افسانہ نمبر 671 : سانحۂ ہارلم || تحریر : او ہنری (امریکہ) || اردو ترجمہ : رومانیہ نور
افسانہ نمبر 671 : سانحۂ ہارلم
تحریر : او ہنری (امریکہ)
اردو ترجمہ : رومانیہ نور (ملتان)
مسز فِنک، اپنی پڑوسن مسز کیسیڈی کے فلیٹ میں، جو ان کی نچلی منزل پر واقع تھا،تشریف لائی تھی۔
"کیا یہ خوبصورت نہیں ہے، ہے نا؟" مسز کیسیڈی نے کہا۔
اس نے فخر سے اپنا چہرہ مسز فِنک کی طرف موڑا تاکہ وہ دیکھ سکے ۔ ایک آنکھ تقریباً بند ہو چکی تھی، جس کے گرد سبزی مائل جامنی رنگ کا بڑا سا نیل تھا۔ اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا جہاں سے تھوڑا خون بہہ رہا تھا، اور گردن کے دونوں اطراف انگلیوں کے سرخ نشان ثبت تھے۔
"میرے شوہر تو کبھی میرے ساتھ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے،" مسز فِنک نے رشک چھپاتے ہوئے کہا۔
"میں تو ایسے مرد کے ساتھ رہ ہی نہیں سکتی، جو مجھے ہفتے میں کم از کم ایک بار نہ پیٹے،" مسز کیسیڈی نے اعلان کیا۔
"یہ تو اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ تمہیں چاہتا ہے۔ اور سنو! جو آخری مار مجھے جیک نے دی تھی، وہ تو ہرگز معمولی نہیں تھی۔ ابھی تک آنکھوں کے آگے تارے نظر آتے ہیں۔ لیکن اب وہ سارا ہفتہ شہر کا سب سے حلیم انسان بنا رہے گا، مجھے خوش کرنے کے لیے٬ یہ آنکھ کم از کم تھیٹر کے ٹکٹ اور ریشمی قمیص تو دلوا ہی دے گی۔"
"مجھے تو امید ہے،" مسز فِنک نے خوداعتمادی سے کہا، "کہ مسٹر فِنک اتنے شریف آدمی ہیں کہ کبھی مجھ پر ہاتھ نہ اٹھائیں گے۔"
"ارے چھوڑو، میگی!" مسز کیسیڈی نے ہنستے ہوئے کہا اور وِچ ہیزل (مرہم) لگانے لگی، "تم تو بس حسد کر رہی ہو۔ تمھارا آدمی تو اتنا سست اور بیکار ہے کہ تمھیں ایک گھونسہ بھی نہ مار سکے۔ وہ تو بس آکر اخبار پڑھنے بیٹھ جاتا ہے—ہے نا سچ میں نا؟"
"مسٹر فِنک واقعی گھر آتے ہی اخبار پڑھنا شروع کر دیتے ہیں،" مسز فِنک نے سر ہلاتے ہوئے اعتراف کیا، "لیکن وہ مجھے کسی 'اسٹیو او ڈونل' کی طرح تو نہیں بنا دیتے صرف اپنے شوق کے لیے—یہ تو بالکل طے ہے۔"
مسز کیسیڈی ایک مطمئن اور خوش بیوی کی ہنسی ہنسی۔
جس طرح کورنِیلیا اپنے زیورات کی نمائش کرتی ہے، اس نے اپنے کیمونو کا کالر نیچے کیا اور ایک اور قیمتی نیل دکھایا—قرمزی رنگ کا، کنارے پر زیتونی اور نارنجی رنگ لیے ہوئے—ایک ایسا نیل جو اب تقریباً ٹھیک ہو چکا تھا، لیکن یادوں میں اب بھی قیمتی تھا۔
مسز فِنک نے ہار مان لی۔ اس کی آنکھوں کی رسمی سختی ایک رشک بھری نرمی میں بدل گئی۔
وہ اور مسز کیسیڈی شادی سے ایک سال پہلے شہر کے مرکزی علاقے کی پیپر باکس فیکٹری میں ساتھی تھیں۔ اب وہ اور اس کا شوہر مسز کیسیڈی اور اس کے شوہر کے اوپر والے فلیٹ میں رہتے تھے۔ اس لیے وہ مسز کیسیڈی کے سامنے شیخی نہیں بگھار سکتی تھی۔
"جب وہ تمھیں مارتا ہے تو درد نہیں ہوتا؟" محترمہ فِنک نے تجسس سے پوچھا۔
"درد!"—مسز کیسیڈی نے قہقہہ لگایا۔ "ارے سُنو—کبھی تم پر اینٹوں کا مکان گرا ہے؟—بس بالکل ویسا ہی لگتا ہے—جیسے تمھیں ملبے سے نکالا جا رہا ہو۔
جیک کے بائیں ہاتھ کا مطلب ہوتا ہے دو میٹنی شو اور نئے آکسفورڈ جوتے —اور اس کا دایاں ہاتھ!—اس کا حق تو کونی آئی لینڈ کی سیر اور چھ جوڑے ریشمی جرابیں ادا کرتی ہیں۔"
"لیکن وہ تمھیں مارتا کیوں ہے؟" مسز فِنک نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔
"بیوقوف!" مسز کیسیڈی نے نرمی سے کہا، "کیوں کہ وہ نشے میں ہوتا ہے۔ ایسا عموماً ہفتے کی راتوں میں ہوتا ہے۔"
"لیکن تم اسے کوئی وجہ تو دیتی ہوگی؟" جاننے کی خواہش مند مسز فِنک نے ضد کی۔
"کیوں، کیا میں نے اس سے شادی نہیں کی؟ جیک نشے میں دھت ہو کر آتا ہے؛ اور میں یہاں ہوں، ہے نا؟ اس کے علاوہ اور کس پر اسے ہاتھ اٹھانے کا حق ہے؟ میں تو چاہتی ہوں کہ کبھی اسے کسی اور پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھوں!
کبھی اس لیے مارتا ہے کہ کھانا تیار نہیں ہوتا؛ اور کبھی اس لیے کہ کھانا تیار ہوتا ہے۔
جیک کو وجہ سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔
وہ بس اتنا پیتا ہے کہ اسے یاد آ جائے کہ وہ شادی شدہ ہے، اور پھر وہ گھر کی طرف آ نکلتا ہے اور مجھے ٹھیک کر دیتا ہے۔
ہفتے کی راتوں کو میں بس وہ فرنیچر ہٹا دیتی ہوں جس کے کونے نوکیلے ہوں، تاکہ جب وہ مصروفِ کار ہو تو میرے سر پر چوٹ نہ آئے۔اس کا بایاں مکا ایسا ہے کہ ہلا کر رکھ دیتا ہے! کبھی کبھی تو پہلے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ ہو جاتی ہوں؛ لیکن جب ہفتے کے دوران کچھ اچھا وقت گزارنے کا دل ہو یا کوئی نئے کپڑوں کی خواہش ہو، تو دوبارہ مار کھانے کے لیے میدان میں آ جاتی ہوں۔ یہی کل رات میں نے کیا۔
جیک جانتا ہے کہ مجھے پچھلے مہینے سے سیاہ ریشمی قمیص چاہیے، اور میرا نہیں خیال تھا کہ صرف ایک سیاہ آنکھ ہی اس کے لیے کافی ہوگی۔
سن میری بات، میگ، میں شرط لگاتی ہوں کہ آج رات وہ ضرور لے آئے گا۔ آئس کریم کی شرط لگا لے۔"
مسز فِنک گہری سوچ میں تھی۔
"میرا مارٹ،" اس نے کہا، " اس نے تو زندگی میں کبھی مجھے ایک چپت بھی نہیں رسید کی۔
بالکل ایسا ہی ہےجیسا تم نے کہا، میم؛ وہ چڑچڑا سا گھر آتا ہے، اور ایک لفظ تک نہیں کہتا۔
کہیں لے کر بھی نہیں جاتا۔
گھر میں بس کرسی پر بیٹھ کر وقت گزارتا ہے۔
چیزیں تو خرید دیتا ہے، لیکن اتنے اُداس انداز میں کہ ان کی کوئی قدر ہی محسوس نہیں ہوتی۔"
مسز کیسیڈی نے اپنی سہیلی کو بانہوں میں لے لیا۔
"تم بے چاری!" اس نے کہا۔
"لیکن سب کے نصیب میں جیک جیسے شوہر کہاں ہوتے ہیں؟
شادی ناکام ہی نہ ہو اگر سارے مرد اس جیسے ہوں۔
جو بیویاں تمہیں شکوہ کرتی نظر آتی ہیں—انہیں بس ایسا شوہر چاہیے جو ہفتے میں ایک بار آ کر ان کی خوب دھلائی کرے، اور پھر بوسوں اور چاکلیٹ سے تلافی کرے۔
تب جا کے زندگی میں کوئی مزہ آئے۔
مجھے ایسا مرد چاہیے جو جب نشے میں ہو تو مارے، اور جب نشے میں نہ ہو تو گلے لگا لے۔
خدا بچائے ایسے مرد سے جس میں نہ مارنے کی ہمت ہو نہ پیار کرنے کی!"
مسز فِنک نے ایک آہ بھری۔
اچانک سیڑھیوں پر شور سنائی دیا۔
دروازہ زور سے کھلا، جیسے کسی نے لات مار کر کھولا ہو—یہ تھے مسٹر کیسیڈی۔
اس کے ہاتھوں میں تھیلے بھرے ہوئے تھے۔
میم جھپٹی اور اُس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ اُس کی صحت مند آنکھ میں محبت کی وہ چمک جھلکنے لگی، جو کسی ماؤری دوشیزہ کی آنکھ میں اُس وقت نظر آتی ہے جب وہ ہوش میں آ کر اُس جھونپڑی میں آنکھ کھولتی ہے، جہاں اُس کے چاہنے والے نے اُسے بے ہوش کر کے لا ڈالا ہو ۔
"ہیلو، جانِ من !" مسٹر کیسیڈی زور سے بولے۔
اس نے تھیلے نیچے رکھے اور میم کو بازوؤں میں اٹھا لیا۔
"بارنم اینڈ بیلی کا شو دیکھنے کے ٹکٹ لایا ہوں، اور اگر تم ان میں سے کسی تھیلے کی گرہ کھولو گی، تو میرا خیال ہے تمھیں وہ ریشمی قمیص بھی مل جائے گی—اوہ، شام بخیر، مسز فِنک—میں نے آپ کو پہلے دیکھا نہیں۔ مارٹ صاحب کیسے ہیں؟"
"وہ بالکل ٹھیک ہیں، مسٹر کیسیڈی—شکریہ،" مسز فِنک نے کہا۔
"اب مجھے جانا چاہیے۔ مارٹ جلدی ہی کھانے کے لیے گھر آ جائے گا۔
میں کل تمھیں وہ نمونہ دے جاؤں گی جو تم نے مانگا تھا، میم۔"
مسز فِنک اپنے فلیٹ میں واپس گئی اور دھیما سا رونے لگی۔
یہ ایک بے معنی سا رونا تھا، ایسا رونا جس کا مطلب صرف عورت ہی جانتی ہے، جس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی قابل فہم مقصد ہوتا ہے—
ایک بالکل احمقانہ سا رونا؛
غم کے ذخیرے میں سب سے کمزور، سب سے عارضی اور سب سے مایوس کن رونا۔
مارٹن نے کبھی اسے پیٹا کیوں نہیں؟
حالانکہ وہ جیک کیسیڈی جتنا ہی جسیم اور طاقتور تھا۔ کیا وہ اس سے بالکل محبت نہیں کرتا؟ وہ کبھی جھگڑتا نہیں؛ بس چپ چاپ گھر آتا ہے اور بے دلی سے بیٹھا رہتا ہے، ساکت، اُداس، کاہل۔
وہ چیزیں لا کر دیتا ہے، لیکن زندگی کی رنگینیوں کا ذرا بھی قائل نہیں۔
مسز فِنک کے خوابوں کا جہاز بالکل ٹھہر چکا تھا۔ اس کا کپتان صرف پلم ڈف (میٹھا کھانا) اور اپنے جھولے (ہیموک) کے درمیان ہی جھولتا رہتا تھا۔
کاش! وہ کبھی کبھار غصے میں پاؤں ہی پٹخ دیتا، یا زور سے ڈانٹ ہی دیتا!
اور وہ تو سمجھتی تھی کہ یہ زندگی خوشیوں سے بھری ایک شاندار کشتی کی مانند ہوگی، جو مسرت کے جزیروں پر لنگر انداز ہوتی رہے گی!
لیکن اب، تمثیل کو ذرا بدلتے ہوئے، وہ ہار ماننے کو تیار تھی ، حالانکہ اُس کی جدوجہد کا کوئی ظاہری نشان تک نہیں تھا۔ وہ تمام سست، بےجان 'مقابلے' جو اُس نے اپنے شریکِ حیات کے ساتھ گزارے، اُن کا کوئی نتیجہ، کوئی زخم، کوئی اثر تک نہ تھا۔
ایک لمحے کے لیے، اسے میم سے تقریباً نفرت ہی ہو گئی—میم، جس کی آنکھوں کے نیچے نیل تھے، مگر ان پر مرہم تھا تحفوں اور بوسوں کا؛
اس کی زندگی ایک طوفانی سفر کی مانند تھی، ایک ایسا شوہر جس سے وہ لڑتی تھی، جو ظالم بھی تھا اور محبت کرنے والا بھی۔
مسٹر فِنک شام سات بجے گھر آئے۔ وہ گھریلو زندگی کے آرام کی لعنت میں پوری طرح ڈوب چکے تھے۔ اپنے آرام دہ گھر کی دہلیز سے آگے جانا اُنہیں گوارا نہ تھا٬ گھومنا پھرنا بے معنی تھا۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جو بس روزانہ کی بس پکڑ لیتے تھے ، وہ اژدہا بن چکے تھے جس نے اپنے شکار کو نگل لیا ہو، وہ درخت ہو گئے تھے جو ایک بار گرا تو پھر وہیں پڑا رہ گیا۔
"کھانا کیسا لگا، مارٹ؟"
مسز فِنک نے پوچھا، جو اس نے خاص محنت سے تیار کیا تھا۔
"ہمم... ہاں، ٹھیک ہے،"
مسٹر فِنک نے بس اتنا ہی مختصر سا جواب دیا۔
کھانے کے بعد وہ موزوں سمیت اپنے اخبارات لے کر پڑھنے بیٹھ گئے۔
اے کاش !کوئی نیا دانتے(Dante) اٹھے، اور مجھے اس مناسب دوزخی گوشے کا گیت سنائے، جو اُس مرد کے لیے مخصوص ہو جو گھر میں موزے پہنے بیٹھا رہتا ہے۔ اے صبر کی بہنو! تم جو رشتے یا فرض کی وجہ سے ریشم، دھاگے، سوتی، نائلن یا اون کے موزوں کے ساتھ اس آزمائش کو سہتی آئی ہو — کیا اس نئے 'کینٹو'
(نظم کے بند) کی حق دار نہیں بنتیں؟
اگلا دن "یومِ مزدور" (Labor Day) تھا۔ مسٹر کیسیڈی اور مسٹر فِنک دونوں کی مصروفیات ایک دن کے لیے ختم ہو گئی تھیں۔ محنت اپنی فتح کا جشن منانے والی تھی—جلوس، تفریح، اور خوشیاں۔
مسز فِنک نے صبح صبح ہی میم کے لیے درزی کا دیا ہوا نمونہ لے جا کر دیا۔ میم نے نئی ریشمی قمیص پہن رکھی تھی۔ حتیٰ کہ اس کی سوجی ہوئی آنکھ میں بھی چھٹی کا ایک چمکدار سا تاثر جھلک رہا تھا۔ جیک شرمندہ اور نادم تھا، اور آج کے دن کے لیے ایک پرجوش منصوبہ تیار تھا— جس میں پارک، پکنک، اور بیئر شامل تھے۔
جب مسز فِنک اپنے فلیٹ پر واپس آئی تو اس کے دل میں ایک جوش بھری، حسد آلود بے چینی جاگ اٹھی، ۔
آہ خوش نصیب میم! جسے زخم بھی ملے اور فوراً ان پر مرہم بھی لگا!
لیکن کیا خوشی پر صرف میم کی اجارہ داری ہے؟ کیا مارٹن فِنک جیک کیسیڈی جتنا اچھا مرد نہیں؟ کیا اس کی بیوی کو ہمیشہ یونہی بے مار، اور بے پیار رہنا ہوگا؟
ایک دم، ایک شاندار، دم بخود کر دینے والا خیال مسز فِنک کے ذہن میں آیا۔
وہ میم کو دکھا کر رہیں گی کہ ایسے شوہر اور بھی ہیں جو نہ صرف ہاتھ چلاتے ہیں بلکہ بعد میں پیار بھی کر سکتے ہیں— کوئی بھی جیسے جیک!
فِنکس کے ہاں یہ چھٹی محض نام کی چھٹی معلوم ہو رہی تھی۔ مسز فنک نے باورچی خانے میں لگے ہوئے مستقل واش ٹب بھر رکھے تھے، جن میں دو ہفتوں کے کپڑے بھگوئے گئے تھے اور وہ رات بھر بھیگتے رہے تھے۔ مسٹر فنک اپنے پیروں میں موزے پہنے سمیت بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔یوں لگتا تھا کہ یومِ مزدور بس یونہی گزر جائے گا۔
مسز فِنک کے دل میں حسد کا طوفان اُٹھا، اور اُس سے بھی اونچا ایک بے باک ارادہ۔
اگر اس کا مرد اسے مارنے کو تیار نہیں تھا— اگر وہ اپنی مردانگی، اپنی ازدواجی دلچسپی اور حق ثابت کرنے میں ناکام ہو رہا تھا— تو اُسے اس کے فرض کی یاددہانی کرائی جانی چاہیے۔
مسٹر فنک نے اپنا پائپ سلگایا اور اطمینان سے ایک ٹانگ کو موزے پہنے پیر سے سہلانے لگے۔ وہ شادی کے بندھن میں بالکل ایسے ڈھب سے پڑے تھے جیسے پڈنگ میں بغیر گھلا ہوا چربی کا ایک ڈلا پڑا ہو۔ یہی اُن کے لیے جنت کا درجہ رکھتا تھا — آرام سے بیٹھے بیٹھے، اخبار کے ذریعے دنیا کا خیالی سفر کرنا، جب کہ بیوی صابن جھاگ سے برتن دھو رہی ہو، اور آس پاس ناشتے کے ختم شدہ برتنوں اور آنے والے کھانے کی خوشبوئیں مہک رہی ہوں۔ بہت سے خیالات اُن کے ذہن سے دور تھے، لیکن سب سے زیادہ دُور یہ خیال تھا کہ وہ کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائیں۔
مسز فِنک نے گرم پانی کھولا اور دھونے کے برتن صابن کے جھاگ میں رکھ دیے۔ نیچے والے فلیٹ سے مسز کیسیڈی کی خوش باش ہنسی سنائی دی۔وہ ہنسی طنز کی طرح لگی—ایسے جیسے وہ اپنی خوشی کا اظہار دانستہ طور پر اوپر والے فلیٹ کی نہ پیٹی گئی دلہن کے سامنے کر رہی ہو۔
اب وقت تھا مسز فِنک کا۔ اچانک وہ طیش میں آ کر اپنے شوہر کی طرف مڑی، جو اخبار پڑھ رہا تھا۔
"تمھیں شرم نہیں آتی، کاہل کہیں کے!" وہ چلائی،
"میں اپنے بازو توڑ ڈالوں کام کرتے کرتے، اور تم جیسے بدصورت کے لیے دھلائی کروں؟ تم مرد ہو یا کوئی رسوئی کا کتا؟"
مسٹر فِنک نے حیرانی سے اخبار گرا دیا، وہ حیرت سے ساکت ہو گئے۔
اُسے ڈر ہوا کہ شاید وہ مارے گا ہی نہیں—کہ اُس کی تذلیل ناکافی رہی ہو۔ وہ اُس پر جھپٹی اور پوری شدت سے مکہ اُس کے چہرے پر دے مارا۔
اسی لمحے میں اُس کے دل میں شوہر کے لیے ایک عجیب سی محبت کی لہر جاگ اُٹھی، ایسی محبت جو مدتوں سے اُس نے محسوس نہیں کی تھی۔ اٹھو، مارٹن فِنک، اور اپنی سلطنت میں قدم رکھو!
اوہ، اب تو اُسے اُس کے ہاتھ کا زور ضرور محسوس ہونا چاہیے—بس یہ جاننے کے لیے کہ وہ پروا کرتا ہے—
بس یہ جاننے کے لیے کہ وہ پروا کرتا ہے!
مسٹر فِنک اپنی جگہ سے اچھلے—مگر میگی نے اُسے دوسری طرف سے بھی زور دار مکا جڑ دیا۔
اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں،
اُس ڈر اور خوشی کے ملے جلے لمحے میں، جب اُسے شوہر کا وار محسوس ہونے والا تھا—اُس نے آہستہ سے اُس کا نام اپنے لبوں پر دہرایا—وہ اُس جھٹکے کے لیے جھکی، جسے محسوس کرنے کی بھوکی تھی۔
نیچے والے فلیٹ میں، مسٹر کیسیڈی شرمندہ اور نادم چہرے کے ساتھ میم کی آنکھ پر پاؤڈر لگا رہے تھے تاکہ وہ دونوں تفریح کے لیے جا سکیں۔
اوپر والے فلیٹ سے ایک عورت کی بلند آواز آئی، پھر گرنے، کھڑکھڑانے، اور گھسٹنے کی آوازیں، ایک کرسی کے گرنے کی آواز— یقیناً گھریلو جھگڑے کی آوازیں تھیں۔
"مارٹ اور میگی لڑ رہے ہیں؟"
مسٹر کیسیڈی نے اندازہ لگایا،
"پتا نہیں تھا کہ وہ بھی کبھی اس تفریح میں شامل ہوتے ہیں۔
جاؤں اوپر دیکھنے؟ شاید زخم پونچھنے والے کی ضرورت ہو؟"
مسز کیسیڈی کی ایک آنکھ ہیرے کی طرح چمکی،
دوسری بھی کم از کم نقلی زیور کی طرح جھلملا اٹھی۔
"اوہ، اوہ،" اُس نے آہستہ اور بظاہر بے معنی انداز میں کہا، جیسے اکثر عورتیں اچانک کچھ یاد آنے یا چونکنے پر کہتی ہیں۔ "میں سوچ رہی ہوں کہ شاید۔۔۔ شاید! ٹھہرو، جیک، میں اوپر جا کر دیکھ لوں۔"
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ تیزی سے اوپر پہنچی۔
جیسے ہی اُس کا پاؤں اوپر راہداری میں پڑا، مسز فِنک دیوانہ وار کچن کے دروازے سے باہر نکلی۔
"اوہ میگی!"
مسز کیسیڈی نے خوشی سے سرگوشی کی،
"کیا اُس نے؟ اوہ، کیا اُس نے واقعی کچھ کیا؟"
مسز فِنک دوڑ کر اپنی سہیلی کے کندھے پر سر رکھ کر زار و قطار رونے لگی۔
مسز کیسیڈی نے میگی کا چہرہ نرمی سے اپنے ہاتھوں میں تھاما اور آہستگی سے اُسے اوپر اٹھایا۔ اُس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا، کبھی سرخ ہو رہا تھا، کبھی زرد پڑ رہا تھا، مگر اُس کے گلابی و سفید اور مخملی جلد والے چہرے پر — جس پر خوبصورتی سے ہلکی سی چھائیاں تھیں — مسٹر فنک کے کسی بے وفا مکے کا کوئی نشان تھا، نہ چوٹ، نہ خراش۔
"بتاؤ میگی،" میم نے التجا کی،
"ورنہ میں خود جا کر اندر دیکھوں گی۔
کیا ہوا؟ اُس نے کچھ کہا؟ کچھ کیا؟"
مسز فِنک کا چہرہ پھر سے بے بسی کے ساتھ اپنی سہیلی کے سینے پر جا گرا۔
"خدا کے واسطے دروازہ مت کھولنا، میم،" وہ سسکی،
"اور کسی کو مت بتانا—یہ راز رکھنا۔
وہ... اُس نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا، اور... اوہ خدایا...
وہ... کپڑے دھو رہا ہے... وہ کپڑے دھو رہا ہے!"
A Harlem Tragedy
by O. Henry
Comments
Post a Comment