افسانہ نمبر 679 : چراغِ دل || افسانہ نگار : بانو مشتاق ۔(انڈیا ) || انگریزی سے ترجمہ : ابن آس محمد

  افسانہ نمبر 679 : چراغِ دل


افسانہ نگار : بانو مشتاق ۔(انڈیا )

(بکر پرائز ونر 2025 )

کنٹر سے انگریزی ترجمہ : دیپا بھاستھی

انگریزی سے ترجمہ : ابن آس محمد



مہرُن نے ابھی دروازہ آدھا ہی کھولاتھا اور اندر قدم رکھ ہی رہی تھی کہ ڈرائنگ روم میں چار پائی پر لیٹے ہوئے اُس کے والد
اور دھیمی آواز میں گفتگو کرتے بڑے بھائی دونوں کی باتیں اچانک رُک گئی۔دونوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اُسی لمحے اندر سے اس کی بھتیجی رابعہ دوڑتی ہوئی آئی اور خوشی سے چِلّائی۔

"مہرن پھوپھو آ گئیں۔۔، مہرن پھوپھو آ گئیں۔۔!"

رابعہ کے والد اور مہرن کے دوسرے بڑے بھائی، امان، جو ابھی شیو کر رہے تھے، جھاگ سے بھرا چہرہ، برش ہاتھ میں تھامے، کمرے سے نکلے اور ڈرائنگ روم میں کھڑے ہو کر مہرو کو یوں دیکھنے لگے جیسے انہیں یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ واقعی آگئی ہے۔

اس کی چھوٹی بھابھی ،جو بچوں کو قرأت کے ساتھ قرآنِ کریم کی تعلیم دے رہی تھیں، بےاختیار باہر نکل آئیں، اُنہیں یہ بھی خیال نہ رہا کہ ان کی ساڑھی کا پلو سر سے سرک چکا ہے۔ اُن کی والدہ، کم زور ہاتھوں میں تسبیح تھامے، سکتے کی حالت میں کھڑی تھیں، جیسے خاموشی سے سوال کر رہی ہوں:

"کیا یہ سچ ہے۔۔؟ کیا یہ واقعی سچ ہے۔۔؟"

اُس کی چھوٹی بہنیں ریحانہ اور صبیحہ دروازے کے پیچھے سے جھانک رہی تھیں، اور اُنہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ توے پر روٹیاں جل رہی ہیں،شکر ہے کہ چھوٹا بھائی عاطف گھر پر موجود نہیں تھا۔

پورے گھر میں جیسے لمحہ بھر کو سکوت چھا گیا ۔سب ساکت کھڑے تھے ۔ مہرن کوہر شے اجنبی سی محسوس ہوئی۔ ماں، جس نے اُسے نو مہینے پیٹ میں رکھا، پال پوس کر جوان کیا، وہ یہ بھی نہ بولی:

"آ گئی بیٹی۔۔، اندرآجاؤ بیٹی ۔۔"

اور وہ باپ، جس کی چھاتی پر چڑھ کر کھیلنے والی وہ کبھی پیاری سی بچی ہوا کرتی تھی، اُس کے چہرے پر تو استقبالیہ مسکراہٹ تک نہ آئی۔ نہ وہ بڑا بھائی جسے وہ "میری پری،مائی اینجل " کہتا تھا، اور نہ ہی امان بھائی، جنہوں نے اُس کے کالج جانے پر زور دیا تھا، کسی نے ایک لفظ خیرمقدم کے لیے نہ کہا۔

اُن کی بیویاں اُسے کچھ ایسے تک رہی تھیں گویا وہ کسی اور ہی دنیا سے آئی ہو۔

مہرن کا دل جیسے ڈوب گیا۔ تب ہی اُس کی گود میں موجود نو ماہ کی بچی نے زور سے چیخ ماری اور سب کا سحر ٹوٹا۔ بڑے بھائی نے سوال کیا:

"عنایت کہاں ہے۔۔؟"

اُس نے یوں سر جھکا لیا گویا کوئی گناہ کر بیٹھی ہو۔

"وہ شہر میں نہیں ہیں۔۔" اُس نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔

"تو پھر۔۔ تم کس کے ساتھ آئی ہو۔۔؟"

"اکیلی آئی ہوں۔"

"اکیلی۔۔؟" سارے گھر میں جیسے ایک ساتھ آوازیں گونجنے لگیں۔

وہ اب بھی دہلیز پر ہی کھڑی رہی۔بڑے بھائی نے کہا۔

"فاروق۔۔، اُسے اندر لے جاؤ۔"

جب بھائی کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا، تو مہرن جیسے بوجھل قدموں سے اندر آئی۔ اسے یوں لگا جیسے کسی عدالت میں پیشی ہو رہی ہے۔اس کی بیٹی چیخ رہی تھی۔ اُس نے برقع اُتارے بغیر نقاب اوپر اُٹھایا، ایک طرف ہو کر والد کے بستر پر بیٹھی، اور بچی کو دودھ پلانے لگی۔

اُس نے ابھی تک منہ تک نہیں دھویا تھا۔ رات سے کچھ کھایا نہیں تھا۔ بچی نے دودھ پینا شروع کیا تو اُس کا اپنا پیٹ بھوک سے جلنے لگا۔

اس کی ماں کے سوا اس وقت گھر کی کسی اور خاتون کواس موقع پر شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔۔

"مہرن ۔۔۔ یہاںآنے سے پہلے کسی کوبتا کر آئی ہو ۔۔؟"

"نہیں۔۔"

"کیوں۔۔؟ کیوں بتا کر نہیں آئیں ۔۔؟ کیا تم نے تہیہ کر لیا ہے کہ ہمارے خاندان کو رُسوا کر کے ہی دم لو گی۔۔؟"

"کسے بتا کر آتی ۔؟ کون ہے وہاں جو سنتا۔۔؟ ایک ہفتے سے وہ گھر ہی نہیں آیا۔۔ مجھے یہ تک بتا کر نہیں گیا کہ کہاں جارہا ہے۔۔ میں نے آپ سب کو خط لکھا۔۔، مگر نہ کوئی جواب آیا، نہ کسی نے پروا کی کہ میں زندہ ہوں یا مر چکی ہوں۔ "

"تم نے خط میں لکھا تھا کہ تمہارے شوہر کا کسی نرس کے ساتھ چکر ہے۔۔ تو ۔۔کیا ہم اس بات کو مان لیں۔۔یقین کرلیں ۔۔؟"

"اگر یقین نہیں تھا تو آ کر تحقیق کرتے۔ ۔کئی لوگوں نے دونوں کو ساتھ دیکھا ہے۔"

"اور پھرہم کیا کرتے۔۔؟ فرض کرو ہم اُس سے پوچھ بھی لیتے، اور وہ مان لیتا کہ ہاں، یہ سب سچ ہےتو بتاؤ،پھرہم کیا کرتے؟ مسجد میں درخواست دیتے۔۔؟تو وہ کہ دیتا:

"ہاں، غلطی ہو گئی۔۔، اب میں اُسے مسلمان کر کے نکاح کر لوں گا۔۔ وہ تمہاری سوکن بن جاتی۔ ۔اور اگر ہم اُسے مزید ڈانٹتے تو وہ کہتا۔۔مجھے مہرن کی ضرورت نہیں۔۔ میں اسے طلاق دے دیتا ہوں۔"

اب مہرن بےقابو ہو کر رونے لگی۔ بچی کو دوسرے سینے سے لگا کر دودھ پلانے لگی، اور برقع کے نیچے سے ساڑھی کا پلو نکال کر آنکھیں اور ناک پونچھنے لگی۔

ایک لمحے کو مکمل خاموشی چھا گئی۔

"تو مطلب یہ ہے کہ آپ سب کچھ نہیں کر سکتے۔۔، ہے نا۔۔؟"

کوئی جواب نہ آیا۔

وہ بولتی رہی۔

"میں نے آپ سب کے پاؤں پکڑ ے تھے کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔۔ آپ کو سمجھایا کہ برقع پہن کر کالج جاؤں گی۔۔، پڑھنا چاہتی ہوں۔ ۔مگر کسی نے میری بات نہیں سنی۔ ۔میری کئی سہیلیاں ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور میں بوڑھی ہو گئی ہوں۔۔پانچ بچوں کا بوجھ میرے سر ہے، اور ان کا باپ مزے کرتا پھر رہاہے۔۔، میری زندگی بےمعنی ہو چکی ہے۔۔ یعنی مرد اس طرح کی حرام حرکتیں کرے ۔۔اور آپ میں سے کوئی اس سےپوچھنے والانہیں۔۔؟"

"بس کر، مہرن، بس کر۔۔"، ماں نے آنکھیں بند کر کے سر ہلا دیا۔

"ہاں، اماں۔۔، اب میری بھی بس ہوگئی ہے۔۔ پہلے تو لوگ چپکے چپکے باتیں کرتے تھے، پھر جنہوں نے اُن دونوں کو تھیٹر اور ہوٹلوں میں دیکھا، وہ خود آ کر بتانے لگے۔ ۔پھر وہ کھلم کھلا اُس کے گھر آنے جانے لگا۔ ۔پھر جب سب نے اُسے برا بھلا کہا تو وہ بنگلور گیا۔۔، ہزاروں روپے خرچ کر کے اُس کا تبادلہ کرا لیا۔۔ اب پچھلے آٹھ دنوں سے وہ اُسی کے ساتھ رہ رہا ہے۔۔ میں کب تک سہاروں پر جیوں۔۔؟ کہاں تک سہوں۔۔؟"

"صبر کر، بیٹی۔۔ محبت سے اُسے راہِ راست پر لانے کی کوشش کرو۔"

"اماں، کیا میرا دل نہیں ہے۔۔؟ کیا میرے جذبات نہیں۔۔؟ جس مرد کے ساتھ یہ سب گند ہو، اُسے میں شوہر کیسے مان لوں۔۔؟ اُسے دیکھتے ہی گھن آتی ہے،محبت تو دور کی بات ہے۔۔ مسئلہ یہ نہیں کہ وہ مجھے طلاق دے گا۔۔، میں خود اُس سے طلاق لوں گی۔۔ میں اب اُس گھر میں واپس نہیں جاؤں گی۔"

"یہ تم کیا کہہ رہی ہو، مہرن۔۔؟ بہت زیادہ ہو رہا ہے۔۔ وہ مرد ہے۔۔ کیچڑ میں پاؤں رکھ دیا ہے تو پانی سے دھو کر گھر آ جائے گا۔۔ مرد پر کوئی داغ نہیں لگتا۔"

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، امان بول پڑے:

"دیکھو تو کیسے منہ چلا رہی ہے سب کے سامنے۔۔ ضرور اُس کے سامنے بھی ایسا ہی بولی ہو گی۔۔، تب ہی وہ ناراض ہو کر چلا گیا ہوگا۔۔"

وہ ایک لمحے کو رکا،پھر آواز دھیمی کرتے ہوئے بولا۔

"اگر اس گھر کی بہو ئیں بھی ایسی باتیں سیکھنے لگیں گی تو کیا بنے گا۔۔؟"

مہرن کی آنکھوں میں آنسو ،غصے میں ڈھل گئے، اور پھر مایوسی میں ڈھلک گئے۔

"بہت خوب دلیل دی، انّا۔۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔۔ سچ ہے، قصور تو میرا ہی ہے۔۔ میرا مزاج ہی خراب ہے۔۔ میں بغیر برقع کے کبھی باہر نہیں نکلی۔۔ اُس نے کہا، برقع اتار دو، ساڑھی کو ناف سے نیچے باندھو، اُس کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلو۔۔ مگر آپ ہی نے تو مجھے برقع اوڑھا کر پالا، میرے سر سے ساڑھی کا پلو سرک جائے تو مجھے ننگا پن محسوس ہوتا ہے۔۔ آپ نے اللہ کا خوف میرے دل میں بسایا۔۔ میں نے اُس کی بات نہیں مانی، اس لیے وہ کسی ایسی عورت کے پیچھے چلا گیا جو اُس کے اشاروں پر ناچتی ہے۔۔ اور اب آپ سب کو ڈر ہے کہ اگر وہ مجھے چھوڑ دے گا تو میں آپ پر بوجھ بن جاؤں گی، اس لیے مجھے برداشت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔۔ مگر اب یہ ممکن نہیں۔۔ اُس جہنم سے بہتر ہے کہ میں اپنے بچوں کو لے کر کسی جگہ مزدوری کر لوں۔۔ میں آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی۔۔، کبھی نہیں۔"

"کیا بیل پر پھل بوجھ ہوتا ہے، مہرن۔۔؟ فضول باتیں مت کرو"، ماں نے جھلا کر کہا۔

"امّی، اُسے اندر لے جائیے اور کچھ کھلائیے۔۔"، بڑے بھائی نے سنجیدگی سے کہا۔

"ہم دس منٹ میں چکمگلور روانہ ہو رہے ہیں۔ ۔اگر بس ملی تو ٹھیک، ورنہ ٹیکسی لیں گے۔ ہم اُس کی مرضی پر نہیں چل سکتے۔"

"میں تمہارے گھر میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پیوں گی۔۔ اور چکمگلور بھی نہیں جاؤں گی۔۔ اگر زبردستی لے گئے تو قسم کھاتی ہوں، اپنے آپ کو آگ لگا لوں گی۔"

"بس بہت ہو گیا، مہر۔۔ جو مرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ بازاروں میں اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے۔ ۔اگر تجھے واقعی اپنے خاندان کی عزت کا پاس ہوتا تو یہاں آنے کی بہ جائے خود کو خاکستر کر دیتی۔۔ وہی عورت شریف ہوتی ہے جس کا ڈولااسی گھر سے نکلتا ہے جہاں اُس کی ڈولی جاتی ہے۔۔ تیرے ذمے ایک بیٹی ہے جو ہائی اسکول میں پڑھ رہی ہے۔۔ دو چھوٹی بہنیں ہیں جن کی شادی کی عمر ہو چکی ہے۔۔ اگر تو نے کوئی ناسمجھی کی تو اُن سب کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔۔ تو چاہتی ہے کہ ہم تیری بچگانہ باتوں پر یقین کریں، تیرے شوہر سے لڑائی مول لیں۔۔؟ مگر ہمارے بھی اپنے بال بچے ہیں۔ اب بس۔۔، اندر جا اور کچھ کھا لے۔۔"

وہ ذرا رُکا، پھر بھائی کی طرف پلٹ کر بولا:

"امان، دوڑ کر جا اور ٹیکسی لے آ۔۔ اور تُو، مہرن، اگر تیرے بچے یا محلے والے کچھ پوچھیں، تو کہہ دینا بچے کو اسپتال لے گئی تھی یا کچھ اور۔۔ کتنے بجے نکلی تھی تُو یہاں آنے کے لیے۔۔؟"

مہرن چپ رہی۔

"اب ساڑھے نو بج رہے ہیں۔۔" امان بولا۔

"یہ نو بجے پہنچی تھی۔۔ سفر تین گھنٹے کا ہے۔۔ مطلب صبح چھے بجے نکلی ہو گی۔۔ اگر ابھی روانہ ہوں تو ساڑھے بارہ بجے تک پہنچ سکتے ہیں۔"

مہرن وہیں بیٹھے بیٹھی رہی۔ اُس کی ماں اور چھوٹی بہنیں باری باری اُسے مناتی رہیں کہ کچھ کھا لے، پر اُس نے نہ ایک نوالہ منہ میں ڈالا، نہ پانی کا گھونٹ پیا۔

جب ٹیکسی آ گئی تو اُس نے کسی سے کوئی بات نہیں کی۔ وہ باہر نکلی، بچی کو سینے سے چمٹائے، بھائیوں کے ساتھ ساتھ، اور کسی پر الوداعی نظر تک نہ ڈالی۔ صرف جب وہ آخری سیڑھیوں سے نیچے اُتری تو ایک لمحے کو پلٹ کر اُس گھر کو دیکھا جہاں پیدا ہوئی، پالی گئی۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اُس کا باپ سینہ تھام کر کھانس رہا تھا۔ ماں رو رہی تھی، کبھی بیٹی کی طرف دیکھتی، کبھی شوہر کی طرف، اُسے لٹاتی، پنکھا جھلتی، پانی کے چھینٹے مارتی، اور زیر لب دعا کرتی جاتی:

"اے پروردگار۔۔! اگر میں نے زندگی میں کبھی کوئی نیکی کمائی ہو۔۔، کوئی بھلائی کی ہو، تو اُس کے صدقے میری بیٹی کی زندگی سنوار دے۔"

امان نے کار کا دروازہ کھولا، اور نگاہوں سے مہرن کو بیٹھنے کا اشارہ دیااور خود بڑبڑاتے ہوئے اندر بیٹھا۔

مہرن اکثر فخر سے کہا کرتی تھی کہ اُس کے بھائی شیروں کی مانند اُس کے پیچھے کھڑے ہیں۔اپنے شوہر عنایت سے ناراض ہوتی تو کہتی،

"میرے بھائی شیرِ ببر بنے کھڑے ہیں۔ ۔اگر تم باز نہ آئے تو ایک دن تمہیں کاٹ کاٹ کے پھینک دیں گے۔۔، سمجھ گئے۔۔؟"

مگر اب وہ فخر خاک ہو چکا تھا۔ بھائیوں کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے:

"اگر تمہیں ہمارے خاندان کی عزت کا خیال ہوتا تو خود کو جلا کر مار ڈالتیں۔۔ تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔"

وہ کار میں بیٹھتے ہوئے ایک بار بھی پلٹ کر نہ دیکھ سکی، — نہ ماں کو، جو یقیناً کھڑکی سے جھانک رہی ہو گی، نہ بہنوں کو، جو پردے کے پیچھے چھپی ہوں گی، نہ بھابھیوں کو، جو شاید گھریلو کاموں میں مصروف ہوں گی۔

اُس کے آنسو نقاب کے نیچے بہتے رہے۔ وہ ہونٹ کاٹتی رہی اور سسکیاں ضبط کرتی رہی۔

کار تیز رفتاری سے چل رہی تھی۔ کوئی بولتا نہ تھا۔ امان اگلی نشست پر محلے کے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ایسے میں گھر کے راز کیسے کھولے جاتے؟

سفر خاموشی سے کٹ رہا تھا۔ مہرن، عنایت کے عشق اور ہوس کے کھیل کا مہرہ بنی، سولہ برس گزار چکی تھی اور اُن ہی سولہ برسوں کے بعد اُس کے شوہر نے اُس کی نسوانیت کی تذلیل کی تھی۔

"تو تو لاش کی طرح پڑی رہتی ہے۔۔ مجھے مزہ ہی نہیں آتا۔۔؟"

اُس نے طعنہ دیا تھا۔

"کیا نہیں دیا تجھے۔۔؟ پہننے کو، کھانے کو۔۔؟ کون روک سکتا ہے مجھے؟ اب میرے ساتھ وہ عورت ہے جو مجھے خوشی دیتی ہے۔"

نہ درخت دکھائی دیے، نہ منظر، نہ راستے۔ کار ایک دم رُکی تو اُس نے بے دلی سے باہر جھانکا۔ وہی گھر سامنے تھا جسے اُس کا کہا جا رہا تھا۔ ایک کم زور سی شکل والی بچی دوڑتی ہوئی دروازے سے آئی۔

"امّی! آخر آ ہی گئیں۔۔ بہت فکر ہو رہی تھی۔" اُس نے ماں کی گود سے بچی لے کر سینے سے لگایا اور گھر کے اندر دوڑ گئی۔

مہرن دھیرے دھیرے گھر میں داخل ہوئی۔ گھر خالی خالی سا لگ رہا تھا۔ باقی بچے اسکول جا چکے تھے، اور اُس کی سولہ سالہ بیٹی سلمیٰ، جو ماں کے دُکھوں کی ہم راز تھی، اُس وقت گھر کی سب سے بڑی فرد تھی۔ اُس نے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھنے کے لیے بھیج دیا تھا، اور ماں کی واپسی کی منتظر تھی۔

ماں کو ماموں کے ساتھ دیکھ کراس نے ایک اطمینان کی سانس لی۔ ماموں آئے ہیں، وہ اُس دوسری عورت کو گھسیٹ کر نکالیں گے، اُس نے سوچا۔ ہرن کی طرح دوڑتی پھرتی، چائے چڑھاتی، لوازمات پیش کرتی رہی۔

مہرن اپنے کمرے میں لیٹی تھی۔ سلمیٰ آئی، ماں کے چہرے سے آنسو پونچھے، دو تین نوالے کھلائے، اور بچا ہوا کھانا لے کر نکل ہی رہی تھی کہ ایک مانوس آواز سنائی دی۔

وہ لپک کر دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی۔

"امّی، امّی۔۔، ابّا آ گئے!"

مہرن نے سُن کر بھی نہ سُننے کا بہانہ کیا۔رضائی میں اور زیادہ سمٹ گئی۔ اُس کے دماغ کی نسیں تناؤ سے پھٹنے کو تھیں۔

سلمیٰ باہر چلی گئی۔ ماموں واپس باہر جا چکے تھے اور مردوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بات چیت ہو رہی تھی، قہقہے، سلام دعائیں۔

"ارے بھیا! کب آئے آپ۔۔؟" عنایت پوچھ رہا تھا۔

"ابھی ابھی آئے ہیں۔ تم کیسے ہو۔۔؟"

"بس، اللہ کا شکر ہے۔۔ سب آپ کی دعاؤں کا اثر ہے۔"

امان کی آواز آئی، "کہاں غائب تھے، عنایت بھائی۔۔؟"

"یہیں کہیں۔۔ کچھ کام دھندے، ادھر اُدھر۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، جاگنے کے بعد یوں ہی گھر تو نہیں بیٹھا جا سکتا۔ سلمیٰ۔۔!" اُس نے پکارا۔

"سلمیٰ! کہاں ہے تمہاری امّی۔۔؟ دیکھو، کون آیا ہے۔ امّی کو بلا لاؤ۔"

اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔

"پتا نہیں کہاں ہیں۔ ۔شاید بچی کے ساتھ اندر ہوں گی۔ بلاؤں ذرا۔"

وہ اندر آیا، سلمیٰ کو دیکھا، اور دھیمی آواز میں پوچھا:

"یہ لوگ کب آئے۔۔؟ تمہاری امّی کہاں ہیں۔۔؟"

شک کی ایک لہر اُس کے دل میں سرائیت کر گئی تھی۔

"ماموں ابھی ابھی آئے ہیں۔ ۔امّی ابھی سو رہی ہیں"، سلمیٰ نے سمجھ داری سے جواب دیا۔

عنایت نے سکون کا سانس لیا۔

"ابھی تک نہیں جاگی۔۔؟ کیا ہو گیا ہے اُسے۔۔؟" وہ کمرے کے دروازے تک آیا۔ مہرن کی سمٹی ہوئی خاموشی اُسے ناگوار گزری۔ اُس کی نگاہ میں اُس کی واحد وقعت یہ تھی کہ وہ اُس کے بچوں کی ماں تھی۔ دل چاہا کہ اندر جائے، مگر قدم آگے نہ بڑھ سکے۔

مہرن نے تصور کیا کہ وہ دروازے پر کیسے کھڑا ہو گا۔ اُس کا لباس، سگریٹوں کی بدبو، پسینے کی بساند، بڑھاپے کا جسم، اُبلتی ہوئی آنکھیں۔ وہ مرد جو اُس کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا،اچانک اجنبی لگنے لگا تھا۔

وہ رضائی میں لپٹی رہی، اُس کی آواز سنتی رہی۔

"سلمیٰ، ادھر آ۔۔ اُسے کہہ دو ڈراما بند کرے۔۔ اگر بھائیوں کو بلا کر مجھے نصیحت دینے آئی ہے، تو اپنے گلے میں خود پھندا ڈال رہی ہے۔ ۔ایک ہی سانس میں – ایک، دو، تین مرتبہ – کہہ دوں گا۔۔، قصہ تمام۔ ۔اُسے کہنا کہ طلاق کے بعد دیکھنا کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کروا سکتی ہے یا نہیں۔ ۔کہنا کہ مہمانوں کے سامنے خاندان کی عزت خاک میں ملا رہی ہے۔۔ کہنا اپنی ماں سے۔۔ بھائیوں کو سلام کرے، اور پوچھے کہ دوپہر کے کھانے میں مرغی بنانی ہے یا گوشت۔ ۔اب تو دوپہر قریب ہے، کہنا کہ جلدی کھانا چڑھائے۔"

وہ یہ سب کچھ کہہ چکا، حالاں کہ سلمیٰ وہاں موجود ہی نہ تھی، مگر جیسے اُسے مخاطب کر کے دل کی بھڑاس نکال رہا ہو۔

کچھ دیر بعد عنایت اور سالے یوں محوِ گفتگو تھے گویا سب کچھ معمول کے مطابق ہو۔ وہ کبھی کافی کی قیمتوں پر بات کرتے، کبھی کشمیر کے انتخابات پر، کبھی محلے میں ایک ضعیف جوڑے کے قتل کی تفتیش پر، تو کبھی محلے کی ایک مسلم لڑکی کا ہندو لڑکے سے عدالت میں شادی رچا لینے کا ذکر چھیڑ دیتے۔

ادھر پریشر کُکر کی سیٹی بجی، بلینڈر کی گھم گھراہٹ سنائی دی، تیز مصالحے کی خوش بو فضا میں پھیل گئی، مرغن کھانا تیار ہوا۔یہ سب مہرالنسا نے ہی تو بنایا تھااور سلمیٰ اِدھر اُدھر دوڑتی سب کو کھانا پیش کرتی رہی۔

مہرالنسا صرف ایک بار، وہ بھی مختصر سی دیر کے لیے، باورچی خانے سے باہر آئی۔خوب کھانے کے بعد جب ان کے منہ میں تمبولہ بھرا ہوا تھا، مہرالنسا کے بھائی رخصت ہونے کو تیار ہوئے۔ روانگی سے قبل امان، کچن کے دروازے کے قریب آ کھڑا ہوگیا۔

"ذرا عقل مندی سے کام لو اور حالات کو سنبھالو۔۔" اُس نے کہا۔

"میں اگلے ہفتے آ کر ملوں گا۔۔ وہ کچھ دن یوں ہی بگڑا رہے گا، پھر خود ہی پلٹ آئے گا۔۔ تمہیں ہی سمجھ داری سے کام لینا ہوگا۔۔ بعض عورتوں کو تو نشئی شوہروں، مار پیٹ کرنے والی ساسوں جیسے مصائب سہنے پڑتے ہیں۔۔ اللہ کا شکر کرو، تمہارا معاملہ تو نسبتاً بہتر ہے۔۔ وہ صرف ذرا غیرذمے دار ہے، بس۔۔ توازن تمہیں ہی رکھنا ہوگا۔"

بھائی رخصت ہوئے، اور جیسے ہی گاڑی کے ہٹنے کی آواز معدوم ہوئی، عنایت بھی بجلی کی مانند گھر سے نکل گیا۔

سلمیٰ نے ماں کی جانب دیکھا۔ ماموں نہ تو ماں کو دلاسا دے سکے، نہ کوئی سہارا۔ وہ ماں کے غم سے لرزنے لگی۔

جب والد کے قدموں کی چاپ گونجی، اُس کے آنسو ضبط نہ رہ سکے۔ گھر پر ایک اداسی کی چادر تنی ہوئی تھی جسے اسکول سے لوٹتے بہن بھائی بھی ہٹا نہ سکے۔ ہر ایک کے کندھے پر اپنا بوجھ تھا، ہر ایک اپنی مصروفیت میں گم۔

جیسے جیسے شام کا اجالاڈھلتا گیا، گھروں میں چراغ روشن ہوتےگئے، مگر مہرالنسا کے دل کا چراغ مدت ہوئی بجھ چکا تھا۔

اب وہ کس کے لیے جیتی۔۔؟

زندگی کا مفہوم کیا تھا۔۔؟

دیواریں، چھت، برتن، چولہا، بستر، برتنوں کی کھنکھناہٹ، صحن کی گلاب کی کیاری،کسی میں اتنی تاب نہ تھی کہ اس کے سوالات کا جواب دے سکتے۔

اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ ایک جوڑی اُداس آنکھیں مسلسل اس پر نگاہیں جمائے کھڑی ہیں، پہرہ دے رہی ہیں۔

سلمیٰ چاہتی تھی کہ کتابوں میں کھو جائے، اسے ایس ایس ایل سی کے امتحانوں کی تیاری کرنی تھی، مگر ماں کی طرف سے اسے ایک بےنام سی بےچینی جکڑے ہوئے تھی، جو بار بار اس کی نظریں ماں کی طرف لے جاتی۔

رات کی خاموشی میں مہرالنسا خلا میں تکتی رہی۔

اندھیرا اُتنا ہی گہرا تھا جتنا اس کی زندگی کا خلا۔۔

بچے سورہے تھے۔ صرف سلمیٰ جاگ رہی تھی، ڈرائنگ روم میں کتابوں میں مگن، مگر ماں کے کمرے پر نگاہیں ٹکائےہوئے۔

مہرالنسا کی نیند رخصت ہو چکی تھی۔

کیا اپنے میکے کے دن آسان تھے۔؟

کیا اس کی وہاں کی جدوجہد کم تھی۔؟

اس کی شادی دوسرے سال بی کام کے امتحانات سے محض ایک مہینہ قبل ہوئی تھی۔ وہ روئی، گڑگڑائی کہ امتحان دے لینے دیا جائے، مگر کسی نے اس کی آہ و زاری پر کان نہ دھرا۔

شادی کے کچھ دن بعد اُس نے جھجکتے ہوئے شوہر سے بات کی، تو اُس نے ہنستے ہوئے اُسے ’میری محبت‘، میری ’جانِ من‘، میرے دل کا ٹکڑا‘ کہہ کر پکارا۔

"اگر تم نہ ہو، تو کیا میں سانس بھی لے سکوں گا۔۔؟" اُس نے کہا۔

مہرالنسا نے یقین کر لیا کہ اگر وہ ساتھ نہ ہو، تو وہ شاید مر ہی جائے گا۔

وہ خوش تھی۔ اُس نے شوہر کے ہر حکم کو سجدہ کیا، اُس کے دل کے چراغ کی لو بن گئی۔

جب تک ساس سسر زندہ تھے، تب تک مہرالنسا کو شوہر مکمل طور پر نہیں ملا تھا۔ ایک سال قبل اُن کے انتقال کے بعد، نندیں اپنے گھروں کو سدھار گئیں، دیور اپنے راستے نکل گئے، تب جا کے اُس کا برسوں پرانا خواب پورا ہوا۔۔اپنا گھر، اپنا شوہر۔

لیکن جب یہ خواب حقیقت بنا، اُس کے چہرے میں جھریاں ابھر آئیں، ہاتھوں کی رگیں نمایاں ہو گئیں، آنکھوں تلے سائے گہرے ہوتے گئے، ایڑیوں میں دراڑیں پڑ گئیں، ناخن کٹے پھٹے اور میل زدہ ہو گئے، بال جھڑنے لگے۔۔اور۔۔ اُسے ان سب کا شعور بھی نہ تھا۔

اور شاید عنایت کو بھی ہوش نہ آتا، اگر اُس کا اپینڈکس کا آپریشن نہ ہوتا، اور اسپتال میں وہ نرس نہ ہوتی۔وہ نرس، جو تھکی ماندی تھی، کم تنخواہ پر زیادہ کام کرتی تھی، جس کی آنکھوں میں خوابوں کا سیلاب تھا، جو یوں چلتی تھی جیسے ہوا میں تیر رہی ہو،جس کی چمک دار جلد اور شہد جیسی آنکھیں کسی گرداب کی مانند دل کو کھینچ لیتیں۔ وہ عمر کے اُس پڑاؤ پر تھی جہاں عورت سب کچھ قربان کر سکتی ہے،مستقبل سنوارنے کے لیے، خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے۔

عنایت نے اُسے ’سِسٹر‘ کہہ کر مخاطب نہ کیا۔

پہلے دن سے ہی اُس کا نام لے کر بلایا۔

پھر اُس نے اس رحم کو بھی گالی دی جس نے اُسے اولاد دی۔

مہرالنسا کے ڈھلتے بدن پر تنقید کی،اس کے ڈھیلے پیٹ پر، اُن چھاتیوں پر جو بچوں کی بھوک مٹا چکی تھیں۔

اُس نے مہرالنسا کی روح تک کو ننگا کر دیا۔

ایک روز اُس نے کہا:

"تم میرے لیے اب ۔۔میری ماں جیسی ہو۔"

یہ جملہ اُس کے لیے گویا حیات میں ہی جہنم کا پروانہ تھا۔

اُس دن سے لے کر اب تک، اُس گھر میں کھایا گیا ہر نوالہ مہرالنسا کو حرام محسوس ہوتا۔

اپنے ہی آشیانے میں اجنبیت کا احساس، عنایت کی زبان سے نکلنے والے زہریلے جملے،سب کچھ اُسے چُور چُور کر رہے تھے۔

تب ہی اُس نے میکے کا دَر کھٹکھٹایاتھا،مگر بے سود ۔۔

رات گہری ہو چلی تھی۔

مہرالنسا کے دل کا اضطراب جیسے پتھر بننے لگا۔

ایسی تنہائی کبھی نہیں محسوس کی تھی۔

اب کوئی خواہش باقی نہیں تھی۔

وہ بستر سے اٹھ بیٹھی۔

نہ کوئی احوال پوچھنے والاتھا، نہ کوئی چھیڑنے والا، نہ کوئی سینے سے لگانے والا۔جو کبھی یہ سب کرتا تھا، وہ اب کسی اور کا ہو چکا تھا۔

زندگی ایک لامتناہی اور مسلسل سراب محسوس ہوری رہی تھی۔

پیچھے سے جو زوردار آواز آئی، اُس پر بھی کوئی جنبش نہ ہوئی۔

اُسے معلوم تھا کہ کوئی تصویر گر گئی ہے، شیشہ ٹوٹا ہے، فریم چکنا چور ہو چکا ہے، تصویر باہر نکل آئی ہے،مگر اُس کے دل میں ایسا اضطراب پھیل چکا تھا کہ وہ اُس ٹوٹی ہوئی شے کو سنوارنے کی طرف متوجہ نہ ہوئی۔

وہ آہستہ آہستہ بستر سے اُٹھی۔

اپنے شیر خوار بچے کو دیر تک تَکتی رہی، پھر باہر نکل آئی۔

چھوٹے چھوٹے بچے سکون سے سورہے تھے۔

جب وہ دبے پاؤں ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی، تو دیکھا کہ سلمیٰ، جو مطالعے میں مشغول تھی، تھکن کے مارے میز پر سر رکھے سو چکی ہے۔

ماں بیٹی کے قریب جا کھڑی ہوئی، اور کانپنے لگی۔

اُسے لگتا تھا کہ اب اُس کے دل میں کوئی احساس باقی نہیں رہا، مگر سلمیٰ کو دیکھ کر اُس کے اندر طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔

اُس کے دل میں بیٹی کو چھونے کی شدید خواہش ہوئی، مگر وہ یہ جذبہ ضبط کر گئی۔ دل ہی دل میں اُس سے کہا:

"بیٹا۔۔، ان بچوں کی ماں تمہیں ہی بننا ہوگا۔"

پھر اُس کے قدم خود بہ خود آگے بڑھنے لگے۔

اس نے آہستگی سے دروازہ کھولا، صحن میں آئی۔

چند پودے، جنہیں وہ عرصے سے سینچتی آئی تھی، گویا آنسو بہا رہے تھے۔

وہ اُس کے فیصلے سے متفق نظر آتے تھے۔

وہ اندر لوٹی، دروازہ بند کیا، باورچی خانے میں گئی، مٹی کے تیل کا کنستر اُٹھایا اور سوچنے لگی کہ خود کو کہاں جلانا ہے۔؟

بچوں کو سوتے ہوئے آخری بار دیکھا، پھر ڈرائنگ روم کی طرف پلٹی۔

اس نے سلمیٰ کی طرف نگاہ نہ کی۔

باورچی خانے میں گئی، ماچس کا ڈبہ اٹھایا، ہاتھ میں کس کر پکڑا، اور پھر آہستگی سے دروازے کی چٹخنی کھولی، دوبارہ صحن میں نکل آئی۔

اُس نے اندھیرے کو گھورا اور خود کو یقین دلایا کہ اب وہ بالکل تنہا ہے، کوئی اُس کا نہیں، کوئی اُسے چاہتا نہیںاور یہ سب سوچتے ہوئے، اُس نے مٹی کا تیل اپنے اوپر انڈیل لیا۔

وہ ایک ایسی قوت کے قبضے میں تھی جس پر اُس کا اختیار نہیں تھا۔

اطراف میں خاموشی تھی، کوئی آواز نہ سُنتی تھی، نہ کوئی لمس محسوس کرتی تھی، نہ کوئی یاد اُبھرتی تھی، نہ کوئی رشتہ دل میں اترتا تھا۔

وہ ہوش و خرد سے بالاتر ہو چکی تھی۔

لیکن گھر کے اندر کچھ اور ہی ہو رہا تھا۔

شیر خوار بچے کی بھوک سے چیخنے کی آواز سے سلمیٰ ہڑبڑا کر جاگ گئی ۔

وہ جھٹکے سے اُٹھی، بچے کو سینے سے لگایا، "امی! امی!" کی صدا بلند کی، اور اِدھر اُدھر بھاگتی ہوئی ماں کو ڈھونڈنے لگی۔

پھر اُس کی نظر دروازے پر پڑی جو کھلا ہوا تھا۔

وہ بھاگتی ہوئی باہر نکلی، اور دھندلے اندھیرے میں ماں کا ہیولادیکھا، مٹی کے تیل کی بو محسوس کی۔

کچھ سوچے بغیر، اُس نے بچے کو نیچے رکھا اور ماں سے لپٹ گئی۔

ماں، جس کے ہاتھ میں ماچس کا ڈبہ تھا، بیٹی کو یوں گلے لگاتے دیکھ کر یوں بےحس کھڑی تھی جیسے کسی اور کا انتظار کر رہی ہو۔

سلمیٰ نے روتے ہوئے بچے کو زمین پر رکھا، ماں کے قدموں سے لپٹ گئی، اور چیخی:

"امی! امی۔۔! ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ۔۔!"

سلمیٰ ہچکیوں سے رو رہی تھی، اور ننھا بچہ زمین پر لیٹا بلک رہا تھا۔

مہرالنسا نے ایک نظر ان پر ڈالی، اور اس اجنبی قوت کے خلاف مزاحمت کرنے لگی جو اس کے وجود کو جکڑے ہوئے تھی۔ یکایک ماچس کی ڈبیا اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی۔

سلمیٰ اب بھی اپنی ماں کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی تھی۔

"امی۔۔!" وہ کہہ رہی تھی، "کیا ایک انسان کے چلے جانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہم سب کو اُس عورت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گی۔۔؟ آپ ابّا کے لیے مرنے کو تیار ہیں، مگر کیا ہمارے لیے جینا ممکن نہیں۔۔؟ آپ ہمیں یتیم بنانے پر تُلی ہوئی ہیں، امی۔۔؟ ہمیں آپ کی ضرورت ہے، امی، ہم آپ کو چاہتے ہیں۔۔!"

لیکن سلمیٰ کے الفاظ سے بڑھ کر، اُس کا لمس مہرالنسا پر اثرانداز ہوا۔

اُس نے بلکتے بچے کو اُٹھایا، اور سلمیٰ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ گویا خود دلاسا پا رہی ہو، جیسے کسی محرمِ راز نے اسے چھو لیا ہو، سمجھ لیا ہو۔

مہرالنسا کی آنکھوں میں بوجھل پن اُتر آیا، اور وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی:

"معاف کر دو، میری جان۔۔!"

جب کہ رات کی سیاہی بتدریج تحلیل ہو رہی تھی۔

( ختم شد )

انگریزی میں عنوان : Heart Lamp

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق