افسانہ نمبر 670 : پانچ ڈالر کی مسکراہٹ || تحریر : ششی تھرور (بھارت) || اردو ترجمہ : رومانیہ نور (ملتان)
افسانہ نمبر 670 : پانچ ڈالر کی مسکراہٹ
تحریر : ششی تھرور (بھارت)
اردو ترجمہ : رومانیہ نور (ملتان)
"اس بچے کو دوبارہ مسکرانے کا موقع
دیں،" تڑے مڑے، چمکدار نیوز ویکلی کے صفحے پر سیاہ حروف میں لکھا تھا۔
"یہ سب صرف پانچ ڈالر ماہانہ میں ممکن ہے۔"
جوزف
نے اس تصویر کو گھورا جو اس سرخی کے دو حصوں کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔ وہ اسے
ہزاروں بار دیکھ چکا تھا—پھٹے پرانے کپڑے، گہری، شدید، التجا بھری آنکھیں، اور وہ
چھوٹے، گندے ہاتھ جو ضدی انداز میں اس کے بند منھ میں دبے ہوئے تھے۔ وہی تصویر جس
نے چار سال پہلے HELP کی تاریخ کی سب سے کامیاب عالمی اپیل کا آغاز کیا تھا۔
یہ اس کی اپنی تصویر تھی۔
حسبِ معمول، اس نے اسے ایک بار پھر اسی عجیب سی لاتعلقی
کے ساتھ دیکھا جو ان چار برسوں میں اس کی عادت بن چکی تھی۔ وہ اسے اپنی تصویر کے
طور پر نہیں دیکھ سکتا تھا، نہ ہی اپنے ماضی کا کوئی ریکارڈ یا اپنے بچپن کی کوئی
یادگار سمجھ سکتا تھا۔ یہ اس کے لیے ذاتی نہیں تھی؛ یہ عوامی ملکیت بن چکی تھی،
ایک اشتہار، ایک پوسٹر، ایک مہم، اور اب اس کے ہاتھ میں ایک پرانے میگزین کا تراشہ
تھی۔
جو چھوٹا لڑکا اس کی طرف دیکھ رہا تھا، وہ جوزف کمارن
نہیں تھا؛ وہ محض ایک پیغام کا حصہ تھا، ایک نعرے کے ذریعے متعین کردہ، ایک مقصد
کی خدمت میں لگا ہوا، اور یہ حقیقت کہ وہ جوزف کمارن تھا، کوئی معنی نہیں رکھتی
تھی۔ کبھی کوئی معنی تھا ہی نہیں۔
جوزف
نے ایک بار پھر اس تصویر کو دیکھا، جیسے وہ پہلے ہی پانچ بار دورانِ پرواز دیکھ
چکا تھا، جیسے وہ خود کو یقین دلا رہا ہو کہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس بڑے، سرد،
گونجتے ہوئے دیو کے اندر کیا کر رہا تھا، جو اسے ایک اجنبی سرزمین کی طرف لے جا
رہا تھا، جسے وہ صرف ڈاک کے ٹکٹوں پر دیکھ چکا تھا۔ "یہ سب اسی کے بارے میں
ہے،" وہ چاہتا تھا کہ تصویر اس سے کہے۔
یہی تم ہو اور یہی وجہ ہے کہ تم اس انجان چیز پر ہو جسے ہوائی جہاز کہتے
ہیں اور تمھارے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے مگر تمہاری انگلیاں سرد محسوس ہوتی ہیں اور
تمھیں اپنی کمر پر ایک پٹی باندھنی پڑتی ہے جو تمہیں آرام سے آگے جھک کر کھانے سے
روکتی ہے۔
وہ عجیب کھانا جو تم سے توقع کی جاتی ہے کہ تم اسے
پلاسٹک کے کانٹے اور چاقو سے کھاؤ، جو ناممکن طور پر پیک کیے گئے ہیں۔ جبکہ تم
چاہتے ہو کہ تم میں اتنی ہمت ہو کہ تم اس باوقار، دور کھڑی، اور حیران کن حد تک
لمبی، گوری عورت سے مدد مانگو—مدد مانگو ایک کمبل اور دو تکیے کے لیے، اور کچھ
ایسا کھانے کے لیے جو تم کٹلری کی
پیکنگ کھولے بغیر چبا کے کھا سکو…
اس نے تصویر کو دوبارہ تہ کیا اور اسے اس چھوٹے سے سخت
بلیزر کی جیب میں ڈال دیا جو اسے اس دن دیا گیا تھا جب وہ سسٹر سیلین کے ساتھ HELP کے دفتر سے ہوائی اڈے کے لیے نکلا تھا۔ اسے آفات سے بچاؤ کی
امدادی مہم کے لیے بھیجے گئے پرانے کپڑوں کے گٹھر میں بھیجا گیا تھا، جیسا کہ اسے
بعد میں معلوم ہوا، اور اگرچہ یہ اس کے لیے تھوڑا چھوٹا تھا، لیکن امریکہ کے سفر
کے لیے اسے صاف ستھرا دکھانے کے لیے بالکل مناسب تھا۔ "ہمیشہ صاف ستھرا رہنا،
جوزف،" سسٹر سیلین نے کہا تھا۔ "انہیں یہ پتا چلنا چاہیے کہ تم غریب ہو،
لیکن تم ہوشیار ہو، کیونکہ ہم نے تمھاری اچھے طریقے سے پرورش کی ہے۔"
جوزف
پیچھے ہٹ کر بیٹھ گیا، اس کے پاؤں ہوائی جہاز کی نشست سے لٹک رہے تھے، اور اس نے
کھانے کی ٹرے میں پڑے تقریباً ان کھائے کھانے کی طرف دیکھا۔ جب وہ کھانے کے بارے
میں سوچتا تھا، تو اسے اس تصویر والے دن کی یاد آتی تھی۔ وہ تب سات سال کا تھا:
اسی دن اسے معلوم ہوا تھا کہ وہ سات سال کا ہے۔
"یہ چھوٹا بچہ کتنے سال کا ہے؟ وہ جس نے پھٹی ہوئی سفید قمیص پہن رکھی
ہے؟"
"یہ تقریباً سات سال کا ہوگا۔ کوئی بھی
یقین سے نہیں جانتا۔ جب یہ یہاں آیا تھا تو بہت چھوٹا تھا۔ ہم واقعی نہیں بتا سکتے
کہ یہ کب پیدا ہوا تھا۔"
"تقریباً سات سال، ہمم۔ لیکن یہ اس سے بھی
چھوٹا لگتا ہے۔"کلک، وِھرر۔
"شاید یہ وہی ہے جس کی میں تلاش کر رہا
ہوں۔ سسٹر، اسے کھانے سے ہٹا دیجیے، کیا آپ مہربانی کریں گی؟ ہمیں ایک بھوکا بچہ
چاہیے، بھرے پیٹ والا نہیں۔"
اچانک، ایک بڑے، سفید ہاتھ نے ان چھوٹے، بھورے
ہاتھوں کے درمیان مداخلت کی جو میز پر پھیلے ہوئے تھے، اور جوزف کا ہاتھ پیچھے
کھینچ لیا۔
"ادھر آؤ، جوزف۔ یہ اچھے صاحب تمہیں دیکھنا
چاہتے ہیں۔"
"لیکن میں کھانا چاہتا ہوں، سسٹر۔"
اس کی آواز میں بے بسی اور التجا تھی۔ وہ جانتا تھا کہ
اگر وہ دیر سے پہنچا تو اس کے لیے کھانا نہیں بچے گا: ایسا پہلے بھی ہو چکا تھا۔
اور آج تو اس کا پسندیدہ دن تھا، جب کانجی کے دلیے میں خستہ پاپڑ ملائے جاتے تھے۔
اس نے باورچیوں کو باورچی خانے کے دروازے کے پیچھے سے پاپڑ توڑ کر تلتے دیکھا تھا،
اور وہ جلدی سے میز پر پہنچنا چاہتا تھا تاکہ اپنا حصہ نہ کھو دے۔ اسے وہاں رہنے
کے لیے بڑے لڑکوں سے لڑنا بھی پڑا تھا۔ لیکن جس چیز کو اس کی سخت مزاحمت نے محفوظ
رکھا تھا، وہی سسٹر سیلین اس سے چھین رہی تھی۔
"براہ کرم، سسٹر، براہ کرم۔"
"بعد میں، بچے۔ ابھی تمہیں تمیز سے پیش آنا
ہوگا۔"
وہ
اپنے پاؤں گھسیٹ رہا تھا اور سسٹر سیلین اس کا بایاں ہاتھ مضبوطی سے کھینچ رہی
تھی۔
"اور اگر تم سیدھی طرح نہ چلے تو مجھے تمہیں چھڑی سے مارنا
پڑے گا۔" وہ فوراً سیدھا ہو گیا؛ وہ چھڑی کو اچھی طرح جانتا تھا اور اسے
دوبارہ نہیں سہنا چاہتا تھا۔
کیا
ایئر ہوسٹس بھی اسے چھڑی سے مارے گی اگر وہ اس سے کانٹا اور چھری مانگے؟ بالکل
نہیں، یہ وہ جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی گھبراہٹ فضول اور غیر ضروری ہے۔
اچانک، اسے بھوک محسوس ہوئی، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ ایئر ہوسٹس کی توجہ کیسے
حاصل کرے۔ وہ جوزف سے کئی قطار آگے ایک آدمی کو مشروب دے رہی تھی۔
"مس!" اس نے آہستہ سے پکارا۔خشک گلے
کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے، اس کی آواز مدھم نکلی۔ وہ نہیں سن سکی؛ جوزف نے شدت
سے خواہش کی کہ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ لے، اور اس نے اپنی نظریں اس پر ایسی شدت
سے مرکوز کیں کہ یقین کرنا مشکل تھا کہ وہ اسے نظر انداز کر رہی تھی۔
"مس!" اس نے ہاتھ ہلاتے ہوئے دوبارہ کہا۔ وہ آدمی کے ہیڈ ریسٹ میں ایک
پن لگا رہی تھی جس نے مشروب خریدا تھا، اور وہ اب بھی نہیں سن رہی تھی۔
"مس!" اس بار آواز بہت بلند تھی۔
جوزف کو لگا کہ جہاز میں موجود ہر شخص نے اس کی طرف
دیکھ لیا ہے، جیسے اس نے کوئی بہت عجیب حرکت کر دی ہو۔ کچھ لوگ مسکرا رہے تھے،
لیکن زیادہ تر ناپسندیدگی سے اس پر نظریں جما رہے تھے، ابرو اچکا کر ناپسندیدگی
ظاہر کر رہے تھے اور اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ جوزف کے
سانولے گال شرمندگی سے سرخ ہو گئے۔
ایئر ہوسٹس سیدھی ہوئی، اپنی کوفت پر قابو پایا، اور
تیزی مگر شائستگی سے مسکراتے ہوئے اس کی طرف آئی۔ "ہاں، کیا بات ہے؟"
"کیا-مجھے-ایک-چھری-اور-کانٹا-مل-سکتا-ہے،
براہ کرم؟"
الفاظ بے ترتیبی سے منھ سے نکلے، سسٹر انجیلا کے تلفظ
کے اسباق اس کی گھبراہٹ میں بھول چکے تھے۔
ایئر ہوسٹس نے بممشکل اپنی رفتار میں توقف کیا۔
"یہ تمہاری ٹرے میں ہیں—یہاں، سائیڈ پر، دیکھو؟ اس پیکٹ میں۔" اور اس نے
پیکٹ اٹھا کر نیپکن کے اوپر رکھ دیا تاکہ وہ دیکھ سکے، اور اس سے پہلے کہ جوزف کچھ
اور کہہ پاتا، وہ تیزی سے راہداری میں آگے بڑھ گئی۔
"وہیں رکو، بچے۔" جوزف، سات سال کا،
صرف پاپڑ چاہنے والا، پہلی بار ایک بڑے، سفید،مونچھوں والے آدمی کے ذریعے، امریکی زبان کے غیر رسمی انداز کے روبرو ہوا—
جو ہاتھ میں کیمرا لیے ہوئے تھا۔ ننھے جوزف کو اس آدمی کی ہر چیز بڑی لگ رہی تھی:
اس کا جسم، اس کی مونچھیں، اس کا کیمرا۔ ایک بڑے ہاتھ نے اسے ذرا سا پیچھے دھکیلا،
اور ایک بھاری آواز گونجی: "یہ اپنی عمر کے لحاظ سے خاصا چھوٹا لگ رہا
ہے۔"
"بچپن میں غذائی قلت۔ ماں زچگی کے دوران
فوت ہو گئی تھی، اور اس کا باپ اسے جنگل کے راستے اکیلا لے کر آیا۔ یہ قبائلی حیرت
انگیز طور پر سخت جان ہوتے ہیں۔ خدا جانے یہ کسی مستقل نقصان کے بغیر کیسے زندہ بچ
گیا۔"
"تو مطلب، اس میں واقعی کوئی بڑی خرابی
نہیں ہے، ٹھیک؟ میرا مطلب ہے، اس کا دماغ ٹھیک کام کر رہا ہے اور سب کچھ؟ مجھے
پورا یقین ہونا چاہیے کہ میں امریکی عوام کو غربت بیچ رہا ہوں، کوئی ذہنی معذوری
نہیں، اگر تم میری بات سمجھ رہے ہو۔ تو یہ نارمل ہے، ہاں؟"
"بس ذرا کمزور ہے۔" سسٹر سیلین نے
نرمی اور وضاحت سے کہا۔ کلک، وِھرر۔ روشنی اس کی آنکھوں پر چمکی۔ وہ حیرانی سے
آنکھیں پھیلائے کھڑا تھا۔
"اگر برا نہ مانو تو اسے باہر لے چلیں۔ میں
سورج کی روشنی استعمال کرنا چاہتا ہوں، مجھے اپنے فلیش پر زیادہ بھروسا
نہیں۔"
"ہاں، بالکل، مسٹر کلیور۔ آؤ، جوزف۔"
وہ راہبہ کی گرفت سے نکلنے کے لیے مچلا۔ "لیکن،
سسٹر، میں کھانا چاہتا ہوں۔"
"بعد میں۔ اگر تم نے ضد کی تو تمہیں دوپہر
کا کھانا بالکل نہیں ملے گا۔"
ناگواری سے، وہ ان کے ساتھ صحن میں آ گیا۔ وہ
خاموشی سے بڑے آدمی کو غصیلی نظروں سے گھورتا رہا۔
کلک، وِھرر؛ کلک۔ "اسے ذرا اِس طرف کرو، سسٹر، کیا
تم کرو گی؟"
یہ
بار بار دھکیلا جانا ہی تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنے ہاتھ منہ میں ٹھونس لیے—اتنا
اپنی حفاظت کے لیے جتنا کہ منہ کا ذائقہ محسوس کرنے کے لیے۔ فوٹوگرافر نے ایک بار
پھر کلک کیا۔
جوزف
نے گہری مایوسی کے ساتھ ایئر ہوسٹس کی دور جاتی ہوئی پشت کی طرف دیکھا۔ اس نے اسے
کیوں نہیں بتایا کہ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس چھری اور کانٹا ہے، لیکن اسے یہ
نہیں معلوم تھا کہ انہیں کھولنا کیسے ہے؟ اس نے واضح کیوں نہیں کیا کہ اسے کس چیز
میں مدد چاہیے؟ وہ اتنا خوفزدہ کیوں تھا؟
وہ
اور زیادہ اپنی نشست میں دبک گیا اور گھبراہٹ سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس کا
پڑوسی، جو کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، مختصر اور مشینی انداز میں اس کی طرف دیکھ
کر مسکرایا۔ جوزف اس سے مدد مانگ نہیں
سکتا تھا۔یا کیا وہ مانگ سکتا تھا؟ مگر وہ شخص کھڑکی سے نظریں ہٹا کر اپنے کھانے
کے ساتھ ایک میگزین پڑھنے لگا۔
جوزف کا حوصلہ دم توڑ گیا۔
اس
دن، تصویریں کھنچوانے کے بعد، اس کے لیے کوئی پاپڑ نہیں بچے تھے۔
صرف ٹھنڈا کانجی دلیہ تھا؛ پاپڑ پہلے ہی ختم ہو چکے
تھے۔
"دیکھو—میں نے کہا تھا نا کہ تم بعد میں
دوپہر کا کھانا کھا سکتے ہو،" راہبہ نے کہا۔ "یہ لو، تمہارا
کھانا۔"
"لیکن میں پاپڑ چاہتا تھا!" وہ غصے
اور مایوسی میں چیخنا چاہتا تھا۔
اور تمہیں مجھے میرے پاپڑ سے دور لے جانے کی ضرورت کیوں
پیش آئی؟
وہ کیمرے والا آدمی اتنا اہم کیوں تھا کہ تم نے مجھے اس
چیز سے محروم کر دیا جس کا میں ایک مہینے سے انتظار کر رہا تھا؟
لیکن وہ یہ سب نہیں کہہ سکا۔
وہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کے گلے میں ایک گانٹھ سی
بن گئی، جیسے کچھ پھنس گیا ہو۔ غصے اور دکھ میں، اس نے دلیے کی ٹن کی پلیٹ زمین پر
پٹخ دی اور زار و قطار رونے لگا۔
"یاالٰہی—اسے آج کیا ہو گیا ہے؟ بہت خوب، جوزف، اب تمہیں کھانے کی
ضرورت نہیں! اور تم یہ گندگی صاف کرو گے، اور جیسے ہی یہ صاف کر لو گے، میرے دفتر
آؤ گے، تاکہ تمہاری ناشکری کی مناسب سزا دی جا سکے۔
"بہت سے چھوٹے لڑکے تم جتنے خوش نصیب
نہیں ہیں، جوزف کمارن۔ اور یہ بات تمہیں کبھی نہیں بھولنی چاہیے!"
اپنی
مایوسی کو دباتے ہوئے، جوزف جانتا تھا کہ وہ اسے کبھی نہیں بھول پائے گا۔ اسے یاد
رکھنے کے لیے چھ بید کی ضربیں کافی تھیں۔
وہ
اپنے پڑوسی سے پیکٹ کھولنے میں مدد کیسے مانگ سکتا تھا؟ وہ تو اپنے میگزین میں
اتنا مگن تھا، اور ساتھ کھا بھی رہا تھا۔ یہ سب کچھ بہت غلط اور شرمناک لگ رہا
تھا۔ جوزف نے بولنے کی کوشش کی، مگر الفاظ اس کے منہ سے نہ نکل سکے۔
راہداری کے سرے پر، ایک اور ایئر ہوسٹس پہلے ہی
چائے یا کافی تقسیم کر رہی تھی۔ دوسرے مسافر اپنی خوراک ختم کر چکے تھے۔ وہ اس کی
ٹرے لے جاتے اور وہ کھائے بغیر ہی رہ جاتا۔ ایک بے معنی لیکن شدید گھبراہٹ اس کے
اندر پھیلنے لگی۔
اس
نے پیکٹ کھولنے کی جدوجہد کی۔ اسے پھاڑنے، دانتوں سے کاٹنے، اور چیرنے کی کوشش کی،
مگر وہ نہ کھلا۔ اندر موجود کٹلری بجنے لگی؛ ایک لمحے میں اس کا ہاتھ اس کی ٹرے پر
رکھے کپ سے ٹکرا گیا اور وہ تقریباً ٹوٹ ہی گیا۔ جوزف کی کوششیں اور بھی بے قابو
ہو گئیں، اور اس کے منہ سے بے بسی کی ہلکی ہلکی آوازیں نکلنے لگیں۔
"لائیے، مجھے کرنے دیں،" اس کے پڑوسی
کی مضبوط آواز سنائی دی۔ جوزف نے شکرگزاری سے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے امید کی تھی
کہ اس کی بے بسی ظاہر ہو اور کوئی اس کی مدد کرے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
"شکریہ،" اس نے بمشکل کہا۔ "مجھے
نہیں پتا تھا کہ اسے کیسے کھولنا ہے۔"
"یہ تو بہت آسان ہے،" پڑوسی نے کہا۔
چند
ہفتے بعد، جب فوٹوگرافر جا چکا تھا، HELP سینٹر میں تصاویر کی پہلی کاپیاں پہنچیں۔ جوزف تقریباً اس واقعے
کو بھول چکا تھا، یہاں تک کہ بید کی مار کو بھی، مگر بغیر پاپڑ کے دلیے کی
جھنجھلاہٹ اب بھی باقی تھی۔ ایک راہبہ نے اسے جوش و خروش سے سسٹر ایوا کے دفتر
بلایا۔
"دیکھو، جوزف—یہ وہ تصویریں ہیں جو اس اچھے آدمی نے لی تھیں، جس دن تم
بہت برے تھے،" سسٹر سیلین نے اسے بتایا۔ "یہ تم ہو۔"
جوزف
نے بلیک اینڈ وائٹ تصویر کو بے دلی سے دیکھا۔ وہ اسے دیکھنا نہیں چاہتا تھا، نہ ہی
اس دن کے ظالمانہ سلوک کی یاد تازہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ تصویر کو گھورتا رہا، کوئی
تبصرہ نہ کیا، اور نظریں پھیر لیں۔
"یہ تصویر ایک عالمی اپیل میں استعمال کی
جائے گی،" سسٹر نے کہا۔ "تمہاری تصویر دنیا کے ہر بڑے میگزین میں ہوگی،
تاکہ ہم دوسرے بچوں کی مدد کے لیے پیسے جمع کر سکیں۔ کیا یہ بات تمھیں خوش نہیں
کرتی، جوزف؟"
وہ
فرماں بردار بننا سیکھ چکا تھا۔ "جی، سسٹر،" اس نے کہا۔
اس
کے برابر بیٹھے شخص نے پلاسٹک کے پیکٹ کو
پلٹا، ایک فلیپ نکالا اور آسانی سے چمچ اور کانٹا باہر نکال لیا۔ اس نے جوزف کو
دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ پیش کیا۔ "یہ دیکھو—کتنا آسان ہے۔"
"شکریہ۔" جوزف نے برتن لیتے ہوئے
شرمندگی سے کانوں کو تپتے ہوئے محسوس کیا۔ تو یہ پیکٹ پھاڑنے کی کوئی ضرورت ہی
نہیں تھی، اس میں تو ایک فلیپ تھا۔ اس نے پوری توجہ کھانے پر مرکوز کر لی، تاکہ
باقی دنیا، جو اس کی شرمندگی کی گواہ تھی، اسے نظرانداز کر سکے۔
"اس بچے کو دوبارہ مسکرانے دو" کا
پہلا پوسٹر HELP کے دفتر میں سسٹر ایوا کی میز کے پیچھے لگا دیا گیا، تاکہ جو کوئی
بھی اندر آئے، وہ سب سے پہلے اسے دیکھے۔یہ پوسٹر کسی دھوم دھام یا تقریب کے بغیر
لگا دیا گیا، اور جوزف کو اس کا علم صرف اس لیے ہوا کیونکہ جب وہ اور دوسرے لڑکے
روزانہ کی کلاسوں کے لیے راہداری سے گزر رہے تھے تو سسٹر ایوا کے دفتر کا دروازہ
کھلا تھا ۔ سب سے پہلے ایک اور لڑکے نے اسے دیکھا اور سب کی توجہ اس کی طرف مبذول
کرائی۔
یہ نعرہ جلد ہی ایک مذاق بن گیا۔
"مسکراؤ، جوزف، مسکراؤ،" اس کے
دوست اسے چھیڑنے لگے۔ اور اگر وہ کسی دن خاص طور پر غصے میں ہوتا، تو کوئی لڑکا
سنجیدگی سے مذاق کرتے ہوئے پوچھتا، "کیا کسی کے پاس پانچ ڈالر ہیں؟"
کبھی جوزف مزید غصے میں آ جاتا، تو کبھی وہ مجبور ہو کر مسکرا دیتا۔ وہ اسے
"پانچ ڈالر والی مسکراہٹ" کہنے لگے تھے۔
کھانا بہت خراب تھا۔ یہ جوزف کے ذائقے کے لیے
بالکل اجنبی تھا، اور وہ اسے پسند نہیں کرتا تھا۔ البتہ، ٹرے میں پھلوں کی ایک
پیالی تھی جس میں چھوٹے چھوٹے سیب کے ٹکڑے تھے۔ اس نے کچھ سیٹ پر اور کچھ فرش پر
گراتے ہوئے انھیں کھایا۔
وہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ جو کھا لیا اس پر خوش ہو یا
جو گرا دیا اس پر افسوس کرے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی اسے دیکھ تو نہیں
رہا۔ کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔
اس نے فرش سے ایک چھوٹا سا سیب کا ٹکڑا اٹھانے کی کوشش
کی، مگر ٹرے آڑے آ رہی تھی اور وہ نیچے تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ سب کچھ بہت پریشان کن
تھا۔ مجموعی طور پر، وہ بہت قابل رحم محسوس کر رہا تھا۔
ایئر ہوسٹس ٹرے لینے کے لیے قریب آئی۔ "کیا آپ چائے لیں گے؟
"جوزف نے کہا، "ہاں۔"درحقیقت وہ کافی چاہتا تھا، مگر اسے ڈر تھا کہ
اگر اس نے چائے سے انکار کیا تو شاید اسے کافی بھی نہ دی جائے۔ "انہوں نے
کافی پہلے کیوں نہیں دی؟ "یہ سوچتے ہوئے وہ اپنے کپ میں ہلکی بھورے رنگ کی
چائے دیکھنے لگا۔ یہ سب کچھ بہت نا انصافی لگ رہا تھا۔
اس
میں حیرت کی بات نہیں، کہ جوزف پہلا بچہ تھا جسے "گود لیا گیا تھا"۔مہم
کے جواب میں، کئی لوگوں نے پہلے مہینے کے لیے پانچ ڈالر بھیجے، اور کچھ نے ایک
سال، دو سال، ایک دہائی یا پوری زندگی کے لیے عطیہ دینے کا عہد کیا—کسی بھی بچے کے
لیے جسے HELP
تنظیم بچانا چاہتی۔ مگر تین جوڑوں نے اصرار کیا کہ ان کے پیسے صرف ایک مخصوص بچے
کے لیے خرچ کیے جائیں—اس تصویر والے بچے کے لیے۔
انہوں نے اس کے اداس چہرے کو دیکھا اور وہ صرف اسی کو
مسکراتا دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے پانچ ڈالر جوزف کمارن کی چھوٹی چھوٹی بھوکی
انگلیاں اس کے منہ سے نکالنے کے لیے تھے۔ اور انہوں نے اصرار کیا کہ وہ صرف اسی
بچے کو گود لیں گے۔
راہباؤں نے جب یہ خطوط دیکھے تو آہیں بھریں۔
"کچھ لوگ کتنے پریشان کن ہوتے ہیں،" سسٹر ایوا نے کہا۔"میرا دل
چاہتا ہے ان کے پیسے واپس کر دوں۔ انہیں یہ بتانے کا کوئی حق نہیں کہ ہمارا پیسہ
کہاں خرچ ہونا چاہیے۔"
مگر سسٹر ایوا نے تینوں جوڑوں کے وہ پیسے اور وعدے
بہرحال رکھ لیے۔
جوزف کمارن کی "پانچ ڈالر والی مسکراہٹ"
دراصل HELP
کے لیے ہر ماہ پندرہ ڈالر لا رہی تھی۔
اب
ہر مہینے جوزف کو بیٹھ کر اپنے کفیل والدین کو خط لکھنا ہوتا، جو ہزاروں میل دور
تھے، اور انہیں بتانا ہوتا کہ وہ کتنا اچھا اور شکر گزار ہے۔
"آج ہم نے مذہبی تعلیم کی کلاس میں
سیکھا کہ لوط کی بیوی کیسے کیلے کے درخت میں بدل گئی،"
وہ ایک جوڑے کو لکھتا۔* (نمک ان علاقوں میں مہنگا تھا،
اور راہبات نہیں چاہتی تھیں کہ بچے بائبل سے غلط سبق سیکھیں۔) پھر وہی جملہ صاف خط
میں دو اور خطوط میں بھی نقل کر دیتا۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوا، سسٹر سیلین نے اسے
خود سے خط لکھنے کی اجازت دے دی، اور صرف غلطیاں درست کرنے لگیں۔
ایک دن، جوزف نے ایک خط میں لکھا، "سسٹر انجیلا نے
مجھے امریکہ کے بارے میں بتایا ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ وہاں ہر کوئی امیر ہوتا ہے اور
ہمیشہ کھانے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے؟" سسٹر سیلین کو یہ جملہ پسند نہ آیا، اس
نے اسے کاٹ دیا، اور بعد میں سسٹر انجیلا کو سختی سے سمجھاتے ہوئے دیکھا گیا۔
فضائی میزبان مسافروں کو ہیڈ فون فروخت کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ جوزف نے اسے
پرواز کے آغاز میں یہ کرتے دیکھا تھا، اور اگرچہ وہ نہیں جانتا تھا کہ ہیڈ فون کیا
ہوتے ہیں، مگر اسے پتہ چلا کہ یہ پیسوں میں ملتے ہیں اور لوگ انہیں اپنے کانوں میں
لگاتے ہیں۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ لینا چاہے گا، تو اس نے زور سے سر ہلا
دیا۔ مگر اس کی بے چین آنکھیں تجسس میں گھومنے لگیں جب اس کے برابر بیٹھے مسافر
نے، جس نے پہلے منع کر دیا تھا، فلم کے اشتہار کو دلچسپی سے دیکھا، سبز نوٹ اور چمکتے
سکے نکالے، اور ایک پلاسٹک کا پیکٹ حاصل کیا۔ اس پیکٹ سے ایک عجیب و غریب آلہ
نکلا، جو قریب سے اور بھی زیادہ پراسرار لگا۔
جہاز
کی کھڑکیوں پر پردے کھینچے جا رہے تھے؛ کیبن کے سامنے ایک اسکرین نیچے لائی گئی؛
سفید پس منظر پر تصاویر جھلملا رہی تھیں۔
جوزف بے حس و حرکت، مبہوت، پوری توجہ سے دیکھنے لگا۔ اس
کا ہمسفر اپنے ہیڈ فون میں کچھ سن رہا تھا—وہ کچھ جو جوزف نہیں سن سکتا تھا۔
اسکرین پر عنوانات نمودار ہونے لگے۔ جوزف کی بے حد خواہش تھی کہ وہ بھی فلم سن
سکے۔
اسے
اپنے کفیل والدین سے جوابی خطوط بھی ملنے لگے۔ شروع میں، یہ اتنے ہی باقاعدگی سے
آتے جتنی باقاعدگی سے وہ انہیں خط بھیجتا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ، ان کی
دلچسپی کم ہونے لگی، اور اب صرف کبھی کبھار جواب آتا۔ ایک جوڑا سب سے زیادہ شفیق
معلوم ہوتا تھا— اگر ان کا خط دیر سے آتا تو وہ ہمیشہ شرمندگی کا اظہار کرتے،
ہمیشہ اس کی خیریت، اسکول اور کھیل کود کے بارے میں پوچھتے۔ کرسمس پر وہ چھوٹے
چھوٹے تحفے بھیجتے، جنہیں سسٹر سیلین کھولنے دیتی، مگر انہیں باقی بچوں کے ساتھ
بانٹنا لازمی ہوتا۔ جوزف کو ان کے رنگ برنگے خطوں کا کاغذ پسند تھا، خاتون کی
خوبصورت، آسانی سے پڑھی جانے والی لکھائی
پسند تھی، اور کاغذ میں بسی ہلکی سی خوشبو، جو اسے امریکہ کی مہک لگتی تھی۔ اکثر
وہ خط کو اپنے چہرے سے لگا لیتا، ناک کو اس میں دبا کر، امریکہ کو سونگھنے کی کوشش
کرتا۔
کئی
خط بھیجنے کے بعد، ایک دن اس نے ہمت کر کے کچھ اور لکھا۔ "یہاں اس وقت بہت گرمی ہے۔"
(سسٹر سیلین کی منظور شدہ تحریر)
"شاید امریکہ میں موسم زیادہ خوشگوار
ہوگا۔" لیکن جب اس نے صاف تحریر میں خط دوبارہ لکھا، تو اس نے ایک جملہ اور
شامل کر دیا: "مجھے لگتا ہے، میں امریکہ میں بہت خوش رہوں گا۔" یہ بات
اس نے کسی کو نہیں بتائی، بس خاموشی سے خط بند کر کے انتظار کرنے لگا۔
جواب آیا—مگر اس کے لکھے گئے جملے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ مگر جوزف نے ہمت
نہ ہاری۔ "میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا امریکہ میں بھی ایسے ہی درخت ہوتے ہیں
جیسے میری اس تصویر میں؟"(اس نے ایک رنگین خاکہ بھی لف کیا) اور اگلے خط میں:
"اگر میں امریکہ آؤں، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ مجھے وہاں اچھا لگے گا؟"
یہ طریقہ اسے اتنا پسند آیا کہ اس نے یہی جملہ تینوں جوڑوں کو لکھے گئے خطوط میں
شامل کر دیا اور انہیں روانہ کر دیا۔
یہ
طریقہ کارگر ثابت ہوا۔ اس کے پسندیدہ "والدین"— وہی جو اسے کرسمس کے
تحائف بھیجتے تھے—انہوں نے سسٹر سیلین کو خط لکھا۔انہوں نے لکھا کہ وہ ہمیشہ اس
چھوٹے لڑکے کو دیکھنا چاہتے تھے جسے انہوں نے "گود لیا" تھا،
مگر کبھی ہندوستان کا سفر نہ کر سکے۔کیا یہ ممکن نہیں
کہ ننھا جوزف امریکہ آ جائے؟ جیسے ہی انہیں سسٹر سیلین کا جواب ملے گا،
وہ اس کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھجوا دیں گے۔ یقیناً،
وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ جوزف ہمیشہ ان کے پاس رہے گا۔ ظاہر ہے، اس کی اصل جگہ
"اپنے لوگوں" کے بیچ ، اور "آپ سب کے ساتھ HELP میں تھی "۔ وہ اسے واپس بھیج دیں گے مگر وہ بس ایک بار اسے
دیکھنا چاہتے تھے۔
سسٹر
سیلین خط پڑھ کر کچھ حیران سی تھیں۔ عموماً کفیل والدین اپنے زیر کفالت بچوں میں
اتنی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ جب بچے بڑے ہو جاتے، تو بس انہیں کوئی ہنر سکھا کر
روزگار کے لیے بھیج دیا جاتا۔ غیر ملکی دورے— چاہے مختصر ہی کیوں نہ ہوں— نہایت
غیر معمولی بات تھی۔
سسٹر سیلین نے جوزف کو خط دکھایا، اور پوچھا: "تم نے کوئی چالاکی تو
نہیں کی؟" جب جوزف نے پرجوش انداز میں احتجاج کیا، تو وہ صرف اتنا بولیں:
"دیکھتے ہیں۔" پھر وہ سسٹر ایوا سے بات کرنے چلی گئیں۔
جوزف نےاب تک صرف ایک فلم دیکھی تھی—یہ ایک دستاویزی فلم تھی،جو HELP کے یتیم بچوں کے لیےبہار کے جنگلوں میں کام کے بارے میں تھی۔ یہ
فلم رات کے کھانے کے بعد دکھائی گئی تھی، اور وہ شخص جس نے اسے بنایا تھا، خود آیا
تھا تاکہ راہباؤں کو دکھا سکے کہ دنیا ان کے کام کے بارے میں کیا جانتی ہے۔ سسٹر
ایوا نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تجویز دی کہ پانچ سال سے بڑے لڑکوں کو بھی
فرش پر بیٹھ کر یہ دیکھنے دیا جائے۔ "یہ ان کے لیے سبق آموز ہوگا،"
انہوں نے باقی راہباؤں سے کہا۔ "انہیں احساس ہوگا کہ ہم ان کے لیے کتنا کچھ
کرتے ہیں، شاید ان میں قدردانی پیدا ہو۔" مگر جوزف آدھی فلم کے دوران میں ہی
سو گیا تھا۔وہ بھوک سے بلکتے آدیواسی بچوں کو اور رحم دل راہباؤں کو نہیں دیکھنا
چاہتا تھا— یہ سب وہ ہر روز دیکھتا تھا۔ کالی اور سفید تصویریں، بیان کرنے والے کی
یکسانیت بھری آواز— یہ سب اس کے ذہن میں دھندلا گیا۔ راہباؤں کی تصویریں اس کے
دماغ کی دراڑوں میں ناچنے لگیں، تصویریں اس کی آنکھوں میں مدھم پڑنے لگیں، اور
پھر— نرم مگر مضبوط ہاتھوں نے اسے جھنجھوڑا:
"اٹھو، سونے کا وقت ہو گیا!"
پس
منظر میں سسٹر ایوا کی تیز آواز گونجی: "دیکھو انہیں! انہیں خاص موقع دو اور آدھے سو جاتے ہیں! آئندہ
مجھ سے کسی نے فلم دیکھنے کی فرمائش کی تو خیرنہیں!"
مگر
یہ فلم؟ یہ تو بالکل مختلف تھی! روشن، چمکتے رنگ— مختصر لباس میں خوبصورت، گوری
عورتیں ، تیز رفتار گاڑیاں کشادہ غیر ملکی سڑکوں پر دوڑتی ہوئیں! یہ تو کچھ ایسا
تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا!
اور وہ اسے سننا چاہتا تھا— گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ، عورتوں کی مدھر ہنسی، لوگوں کے
چلانے کی آوازیں، گولیوں کی تڑتڑاہٹ، اور ہوا میں سنسناتی جہازوں کی آوازیں!
"جناب۔" ہیڈ فون فروخت کرنے والا فضائی میزبان قطار کے آخر میں
کھڑا تھا— جوزف کے بالکل پیچھے، وہ بھی فلم دیکھ رہا تھا ۔
"جی؟"
"کیا میں بھی ہیڈ فون لے سکتا
ہوں؟"
"بالکل۔" فضائی میزبان پارٹیشن کے
پیچھے گیا اور ایک پلاسٹک کا چھوٹا سا پیکٹ لے آیا۔ اس نے پیکٹ جوزف کے حوالے کیا۔
جوزف نے احترام، حیرت اور کامیابی کے ناقابلِ بیان جذبات کے ساتھ ہاتھ بڑھایا۔ اس
نے پیکٹ کو کھولا، ہاتھ اندر ڈالا، اور ٹھنڈے پلاسٹک کو چھوا۔ یہ ناقابلِ بیان
ہیجان انگیز لمحہ تھا۔
"دو ڈالر اور پچاس سینٹ، براہِ مہربانی۔"
"مگر... مگر... میرے پاس پیسے نہیں
ہیں،" جوزف مایوسی سے بولا۔ اس کی آنکھیں استدعا کر رہی تھیں: "مہربانی
فرمائیے؟"
فضائی میزبان کے چہرے پر "تم وقت برباد کر رہے ہو، نادان بچے جیسے
تاثرات ابھرے۔ "معاف کیجیے،"
اس نے کہا، اور جوزف کے ہاتھوں سے پیکٹ واپس لے
لیا۔"یہ IATA کے قوانین ہیں۔"
اور
پھر وہ چلا گیا ایسے اختیار کا حوالہ دے کر، جو جوزف کی خواہشات اور فلاحی جذبات
سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ جب وہ پارٹیشن کے پیچھے سے دوبارہ نمودار ہوا، تو یہ
جوزف کے مخالف سمت میں اس سے دور تھا۔
سسٹر ایوا فیصلہ کرنے میں وقت لے رہی تھیں۔ یہ اصولی طور پر انہیں غلط نہیں
لگتا تھا، مگر یہ خطرناک مثال قائم کر سکتا تھا ۔باقی بچے بھی امریکہ جانا چاہیں
گے، مگ کتنے ایسے خوش نصیب تھے جن کے امیر امریکی سرپرست انہیں ٹکٹ بھیجنے کو تیار
ہوتے؟
مگر
بالآخر، جوزف کی بے حد راحت کے لیے، انھوں نے اجازت دے دی۔ انھوں نے ذاتی طور پر
امریکی جوڑے کو خط لکھا، جس میں واضح کیا کہ "جوزف کو بگاڑنے کی اجازت نہیں
ہے۔" اور یہ کہ "وہ ایک ماہ کے اندر
لوٹ آئے گا، تاکہ وہ مکمل طور پر امریکی اثرات میں نہ ڈھل جائے، اور اپنی
بدنصیب برادری میں واپس شامل ہو سکے۔" البتہ، اگر وہ اسے ہمیشہ کے لیے رکھنا
چاہتے، تو یہ اور بات تھی۔" مگر انہوں نے ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا۔
اگلے
چند ہفتے تیزی سے تیاریوں میں گزر گئےٹکٹ کا انتظار تھا، پرواز بک کروانی تھی،
جوزف کے لیے پاسپورٹ بنوانا تھا، ویزا حاصل کرنا تھا۔ جوزف کو کپڑوں کے لیے چھوٹا
سا سوٹ کیس دیا گیا۔ یہ اس کے لیے فخر کا لمحہ تھا "میرے پاس اپنی چیزیں ہیں،
— پاسپورٹ، سوٹ کیس، ٹکٹ— میں کوئی شخص ہوں!" اب وہ محض بھوکے بچوں کے ہجوم
میں ایک چھوٹا سا بھورا چہرہ نہیں تھا۔وہ اب کوئی عام بچہ نہیں تھا جو دال روٹی کی
قطار میں کھڑا ہوتا؛ اب وہ"ماسٹر جوزف کمارن" تھا اور وہ کہیں جا رہا
تھا!
آخر
کار، روانگی کے دن وہ سخت بلیزر پہنے طیارے میں سوار ہوا، جسے اسی صبح اسے دیا گیا
تھا۔ اس کی جیب میں وہ اخباری تراشہ رکھا تھا جسے اس نے چار سال سے سنبھال کر رکھا
ہوا تھا۔ اس کا پاسپورٹ ایک چمکدار رنگین تصویر کے ساتھ رکھا تھا۔ یہ اس کے عارضی
امریکی میزبانوں کی تصویر تھی، جو انھوں نےبھیجی تھی تاکہ وہ انھیں ہوائی اڈے پر
پہچان سکے۔ سسٹر سیلین اسے رخصت کرنے کے لیے وہاں
موجود تھیں۔ وہ چشمہ صاف کرتے ہوئے مسکرائیں۔ جوزف محسوس کر سکتا تھا کہ ان
کے گال نم تھے جب انھوں نے اسے الوداعی طور پر گلے لگایا۔ مگر جوزف رو نہیں پایا۔
وہ تھوڑا سا خوف زدہ تھا۔ لیکن اداسی سے زیادہ پرجوش تھا، اور وہ یقیناً غمگین
نہیں تھا۔
اس
کے برابر بیٹھا شخص بہر حال فلم میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ جوزف نے دو بار
اسے اونگھتے دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند ہوتیں اور ٹھوڑی آہستہ آہستہ اس کے سینے کی
طرف جھکنے لگتی، پھر یکدم کوئی تیز آواز اسے جھنجھوڑ دیتی اور وہ چونک کر جاگ
جاتا۔ تیسری بار جب ایسا ہوا، تو وہ جھنجھلا کر ہیڈ فون اتار کر اٹھ کھڑا ہوا اور
جوزف کے اوپر سے گزرتا ہوا طیارے کے غسل خانے کی طرف چل دیا۔
جوزف اس موقعہ سے فائدہ اٹھائے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ موقع خواب جیسا تھا:
برابر کی نشست پر لگے ہوئے ہیڈ فون، بالکل خالی، بغیر کسی مالک کے تھے۔ اس نے
آہستہ سے اپنی سیٹ بیلٹ کھولی اور برابر والی کرسی پر جا بیٹھا۔ ارد گرد دیکھ کر
تسلی کی کہ کوئی اسے نہیں دیکھ رہا، پھر جھجکتے ہوئے ہیڈ فون کانوں سے لگائے۔
اچانک فلم کی آوازوں نے اس پر یلغار کر دی—گاڑی کے بریک چیخنے لگے، ایک آدمی ہاتھ
میں بندوق لیے سیڑھیاں اترنے لگا، گھبراہٹ بھری سرگوشیاں ہوئیں، بندوق چلی، گولی
کی گرج جوزف کے کانوں میں طوفان کی طرح گونجی، ایک عورت کی چیخ ابھری—اور اسی لمحے
اس کا ہمسفر غسل خانے سے لوٹ آیا۔
جوزف نے سر اٹھایا، جیسے اذیت میں ہو۔ یہ خوشی کتنی مختصر تھی۔
وہ
شخص مسکرا کر بولا، "یہ میرے ہیں، بیٹا۔"
جوزف
اچھے اخلاق میں تربیت یافتہ تھا۔ اس نے فوراً کہا، "معاف کیجیے گا،" اور
نرمی سے ہیڈ فون اتار کر سیٹ پر رکھ دیے۔ وہ خاموشی سے اپنی نشست پر لوٹ آیا، اس
کا ہمسفر واپس بیٹھ گیا، ہیڈ فون دوبارہ لگا لیے، اور جوزف نے محسوس کیا کہ وہ
آنسوؤں کے دھندلکے میں اسکرین دیکھنے سے قاصر ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا ہمسفر اسے روتا
دیکھے، اس لیے اس نے وہ سفید، صاف رومال نکالا جو صبح سسٹر انجیلا نے اس کے ہاتھ
میں تھمایا تھا، اور آہستگی سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ یہی صبح تو تھی—لیکن اب اسے
ایسا لگا جیسے وہ وقت بہت پہلے کا قصہ بن چکا ہو۔ اس نے رومال جیب میں واپس رکھا،
اور وہ اخباری تراشہ محسوس کیا جو چار سال پہلے اس کی اس سفر پر روانگی کی بنیاد
بنا تھا۔ مگر اس بار اس نے اسے نکالنے سے گریز کیا۔ وہ اب وہی بچہ نہیں تھا، اس کی
ایک نئی شناخت تھی۔ اس نے اپنی جیب سے پاسپورٹ نکالا اور اندر کے صفحے کو محبت
بھری نظروں سے دیکھا۔ فرضی تاریخِ پیدائش ("یہ 'پیدائش نامعلوم' کے جھنجھٹ سے
بچنے کے لیے آسان ہے،" سسٹر ایوا نے کہا تھا)، اس کی ظاہری تفصیلات
("بال: سیاہ، آنکھیں: سیاہ، جلد: بھوری") اور اس کی نئی، بےجان سی تصویر،
جس میں وہ اسٹوڈیو کیمرے میں خالی نظروں سے گھور رہا تھا۔ پھر آخر کار، پاسپورٹ
جیب میں واپس رکھتے ہوئے، اس نے وہ دوسرا فوٹو چھوا—چمکدار، رنگین، اس کے نئے مگر
عارضی والدین کی تصویر۔ کچھ لمحے تذبذب میں رہنے کے بعد، اس نے اسے نکال لیا۔
یہ وہ لوگ تھے جن کے گھر کو وہ اگلے ایک مہینے کے لیے
"گھر" کہے گا۔
مگر
کیا واقعی؟ اس نے تصویر میں ان کے چہروں کو غور سے دیکھا۔ انہوں نے جوزف کو اپنی
تصویر بھیجی تھی تاکہ وہ انہیں پہچان سکے، مگر انہوں نے کبھی اس کی تصویر مانگنے
کی زحمت نہیں کی تھی۔ "ہمیں پورا یقین ہے کہ جیسے ہی وہ جہاز سے اترے گا، ہم
اسے پہچان لیں گے،" خاتون خانہ نے سسٹر سیلین کو لکھا تھا۔ "ہمیں ایسا
لگتا ہے جیسے ہم اسے ہمیشہ سے جانتے ہیں۔" پہلے پہل جوزف یہ پڑھ کر خوش ہوا
تھا، جذباتی طور پر مسحور۔ لیکن پھر ایک دن، جب سسٹر ایوا نے غصے میں آ کر دھمکی
دی کہ وہ اسے کسی اور سیاہ فام بچے سے بدل دیں گی، تو اس کے الفاظ نے جوزف کے دل
میں ایک انجانا خوف بٹھا دیا۔ "کیا تمہیں لگتا ہے کہ وہ فرق کر پائیں
گے؟" انہوں نے سوال کیا تھا۔
اس
لمحے، بےآواز، بےبسی اور خوف کی کیفیت میں ڈوبا جوزف کوئی جواب نہیں دے سکا تھا۔
اب، اس تصویر کو دیکھتے ہوئے، اس نے خود کو امریکہ کے سحر میں کھو جانے پر مجبور
کرنا چاہا—وہ سب چیزیں جو اس نے سنی تھیں اور خوابوں میں دیکھی تھیں، فلمیں،
پارٹیاں، بےشمار مزیدار کھانے، ساحلِ سمندر کی سیر اور ڈزنی لینڈ کے جھولے۔ مگر اس
کی آنکھیں پھیل گئیں، اور تصویر دھندلی ہونے لگی۔ وہ نہیں سمجھ سکا کہ کیوں وہ
اتنی شدید، ناقابلِ بیان تنہائی میں مبتلا ہو گیا تھا—ایسی تنہائی جو کبھی HELP کے کھچاکھچ بھرے مجمع میں بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ وہ تنہا تھا،
کہیں ایک بوسیدہ اخباری تراشے اور پھسلتی ہوئی، چمکیلی رنگین تصویر کے بیچ میں،
کھویا ہوا۔
اس کے برابر کی سیٹ پر اس کا ہمسفر سکون سے خراٹے لے
رہا تھا، اس کی ٹھوڑی بے بسی سے سینے پر جھکی تھی، اور ہیڈ فون اس کے کانوں میں
جڑے ہوئے تھے۔ سامنے، اسکرین پر، جادوئی
مناظر جھلملاتے، بہتے اور رقص کرتے چلے جا رہے تھے۔
حواشی:
*(اصل میں بائبل میں لکھا ہے کہ لوطؑ کی بیوی
پیچھے مڑ کر دیکھنے پر نمک کا ستون بن گئی تھی، لیکن چونکہ اُس علاقے میں نمک ایک
قیمتی اور نایاب شے تھا، راہبات یہ نہیں چاہتی تھیں کہ بچے یہ سبق لیں کہ نمک سے
کوئی منفی چیز وابستہ ہے، یا وہ نمک کے ضیاع کو معمولی سمجھیں۔ اس لیے انہوں نے
کہانی کو مقامی سیاق و سباق کے مطابق اس طرح تبدیل کیا کہ بچے بہتر اور مثبت پیغام
حاصل کریں۔)
Original Title : The Five Dollar Smile
Written by:
Shashi Krishnan Chandrashekaran Tharoor (born 9 March 1956) is an Indian politician, writer,
and former diplomat, who has been serving as Member of Parliament for
Thiruvananthapuram, Kerala, since 2009.
Comments
Post a Comment