افسانہ نمبر 668 : سات قاصد || تحریر : دِینو بوتزاتی(اٹلی) || مترجم : خالد فرہاد دھاریوال

 افسانہ نمبر 668 : سات قاصد

تحریر : دِینو بوتزاتی(اٹلی)
مترجم : خالد فرہاد دھاریوال




میں جب سےاپنی آبائی سلطنت کی سیاحت کرنے نکلاہوں،روزبہ روز پاے تخت سے دُور ہی دُور ہوتا جا رہا ہوں اور میرے پاس اطلاعات کی آمد میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔

میں جب اس سفر پر روانہ ہوا،تب محض تیس سال کا تھااور آٹھ سال سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ ٹھیک ٹھیک کہوں توآٹھ سال،چھ مہینے اور پندرہ دنوں سے مسلسل سفر میں ہوں۔ جب میں روانہ ہوا، تو سوچا تھا کہ کچھ ہی ہفتوں میں با آسانی سرحدپر پہنچ جاؤں گا، مگر مجھے نئے نئےلوگ ملتےجا رہے ہیں،نئےقریوں اور علاقوں کاپتہ چل رہاہے اورہر کہیں میری زبان بولنے والے،میری رعیت ہونے کادعویٰ کرنے والے لوگ ہیں۔

بعض اوقات مجھےشبہ ہوتا ہے کہ میرا قطب نُماپاگل ہو گیاہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جنوب کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن دراصل ہم دائرے میں چکر لگائے جا رہے ہیں، اور حقیقت میں پاے تخت سے ہمارا فاصلہ بڑھ ہی نہیں رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم مُلک کی سرحد سے ہمکنار نہیں ہو پا رہے۔

لیکن اکثر مجھےیہ خیال بھی ستاتاہے کہ شاید سرحدیں ہیں ہی نہیں، یہ سلطنت بے حد وسیع و عریض ہے ۔ اور اس طویل مسافت کےباوجود میں کبھی سرحد پر پہنچ ہی نہیں سکوں گا۔

جب میں نے سفر آغاز کیا، تب میں تیس سال کاتھااور شاید تاخیر ہو چکی تھی۔ میرے دوستوں حتیٰ کہ میرے خاندان نےبھی میرے منصوبے کا مذاق اڑایا،کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میں اپنی زندگی کے بہترین سال برباد کرنے جا رہا ہوں۔سچ تویہ ہے کہ صرف چند وفادار دوست ہی میرے ساتھ چلنے کو تیار ہوئے۔

بے فکری کےباوجود، جتنا اب ہوں اس سے کہیں زیادہ لاپرواہ ہوتے ہوئے بھی میرا اس سفر میں اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ رکھنے کا ارادہ تھا۔ اور اس لیے میں نے اپنے محافظوں میں سے بہترین سات سواروں کو قاصد چُنا۔

اپنی نادانی کےباعث میں نے سوچا تھا کہ سات قاصد تو بہت زیادہ ہیں۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا، مجھے محسوس ہوا کہ سات بہت زیادہ نہیں ہیں، بلکہ مضحکہ خیز حد تک کم ہیں۔ ویسے ان میں سے کوئی کبھی بیمار نہیں پڑا، نہ ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھا ہے، نہ کسی کے گھوڑے نے کبھی جواب دیا ہے۔ ساتوں نے ایسے اعتماد اور لگن کے ساتھ میری خدمت کی ہے کہ اس کا مکمل بدلہ دینا میرے لیے کٹھن ہوگا۔

شناخت میں آسانی کےلیے میں نے انہیں حروف تہجی کےلحاظ سے نئے نام دئیے: الساندرو، بارتولومیو، کائیو، ڈومنیکو، عطورہ، فِدریکو اور گریگوری۔

گھر سے دُور رہنے کا مجھےبالکل تجربہ نہیں تھا، اس لیے میں نے پہلے قاصد الساندروکو سفرکے دوسرے دِن شام ہی کو گھر روانہ کر دیا۔ تب تک ہم لگ بھگ اسّی کوس کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ تاکہ خبروں کا سلسلہ چلتا رہے، میں نے اگلی شام دوسراقاصد بھی بھیج دیا۔ پھر تیسرا، چوتھا اور سفر کی آٹھویں شام کو گریگوری بھی چلا گیا۔ پہلا قاصد ابھی پاے تخت سے واپس نہیں آیا تھا۔

دسویں دن جب ہم ایک ویران وادی میں رات کا پڑاؤ ڈالنے کی تیاری میں تھے، الساندرو ہم سےواپس آن ملا۔ اس نے بتایا کہ جتنی امید تھی اس سے کہیں دھیمی رفتار میں اسے سفر کرنا پڑا۔ میں نے تو سوچا تھا کہ چونکہ وہ اکیلا ہی جا رہا ہے اس لیے ہمیں جتنا وقت لگا، اس سے نصف میں ہی وہ یہ مسافت طے کر لے گا۔ لیکن حقیقت میں وہ ہماری توقع سے صرف ڈیڑھ گنا فاصلہ روزانہ طے کر پایا تھا۔ ہم چالیس کوس چلتے تھے اور وہ ساٹھ کوس، اس سے زیادہ نہیں۔

دوسروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ بارتولومیو ہمارے سفر کی تیسری شام پاے تخت کو روانہ ہوا اور دو ہفتے بعد واپس آیا۔ کائیوچوتھے دن گیااور بیسویں دن لوٹا۔ میں جلدی سمجھ گیا کہ ہر قاصد کےلوٹنے کے دن کا حساب لگانے کے لیے اس کی روانگی کے دن کو پانچ سے ضرب دینا ہو گی۔

چونکہ ہم پاے تخت سے دُور ہوتے جا رہے تھے،قاصدوں کو بھی زیادہ تر لمبا سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ پچاس دن بعد، قاصدوں کے ورود میں نمایاں وقفہ رہنے لگا۔ جبکہ شروع میں ہر پانچویں دن ایک قاصد ہمارے قافلے میں آ پہنچتاتھا، اب پچیس دن کا فرق رہنے لگا تھا۔ اس وجہ سے اپنے شہر کی خبریں نایاب ہوتی جا رہی تھی۔ ہفتے بیت جاتے تھے بغیر اطلاعات کے۔

سفر کرتے کرتے چھ مہینے ہو گئے۔ اب تک ہم فسانی پہاڑی سلسلہ پار کر چکے تھے۔ قاصدوں کی آمد کے درمیان پورے چار مہینے کا فرق رہنے لگا۔ اب وہ مجھے بہت پرانی خبریں لاکر دے رہے تھے۔ جوخط وہ میرے ہاتھ پر لاکر رکھتے، مڑے تڑے ہوتے، ان کا کاغذ پیلا پڑ چکا ہوتا، کیونکہ قاصدوں کو اوس بھری راتوں میں کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔

ہم اب بھی سفرکیے جا رہے تھے۔میں بیکار ہی خود کو باور کرواتا کہ میرے سر پر سے جو بادل گزر رہے ہیں، وہ میرےبچپن کے دنوں کےبادل ہیں، دُور کے قصبے پر ٹھہرا ہوا آسمان میرے سر پر چھائے نیلے آسمان سے مختلف نہیں ہے،ماحول وہی ہے، ہوا کا جھونکا وہی ہے، پرندوں کے چہچہے وہی ہیں۔ مگر حقیقت میں بادل، آسمان، ماحول، ہوا، پرندے اب مجھے نئے لگ رہے تھے اور میں خود کو اجنبی محسوس کر رہا تھا۔

چلتے جائیں،بڑھتے رہیں! راہ میں ملنے والے خانہ بدوش مجھ سے کہتے ہیں کہ سرحد دُور نہیں ہے۔ میں اپنے کارواں کو بنا رُکےرواں دواں رہنے کی ترغیب دیتا ہوں، تاکہ مایوسی کے بول ان کے لبوں پر آنے سے قبل ہی مر جائیں۔چار سال گزر چکے تھے۔اوہ!حد سے زیادہ تھکان!عجیب بات تھی پاے تخت،میرا گھر، میرے والد، سب مجھے بہت بعید محسوس ہوتے تھے، گویا مجھے یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کا اب بھی وجود ہے۔ہر ایک قاصد کی متواترحاضری کے درمیان بیس مہینوں کی تنہائی اور چُپ کا وقفہ رہنے لگا تھا۔ وہ مجھے عجیب سے خط لاکر دیتے،پرانے اورپیلے پڑچکے خط۔ جن میں بھولے بسرے نام، اجنبی محاورے اور سمجھ میں نہ آنے والے خیال ہوتے تھے۔ اور اگلے دن صرف رات بھر کےقیام کے بعد،صبح جب ہم کوچ کرتے،قاصدمیرا خط لے کر مخالف سمت میں روانہ ہو جاتا تھا، کئی دن پہلےلکھا ہوا خط۔

ساڑھے آٹھ سال بیت چکے ہیں۔میں آج شام اپنے خیمےمیں اکیلا بیٹھاکھاناکھارہا تھا کہ ڈومنیکو داخل ہوا۔تھکن سے چُور ہونے کےباوجود بھی وہ مسکرایا۔ پچھلے سات سال سے وہ بس ایک ہی کام کرتاآ رہا ہے میدانوں، جنگلوں اور ریگستانوںمیں گھوڑا دوڑانا، نجانے درمیان میں کتنی بار سواری بدلنا اور خطوط کاپلندہ لاکر میرے ہاتھ میں رکھنا، جسے اب اتنی رات گئے کھولنے کی میری کوئی خواہش نہیں ہے۔ وہ آ کر بستر پر لیٹ گیا ہےکیونکہ کل صبح پو پھٹتے ہی اسےروانہ ہونا ہے۔

یہ اس کی آخری روانگی ہوگی۔ میں نے اپنی بیاض میں حساب لگاکر دیکھ لیا ہے کہ اگر سب کچھ صحیح سلامت رہے، اگر اسی طرح ہی میں اپنا سفر جاری رکھوں اور وہ اپنا سفر، تو میں ڈومنیکو کو آئندہ چونتیس سال سےپیشتر نہیں دیکھ سکوں گا۔ تب میں بہتر سال کا ہوں گا۔ مگر میں خود کو بہت تھکاماندہ محسوس کرنے لگا ہوں اور تب تک غالباًموت مجھے اپنی گرفت میں لے چکی ہوگی۔ تو میں اسے پھر کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔

چونتیس سال بعد(در اصل اس سےبھی پہلے، کافی پہلے)ڈومنیکواچانک میرے پڑاؤ کادھواں دیکھے گااورحیران ہو گاکہ شہزادے نے اس عرصے میں اتنا قلیل سفرطے کیاہے۔ تب آج ہی کی طرح وفاشعار نامہ بر پیلے پڑ چکے گزرے زمانے کی بے معنی خبروں سے بھرے سالخوردہ خط لیے میرے خیمے میں داخل ہو گا۔ مگر یہ دیکھ کر کہ میں اپنے پلنگ پر بے حس و حرکت مرا ہوا پڑا ہوں اور میرے دائیں بائیں دو سپاہی مشعلیں تھامے کھڑے ہیں، وہ دروازے پر ہی ٹھٹھک کر رُک جائے گا۔

لیکن پھر بھی ڈومنیکو، تم روانہ ہو جاؤ، اور مجھے سنگدلی کا الزام مت دینا۔اس شہر کے لیےمیرا آخری سلام لے جاؤ،جہاں میں پیدا ہوا تھا۔میرے اور اس دنیا کے درمیان تم ہی رابطے کی واحدکڑی ہو، وہ دنیا جو کبھی میری تھی۔ تازہ ترین خط بتاتے ہیں کہ وہاں بہت کچھ بدل گیاہے؛میرے والد صاحب وفات پا چکے ہیں، حکومت میرے سب سے بڑے بھائی کے ہاتھ آ گئی ہے، مجھے ہمیشہ کے لیے گمشدہ سمجھ لیا گیاہے، اور جہاں پہلے شاہ بلوط کے درخت تھے، جن کےنیچے میں کھیلا کرتا تھا، وہاں اب پتھر کے سربہ فلک قصر تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ میرا قدیم آبائی مسکن ہے۔

ڈومنیکو!اس کے ساتھ رابطے کی تم میری آخری کڑی ہو۔ پانچواں قاصد عطورہ، جو اگر خدا نے چاہا تو ایک سال اور آٹھ مہینوں بعد واپس آئے گا، دوبارہ روانہ نہیں ہو سکے گا۔ اِس کےیہاں آ کر لوٹنے کے لیے وقت نہیں بچے گا۔ سو تمہارے بعد ڈومنیکو، بس سناٹا ہے! اگر میں نے سرحدیں کھوج نکالیں تو اور بات ہے۔مگر میں جتنی طویل مسافت کرتاہوں،اتنا ہی مجھے یقین ہوتاجا رہا ہے کہ سرحد ہےہی نہیں۔

مجھے شک ہے کہ کسی سرحد کا وجود نہیں ہے، کم از کم اس معنی میں تو نہیں جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ میرا راہ روکنے والی کوئی دیوار نہیں ہے،نہ کوئی کھائی ہے،نہ کوئی پہاڑ۔شایدمیں حد پار کرجاؤں اورمجھے پتہ بھی نہ چلےاوربے خبر یونہی آگے بڑھتا چلا جاؤں گا۔

اسی سبب میرا ارادہ ہے کہ مستقبل میں جب عطورہ اور دوسرےقاصد لوٹیں گےتو وہ پاےتخت کو واپس روانہ نہیں ہوں گے، بلکہ اُلٹی سمت چل پڑیں گے اور مجھ سے آگے نکل جائیں گےتاکہ مجھے پیشگی معلوم ہو سکے کہ آگے کیا ہے۔

ادھر کچھ عرصے سے مجھے سرِ شام ایک نئی پریشانی گھیر لیتی ہے۔یہ ان شادمانیوں کی حسرت نہیں ہےجنہیں میں پیچھےتج آیا ہوں، جیسی کہ سفر کے شروعاتی دنوں میں ہواکرتی تھی۔ بلکہ یہ اُن اجنبی سرزمینوں کو دریافت کرنے کی بیتابی ہے، جن کی طرف میں پیش قدمی کر رہا ہوں۔

میں دیکھ رہا ہوں، اور اب تک میں نے یہ بات کسی سے نہیں کہی کہ بہ تدریج اس سفر کےنا ممکن اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے ہر گزرتے دن کے ساتھ، ایک منفرد روشنی آسمان میں چمکنے لگی ہے۔ ایسی روشنی،جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، خوابوں میں بھی نہیں۔ جن جنگلوں، پہاڑوں اور دریاؤں کو ہم پار کرتے ہیں، ان کی پرچھائیاں مجھے نیا وجود اختیار کرتی دکھائی دیتی ہیں، اور ہوا نہ جانے کن اندیشوں سے بوجھل ہو اٹھی ہے۔

کل صبح نئی امید مجھے ان پہاڑوں کی سمت مزید آگے لےجائے گی،پہاڑ جو انجانے ہیں اور ابھی رات کی پرچھائیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ایک بار پھر میں اپنا خیمہ باندھ لوں گا، جبکہ دُور دراز کے ایک شہر کے لیےمیرا بے مطلب پیغام لے کر ڈومنیکو اُفق کے اُس پار غائب ہو جائے گا۔

٭٭٭

 
ریبیکا ہیتھ کےانگریزی ترجمے سے: خالد فرہاد دھاریوال
The Seven Messengers - Dino Buzzati



**
دینو بوتزاتی**

مشہور اطالوی ادیب، مصور اور صحافی دینو بوتزاتی کی پیدائش 16 اکتوبر 1906 کو سان پیلیگرینو میں ہوئی۔ اس کی والدہ، پیشے کے لحاظ سے جانوروں کی ڈاکٹر اور والد، بین الاقوامی قانون کے پروفیسر تھے۔ بوتزاتی اپنے والدین کے چار بچوں میں سے دوسرا تھا۔ اس نے میلان یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی لیکن وکالت کا پیشہ اختیار نہیں کیا۔ دوران تعلیم ہی اسے 22 سال کی عمر میں میلان کے ایک اخبار نے ملازمت دی۔ اس نے ادارتی شعبہ میں شمولیت سے آغاز کیا۔ بعد ازاں بطور رپورٹر، خصوصی نامہ نگار، ایڈیٹر اور آرٹ کے نقاد کے طور پر کام کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران بوتزاتی نے افریقہ میں صحافتی خدمات انجام دیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ناول ’صحراء التتار‘ شائع ہوا جو اس کی بین الاقوامی شہرت کا باعث بنا۔ بطور افسانہ نگار دینو بوتراتی فنتاسی اور تخیل کی فراوانی کے لیے جانا جاتا ہے۔ وہ 28 جنوری 1972 کو طویل علالت کے بعد کینسر کی وجہ سے انتقال کر گیا۔

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق