افسانہ نمبر 638 : بوٹسوانا کی بارش (افریقی کہانی)، تحریر : وامے مولیفہے (بوٹسوانا)، مترجم : خالد فرہار دھاریوال (سیالکوٹ)

افسانہ نمبر 638 : بوٹسوانا کی بارش (افریقی کہانی)

تحریر : وامے مولیفہے (بوٹسوانا)
مترجم : خالد فرہار دھاریوال (سیالکوٹ)




یہ میری والدہ نے مجھے فون پر بتایا تھا۔ اس نے کل رات ایسے وقت فون کیا جب عام طور پر پیدائش یا موت کےپیغامات ہی سنائے جاتے ہیں۔ بستر کے ساتھ والی میز پر رکھےموبائل فون کی تھرتھراہت محسوس کرتے ہوئے میں نے اسے اٹھایا۔
’’سیتھو!‘‘ میرے ہیلو کہنے پر اس نے کہا، ’’میرے پاس تمہارے لیےبہت بُری خبر ہے۔‘‘
میں جان گئی کہ کوئی سنجیدہ معاملہ ہے۔کیونکہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ میری ماں مجھے میرے بچپن کے نام سے پکارے۔
’’گوموٹسو چل بسی۔‘‘
’’کیا مطلب ہے ماں؟‘‘
’’گوموٹسو مر گئی۔‘‘
’’نہیں ماں... کیسے؟... کب؟‘‘ میں نے آہستگی سے پوچھا۔ فون کان کےقریب کیا اور اس کے بولنے کا انتظار کرنے لگی۔ میں نے اسےگہری سانس لیتے سنا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔میں گوموٹسو کی موت کا سبب پوچھنے پر پچھتانے لگی، لیکن میرے لیےجاننا ضروری تھا۔ حالانکہ مجھےخود بوٹسوانا کے لوگوں کا کسی کی موت کی وجہ معلوم کرنے کا طریقہ، جیسے کوئی نرس خون نکالنے کے لئےآپ کا بازو ٹٹول کر صحیح رگ تلاش کرتی ہے، سخت ناپسند تھا۔
’’اس نے خودکشی کر لی۔ لوگوں کو کل اس کی لاش ملی۔ ہفتے کےدن جنازہ ہو گا۔ اور سیتھو،تمہارےلیے اس نے ایک نوشتہ چھوڑا ہے۔‘‘
’نوشتہ؟ گوموٹسو نے اپنی جان کیوں لی اور اس نے میرے لیےتحریر کیوں چھوڑی؟‘ خوف میرے پیٹ میں کولا کی طرح ابلنےلگا، بعینہ جب اس میں سنگريزہ گراتےہیں۔
میرا شوہر، تھاٹو، میرے پہلو میں گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ ہمارے بچے کی طرح سوتا تھا، منہ تھوڑا سا کھلا اور ایک ہاتھ پیشانی پر رکھے ہوئے۔
کیا ہوگا اگر گوموٹسو کے نوشتے نے میرا بھید کھول دیا تو؟ میں احتیاط سے بستر سے نیچے اُتری، کہیں وہ جاگ نہ جائے، ساتھ ہی یہ سوچتے ہوئے کہ کیا میں پھر کبھی اتنی گہری نیند سو سکوں گی!
***
میں جب بچی تھی، زندگی منظم تھی۔ سردیاں یخ اور خشک ہوا کرتی تھیں،گرمیاں مرطوب اور گرم،جیسا کہ بوٹسوانا کےموسم کےبارے میں میری جغرافیہ کی کتاب بتاتی تھی۔ جب بارش ہوتی تو میں باہر بھاگ جاتی اور کیچڑ میں کھیلنے لگتی تھی۔ اپنی انگلیاں ہوا میں لہراتے ہوئے چلاتی تھی،’’بارش! بارش!!مجھے بڑا کر دو۔‘‘ اور میں جھینگروں کو بھگا دیتی تھی، جو قوس قزح کے اُبھرتے ہی قواعد کرتے سپاہیوں کی طرح نمودار ہو جاتے تھے۔
بارش کے بعد میں ریت میں ننگےپاؤں فٹ بال کھیلا کرتی تھی۔ مجھے اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ لوگ غلطی سےمجھے لڑکا سمجھ لیں گے۔ جب دن بہت گرم ہو جاتا تو میں چھاؤں میں کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھ کر آرام کرتی تھی۔ ماں خاموشی سے پیچھے آ کر کڑکتی بجلی کی طرح تالی بجاتی،’’سیتھونیا! ٹھیک سے بیٹھو۔ تم کوئی چرواہا نہیں ہو۔‘‘ میں اپنی ٹانگیں سیدھی کرتی اور رانوں کو ملا لیتی تھی، ایک مہذب عورت بننے کی کوشش کرتی ہوئی۔
ان دنوں ،گوموٹسو میری سب سے اچھی سہیلی تھی۔ میں دس سال کی تھی جب اس کا خاندان ہمارے محلے میں رہائش پذیر ہوا۔ ہمیں ایک ساتھ پشت کے بل، ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے، مورولا کےدرخت کےنیچےلیٹ کر، اس کے پیلےپھلوں کو چوسنا پسند تھا۔ تب بھی وہ خواب دیکھنے والی لڑکی تھی۔ میں اسےکوئی مضحکہ خیز کہانی سناتی اور زور سے ہنستی۔ وہ کہا کرتی تھی، ’’ چُپ سیتھونیا ! سنو۔ ہوا مجھ سےمیرے مستقبل کے بارے میں سرگوشی کر رہی ہے... سنو۔ یہ کہہ رہی ہے کہ ایک دن میں اُڑ کر بہت دُور چلی جاؤں گی، جہاں میرے خواب پورے ہوں گے۔‘‘
جب میرے کولہے اُبھر آئے، چوتڑگول اور گداز ہو گئے اور میری چھاتیاں مورولا کےپھل کی طرح بڑی ہو گئیں تو ماں نے کہا،’’لڑکے مصیبت ہوتے ہیں، اس آفت سے دُور رہا کرو۔‘‘
لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ لڑکے؟ ان میں مجھےکوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں گوموٹسو کے ساتھ سب سے زیادہ خوش رہتی تھی اور میں اس کا کوئی اور شریک نہیں بنانا چاہتی تھی۔ جب کہ میری جماعت کی باقی تمام لڑکیاں لڑکوں کے بارے میں سرگوشیاں کرتی اور ہنستی تھیں، انہیں ہمیشہ تشویش ہوتی کہ الوداعی تقریب میں کون کس کے ساتھ رقص کرےگا، مجھے واقعی اس کی پرواہ نہیں تھی۔ اس کےباوجود میں بھی یہ کھیل کھیلتی تھی۔ کیونکہ میں ان سب سے الگ نظر نہیں آنا چاہتی تھی۔
***
جب میں بڑی ہوئی، زندگی میرے لیےآزمائش بن گئی۔ گھر، اسکول، چرچ۔ ہر جگہ لگتا تھا کہ مجھے ایک سانچے میں ڈھالا جا رہا ہے۔ سکول میں مجھے گردوغبار اور گند میں فرق یاد رکھنا پڑتا تھا۔ میں یہ یاد رکھنے کی کوشش کرتی کہ پہلےمانجھنا ہےپھرجھاڑو لگانا ہے۔یا کہ جھاڑو پہلے اور مانجھنا بعد میں ہے۔ گھر میں، ماں کہتی تھی: ’’ کیسی عورت بنو گی تم؟‘‘ جیسے ہی میں تھوڑا بڑی ہوئی ماں کہنے لگی:’’او میرے خدایا، یہ کیسی بیوی بنے گی؟‘‘ میں نے ایک فرمانبردار بیٹی اور ایک اچھی عورت بننے کی بھرپور کوشش کی۔
ہر اتوار کو میں اپنا دو پارچوں والا پھولدار لباس پہن کر صبح کی عبادت کے لیےچرچ جاتی۔ جب بھی پادری سائمن تنبیہہ کرتے،’’جہنم دنیا کی آگ سےزیادہ گرم ہے۔‘‘ اور ’’شیطان کو دھتکار دو۔‘‘ تو مجھے لگتاتھا کہ شعلےگویا میرے جسم کو جھلسا رہے ہیں۔ میں اپنی کرسی پر اینٹھنے اور کسمسانے لگتی تھی۔ میں اتوار کے مکتب میں پڑھاتی تھی، چرچ کے گلوگار طائفےکی رُکن تھی اور خدا سے ڈرتی تھی۔ میں خدا کا بچہ بننا چاہتی تھی اور جنت میں جانا چاہتی تھی، جہاں سبھی ایک خاندان کی طرح رہتے تھے اور ہر کوئی خوش تھا۔
میں نے اپنی اس خواہش کو دبانے کی بھرپور کوشش کی جو مجھے رتجگے پر مجبور کرتی اور گوموٹسو کی صحبت کے لیے اکساتی تھی، لیکن میں اسے انکار نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جب بھی مجھے اپنے پاس کھینچ کر خود کے ساتھ بھینچ لیتی تو میں تہیہ کرتی کہ آئندہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔
***
گوموٹسو سےمیری محبت بوٹسوانا کی بارش جیسی تھی۔جس کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی تھی۔ میں اپنی محبت کا اظہار کبھی کبھار ہی کرتی تھی۔ اس کے ردعمل پر میں اسےچھپا لیتی تھی۔پھر وہ مجھ سے چپک جاتی، جیسے وہ چٹان کی دراڑ میں اگےگھاس کے اس جھنڈ کی طرح ہو جوجتنی ہو سکےنمی جذب کرنےکی کوشش کرتا ہے۔
مگر اب گوموٹسو مر گئی تھی … نہیں!وہ دُور دراز اس سرزمین پر گئی تھی جس کا میں نے خواب دیکھا تھا، مدھم گلابی اور ہلکی سبز،جہاں سورج کبھی اتنا تیز نہیں چمکتا کہ لوگوں کے دِل خشک ہو کر کٹھور اور پتھر بن جائیں۔ وہاں اسے راحت ملے گی۔ ہاں، اس خیال نے مجھے بھی سکون بخشا۔
***
مجھے اس کے ساتھ اپنی آخری ملاقات یاد آئی۔ اس نے مجھے یہ کہہ کر بلایا تھا کہ وہ کوئی بات کرنا چاہتی ہے۔ ہم اس کے گھر میں اکٹھی ہوئیں۔ اس نے مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا لیکن میں نے اپنے بازو نیچے لٹکائے رکھے، وہ دُور معلوم ہوئی تھی اور وہاں سےآنےکے بعد بھی اس کی باتیں میرے ساتھ رہیں۔ میں نے خود کو بارش کے اس تالاب کی طرح دُھندلا، بے رنگ سا محسوس کیا، جو اپنی سطح کے نیچے چٹان کو چھپائے ہوئےہو۔
’’کیا تم نے کبھی میرے بارے میں سوچا ہے؟‘‘ وہ جاننا چاہتی تھی۔
’’کبھی کبھی۔‘‘
’’کیا تم اُس سے محبت کرتی ہو؟‘‘
’’یقیناً،وہ میرا شوہر ہے۔‘‘
’’تم اب بھی آ سکتی ہو …کبھی کبھی ۔‘‘
میں نے جواب نہیں دیا۔
’’کیا تم نے کبھی خودکشی کے بارے میں سوچا ہے؟‘‘
میں اس کے سوال سے چونک گئی لیکن میں نے کہا،’’کبھی نہیں۔ خودکشی کبیرہ گناہ ہے۔‘‘ میں نےاتوار کے مکتب والی استانی کا لہجہ اپنایا۔ میرے الفاظ نے اس کے سوالوں کی روانی روک دی۔ اس نے میرے لیے کافی بنائی، دودھ کے بغیر، دگنی چینی ڈال کر، جس طرح میں ہمیشہ بناتی ہوں۔وہ مجھےکیک کھاتےہوئے دیکھتی رہی ،جو اس نے مجھے دیا تھا – میرا پسندیدہ چاکلیٹ والاکیک۔ لیکن جلد ہی ہمارے درمیان خاموشی ناقابل برداشت ہو گئی۔
میں اُٹھ کر چلی آئی۔
***
اگرچہ میں نہیں چاہتی تھی کہ تھاٹو میرے ساتھ گوموٹسو کی آخری رسومات میں شریک ہو، لیکن وہ گیا۔ وہ میرا شوہر تھا اور اس نے ہمیشہ وہی کیا جو صحیح تھا؛ یہی اس کا طریقہ تھا۔ ہم چُپ چاپ اپنے گھر سے اس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ میں کھڑکی سے باہر اس فکر میں غلطاں دیکھتی رہی کہ نہ جانے گوموٹسو کا نوشتہ کیا راز افشاں کرے۔
اس کا گھر معمول سے زیادہ دُور لگ رہا تھا۔ یہ اس لیےبھی ہو سکتا ہے کہ تھاٹو گاڑی آہستہ چلا رہا تھا۔ بارش کےباعث سڑک ٹوٹ پھوٹ گئی تھی، ریت اور تارکول اکھڑنے سے اس پر گڑھے پڑ گئے تھے۔ جیسے ہی ہم اس کے گھر کےپاس پہنچے ،میں نے ایک عورت کو مورولا کے درخت کی چھاؤں میں تنہابیٹھے دیکھا، جہاں میں گوموٹسو کے ساتھ نشست جماتی تھی، دنیا کے سامنے یہ دکھاوا کرتے ہوئے کہ ہم محض سہیلیاں ہیں۔
***
گاڑی چلا رہےتھاٹو کی بغل میں بیٹھی میں وہ دن یاد کر رہی تھی جب اِس سے پہلی بار ملی تھی۔ میں تئیس سال کی تھی۔ یہ ابھی بیرون ملک سے لوٹا تھا۔ یہ چرچ میں آرگن بجاتا تھا۔ اس کی آواز کی وجہ سے مجھے اس سے پیار ہو گیا۔ جب یہ گاتا تھا ، آواز اِس کے نطق کی گہرائی سے نکل کر چرچ کو معمور کر دیتی تھی۔ یہ مدھم سا ہنس پڑتا تھا۔ اِس کے کندھے چوڑے تھے اور یہ مجھ سے قدآور تھا۔اور مجھے اِس کی آنکھوں میں دیکھنے کے لیے سر اٹھانا پڑتا تھا۔ موسیقی کی مشق کے بعد یہ مجھے کئی ہفتوں تک گھر چھوڑنے آتا رہا۔ ایک شام اس نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا تمہارا کوئی بوائے فرینڈ ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ایسا کیسے؟پھول کے نام والی اتنی خوبصورت لڑکی کا بوائے فرینڈ کیوں نہیں ہے؟‘‘
’’شاید میں تمہاری منتظر تھی۔‘‘ میں نے کہا اور مسکرا دی۔
وہ ہنسا،میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ لیا۔ پھر اس نے میری ہتھیلی تھپتھپائی۔ اِس کے ہاتھ میں میرا ہاتھ بہت چھوٹا لگ رہا تھا لیکن اس کا لمس گداز تھا،عورت کے ہاتھ کی طرح۔ ’’مجھے تم سے بہت زیادہ محبت ہے۔‘‘ اِس نے کہا۔
میں مسکرائی ۔ تھاٹو مجھے پسند کرتا تھا۔ اُن سبھی عورتوں میں سے جو اِس کے خواب دیکھتی تھیں، اس نے مجھے چنا تھا۔ میں نے گوموٹسو کےبارے میں سوچا اور تھاٹو کے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہا، ’’سیتھونیا، کبھی کبھی میں تمھیں دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ تم یہاں میرے ساتھ ہو؟‘‘
’’ ارے او!مموگو، تھاٹو۔ کیا تم نے مجھے کسی اور کے ساتھ دیکھا ہے؟ نہیں نہ۔‘‘
اس نے اپنا سر ہلایا اور کہا،’’سیتھونیا، ایک دن تم مجھے اپنے ساتھ اس جگہ لے چلو گی جہاں تم جاتی ہو۔‘‘ میں مسکرائی۔ میں جس کی وضاحت نہیں دے سکتی، اس کے لئے الفاظ ڈھونڈنے سے یہ کہیں آسان تھا۔ اس لمحے میں نے یہ سیکھا کہ اپنی مادری زبان میں جھوٹ بولنا کتنا آسان ہے۔
ایک سال تک میل ملاقات کے بعد تھاٹو نے اپنےچچا کو میرے گھر بھیجا۔ جب میں گھر پہنچی تو وہاں رم اور پیپل، تمباکو کی بو تھی۔ تھاٹو کے چچا، جو بیڑی پیتے تھے ہمارے گھر میرےچچا کو یہ بتانے آئے تھے کہ ان کا بھتیجا ایک ’سیگامیتسی‘ یعنی پنہاری کی تلاش میں ہے۔ تمباکونوشی کی بو ابھی کمرے میں موجود تھی کہ ماں نے پادری کو بلا بھیجا اور اعلان کیا کہ ’’سیتھونیا کی شادی ہونے والی ہے۔‘‘ ایک ماہ بعد دس جانور ہمارے یہاں دوڑتے ہوئے آئے، تھاٹو انہیں ہانک رہا تھا۔ ہمارے خاندانوں نے طے کر لیا تھا، میں تھاٹو کی بیوی بنوں گی۔
چرچ کی اگلی قطار میں اپنی نشست پر تشریف لے جاتے ہوئےکولہے مٹکاتی ماں کے انداز سے فخر جھلک رہا تھا۔ اس کی گردن یوں تنی ہوئی تھی جیسے سر پر پانی سےبھری بالٹی متوازن کر رکھی ہو۔دوسروں سے اونچی آواز میں انترا گانے سےبھی اس کا گھمنڈ واضح ہو رہا تھا۔جب اس نے نرم ریشم کو چھو کر کہا کہ اس سے میرے لیے شادی کا بہترین جوڑا بنے گا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔
ماں کا جوش انوکھا تھا۔ میں نے شادی والا سفید جوڑا پہن رکھا تھا، جس میں لمبی زِپ لگی تھی اور تیر نما پٹی بھی، جو میرے جوبن کو نمایاں کرتی اور میری کمر کو پتلا دکھاتی تھی۔ پیچھے گھسٹتا ہوا لمبا گھیرا تھا جس نے میرےتمام شکوک و شبہات کو چرچ میں سرخ قالین کے نیچے دھکیل دیا۔ میں نے پادری کی کہی ہوئی سبھی باتیں دہرائیں کہ میں اپنے خاوند سےپیار کروں گی،اور ہر دُکھ سُکھ میں اس کی تابعدار رہوں گی، اور دوسرے تمام الفاظ کا اعادہ کیا جو شادی کی توضیع کرتے ہیں۔
جب پادری سائمن نے کہا،’’میں اب آپ دونوں کو میاں بیوی قرار دیتا ہوں۔‘‘ تو تھاٹو نے بے تابی سےبوسہ لینےکےلیےمیرا گھونگھٹ اٹھایا۔ میں مسکرائی، ایک مہذب خاتون کی طرح شائستہ مسکراہٹ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، ہلڑ مچاتےاجنبیوں کے ساتھ رقص کرتے رہے، جو ہمارے ساتھ اس وقت شامل ہو گئے تھے جب ہم میاں بیوی چرچ میں جمع لوگوں کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ جب ہم چرچ سے باہر نکلے، بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ہم پرنچھاور کئے جا رہے چمکارے کےساتھ بارش کے قطرے گھل مل رہے تھے اور سب اس بات پر متفق تھے کہ ہم پر خدا کی رحمت برس رہی ہے۔
’’خدا کا شکر ادا کرنا مت بھولنا جس نے تمھیں اتنا اچھا شوہر دیا ہے۔‘‘ میری ماں نے کہا۔
***
ہماری شادی شدہ زندگی کی پہلی صبح تھی اور میں تھاٹو کے پاس لیٹی ہوئی تھی۔ بارش کی ہلکی بوندیں کھڑکی کو تھپتھپا رہی تھیں گویا کسی ڈرپوک شخص کی دستک ہو۔ یہ بوٹسوانا کی بارش سے مختلف تھی جسے میں جانتی تھی کہ جو عام طور پر طوفانی ہوتی ہے اور گرجتی ہے، گویا خدا کا قہر ہو۔
میں نے ہاتھ اِدھر اُدھر گھما کر اپنی انگوٹھی کی چمک دیکھی۔ میں آرام سے لیٹ کر جلترنگ سننا چاہتی تھی؛ جب میں نے آنکھیں بند کیں تو ناریل اور اسٹرابیری کی مہک پھیل گئی۔ میں نےیاد کیا اور اداسی سے مسکرا دی۔
’’مجھے بتاؤسیتھونیا، تم جانتی ہوتمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے، تم مجھے بتا سکتی ہو۔‘‘ تھاٹو نے میرے ہونٹوں پر انگلی پھیرتے ہوئے سرگوشی کی۔
’’آہ،بس میں بارش دیکھ کر خوش ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ لیکن اس کی باتوں نےمیری آنکھوں کی مسکراہٹ چھین لی اور میں نے خود کو اس کے بازوؤں کی گرفت سے آزاد کر لیا۔ میں بستر پر ہی پڑی رہتی اگر اس نےبول کر میری یادوں کو دُھندلا نہ دیا ہوتا۔
جب تھاٹو کہتا ہےکہ وہ مجھ سے پیار کرتا ہے تو میرےجسم پر ایک اور احساس طاری ہونے لگتا ہے: جذبات مجھے اس لہر پر بہا لے جاتے جو گوموٹسو کےمیری گردن پر بوسوں سےاٹھتی تھی۔ مجھے اس کےبالوں سے میٹھےناریل کی مہک آتی اور اس کے ہونٹوں پر اسٹرابیری کا ذائقہ ہوتا تھا۔ میرے پستانوں کی چوچیاں یوں اکڑ جاتی تھیں گویا یخ بستہ ہوا نے چوم لیا ہو اور مجھےان جگہوں پرتپش محسوس ہوتی جن کے میں نام نہیں لے سکتی تھی۔ پھر وہ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتی اور ہم اس کے بستر پر ایک ساتھ لیٹ جاتیں، ان زمینوں کو سر کرتی ہوئیں جو میں نے صرف خوابوں میں دیکھی تھیں۔
میں اپنے شوہر کےپہلو میں لیٹی گوموٹسو کےبارے میں سوچ رہی تھی؛ یہی کہ خاموشی اسے ڈراتی نہیں تھی،تھاٹو کی طرح یہ اسے بےچین نہیں کرتی تھی۔
میں نےیاد کیا کہ گوموٹسو کو میں نے تھاٹوکےبارے میں کیسے بتایا تھا۔ وہ اتوار کا دن تھا، میں چرچ کےبعد، عموماً اسے ملنے جاتی تھی۔ میں نےصوفے پر اس کےبیٹھنے کا انتظار کیا اور پھر میں اس سے کچھ دُور ایک کرسی پر جابیٹھی۔
’’میں یہ کیسے کہوں؟ تمھیں پتہ ہےکہ میں تھاٹو سے ملتی ہوں۔ کیا تم جانتی ہو؟‘‘
’’ملتی ہوں کا مطلب؟ تم نے تو کہا تھا کہ وہ ایک اچھا دوست ہے۔‘‘
’’وہ ایک اچھا دوست ہے... بہترین دوست۔ اس نے مجھ سے شادی کرنے کے لیے کہا ہے۔ میں نے ہاں کردی ہے۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ اسے جوہانسبرگ میں نوکری مل گئی ہے۔‘‘
وہ خلا میں دیکھنے لگی، اس حیرت زدہ چڑیا کی طرح جو اڑتے ہوئے کھڑکی کے اندر چلی آئی ہو۔ پھر اس نے مجھے دیکھا۔ اور کہا:’’بیچارہ تھاٹو! تم اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرنے جا رہی ہو ،سیتھونیا۔‘‘
’’لیکن گوموٹسو، تمھیں پتہ ہے کہ ایک دن یہ ہونا ہی تھا۔ یوں کب تک چل سکتا ہے؟ مجھےہر وقت پکڑے جانے کا خوف رہتا ہے۔ سوچو کتنی شرم کی بات ہوگی۔ پولیس...جیل...۔‘‘
’’آہ، یہ تمہاری زندگی ہے۔ اپنے آپ سےجھوٹ بولتی رہو۔‘‘
میں کوئی جواب نہیں دے پائی۔ وہ مجھے گھر کے باہرتک چھوڑنے نہ آئی، جیسا کہ اس کا معمول تھا۔ میرے باہر نکلتے ہی اس نے دروازہ بند کر لیا۔ میں نہیں جانتی کہ اس نے مجھےتیز رفتاری سے دروازے کی طرف جاتےدیکھا ہو۔ میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ جائز محبت کےبارے میں کیا جانتی تھی؟
اس دن کےبعد میں نے اُس کےگھر جانا چھوڑ دیا، میں اُن جگہوں سےبھی گریز کرنے لگی جہاں وہ اکثر جاتی تھی۔ سرِ راہ جب بھی اسےدیکھتی، میں شائستگی کا مظاہرہ کرتی، جیسےبزرگوں کے ساتھ احترام سے پیش آتی ہوں،’’ڈومیلا مما۔ او ٹینگ مما؟‘‘ جب بھی اس کا نام آتا، میں اسے نہ سننے کا بہانہ کرتی ؛ یا میری گفتگو انہیں باتوں کی بازگشت تھی جو دوسرے لوگ اس کے بارے میں کرتے تھے۔لوگ اسے بہت برے ناموں سے پکارتے تھے اور کہتے تھےکہ وہ مرد بننے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ بیمار تھی، وہ کہتے اور صحتیابی کے لیے اسےایک آدمی کی ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ مسئلہ کیا تھا؟
لیکن جب میں اکیلی ہوتی، گوموٹسو کےبارے میں سوچ کر تڑپ اٹھتی تھی۔ میں نے اس کی ہرنی جیسی آنکھوں کے بارے میں سوچا، جو اسے خوابیدہ بناتی تھیں اور تصور کیا کہ میں اس کی خوب چکنی جلد کو سہلا رہی ہوں، اس کا خوبصورت ناک والابیضوی چہرہ چوم رہی ہوں۔
***
جب ہم گوموٹسو کے گھر پہنچے، اس وقت دھوپ تھی۔ لیکن جب آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں، اکٹھے ہوتےریوڑ کی طرح بادلوں کا جمگھٹا لگ گیا۔ جلد ہی بارش نے دھرتی کو بھگو دیا اور مٹی کی سوندھی خوشبو فضا میں پھیلنے لگی۔
میں نے اپنے لباس کا انتخاب احتیاط سے کیا تھا۔ اپنے خوف کو سلیقے سے ڈھانپ لیا تھا۔ میں نےپھولی ہوئی پوشاک پہن رکھی تھی اور کندھوں پر شال لٹکا لی تھی، اور سر پر سکارف لے رکھا تھا، اور سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا۔ اپنے خاوند کے پہلو میں چلتے ہوئےمیری اونچی ایڑی والی جوتی سےچرمرانے کی آواز آ رہی تھی جیسے گیلی زمین کو چوم رہی ہو۔ میں بوٹسوانا کی ایک معزز خاتون تھی۔
گوموٹسو کا تابوت جب قبر میں اتارا گیا تو بارش ہونےلگی۔ پانی گڑھے کےکناروں پرگرتا اور بہتا رہا۔ آدمیوں نے اسےبیلچوں سےبھرنا شروع کیا اور لکڑی پر گرتی مٹی کی آواز میری روح پر کچوکے لگاتی رہی۔ تھاٹو نے اپنی جیکٹ اتار کر میرے کندھوں پر رکھی اور اس نےبھی بیلچہ اٹھا لیا۔ میں نے اس کےبازوؤں میں پٹھوں کے گچھے دیکھے جب وہ میری محبت پر مٹی ڈال رہا تھا۔ مجھے لگا کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے ہیں۔ میں نے بار بار پلکیں جھپک کر انہیں گرنے سے روکنے کی کوشش کی۔
جب میں تعزیت کے لیے گھر کے اندر گئی تو گوموٹسو کی والدہ نے مجھے ایک لفافہ دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ جب میں اسے ہاتھ میں لےکراپنے پرس میں رکھ رہی تھی تو اس کی ماں مجھے ایک ٹک دیکھ رہی تھی۔ میں نے لفافہ باہر نکالا، آہستہ سے کھولا:
’’ایس!
میں اسے قبول نہیں کر سکی۔ میں ایک بہتر جگہ جا رہی ہوں۔
– گوموٹسو۔‘‘
یہی تھا بس۔ میں نے خود پڑھ کر اسےدوبارہ تہہ کرکے رکھ لیا۔
اس کے الفاظ اہل میت کی ضیافت کےکھانےکی طرح معمولی تھے، لیکن میں سمجھ گئی تھی۔ اس نے اپنا نام ایک خاص انداز میں لکھا تھا۔ ’G ‘ ایک بڑے سے پھندے کی طرح اورنیچے دوہری لکیر۔ مجھے یاد آیا کہ کس طرح ہم اپنے دستخطوں کی مشق کرتی تھیں۔
’’کاغذ کو اتنا مت دباؤ۔‘‘میں کہتی تھی۔
’’میں تمہاری طرح ہموار نہیں رکھ سکتی، سیتھونیا۔‘‘
میں اس وقت تک رونا چاہتی تھی جب تک کہ میرا سانس نہ پھول جائے۔ سیاہ ماتمی لباس پہن کر بے کسی میں تڑپنا چاہتی تھی، جیسا کہ بیوہ عورتوں کا رواج ہے، میں حسرت و یاس کی تصویر بن جانا چاہتی تھی تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ میرا ایک حصہ چلا گیا ہے۔ لیکن بجائے اس کے میری آنکھیں کسی مرد کی طرح خشک ہی رہیں۔ کسی نے مجھے پرسہ دیتےہوئے یہ نہیں کہا کہ ’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بس حوصلہ رکھو۔‘‘
میں نے دیکھا کہ تھاٹو میری طرف دیکھ رہا تھا لیکن میں نے اسے نوشتہ نہیں دیا۔ اور اس نےبھی اسے دیکھنے کا تقاضا نہیں کیا۔
***
تدفین کی اگلی صبح، تھاٹو کے پہلو میں لیٹی ہوئی میں گوموٹسو کے لیے دُکھی ہو رہی تھی۔ میں اب جانتی ہوں کہ مجھے اس کے ساتھ بھاگ جانا چاہیئے تھا؛ مجھے امید ہےکہ ایک دن میں اسےباغِ بہشت میں پا لوں گی جہاں سبھی خوش رہتے تھے۔
میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ تھاٹو نےمیرا کندھاچھوا۔ لیکن میں اس سے دُور ہٹ گئی، اور اپنی آنکھیں موند لیں۔
تبھی ہمارے بچے نے پکارا : ’’پاپا!‘‘
میں نے تھاٹو کو بستر سے اٹھتے اور بچے کو چارپائی سے اٹھاتے دیکھا۔ وہ ہمارے بچے، لیرینگ کو ہمارے بستر پر لے آیا۔ بستر پر دراز ہوتے ہی اس نےلیرینگ کو اپنے سینے پر لٹا لیا۔
ہم خاموشی سے ایک ساتھ لیٹ گئے، میرا خاوند، میں اور میرا بیٹا ۔
(انگریزی سے ترجمہ: خالد فرہاد دھاریوال)
***
ادیبہ کا تعارف
وام میریم مولیفہےفرانسس ٹاؤن، بوٹسوانا میں پیدا ہوئی۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گیبرون میں گزارا ہے۔اس نے رہوڈز یونیورسٹی سے ’کیریٹو رائٹنگ‘ میں ایم اے کیا ۔ وہ 2008 سے مسلسل لکھ رہی ہے۔ کہانیوں کے علاوہ وہ ٹیلیویژن، ریڈیو اور اخباروں کے لیے فری لانس ادیبہ کے طور پر سرگرم عمل ہے۔ اس کے اب تک کہانیوں کے دو مجموعے ’جسٹ ونس‘ اور ’گو ٹیل دا سن‘ شائع ہوئے ہیں۔ ’جسٹ ونس‘مجموعہ بوٹسوانا کے جونیئر سیکنڈری اسکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔ مولیفہے کی کہانیاں افریقی معاشرے خاص کر بوٹسوانا کی روزمرہ زندگی کی کہانیاں ہیں۔ اس کا ماننا ہے کہ لکھنے کے لیے خوب پڑھنا بےحد ضروری ہے ۔ اسے 2008میں کامن ویلتھ براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کی طرف سے انعام ملا۔ وہ 2015 میں سویتیلا رائنری ریذیڈنس اٹلی کی فیلو رہی ہے۔ یہ اس کے دوسرے مجموعے میں شامل کہانی Botswana Rain کا اردو ترجمہ ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق