کے باوجود ایک لطیف احساس مجھ سے ہمکنا ر تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے روح میرے جسم سے اس کی سمت کھنچتی جا رہی ہو۔ چند لمحوں بعد میرے دونوں کمبلوں نے ہم دونوں کو مکمل طور پر ڈھک لیا تھا۔ شریانوں میں خون منجمد کرنے والی سردی کو میں قطعا ًفراموش کر چکا تھا۔ میرے ذہن کے گرد اس کی قربت کے مثبت احساسات کی بانہیں حمائل تھیں۔ اس کی نزدیکی اس کے شفاف جسم کی حرارت میرے اندران انجانے جذبوں کو جنم دے رہی تھی جن سے پہلے میں کبھی واقف نہ تھا اور تب اچانک میں نے سوچا میرا حریف کوئی نئی چال تو نہیں چل رہا ہے؟ میرے ساتھ کوئی نیا کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا ہے؟ ادھر کچھ عرصے سے میرے ساتھ کوئی نیا کھیل نہیں کھیلا گیا تھا اور پھر یکا یک میرے جسم کے اندھےکنویں میں سے ایک زور دار قہقہہ اُبھرا۔ میں بے اختیار ہو کر ہنستا رہا۔ چند لمحے بعد ہم دونوں ایک ساتھ نیم وحشیانہ انداز میں قہقہے لگا رہے تھے !!

                "اور تب میں نے خود فراموشی کے عالم میں اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ اس نے بلا تذبذب اور تامل خود کو کلیتاً میرے سپرد کر دیا تھا اور اسی لمحے اس دور کا سب سے بڑا حیرت انگیز اور نا قابل یقین معجزہ ظہور پذیر ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں پھر مکمل مرد بن چکا تھا !! اس نے خود کو میرے حوالے کیوں کر دیا تھا شاید میں اس سلسلے میں کبھی کچھ نہ جان سکوں گا۔ ممکن ہے اس کی اختراع پسند طبع نے اپنے محبوب کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر یہ اچھوتا طریقہ ایجاد کر لیا تھا۔ اس نے اپنے گرم بوسوں سے میرے رخساروں کو آتش دان بنا دیا۔ میرے کانوں میں اس کی سر گوشیاں ترنم ریز نغموں کی ہلکی ہلکی گونج بن کر اُبھر نے لگیں اور تب ہم نے باہر کسی کے بھاری قدموں کو تیز خرامی سے قریب آتے سنا۔ پھر کسی نے وحشیانہ انداز سے دروازے کو پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ بستر سے اچھل کر فرش پر جا گری اور میں دل ہی دل میں موت سے قبل کی دعائیں دہرانے لگا۔ میرے سامنے میرا خدا تھا۔ میرا از لی حریف جو تمسخرانہ انداز سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ آخر اسے مجھ کو لذت انگیز احساس تلذذ بخشنے کی کیا ضرورت تھی ؟ شاید یہ ایک ایسا میلو ڈرامہ تھا جس کی حد کا پہلے سے تعین ہو چکا تھا !!

                "وہ حیوان صفت سفاک دروازے کے پیچھے سے قیامت اُٹھاتا رہا۔ دروازے کی غیر متوقع توانائی پر میں دنگ رہ گیا۔ بے دردی سے پڑنے والی ٹھوکروں کے باوجود وہ اپنی جگہ ثابت قدمی سے کھڑا تھا۔ خوف میرے رگ وپے میں سرایت تھا، مگر اس کے باوجود میرے اندر کوئی شے مجھے ہننے پر مجبور کر رہی تھی اور پھر یکا یک طوفان کے بعد کاد بیز سناٹا چھا گیا۔ وہ جانور نما انسان جا چکا تھا !!

                 دوسرے دن صبح میں نے خاتون کے کنگن ایک جگہ رہن رکھ کر کچھ رقم حاصل کی۔ اس سے اپنی کمسن محبوبہ کے لیے مطلوبہ لباس خریدا۔ بہر حال وہ لباس اس کے جسم پر فٹ نہ آسکا۔ حتی کہ پیروں کے جوتے بھی اس کے سائز کے نہ تھے۔ اب اس کے سوا کچھ چارہ کار نہیں رہ گیا تھا کہ اسے اسی حالت میں ٹیکسی پر سوار کر دیا جائے ۔ یہ بات بہر حال طمانیت کا باعث تھی کہ وہ وحشی دوبارہ نظر نہیں آیا تھا !!

                رخصت ہونے سے قبل اس نے وفور جذبات سے مغلوب ہو کر مجھے خوب پیار کیا۔ مجھ سے دوبارہ ملنے کی خواہش ظاہر کی، مگر میں ایسا بے وقوف بھی نہیں تھا۔ تالمڈ (TALMUD)  کی بات مجھے یاد آ گئی۔ "معجزے کا ظہور روز روز نہیں ہوتا ۔"

                جس مقید اور دبے ہوئے جذبہ کا میں بڑھاپے میں شکار تھا۔ اس نے کافکا کو نو جوانی میں ژولیدہ خیالی کا مریض بنا دیا تھا۔ اس کی جنسی زندگی اور اس کی تحریروں پر اس کے پراگندہ اثرات مرتب ہوئے۔ اس کی محبت بھی اسی منفی جذبے سے متاثر ہوئی اور اس نے ہر شے سے فرار حاصل کرنے ہی میں اپنی سلامتی محسوس کی۔ اس نے جو کچھ لکھا، غیر مطمئن ہو کر اس پر خط تنسیخ کھینچ دی۔ وہ ایک شوریدہ سر جینیس(GENIUS) تھا۔

                دیانا میں ایک ملاقات کے دوران اس نے تناقض (DICHOTOMY) سے بھر پور ضرب المثل جملہ ادا کیا تھا۔ میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ "خدا نے بستر میں کھٹمل پیدا نہیں کیے۔ اس جملے کو سمجھنے کے لیے تمہیں ویانا کے کوائف سے آگاہی ضروری ہے۔ کھٹمل خدا نے پیدا نہیں کیے تو پھر کس نے پیدا کیے؟“

 

(۲)

                ہم کھانے میں مصروف تھے کہ بامبرگ (BAMBERG) ہماری میز پر آ گیا۔ وہ ایک چھوٹے قد کا نحیف و نزار شخص تھا جس کی ٹانگوں میں لڑکھڑاہٹ اور کمر میں ہلکی سی خمیدگی تھی۔ اس کی نوک دار کھوپڑی پر چند بچے کھچے سفید بال رہ گئے تھے۔ ایک آنکھ دوسری آنکھ کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی بڑی ہونے کے ساتھ ساتھ انگارے کی طرح سرخ اور اپنی ہی بصارت سے خوفزدہ سے معلوم ہوتی تھی۔ جھکی ہوئی کمر کو مزید جھکا کر اس نے اپناد بلا پتلا ہاتھ میز پر رکھ دیا۔

                "ژاک ! کل میں نے تمہارے کا فکا کا قلعہ (CASTLE) پڑھا۔ دلچسپ بے حد دلچسپ ! مگر وہ کہنا کیا چاہتا ہے؟ خواب تو اتنے طویل نہیں ہوتے !! ALLEGORIES کو تو مختصر ہونی چاہییں !!

                ژاک کھون نے عجلت کے ساتھ نوالے کو نگل لیا۔

                " بیٹھ جاؤ ۔" وہ بولا ۔ "ایک چابک دست اُستاد کو قواعد کی تقلید کی ضرورت نہیں ہوتی ۔“

                "چند قاعدے ایسے ہوتے ہیں جن کا اُستاد بھی مقلد ہوتا ہے، یہ بامبرگ کا جواب تھا کسی بھی ناول کو جنگ اور امن (WAR AND PEACE) سے زیادہ ضخیم نہیں ہونا چاہیے حالانکہ یہ ناول بھی ضرورت سے زیادہ طویل ہے۔ اگر انجیل کی اٹھارہ جلدیں ہوتیں تو وہ کبھی کی فراموش کر دی جاتیں۔"

                "تالمڈ (TALMUD) کی چھتیں جلدیں ہیں اور یہودی انہیں ہنوز نہیں بھولے۔“

                "یہودیوں کو بہت کچھ یاد رہتا ہے۔ یہ ان کی بد قسمتی ہے۔"  بامبرگ نے برجستہ کہا۔ "ارضِ مقدس سے نکالے ہوئے ہمیں دو ہزار سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، مگر اس کے باوجود ہم سوچتے ہیں کہ ایک دن مراجعت یقینی ہے۔ کیا یہ سراسر پاگل پن نہیں؟ کاش ہمارا ادب بھی اس دیوانگی کا برملا اظہار ہوتا، مگر افسوس ہمارا ادب اس ضمن میں پُر اسرار اور غیر ارضی طور پر دیوانہ پن کا شکار ہے۔"

                بامبرگ نے اپنی کمر کو سیدھا کرنے کی کوشش کی اور یکا یک جھول سا گیا۔ پھر اپنے ننھے ننھے قدموں کو گنتے ہوئے وہ میز سے اُٹھا اور گراموفون پر ڈانس کا ایک ریکارڈ لگایا۔ ادیب کہلانے کے   باوجود ادیبوں کی انجمن میں یہ بات زبان زد عام و خاص ہے کہ بامبرگ کو کچھ لکھے ہوئے برسوں گزر چکے ہیں اور اب پیرانہ سالی میں وہ ڈانس سیکھنے کی کوشش میں بڑا سنجیدہ نظر آتا تھا۔ اپنے دوست ڈاکٹر مٹر کن (MITZKIN) کی کتاب کے مطالعہ کے بعد اسے یہ شوق چرایا تھا۔ اپنی اس تصنیف میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ انسانی فراست دیوالیہ پن کا شکار ہے اور جذبات کے ذریعہ ہی حقیقی دانشمندی تک پہنچا جا سکتا ہے!

                ژاک نے پُر خیال انداز میں اپنا سر ہلایا۔

                "آدھا ہیملٹ (HAMLET)!!   کا فکا با مبرگ بنے کے تصور سے خائف تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس نے خود کو شکست وریخت کی آغوش میں پہنچا دیا۔“

                "اس کم عمر خاتون نے تم سے دوبارہ ملاقات کی؟“ میں نے ژاک سے پوچھا۔

                "اور اگر اس نے ملاقات کی بھی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ژاک نے فوری اپنی جیب سے یک چشمی عینک نکال کر اپنی آنکھوں پر رکھ لی ۔ میری زندگی میں ہر چیز بالآخر لفظوں میں متبدل ہو جاتی ہے۔ صرف باتیں صرف الفاظ ! اور یہی تو ڈاکٹر مٹر کن (MITZKIN) کا فلسفہ ہے۔ انسان آخر کار باتوں کی مشین بن کر رہ جائے گا۔ وہ الفاظ کھائے گا۔ الفاظ پیئے گا۔ الفاظ سے شادی کرے گا اور الفاظ ہی کے ذریعہ اپنے آپ کو زہر دے گا۔ ہاں اس بورژوا خاتون نے بارہا مجھے پیغام بھجوائے ۔ وہ ذہین ہے، مگر ذہانت سے کلی طور پر عاری۔ در حقیقت عورتیں اپنی بہترین کاوشوں سے اپنے جسموں کی سحر آفریں لطافتوں کو اُجا گر تو کرتی ہیں، مگر ذہانت کی طرح جنس کے معاملے میں بھی وہ آدھی پیدل ہوتی ہیں !!

                ایک لمحہ کے توقف کے بعد ژاک کی زبان پھر حرکت میں آگئی۔

                "کافکا یہودی بننا چاہتا تھا، مگر اسے معلوم نہ تھا کہ یہ کارنامہ وہ کیسے انجام دے، وہ پھر پور زندگی گزارنے کا خواہش مند تھا، مگر کیسے؟ اس کے متعلق بھی اسے کچھ پتا نہ تھا۔“

                "فرانز!"  ایک بار میں نے اس سے کہا۔ ” تم نو جوان ہو۔ جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔“ پراگ (PRAGUE) میں ان دنوں ایک قحبہ خانہ تھا۔ میں نے اسے وہاں چلنے کی ترغیب دی۔ وہ ہنوز ناکتخدا دوشیزہ کی طرح پاک دامن تھا۔ اس موقع پر بہتر یہی ہے کہ میں اس لڑکی کی بابت کچھ نہ کہوں جو کافکا کی منگیتر رہ چکی تھی۔ وہ بورژوائی دلدل میں گردن تک ڈوب چکا تھا۔ اس کے سارے واقف کار یہودیوں نے غیر یہودیوں کے نصب العین کو اپنا آدرش متصور کر لیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ میں نے اسے اس مہم جوئی کے لیے آمادہ کر ہی لیا۔ ہم تنگ اندھیاری گلیوں سے گزرتے ہوئے قحبہ خانہ تک پہنچ گئے ۔ ایک عمارت کی سیڑھیاں طے کرنے کے بعد جب میں نے دروازہ کھولا تو ایک عجیب سا منظر ہمارے رو برو تھا۔ طوائفیں، پیشہ ور دلال ، شوقین مرد اور عورتیں۔ ایک بھیڑی ہمارے سامنے جنسی سودے بازیوں میں مصروف تھی۔ وہ لمحہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اچانک کافکا کا جسم بید مجنوں کی طرح لرز نے لگا۔ اس نے بڑی مضبوطی سے میرے آستین کو پکڑ کر کھینچا۔ پھر نہ جانے یکا یک اسے کیا ہوا کہ وہ مجنونانہ انداز میں پلٹ کر زقند یں بھرتا ہوا سیٹرھیوں سے نیچے اتر نے لگا۔ خوف نے مجھے منجمد سا کر دیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ گر کر اپنی ٹانگ نہ توڑ لے۔ گلی میں پہنچ کر وہ رکا اور بے اختیار الٹیاں کرنے لگا۔ واپسی پر جب ہم دونوں مقدس معبد کے قریب سے گزرنے لگے تو کافکا نجات کی دعائیں  منہ ہی منہ میں دہرا رہا تھا۔

                "ہاں یہ سب شطرنج کا کھیل ہے۔ ساری زندگی موت مجھے خوفزدہ کرتی رہی، مگر اب جبکہ میں موت کی دہلیز پر اپنا قدم رکھ چکا ہوں تو نہ معلوم وہ سارا خوف کہاں جا کر سو گیا ہے۔ میرا حریف آہستہ روی سے کھیلنے کا عادی معلوم ہوتا ہے۔ میرا مکمل شیرازہ بکھیرنے سے قبل وہ میرے وجود کو ریزه ریزه منقسم کر رہا ہے۔ پہلے اس نے اسٹیج کے افق پر میری اداکاری کے سورج کو غروب کیا اور پھر نام نہاد اہل قلم بنا کر مجھے رسوائے زمانہ کیا۔ جب قلم کی نوک ٹوٹ گئی تو اس نے مجھ پر ایک اور کاری ضرب لگائی اور میں اپنی مردانگی سے مکمل طور پر محروم ہو کر رہ گیا، مگر میں خوب جانتا ہوں کہ شطرنج کی بساط ابھی الٹی نہیں ہے۔ ہنوز اس نے بازی مات ہونے کی شہ نہیں دی ہے اور یہی چیز میری تقویت اور توانائی کا ذریعہ ہے۔ سردی موت کا احساس بن کر میرے کمرے میں موجود ہے۔ خیر یہ میرے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ رات کو کھانے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں۔ اس کی بھی مجھے پروا نہیں۔ ظاہر ہے یہ چیز میری فوری موت کا سبب نہیں بن سکتی۔ بات صرف اتنی ہے کہ میرا حریف مجھے سبوتاژ کر رہا ہے اور میں اسے سبوتاژ کر رہا ہوں۔“

                ژاک معذرت کرتا ہوا اُٹھا کہ فون پر وہ کسی سے بات کرنا چاہتا ہے۔ میں وہیں بیٹھا اردگرد نظریں دوڑاتا رہا۔ بامبرگ ایک ادیبہ کے ساتھ رقص کرتا ہوا اپنی لڑکھڑاتی ٹانگوں کو زمیں بوس ہونے سے بچانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کا سر اپنی ہم رقص کے سینے پر یوں جھکا ہوا تھا جیسے وہ کوئی تکیہ ہو ! معلوم یوں ہوتا تھا کہ جیسے وہ بیک وقت ڈانس بھی کر رہا ہوا اور سو بھی رہا ہو! ژاک کافی دیر تک غائب رہا۔ فون پر بات کرنے میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے کہیں زیادہ دیر تک وہ غائب رہا۔ جب وہ واپس لوٹا تو اس کی یک چشمی عینک کے پیچھے اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں !!

                "ذرا بو جھو تو دوسرے کمرے میں کون ہے؟“ اس نے پوچھا ” مادام شیک (TSCHISSIK) کافکا کی عظیم یادگار محبت !“

                "کیا واقعی !“

                "میں نے تمہار ا غائبانہ تعارف کرا دیا ہے۔ چلو میں تمہیں اس سے متعارف کرائے دیتا ہوں۔"

                "نہیں!"

                "کیوں نہیں؟ وہ عورت جس کی محبت میں کافکا گرفتار رہا تھا یقینا ًملنے کے قابل ہے۔“

                  ” مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ۔“

                 " تم بہت شرمیلے ہو ۔ بالکل کافکا کی طرح ۔ شرم مجھے چھو کر بھی نہیں گزری اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں ناکارہ  ہی رہا۔ میرے عزیز دوست مجھے چوکی داروں کی ادائیگی کے لیے مزیدبیس گروشین ( پولش کرنسی کا نام) کی ضرورت ہے۔ دس تو یہاں کے چوکیدار کو ادا کرنے ہیں اور دس اپنی عمارت کے چوکی دار کو۔ اس رقم کی ادائیگی کے بغیر میرا گھر میں داخلہ ممکن نہیں۔“

                میں نے جیب سے کچھ رقم نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دی۔

                "اتنی زیادہ رقم ؟! تم نے آج یقیناً کسی بینک کو لوٹا ہوگا! چھیالیس گروشین! واہ واہ کیا بات ہے ! بہت خوب! اگر کوئی خدا ہے تو وہ تمہیں اس کا اجر دے گا اور اگر نہیں ہے تو پھر ژاک کے ساتھ یہ نت نئے کھیل کون کھیل رہا ہے؟“

 

(انگریزی سے ترجمہ )

“A Friend of Kafka” by Isaac Bashevis Singer

کتاب : زندہ زبانوں کا ادب (تراجم)

انتخاب و ترجمہ : ناصر بغدادی

کتاب کی خریداری کے لیے رابطہ کریں۔

03122306716

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق