افسانہ نمبر 680 : سرخ لنگی || افسانہ نگار : بانو مشتاق (انڈیا ) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق
افسانہ نمبر 680 : سرخ لنگی
افسانہ نگار : بانو مشتاق (انڈیا )
اردو ترجمہ : حنظلة خلیق
موسم گرما کی تعطیلات میں ماؤں کو کیا کیا مصیبتیں نہیں جھیلنی پڑتیں، سارے بچے گھر میں ہوتے ہیں۔ جب وہ ٹی وی کے سامنے نہیں ہوتے، تو اس لمحے یا تو سامنے کے صحن میں امرود کے درخت پر چڑھ رہے ہوتے ہیں یا احاطے کی دیوار پر بیٹھے ہوتے ، کیا ہوگا اگر ان میں سے کوئی گر جائے اور اس کا بازو یا ٹانگ ٹوٹ جائے؟ پھر ان کا رونا دھونا، ہنسنا، ایک دوسرے کو سزا دینا… رضیہ کے سر درد اسی وجہ سے گرمیوں کی چھٹیوں میں بڑھ جاتے تھے۔ اس کی کنپٹیوں میں درد ہوتا تھا، اس کا دکھتا سر بھاری ہو کر پھٹنے لگتا ، اور ایسا لگتا جیسے اس کی گردن کے پچھلے حصے کی رگیں کسی بھی لمحے بے جان ہو جائیں گی۔ بچے ایک کے بعد ایک اپنی شکایات لے کر آتے، روتے چلاتے… اور پھر ان کے کھیل… ابّابابابےبے… تلواروں اور مشین گنوں سے لڑائیاں، بم حملے…!
وہ سوچ میں پڑ گئی، بس بہت ہو گیا، اور ہال میں ایک کپڑے کو اپنے سر کے گرد لپیٹ کر دیوان پر لیٹ گئی۔ وہ شور برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ ٹی وی چل رہا تھا، اگرچہ کم آواز میں ہی ۔ اس نے بچوں کو سختی سے خبردار کیا تھا، اسے ابھی آرام کرنے اور اپنے پاؤں اوپر رکھ کر پھیلانے کی امید سجھائی دی ہی تھی کہ ان میں سے ایک چیخا، "دداما… دداما، وہ مجھے چٹکی کاٹ رہی ہے!"رضیہ غصے میں، خاموشی سے ان کو کوستی ہوئی اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔
جب وہ سوچ رہی تھی کہ ، یہاں پہلے ہی چھ بچے ہیں۔ ہر دیور کے دو دو… تین تین… اور وہ سب چھٹیوں کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اور میری دو چھوٹی بہنوں کے بچے بھی یہاں ہیں—خدا کے لیے، میں کیا کروں! تو اس کے شوہر، لطیف احمد، کمرے میں داخل ہوئے، اپنی بیوی کی حالت دیکھ کر وہ ہوشیار ہو گئے۔ اسے ہمیشہ سے بچوں سے الرجی تھی۔ شروع میں تو خوفناک سر درد ہوتے تھے، اور شور مچاتے بچے زخم پر نمک چھڑکتے تھے… اس نے آنکھ کے کونے میں بے بسی سے ان کی طرف دیکھا، اور ذہن میں گنتی کی… ایک، دو، تین، چار… کل اٹھارہ، سب تین سے بارہ سال کے درمیان۔
اس سے پہلے کہ رضیہ کچھ کہتی، لطیف احمد نے انھیں ڈانٹا: "اے، چپ چاپ بیٹھ جاؤ، تم سب—جو بھی شور مچائے گا اسے کچھ نہیں ملے گا!" حسین کھیت سے آموں کی ٹوکری لے کر آیا۔ جیسے ہی بچے چیخے اور ٹوکری پر جھپٹے، تو اس وقت لطیف احمد کی باری تھی کہ وہ بھی سٹپٹا جاتے۔ اس نے اپنی بیوی کو ایک اداس نظر سے دیکھا اور باتھ روم کی طرف چل پڑا۔ اپنا سر درد برداشت نہ کرتے ہوئے، رضیہ نے پہنچ میں آنے والے ایک یا دو بچوں کو پکڑا اور انھیں مارا، پٹاپٹاپٹا… گرمیوں میں نہ ختم ہونے والے عذاب کے امکان نے اسے فیصلہ کرنے پر مجبور کیا کہ ان میں سے کم از کم کچھ کے لیے بستر پر آرام کا انتظام کیا جائے۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا۔۔۔۔۔ ختنہ!! وہ ختنہ کروائے گی۔اس کے حساب کے مطابق، اٹھارہ بچوں میں سے آٹھ لڑکیاں تھیں، اس لیے انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔ باقی دس میں سے چار کی عمریں جفت عدد تھیں—چار، چھ، آٹھ—اس لیے ان چھوٹے شیطانوں کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔ بغیر کسی احتجاج کے، لطیف احمد نے باقی چھ کا ختنہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
ان کا خاندان ضلع مرکز کے امیر گھرانوں میں سے ایک تھا۔ اگرچہ لطیف احمد کے چاروں چھوٹے بھائیوں کی سرکاری نوکریاں تھیں اور وہ کہیں اور رہتے تھے، لیکن خاندان کی رسومات ان کے بڑے بھائی کے گھر میں منعقد کی جاتی تھیں۔ رضیہ نے ان کی عمدہ میزبانی کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے کسی خرچے میں کمی نہیں کی۔ اس کے علاوہ، وہ خوش تھی کہ ختنہ کیے جانے والے چھ لڑکوں میں سے دو اس کی چھوٹی بہنوں کے بیٹے تھے۔
اس کی نگرانی میں تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کئی میٹر سرخ الوان کپڑا خریدا گیا۔ بچوں نے اپنی ددوما کے ساتھ مل کر انتظامات کیے۔ رضیہ نے لنگیوں کے لیے کپڑا ناپ کر کاٹا۔ لڑکیوں کو بہت کام کرنا تھا جیسے : لنگیوں پر رنگ کرنا اور ان پر مکیش اور زری لگانا۔ چھ لڑکوں کے لیے لنگیاں بنانے کے بعد، کافی کپڑا بچ گیا، جس پر رضیہ سوچنے لگی کہ رول کے باقی حصے کا کیا کرے۔ اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ "ارے، باورچی! آمنہ کے بیٹے عارف کا کیا ہوگا؟ اور ہمارے فارم ورکر کا بیٹا فرید بھی ہے… درحقیقت، کیوں نہ ہم غریب خاندانوں کے کچھ اور بچوں کا بھی ختنہ کروا دیں؟" یہ سوچ کر وہ فوراً کام پر لگ گئی۔
شہر میں جامع مسجد اور مسجد نور سمیت پانچ مساجد تھیں۔ تمام پانچ مساجد کے سیکرٹریوں نے جمعہ کی نماز کے بعد اعلانات کیے: " لطیف احمد صاحب نے خدا کے حضور نذرانے کے طور پر، اگلے جمعہ کو نماز کے بعد اجتماعی سنت ابراہیمی کا انتظام کیا ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کی شرکت کروانا چاہتے ہیں وہ پیشگی رجسٹریشن کروائیں۔"
وہ صرف ختنہ کا لفظ استعمال کر سکتے تھے، لیکن اسٹیج پر مائیکروفون کے ساتھ عوامی اعلان رسمی ہونا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں ایک جشن تھا۔ اس کا مطلب ایک ہی تھا: ایک اجتماعی تقریب جس میں بچوں نے تہوار کی توقع کی تھی اور پھر آخر میں چیخنے لگے۔
سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوا۔ کئی غریب خاندانوں نے اپنے لڑکوں کا اندراج کروایا۔ رضیہ نے ایک کے بعد ایک لنگی بنائی۔ اس کے خاندان کے بچوں کو چمکدار مکیش اور زری والی لنگیاں ملیں، جبکہ دوسروں کو سادہ ہی مل سکیں۔ اس کے بیٹے عبدالصمد کی لنگی پر اتنی مکیش تھی کہ کپڑے کا رنگ بتانا ناممکن تھا۔ گندم اور کھوپرا کے بورے جمع کیے گئے، بادام، کشمش، کھجوریں اور گائے کے دودھ سے بنا گھی خریدا گیا۔ کچھ بچے عجیب طور پر بے چین اور گھبرا رہے تھے، لیکن ایک تہوار کا ماحول تھا، اس لیے باقی سب خوش تھے۔ کسی کو معلوم ہونے سے پہلے ہی، جمعہ آ گیا۔ دوپہر کی نماز ختم ہونے کے بعد، لطیف احمد نے جلدی سے کھانا کھایا اور ایک مسجد کے ساتھ والے احاطے میں چلا گیا۔ بہت سے لوگ جمع تھے؛ ختنہ کروانے والے بچے اور ان کے والدین ایک قطار میں کھڑے تھے۔ نوجوانوں کی ایک فوج رضاکاروں کے طور پر موجود تھی، ان سب نے سفید شلوار اور جبّے پہنے ہوئے تھے، کچھ نے سفید ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں یا پھر سفید کپڑے اپنے سروں کے گرد لپیٹے ہوئے تھے۔ وہ جمعہ کی نماز سے پہلے نہا کر تازہ دم اور صاف ستھرے لگ رہے تھے۔ کچھ نے اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا تھا اور خود کو آزادانہ طور پر خوشبو سے معطر کیا تھا۔ ہوا میں ایک خوشگوار مہک تھی۔
ختنہ قریبی مدرسہ کے اندر کیا جانا تھا۔ ابراہیم نائی ، جو ایک پہلوان کی طرح مضبوط تھا، آج کا سب سے اہم شخص تھا۔ اس کے ڈولے اس کے سفید ململ کے جبّے کے نیچے پھولے ہوئے تھے۔ اگرچہ ختنہ کرنا اس کا خاندانی پیشہ تھا، لیکن باقی وقت وہ صرف حجام تھا۔ وہ بڑے ہال کے ایک کونے میں اپنی تیاریاں کرنے میں مصروف تھا۔ اس نے تقریب کا آعاز ادھار لی گئی ایک کانسی کی گھڑولی کو الٹا رکھ کر شروع کیا۔ جمعے سے پہلے رضیہ نے آمنہ سے کہا تھا کہ وہ اسے چمکانے کے لیے دو بار املی کے رس سے رگڑے۔ الٹے برتن کے سامنے باریک چھنی ہوئی راکھ سے بھری ایک پلیٹ رکھی تھی۔
ابراہیم نے انتظامات کا جائزہ لیا یہاں تک کہ وہ مطمئن ہو گیا۔ وہ اس معاملے میں انتہائی تجربہ کار تھا۔ کہا جاتا تھا کہ جب وہ چاقو نیچے لاتا ہے تو ختنہ بالکل ٹھیک ہوتا ہے اور بغیر کسی انفیکشن کے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کی ایسی ہی شہرت تھی۔ ہال کے ایک اور کونے میں، نوجوانوں کے ایک گروپ نے ایک بڑا جم خانہ بچھا دیا تھا، اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ چٹائی کی جھریاں ہموار ہوں۔ ابراہیم نے ایک بار پھر سب کچھ چیک کیا، اور پھر آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک شیو کرنے والا استرا نکالا، اسے اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر پھیر کر حکم دیا، "انھیں ایک ایک کر کے اندر لانا شروع کرو!!"
عباس، جو رضاکارانہ خدمات سرانجام دینے کے لیے اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا، اس کے چہرے پر بے چینی کے آثار تھے، وہ خود کو یہ کہنے سے نہ روک سکا، "اگر آپ مجھے استرا دے دیں تو میں اسے گرم پانی میں ڈال کر جراثیم سے صاف کر سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اس میں تھوڑا سا ڈیٹول بھی شامل کر سکتے ہیں۔" ابراہیم نے عباس کی طرف دیکھا— اسے احساس ہوا کہ یہاں کوئی ایسا شخص ہے ،، جس نے کالج کے مراحل طے کیے تھے۔ اس نے حقارت سے عباس کی طرف دیکھا اور طنزیہ انداز میں پوچھا کہ کیوں؟ ، "تا کہ جراثیموں سے بیماری کا کوئی امکان نہ رہے…" خجل سا ہو کر آخر ، عباس خاموش ہو گیا۔ لیکن ابراہیم ابھی چپ نہیں ہوا تھا، اس نے بے پرواہی سے پوچھا کہ کیا اسے ایسا کوئی انفیکشن ہوا ہے؟، جس پر عباس کے دوستوں نے قہقہے لگائے، کھی کھی کھی… ان پر ناراض ہو کر عباس نے جھنجھلا کر کہا—"تم سب غیر مہذب ہو"—اور چلا گیا۔
ابراہیم فاتحانہ انداز میں مسکرایا اور ایک بار پھر پکارا، "آؤ، ایک ایک کر کے اندر آؤ !!"
باہر موجود رضاکاروں نے لڑکوں کو زیر جامہ اتارنے کا حکم دیا۔ قطار میں سب سے آگے عارف تھا، جو تیرہ سال کی عمر میں تقریباً جوان ہو چکا تھا۔ اگرچہ لڑکوں کا عموماً نو سال کی عمر سے پہلے ختنہ کر دیا جاتا تھا، لیکن اس کی ماں، آمنہ کے پاس پیسے نہیں تھے۔ جب عارف نے اپنی شلوار اتارنے کے بعد اپنی قمیض کھینچی تو سارے تماشائی ہنس رہے تھے ۔ایک جوان جو اپنی ہنسی کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا، اس نے عارف کو ہلکا سا تھپڑ مارا اور اسے اندر دھکیل دیا۔
پانچ یا چھ لوگوں نے عارف کو کانسی کی گھڑولی پر بٹھایا۔ وہ پوری طرح سے الجھن میں تھا، اور اس سے پہلے کہ وہ بتا پاتا کہ کیا ہو رہا ہے، مضبوط بازوؤں کا ایک جوڑا نمودار ہوا اور اس کی بغلوں کے نیچے پہنچ گیا۔ ہاتھوں نے اس کی رانوں کو جکڑ لیا اور اس کے پیروں کو الگ کر دیا۔ جیسے ہی وہ خوف سے چیخا، دو اور آدمیوں نے اس کے بازوؤں کو اس کی پشت کے پیچھے باندھ دیا۔ عارف کا دل دھڑک رہا تھا، اور وہ فرار ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اسے نیچے بٹھانے والے لوگ زیادہ ہوشیار اور مضبوط تھے۔ انھوں نے اسے ہلنے کی بھی جگہ نہیں دی۔ عارف نے خود کو آزاد کرنے کی پوری کوشش کی، اور وہ چیخ چیخ کر بے حال ہو گیا: "چھوڑ دو، مجھے جانے دو، ایو… امّاں… اللّٰه!" گویا اس رد عمل کی توقع تھی، تین یا چار آدمیوں نے اسے ڈانٹنے کے لیے کہا: "اے، تمھیں اس طرح نہیں چیخنا چاہیے، کہو: ''سنت !! سنت !!" سانسوں کے درمیان عارف نے دہرایا، "سنت… سنت… اللہ… اللہ… امّاں… ایو…"
جب یہ ڈرامہ چل رہا تھا، ابراہیم نے سکون سے بانس کی ایک پٹی کو کاغذ کی طرح پتلا کاٹ کر عارف کے عضو تناسل سے جوڑ دیا، اور اس طرح جگہ بنائی کہ جس میں سے صرف اگلی جلد سامنے لٹکی ہوئی تھی۔ ایک آدمی نے عارف کا چہرہ دوسری طرف کر دیا اور کہا، "بول رے، لڑکے، کہو 'سنت ، ' جلدی کہو، جلدی!"۔ سنت کے لفظ کا مطلب "ایمان" سے لے کر "دھرم" تک کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے کسی بھی معنی کو جانے بغیر ہی، عارف نے اپنے پھیپھڑوں سے چیخ چیخ کر کہا، "سنت! سنت!" اس کی زبان خشک ہو گئی، اس کی کمر پر پسینہ ٹپکنے لگا، اور اس کے جسم میں گرمی کی ایک لہر دوڑ گئی جبکہ اس کے بازو اور ٹانگیں خوف سے ٹھنڈے پڑ گئے۔ ایک آخری بار، اس نے خود کو آزاد کرنے کی ناکام کوشش کی۔
"کیوں، لڑکے؟" ایک رضاکار نے اس کے پیروں کو نیچے دبائے ہوئے کہا۔ "مجھے جانے دو، مجھے جانے دو، مجھے پیشاب کرنا ہے،" اس نے التجا کی، مگر پھر وہ صرف یہی بول سکا تھا :ـــــ "ایک منٹ میں!!"ـــــــ کہ انھوں نے اسے اور سختی سے پکڑ لیا۔ ابراہیم نے استرا نکالا جو اس نے اپنی پشت کے پیچھے چھپا رکھا تھا اور اسے ایک ہی حرکت میں عارف کے عضو تناسل کے سرے پر پھیر دیا۔ اگلی جلد راکھ کی پلیٹ پر گر گئی۔ زخم سے خون بہنے لگا۔ ابراہیم نے آہستہ سے کٹ پر کچھ راکھ چھڑکی، جس سے خون کا بہنا بند ہو گیا۔ عارف کا چہرہ زرد تھا، اور وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس کی سسکیاں وقفے وقفے سے جاری تھیں۔ دو نوجوانوں نے اسے بے رحمی سے اٹھایا اور ہال کے ایک کونے میں فرش پر لٹا دیا۔ ٹھنڈے پلستر نے اس کے کولہوں کو کچھ راحت فراہم کی، لیکن پھر بھی جلن کا درد تھا…
کچھ نوجوانوں نے ایک اور لڑکے کو پکڑا اور اسے گھسیٹ کر ابراہیم کے پاس لے گئے۔ عباس نے عارف کو کچھ پانی پلایا اور اسے پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔ ایک آواز آئی، "سنت… سنت…" عارف نے اپنا پیٹ پکڑا اور درد سے کراہنے لگا جب کہ ایک اور لڑکے کو اس کے ساتھ ہی ایک چٹائی پر لٹایا گیا۔
"سنت… سنت…" چیخیں مختلف آوازوں میں جاری رہیں۔ ہر طرف جسم تکلیف میں تڑپ رہے تھے۔ شدید درد کے باوجود، عارف کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس پر نیند طاری ہو گئی—اور پھر، اچانک ہی، وہ دوبارہ جاگ گیا۔ دو تین بار نیند میں ڈوبنے اور باہر آنے کے بعد، وہ گہری نیند میں ڈوبنے ہی والا تھا کہ کسی نے اسے آہستہ سے ہلایا۔ اگرچہ اسے ابھی بھی درد ہو رہا تھا، لیکن اب وہ ناقابل برداشت نہیں تھا، اور اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولیں۔ عباس ہمدردی سے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ "عارف، کیا تم چل سکتے ہو؟" اس نے پوچھا۔ "دیکھو، تمھاری ماں یہاں ہے۔" اس کی ماں، ایک تاری برقعے میں ملبوس، نہ تو مردوں کی نظروں کے سامنے آ سکتی تھی اور نہ ہی اپنے بیٹے کو اس حالت میں اکیلا چھوڑ سکتی تھی۔ اس نے دروازے کے دوسری طرف سے جھانکا۔ اپنی ماں کے دھندلے برقعے کو دیکھ کر عارف کو طاقت کا احساس ہوا۔ عباس کی مدد سے، وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوا اور آہستہ آہستہ باہر کی طرف لڑکھڑاتا ہوا چلا گیا۔
دروازے میں ایک اسٹول پر بیٹھے لطیف احمد نے اسے ایک تھیلا دیا۔ عارف نے دیکھا کہ اس میں کچھ گندم، کھوپرا کے دو ٹکڑے، چینی کا ایک پیکٹ، اور پلاسٹک میں لپٹا ہوا مکھن تھا… اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔
داخلی دروازے کی دہلیز پر کھڑا ایک لڑکا لڑکھڑا گیا ، جب وہ رونے لگا تو عارف ایک سپر ہیرو کی طرح اپنے پورے قد پر کھڑا ہو گیا، اور اس کو آواز دی ، "او… سبحان، ڈرو مت… 'سنت'—بس 'سنت' کہو… تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔" وہ ایک تجربہ کار بن چکا تھا۔
آمنہ نے عارف سے تھیلا لیا اور اسے باہر برآمدے میں بیٹھنے کو کہا۔ اس نے احتیاط سے اپنے آپ کو نیچے اتارا اور اپنے پیروں کو اس طرح پھیلایا کہ اس کی لنگی زخم کو نہ چھوئے۔ قطار میں کھڑے ایک لڑکے نے زور سے پوچھا، "ابے ، عارف… کیا درد ہو رہا ہے؟" درد کے ہر احساس کو چھپاتے ہوئے ، عارف نے جواب دیا، "نہیں، بالکل نہیں، کانو!! ذرا بھی درد نہیں ہو رہا۔"
قریب ہی کھڑے ایک داڑھی والے ادھیڑ عمر آدمی نے اسے سنا اور کہا، "شاباش، بیٹا۔ یہ لو، اس سے اپنا خیال رکھنا،" اور اسے پچاس روپے کا نوٹ دیا۔ انتظار کرنے والے تمام لڑکوں نے حسد سے عارف کی طرف دیکھا۔ اندر چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ "دین… سنت… ایو… اللہ…" ایک اور لڑکے کو اندر دھکیل دیا گیا۔
لڑکے ایک ایک کر کے اندر جاتے رہے، ہر ایک تھوڑی دیر بعد سرخ لنگی میں برآمد ہوتا تھا۔
یہ سب اسی طرح جاری تھا کہ اس دوران ایک عورت نمودار ہوئی۔ دبلی پتلی، گہری آنکھوں والی، ایسا لگتا تھا کہ اس کے کولہے نہیں ہیں، مگر پھر بھی وہ اپنے بچے کو ایک پر ٹکائے ہوئے تھی۔ ایک پیوند لگا ہوا بلاؤز اس کی پھٹی ہوئی ساڑھی کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ وہ عورت اپنے پیچھے چھ یا سات سال کے لڑکے کو گھسیٹ رہی تھی۔ لڑکا مسلسل تڑپ رہا تھا، لیکن اس کی گرفت مضبوط تھی۔ اس کی چیخیں دل دہلا دینے والی تھیں۔ عورت نے اپنی پھٹی ہوئی ساڑھی کا پلو اپنے سر پر کھینچنے کی کوشش کی، لیکن اس عمل میں، یہ اور بھی کھل گئی۔ ایک ایسی آواز میں جو اسے خود بھی بمشکل ہی سنائی دے رہی تھی، اس نے کہا، "بھیا…!!" باتوں میں مشغول، لطیف احمد کو مڑ کر پوچھنے میں ایک لمحہ لگا، "کیا بات ہے، مائی؟"
لڑکا زور سے رونے لگا۔ "میں چاہتی ہوں کہ اس کا بھی ختنہ ہو، بھیا!! ،" عورت نے التجا کی۔ "نہیں، نہیں، میں نہیں چاہتا!" لڑکا چیختے ہوئے بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس کی ماں نے اس کا بازو مضبوطی سے پکڑا۔ اس کشمکش میں، اس کی ساڑھی کے پلو سے بنا گھونگھٹ اس کے سر سے سرک گیا۔ اس کا سوکھا ہوا پیٹ، ابھری ہوئی ہنسلی کی ہڈی، دھنسی ہوئی آنکھیں اور خستہ حال بلاؤز لطیف کو سخت پریشان کر گئے۔ اس نے نگاہیں چُرا کر زمین کی طرف دیکھا اور لڑکے کو ڈانٹا: "اے، چپ کھڑے رہو۔ کیا تم دین کا حصہ نہیں بننا چاہتے؟ ختنہ کے بغیر تم اسلام میں شامل نہیں ہو سکتے۔ کیا تم یہی چاہتے ہو؟" سسکیوں کے درمیان لڑکے نے سچ اُگل دیا: "میرا ختنہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے۔"
اس کی ماں، مضطرب ہو کر، فوراً بولی، "لیکن یہ ٹھیک سے نہیں ہوا تھا، بھیا… اس بار یہ ٹھیک سے ہو سکتا ہے۔" لطیف احمد کو شک ہوا، لیکن وہ یقین نہیں کر سکتا تھا۔ قریب کھڑے نوجوانوں میں سے ایک کو بلا کر اس نے کہا، "اے، سمیع، اس بچے کو پکڑو اور اس کا معائنہ کرو۔" کچھ شرارتی لڑکے جو تفریح کی امید میں ادھر ادھر منڈلا رہے تھے، انہوں نے لڑکے کو ہوا میں اٹھا لیا، اور ان میں سے ایک نے اس کا پاجامہ نیچے کھینچ دیا۔ بڑے ناپ کا ڈھیلا ڈھالا پاچامہ آسانی سے نیچے چلا آیا۔لوگ اس منظر سے خوب محفوظ ہو کر قہقہے لگا رہے تھے۔"ختنہ صحیح طریقے سے ہو چکا ہے!! " لڑکوں نے اپنی روکی ہوئی ہنسی کا بھرپور اظہار کیا۔ ایک آدمی نے بے رحمی سے کہا، "اپنے شوہر کو بھی لے آؤ۔ اس کا بھی ختنہ کروا لیتے ہیں تاکہ تمہیں اپنے حصے کی گندم اور کھوپرا مل جائے۔" ہنسی کا ایک اور سماں بندھا۔
جیسے ہی لڑکا آزاد ہوا، اس نے جلدی سے اپنا پاجامہ اوپر کھینچا اور بھاگ گیا۔ اس کی ماں نے ایک بار پھر اپنی ساڑھی کے کٹے پھٹے پلو سے اپنا سر ڈھانپا اور اپنے قدم گھسیٹتی ہوئی چلی گئی۔ "تھو! دنیا میں کتنے بد ذات لوگ ہیں… یہ کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں،" ایک آدمی نے حقارت سے تھوکتے ہوئے کہا۔
لطیف احمد کسی طرح بے چینی محسوس کرنے لگا۔ کیا وہ ایسی غربت اور بدحالی کے سامنے بے احساس ثابت ہوا تھا؟ اس عورت کی تصویر اس کے ذہن میں بار بار ابھر رہی تھی۔ "چھیی!!، مجھے اسے خالی ہاتھ نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔" کچھ پشیمانی کے ساتھ، اس نے اسے ڈھونڈنے کے لیے ادھر ادھر دیکھا، لیکن وہ اتنی ہی تیزی سے غائب ہو چکی تھی جتنی تیزی سے نمودار ہوئی تھی۔
قطار چلتی رہی۔ سرخ لنگیاں نکلتی رہیں۔ لطیف احمد نے بے تابی سے گھڑی دیکھی۔ پانچ بج چکے تھے۔ مشہور مقامی سرجن ڈاکٹر پرکاش نے انہیں اپنے خاندان کے بچوں کو چھ بجے تک ختنے کے لیے لانے کو کہا تھا۔ وہ اب کیا کر رہے تھے؟ رضیہ نے اس صبح ان سب کو نہلایا تھا، خاص طور پر اپنے بڑے بیٹے عبدالصمد پر تھوڑی زیادہ محبت نچھاور کی تھی۔ اب تو خیر وہ چھے سال کا تھا ، مگر اس کے پانچویں برس سے ہی وہ اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی، "آؤ!! بچے کا ختنہ کروا لیں—دیکھو کتنا پتلا ہو گیا ہے!" رضیہ کو توقع تھی کہ ختنے کے بعد وہ کچھ وزن بڑھا لے گا۔ لیکن لطیف احمد میں اس کام کا وقت مقرر کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی، اور وہ ایک کے بعد ایک بہانے سے ٹالتا رہا۔ آخر کار وقت آ گیا تھا، اور وہ اب بھی پریشان تھا۔
رضیہ کے دیور اس تقریب کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اس کی بہنیں بھی لمبا سفر طے کر کے آئی تھیں۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا، تمام بچے نئے کپڑوں میں ملبوس تھے اور ختنہ کروانے والے لڑکے اِتراتے پھر رہے تھے۔ جب مرد، جوان اور بوڑھے، اجتماعی ختنے کے لیے مسجد میں تھے، تو مقامی لڑکیاں اور بڑی عمر کی عورتیں لطیف احمد کے گھر جمع تھیں۔
دوپہر کے کھانے کے بعد، خاندان والوں نے شیروانیوں، گھیروا جیکٹوں، اور زری ٹوپیوں میں ملبوس لڑکوں کو قطار میں بٹھایا۔ لمبے ہار جو ان کے پیروں تک پہنچ رہے تھے، ان کی گردنوں میں ڈالے گئے۔ انھوں نے کلائیوں میں چنبیلی کے پھول پہنے ہوئے تھے۔ مبارکبادی آئے اور انھوں نے بچوں کو پیار کیا۔ کچھ نے ان کی انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنائیں، اور دوسروں نے سونے کی زنجیروں کے تحفے دیے۔ پانچ سو اور سو روپے کے نوٹ اتنے زیادہ تھے کہ گننا ناممکن تھا۔ ہر آنے والے نے بچوں کے سروں پر انگلیاں چٹخا کر نظر بد اتارنے کی رسم ادا کی۔ پان کے پتے، کیلے، سموسے ، اور دیگر کھانے کی چیزیں تقسیم کی گئیں۔ کسی کے پاس بات چیت کے لیے وقت نہیں تھا۔ گھر الجھن اور افراتفری سے بھرا ہوا تھا کیونکہ ہر کوئی جلدی میں تھا…
اچانک ایک عورت لطیف احمد کے سامنے نمودار ہوئی، اس نے ابھی کسی کو کرسی لانے کو کہا تھا اور اب اس پر بیٹھ کر اپنے تھکے ہوئے پیروں کو آرام دیتے ہوئے ، جمائی لینے کے لیے اپنا منہ کھول ہی رہا تھا—"آآآ…"—اور وہ وہاں آن موجود تھی۔ وہ دبلی پتلی تھی، اور ایک پرانا سویٹر اس کے چپکتے گیلے سینے کو ڈھانپے ہوئے تھا۔ اس کے سر پر ایک خستہ حال سکارف بندھا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ وہ کچھ پکڑے ہوئے تھی—--ایک کپڑے کا بنڈل اس کے سینے سے لگا ہوا تھا۔
"بھیا! اس کا بھی ختنہ کروا دیں، مہربانی کر کے!!…" لطیف احمد نے اس نوخیز پھول کو گھورا، جو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کا ہوگا اور اس کپڑے میں لپٹا ہوا تھا۔پھر وہ ماں کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے خوف محسوس ہوا—کیا ہو گا اگر قریب کے نوجوان جمع ہو کر بری باتیں کہیں؟ مزید کچھ کہے بغیر، اس نے اپنی جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ اسے ایسا لگنے لگا تھا گویا اس کے سامنے عبدالصمد کو گود میں لیے ہوئے رضیہ کھڑی ہے، ۔ وہ عورت پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر چلی گئی۔ لطیف احمد نے خواہش کی کہ کاش اس نے پہلے آنے والی عورت کو بھی کچھ پیسے دیے ہوتے۔ یعنی دوسری عورت ایک مزید عورت کو بھیجتی… اور پھر ایک مزید آتی۔۔۔ اور یقیناً ایک اور… اس طرح تو وہ آتی رہیں گی، اور اس سب کا اختتام کہاں ہوگا؟
آخر آخری لڑکے کے ختنہ کے بعد ، سب کو گھر بھیجنے کے بعد ہی لطیف احمد نے خود کو سنبھالنے کے لیے ایک لمحہ لیا۔ اب اسے اپنے خاندان کے بچوں کا خیال رکھنا تھا۔
جب لطیف احمد گھر پہنچا چھ بجے تک سب سرجن کے پاس جانے کے لیے تیار تھے، ۔ ڈاکٹر پرکاش نے اسے بتایا تھا، "ہم بچوں کو ہلکا اینستھیسیا دیں گے تاکہ انھیں کچھ محسوس نہ ہو۔ اچھی نیند کے بعد، وہ تازہ دم بیدار ہوں گے۔" پورا خاندان ڈاکٹر پرکاش کے کلینک میں آپریٹنگ روم کے باہر جمع تھا۔ سرجری آسانی سے ہو گئی، حالانکہ کچھ لڑکوں نے ہنگامہ کیا اور روئے۔
واپس گھر آ کر انھیں پنکھے کی گونج میں نرم گدوں کے بستر پر لٹا دیا گیا۔ بہت سے لوگ ان کی دیکھ بھال کے لیے کھڑے تھے۔ صرف ایک یا دو بچوں نے کبھی کبھار درد سے کراہا، مگر ان کے کمرے کے باہر ہنسی، بلند باتوں، اور تہوار کے سماں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لڑکوں کو ہر آٹھ گھنٹے بعد جگایا جاتا، دودھ اور درد کی ادویات کے ساتھ بادام کا روغن دیا جاتا، اور دوبارہ لٹا دیا جاتا۔ اگلے دن تک زیادہ تر صحت یاب ہو چکے تھے۔ تیزی سے صحت یاب ہونے میں مدد کے لیے اچھی خوراک کی بہتات تھی—دودھ، گھی، بادام، کھجوریں… سب کے لیے کافی—اتنی کہ پھینکنے کے لیے بھی بہت تھیں۔
اگلے دن، لطیف احمد کے گھر پر ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پورا محلہ، رشتہ دار اور دوست احباب کھانے کے لیے جمع تھے۔ بریانی کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ہر طرف ہنسی مذاق اور ہلہ گلہ تھا۔ بچے، جن کے ختنے ہوئے تھے، اب ہنسی خوشی سرخ لنگیوں میں ملبوس کھیل رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو اپنی نئی لنگیاں دکھا رہے تھے جن پر چمکدار مکیش اور زری کا کام تھا۔ عبدالصمد کی لنگی تو چمک چمک کر آنکھیں چندھیا رہی تھی، وہ اسے دکھا دکھا کر فخر محسوس کر رہا تھا۔ رضیہ نے اطمینان کی سانس لی۔ اس کی ساری تھکن دور ہو گئی تھی۔ بچے اب پہلے سے کہیں زیادہ خوش اور پرسکون لگ رہے تھے۔ یہ سارا ہنگامہ، سارا درد، اس ایک دن کی خوشی کے آگے ہیچ تھا۔
دوپہر کا کھانا ختم ہونے کے بعد، لطیف احمد نے ڈاکٹر پرکاش کو فون کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر نے کہا، "لطیف صاحب، یہ تو ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے کہ آپ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا۔ ویسے، ان بچوں کو کچھ دن اور آرام کی ضرورت ہے، خاص طور پر صفائی کا خاص خیال رکھیں۔" لطیف احمد نے اطمینان سے سر ہلایا۔ اسے اب اپنی پریشانی کچھ کم محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ یہ ساری مشقت ایک نیک کام کے لیے تھی، جس سے غریبوں کی بھی مدد ہو گئی تھی۔
شام ڈھلنے لگی تھی، لیکن گھر میں رونق ابھی بھی باقی تھی۔ عورتیں گیت گا رہی تھیں، بچے کھیل رہے تھے اور مرد آپس میں گپ شپ کر رہے تھے۔ رضیہ کچن میں تھی، جہاں وہ باقی ماندہ کھانے کو سنبھال رہی تھی اور اگلے دن کے لیے کچھ اور پکوان کی تیاری کا سوچ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر تھکن کے باوجود ایک سکون تھا، ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
رات گئے جب مہمان رخصت ہو گئے اور گھر میں سکون چھا گیا تو لطیف احمد اور رضیہ اپنے کمرے میں آئے۔ لطیف احمد نے رضیہ کی طرف دیکھا، جو تھک کر چور تھی لیکن اس کے چہرے پر ایک اطمینان چھایا ہوا تھا۔ اس نے کہا، "رضیہ، تم نے بہت محنت کی ہے۔ اللّٰه تمہیں اس کا اجر دے!! " ، "یہ سب اللّٰه کی رضا ہے۔ اس کا حکم پورا ہو گیا ، اب بچے بھی ہلکے پھلکے ہو کر صحت مند رہیں گے" ، رضیہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
عبدالصمد، جو پہلے ہی گہری نیند سو چکا تھا، اس کے چہرے پر ایک معصوم مسکراہٹ تھی، شاید وہ خواب میں اپنی چمکدار لنگی اور مٹھائیوں کا مزہ لے رہا تھا۔ گھر میں سکون تھا۔ باہر رات کی خاموشی تھی۔ صرف کبھی کبھار کسی بچے کی ہلکی سی کراہ سنائی دیتی، جو جلد ہی خاموشی میں بدل جاتی۔ یہ ختنے کی تقریب محض ایک رسم نہیں تھی، یہ ایک وسیع تر ہمدردی، ایک اجتماعی مسرت، اور ایک معاشرتی ذمہ داری کا اظہار تھا، جو لطیف احمد اور رضیہ نے نبھائی تھی۔ اب یہ بچے ایک نئی زندگی میں قدم رکھ چکے تھے، ایک ایسے سفر پر جو دین اور روایت کی روشنی میں روشن تھا۔
ختنے کے پانچویں دن، سامنے کے صحن میں ایک ہلچل سی مچی تھی۔ رضیہ نیچے گئی اور جھانک کر دیکھا تو عارف امرود کے درخت پر تھا، کچے پکے ہرے امرود توڑ رہا تھا۔ دو نوکر اسے نیچے اترنے کے لیے چلا رہے تھے۔ اس کی ماں، آمنہ درخت کے نیچے کھڑی باری باری نوکروں سے التجا کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کی منت سماجت بھی۔ جب اس نے پیٹ بھر کر پھل کھا لیے، تو آرام سے نیچے اترا اور نوکروں نے اسے پکڑ لیا۔ جب وہ اسے رضیہ کے پاس لائے، تو اس نے لاپرواہی سے اپنی جیب سے ایک اور امرود نکالا اور اسے کترنے لگا۔ رضیہ نے نوکروں سے اسے چھوڑنے کو کہا اور حیرت سے پوچھا، "کیا تمھارا زخم ٹھیک ہو گیا ہے؟"
"ہمم، ہاں، چِکّا ما!! " اس نے اپنی لنگی کو ہٹاتے ہوئے بغیر کسی شرم یا ہچکچاہٹ کے جواب دیا،۔ رضیہ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر سکی۔ وہاں پٹی بھی نہیں تھی۔ زخم بھر چکا تھا۔ پیپ بھی نہیں تھی۔ جبکہ اس کا اپنا بیٹا عبدالصمد اپنی ٹانگیں سیدھی نہیں کر پا رہا تھا۔ تمام اینٹی بائیوٹکس کے باوجود زخم میں انفیکشن ہو گیا تھا۔ اس صبح، وہ نہانے کے لیے باتھ روم تک نہیں چل پایا تھا۔ اسے اٹھا کر اسٹول پر بٹھانا پڑا تھا۔ اس کے زخم کو ایک جراثیم سے پاک اسٹیل کپ سے ڈھکا گیا تھا تاکہ وہ گیلا نہ ہو۔ اس سب کے بعد، وہ تھک کر چور ہو گیا تھا۔ اسے نرمی سے خشک کرنا پڑا تھا۔ ڈاکٹر پرکاش کی بھیجی ہوئی نرس نے زخم پر دوبارہ پٹی کی اور اسے ایک انجکشن لگایا۔۔۔۔ اور یہاں عارف تھا، درخت پر بندر کی طرح کھیل رہا تھا۔ "تم کون سی دوا لے رہے ہو، عارف—کون سی گولیاں؟" رضیہ خود کو پوچھنے سے نہ روک سکی۔ "میں نے کوئی دوا نہیں لی، چِکّا ما!! انھوں نے زخم پر کچھ راکھ ڈالی تھی، بس وہی…"
رضیہ واقعی یہ نہیں سمجھ پائی تھی کہ غریب بچوں کا ختنہ کیسے کیا جاتا ہے۔ اسے یہ جان کر بہت پریشانی ہوئی کہ ان کے زخموں پر راکھ چھڑکی جاتی ہے۔ وہ واپس اندر گئی، اور یہ سوچ کر گھبرا رہی تھی کہ اگر ان بے بس بچوں میں سے کوئی مر گیا تو کیا ہوگا۔ اوپر سوئے ہوئے تمام دوسرے بچوں کو دیکھنے کے بعد، وہ اپنے بیٹے کے پاس گئی۔ صمد بھی سو رہا تھا۔ اس کے برابر والی سہ پائی پر کئی طرح کی مٹھائیاں، بسکٹ، اور تازہ و خشک میوہ جات ڈھیر تھے۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ کیا عارف ابھی بھی سامنے کے صحن میں ہے، اس کا اسے اوپر بلا بسکٹ وغیرہ کا ایک پیکٹ دینے کا ارادہ تھا۔ لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ اس نے اپنے بیٹے پر ایک ہلکی چادر ڈالی اور کھانا پکنے کی نگرانی کرنے نیچے کچن میں چلی گئی۔
ختنے والے لڑکوں کے لیے چکن سوپ بنانا تھا، اور مہمانوں کے لیے پلاؤ اور قورمہ، لیکن اسے آمنہ کے ساتھ کچن میں دس منٹ بھی نہیں ہوئے تھے کہ اسے دوبارہ بے چینی محسوس ہونے لگی۔ اگرچہ رضیہ کو یقین تھا کہ اس کی نگرانی کے بغیر کھانا وقت پر تیار نہیں ہو گا، لیکن اسے وہاں سے جانے کی شدید خواہش ہوئی۔ وہ جس چکن کی نگرانی کر رہی تھی اسے چھوڑ کر اوپر کی طرف بھاگی۔
رضیہ نے عبدالصمد کے سونے کے کمرے کا دروازہ بند کر دیا تھا تا کہ وہ بلا خلل سو سکے۔ اوپر پہنچ کر اس نے اسے دھکیلا اور ایک دل دہلا دینے والی چیخ نکالی۔ اس کی آنکھوں پر ایک کالا پردہ چھا گیا۔ باقی گھر والے اپنے کمروں سے بھاگ کر آئے تو دیکھا کہ رضیہ بے ہوش تھی اور خون میں لت پت عبدالصمد فرش پر پڑا تھا۔ وہ جاگ کر اپنی ماں کو ڈھونڈنے کے لیے بستر سے اترا تھا، لیکن دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی بے ہوش ہو گیا تھا۔ اس کا سر دیوار سے ٹکرا گیا تھا، اور خون بہہ رہا تھا۔ آپریشن کا زخم بھی کھل گیا تھا، اور وہاں سے بھی خون ٹپک رہا تھا۔ آخر اسے کو ہسپتال لے جایا گیا۔
ختنے کے گیارہویں دن، لطیف احمد کے خاندان کے بچوں کو غسل دیا گیا۔ یہ وہی دن تھا جب عبدالصمد ہسپتال سے واپس آیا۔ اس شام گھر میں ایک شاندار جشن کا اہتمام تھا۔ پورے شہر کو مدعو کیا گیا تھا۔ کئی بکرے ذبح کیے گئے، اور دعوت کی تیاریاں کی گئی تھیں۔ گھر کے سامنے اور چھت پر شامیانے لگائے گئے تھے۔ بریانی کی خوشبو گھر کے عقب سے لہروں کی صورت میں پھیل رہی تھی۔ صمد ابھی بہت کمزور تھا، اور رضیہ اسے اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دے رہی تھی۔ اس نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور دیوان کے تخت سے اٹھے بغیر مہمانوں سے ملاقات کی۔
کچھ دیر بعد ، رضیہ نے کسی کو ڈرائنگ روم میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دیکھا۔ "اے… کون ہے؟ ادھر آؤ،" اس نے کہا۔ وہ شکل واپس آئی۔ "میں ہوں، چِکّا ما…" رضیہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔ یہ عارف تھا! اس کی پھٹی ہوئی کالر والی پرانی قمیض میں بھی وہ صحت مند نظر آ رہا تھا۔ اس نے سرخ لنگی اتار دی تھی اور پتلون پہننا شروع کر دی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ اس کا زخم مکمل طور پر ٹھیک ہو گیا تھا۔ اس نے عبدالصمد کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اور وہ خود سے بڑبڑائی، " کھار کو خدا کا یار ، غریب کو پروردگار "—(اگر امیروں کی مدد کے لیے لوگ ہیں، تو غریبوں کی مدد کے لیے خدا ہے۔)
رضیہ کی نظر عارف کی پتلون پر پڑی، جو گھٹنوں سے بوسیدہ ہو چکی تھی۔ اسے خاموش اور سوچوں میں گم دیکھ کر، وہ مڑا، جس سے اس کی پتلون میں دو اور بڑے سوراخ نظر آئے، ایک اس کی پتلون میں اور دوسرا اس کی قمیض میں۔
"ٹھہرو، عارف،" رضیہ نے کھڑے ہو کر کہا۔ اس نے الماری کھولی اور احتیاط سے تہہ کیے ہوئے کپڑوں کے ڈھیر پر نظر دوڑائی۔ عبدالصمد کو تحفے میں دیے گئے تقریباً ایک درجن لباس ابھی بھی اپنی پیکنگ میں تھے۔ اس نے ایک پتلون اور ٹی شرٹ کا جوڑا چنا جو عبدالصمد کے لیے بہت بڑے تھے اور انھیں عارف کو دیتے ہوئے کہا، "یہ لو۔ انہیں پہن لو۔ جب تم کھانے کے لیے آؤ تو لازم ہے کہ تم یہ پہنے ہوئے ہو، ٹھیک ہے؟"
عارف نے جب کپڑوں کو دیکھا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے رضیہ کو جس نظر سے دیکھا اس میں شکر گزاری سے زیادہ عقیدت جھلک رہی تھی۔ اس نے احتیاط سے ٹی شرٹ کو چھوا، اور وہ مسکرائی۔ عبدالصمد اٹھ کر بیٹھ گیا، اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ عارف دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے بار بار ان کی طرف ہی دیکھتا رہا ، جبکہ رضیہ کے عطا کیے تحفے کو اس نے سینے سے لگا رکھا تھا !!
انگریزی میں عنوان : Red Lungi
Comments
Post a Comment