افسانہ نمبر 672 : آوارگی کی شب || تحریر : ہنری سلیسر (امریکہ) || اردو ترجمہ : وسیلہ خاتون
افسانہ نمبر 672 : آوارگی کی شب
تحریر : ہنری سلیسر (امریکہ)
اردو ترجمہ : وسیلہ خاتون
مسز رچرڈ نے ڈیزی کے فلیٹ پر دستک دینے سے پہلے بال سنوارے پھر گھڑی میں وقت دیکھا، شام کے ساڑھے سات بج رہے تھے، "ڈیزی ڈارلنگ " مسز رچرڈ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کسی بچّی کی طرح چلا کر کہا۔ ”سمبا کھیلنے کا وقت ہو گیا ہے۔“
اپنے فلیٹ میں سنگھار میز کے سامنے بیٹھی ہوئی دراز قد سیاہ بالوں والی حسین ڈیزی نے بالوں میں برش پھیرتے ہوئے مسز ر چرڈ کی آواز سنی اور مسکرادی۔ "اندر آ جائے ۔" ڈیزی نے زور سے کہا۔
مسز رچرڈ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے جھجکیں ۔ ”اوہ معاف کرنا ڈیزی ڈیئر ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم لباس تبدیل کر رہی ہو ۔ " مسزر چرڈ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"کوئی بات نہیں مسز رچرڈ"، ڈیزی نے کھڑے ہو کر بالوں میں سرخ ربن باندھتے ہوئے قد آدم آئینے میں اپنے سراپا کا غور سے جائزہ لیا اور سوچا یہ درست ہے کہ میں اب کوئی نوخیز لڑکی نہیں ہوں لیکن مسز رچرڈ کی طرح بوڑھی مرغی بھی نہیں ہوں ۔
"کیا .... کیا تم کہیں جا رہی ہو؟ میں سوچ رہی تھی کہ آج کھیل جلد شروع کر دیا جائے ، میں نے مسٹر بلیک سے ۳۔ ایف میں آنے کے لیے کہہ بھی دیا ہے۔"
"نہیں آج رات نہیں ۔" ڈیزی نے نرمی سے کہا۔ میں بڑی مدت سے اس مکان میں محبوس ہوں ۔ میری صحت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ آج میرا ارادہ ہوا خوری کا ہے۔“
ڈیزی نے گلابی رنگ کے موزوں کی ایک نئی جوڑی نکالی اور انھیں اپنی مرمریں سڈول پنڈلیوں پر چڑھانے لگی۔ اسے اپنی پنڈلیوں کی خوب صورتی دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ ڈیزی کے چہرے پر ایک غیر شریفانہ سی مسکراہٹ دیکھ کر مسز رچرڈ کچھ بے چین سی ہو گئیں ” کیا تم اب سمبا سے بور ہونے لگی ہو ڈیزی؟ مسز رچرڈ نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
"نہیں تو مسز رچرڈ ! مجھے آپ لوگوں کے ساتھ سمبا کھیلنے میں واقعی بڑا لطف آتا ہے۔ دراصل ..... اوہ، میں نے کہانا کہ گھر میں پڑے پڑے میرا دل گھبرانے لگا ہے۔ آج ذرا باہر کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کا ارادہ ہے۔“
"کیا .... کیا تم نے کسی کو ملاقات کا وقت دیا ہے؟“ بڑی بی نے تھوک نگلتے ہوئے بڑی مشکل سے کہا۔ انھوں نے ”کسی کو" کی وضاحت ضروری نہیں سمجھی۔ یہ وضاحت طلب بات تھی بھی نہیں۔
"ہاں ایک طرح سے یوں بھی کہا جا سکتا ہے۔" ڈیزی آنکھوں پر آئی شیڈ و لگانے لگی۔ پھر اس نے ایک بے حد قیمتی خوشبو کی بوتل نکالی اور اپنے کانوں اور حلق پر خوشبو ملنے لگی۔ پھر ڈیزی نے وہ خوشبو اپنے لباس پر بھی لگائی۔ مسز رچرڈ یہ تیاریاں دیکھ کر زرد پڑ گئیں ۔ "ڈیزی تم ... تمھارے ارادے کیا ہیں؟“
ڈیزی شرارت بھرے انداز میں اس طرح ہنسی جس طرح گدے کے سپرنگ چر چراتے ہیں۔ میری عمر ابھی 32 سال ہی تو ہے مسز رچرڈ ۔ دیکھیے نا میں بہت عرصے سے تنہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں اس خود پر ظلم کر رہی ہوں۔ میں اب کچھ زندگی کی ..."
ایسی بے شرمی کی باتیں مسز رچرڈ کے لیے ناقابلِ برداشت تھیں۔ وہ بیزار اور برہم ہو کر تیر کی طرح ڈیزی کے فلیٹ سے باہر نکل گئیں ۔ مسز رچرڈ کے جانے کے بعد ڈیزی نے اپنا شب خوابی کا لباس اتار کر ایک کرسی کی طرف اُچھال دیا اور پھر آئینے کے سامنے اپنے بھرے بھرے بدن کا غور سے جائزہ لینے لگی۔ اسے یقین تھا کہ اب بھی اسے دیکھ کر کسی بھی مرد کے منہ میں پانی آ سکتا ہے۔ اسے روزانہ بازار میں مردوں کی للچائی ہوئی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اس کی شخصیت میں کچھ ایسا وقار تھا کہ مردوں کو اس کے سامنے کسی طرح کی بدتہذیبی کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ ڈیزی نے اپنے بدن کے تمام نشیب وفراز کا معائنہ کرنے کے بعد الماری کھول کر سیاہ رنگ کا ایک چست لباس نکالا ، اس لباس کا گلا دیکھا اور ایک چھوٹی سی قینچی سے گلا اور بڑا کر دیا اور پھر اسے پہن کر آئینے میں دوبارہ اپنا جائزہ لیا۔ اگر چہ اس کے بدن کے تمام ہیجان انگیز خطوط نمایاں ہو گئے تھے، اس کے باوجود وہ باوقار نظر آ رہی تھی۔ شاید یہ وقار اس کی شخصیت کا ایک جزو تھا۔ ڈیزی پوری طرح مطمئن ہو کر فلیٹ سے باہر نکل گئی۔
ڈیزی نے مگر مچھ کی کھال کا بنا ہوا پرس لہرا کر ٹیکسی ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ٹیکسی نہ صرف رک گئی بلکہ ڈرائیور نے فوراً باہر نکل کر ہیٹ اُٹھا کر تعظیم کی اور زرخرید غلام کی طرح دروازہ کھول کر کھڑا ہو گیا۔ وہ ایک ادا اور بے نیازانہ تبسم کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔ اس نے دیکھا کہ عقبی آئینے میں ٹیکسی ڈرائیور کی للچائی ہوئی نظریں اس کے سرکش مرمریں سینے پر بار بار جم جاتی تھیں۔ ڈیزی نے بڑی فراخ دلی اور کچھ گرم جوشی کے ساتھ ایک مرد کی پسندیدگی کی نظریں قبول کیں ۔ آج وہ کچھ زیادہ ہی فیاض ہو رہی تھی۔ اس نے پرس سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور اپنے یا قوتی ہونٹ ٹیکسی ڈرائیور کے کانوں کے بالکل قریب لے جا کر اس سے ماچس طلب کی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے کسی تاخیر کے بغیر ماچس کی ڈبیا اس کے حوالے کر دی۔ وہ عقبی آئینے میں حُسن کے بے باکانہ جلووں کے نظاروں میں محو تھا۔
سگریٹ جلا کر ڈیزی سیٹ سے سر لگا کر بیٹھ گئی۔ براڈوے پہنچ کر اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا۔
وہ ہفتے کی رات تھی اور شائقین سنیما گھروں سے فلمیں دیکھ کر باہر نکل رہے تھے۔ ان شائقین میں عورتوں کی تعداد بہت زیادہ تھی پھر بھی بہت سے مردوں کی آنکھیں ڈیزی پر جمی ہوئی تھیں۔ اتنی بہت سی پر شوق نگاہوں نے اس کا بدن گرم کر دیا۔ اس کے رُخسار میک اپ کی تہ میں دہکنے لگے۔ وہ بے نیازی کے ساتھ دُکانوں پر آویزاں نیون سائن پڑھتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ پھر اس کی نظریں اس بورڈ پر اٹک گئیں۔" پریڈی بار ریستوراں، کاک ٹیل لاؤنج “
ڈیزی دانستہ طور پر ٹیکسی ڈرائیور کو ماچس دینا بھول گئی تھی ، پریڈی بار میں داخل ہونے سے پہلے اس نے ماچس سے ایک اور سگریٹ جلائی اور دوروزہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ دروازے پر کھڑے ہو کر اس نے چند لمحے اندر کا جائزہ لیا۔ کسی کے منہ سے بے اختیار سیٹی کی آواز نکلی۔ بار میں موجود تمام مردوں کی نگاہیں اس کے بدن سے چپک کر رہ گئیں تھیں۔ وہ ایک خالی میز پر بیٹھ گئی ۔ کرسی پر بیٹھتے ہی ایک بیرا بڑی مستعدی سے اس کے سر پر آ موجود ہوا۔
"میرا خیال ہے۔“ ڈیزی نے پر خیال انداز میں ویٹر سے کہا۔ ” تم میرے لیے وسکی لے آؤ۔“
"یس مس" ویٹر نے مودبانہ انداز میں کہا۔ "سوڈے کے ساتھ ؟"
نہیں، پانی کے ساتھ۔“
"یسں مس۔" ویٹر نے مؤدبانہ انداز میں سر جھکایا اور آرڈر کی تکمیل کے لیے لپکا۔
ڈیزی نے ویسکی کا گلاس ہونٹوں سے لگا کر بڑے بڑے گھونٹ نہیں لیے بلکہ وہ آہستہ آہستہ باوقار انداز میں چسکیاں لینے لگی ۔ بار میں موجود بیشتر مرداب اسے کن انکھیوں سے نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ اس کے ہوشربا حُسن سے برملا لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ لوگوں کے چہروں پر شیطانی مسکراہٹیں تھیں، کچھ کی آنکھیں پرامید تھیں۔ کچھ بے قراری سے پہلو بدل رہے تھے۔ ڈیزی نے غیر جانبداری سے ان نظروں کا مقابلہ کیا۔ اس نے نہ تو کسی کی حوصلہ افزائی کی نہ کسی کی حوصلہ شکنی کی مگر اس کے باوقار انداز نے کسی کو نظروں کی حد سےآگے نہیں بڑھنے دیا۔ اسی طرح وہ آدھے گھنٹے تک بھی رہیں ۔
پھر وہ آدمی بار میں داخل ہوا۔
وہ بار میں موجود دوسرے لوگوں سے کچھ زیادہ ممتاز نہیں تھا بلکہ اس کے سر پر رکھا ہوا ہیٹ کئی جگہ سے میلا بھی ہو رہا تھا جو اس بات کی علامت تھی کہ اسے برابر کئی سال سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کا سوٹ اچھی تراش خراش کا تھا لیکن وہ بھی شاید استری کی شکل کبھی کبھار دیکھتا تھا۔ اس کا شیو بڑھا ہوا تھا لیکن قدرتی سرخ بالوں کی وجہ سے بڑھا ہوا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ وہ بار میں داخل ہوتے ہی تھکے تھکے انداز میں ایک سٹول پر ڈھیر ہو گیا۔ اسے دیکھتے ہی بار ٹینڈر اس کی طرف لپکا اور کچھ پوچھے بغیر اس نے اس کے سامنے بوریوں کا گلاس رکھ دیا۔ ظاہر تھا وہ شخص اس بار کا مستقل گاہک تھا۔ نو وارد کسی پیاسے اونٹ کی طرح بور یون کے گلاس پر ٹوٹ پڑا اور چند بڑے بڑے گھونٹ لے کر اس نے خالی گلاس میز پر پنج دیا۔ شراب کا ایک گلاس پی کر نو وارد کے حواس کچھ درست ہونے تو اس نے طائرانہ نظروں سے بار کا ایک جائزہ لیا اور پھر جیسے ہی اس کی نظریں ڈیزی پر پڑیں اس کا بجھا بجھا سا چہرہ ایک عمدہ چیز دیکھ کر دمک اُٹھا۔ اس نے سر موڑ کر بار ٹینڈر سے کچھ دریافت کیا اور جب بار ٹینڈر نے لاعلمی میں کا ندھے اچکا دیے تو اس کا چہرہ لٹک گیا۔
ڈیزی نے ویسکی کی چسکی لیتے ہوئے نظریں اٹھا کر غور سے نو وارد کا جائزہ لیا۔
دونوں کی نظریں ٹکرائیں۔
نو وارد نے بوریون کا دوسرا گلاس پی کر وہ حرکت کی جس کے بارے میں بار میں موجود ہر شخص بہت دیر سے غور کر رہا تھا لیکن کسی میں عملی قدم اٹھانے کی جرات نہیں تھی۔ نو وارد نے ڈیزی کے قریب پہنچ کر بڑے احترام سے کہا۔ ”معاف کیجیے گا خاتون ! اگر آپ تنہائی چاہتی ہیں تو میں ہرگز آپ کی تنہائی میں مخل ہونا پسند نہیں کروں گا۔"
ڈیزی کے ہونٹوں پر ایک میٹھی سی شرارت بھری مسکراہٹ بکھر گئی۔" تو پھر آپ کیا کریں گے؟“
ڈیزی نے پوچھا۔
نو وارد اس غیر متوقع سوال پر گڑ بڑا گیا۔ "میں .... میں واپس سٹول پر چلا جاؤں گا۔ میرا مطلب ہے اگر آپ کسی اجنبی سے معصومانہ گفتگو کرنا پسند کریں تو میری خدمات حاضر ہیں ۔"
"مجھے سوچنا پڑے گا۔“ ڈیزی نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔ پھر اچانک نظریں اٹھا کے پوچھا۔" معصومانہ گفتگو سے آخر آپ کا کیا مطلب ہے محترم اجنبی ؟" شاید ڈیزی کی آنکھوں میں زبردست مقناطیسیت تھی ، اس لیے نو وارد فوراً اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ اتنا نادان بھی نہیں تھا۔
"کیا آپ کچھ پینا پسند کریں گے؟“‘ نو وارد نے اطمینان سے سوال کیا۔ بے شک نہ صرف پسند کروں گی بلکہ اصرار کروں گی ۔
اپنے سامنے بیٹھی ہوئی ایک بے حد حسین و دلکش عورت کی اس بے تو بے تکلفی پر نو وارد کا چہرہ کھل اُٹھا۔ ہنستے وقت اس کا چہرہ کسی معصوم بچے کے چہرے کی طرح نظر آ رہا تھا۔ اس نے انگلی کے اشارے سے ویٹر کو نزدیک آنے کا اشارہ کیا۔ وہ دوڑتا ہوا آیا اور ادب سے جھک گیا۔ اجنبی نے اپنے لیے بوریون اور خوب صورت خاتون کے لیے وسکی کا آرڈر دیا ۔ آرڈر کی تکمیل تک دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
"آپ کو اس جگہ تنہا دیکھ کر مجھے بہت تعجب ہوا۔" نو وارد نے کہا۔" میرا مطلب ہے آپ جیسی خوب صورت عورتیں تنہا باروں میں بیٹھی رہتی ہیں لیکن وہ بار ایسے نہیں ہوتے جیسا یہ ہے۔ آپ میرا مطلب سمجھ رہی ہوں گی۔ آپ جیسی خاتون اگر کبھی یہاں تنہا آتی ہے تو بے مقصد نہیں آتی۔ اسے کسی کا انتظار ہوتا ہے، ہے کہ کسی سے ملاقات کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ کیا آپ کے یہاں آنے کا بھی کوئی ... مقصد ہے؟“
"مقصد ضرور ہے لیکن مجھے کسی دوست کا انتظار نہیں ہے۔ کسی سے ملاقات کا وقت مقر رنہیں ہے۔ میں ایک تنہا لڑکی ہوں اور تنہائی دور کرنے کے لیے کسی موزوں ساتھی کی تلاش میں ہوں لیکن میرا معیار گھٹیا نہیں ہے۔" ڈیزی نے بے باکی سے جواب دیا۔
"آپ کو کس قسم کے ساتھی کی تلاش ہے؟“‘ اجنبی کا لہجہ پر اشتیاق تھا۔
"میں ایک بہت بڑی کمپنی میں سیکریٹری ہوں۔ میری تنخواہ بہت معقول ہے۔ میرا اپنا ایک خوب صورت فلیٹ ہے۔ مجھے پیسوں کے بارے میں کبھی پریشانی نہیں ہوتی ۔ " ڈیزی نے نو وارد کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ چند لمحوں تک دونوں کی نظریں ملی رہیں پھر ڈیزی نے کرسی پر پہلو بدلا تو میز کے نیچے اس کے گھٹنے اجنبی کے گھٹنوں سے ٹکرا گئے مگر ڈیزی نے زاویہ نہیں بدلا۔
نو وارد نے کئی مرتبہ تھوک نگلنے کی کوشش کی ۔ ”میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا میں آپ کے معیار پر پورا اترتا ہوں؟“
ڈیزی نے آہستہ آہستہ غور سے اس کا جائزہ لیا۔ "ہاں آں ۔ ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ چل سکتے ہیں .... میرا مطلب ہے مسٹر ..."
"جیک" نو وارد نے بے تابی سے لقمہ دیا۔
"ہاں تو مسٹر جیک! میرا خیال ہے، بلکہ مجھے یقین ہے کہ آپ ایک عمدہ ساتھی ثابت ہو سکتے ہیں ..."
ڈیزی نے زندہ دلی سے ایک ہلکا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ” میرا نام ڈیزی ہے۔ کچھ دقیانوسی سا نام ہے لیکن آپ کو میرے نام سے دھوکا کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود روشن خیال ہوں۔ اوہ، میں بہت تھک گئی ہوں ۔" ڈیزی نے ہلکے سے جماہی لی۔ "میں گھر جانا چاہتی ہوں۔“
"آپ کہاں رہتی ہیں؟“
" میں بہتر ویں سٹریٹ پر باغیچے کے قریب رہتی ہوں۔" میری خواب گاہ میں باغیچے کی طرف سے بڑی ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ بس بے اختیار بستر پر لیٹنے کو دل چاہتا ہے ۔"
مسٹر جیک نے رومال نکال کر چہرے سے پینا خشک کیا۔ وہ کچھ نروس سے ہو گئے تھے غالباً ایسی بے باک اور باوقار خاتون سے آج تک ان کا واسطہ نہیں پڑا تھا۔
"کیا آپ کچھ اور پینا چاہتے ہیں؟" ڈیزی نے نے انھیں نروس دیکھ کر کہا۔
"نہیں .... میرا خیال ہے اس کی ضرورت نہیں ہے۔“
"کیا میرے ساتھ میرے گھر پر بھی نہیں؟" ڈیزی نے بڑی ادا سے پوچھا۔
"ارے نہیں، بھلا میں کس طرح انکار کر سکتا ہوں ۔" مسٹر جیک نے تقریباً شرماتے ہوئے جواب دیا۔
بار سے باہر نکل کر وہ دونوں فٹ پاتھ پر ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ ڈیزی نے ہاتھ اٹھا کر ایک ٹیکسی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ جب ڈیزی فلیٹ ایف ٣ کے سامنے سے گزر رہی تھی تو وہ رک کر اندر سے آنے والی آوازیں سننے لگی۔
اسے اندر وہی جانا پہچانا شور سنائی دیا۔ وہ منہ دبا کر ہنسنے لگی۔
" کیا ہے؟ کیا بات ہے؟ " مسٹر جیک نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
" سمبا ... " ڈیزی نے جواب دیا۔
”سمبا ؟ یہ کیا ہوتا ہے؟“
"کچھ نہیں، یہ تاش کا ایک کھیل ہے جو میں ہر رات کھیلتی تھی لیکن آج رات ...." اس نے جملہ نا مکمل چھوڑ دیا اور مسٹر جیک کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
خواب گاہ کی کھڑکیوں پر پڑے ہوئے پردے ہوا سے لہرا رہے تھے۔ ڈیزی نیند سے بیدار ہو کر بستر پر بیٹھ گئی پھر اس نے اپنا لباس درست کیا اور اپنے قریب لیٹے ہوئے مرد کی طرف دیکھا۔ وہ گہری نیند میں ڈوبا ہوا تھا۔ ڈیزی نے خاموشی سے چپلیں پہنیں اور کھڑی ہو کر کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگی۔ باہر باغیچے میں لگے ہوئے درختوں پر سورج پوری آب و تاب سے نکلا ہوا تھا۔ اس نے دیوار کی گھڑی میں وقت دیکھا۔ نوبج رہے تھے۔ ڈیزی بلیوں کی طرح خاموشی سے چلتی ہوئی خواب گاہ سے باہر نکلی اور ڈرائنگ روم میں رکھتے ہوئے ٹیلیفون کے قریب آ کر رک گئی۔ چند لمحے وہ بے یقینی سے ٹیلی فون کی طرف دیکھتی رہی پھر اس نے فیصلہ کن انداز میں ریسیور اٹھایا اور اپنی لانبی لانبی انگلیوں سے ایک نمبر ڈائل کیا۔
"ہیلو "، دوسری جانب سے نیند میں ڈوبی ہوئی ایک مردانہ آواز نے جواب دیا۔
"ڈاکٹر اسٹینلے؟“
" ہاں میں بول رہا ہوں ۔" ڈاکٹر نے جھنجھلائی ہوئی آواز میں کہا۔
"دو میں ڈیزی بول رہی ہوں .... آپ پہچان تو گئے ہوں گے؟ میں نے آپ کی نیند خراب تو نہیں کی؟“
" بے شک لیکن افسوس سے فائدہ؟ خیر ۔ کیا اب کوئی نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے؟“
" نہیں ڈاکٹر صاحب۔" ڈیزی نے جلدی سے جواب دیا۔" میں نے آپ کو یہ اطلاع دینے کے لیے ٹیلیفون کیا تھا کہ کل رات میں نے آپ کے مشورے پر عمل کیا۔ وہ مجھے اس بار میں ٹکرایا جہاں وہ معمول کے مطابق جاتا تھا۔ میں اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی۔ اب وہ میرے بستر پر گہری نیند سو رہا ہے۔"
"شاباش" ڈاکٹر نے گرم جوشی سے کہا۔ ” تم دونوں کے لیے اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں۔ مجھے امید ہے کہ پرانی چیزیں دیکھ کر اور پرانی جگہ واپس آکر تمھارے شوہر کی یادداشت آہستہ آہستہ واپس آ جائے گی۔
"پتا نہیں کیوں، میں نے آپ کے مشورے پر اتنے عرصے بعد عمل کیا ۔" ڈیزی کے لہجے سے افسوس ظاہر تھا۔" لیکن میں اس کے لیے جیک کو قصور وار نہیں ٹھہر سکتی۔ میرا مطلب ہے کہ اس کی بیماری ...."
”بے شک یادداشت کا اس طرح غائب ہو جانا ایک طرح کی بیماری ہوتی ہے لیکن یہ بیماری لاعلاج نہیں ہے۔ بس اس کے لیے تمھارے بھر پور تعاون کی ضرورت ہے۔“
ڈاکٹر صاحب میں آپ کا شکریہ ادا کرنا ...
"ا بھی نہیں، بعد میں ۔ جب تمھارا شوہر مکمل طور پر صحت یاب ہو جائے اور اس کی یادداشت واپس آ جائے ۔" ڈاکٹر اسٹینلے نے ٹیلیفون بند کر دیا۔ ڈیزی نے ریسیور رکھ کر خواب ناک نظروں سے خواب گاہ کی طرف دیکھا۔ پھر اس نے اپنی پیشانی پر بل کھاتی ہوئی ایک لٹ جھٹک کر پیچھے کی اور اس نے کمرے کے سامان کی ترتیب بدل دی۔
"کاش ابھی اس کی یادداشت جلد واپس نہ آئے ۔“ ڈیزی نے زیرِ لب خود سے کہا اور پھر خود ہی اپنے کسی خیال سے شرما کر باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔
Written by
**Henry Slesar** (June 12, 1927 – April 2, 2002) was an American author and playwright. He is famous for his use of irony and twist endings. After reading Slesar's "M Is for the Many" in Ellery Queen's Mystery Magazine, Alfred Hitchcock bought it for adaptation and they began many successful collaborations. Slesar wrote hundreds of scripts for television series and soap operas, leading TV Guide to call him "the writer with the largest audience in America." (Wikipedia)
Comments
Post a Comment