افسانہ نمبر 653 : انحراف || افسانہ نگار : اگیہ (بھارت) || ہندی سے اردو ترجمہ:نسترن احسن فتیحی (دہلی ، بھارت)

افسانہ نمبر 653 :  انحراف

افسانہ نگار : اگیہ (بھارت)

ہندی سے اردو ترجمہ:نسترن احسن فتیحی  (دہلی ، بھارت)

 


یہ میں اتنے دن سوچنے کے بعد بھی سمجھ نہ سکا کہ یہ انسان ہے یا شیطان ۔ کبھی کبھی تو یقین بھی نہیں آتا کہ اس دن کا واقعہ خواب نہیں بلکہ حقیقی تھا۔ لیکن پھر جب میں اپنے سامنے دیوار پر اس ٹوٹی ہوئی تلوار کو لٹکتے دیکھتا ہوں تو مجھے اس کی سچائی کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ انسان تھی یا نہیں!

اس کے جسم میں خوبصورتی کی کشش تھی، چہرے پر حسن کی چمک تھی، اس کے ہونٹوں پر ایک دبی ہوئی فکر انگیز مسکراہٹ تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں! ان میں محبت، نفرت، غصہ، عاجزی، خوشی، ہمدردی، درد، کچھ بھی نہیں تھا، صرف ایک شدید قسم کی یخبستگی، اتھاہ شعلہ تھا!

آج بھی مجھے یہ گمان نہیں ہوتا کہ انسان کی آنکھوں میں ایسی حدّت کے ساتھ اس طرح کی مردہ بے حسی بھی ہو۔ لیکن آج ایک سال گزر جانے کے بعد بھی جب بھی میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو اس کی وہ آنکھیں میرے سامنے آجاتی ہیں۔ اس کا پیکر، اس کا کردار، اس کی بولی، مجھے کچھ یاد نہیں، صرف وہی دو روشن تصویر نظر آتی ہیں... رات کے اندھیرے میں جہاں بھی آنکھ پھیرتا ہوں، وہیں وہ زہرہ کی طرح یاایک نگینے کی طرح نظر آتی ہیں۔ نیلے آسمان میں ستارہ ، سبز روشنی سے جھلملاتی حیرت ‌زدہ اس کی وہ نگاہیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مجھ پر گڑی رہتی ہیں۔

میں جذباتی قسم کا آدمی نہیں ہوں۔ میں بہت سادہ طبیعت پرانے زمانے کا آدمی ہوں۔ میری روزی روٹی کی بنیاد اس شہر پیرس کے ایک سکول میں تاریخ کے استاد کے طور پرکام کرنا ہے۔ مجھے سینما دیکھنے کا شوق نہیں اور نہ ہی مجھے شاعری کا شوق ہے۔ تفریح کے لیے میں کبھی کبھی ملکی اور غیرملکی انقلابات کی تاریخیں پڑھ لیا کرتا ہوں۔ میں نے ایک دو بار اس موضوع پر لیکچر بھی دیا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ پردیس ہے۔ جب میں مطالعے سے بور ہو جاتا ہوں تو کبھی کبھی پرانے ہتھیار وغیرہ جمع کرنا شروع کر دیتا ہوں۔ میں نے بڑی محنت سے انہیں جمع کیا ہے۔ میرے ذخیرے میں اس خنجر کی وہ موٹھ ہے جس سے شہنشاہ پیٹر نے اپنی محبوباؤں کو قتل کیا تھا، اس پیالے کا ایک ٹکڑا ہےجس میں کیتھرین نے اپنے بیٹے کو زہر دیا تھا، جس گولی سے ایک نامعلوم عورت نےآرک اینحل کے گورنر کو قتل کیا تھا۔۔اس کا خالی کارتوس، وہ گھوڑا جس پر سوار ہو کر نپولین ماسکو سے بھاگا تھا۔۔اس کی ایک نال، اور نپولین کی جیکٹ کا ایک بٹن بھی میرے ذخیرے میں ہے۔ شاید ایسا کوئی ذخیرہ پیرس میں دوسرا نہیں تھا، شاید ماسکو میں بھی نہیں تھا۔

لیکن میں جو کہنا چاہتا تھا اس سے بھٹک گیا۔ ہاں، میں جذباتی نوعیت کا نہیں ہوں۔ میری دلچسپی اس ذخیرے تک محدود ہے یا کبھی کبھی انقلاب سے متعلق ادب تک اور مجھے دوسری چیزوں کا علم نہیں۔ پھر بھی اس دن کے واقعات نے میری پرسکون زندگی کواس طرح تہہ و بالا کر دیا جیسے کسی باغ میں طوفان آتا ہے۔ اس دن کے بعد سے نہ جانے کیوں میرے دل میں ایک انجانی، مبہم پریشانی نے گھر کر لیا ہے۔ میں جب بھی اس ٹوٹی ہوئی تلوار کو دیکھتا ہوں تو میرے کانوں میں ایک پُر خلوص مگر جذباتی آواز گونجتی ہے۔

"جب چراغ بجھ جاتا ہے تو دھواں اٹھتا ہے۔ لیکن جب ہمارے وسیع و عریض ملک کے بھوکے، مصائب زدہ، بے سہارا کسان اور خاندان سڑکوں پر بھٹکتے ہیں اور برف سے ڈھکی زمین پر بیٹھ کر اپنی قسمت کو کوسنے لگتے ہیں، جب ان کے دلوں میں تحقّظ کے امید کی آخری کرن بھی بجھ جاتی ہے، تو ایک آہ تک نہیں اٹھتی۔ کون جانے امید کی وہ بجھتی ہوئی راکھ کب تک پڑی رہے گی۔ لیکن کسی دن۔۔ مستقبل بعید میں، کوئی شدید طوفان اس میں پھر سے ایک چنگاری بھڑکا دے گا! کون جانتا ہے کہ اس کا شعلہ کہاں پھیلے گا، کس کو جلائے گا، کن کن شہروں اور صوبوں کو ذلیل کرے گا؟"

میں پرجوش ہو جاتا ہوں، میں گویا مسحور ہو جاتا ہوں اور اس دن کے واقعات کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔۔۔

رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ میں ماسکو میں اپنے کمرے میں بیٹھا چراغ کی روشنی میں آہستہ آہستہ کچھ لکھ رہا تھا۔ پاس ہی ایک چھوٹی میز پر کھانے کے جوٹھے برتن پڑے تھے۔ یہاں اور وہاں میری جمع کی ہوئ چیزیں دیوار پر ٹنگی ہوئی تھیں یا چمنی پر رکھی ہوئی تھیں۔

باہر بارش ہو رہی تھی۔ چھت پر آنے والی آواز سے میں نے اندازہ لگایا کہ اولے بھی گر رہے ہیں لیکن اس سردی میں مجھ میں اٹھ کر دیکھنے کی ہمّت نہیں تھی۔ کبھی کبھار چراغ کی مدھم روشنی پر چڑچڑانے کے علاوہ میں اگلے دن پڑھنے کے لیے 'کامیاب انقلاب' پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھنے پر پوری توجہ مرکوز کر رہا تھا۔

کامیاب انقلاب کیا ہے؟ بے شمار ناکام زندگیوں، لاتعداد بے نتیجہ کوششوں، بے شمار وسیع قربانیوں کا ایک پریشان کن لیکن پرامن نتیجہ"

(ان دنوں میں ماسکو کے ایک اسکول میں استاد تھا۔ میراوقت تاریخ پڑھانے میں اور کبھی انقلاب سے متعلق مضامین لکھنے اور پڑھنے میں صرف ہو جاتا تھا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے انقلاب کا مطلب سمجھ میں آیا تھا یا نہیں۔لیکن آج میں انقلاب کے بارے میں اپنی لاعلمی کوکچھ جان پایا ہوں!)

اچانک دروازے پر کسی نے دستک دی۔ میں نے بیٹھے ہی بیٹھے جواب دیا، "آ جاؤ!" اور لکھتا رہا۔ دروازہ کھلا اور بند ہوا۔ پھر وہی مسلسل پانی برسنے کی آواز آنے لگی- کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ میں نے حیرت سے اوپر دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔

بہت موٹا اوور کوٹ پہنے، سر پر بڑے بڑے بالوں والی ٹوپی، گلے میں سرخ رومال باندھے، ایک عورت دروازے کے پاس کھڑی میری طرف ایک ٹک دیکھ رہی تھی۔ اس کے کپڑے گیلے تھے، اس کی ٹوپی میں کہیں کہیں ایک آدھ اولے پھنس گئے تھے۔ اپنے پیروں میں اس نے گٹھنوں تک پہنچنے والے بڑے بڑے بدصورت روسی جوتے پہن رکھے تھے،جو کیچڑ میں لتھڑے ہوۓ تھے۔ اوپر کی ٹوپی اور نیچے رومال کی وجہ سے اس کا منہ بہت کم دکھائی دے رہا تھا۔ اس طرح ڈھانپنے کے بعد بھی اس کے جسم میں لچک کے ساتھ ساتھ کھنچاؤ کا بھی احساس ہوتا تھا، گویا کپڑے سے ڈھانپنے کے بعد اس کے سامنے تنی ہوئی کمان کی تار رکھ دی گئی تھی۔

آنکھیں نظر نہیں آرہی تھیں لیکن ان ہونٹوں کی باریک لکیر کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ ان کے پیچھے بجلی کی چستی کے ساتھ گرج کی سختی بھی ہے۔

میں لمحہ بھر اسے دیکھتا رہا لیکن وہ کچھ نہ بولی۔ میں نے ہی خاموشی توڑی، "بتاؤ کیا حکم ہے؟" کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے پھر پوچھا، کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟

وہ کچھ دیرشش و پنج میں پڑگئی، جیسے سوچ رہی ہو کہ اسے جواب دینا چاہیے یا نہیں۔ پھر اس نے آہستہ سے اوور کوٹ کا بٹن کھولا اور اندر سے ایک تلوار ۔۔ ایک خون آلود تلوار ۔۔ نکالی۔ اس دوران اس نے ایک لمحے کے لیے بھی مجھ سے نظریں نہ ہٹائیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ میرے اندرونی خیالات کو محسوس کر رہی ہو۔ میں بھی متوجہ ہو کر دیکھتا رہا...

اس نے کہا، "یہ دیکھو! جانتے ہو یہ خون کس کا ہے؟ کرنل گوروسکی! اور اس کی لاش اس کے گھر کے باغ میں پڑی ہے!

میں نے حیران ہو کر کہا، ہاں؟ کب؟""

"ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا ہے۔ اس کی اپنی تلوار، ان ہاتھوں نے اسی کے دل پر وار کیا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں، کیوں؟ شائد تم نہیں جانتے کہ عورت کتنا شدید انتقام لیتی ہے

’’تم یہاں کیوں آئ ہو؟‘‘

" "ماسکو سے فرار ہونے کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔

"میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔ تم قاتل ہو۔"

وہ اچانک خوفزدہ ہو گئی، جیسے اسے اس جواب کی توقع نہ ہو۔ پھر وہ دھیرے سے ایک طنزیہ، اداس ہنسی کے ساتھ بولی، ''آپکی ہمدردی بس یہی تھی! اسی انقلاب کے لیے آپ لیکچر دیتے ہیں، یہی آپ کی تاریخ کا نتیجہ ہے!

"میں انقلابی ہوں لیکن قاتل نہیں۔ اس طرح کے قتل و غارت سے ملک کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ حکومت مزید دباؤ ڈالے گی، مارشل لاء لگے گا، پھانسیاں ہوں گی۔ ہمارا کیا فائدہ ہوگا؟"

"آپکا کیا خیال ہے، انقلاب گڑیا کا کھیل ہے!" یہ کہہ کر وہ میری میز کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ میز پر پڑے کاغذات کو دیکھتے ہوئے بولی، ’’یہ کیا ہے، ایک کامیاب انقلاب! ان گنت ناکام سوانح عمریوں کا اختتام… بھولی بسری قربانیوں کا نتیجہ!

اس نے قہقہ لگایا۔"کامیاب انقلاب! کیا آپ جانتے ہیں کہ انقلاب کے لیے کس قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں؟"

میں کچھ جواب نہ دے سکا۔ میں اسے وہ مضمون پڑھتے دیکھ کر شرمندہ ہو رہا تھا۔

اس نے پھر کہا، ''آپ خود کو انقلابی کہتے ہیں، ہم بھی۔ لیکن ہمارے نظریات میں کتنا فرق ہے! آپ دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہیں اور آزادی کے نام پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، اور ہم اپنے دلوں کو اتنا بڑا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں دنیا کو سمیٹ سکیں!"

میں نے کبھی کسی سازش میں حصہ نہیں لیا، انقلابیت پر لیکچر دینے کے سوا کچھ نہیں کیا، پھر بھی میں اپنے اصولوں پر حملہ برداشت نہ کر سکا۔ میں نے غصے سے کہا ۔۔

تم جھوٹ بولتی ہو۔ میں ایک حقیقی کمیونسٹ ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ دنیا میں برابری ہو، حکمران اور حاکم کی تفریق ختم ہو جائے۔ لیکن اس طرح مارنے سے یہ کبھی ثابت نہیں ہوگا۔ اگر یہ اس کے لیے کرنا پڑا جسے تم انقلاب کہتی ہو تو میں اس انقلاب کی مخالفت کروں گا اور اسے روکنے کی پوری کوشش کروں گا۔ یہاں تک کہ اگر اس کے لئے جان بھی۔۔۔"

کیا آپ انقلاب کی مخالفت کریں گے، کیا آپ اسے روکیں گے؟ سورج کوکبھی نکلنےسے روکنے کی کوشش کی ہے؟ سمندر میں قیامت کی لہر اٹھتی ہے، کیا روک دی گئی ہے؟ آتش فشاں پھٹا، زمین لرزنے لگی، کس نے روکا؟ انقلاب سورج سے زیادہ چمکدار، تباہی سے زیادہ ہولناک، شعلے سے زیادہ خوفناک، زلزلے سے زیادہ تباہ کن… آپ اسے کیسے روکیں گے؟"

"شاید میں نہیں روک سکتا۔ لیکن میں اپنا فرض تو پورا کروں گا۔‘‘

"کون سا فرض؟ لیکچرجھاڑنا؟"

"ملک میں اپنے نظریات کی نمائش اورعدم تشدد کے انقلاب کی تشہیر کرنا۔"

"عدم تشدد کا انقلاب؟ آپ جا کر بھوکے، ننگے اور اذیتوں سے دوچار لوگوں کو خاموشی سے اور آہ بھرے بغیر مرنے کو کہینگے! سخت روسی سردی میں برف کے نیچے دب جائیں، لیکن خیال رکھیں کہ ان کی لاش کسی شریف آدمی کے راستے میں نہ آئے! آپ روتے ہوئے بچوں کو کہیں گے کہ اپنی ماں کے سینوں کی طرف مت دیکھو، باہر جا کر مٹی اور پتھر کھا کر بھوک مٹاؤ! اور ظالم حکمران آپ کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں ہنسیں گے اور آپ کی عدم تشدد کی آڑ میں غریبوں کا خون چوسیں گے! یہ آپ کا پرامن انقلاب ہے جس پر آپ کو بہت فخر ہے۔"

"اگر حکمران ظلم کرتے ہیں تو ان کے خلاف احتجاج کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔"

"فرض؟ وہی فرض جو آپ اسکول کی نوکری کے لیے بیچتے ہیں؟ وہی فرض جس کے نام پر آپ اسکول میں تاریخ پڑھاتے ہوئے اتنے جھوٹ بولتے ہیں؟"

میں نے غصے سے کہا، ’’ذاتی حملوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم نے سب سے بڑی قربانی کیا دی ہے؟ ’’تم نے ایک آدمی کو مارا اور بھاگ آئ، کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘

مجھے اس پر بہت غصہ آرہا تھا۔ لیکن جس طرح سے وہ مجھے دیکھ رہی تھی، ایک آسیب کی طرح کھڑی تھی، ہاتھ میں تلوار لیے، اس کے کوٹ کے بٹن کھلے ہوئے، میں اسے باہر نکالنےکی ہمت نہیں کر سکا! میں نے سوال کیا اور اس کی طرف دیکھنے لگا۔ مجھے توقع تھی کہ وہ میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے مجھ سے نظریں چرائیگی، گھبرا جائے گی یا غصے میں آ جائے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہ دھیرے سے کاغذ ہٹا کر میری میز کے ایک کونے کی طرف بیٹھ گئی اور تلوار کی نوک میری طرف کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔ ’’میں نے کیا کیا، تم سنو گے؟ میں نے کوئی بڑی قربانی نہیں دی، لیکن بہت کچھ دیکھا ہے۔ میرے پاس کافی وقت ہے — ابھی تک کسی نے گوروسکی کی لاش کو نہیں دریافت کیا ہے۔ سنو گے تم؟"

پہلے میں نے سوچا کہ سن کر کیا کروں؟ اب مجھے مضمون لکھنا ہے۔ مجھے کل اسکول جانا ہے، اور پھر پولیس – میں نے سوچا کہ دوں۔۔ چلی جاؤ۔ لیکن پھر ایک تجسس اور اپنی بے حسی پر جرم کا احساس تھا۔ میں نے اٹھ کر چمنی میں انگاروں کو ہلایا اور آگ کو بڑھایا، ایک کرسی اٹھا کر آگ کے قریب رکھ دی اور اپنی جگہ پر بیٹھ کر کہا، "ہاں، میں سنوں گا۔ آگ کے پاس اس کرسی پر بیٹھو اور بتاؤ، بہت سردی ہے۔"

وہ وہیں بیٹھی رہی، جیسے اس نے میری بات سنی ہی نہ ہو۔ تلوار کو ایک طرف رکھتے ہوئے وہ آگے جھک گئی اور آگ کی طرف دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر وہ چونکتے ہوئے بولی ہاں سنو۔۔۔" میں نے گھر میں نےکرسی پر بیٹھ کر محنت کش طبقے کے لیے کمیونزم پر مضامین نہیں لکھے۔ نہ ہی میں نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر کسانوں کو جنگ آزادی کا سراب دکھایا ہے۔ میں نے گھر، والدین، یہاں تک کہ اپنے شوہر کو بھی چھوڑا ہے اور بہت سے جھٹکوں کا سامنا کیا ہے۔ خوش نصیبی داؤ پر لگا کر اپنے یقین کی حفاظت کی۔ اپنا اختیاربچانے کے لیے اپنے باپ کو قتل کر دیا اور اور میں نے اپنی نسوانیت بیچ کر ملک کے لئے بھیک مانگی ہے - اور آج میں پھر بھیک مانگنے نکلی ہوں۔"

اچانک میرے منہ سے نکل گیا، ’’کس سے؟‘‘

یوں لگتا تھا جیسے اس کی سوچ کا سلسلہ اس سوال سے ٹوٹ گیا ہو۔ تلوار کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا، "یہ میں پھر کبھی بتاؤں گی، یہ میری آخری اور واحد قربانی کی کہانی ہے۔"

یقین اور اختیار کا دفاع - والد کا قتل - مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔

"میرے والد پیٹرزبرگ میں محکمہ پولیس کے رکن تھے۔ میرے شوہر نے بھی وہاں سیاسی محکمے میں کام کیا۔ میں اپنے خاندان اور نسب میں واحد فرد تھی جس نے انقلاب کی پکار سنی... پھر بھی مجھے کتنی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا! جب میں پہلی بار کرانقلابی پارٹی میں شامل ہوئ تو لوگ مجھ پر شک کرنے لگے۔ کسی نامعلوم دشمن نے انہیں بتایا، اس کا باپ پولیس میں ہے، اس کا شوہر پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ میں ہے، اس سے تباہی کے سوا اور کیا امید ہو سکتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اتنی خواہش اور نیک نیتی کے باوجود میں مشکوک اور دوسروں کے محتاط روّئے کا شکار تھی... میرے شوہر کو بھی میرے رجحانات کا علم ہوا۔ نتیجتاً، ایک دن میں خاموشی سے گھر سے نکل گئ– انہیں بھی اپنی نوکری چھوٹ جانے کا ڈر تھا! اس کے بعد—اس کے بعد میرے امتحان کا سوال پیدا ہوا! میرے شوہر کو چھوڑنے کے بعد بھی مجھے رکن نہیں بنایا گیا – مجھے امتحان دینے کو کہا گیا۔ وہ کتنا خوفناک تھا!‘‘

ایک لمحے کے لیے آگ کو دیکھنے کے بعد اس نے پھر کہنا شروع کیا۔ "ایک شام میں اور چار دوسرے لوگ پستول لے کر نکولس پارک میں بیٹھ گئے۔ اس دن پیٹرزبرگ پولیس وہاں سے دو قیدیوں کو لے جانے والی تھی۔ اس پر حملہ کرنے اور قیدیوں کو چھڑانے کا کام ہمارے سپرد کیا گیا۔ یہی میرا امتحان تھا!

ہم رات تک وہیں بیٹھے رہے۔ نو بجے کے قریب پولیس کے جوتوں کی آواز آئی۔ ہم چوکنا ہو گئے۔ کسی نے پوچھا کون بیٹھا ہے ہم نے جواب نہیں دیا، گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ دو منٹ میں فیصلہ ہو گیا - ہمارے تین آدمی رہ گئے، لیکن ہم کامیاب ہو گئے۔ قیدیوں کروالیا گیا۔ ہم نے جلدی سے پارک چھوڑ دیا اور الگ ہو گئے۔

میں بہت غور سے سن رہا تھا۔ میں نے ایسی کہانی کبھی سنی یا پڑھی بھی نہیں… میں نے بے چینی سے پوچھا، ’’پھر؟‘‘

’’دوسرے دن میں نے ماسکو کے اخبار میں پڑھا کہ قیدیوں کو لے جانے والا افسر میرا باپ تھا!‘‘

اس چھوٹے سے کمرے میں پھر خاموشی چھا گئی۔ ابھی بھی بارش ہو رہی تھی۔ پریشان ہو کر میں چھت پر گرنے والے قطروں کو گننے کی کوشش کرنے لگا۔

اس نے پوچھا کیا تم اور کچھ سنو گے؟

میں نے سر جھکا کر جواب دیا، ''میں نے تم سے اچھا سلوک نہ کرکے بہت زیادتی کی ہے۔ درحقیقت تم کو بہت زیادہ قربانی دینی پڑی ہے۔ مجھے اب تک معلوم نہیں تھا۔‘‘

"ہاں، یہ قدرتی ہے. ہم اکیلے انسان کا دکھ سمجھ سکتے ہیں۔ کسی جانور کو تکلیف ہوتی دیکھ کر ہمارے دلوں میں ہمدردی جاگ اٹھتی ہے- ایک شور مچ جاتا ہے… لیکن نسل، ملکاور قوم! یہ کتنا بڑا ہے! لاتعداد لوگ بیک وقت اس کے درد اور تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں، اس میں اتنی وسعت، اتنی عظمت ہے کہ ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ درد کہاں ہو رہا ہے، ہو رہا ہے بھی یا نہیں۔

"ٹھیک ہے۔ تمہیں بہت تکلیف اٹھانی پڑی ہے۔ لیکن بغیر کسی وجہ کے اس طرح کی تکلیف برداشت کرنا، خواہ کوئی اسے کتنے ہی صبر سے برداشت کر لے، عقلمندی تو نہیں ہے۔"

"ہمارے دکھ درد زہ کی طرح ہیں، اس کے بعد ہی انقلاب پیدا ہو گا۔ اس کے بغیر انقلاب کی کوشش کرنا اور انقلاب سے نتائج کی توقع رکھنا محض ستم ظریفی ہے۔"

"لیکن ہر تحریک ایک طے شدہ راستے پر چلتی ہے، کیا یہ منظّم طریقے سے نہیں بڑھتی ہے؟"

"انقلاب کوئی تحریک نہیں ہے۔"

’’ اصلاح کرنے کے لیے بھی کوئی آئیڈیل سامنے رکھنا پڑتا ہے؟‘‘

’’انقلاب اصلاح نہیں ہے۔‘‘

"ٹھیک نہیں۔ تبدیلی صحیح چیز ہے۔ لیکن تبدیلی کا بھی ایک مقصد ہوتا ہے!"

"انقلاب تبدیلی بھی نہیں ہے۔"

میں نے سوچا، میں پوچھوں تو انقلاب کیا ہے؟ لیکن میں خاموشی سےاس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔ وہ خود گویا ہوئ ،

"انقلاب۔۔ تحریک، اصلاح، تبدیلی کچھ بھی نہیں ہے۔ انقلاب ۔۔ تہذیب اورعقائد، کنونشنز، نظام فکر، حکومتی نظام اور دقیانوسی سوچ کا ایک مہلک، تباہ کن، خوفناک دھماکہ ہے! اس کا نہ کوئی آئیڈیل ہے، نہ کوئی مقصد اور نہ ہی کوئی وقت۔ انقلاب ایک تباہی اور بربادی ہے۔ قیامت ہے!"

"یہ سب تو صرف باتیں ہیں۔ کلام شاعرانہ ہے۔ ایسے انقلاب سے کیا حاصل ہوگا؟"

وہ ہنسنے لگی۔ "انقلاب سے کیا حاصل ہوگا؟ کچھ بھی نہیں۔ جو بھی ہو، شاید وہ بھی فنا ہو جائے۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انقلاب کی مخالفت کی جائے۔ ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ انقلاب کر کے ہمیں کیا ملے گا۔"

"کیوں!"

"جب جذام کا مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، تو وہ اپنی بیماری سے شفا پانے کی درخواست کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں پوچھتا کہ اس بیماری کو دور کر کے بدلے میں مجھے کیا دو گے؟ انقلاب ایک خوفناک دوا ہے، یہ کڑوی ہے، دردناک ہے، جلانے والی ہے، لیکن یہ ایک دوا ہے۔ جو یقینی طور پر بیماری کو دور کرتا ہے۔ لیکن اس کے بعد اس میں صحت یابی کے لیے درکار جس آرام کی ضرورت ہوگی اس کا ملنا مایوس کن ہوگا اور اس کے لیے انقلاب کو مورد الزام ٹھہرانا حماقت ہے۔

میں لا جواب ہو گیا۔ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس سے کہا کیا میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟

"کیا!"

"تمہارا نام کیا ہے؟"

"کیوں؟"

"بس ایسے ہی۔۔۔ صرف تجسس۔"

"باپ کا دیا ہوا نام شادی کے دن ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ آج میں اپنے شوہر کا دیا ہوا نام بھول گئی ہوں، اب میرا نام ماریا ایوانوونا ہے۔"

ہم پھر کچھ دیر خاموش رہے۔ میں نے تلوار کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔"یہ کیسے ہوا؟"

اس کی ان عجیب نیلی آنکھوں کا غیر فعال شعلہ پھر سے بیدار ہوا۔ "یہ ایک بہت ہی ناگوار کہانی ہے۔" اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بد بدا کر کہا۔۔ نہیں، کوئی خون نہیں ہے۔"

متجسس ہونے کے باوجود میں نے اصرار نہیں کیا۔ اس وقت تک میں سمجھ چکا تھا کہ اس عورت (یا شیطان؟) سے گزارش کرنا بیکار ہے اور اس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ میں خاموش اس امید پر بیٹھا رہا کہ شاید وہ خود ہی کہے۔ مجھے مایوس بھی نہیں ہونا پڑا۔

اس نے آگ کی طرف دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا، ’’تو سنو! آج میں جو کچھ بھی کر رہی ہوں، میں نے کبھی کسی کو نہیں بتایا، شاید اب کبھی کسی کو نہ بتاؤں۔ جب میں یہاں آپ کا پتہ دریافت کرنے آئ تھی تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں آپ سے کوئی بات کروں گی۔ صرف پیسے مانگنے اور جانے کی خواہش لے کر آئی تھی۔ اب میری رائے بدل گئی ہے۔ مجھے پیسے نہیں چاہیے۔ میں…"

"کیوں؟"

"میں اپنا کام کرنا چاہتی تھی اور ماسکو سے بھاگنا چاہتی تھی۔ لیکن میں اب نہیں بھاگوں گی۔‘‘

’’اور کیا کرو گی؟‘‘

"ابھی ایک کام باقی ہے۔ ایک بار پھر بھیک مانگنی ہے۔ اس کے بعد-"

وہ اچانک رک گئی۔ پھر، اپنی شہادت کی انگلی کو تلوار کی دھار پر چلاتے ہوئے، اس نے اپنے آپ سے کہا، ’’یہ کیسی تیز دھار ہے!‘‘

میں نے ہمت بڑھا کر پوچھا، ''تم نے پہلے بھی خیرات کی بات کی تھی اور قربانی کی بھی۔ میں کچھ سمجھ نہیں پایا۔"

"اب جب کہ میں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے، میں سب کچھ کہوںگی۔ اب شرم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نسوانیت تو پہلے بھی مٹ گئی تھی، آج انسانیت بھی گم! اور پھر — آج کے بعد — سب کچھ ایک ہو جائے گا۔ لیکن آپ خاموشی سے سنتے رہیں، مداخلت نہ کریں۔

میں انتظار میں بیٹھا رہا۔ اس نے اتنی معصومیت سے کہانی سنانی شروع کی، جیسے خواب میں سنا رہی ہو – جیسے آواز کسی مشین سے نکل رہی ہو۔

"کیا آپ نے مائیکل کریسکی کے بارے میں سنا ہے؟"

"وہی جو پیٹرزبرگ میں تین پولیس افسران کو قتل کرنے کے بعد لاپتہ ہو گیا تھا؟"

"ہاں، وہی. وہ ہماری تنظیم کے سربراہ تھے۔ یہ کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ میں نے کچھ نہیں کہا لیکن اس نے میرے چہرے پر حیرت کے تاثرات ضرور دیکھے ہوںگے۔ اس کے بعد اس نے کہا، "اسے کل ہی ماسکو میں گرفتار کیا گیا تھا۔"

ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔

لیکن پولیس کو گرفتار کرنے اور لے جانے کے بعد بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کون ہے؟ اسے اس شبہ میں گرفتار کیا گیا کہ شاید وہ کوئی انقلابی ہو۔ جب مجھے اس کی خبر ملی تو میں نے وہاں جاکر پتہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ میں ایک سادہ لوح گنوارعورت حیسا یہ لباس پہن کر محکمہ پولیس کے دفتر گئ۔ وہاں جا کر میں نے اپنا تعارف کرایا کہ میں اس کی بہن ہوں اور اسے گاؤں سے لینے آئی ہوں۔ اس وقت تک پولیس کو اس پر کوئی شک نہیں تھا۔ لیکن پوچھ گچھ یہاں اور وہاں سے کی جا رہی تھی، یہاں تک کہ پیٹرزبرگ سے بھی۔

پہلے میں نے سوچا کہ پیٹرزبرگ سے اپنے دوستوں کو بلا بھیجوں، ان سے مل کر انہیں بچانے کی کوشش کروں لیکن اس کے لیے اتنا وقت نہیں تھا — کون جانے کہ پیٹرزبرگ سے کب انہیں جواب آ جائے! تنہا میں التجا کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی... اور مجھے اپنی بے بسی پر کتنا غصّہ آیا! میں دانت پیستی رہی… جب تک کسی کو ایسے وقت میں اپنی نااہلی اور بے بسی کا تجربہ نہ ہو، انقلاب کی ضرورت کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتا۔"

میری طرف دیکھتے ہوئے اور مجھے توجہ سے سنتے ہوئے پا کر کہنے لگی۔۔

"پھر میں نے سوچا، جو کچھ میں اکیلی کر سکتی ہوں، مجھے وہ کرنا چاہیے! اگر میں ان کو التجا کرکے آزاد کرا سکتی ہوں تو مجھے یہ کرنا پڑے گا، چاہے بعد میں مجھے پھانسی کیوں نہ دی جائے! میں نے فیصلہ کیا تو میری ہچکچاہٹ دور ہوگئی۔ ابھی کل شام ہی میں جنرل کولپن کے بنگلے پر گئ۔ اس وقت کرنل گوروسکی بھی وہاں موجود تھے۔ مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی، دربان نے میرے پاس جو کچھ تھا تلاشی میں نکال کر وہیں رکھ لیی۔ پھربہت منت سماجت کے بعد میں اندر جا سکی!

’’پہلے تو جنرل کولپن نے مجھے دیکھ کر ڈانٹ دیا۔ پھرنہ جانے کیا سوچ کر پوچھا۔۔۔’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘

میں نے اپنی من گھڑت کہانی سنائی کہ میرا بھائی بے قصور تھا اور پولیس نے اسے ایسے ہی پکڑ لیا۔ جنرل صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہیں چھوڑ سکتے ہیں... میں ان کے سامنے روئ، ان کے پاؤں بھی پکڑے-اس کے، جس کی زبان کھینچ لیتی!

وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ میں نے اسے بتایا تو بھی اس نے کچھ نہ کہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے گوروسکی کی طرف آنکھ ماری۔ کچھ سرگوشی ہوئی۔ گورووسکی نے مجھے کہا، 'یہاں آؤ، مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔' میں اس کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلی گئ۔ وہاں جا کر اس نے کہا۔۔'دیکھو، اب سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے، لیکن کل کے بعد نہیں ہوگا۔' ہمیں اسے عدالت میں لے جانا پڑے گا۔

پھر۔۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے کہا، 'آپ باس ہیں، جیسا آپ کہیں ،میں کرونگی۔' اس نے کہا، 'جنرل صاحب آپ کے بھائی پر رحم کرنے کے لیے تیار ہیں؟'

میں نے تجسس سے پوچھا، 'کیا؟' وہ میرے بہت قریب آ گیا، پھر اس نے دھیرے سے کہا۔۔ 'ماریہ ایوانوونا، تم غیر معمولی حسین ہو۔'...

وہ بولتے بولتے خاموش ہو گئی۔ میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں ایک عجیب سی روشنی سے چمک رہی تھیں۔ وہ اچانک میز سے اٹھ کر میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس نے کہا، آپ جانتے ہیں اس کی کیا شرط تھی؟ ایسی شرط جو آپ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے…یہ واحد قربانی تھی جس کے لیے میں ذہنی طور پر تیار نہیں تھی۔‘‘

وہ پھر خاموش ہو گئ۔ اپنی قمیض کا کالر اور گلے میں رومال کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑے وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہی۔ پھر اس نے قمیض اور رومال کو ایک ہی جھٹکے سے کھول دیا اور کہا، ’’دیکھو استاد! کیا تم نے کبھی ایسی خوبصورتی دیکھی ہے؟"

اس کا چہرہ، جو رومال اور ٹوپی سے ڈھکا ہوا تھا، اب صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے نیچے اس کی گردن اور سینہ کھلا تھا... اس کا وہ انوکھا حسن، وہ کھلتا ہوا حسن، ہونٹوں پر دبی اداس اور زہریلی مسکراہٹ،... میں نے واقعی ایسا انوکھا حسن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی - پھر میں نے نظریں پھیر لیں۔

لیکن اس کی وہ آنکھیں – بیک وقت شعلہ بار اور شبنم کی طرح ٹھنڈی.. ان کی وہ چمک. جن میں لاتعلقی، غصہ، درد، بےچارگی کے ساتھ زہرہ کی وہ سبز روشنی...!

"یہ ہےقربانی ! ایک عورت کی نسوانیت کی قربانی۔۔۔ مائیکل کریسکی کی آزادی کی قیمت ہے!"

میں نے کچھ کہنا چاہا، چیخنا چاہا لیکن بہت کوشش کرنے کے بعد بھی کوئی آواز نہ نکلی۔

وہ، ویمپائر گوروفسکی، میرے پاس آیا اور کہا، 'ماریا ایوانوونا، آپ غیر معمولی حسین ہیں - آپ کے لیے اپنے بھائی کو بچانا ایک سادہ سی بات ہے... ایسا لگتا تھا جیسے مجھ پر بجلی گر گئی ہو۔ ایک لمحے کے لیے بھی مجھے اس حالت کا پورا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ پھر غصہ میرے دل میں سمندر کی لہروں کی طرح اُبھرا۔ میرا چہرہ سرخ ہو گیا۔ میں نے کہا، 'گنہگار! کتے!‘‘ اور تیز رفتاری سے باہر نکل گئ۔۔ لیکن اپنے پیچھے مجھے اس کی ہنسی اور یہ الفاظ سنائی دیے - 'کل شام تک انتظار رہیگا، اس کے بعد -'

ٹھنڈی ہوا میں باہر آنے کے بعد میں نے اپنے حواس بحال کر لیے۔ میں پرسکون ہوئ اور سوچنے لگی، میرا فرض کیا ہے؟ کیا مائیکل کریسکی کا سر براہی اور وقارزیادہ ہے یا... میں اسے مرنے دوں؟ کبھی نہیں لیکن میں اسے کیسے آزاد کرا سکتی ہوں؟ کیا میں اس امید پر بیٹھوں کہ پولیس کو پتہ نہ چلے؟ کیا میں پیٹرزبرگ سے کسی کو کال کروں؟ لیکن اس کے لیے وقت کہاں ہے! میں اکیلی کیا کروں ؟ وہ شرط۔۔۔؟

"سربراہ، ہمارا کام، ملک اورقوم! ایک طرف اور دوسری طرف عورت کی عفت...! میں نے ایک فیصلہ کر لیا ہے۔ شاید مجھ سے غلطی ہو گئی، شاید اس فیصلے کے لیے دنیا، میرے اپنے انقلابی دوست، میرے نام پر تھوکیں، شاید مجھے جہنم کی اذیتیں جھیلنی پڑیں، لیکن جہنم میں بھی اس سے بڑا عذاب اور کیا ہوگاجو میں نے یہ فیصلہ لینے میں سہا ہے ؟"

وہ پھر رک گئی۔ اس بار میں خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے بڑی بے چینی سے پوچھا، ’’کیا فیصلہ لیا؟‘‘

میں یہاں سے جنرل کولپن کے گھر جاؤں گی۔ لیکن سنو میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ آج چھ بجے میں کرنل گوروسکی کے گھر گئ۔ میرے جاتے ہی اس نے ہنستے ہوئے کہا، 'ماریہ تم اتنی ہی خوبصورت ہو جتنی ذہین ہو۔ بار بار خراب ہو کر بھی عزت مل سکتی ہے، بھائی بار بار نہیں ملتے! میں نے سر جھکا کر کہا۔ 'جی آپ صاحب کو پیغام بھیج دیں کہ مجھے ان کی شرط منظور ہے۔'

"وہ اس وقت اپنی وردی اتار رہا تھا۔ اس نے کہا، ’’تم یہیں رہو، میں انہیں ٹیلی فون پر بتاؤں گا۔‘‘ وہ کونے میں موجود ٹیلی فون پر بات کرنے لگا۔ اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔ اچانک مجھے کچھ ہوا... میں نے اس کی تلوار میان سے نکالی اور خاموشی سے جا کر اس کے پیچھے کھڑی ہو گئ، ٹیلی فون پر بات چیت ختم ہو چکی تھی — گوروسکی اسے بند کر کے مڑنے ہی والا تھا جب میں نے تلوار اس کی پیٹھ میں گھونپ دی! اس نے آہ بھی نہیں بھری- وہ اناج کی بوری کی طرح زمین پر ڈھ گیا۔ پھر میں نے اس کی لاش کو کسی طرح کھڑکی سے باہر پھینک دیا اور بھاگ گئ!

میں نے پوچھا، ’’اتنی طاقت تمہارے ان ہاتھوں میں ہے!‘‘

وہ ہنسی اور بولی، "میں ایک انقلابی ہوں، یہ دیکھو!"

اس نے تلوار اٹھائی، ایک ہاتھ سے پٹی اور دوسرے سے نوک پکڑی اور کہا، ’’یہ دیکھو!‘‘ کچھ ہی دیر میں اس نے اسے گھٹنے پر چپٹی طرف سے مارا - تلوار کے دو ٹکڑے ہو گئے! اس نے وہ دو ٹکڑے میری میز پر رکھے۔

میں نے پوچھا اب کیا کرو گی؟

"اب میں کولپن کی جگہ جاؤں گی۔ کریسکی کو آزاد کر دیں گے۔ اس کے بعد؟ اس کے بعد-"

اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چھوٹا سا ریوالور نکالا۔ "یہ گوراوسکی کے مقام پر بھی پایا گیا تھا۔"

’’لیکن تم اس کا کیا کرو گی؟‘‘

"استعمال کرونگی!" یہ کہہ کر اس نے اسےچھپا لیا۔

اس کے بعد شاید چار پانچ منٹ تک کوئی پھر نہ بولا۔ میں نے اپنے ذہن میں اس کی پوری کہانی کا جائزہ لیا۔ کتنی وحشت تھی، کتنی بے بسی تھی اس میں! اور اس کا کیا قصور تھا؟ صرف یہ کہ وہ انقلابی تھی! اچانک مجھے ایک بات یاد آئی! میں نے پوچھا، "تم نے کہا کہ تم نے پہلے بھی بھیک مانگی تھی - اسی قسم کی۔ وہ کیا چیز تھی، کیا بتا سکتی ہو؟‘‘

وہ اب تک کھڑی تھی، اب دوبارہ میز پر بیٹھ گئی۔ اس نے کہا، "یہ پرانی بات ہے۔ ان دنوں میں جب میں پیٹرزبرگ سے بھاگی تھی۔ اکیلی نہیں، میرے ساتھ ایک لڑکی تھی - کیا تم نے پولینا نام سنا ہے؟"

"ہاں، میں نے سنا ہے۔ اس وقت یاد نہیں کہاں سنا؟"

"وہ نوگوروڈ میں - طوائفوں کی ایک گلی میں پکڑی گئی تھی اور گولی مار دی گئی تھی۔"

"ہاں یاد آیا۔ اس کے بعد بہت شور ہوا کہ ایسا کیوں ہوا، لیکن کچھ پتہ نہیں چل سکا۔

"ہاں۔ اس دن میں بھی نوگوروڈ میں تھی—اسی گھر میں! ہم دونوں وہاں رہتے تھے۔ طوائفوں کے ساتھ۔ جہاں ہر رات لوگ آتے تھے، عورتوں کے جسموں کو دیکھتے تھے، گندے اشارے کرتے ، اور ہم وہاں بیٹھ کر سب کچھ دیکھتے تھے، جبکہ وہ سرمایہ دار، جو چوسے ہوئے لیموں کی طرح بیماریوں میں لتھڑےہوئے، صاف ستھرے کپڑے پہن کر اٹھلاتے ہوئے آتے تھے۔ افف ! جس نے یہ سب نہیں دیکھا وہ سرمایہ داری اور سامراج کے دور رس نتائج کو نہیں سمجھ سکتا! یہ جاننے کے لیے وہ سب دیکھنا ضروری ہے کہ پیسے کی زیادتی سے معاشرے میں کتنی برائیاں آتی ہیں!

پھر وہ اردگرد کے کمروں میں چلے جاتے… کچھ کمروں میں اندھیرا ہو جاتا… پھر…‘‘

وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر اس نے کہا، "کبھی کبھی ان میں ایک یا دو نوجوان بھی آ جاتے - خاموش، خوبصورت، صحت مند... جب وہ آتے تو وہ گھر اور اس کے باقی لوگ بہت گھناؤنے اور عجیب لگنے لگتے... لیکن شاید اگر وہ نہ آتے، ہم وہاں مر جاتے – وہ اتنی خوفناک جگہ تھی!

"یہ لڑکےہمارے معاونین تھے، ہمارے کوآپریٹیو… جو اعلانات ہمارے پاس پیٹرزبرگ سے تقسیم کرنے کے لیے آتے تھے، ہم انہیں دیتے– وہ انہیں تقسیم کر دیتے۔ اس طرح ہم نے نوگوروڈ میں اپنی تنظیم کی ایک شاخ قائم کی۔ پھر نوگوروڈ سے آرچنجیل میں تین گورنروں کو قتل کر دیا گیا، یاروسلاول میں سرکاری ملازمین کے گھروں کو جلا دیا گیا، اور نوگوروڈ میں کئی پولیس افسران کو ہلاک کر دیا گیا۔ پھر پولینا پکڑی گئی، اور میں ماسکو آئ..."

"لیکن وہ کیسے پکڑی گئ؟"

جس محلے میں ہم رہتے تھے وہ رات کو ہی کھلے رہتے تھے… دن کے وقت وہ کسی دھماکے میں آتش فشاں کی پھٹی ہوئی چوٹی کی طرح خاموش نظر آتے… لیکن اس دن ضروری کام تھا- پولینا، موٹا کوٹ پہنے، منھ ڈھانپ کر باہر نکلی۔ اس کی جیب میں کچھ خط تھے اور ایک پستول؛ وہ خط پہنچانے جا رہی تھی۔ اسی لمحے۔۔۔۔۔"

گھڑی میں ٹن! ٹن! گیارہ بج گئے تو وہ چونک کر اٹھی اور کہنے لگی، ’’بہت دیر ہو گئی، میں اب چلی جاؤں گی۔‘‘

"کہاں؟"

"کولپنز میں - آخری بھیک مانگنے کے لیے۔"

اس نے جلدی سے اپنے کوٹ کے بٹن بند کیے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں بھی کھڑا ہو گیا۔

میں نے خودکلامی کے انداز میں کہا، ’’جنگ آزادی میں کئی سر قربان کرنے پڑے۔‘‘ گویا میں خود کو ہی سمجھا رہا تھا۔

اس نے کہا۔۔ "کون کہہ سکتا ہے کہ آزادی کی ایسی جنگ میں سر زیادہ ٹوٹے ہیں یا دل؟"

میں خاموش کھڑا رہا۔ وہ تھوڑا ہنسی، پھر بولی، "زندگی کتنی عجیب ہے، کیا آپ جانتے ہیں استاد؟ میں غائب ہونے کے لیے رقم لینےآئ تھی اور اس بیج کو یاد کی شکل میں بوکر جا رہی ہوں- وہ بدامنی کا بیج!

اس نے جہاں اشارہ کیا تھا میں دیکھتا رہ گیا۔ لیمپ اور آگ کی روشنی میں اس ٹوٹی ہوئی تلوار کی سرخ سرخ موٹھ چمک رہی تھی!

اچانک دروازہ کھلا اور بند ہوگیا۔ میرا خواب ٹوٹ گیا - میں نے اوپر دیکھا۔

ابھی بارش ہو رہی تھی – اولے بھی گر رہے تھے۔ لیکن وہ وہاں نہیں تھی۔ میں اکیلا تھا – اور تھا وہ امن کا بیج!

میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا کہ وہ بیج کیسے پھوٹا۔ اس دن کے واقعات کو ابھی مکمل طور پر بیان کرنا باقی ہے۔

وہ چلی گئی۔ لیکن میں اپنا مضمون دوبارہ نہیں لکھ سکا... ایک بار میں نے کاغذات پر نظر ڈالی، 'کامیاب انقلاب!' میں نے ان کاغذات کو پھاڑ کر آگ میں پھینک دیا۔ پھر بھی سکون نہیں ملا۔ میں سوچنے لگا کہ اس کے بعد وہ کیا کرے گی؟ کولپن کے گھر میں... مائیکل کریسکی شاید آزاد ہو جائے گا... لیکن اس کے بعد؟

اس نجات کے نتیجے میں، خوشی،جوش اور فخر کہاں ہوگا؟۔۔۔ اذیت، جلن، حیوانیت کا ننگا ناچ ہوگا! وہاں کیا ہوگا جہاں آزادی کی آواز بلند ہو؟ عورت کے دل کے ٹوٹنے کی دھیمی آواز!

میں نے جا کر لیمپ آف کر دیا۔ کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا، بس کچھ جگہوں پر چمنی کی آگ سے سرخ روشنی چمکنے لگی اور کرسی کی ٹانگوں کے سائے اس میں عجیب رقص کرنے لگے۔ اسے دیکھتے ہوئے میں پھر سوچنے لگا- کون جانتا ہے کہ کولپن کے گھر میں اس وقت کیا ہو رہا ہو گا... ماریہ وہاں پہنچ گئی ہو گی... شاید اب تک کریسکی ماسکو کی کسی گلی میں چھپنے چلا گیا ہو ۔ وہ کیسے جانے گا کہ وہ کیسے بچ گیا؟ کیا وہ ماریہ کے بارے میں جان پائیگا؟ شاید وہ وہاں دوبارہ اکٹھے ہو جائیں — لیکن کولپن ایسا کیوں ہونے دے گا؟ ماریہ کی قربانی کے بارے میں شاید کوئی نہیں جانتا - کسی کو معلوم نہیں ہوگا... اس چراغ کی طرح جو بے پناہ سمندر میں تیرتے ہوئے بجھ جاتا ہے، اس کی کہانی وہیں ختم ہو جائے گی- اور میں اس کا نام تک نہیں جان سکوں گا! یہ کیسی ستم ظریفی ہے!

گھڑی کے بارہ بج رہے ہیں۔ میں چونک گیا، ایک انتہائی دلخراش منظر میری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگا۔ کولپن اور ماریہ... میں اس منظر کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا! میں نے اٹھ کر دروازے کھولے اور دروازے کے بیچ میں کھڑا ہو کر بارش کو دیکھنے لگا۔ کبھی کبھی ایک یا دو اولے مجھ پر گرتے تھے، لیکن میں نے اس پر توجہ بھی نہیں دی۔ میں رات کے اندھیرے میں کھلی آنکھوں سے بارش کی بوند کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا...

جب مشرق کی روشنی مدھم ہوئی تو میرا وہ جاگتا ہوا خواب ٹوٹ گیا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ سردی کی وجہ سے میرے ہاتھ اور ٹانگیں بے حس ہو گئی ہیں۔ 'جو کچھ وہاں ہونا تھا، وہ اب تک ہو چکا ہو گا۔' پھر میں نے دروازہ بند کر لیا اور اپنے ٹھنڈے اعضاء کو گرمی فراہم کرنے کے لیے کمبل میں لپیٹ کر اندر لیٹ گیا۔

اس دن کے واقعات یہاں ختم ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد ایک دو واقعات اور ہوئے جن کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ میں اسے بھی یہیں کہوں گا۔

جس دن میں نے پڑھا، "جنرل کولپن اور کرنل گوروسکی دونوں کو کل رات ان کے گھروں میں قتل کر دیا گیا۔ جنرل کولپن کو ایک خاتون نے ریوالور سے قتل کیا تھا۔ ان کو قتل کرنے کے بعد اس نے ریوالور سے خودکشی کرلی۔ کرنل گوروسکی اپنے گھر میں تلوار کے ساتھ مردہ پائے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تلوار اور ریوالور دونوں غائب ہیں۔ جنرل کولپن کو جس ریوالور سے قتل کیا گیا وہی گورووسکی اور کولپن کی قاتل عورت ہے۔ پولیس بھرپور طریقے سے تفتیش کر رہی ہے لیکن ابھی تک اس کے راز کے بارے میں کچھ نہیں ملا ہے۔

کریسکی کا نام بھی کہیں نہیں آیا۔

یہ راز آج بھی کھل نہیں سکا۔ ہاں، کچھ دنوں بعد میں نے سنا کہ مائیکل کریسکی پیٹرزبرگ کے قریب پولیس سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا...

وہ راز دب کر رہ گیا۔ شاید خود مائیکل کریسکی کو بھی کبھی معلوم نہیں تھا کہ اُس دن آدھی رات کو ماسکو سے اچانک کیوں رہا کر دیا گیا...

لیکن بے چینی کا جو بیج میرے دل میں بویا گیا تھا اسے دبایا نہ جا سکا۔ جس دن میں نے سنا کہ مائیکل کریسکی مارا گیا ہے، روسی خون میری رگوں میں اُبھرا۔ میں نے اپنے اسکول میں ایک لیکچر دیا، جس میں میں نے زندگی میں پہلی بار خالص دل کے ساتھ انقلاب کی حمایت کی۔

اس کے فوراً بعد مجھے روس سے جلاوطن کر دیا گیا، کیونکہ انقلاب کے حامیوں کے لیے روس میں کوئی جگہ نہیں تھی!

آج میں پیرس میں رہتا ہوں۔ ماسکو کی طرح، میں اب بھی پڑھا رہا ہوں، لیکن مجھے اب اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آج بھی میں انقلاب سے متعلق کتابیں پڑھتا ہوں لیکن اب پڑھتے ہوئے میرا دھیان صرف اپنی لاعلمی کی طرف رہتا ہے۔ آج بھی میرا وہ نادرذخیرہ اسی طرح پڑا ہے، لیکن اب اس کی سب سے قیمتی چیز وہ ٹوٹی ہوئی تلوار ہے! ہاں، اب میں نے لیکچر دینا چھوڑ دیا ہے - اب ایک عجیب اداسی، ایک پریشان کن احساس، میرے دل میں بسا ہوا ہے...

آتش فشاں سے آگ نکلتی ہے اور بجھ جاتی ہے لیکن جمے ہوئے لاوے کے کالے پتھر باقی رہتے ہیں۔ طوفان آتے ہیں جاتے ہیں لیکن درختوں کی ٹوٹی ہوئی شاخیں خشک رہتی ہیں۔ پانی دریا میں بڑھتا اور گرتا ہے، لیکن اس کے بہاؤ سے جمع ہونے والی گھاس اور لکڑی کنارے پر سڑتی رہتی ہے۔ وہ ٹوٹی ہوئی تلوار اس کے سفر کی یادگار ہے۔ جب بھی میں اس سمت دیکھتا ہوں، میرے سامنے دو شعلے، بے حرکت حلقے نمودار ہوتے ہیں، اور میں اچانک پوچھتا ہوں، ماریہ ایوانوونا، کیا تم انسان تھی یا شیطان، یا جنّت کو تباہ کرنے والی انحراف کی دیوی؟"

(ہندی افسانہ؛وپتھگا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تخلیق کار کا تعارف ۔ سچیدا نند ہیرانند واتسیاین "اگیہ"( Agyeya)  7 مارچ 1911 کو کشی نگر یو پی میں پیدا ہوئے۔اور 4 اپریل 1987 میں نئ دہلی میں انتقال ہوا ۔ وہ اپنے وقت کے ہندی کے مشہور شاعر، ناول نگار، کہانی کار،صحافی اور بہت عمدہ فوٹو گرافر بھی تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک انقلابی بھی تھے ۔انگریزی میں ایم اے کرتے وقت ایک کرانتی کاری آندولن سے جڑے اور 1930 میں بم بناتے ہوئے پکڑ لئے گئے۔ ہندی نظم کو انہوں نے اونچائی پر پہنچایا ۔ (وکی پیڈیا سے لی گئ تفصیلات)

 

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق