افسانہ نمبر 645 : بھیڑیا || تحریر : گی دے موپاساں (فرانس) || مترجم : خالد فرہاد (سیالکوٹ)

 افسانہ نمبر 645 : بھیڑیا

تحریر : گی دے موپاساں (فرانس)
مترجم : خالد فرہاد (سیالکوٹ)



یہ سب وہ ہے جو بوڑھے مارکوئس د آرویل نے ہمیں بیرن ڈیس ریویلس کے گھر سینٹ ہیوبرٹ کے عشائیے کے بعد بتایا تھا۔
ہم نے اس دن ایک ہرن مارا تھا۔ مارکوئس مہمانوں میں سے واحد شخص تھا جس نے اس شکار میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس نے کبھی شکار نہیں کیا۔
اس طویل دعوتِ طعام کےدوران ہم نے جانوروں کے ذبح کے علاوہ شاید ہی کسی دوسری چیز کےبارے میں گفتگو کی ہو۔ خود خواتین خون ریزی اور مبالغہ آمیز کہانیوں میں دلچسپی رکھتی تھیں، اور مقررین جانوروں اور مردوں کے مابین حملوں اور لڑائیوں کی نقل اتار رہے تھے، اپنےبازو لہراتے ہوئےگرجدار آواز میں لمبی لمبی ہانک رہے تھے۔
جناب ڈی آرویل نے قدرے تعلی کے ساتھ، بلند لہجے لیکن موثر انداز میں اچھی گفتگو کی۔ اس نے یہ کہانی اکثر سنائی ہوگی کیونکہ وہ بغیر ہچکچائے، اپنی گفتگو کو جاندار بنانے کے لیے الفاظ کا مہارت کے ساتھ انتخاب کرتا ہوا ، اسے بڑی روانی سے سنا رہا تھا۔
حضرات، میں نے کبھی شکار نہیں کیا، نہ میرے باپ نے، نہ میرے دادا نے، نہ ہی میرے پردادا نے۔ یہ آخری شخص اس آدمی کا بیٹا تھا جس نے اکیلے ہی اتنا شکار کیا تھا کہ تمہارا سب ملا کر بھی کم پڑ جائے گا۔ اس کا انتقال 1764 میں ہوا۔ میں آپ کو اس کی موت کی کہانی سناتا ہوں۔
اس کا نام ژاں تھا۔ وہ شادی شدہ تھا، اس بچے کا باپ جو میرا پردادا بنا، اور وہ اپنے چھوٹے بھائی، فرانکوئس ڈی آرویل کے ساتھ، جنگل کے وسط میں واقع لورین کے چھوٹے سے قلعے میں رہتا تھا۔
فرانکوئس ڈی آرویل شکار سے اپنی محبت کے باعث زندگی بھر کنوارہ رہا۔
وہ دونوں سال کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بغیر رکے اور بظاہر تھکے بِنا شکار کرتے تھے۔ انھیں صرف شکار پسند تھا، اور کچھ نہیں سمجھتے تھے، صرف اسی کے بارے میں بات کرتے تھے، صرف اسی کے لیے جیتے تھے۔
ان کے دِل میں بس یہی ایک جنون تھا جو خوفناک اور ظالمانہ تھا۔ اس نے انہیں قابو کر لیا تھا، انہیں اپنے اندر مکمل طور پر سمو لیا تھا، کسی دوسرے خیال کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی۔
انہوں نے حکم دیا تھا کہ ان کے تعاقب میں کسی بھی وجہ سے رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ میرے پردادا کی پیدائش اس وقت ہوئی جب ان کے والد ایک لومڑی کا پیچھا کر رہے تھے، اور جین ڈی آرویل نے پیچھا نہیں روکا، بلکہ چیخ کر کہا: "دوس! بدمعاش شاید ویو ہالو کے بعد تک انتظار کر رہا ہوگا!
اُن کا حکم تھا کہ انھیں شکار کے دوران پریشان نہ کیا جائے خواہ معاملہ کچھ بھی ہو۔ میرے پردادا کی پیدائش اس وقت ہوئی جب ان کے والد لومڑی کا پیچھا کر رہے تھے، اور ژاں ڈی آرویل نےتوقف نہیں کیا بلکہ حیرت سے کہا: ’’شیطان! بدمعاش کو ’ویوہیلو‘ ہی انتظار کا تھا!‘‘
اس کا بھائی فرانکوئس اس سےبھی زیادہ شیفتہ تھا۔ صبح بیدار ہوتے ہی وہ کتوں کو دیکھنے جاتا، پھر گھوڑوں کو، پھر قلعے کے آس پاس چھوٹے پرندوں کو نشانہ بناتا حتیٰ کہ بڑے شکار کا وقت ہو جاتا۔
دیہی علاقوں میں انھیں ایم لی مارکوئس اور ایم لی کیڈٹ کہا جاتا تھا، اس زمانے کے امرا ہمارے وقت کے موقع پرست بزرگوں کی طرح نہیں تھے،جو عہدوں پر موروثی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں؛ کہ ایک مارکوئس کا بیٹا کاؤنٹ سے آگے نہیں بڑھتا، نہ ہی ویزکاؤنٹ کا بیٹا بیرن بنتا ہے، بہ نسبت جنرل کہ اس کا بیٹا پیدائشی طور پر کرنل ہوتا ہے۔ لیکن آج کی گھٹیا خودپسندی اس نظام میں اپنا مفاد دیکھتی ہے۔
میرے آباؤ اجداد غیر معمولی طور پر قدآور، مضبوط ہڈیوں والے، بالوں سے بھرے ہوئےاور بہادر تھے۔ چھوٹا بھائی بڑے بھائی سے بھی لمبا تھا اور اس کی آواز اتنی زور دار تھی کہ ایک روایت کے مطابق جس پر اسے فخر تھا کہ جب وہ زور سے چلاتا تو جنگل کے سبھی پتے لرز جاتے تھے۔
جب وہ دونوں گھوڑوں پر سوار ہو کر شکار کے لیے نکلتے تو یہ ایک شاندار نظارہ ہوتا تھا کہ وہ دونوں دیو اپنے طاقتور گھوڑوں کو اپنی ٹانگوں میں کیسے جکڑ ے ہوئے ہوتے تھے۔
اس سال، 1764 کے موسم سرما کے وسط میں شدید سردی پڑی تھی اور بھیڑیے مزید خطرناک ہو گئے تھے۔
وہ تاخیر سےلوٹنےوالے کسانوں پر حملہ کرتے، رات کو گھروں کےباہر گھومتے رہتے، غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک چیختے رہتے اور طویلے سے پالتو جانور اچک لے جاتے۔
اور جلد ہی ایک افواہ پھیلنے لگی۔ لوگ ایک دیو ہیکل بھورےبھیڑیے کی بات کرتے تھے، جو تقریباً سفید تھا۔ جس نے دو بچوں کو ہڑپ کر لیا تھا، ایک عورت کا بازو چبا گیا تھا، ضلع کے تمام پہریدار کتوں کا گلا گھونٹ دیا تھا، حتیٰ کہ بغیر کسی خوف کے کھیتوں میں گھومتا تھا۔ گھروں میں موجود لوگ دعویٰ کرتےکہ انھوں نے اس کی سانس محسوس کی تھی۔ اور وہ روشنی کےلیےالاؤ جلائے رکھتے۔ جلد ہی پورے صوبے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رات ڈھلنے کے بعد کوئی باہر جانے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ تاریکی میں درندے کی پرچھائی منڈلاتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔
ڈی آرویل برادران اسے ڈھونڈ نکالنے اور مارنے کے لیے پرعزم تھے اور کئی بار انھوں نے معززین علاقہ کو شاندار شکار کے لیے مدعو کیا تھا۔
انھوں نے جنگل میں ہانکا کیا اور چھپنے کی جگہیں تلاش کیں؛ لیکن ان کا اس سے کبھی سامنا نہیں ہوا۔ انھوں نے دوسرے کئی بھیڑیے مار ڈالے لیکن اسے تلاش نہ کر سکے۔ اور ہر رات وہ درندہ ہانکے کے بعدگویا بدلہ لینے کے لیے کسی مسافر پر حملہ کرتا یا کسی کا پالتو مویشی مار دیتا، ہمیشہ اس جگہ سے دُور جہاں وہ اسے ڈھونڈ رہے ہوتے تھے۔
آخر کار ایک رات وہ قصرِ ڈی آرویل کےباڑے میں گھسا اور دو سب سےموٹے سور کھا گیا۔
اس حملے کو براہ راست اپنی توہین اور گستاخی سمجھتے ہوئے دونوں بھائی سیخ پا ہو گئے۔ انھوں نے اپنے خونخوار کتے جو خطرناک جانوروں کا پیچھا کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے، لیے اور شکار پر نکل پڑے۔ ان کے دل غصے سے بھرے ہوئے تھے۔
فجر سے لے کر سرخ بنفشی رنگ کا سورج اونچے خزاں رسیدہ درختوں کےپیچھے غائب ہونے تک وہ جنگل میں بے نیل و مرام بھٹکتے رہے۔
آخر کار، غصےمیں پاگل اور مایوس ہو کر، وہ اپنے گھوڑوں کو ایک باڑ والی گلی میں ہانکتے ہوئے واپس لوٹ رہے تھے، اور حیران تھے کہ شکاری کے طور پر ان کی مہارت اس بھیڑیے کے سامنے عاجز تھی۔اور انھیں اچانک ایک پراسرار خوف نے گھیر لیا۔
بڑے بھائی نے کہا: ’’یہ کوئی معمولی جانور نہیں ہے۔ یا یوں کہیے کہ اس کا دماغ انسان جیسا ہے۔‘‘
چھوٹے بھائی نے جواب دیا: ’’شاید ہمیں اپنے چچیرے بھائی بشپ کی تجویز کردہ گولی کھانی چاہیے، یا کسی پادری سے ضروری دعا کروانی چاہیے۔‘‘
اس کے بعد دونوں خاموش ہو گئے۔
ژاں نے بات جاری رکھی۔
’’دیکھو سورج کتنا سرخ ہے۔ دیوہیکل بھیڑیا آج رات ضرور کوئی نقصان پہنچائے گا۔‘‘
اس نے بمشکل اپنی بات ختم کی ہی تھی کہ اس کا گھوڑا ہنہنایا؛ اور فرانکوئس نے ایڑی لگائی۔ ان کے سامنےخشک پتوں سے اٹی ایک جھاڑی کھل گئی۔ اور ایک بہت بڑا جانور، جس کا رنگ بالکل بھورا تھا، چھلانگ لگا کر جنگل کی طرف بھاگا۔
دونوں نے ایک طرح کی خوشی سے للکارا اور اپنے بھاری بھرکم گھوڑوں کی گردنوں پر جھک گئے، انھوں نے نہائت جوش سےانھیں آگےبڑھایا، تیز رفتاری سےدوڑاتے، آوازوں اور اشاروں کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں جلدی سے دُور لے گئے۔مہمیز لگاتے ہوئےتجربہ کار شہسوار لگتا تھا کہ بھاری بھرکم جانوروں کو اپنی رانوں میں جکڑے ہوئے اٹھائے لے جا رہے ہیں گویا وہ اُڑ رہے ہوں۔
وہ جھاڑیوں میں سے گزرتے، چھوٹے نالوں کو پھلانگتے، چوٹیوں پر چڑھتے، کھائیوں میں اترتے، اور اپنے آدمیوں اور کتوں کو متوجہ کرنے کے لیے جتنے زور سے ممکن تھا اپنے بگل بجا رہےتھے۔
اور اب اچانک اس دیوانہ وار دوڑ کے دوران میرے جد امجد کا سر ایک بڑی شاخ سے ٹکرا گیا جس سے اس کی کھوپڑی ٹوٹ گئی۔ اور وہ زمین پر گر پڑا، جب کہ اس کا خوفزدہ گھوڑا جنگل کے اندھیرے میں غائب ہو گیا۔
چھوٹا آرویل اچانک رُک گیا، زمین پر کودا اور اپنے بھائی کو بانہوں میں لے لیا۔ اس نے دیکھا کہ خون کے ساتھ مغز بھی باہر نکل رہا تھا۔
پھر وہ اس کی لاش کے پاس بیٹھ گیا۔ بدنما اور خون آلود سر گود میں رکھا، اور اپنے بڑے بھائی کے ساکت سر کو دیکھتا رہا۔ آہستہ آہستہ ایک خوف اسے جکڑنےلگا، ایک عجیب سا خوف جو کہ اس نے پہلےکبھی محسوس نہیں کیا تھا، اندھیرے کا خوف، تنہائی کا خوف، ویران جنگل کا خوف اور اس عجیب بھیڑیے کا خوف بھی، جس نے ابھی ابھی ان دونوں سے بدلہ لینے کے لیے، اس کے بھائی کو مار ڈالا تھا۔
غم مزید گہرا ہوتا گیا؛ ناقابل برداشت سردی کی وجہ سے درختوں کے تنے پھٹنے لگے۔ فرانکوئس کانپتے ہوئے ،مزید وہاں ٹھہرنے سے قاصر، خود کو بے ہوش ہونے کے قریب محسوس کرکے اُٹھ کھڑا ہوا۔ سماعت کے لیے کچھ نہ تھا، کتوں کی آواز بھی نہیں۔ اور نہ ہی بگل بجنے کا شور، دُور افق پر سب خاموش تھا، اور منجمد رات کی آواز تھی جو خوفناک اور عجیب تھی۔
اس نے عظیم الجثہ مردہ ژاں کو اپنےبے کراں ہاتھوں میں اٹھایا، اسے سیدھا کیا اور قصر تک لے جانے کے لیے گھوڑے کی کاٹھی پر لاد لیا؛ پھر وہ آہستہ آہستہ اپنے راستے پر ہو لیا۔ اس کا دماغ یوں منتشر تھا گویا وہ نشے میں ہو، اور بھیانک سائے اس کا پیچھا کر رہے ہوں۔
اور اچانک بڑھتے ہوئے اندھیرے میں ایک بہت بڑا وجود اس کا راستہ کاٹ گیا۔ یہ وہی جانور تھا۔ دہشت کے ایک جھٹکے نے شکاری کو ہلا کر رکھ دیا؛ کچھ یخ، پانی کی بوند سی، اس کی ریڑھ کی ہڈی سے نیچے کی طرف سرکتی محسوس ہوئی۔ اور خوفناک درندے کے اچانک نمودار ہونے سے گھبرا کر، شیطان سےتنگ راہب کی طرح اس نے صلیب کا نشان بنایا۔ لیکن پھر اس کی نظر اس کے سامنے رکھے بے جان جسم پر پڑی اور اچانک خوف غصے میں بدل گیا۔ وہ ناقابل ذکر غصے سے کانپنے لگا۔
پھر اس نے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور بھیڑیے کےپیچھے دوڑا دیا۔
اس نےجھاڑیوں، کھائیوں اور تمام بڑے درختوں کے درمیان سےگزرتے ہوئے اس کا پیچھا کیا۔ جنگلوں کو پار کرتے ہوئے جنھیں اب وہ پہچانتا بھی نہیں تھا، اس کی نگاہیں اس سفید دھبے پر جمی ہوئی تھیں جو رات کی تاریکی میں اس کے سامنے سے بھاگا تھا۔
اس کا گھوڑا بھی حیرت انگیز طاقت اور انجانے جوش سے بھرا ہوا لگ رہا تھا۔ وہ گردن اٹھائے، درختوں، چٹانوں سے ٹکراتا ہوا سیدھی چوکڑی بھر رہا تھا۔ مردہ آدمی کے ہاتھ اور ٹانگیں زین کےدونوں طرف لٹکی ہوئی تھیں۔ اس کے اعضاء سےبال اکھڑ چکے تھے، اس کی بھنویں تنوں سےٹکرا رہی تھیں، اور خون سےسرخ تھیں۔ ایڑی پر لگی مہمیز درختوں کی کھردری چھال نوچ ڈال رہی تھی۔ اچانک وہ درندہ اور سوار جنگل کو عبور کر کے ایک وادی میں داخل ہو گئے۔عین اس وقت پہاڑوں کے اوپر چاند نمودار ہوا۔ یہاں پتھریلی گھاٹی تھی، اور چاروں طرف سے بڑی بڑی چٹانوں سے گھری ہوئی تھی۔
پھر فرانکوئس نے خوشی سےچیخ ماری،جس کی بازگشت بادلوں کی گرج کی طرح تادیر گونجتی رہی، اور وہ اپنی تلوار ہاتھ میں لیے گھوڑے سے نیچے کود گیا۔
درندہ اپنےبال اکڑائے مڑا اور اس کا انتظار کرنے لگا، اس کی آنکھیں دو ستاروں کی مانند چمک رہی تھیں۔ لیکن لڑائی شروع کرنے سے پیشتر طاقتور شکاری نے اپنے بھائی کی لاش اٹھا کر ایک چٹان پر رکھی اور اس کا سر،جو اب خون کا محض ایک لوتھڑا تھا، کے نیچے ایک پتھر رکھ دیا، وہ اس کے کان میں یوں چلایا گویا کسی بہرے آدمی سے مخاطب ہو: ’’دیکھو ژاں، اسے دیکھو۔‘‘
پھر وہ اس عفریت پر حملہ آور ہوا۔ اس نے خود کو اتنا طاقتور محسوس کیا کہ وہ پہاڑ الٹ سکتا ہے، اپنے ہاتھوں سےپتھروں کو کچل سکتا ہے۔ درندے نے اس کے پیٹ کو نشانہ بنایا اور اسے نوچنے کی کوشش کی، لیکن اس نے اپنے ہتھیار کا استعمال کیےبغیر اس خطرناک جانور کو گردن سے دبوچ لیا ۔ اس کا گلا گھونٹتے ہوئے وہ اس کی بند ہوتی سانس اور مدھم پڑتی دل کی دھڑکن سن رہا تھا۔ وہ ہنسنے لگا، خوشی سے پاگل ہو گیا، درندے کےمہیب گلے کو مزید سختی سے دباتےہوئے وہ خوشی سے پکارا، ’’دیکھو، ژاں، دیکھو!‘‘ تمام مزاحمت ختم ہوگئی۔ بھیڑیے کا جسم بے جان ہو گیا۔ وہ مر چکا تھا۔
فرانکوئس نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا اور اپنے بڑے بھائی کے قدموں کےپاس لے گیا، اسے وہاں رکھ کر دھیمی آواز میں دہرایا، ’’دیکھو، دیکھو، دیکھو،میرے چھوٹے ژاں، اسے دیکھو۔‘‘
پھر اس نے دونوں لاشیں گھوڑے کی کاٹھی پراوپرتلےرکھیں اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔
پینٹوگریل کی پیدائش پر گارگنٹوا کی طرح، ہنستا اور روتا ہوا، فتح کےنعرے لگاتا، درندےکی موت پر خوشی سے جھومتا، اور بھائی کےغم میں اپنی داڑھی نوچتا ہوا، وہ اپنے قصر میں واپس لوٹ آیا۔
اور اکثر، بعد میں، جب وہ اس دن کےبارے میں کبھی بات کرتا تو اپنی آنکھوں میں آنسو لیے کہتا: ’’کاش بیچارہ ژاں مجھے درندے کا گلا گھونٹتے ہوئے دیکھ لیتا تو وہ اطمینان سے مر سکتا تھا، مجھے پورا یقین ہے!‘‘
میرے جد امجد کی بیوہ نے اپنے یتیم بیٹے کو شکار کی ہولناکی سے آگاہ کیا، اور وہ سراسیمگی باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتی ہوئی مجھ تک پہنچی۔
مارکوئس د آرویل خاموش ہو گیا۔ کسی نے پوچھا:
’’یہ کہانی محض ایک قصہ ہے، ہے نا؟‘‘
اور داستان گو نے جواب دیا:
’’میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ شروع سے آخر تک سچ ہے۔‘‘
پھر ایک خاتون نے ہلکی مدھر آواز میں اقرار کیا:
’’جو بھی ہو، اس طرح کا جنون بہترین ہے۔‘‘
***
The Wolf by Guy de Maupassant
(انگریزی سے ترجمہ : خالد فرہاد)

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق