افسانہ نمبر 650 : جوتے || افسانہ نگار: انتون چیخوف(روس) || مترجم: جاوید بسام(کراچی)
افسانہ نمبر 650 : جوتے
افسانہ نگار:
انتون چیخوف(روس)
مترجم:
جاوید بسام(کراچی)
مرکن نامی ایک پیانو کے
سر ملانے والا، تازہ منڈے ہوئے زرد چہرے، ناک پر نسوار کا داغ اور کانوں میں روئی
ٹھونسے، ہوٹل کے کمرے سے نکل کر راہداری میں آیا اور کپکپاتی آواز میں چلایا: ”خادم! سیمیون!.... “
اس کے خوف زدہ چہرے کو
دیکھ کر شاید آپ سمجھتے کہ اس پر چھت کا پلستر گرا ہے یا اس نے ابھی اپنے کمرے میں
کوئی بھوت دیکھا ہے۔
”سیمیون خدا کو مانو!“
خادم کو اپنی طرف سرعت سے آتا دیکھ کر وہ چلایا۔ ”آخر تم چاہتے کیا ہو؟ میں گٹھیا
کا مریض اور نازک مزاج آدمی ہوں اور تم مجھے برہنہ پا گھومنے پر مجبور کررہے ہو۔
میرے جوتے کہاں ہیں؟ تم وقت پر جوتے کیوں نہیں دیتے؟“
سیمیون، مرکن کے کمرے
میں داخل ہوا اور اس جانب نظر دوڑائی جہاں وہ عموماً جوتے صاف کر کے رکھتا تھا۔
وہاں جوتے نہیں تھے۔ وہ اپنی گدّی کھجانے لگا۔
”لعنت، جوتے کہاں گئے؟“
وہ بڑبڑاتا ہوا باہر آیا۔ ”میرا خیال ہے کل شام کو میں نے صاف کر کے یہاں رکھے
تھے... ہممہ...میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں... نشے میں تھا، شاید....کسی دوسرے کمرے
میں رکھ دیے ہوں۔ ہاں یہی بات ہے۔ افاناسی یگوریچ، جب ایک جگہ اتنے جوتے ہوں تو شیطان
انہیں گڈمڈ کردیتا ہے، کوئی انہیں کیسے پہچان سکتا ہے.... میں ان کو برابر کمرے
میں رکھ آیا، جس میں ایک خاتون رہتی ہیں......ایک اداکارہ ....آپ چاہتے ہیں کہ میں
اس معزز خاتون کے پاس جاؤں، انہیں پریشان کروں اور معمولی سی چیز کے لیے جگا کر
مزید حماقت کا ثبوت دوں؟“
مرکن طوعاً وکراہاً
کھانستا اور آہیں بھرتا ہوا خود اگلے کمرے کے دروازے پر گیا اور نپے تلے انداز میں
دستک دی۔
”کون ہے؟“ ایک منٹ بعد
خاتون کی آواز سنائی دی۔
”یہ میں ہوں۔“ مرکن نے
ملتجی آواز میں لب کشائی کی، ایک شریف زادے کے انداز میں جو اعلیٰ طبقے کی ایک عزت
دار خاتون سے مخاطب ہو۔ ”مادام! زحمت کے لیے معزرت چاہتا ہوں، لیکن میں ایک نازک
مزاج آدمی ہوں، گھٹیا کا مریض ….. طبیبوں نے مجھے پاؤں گرم رکھنے کا حکم دیا ہے۔
آج مجھے میڈم لا جنریل شیولیتسن کے پاس پیانو کے سر ملانے جانا ہے۔ مگر میں ان کے
پاس برہنہ پا نہیں جا سکتا۔“
”تم کیا چاہتے ہو؟ کیسا
پیانو؟“
”پیانو نہیں مادام، یہ
جوتوں کا معاملہ ہے، جاہل سیمیون نے میرے جوتے صاف کر کے سہواً آپ کے کمرے میں رکھ
دیے ہیں۔ مادام ! ازراہِ کرم میرے جوتے دے دیں۔“ سیمیون بلاآخر حرفِ مدّعا زبان پر
لے آیا۔
پہلے سرسراہٹ ہوئی، پھر
کوئی بستر سے اترا اور چپل گھسیٹنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد خفیف سا دروازہ کھلا
اور ایک گداز نسوانی ہاتھ نے جوتوں کا ایک جوڑا مرکن کے پیروں پر پھینک دیا۔ اس نے
شکریہ ادا کیا اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔
”عجیب... “وہ جوتے پہنتے
ہوئے بڑبڑایا۔ ”یہ کیسے جوتے ہیں؟ دونوں بائیں پاؤں کے۔ ہاں دونوں بائیں جوتے۔ سنو
سیمیون ! یہ میرے جوتے نہیں ہیں، میرے جوتوں پر سرخ لیبل لگا ہوا تھا اور کوئی
پیوند نہیں تھا، ان جوتوں میں سوراخ ہیں اور ان پر لیبل بھی نہیں ہے۔“
سیمیون نے جوتے اٹھا کر
انہیں الٹا پلٹا، ان کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر ترچھی نظر سے اسے دیکھا اور بڑبڑایا۔
”یہ پاول الیگزینڈرچ کے جوتے ہیں۔“
”کون پاول الیگزینڈرچ؟“
”اداکار.....وہ ہر منگل
وار کو یہاں آتا ہے.... میں
نے دونوں جوڑے اس کے کمرے میں رکھ دیے تھے۔ وہ اپنے بجائے آپ کے جوتے پہن گیا ہے۔“
”تو جاؤ، جوتے بدل لاؤ۔“
”اوہ... “ سیمیون
کھسیانی ہنسی ہنسا۔”جاؤ اور بدل لاؤ..... لیکن اب میں اسے کہاں سے لاؤں؟ وہ ایک
گھنٹہ پہلے جاچکا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے ہوا کو کھیتوں میں تلاش کرنا“
”وہ کہاں رہتا ہے؟“
”کوئی نہیں جانتا۔ وہ ہر
منگل وار کو یہاں آتا ہے، لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ وہ آتا ہے،
رات گزارتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ آپ کو اگلے منگل وار تک انتظار کرنا پڑے گا۔“
”ارے جاہل! یہ تم نے کیا
کیا؟ اب میں کیا کروں؟ میڈم لا جنریل شیولیتسن کے گھر جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
ارے بےحس ! میرے پاؤں ٹھنڈ سے یخ بستہ ہورہے ہیں۔“ سیمیون ترشی سے بولا۔
”آپ منگل وار سے پہلے
بھی جوتے بدل سکتے ہیں۔ فی الوقت یہ جوتے پہن لیں، شام تک ان میں گھومے پھریں، شام
کو تھیٹر اداکار بلستانوف سے ملاقات کریں... اگر آپ تھیٹر نہیں جانا چاہتے تو آپ
کو انتظار کرنا پڑے گا۔ وہ صرف منگل وار کو یہاں آتا ہے۔“
”لیکن دو بائیں پیر کے
جوتے کیوں؟“سر ملانے والے نے نفرت سے جوتے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”غربت کی وجہ سے....وہ
وہی پہنتا ہے جو خدا نے اسے دیا ہے۔ ایک اداکار نئے جوتے کہاں سے لے؟ میں نے اس سے
کہا۔”پاول الیگزینڈرچ! یہ جوتے؟“
اس نے کہا۔”قطعی
رسوائی، بس چپ رہو۔“ اور زرد پڑ گیا۔
وہ کہتا ہے۔”میں نے ان
جوتوں میں کاؤنٹ اینڈ پرسنز کھیلے ہیں۔“ کمال کے لوگ۔ ان کے لیے صرف یہی الفاظ
ہیں۔ اگر میں گورنر یا کوئی عہدے دار ہوتا تو میں تمام اداکاروں کو اکٹھا کرتا اور
سب کو جیل بھیج دیتا۔“
مرکن نے مسلسل آہیں
بھرتے اور کراہتے ہوئے دونوں جوتے اپنے پیروں میں پھنسائے اور ڈولتا ڈگمگاتا ہوا
میڈم لا جنریل شیولیتسن کی طرف چل دیا۔ وہ سارا دن پیانو بجاتا شہر میں کوچہ گردی
کرتا رہا اور سارا دن اسے یوں لگتا رہا کہ ہر ذی روح اس کے پیروں اور ٹیڑھی ایڑیوں
کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اسے ذہنی اذیت کے علاوہ جسمانی طور پر بھی تکلیف اٹھانی پڑی
تھی۔ جوتوں سے اس کے پیروں میں چھالے پڑگئے تھے۔
شام کو وہ تھیٹر میں جا
پہنچا۔ جہاں بلو بئیرڈ Blue beard کھیلا جارہا تھا۔ آخری ایکٹ سے پہلے ایک واقف کار کے ذریعے جو
آرکسٹرا میں بانسری بجاتا تھا، اسے اسٹیج کے پیچھے جانے کی اجازت مل گئی۔ اس نے
مردوں کے ڈریسنگ روم میں تمام مرد عملے کو موجود پایا۔ کچھ کپڑے بدل رہے تھے، کچھ
چہرے سنوار رہے تھے اور کچھ سگریٹ نوشی میں مصروف تھے۔ بلیو بیئرڈ، بادشاہ بوبیش
کے ساتھ کھڑا اسے ایک ریوالور دکھا رہا تھا۔”آپ یہ قیمتاً لیں گے؟“ اس نے
پوچھا۔”میں نے یہ کرسک سے آٹھ روبل میں سودے بازی کے بعد خریدا تھا، لیکن آپ کو
میں چھ روبل میں دے دوں گا۔ ایک شاندار چیز۔ احتیاط سے... یہ بھرا ہوا ہے۔“
”کیا میں مسٹر بلستانوف
کے روبرو ہوں؟“سر ملانے والے نے اندر آکر پوچھا۔
”ہاں، میں ہوں۔ تم کیا
چاہتے ہو؟“ بلیو بیئرڈ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”جناب دخل اندازی کی
معافی چاہتا ہوں۔“ سر ملانے والے نے التجا بھرے لہجے میں بات شروع کی۔ ”لیکن یقین
کیجیے... میں ایک بیمار، گٹھیا کا مریض آدمی ہوں... طںیبوں نے مجھے اپنے پاؤں گرم
رکھنے کا حکم دیا ہے... “
”کھل کر بات کرو، تم کیا
چاہتے ہو؟“
”دیکھیں آپ کل رات کو
بوحتیف کے آراستہ اپارٹمنٹس کے کمرہ نمبر چونسٹھ میں ٹھہرے تھے۔“ پیانو کے سر
ملانے والے نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”یہ کیا بکواس ہے؟“
بادشاہ بوبیش نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔”کمرہ نمبر چونسٹھ میں تو میری بیوی
ٹہری ہوئی ہے۔“
”بیوی؟ آپ سے مل کر خوشی
ہوئی جناب...“مرکن مسکرایا۔ ”اچھا وہ آپ کی بیوی تھیں؟ جنہوں نے مجھے جوتے دیے
تھے... جب یہ جاچکے تھے۔“ سر ملانے والے نے بلستانوف کی طرف اشارہ کیا، دراصل جناب
مجھے اپنے جوتے نہیں مل رہے تھے... میں چلایا، ارے خادم! میرے جوتے کہاں ہیں؟
اس نے کہا کہ جناب میں
نے آپ کے جوتے غلطی سے اگلے کمرے میں رکھ دیے ہیں۔ اس نے نشے کی حالت میں
میرے اور آپ کے جوتے اپارٹمنٹ نمبر چونسٹھ میں رکھ دیے تھے اور جب آپ اس شریف
خاتون کے پاس سے رخصت ہوئے تو میرے جوتے پہن گئے۔“ مرکن نے بلستانوف کی طرف متوجہ
ہوتے ہوئے کہا۔
”یہ تم کیا اول فول بک
رہے ہو؟“ بلستانوف نے بوکھلا کر کہا۔”کیا تم میری تضحیک کرنے یہاں آئے ہو؟“
’’ہرگز نہیں جناب! خدا نہ
کرے۔ آپ میری بات نہیں سمجھے جناب... میں جوتوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں؟ آپ
کمرہ نمبر چونسٹھ میں رات ٹہرے تھے یا نہیں؟“
”کب؟“
”گزشتہ رات جناب۔“
”کیا تم نے مجھے وہاں
دیکھا تھا؟“
”نہیں جناب، میں نے آپ
کو نہیں دیکھا۔“ مرکن نے بیٹھتے اور جوتے اتارتے ہوئے الجھن آمیز انداز میں
کہا۔”میں نے آپ کو نہیں دیکھا، لیکن ان معزز آدمی کی بیگم صاحبہ نے میرے بجائے آپ
کے جوتے میری طرف پھینک دیے تھے۔“
”تم کو کیا حق ہے ایسا
دعویٰ کرنے کا؟ میں اپنے بارے میں کچھ نہیں کہتا، لیکن تم اس معزز خاتون پر بہتان
لگا رہے ہو اور وہ بھی اس کے شوہر کی موجودگی میں۔“
دفعتاً پردے کے پیچھے
ایک خوفناک شور بلند ہوا، کنگ بوبیش گھائل شوہر اچانک غصے سے لال بھبوکا ہوگیا اور
اپنا مکّہ میز پر اتنے زور سے مارا کہ اگلے ڈریسنگ روم میں موجود دو اداکارائیں
اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھیں۔
”آپ اس کے لاف و گزاف پر
یقین کررہے ہیں؟“ بلیو بیئرڈ ہزیانی آواز میں چلایا۔”آپ اس ناہنجار بدمعاش کی بات
مان رہے ہیں؟ اوہ ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے کتے کی طرح پیٹوں؟ آپ چاہتے ہیں؟
کہ میں اس کی تکہ بوٹی بنادوں یا میں اس کا بھیجہ اڑا دوں؟“
اور وہ تمام لوگ جو اس
شام سمر تھیٹر کے قریب سٹی گارڈن میں چہل قدمی کررہے تھے۔ آج تک یاد کرتے ہیں کہ
کس طرح ٹھیک چوتھے ایکٹ سے کچھ پہلے انہوں نے ننگے پاؤں، زرد چہرے اور دہشت زدہ
آنکھوں والے ایک آدمی کو تھیٹر سے باہر نکلتے اور مرکزی گلی کے ایک سرے سے دوسرے
سرے تک بھاگتے دیکھا، ریوالور سے لیس بلیو بیئرڈ کے لباس میں ایک شخص اس کا تعاقب
کررہا تھا۔ بعد میں کیا ہوا کسی کو نہیں معلوم۔
بس اتنا معلوم ہے کہ
بلستانوف سے ملاقات کے بعد مرکن پندرہ دن تک اپنے بستر پر بیمار پڑا رہا۔ اس نے اب
اپنے تعارفی الفاظ میں کچھ اضافہ کرلیا تھا۔ ”میں ایک نازک مزاج آدمی ہوں، گھٹیا
کا مریض اور .... میں ایک گھائِل بھی ہوں۔“
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
انگریزی
میں عنوان : Boots
مصنف کے بارے میں۔
انتون پاؤلاوچ چیخوف۔
جدید افسانہ نگاری کا امام اور بعض نقادوں کے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا افسانہ نگار
ہے۔ وہ 17 جنوری سن 1860 کو پیدا ہوا۔ 1884ء میں انیس برس کی عمر میں چیخوف کے
قلمی نام سے مختصر افسانے لکھنے شروع کیے۔ پہلے مجموعے کی کامیابی کے بعد لکھنے میں
تیزی آئی۔ اس نے معرکتہ آرا افسانے اور ڈرامے لکھے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ڈاکٹر تھا۔
چیخوف کی بدولت روسی ادب کو حقیقت نگاری کا ایک نیا اسلوب ملا۔ شروع ہی سے اس کا
ذہنی رجحان روسی زندگی کے روزمرہ کے معاملات کی طرف تھا۔ انسانی فطرت کی منفی صفات
سفلہ پن، بددیانتی، خوشامد، چاپلوسی، کمینہ پن اور ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر
اس نے شدید طنز کیا۔ اس کی تحریروں میں تاجر پیشہ، طلبہ، پادری، اساتذہ، حجام،
مجسٹریٹ، اعصابی مریض، پاگل، اعلیٰ افسر، ادنی افسر، غرض سب طبقوں کی تنگ نظری اور
سادہ لوحی یوں ریکارڈ ہوگئی ہے جیسے کسی ماہر مصور نے تصویر کشی کی ہو۔ وہ اس دنیا
سے ٹی بی کے باعث 15 جولائی 1904 کو رخصت ہوا۔
Comments
Post a Comment