افسانہ نمبر 647 : پردیسی ماں (ہندی کہانی) || افسانہ نگار : بھودیو شرما (بھارت) || اردو ترجمہ :عبدا لقیُوّم خالد (شکاگو ، امریکہ)

 افسانہ نمبر 647 : پردیسی ماں  (ہندی کہانی)

افسانہ نگار : بھودیو شرما (بھارت)

اردو ترجمہ :عبدا لقیُوّم خالد (شکاگو ، امریکہ)  

 


آشیش دویدی ہیوسٹن میں برسوں سے رہتے ہیں ۔ ایک دن انہوں نے بتلایا کہ وہ گورکھپور کے رہنے والے ہیں تو میں نے بھی انہیں بتایا کہ میری بڑی بہن وہاں رہتی ہیں، اور جیجا جی ویدورت گورکھپورمیں مجسٹریٹ ہیں۔ اسکے بعد بھارت گیا تو آشیش نے اپنی ماں کے لیے کچھ سامان میرے ساتھ بھیجنا چاہا۔ میں بخوشی تیارہو گیا۔ میں یہاں ایک بڑی میڈیکل کمپنی، جسکی شاخیں کئی دیشوں میں ہیں، میں ''ریسرچ اور ڈیولپمینٹ'' کا ڈائریکٹر ہوں، ۔ اکثر میرا باہر جانا لگا رہتا ہے، اور میں بھارت کبھی کبھی تو دوڑتا، بھاگتا ہی ایک سال میں کئی بار ہو آتا ہوں، ۔

بھارت پہنچ کر میں نے سامان سنیتا دیدی کو دیکر آشیش کی ماں کو بھجوانے کے لیے کہا ۔ نام پتہ دیکھ کر ویدورت جی بولے ''ارے! یہ تو ریلوے کے ریٹائرڈ کنٹرولرشری گنگادھر دویدی کی بیوی ہیں۔ بڑا اونچا گھرانا ہے گورکھپورکا ۔ میں انکو فون کرتا ہوں، ۔ سب انکے گھر چلیں تو اچھا رہیگا ۔''

آشیش کی ماں نے سب کو کھانے پر بلایا۔ ہم پہنچے تو وہ انتظار کررہی تھی ۔ آشیش کے بھیجے تھیلے کو تھامتے ہوئے کمزوری سے انکے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔ انہوں نے تبھی اسکو کھول ڈالا۔ انکی آنکھیں بھر آئیں۔ انکے لیے ساڑیاں، ایک سوئیٹر، دو تو لیے، طرح طرح کے صابن وغیرہ اور متفرق چیزیں تھیں۔ پتہ نہیں، آشیش کی کون سی تصویرانکی آنکھوں کے سامنے ناچ گئی۔ اپنے آپ سے ہی بولیں ''کتنا بھی بدل جائے میرا لڑکا، اپنی ماں کو نہیں بھول سکتا ۔''

مجھ سے کتنی ہی باتیں وہ آشیش، اسکی پتنی نیتا اور بچوں - ونیتا، ونیہ اورانونیہ - کی پوچھتی رہیں ۔ انکے ساتھ گھنٹے لمحوں کی طرح لگے۔ لگا ہی نہیں کہ ہم حال میں ہیں۔ آشیش کے بچپن کی کتنی ہی تصویریں زندہ ہو اٹھیں ۔ وسیع ''ڈرائینگ روم'' میں کتنی ہی تصویریں لگی تھیں۔ لگ بھگ ایک درجن فوٹو البم رکھے تھے ۔ نوکر نے کھانا تیار ہونے کی خبردی تو وہ اٹھ کر گئیں۔ سنیتا دیدی انکے منع کرنے پر بھی انکے ساتھ رسوئی میں چلی گئی۔ ہم دونوں پرانے تصویروں کو اٹھ کر دیکھنے لگے۔ کچھ دیر بعد سب نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔

ہم چلنے کوتیّار ہوئے تو آشیش کی ماتا جی نے ہمیں اپنے سورگیہ پتی گنگادھر دویدی، اپنا، آشیش، نیتا اور دو بچوں کی پرانے فریم میں لگی رنگین تصویر دکھلائی۔ کہنے لگیں، ''آشی کے پتا اور میں جب امریکہ گئے تھے، تبھی کی ہے یہ ''فوٹو۔'' انکی آنکھیں گیلی ہو گئیں اورگلا رندھ گیا ۔

گھمبیر صورت حال کو ویدورت جی نے سنبھالا۔ ان سے بولے، "ماتا جی، آپ آشیش کے پاس چلی جائیں۔ یہاں آپ اکیلی ہیں وہاں پر ناتی پوتوں کے ساتھ آپ کا من لگ جائیگا۔"

''بچوں کے پاس پہلے بھی رہ آئی ہوں،۔۔۔ تب آشیش کے پتا بھی تھے۔ ونیتا پانچ چھہ سال کی اور ونیہ تین چارکا تھا ۔ بچے ہندی بولتے ہی نہیں تھے ۔ ہم نے سکھانے کی کوشش کی تو انکو اچھا نہیں لگا ۔''

''اچھا نہیں لگا ! '' لگ بھگ ہم سب ایک ہی آوازمیں بول اٹھے ۔

''کہتے تھے، بچوں کو امریکہ میں رہنا ہے، گھر پر ہندی بولنے سے انکو اپنے امریکی دوستوں کے ساتھ دقت آئیگی ۔ ''

''تو آپ بچوں سے کیسے باتیں کرتی تھیں؟''

''باتیں کیا ؟ آشیش کے پتاجی تو انگریزی میں بچوں سے بول لیتے تھے۔ ہاں، اکثر بچوں نے اپنا تلفظ ضرور درست کیا۔۔ بات میری تھی ۔ سو ونیتا تو ہماری سنتی ہی نہیں تھی ۔"

''ونیہ بھولا تھا، وہ میرے پاس آ جاتا تھا۔ کبھی پیچھے سے آکر میری آنکھیں بند کر لیتا، کبھی میرا ہاتھ پکڑکر کھینچنے لگتا۔ میں اسکو گودی میں پکڑکر گلگلی کر دیتی یا اسکے ساتھ ادھرادھر مکان میں ہی گھومتی ۔ وہ میرے ساتھ خوش رہتا تھا، باربار کھلکھلا اٹھتا تھا ۔ پانی، دودھ وغیرہ لفظ وہ بہنوں کے نہ چاہنے پر بھی بولنے لگا تھا ۔ اور کتنی ہی بار ہندی کے چھوٹے چھوٹے جملے بول کر ہم دونوں کا دل بہلایا کرتا تھا۔'' پھر بولی ''ایک بار کی بات ہے ۔ ہمیں دو مہینے انکے پاس رہتے ہو گئے تھے۔ ونیتا سے ایک بار آشیش کے پتاجی نے کہا کہ اگر وہ ایک لفظ ہردن بھی ہندی کا سیکھتی تو اپنی دادی سے ہندی میں آسانی سے بولنے لگتی ۔ ونیتا نے یہ بات نیتا کو بتلائی ۔ تو جانتے ہو، نیتا نے ونیتا سے کیا کہا ؟''

کچھ رک کر بولیں، ''بہونے ونیتا سے کہا، تمہاری دادی بھی تو انگریزی کا ایک لفظ ہردن سیکھ کر تم سے انگریزی میں بولنا شروع کر سکتی تھیں ۔ ونیتا نے یہی آکر آشیش کے پتا سے کہہ دیا ۔ اس دن وہ بہت دکھی ہوئے ۔ ''

شریمتی دویدی پھر تھوڑی دیر رکیں، لیکن وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکیں۔ رندھی آواز میں ہی بولی ''اس دن آشیش کے پتاجی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے، مجھ سے بولے کہ پتہ نہیں، ہم لوگوں کے کون سے ایسے کرم تھے، جو ایک پتر ملا اور وہ بھی ایک دم بیگانہ۔ ہم لوگوں کو انکے پاس نہیں، بھارت چلکر رہنا چاہیئے۔ '' ایک گہری سانس لیکر وہ پھر بولی، ''انہوں نے کسی سے کچھ کہا نہیں،

لیکن لگ بھگ ایک مہینے بعد وہ وہاں سے بہانا بناکر یہاں آ گئے۔ وہ تو مجھے بھی چلنے کے لیے کہتے رہے، لیکن میں تب رک گئی ۔''

''پھر آپ کتنے دن تک رکیں ؟''

''میں بھی زیادہ نہیں رک پائی ۔ ایک دن بیمار پڑ گئی تو خود آشیش نے ہی آکرکہا کہ امریکہ میں علاج کرانا بہت مہنگا ہے اورمجھے بھارت جانے کی صلاح دی ۔ ''

آگے سننے کی ہمت نہیں رہ گئی تھی ۔ لیکن انہوں نے اپنی بات پوری کی،

''بیماری کی حالت میں ہی اسنے مجھے کچھ زور دیکر اور کچھ سمجھا کر بھارت بھیج دیا۔''

'' پراب تو آپ اکیلی ہیں ۔ تب آشیش کی نئی نئی نوکری تھی۔ اب تو وہ ''فل پروفیسر'' ہے۔ اچھی تنخواہ ہے۔ نیتا بھی اب کام کر رہی ہے۔ اب آپ جائیں تو انکے لئے بھی اچھا ہوگا، آپ کو بھی اچھا ہی لگےگا۔''

''آشیش کے پتا تو منع کر گئے تھے، پر میرا من ضرور جانے کو کرتا ہے، پر لیکن بہو بیٹا بلائیں تب نا ۔'' یہ سن کر میں کچھ چونکا۔ میں نے بڑی جلدی سے جھوٹ ہی کہہ دیا، نیتا نے تو کہا تھا کہ ''ماتا جی کو ہمارے پاس آنے کو تیار کرکے آئییگا۔'' میں پہنچ کر ان سے آپ کا ٹکٹ بھجوا دونگا ۔''

انکے چہرے پربے یقینی کے بھاؤ آئے اور گئے ۔ راستے میں سنیتا دیدی نے شریمتی دویدی سے ہوئی اپنی باتوں سے بتایا، ''شریمتی دویدی اپنی بہو سے خوش نہیں ہیں۔ وہ شاید تلخ لفظوں میں بات کرتی ہے ۔ جب آشیش پی-ایچ۔ ڈی۔ کرکے امریکہ سے لوٹا اور نیتا سے شادی ہوئی تو نیتا شادی کے ایک دم بعد امریکہ نہیں جا سکی، اپنے ساس سسر کے ساتھ لگ بھگ ڈیڑھ سال رہی۔'' رات کو سونے سے پہلے ہم دیر تک انکی ہی باتیں کرتے رہے تھے ۔

لوٹ کر میں نے آشیش سے اپنی ماں کو بلا لینے کی بات کہی ۔ گورکھپور میں مکان کے انتظامات کو لے کر خاص مسئلہ پیدا ہوا۔ ماما کچھ دھیان رکھتے تھے،لیکن لکھنؤ سے انکے لیے دیکھ بھال کرنا ممکن نہیں تھا ۔ انکا لڑکا آشیش کو کتنی ہی بار امریکہ بلانے کے لیے لکھ چکنے پر اس کی طرف سے کچھ نہ کئے جانے سے ناراض تھا۔ میرے کئی بار یہ معاملہ اٹھانے کا کچھ نتیجہ نکلا۔ آشیش گورکھپورگیا، مکان بیچ دیا گیا، اور وہ اپنی ماں کو لیکر امریکہ آ گیا۔

ماں کے آنے پر آشیش نیتا اور بچوں میں کھل کر باتیں ہوئیں۔ نیتا نے صاف کہہ دیا کہ اپنی نوکری اور بچوں کی ذمہ داریوں کے بعد اسکے پاس وقت نہیں ہے اور وہ ماں کے لیے وقت نہیں نکال پائیگی۔ بڑی بیٹی ونیتا دوسرے شہر میں پڑھ رہی تھی ۔ ونیہ پندرہ سال کا تھا، وہ اورانونیہ دونوں ہی اپنے ماں باپ کی باتیں سنتے رہے۔ یہ طے رہا کہ آشیش خود ماں کے لیے ذمہ دار ہے ۔

کچھ عرصہ بعد کی بات ہے آشیش کو ایک کانفرنس میں چار دن کے لیے جانا تھا۔ ماں کی طبیعت خراب تھی۔ نیتا نے ذمہ داری لینے سے صاف انکار کردیا۔ نیتا اور آشیش میں خوب کہا سنی ہوئی۔ نیتا اپنی گاڑی اٹھا کر رات کو بیٹی ونیتا کے پاس چلی گئی۔ آشیش کانفرنس میں نہیں گیا۔ ماں کو پتہ لگا تو آشیش کو بلایا، ''بھیا، کیا رات نیتا گھرسے لڑکر چلی گئی ؟"

''نہیں ماں، ونیتا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اسکے پاس گئی ہے۔ دو تین دن میں آ جائیگی۔'' آشیش نے بہانا بنایا، اور بنا آنکھیں ملائے ہی اپنی یونیورسٹی چلا گیا۔

دن میں ماں نے چھوٹی بیٹی نیرجا کو فون کیا، اور ان سب سے ملنے کی خواہش ظاہرکی۔ شام کو جب آشیش لوٹا تو ماں نے نیرجا کے پاس جاکرکچھ دن رہنے کی بات کہی۔ آشیش صورتحال کو سمجھتا ہی تھا، بس ماں سے کہنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔ گھما پھراکرماں کی بات ماننے کا ناٹک رچاکرشنیوار کو بہن کے گھر پہنچا آیا۔

ماں گئی، نیتا لوٹ آئی۔ رشتوں کو دلیلوں کی ترازو پرتولنے کی اسکی عادت ہوگئی تھی۔ وہ وقت بروقت یہی کہتی تھی، ''جب میں شادی کے بعد انکے پاس رکی تھی تو انہوں نے مجھے بہت ستایا تھا۔ امریکہ جلدی بھیجنے کے لیے کتنے ہی ''گوری ورت'' رکھا کرمجھے بھوکھا مارا تھا۔'' اور پھر وہ طنز کرتی، ''سشما اور نیرجا کے پاس انکا من زیادہ لگتا ہے۔ جیسے ہمارے پاس ایک سال رکی ہیں، وہاں بھی ایک ایک سال رہیں ۔''

جب آشیش کہتا، ''وہ میری ماں ہے!'' تو اسکا جواب ہوتا، ''ماں تو میری بھی ہے! تم میری ماں کی نہیں سوچتے تو مجھ سے اپنی ماں کا دھیان رکھنے کی امید کیوں ؟'' آشیش کے پاس ایسا کوئی سوال نہ تھا ، جسکا سنیتا کے پاس کوئی ناقابل تردید جواب نہ ہو۔ وہ بھنبھناکر رہ جاتا۔ اسے زندگی بیکار لگتی، لیکن لاچاری، وہ بھی خود اپنے ہی گھر میں تھی ۔

ایک دن فون کرکے آشیش میرے گھر ملنے آیا۔ اسنے ماں کو بھارت بھیجنے کا اپنا ارادہ بتایا اور مجھ سے ویدورت جی کو فون کرنے کو کہا۔ وہ اپنی دونوں بہنوں سے اس پر صلاح کر چکا تھا، اور وہ سب ماں کے بھارت چلے جانے کے حق میں تھے۔ ماں نیرجا کے بیٹے کے ساتھ گورکھپورلوٹیں ۔ ویدورت نے انکے لیے ایک نوکر اور کرائے کے مکان کا انتظام کردیا۔

کئی برس بعد کی بات ہے۔ میری ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں چل رہی تھی۔ چھوٹے بھائی کا مرادآباد سے خط آیا تھا۔ میرے پاس زیادہ وقت تو نہیں تھا، لیکن بھارت چلا ہی گیا۔ سنیتا دیدی و ویدورت جی سے ملنا ممکن نہیں لگ رہا تھا،لیکن انکی درخواست ٹال بھی نہیں سکا۔ وہاں پہنچا تو وہ مجھے آشیش کی ماں کے پاس لے گئے۔ ایک چھوٹے سے دالان میں سے نکل کر ہم اندر انکے خواب گاہ میں گئے۔

"کون ہے ؟" آشیش کی ماں نے پکارا۔

"میں ہوں، ! برجیش ۔ برجیش ترپاٹھی آشیش کا دوست امریکہ سے آیا ہوں،۔" "آؤ بھیا۔ پہلے دکھائی کم پڑتا تھا، اب ٹھیک سے سنائی بھی نہیں دیتا۔ کب آئے ؟"

" آج ہی صبح آیا ہوں،،" لیکن انہوں نے شاید سنا نہیں۔

ویدورت نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود انکی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میں نے دھیرے سے پاس رکھی کرسی کھینچ لی۔ وہ کافی کمزور ہو گئی تھیں۔ انکے کپڑے مجھے گندے لگے۔ پاس ہی کونے میں رکھی میز پر کچھ اوڑھنے بچھانے کے کپڑے رکھے تھے ۔ ایک چھوٹی میز پر رکھی مختلف دوائیوں کی بو سے کمرا بھرا تھا۔ کچھ بکسے چارپائی کے نیچے تھے۔ ایک کھلی الماری میں کچھ فوٹو، جن پر دھول اور کالکھ سی جمی تھی، رکھی تھیں۔ پاس ہی ایک چائے کا جھوٹا پیالہ رکھا تھا۔ میز پر ہی امریکہ سے آئے کچھ کھلے خط پڑے تھے۔

''ارے جمنا ! او جمنا !!'' انہوں نے نوکر کو پکارا۔ ہمیں کوئی نظر نہیں آیا ''پتہ نہیں، کہاں مرگیا ہے۔ اس نے میری زندگی جہنم بنا رکھی ہے، '' وہ اٹھنے لگیں ۔

مجھے انمیں ایلزہائیمر کی بیماری کے علامات محسوس ہوۓ ۔ کچھ یاد نہیں رہتا۔ صرف ہڈیاں رہ گئی ہیں۔ گھر سے کئی بار نکل کر باہر بیٹھ جاتی ہیں، اور کچھ کا کچھ بولتی رہتی ہیں۔ انہوں نے آشیش وغیرہ کا کچھ حال چال نہیں پوچھا۔ جمنا آیا تو انہوں نے اسے بازار بھیج کر کچھ مٹھائی ہمارے منع کرنے پر بھی منگائی ۔ ہم نے انکی دی مٹھائی کو کسی طرح گلے سے اتارا۔ جمنا کو پتہ لگا کہ میں امریکہ میں انکے بیٹے کے پاس رہتا ہوں، تو اسنے ہاتھ جوڑکر پیر چھوتے ہوئے مجھ سے کہا، ''بابوجی، مجھے کتنی ہی بار بہت ڈر لگتا ہے۔ ماں جی، اپنے بیٹے کو ہی پکارتی رہتی ہیں۔ یہ جو انکے بچوں کی فوٹو رکھی ہے، اسکو اٹھاکر بچوں کی فوٹو سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ آپ امریکہ جایں تو انکے لڑکے کو ان سے ملنے کو ضرور بھیج دیں۔''

ہم بھاری من سے گھر لوٹے۔ گھر لوٹ کر باربار انہیں کا ذکر چلتا رہا۔ رات ہو گئی۔ شاید میرے اور ویدورت دونوں کے لیے ہی یہ زندگی میں پہلی ایک ایسی صورت حال تھی جس کا کوئی حل نہ تھا ۔ یہ بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ آشیش کو قصوروارسمجھوں یا نہیں، گھر پہنچ کر سنیتا دیدی سے بھی میں ٹھیک سے باتیں نہیں کر پایا۔ اپنے سامان کو لگانے کا بہانا بناکر اکیلا کمرے میں چلا گیا۔ زندگی کے بہت سے فلسفیانہ سوالات میرے ذہن پر بادل کی طرح چھا گۓ -

مجھے لگنے لگا کہ میں خود کسی اندھیرے گڈھے میں گر گیا ہوں، میں نیچے دھنستا جا رہا ہوں، چیختا ہوں، چلاتا ہوں، لیکن کوئی سنتا نہیں ہے۔ یہی سوچتے سوچتے میری چیخ نکل گئی میں سٹپٹاگیا اور سب چھوڑکرنہانے چلا گیا۔

رات کا کھانا بے دلی سے کھایا اور تھوڑا آرام کرنے کی بات کہ کر اپنے خواب گاہ میں چلا گیا۔ شاید ویدورت کومیرے دل کی حالت کا اندازہ تھا - مجھے لگا کہ انکی حالت میرے سے بہت مختلف نہیں ہے۔

دو گھنٹے ہی بیتے ہو نگے کہ جمنا دوڑا آیا، اور بولا، ''ماں جی کی طبیعت بہت خراب ہے، جلدی چلئے۔'' ویدورت جی کو برائی کا خوف ہوا۔ انہوں نے ڈاکٹر کو راستے سے ساتھ لے لیا۔

وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آشیش کی ماں آشیش اور اسکے بیٹے ونیہ کی تصویر کو لیے لیٹی ہوئی ہیں۔ ہم نے کچھ سکون کی سانس لی۔

ڈاکٹر نے معاینہ کیا، انکے بھاؤ دیکھ کر ہم بے چین ہوئے۔ گردن جھکاکر ڈاکٹر نے کہا، ''اب کچھ نہیں رہا۔ انکو نیچے اتار لیں اور اور قریب کے رشتیداروں کو اطلاع دے دیں۔''

میری آہ نکل گئی۔ ویدورت نے گھر جاکر آشیش کو فون کیا۔ میں وہیں رکا رہا۔ لکھنؤ سے بھائی نے آکر انکی آخری رسومات پوری کیں ۔ آشیش انکی آخری رسومات پر پہنچ نہیں پایا۔

میں کل ہیوسٹن لوٹ کر آیا ہوں،۔ فون کی گھنٹی بجی تو میں فون کو اٹھاتے اٹھاتے رک گیا۔ بیوی سے کہا، ''دیکھو، آشیش کا فون ہو تو کہنا گھر پر نہیں ہے۔''

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق