افسانہ نمبر 676 : اسنائپر ( نشانہ باز),کہانی : لیام او فلاہرٹی ، اردو ترجمہ : رومانیہ نور
افسانہ نمبر 676 : اسنائپر ( نشانہ باز)
تحریر : لیام او فلاہرٹی ( آئر لینڈ )
اردو ترجمہ : رومانیہ نور ( ملتان )
جون کی طویل شام، دھیرے دھیرے رات کی تاریکی میں ڈھل گئی۔
ڈبلن اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، سوائے دھندلی چاندنی کے جو چھوٹے چھوٹے روئی کے گالوں
جیسے بادلوں کے درمیان سے جھانکتی، گلیوں اور لیفی ندی کے سیاہ پانیوں پر صبح کے دھندلکے
جیسا ہلکا نور بکھیر رہی تھی۔ چاروں طرف سے محصور فور کورٹس پر بھاری توپوں کی گرج
گونج رہی تھی۔ کہیں کہیں شہر میں، رات کی خاموشی کو مشین گنوں اور رائفلوں کی بے ترتیب
فائرنگ توڑ رہی تھی، جیسے سنسان کھیتوں میں کہیں کتے بھونکتے ہوں۔ ری پبلکن (جمہوریہ
نواز) اور آزاد ریاست کے حامی ایک دوسرے کے
خلاف صف آراء خانہ جنگی میں مصروف تھے ۔
او’کونل پل کے قریب ایک چھت پر، ایک جمہوریہ نواز اسنائپر
نظر جمائے لیٹا ہوا تھا۔ اس کے پہلو میں اس کی بندوق رکھی تھی، اور کندھے پر
دوربین کا جوڑا لٹک رہا تھا۔ اس کا چہرہ طالبعلم جیسا تھا
٫ دبلا پتلا، تنا ہوا ٬ مگر اس کی آنکھوں میں جنون کی ایک سرد چمک تھی۔ وہ گہری سوچ
میں ڈوبی آنکھیں تھیں ٬ ایک ایسے انسان کی آنکھیں، جو موت کو روز اپنی نظروں کے سامنے
دیکھنے کا عادی ہو چکا ہو۔ وہ بھوک سے نڈھال ایک سینڈوچ کھا رہا تھا ۔ اس نے صبح سے
کچھ نہ کھایا تھا؛ جذبہ اتنا شدید تھا کہ کھانے کا ہوش تک نہ رہا تھا۔ سینڈوچ ختم کر
کے، اس نے جیب سے وہسکی کی چھوٹی سی بوتل نکالی، ایک گھونٹ لیا، پھر واپس رکھ دی۔ پھر
اس نے لمحہ بھر توقف کیا، سوچنے لگا آیا سگریٹ پینا خطرہ مول لینا ہو گا؟ یہ خطر ناک
تھا۔ اندھیرے میں روشنی کی چمک دیکھی جا سکتی تھی اور دشمن تاک میں تھے۔ مگر اس نے
خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا۔
سگریٹ ہونٹوں میں دبا کر، ماچس جلائی، دھواں تیزی سے اندر
کھینچا، اور فوراً روشنی بجھا دی۔ مگر جونہی چمک پیدا ہوئی، ایک گولی چھت کے کنارے
سے ٹکرا کر پچک گئی اسنائپر نے ایک اور کش لیا، پھر سگریٹ بجھا دیا، آہستگی سے ایک
گالی دی اور چھت کے بائیں جانب سرک گیا۔
وہ محتاط
ہو کر اٹھا، اور چھت کی منڈیر
کے پار جھانکا۔ ایک چمک ابھری اور گولی سن کر کے اس کے سر کے اوپر سے گزری۔ وہ فوراً نیچے گر گیا۔ اس نے چمک
دیکھی تھی۔ روشنی سڑک کے اُس پار سے آئی تھی۔ وہ لڑھکتا ہوا چھت کے پچھلے حصے میں ایک
چمنی کے عقب میں جا پہنچا، اور آہستہ آہستہ خود کو اس کے پیچھے کھینچتے ہوئے اس مقام
تک لایا، جہاں سے اس کی آنکھیں چھت کی منڈیر کے برابر ہو گئیں۔ وہاں کچھ بھی نظر نہ
آیا — بس نیلے آسمان کے پس منظر میں مخالف عمارت کی دھندلی چھت کا خاکہ تھا۔ دشمن چھپ
چکا تھا۔ اسی لمحے پل سے ایک بکتر بند گاڑی نمودار ہوئی اور سڑک پر آہستہ آہستہ آگے
بڑھنے لگی۔ یہ سڑک کے اُس پار، قریب پچاس گز کے فاصلے پر رُک گئی۔ اسنائپر انجن کی ہانپتی ہوئی مدھم دھمک سن سکتا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
یہ دشمن کی گاڑی تھی۔ اس کا دل چاہا گولی چلا دے، مگر وہ جانتا تھا کہ یہ بے سود ہے۔
اس کی گولیاں اس فولادی دیو کے سینے کو نہ چھو پائیں گی۔ پھر ایک طرف کی گلی کے موڑ
سے ایک بوڑھی عورت نمودار ہوئی، اس کے سر پر بوسیدہ شال تھی۔ وہ بکتر بند گاڑی کی برجی
میں موجود شخص سے بات کرنے لگی، اور چھت کی طرف اشارہ کرنے لگی جہاں اسنائپر چھپا بیٹھا
تھا۔ وہ مخبر تھی۔ برجی کا دروازہ کھلا۔ ایک آدمی کا سر اور کندھے نظر آئے ٬ وہ اسنائپر
کی سمت دیکھ رہا تھا۔ اسنائپر نے بندوق اٹھائی اور گولی چلا دی۔ وہ سر دھڑام سے برجی
کی دیوار پر ڈھے گیا۔ بوڑھی عورت گھبرا کر گلی کے کنارے کو دوڑی۔ اسنائپر نے دوبارہ
نشانہ لیا اور گولی چلائی۔ عورت گھوم کر چیخ مارتی ہوئی گٹر میں جا گری۔
اچانک
مخالف چھت سے گولی چلی اور اسنائپر کی بندوق اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ بندوق چھت پر
جا گری، دھات سے ٹکرا کر شور گونجا ۔ اسے ایسا لگا جیسے مردے بھی جاگ جائیں گے۔ وہ
جھک کر بندوق اٹھانے کی کوشش کرنے لگا مگر
نہ اٹھا سکا۔ اس کا دایاں بازو بے حس ہو چکا تھا۔ "مجھے گولی لگی ہے…" وہ
آہستہ سے بڑبڑایا۔ وہ فوراً پیٹ کے بل چھت پر لیٹ گیا اور گھسٹتا ہوا منڈیر کی جانب
لوٹا۔ بائیں ہاتھ سے زخمی بازو کو ٹٹولا۔ کوٹ کی آستین سے لہو رس رہا تھا۔ کوئی تکلیف
نہ تھی — بس ایک مردہ سا احساس تھا، جیسے بازو کٹ چکا ہو ۔
فوراً اُس نے جیب سے چھری نکالی،اور چھت کی منڈیر پر رکھ
کر آستین کو چاک کر دیا۔ گولی کا ایک چھوٹا سا سوراخ بازو میں دکھائی دیا، لیکن دوسری
طرف کوئی سوراخ نہ تھا۔ گولی ہڈی میں پیوست ہو چکی تھی، شاید ہڈی ٹوٹ بھی چکی تھی۔اس
نے زخم کے نیچے بازو کو آہستہ سے موڑا۔ بازو آسانی سے پیچھے کو مڑ گیا۔ درد کی شدت
پر اس نے دانت بھینچ لیے۔
پھر
اس نے اپنی فیلڈ ڈریسنگ نکالی، چھری سے پیکٹ کو پھاڑا۔ آیوڈین کی شیشی کا منہ توڑا
اور کڑوا مائع زخم میں ٹپکنے دیا۔ ایک تیز، بجلی جیسے درد کی لہر پورے جسم میں دوڑ
گئی۔ اس نے زخم پر روئی رکھی اور پٹی لپیٹی ۔ اس نے پٹی کے دونوں سرے دانتوں کی مدد
سے باندھ دیے۔
پھر وہ منڈیر سے ٹیک لگا کر لیٹ گیا،اور آنکھیں موند لیں۔
درد کو ضبط کرنے کی پوری کوشش کی۔ نیچے سڑک پر اب مکمل خاموشی تھی۔ بکتر بند گاڑی سرعت
سے پل پار کر کے جا چکی تھی — توپچی کا بے جان سر
برجی کے کنارے پر جھکا ہوا تھا۔ بوڑھی عورت کی لاش ابھی بھی گٹر میں بے حس و
حرکت پڑی تھی۔
اسنائپر بھی اپنے زخمی ہاتھ کی دیکھ بھال کرتے، اور دماغ
میں فرار کا منصوبہ سوچتے ہوئے کافی دیر تک ساکت پڑا رہا۔ صبح کا سورج اگر اس چھت پر
اسے زخمی پائے، تو بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے گا۔ مگر دشمن ابھی بھی سامنے کی چھت
پر تاک میں تھا ۔ وہی دشمن جو اس کی راہ روکے ہوئے تھا۔ اسے مارنا لازم تھا اور وہ
اپنی رائفل استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ بس ایک ریوالور باقی تھا ۔تب ایک چالاک ترکیب
ذہن میں آ گئی۔ اس نے اپنی ٹوپی اتاری، اور رائفل کی نال پر رکھ دی۔ پھر آہستہ آہستہ
رائفل کو اوپر اُٹھایا، یہاں تک کہ ٹوپی سڑک کے دوسری جانب سے دکھائی دینے لگی۔ فوراً
ہی گولی چلی ٬ اور ٹوپی کے بیچوں بیچ سوراخ ہو گیا۔ اسنائپر نے رائفل کو ایک طرف جھکایا۔
ٹوپی گلی میں نیچے گر گئی، جیسے نشانہ کام کر گیا ہو۔ پھر اُس نے رائفل کو درمیان سے
تھاما، اور بایاں ہاتھ چھت کے کنارے سے نیچے لٹکا دیا — بے جان، مردہ سا۔
چند لمحوں بعد، رائفل بھی نیچے سڑک پر گرا دی گئی۔ زخمی
ہاتھ کو ساتھ گھسیٹتے ہوئے پھر وہ خود بھی چھت پر ڈھیر ہو گیا۔
وہ تیزی سے رینگتا ہوا اٹھا اور چھت کے
کونے کی طرف جھانکا۔ اس کا چالاک فریب کامیاب ہو چکا تھا۔ دوسرے اسنائپر نے، جب ٹوپی
اور رائفل کو گرتے دیکھا، تو سمجھا کہ وہ اپنے ہدف کو مار چکا ہے۔ اب وہ چمنی کی قطار
کے سامنے کھڑا تھا، مغربی آسمان کے مقابل اس کا سر صاف ابھرا ہوا تھا۔
ری پبلکن اسنائپر مسکرایا اور اپنا ریوالور آہستہ سے چھت
کے کنارے سے اوپر اٹھایا۔ فاصلہ کوئی پچاس گز کا تھا — مدھم روشنی میں یہ ایک مشکل
نشانہ تھا اور اس کا دایاں بازو ہزاروں زخموں کی طرح دکھ رہا تھا۔ اس نے نشانہ سیدھا
کیا۔ ہاتھ جوش سے کانپ رہا تھا۔ لب بھینچے، ناک سے گہری سانس لی اور گولی چلا دی۔ ریوالور
کی آواز سے وہ تقریباً بہرا ہو گیا، اور پسپا ہونے کی شدت سے بازو لرز اٹھا۔
جب دھواں چھٹا تو
اس نے جھانک کر دیکھا اور خوشی سے چلّا اٹھا۔ اس کا دشمن زخمی ہو چکا تھا۔ وہ چھت کے
کنارے پر موت کی اذیت میں لڑکھڑا رہا تھا۔ جیسے کسی حالتِ خواب میں قدم جمانے کی کوشش کرتا، مگر آہستہ آہستہ آگے گر
رہا تھا۔ رائفل اس کے ہاتھ سے چھوٹی، کنارے سے ٹکرائی، نیچے نائی کی دکان کے کھمبے
سے ٹکرائی، اور پھر فرش پر جا پڑی۔ پھر وہ مرتا ہوا آدمی مڑا اور فضا میں قلابازیاں
کھاتا ہوا جسم مدھم دھمک کے ساتھ زمین پر آ
گرا۔ اور ساکت ہو گیا۔
اسنائپر نے دشمن کو گرتے دیکھا تو اس کے بدن پر کپکپی طاری
ہو گئی۔ لڑائی کا جنون مر چکا تھا۔ ضمیر نے اسے کاٹنا شروع کر دیا۔اس کی پیشانی پر
پسینے کے قطرے جم گئے۔ زخم، بھوک، گرمی، اور دن بھر کی تھکن سے نڈھال چھت پر پہریداری
کرتے ہوئے — وہ اس ٹوٹے بکھرے لاشے کو دیکھ کر بیزار ہو گیا۔ اس کے دانت بجنے لگے،
وہ بڑبڑانے لگا، جنگ کو کوسا، خود کو کوسا، ہر ایک کو کوسا۔
اس نے ہاتھ میں پکڑے دھواں اگلتے ریوالور کی طرف دیکھا
٬ اور ایک گالی دیتے ہوئے اسے غصے سے اپنے قدموں میں چھت پر دے مارا۔ ریوالور چل گیا۔
گولی اسنائپر کے سر کے پاس سے سیٹی بجاتی گزر گئی۔ اس دھچکے سے خوفزدہ ہو کر وہ پھر
سے ہوش کی دنیا میں واپس آ گیا۔ اس کے اعصاب سنبھلے، خوف کا بادل اس کے دماغ سےچھٹ
گیا اور وہ ہنس پڑا۔
پھر جیب سے وِہسکی نکالی اور ایک ہی گھونٹ میں خالی کر دی۔
نشے کے زیرِ اثر، وہ لاپروا سا ہو گیا۔ اب اس نے چھت چھوڑ کر اپنے کمپنی کمانڈر کو
رپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ گلیوں میں نکلنے پر زیادہ
خطرے کا امکان نہ تھا۔ اس نے ریوالور اٹھایا، جیب میں رکھا، اور پھر آہستہ سے رینگتا
ہوا چھت کے روشن دان سے نیچے مکان میں اتر آیا۔
جب وہ نیچے گلی تک پہنچا، تو اچانک ایک خیال نے اسے اپنی
گرفت میں لے لیا — اس اسنائپر کی شناخت جاننے کا خیال جسے وہ مار چکا تھا۔ اس نے سوچا
"اچھا نشانہ باز تھا، جو بھی تھا۔" وہ حیران تھا کہ کیا وہ اسے جانتا تھا؟
شاید وہ فوج کی اس تقسیم سے پہلے کبھی اسی کی کمپنی میں تھا۔ اس نے خطرہ مول لینے کا
فیصلہ کیا اور لاش کے قریب جانے لگا۔ اس نے او کونل اسٹریٹ کی نکڑ سے جھانکا۔ اوپر
کی طرف شدید فائرنگ ہو رہی تھی، لیکن یہاں مکمل سکون تھا۔
وہ جھٹ پٹ سڑک پار کر گیا۔مشین گن نے گولیوں کی بوچھار سے
زمین کا سینہ چھید ڈالا ٬ مگر وہ بچ نکلا۔ وہ لاش کے برابر منہ کے بل گر گیا۔ مشین
گن خاموش ہو گئی۔ تب اسنائپر نے لاش کو آہستہ سے پلٹا اور اپنے بھائی کا چہرہ دیکھا۔
(یہ کہانی آئرلینڈ کی خانہ جنگی کے پس منظر میں
لکھی گئی تھی)
Original
Title : The Sniper
Written
by Liam O'Flaherty
Liam
O'Flaherty (28 August 1896 – 7 September 1984) was an Irish novelist and
short-story writer, and one of the foremost socialist writers in the first part
of the 20th century, writing about the common people's experience and from
their perspective.
Comments
Post a Comment