افسانہ نمبر 547 : : خودرو پُھول، افسانہ نگار: سلینہ حسین، بنگلہ دیش، مترجم : حمزہ حسن شیخ

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 547 : : خودرو پُھول (بنگالی افسانہ)
افسانہ نگار: سلینہ حسین، بنگلہ دیش
مترجم : حمزہ حسن شیخ



ڈھاکہ پہنچتے ہی اُس لڑکی نے ایک فیصلہ کیاکہ وہ کسی کو بھی اپنی پہچان نہیں کرائے گی۔ اگرپُوچھا گیا تو وہ اپنی بجائے اپنی ماں کا نام بتائے گی۔ اُس نے خود کویقین دلایا کہ اس طرح وہ ہر مرد کی غیر ضروری توجہ سے محفوظ رہ سکتی تھی۔ وہ اس گہرائی کا اندازہ نہیں لگا سکتی تھی کہ اس یقین نے اس کے اندر کب جڑ پکڑی تھی۔۔۔؟وہ اتنی پڑھی لکھی نہیں تھی کہ اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کو کوئی رُوپ دے سکتی۔ یہ خیال اُسے اُس وقت عود کر آیا، جب وہ بس کے لمبے سفر کے دوران اُونگھ رہی تھی اور ساتھ بیٹھے مسافر نے بہت رازداری کے ساتھ اُس کی ساڑھی کے نیچے اُس کی چھاتی کو چُھوا تھا۔ اُسے یہ خیال بہت بھلا اور دل موہ لینے والا لگا۔ وہ پُر اعتماد تھی کہ وہ ڈھاکہ میں کوئی نہ کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ لے گی۔ تاہم وہ یہ بیان کرنے سے قاصر تھی کہ اُس نے ایسا کیوں سوچا تھا۔۔۔؟
گبتالی بس اڈے پر اُترنے کے بعد، لڑکی کو بہت بھوک محسوس ہوئی۔ اُس نے ڈیڑھ دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بھوک مٹانے کے لیے بھلا ایک انسان کتنا پانی پی سکتا ہے۔۔۔! اُس کے پاس سو روپے کا ایک نوٹ تھا جو اُس کے پیٹی کوٹ کے کمر بند میں اُڑوسا ہوا تھا۔پیٹی کوٹ کی ڈوری کے ڈھیلے پن سے وہ نوٹ اڑ جاتاتھا۔۔۔وہ اپنا جسم کھو جانے سے زیادہ نوٹ کھو جانے سے خوفزدہ تھی۔ وہ اس خیال کے ساتھ شہر آئی تھی کہ یہاں پیسے کی بہت قیمت تھی جبکہ اُس کی جان کی اتنی قیمت نہ تھی۔ لڑکی نے اپنے اردگرد مردوں کو دیکھا۔ اپنے بہت اندر، وہ ان سب سے یکسربہت متنفر تھی۔ وہ اُسے چکنائی سے بھرے ہوئے لگے، جن کے بھدے جسموں سے عجیب سی بدبو آتی تھی اور ساتھ میں وہ بہت غلیظ بھی تھے۔ اُس نے ذہنی دباؤ اور نفرت کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کیں اور دوبارہ کھولیں۔
شام کو بس جلدی آگئی۔ اُس کے بعد کافی حد تک، رش میں کمی آ گئی۔ لڑکی اب خود کو آرام دہ محسوس کر رہی تھی۔ ایک بار، اکثر لوگوں کے چلے جانے کے بعد، وہ مکمل طور پر اس بس اڈے کی مالک بن جائے گی۔ یقینا ان میں کچھ بسیں اور ٹرک یہیں پہ ہی رہیں گے۔ پھر اُسے کسی کا خوف نہیں رہے گا۔ وہ قریبی درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر آرام کرنا چاہتی تھی لیکن اُسے ڈر تھا کہ وہ ڈگمگا جائے گی۔ جونہی وہ بیٹھی، ایک آوارہ دونسلاکتا اُس کے پاس آکر اکڑوں بیٹھ گیا۔ اُس نے پیار سے اپنا ہاتھ کتے کی پیٹھ پر رکھا اور جواب میں کتا دوستی کے لیے اُس کا بازو چاٹنے لگا۔ اُس کا رال منہ سے ٹپکااوربازو گیلا ہو جانا لڑکی کو اچھا نہ لگا اور اُسے اس ننھے حیوان پر غصہ آ گیا،
”تم نے مجھ سے پُوچھے بغیر، میر اہاتھ کیوں چاٹا۔۔۔؟ تم کیا سمجھتے ہو کہ تم چیئرمین کے بیٹے بجلو ہو۔۔۔؟تم کچھ بھی نہیں لیکن ایک گندے کتے کے بچے ہو۔۔۔ جاؤ۔۔۔ دفع ہو جاؤ۔۔۔“قریب کھڑا ایک لڑکا، آم کی گٹھلی چوس رہا تھا۔ وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔
”تم اس کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہو۔۔۔؟“
”ایک بندے اور ایک کتے میں کیا فرق ہوتا ہے۔۔۔؟“اُس نے کہا۔ لڑکے نے آم کی گٹھلی کو دور پھینکا،
”کیا تمہارے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔؟ “
”ہاں۔۔۔ ہے۔۔۔ کیوں۔۔۔؟ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں فقیر ہوں۔۔۔؟“
”تو پھر گھر جاؤ۔۔۔“ اُس لڑکے نے کہا۔
”نہیں۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی۔۔۔“
”تو پھر تم کہاں رہو گی۔۔۔؟“ لڑکے نے پُوچھا۔
”اسی گلی میں۔۔۔“
”گلی رہنے کے لیے اچھی جگہ نہیں۔۔۔“
”دفع ہو جاؤ۔۔۔ میں وہی کروں گی جو میرا جی چاہے گا۔۔۔“
”کیا تمہیں بُھو ک نہیں لگی۔۔۔؟“
”ہاں۔۔۔ میں بُھوک سے مر رہی ہوں۔۔۔“
”آؤ۔۔۔ اُس ریسٹورنٹ میں چلیں۔۔۔ اُس کا مالک تمہیں کچھ چاول دے دے گا۔۔۔“
”مالک کیوں مجھے چاول دے گا۔۔۔؟ کیا اُس نے میرا کچھ دینا ہے۔۔۔؟“
”نہیں۔۔۔ اُس نے کچھ نہیں دینا، لیکن تمہیں پتہ ہے کہ وہ ایک رحمدل انسان ہے جو غریبوں کو کھانا کھلاتا ہے۔۔۔ آؤ چلیں۔۔۔“
لڑکی کچھ دیر تک بد گمان سی رہی۔ اُسے اپنے اندر کچھ نہ معلوم خوفناک سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ اُس نے غصے میں اپنے باپ کو چھوڑ دیا تھا اور ایک ہی لمحے کے فیصلے میں، وہ ڈھاکہ جانے والی بس میں سوار ہو گئی تھی۔ اب، وہ حیران ہو رہی تھی کہ اس انجان شہر میں وہ کہاں کا رُخ کرے گی۔۔۔!لڑکا ابھی تک اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ گہرے سیاہ رنگ اور ہڈیوں کے ڈھانچے میں، وہ لڑکا کسی بندر کے مشابہہ تھا، لڑکی نے ایک لمحے کے لیے سوچا۔ ہاں، درحقیقت وہ ایک بند ر ہی تھا۔ آج، وہ چھوٹا ہے لیکن جلد وہ بڑا ہو جائے گا۔ سر درد کی ایک تیز ٹیس نے اُس کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اُس کو کمزوری محسوس ہوئی۔ تیز چلاتی ہوئی آواز میں، وہ لڑکے سے مخاطب ہوئی،
”تم کیوں ابھی تک یہاں ٹھہرے ہوئے ہو۔۔۔؟“
”صرف تمہارے لیے۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ تمہارے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ورنہ اب تک تم وہاں جا چکی ہوتی۔۔۔“
”کیا نام ہے تمہارا۔۔۔؟ تم چھوٹے شیطان۔۔۔؟“
”جلفو۔۔۔ جلفو علی۔۔۔“
”تمہارے باپ کا نام کیا ہے۔۔۔؟“
”مجھے نہیں معلوم۔۔۔“
”کیا تمہاری ماں نہیں ہے۔۔۔؟“
”میری ماں مر گئی ہے۔۔۔ میں نے اُسے کبھی بھی نہیں دیکھا۔۔۔“
”او۔۔۔ اچھا۔۔۔“
”کیا اچھا۔۔۔؟“
”کہ تم چوھڑے ہو۔۔۔“
جلفو علی کھلکھلا کے ہنسنے لگا۔ اُس کو لُطف آیا۔ اس میں کوئی حیرت نہیں تھی کہ وہ اس طرح کے طنزیہ مذاق کئی بارسن چکا تھا۔ لوگ ایسے الفاظ اُن بچوں کے لیے بھی استعمال کرتے تھے جن کے باقاعدہ پیدائش کے ریکارڈ موجود تھے۔ گلیوں کے یہ بچے اپنی عمر سے کہیں زیادہ سیانے تھے۔ جلفو اکڑا کے لڑکی کے سامنے آگیا اور پُوچھا،
”آنٹی۔۔۔! آپ کا نام کیا ہے؟“
”گڑی گاؤں۔۔۔“
”یہ کیسا نام ہے؟“
”چپ ہو جاؤ، بندر۔۔۔“
لڑکا ایک بار پھر کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔ ایک بوڑھی بھکارن اُن کی جانب آئی،
”یہ عورت کا بھوت کس کا ہے۔۔۔؟“ لڑکی نے اُس کو دیکھنے کی کوشش کی: بالکل خشک، رُوکھے اور اُلجھے ہوئے بال، گھٹنے کی لمبائی تک گندی ساڑھی، جس کا دھڑ کو چھپانے کے لیے کوئی بلاوز اور پیٹی کُوٹ نہیں تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ٹین کی ایک خالی پلیٹ تھی۔ اُس کی کمر میں کچھ اُڑسا ہوا تھا، شاید پان یا پھر رقم۔۔۔ اُس کا بغیر دانتوں کے منہ،سامنے کی جانب سے بہت بھدا تھا۔ اُس کے چہرے کی جلد کی مختلف تہوں نے سڑک کی ساری دُھول جمع کر رکھی تھی۔ لڑکی اُس کا دیکھ کر پریشان سی ہو گئی اور آہستگی سے خود کلامی کی،
”میں نے ایسی چڑیل پہلے کبھی نہیں دیکھی۔۔۔“ بوڑھی عورت اُس کے قریب بیٹھ گئی اور پُوچھا،
”کیا تم آج کچھ نہیں کما سکی۔۔۔؟“
”نہیں۔۔۔ میں بھیک نہیں مانگتی۔۔۔“
”آہ۔۔“ بوڑھی عورت نے لڑکی پر بُرا سا منہ بنایا، ”اے لڑکی۔۔۔! نام کیا ہے تیرا۔۔۔؟“
”گڑی گاؤں۔۔۔“ اُس نے فورا جواب دیا۔
”گڑی گاؤں تو تمہارے گاؤں کا نام ہے۔۔۔ تم اپنا نام بتاؤ۔۔۔؟“
”گڑی گاؤں۔۔۔“
”یہ کیسا نا م ہے۔۔۔؟“
”کیا مسئلہ ہے۔۔۔؟ کوئی نام تبھی کام کر سکتا ہے جب تک آپ مجھے اُس نام سے بُلاتے رہیں اور میں جواب دیتی رہوں۔۔۔ نام کا مقصد پُورا ہوتا رہتا ہے۔۔۔ اس نام والے سارے ڈرامے کا مقصد ہی کیا ہے۔۔۔؟“
بوڑھی عورت اُس کے اس خیال پر کھلکھلا اُٹھی۔ اُس کے خشک اور کھردرے بال ہوا میں لہرائے، کچھ اُس کے چہرے پہ آگئے جنہوں نے اُسے مزید بھیا نک بنا دیا۔ اُ س کے ہنستے ہوئے چہرے نے لڑکی کو وہ چڑیلیں یاد دلا دیں جن کے بارے میں اُس نے اپنے بچپن میں سُنا تھا۔
”تم کیوں ہنس رہی ہو۔۔۔؟ ہنسنا بند کرو۔۔۔“وہ زور سے چلائی۔ بوڑھی عورت اچانک ہی خاموش ہو گئی۔ آنکھیں پھیلاتے ہوئے، اُس نے کہا،
”ارے لڑکی۔۔۔! میں نے تمہارے لیے نام ڈھونڈ لیا ہے؛ میں تمہیں ”شہزادی“ کہوں گی۔۔۔“ جلفو نے اُچھلنا شروع کر دیا، ”ہم نے ڈھونڈ لیا۔۔۔! ہم نے ڈھونڈ لیا۔۔۔! ہم نے تمہارے لیے نام ڈھونڈ لیا۔۔۔“ لڑکی نے محسوس کیا کہ وہ واقعی بندر جیسی حرکات کر کے بندر ہی لگ رہا تھا۔ شاید وہ بندروں کے کسی گروہ میں پیدا ہوا تھا۔ لڑکے نے تیوری چڑھائی،
”تم کیوں مجھ پہ ناک بھوں چڑھا رہی ہو۔۔۔؟آؤ۔۔۔! ہم سب اُس ہوٹل پہ چلیں۔۔۔ تم نے ابھی کہا نہیں کہ تمہیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ شہزادی آنٹی۔۔۔؟“
”چُپ کرو۔۔۔ ننھے شیطان۔۔۔!“
”لیکن کیا آپ بھوکی نہیں ہو۔۔۔؟“
لیکن اس سے پہلے کہ لڑکی کو ئی جواب دیتی، بوڑھی عورت نے جلفو کا ہاتھ پکڑ لیا،
”میں بھی بہت بھوکی ہوں۔۔۔ کیا تم مجھے کچھ چاول لے کے دے سکتے ہو۔۔۔؟“
”نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں تمہیں نہیں کھلا سکتا۔۔۔ اگر مالک نے تمہیں دیکھ لیا تو وہ بہت غصہ کرے گا۔۔۔“
”لیکن تم نے ابھی نہیں کہا کہ تمہارا مالک بہت رحمدل ہے۔۔۔“ بوڑھی عورت نے اُسے جواب دیا۔
لڑکی نے تیز نگاہوں سے اُسے دیکھا۔ جلفو سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔ وہ کچھ سمع خراش الفاظ بڑبڑایااور رفع حاجت کے لیے تھوڑی دور چلا گیا۔ بوڑھی عورت نے جب کوئی بات بنتی نہ دیکھی تو جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”شہزادی۔۔۔! اس دُنیا میں مہربانی کی بہت سی اقسام ہیں؛ ایک قسم کی مہربانی تمہارے لیے ہے جبکہ میرے لیے کوئی اور قسم ہے۔۔۔“وہ دوبارہ دل کھول کے ہنسنے لگی اور اُسکا لُعاب ہر طرف گرنے لگا۔ لڑکی نے ایک نظر اُس کے بد صورت چہرے پہ ڈالی؛
”تم بالکل ایک چڑیل لگتی ہو۔۔۔“بوڑھی عورت نے چونکتے ہوئے جواب دیا،
”تم یہ کیوں کہتی ہو۔۔۔؟ اگر تم شہزادی ہو تو میں شہزادی کی دادی ہوں۔۔۔“
”ہنہ۔۔۔! دادی۔۔۔! جاؤ اب۔۔۔!“
بوڑھی عورت کے جانے کے بعد، جلفو آیا اور لڑکی کے قریب بیٹھ گیا۔
”آؤ چلیں۔۔۔ شہزادی آنٹی۔۔۔!“ اُس نے لاڈ کرتے ہوئے کہا۔
”تمہارے مالک کا نام کیا ہے۔۔۔؟“
”توفہ علی۔۔۔تمام لوگ اُسے توفہ بابو کہتے ہیں۔۔۔“
”کتنی شادیاں ہیں اُس کی۔۔۔؟“جلفو ہنسا۔ اُس کی ہنسی کے انداز نے بتا دیا جیسے اس جواب میں کئی کہانیاں پُوشیدہ تھیں۔ لڑکی کو یہ اچھا نہ لگا۔
”اچھا۔۔۔ تو اُس نے کبھی بھی شادی نہیں کی۔۔۔؟ کیا یہی بات ہے۔۔۔؟“ لڑکی نے اُس سے جواب نکلوانے کے لیے پُوچھا۔
”کیوں نہیں کی۔۔۔؟ کیا ایک مرد شادی کے بغیر رہ سکتا ہے۔۔۔؟“
”تمہیں کیسے پتہ ہے کہ وہ نہیں رہ سکتا۔۔۔؟“
”مجھے سب پتہ ہے۔ میرے مالک نے پانچ شادیاں کی ہیں۔ پہلی بیوی بچہ جنتے ہوئے مر گئی، اور پھر نوزائیدہ بچی بھی دارفانی سے کوچ کر گئی۔ دوسری کسی اور مرد کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اُس کے بعد آنے والی بیوی کو مالک نے خود ہی طلاق دے دی تھی۔ تو، میں نے کتنی گنوا دی ہیں۔۔۔؟“
”صرف تین۔۔۔“لڑکی نے دلچسپی سے جواب دیا۔
”جہاں تک چوتھی بیوی کا تعلق ہے تو اُسے چیئر مین کا بیٹا پٹ سن کے کھیت میں لے گیا۔۔۔“
”رُکو۔۔۔! تمہیں اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔“
”یقینی طور پر، مالک کو اُسے طلاق دینی پڑی۔۔۔! اب حال ہی میں، اُس کی پانچویں شادی ہوئی ہے۔ اُن کا کوئی بچہ نہیں ہے۔ قدرتی طور پر مالک اس بارے میں بہت اُداس ہے۔“
”اُداس۔۔۔! اُس نے ابھی تک کچھ بھی نہیں دیکھا۔۔۔!“ لڑکی نے آہ بھری۔ وہ اس عجیب و غریب انسان سے ملنا چاہتی تھی۔ وہ اُٹھی اور اپنی ٹانگیں اور بازو سیدھے کئے، اپنا پاؤں سیدھا کیا اور زور زور سے ہلایاجو کہ شل ہو چکا تھا۔ جلفو نے محسوس کر لیا کہ بالآخر وہ اُس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی تھی۔ اُس نے اپنا بازو اُس کی جانب بڑھایا اور کہا،
”آؤ چلیں۔۔۔“
”ہاں۔۔۔ آؤ چلیں۔۔۔“ آخرکار لڑکی بے نیازی کے ساتھ اُٹھی اور خود کو سنبھلتے ہوئے جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ اگر وہ ابھی کچھ بھی نہ کھاتی تو رات کو کھڑے ہونے کے قابل نہ رہتی۔ اُنہوں نے گلی پار کی اور توفہ علی ریسٹورنٹ میں داخل ہو گئے۔ وہاں پہ زیادہ لوگ نہ تھے، صرف دو آدمی کھانا کھا رہے تھے۔ جلفو نے دروازے کے قریب کھڑے ہو کر لڑکی کی آمد کی اطلاع دی۔
”مالک۔۔۔! میں اُسے لے آیا ہوں۔۔۔“اُس نے اُونچی آواز میں کہا۔
”آؤ آنٹی۔۔۔“
”مالک۔۔۔! میں اُسے لے آیا ہوں۔“جلفو نے دوبارہ وہی الفاظ اگلی رات بھی دوہرائے تھے۔ لڑکی کے لیے دوبارہ وہی الفاظ سننا بہت تکلیف دہ عمل تھا۔ اُس نے محسوس کیا جیسے گرم تپتے ہوئے لوہے کا راڈ اُس کے کانوں میں ڈال دیا گیا ہو۔ اُس کو معلو م نہ تھا کہ اس راڈ کی لمبائی کتنی تھی یا یہ داخل ہونے میں کتنا وقت لے گا۔ توفہ بابو اپنے چہرے پہ، دانتوں کی نمائش کرتی کھسیانی ہنسی لیے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کی موتیوں کی طرح کالی آنکھوں پر دو کالی بہت ہی گھنی آبرو لٹک رہی تھیں اور ایک موٹا اور بڑا سا ناک اُس کے چہرے پہ قبضہ جمائے ہوئے تھا۔ سامنے سے اُس کے بالوں کا اچھا خاصا حصہ اُڑ گیا تھا۔ اُس کا موٹا چھولتا ہوا پیٹ، اُسے حاملہ گائے کی یاد دلاتا تھا۔ لڑکی یہ منظر زیادہ دیر نہ دیکھ سکی۔ اُس نے دوسرے دو کھانا کھاتے مردوں کو دیکھنے کے لیے نظریں دوسری جانب موڑ دیں۔ جلفو نے اُس کا تعارف کرانا شروع کیا،
”مالک۔۔۔!اس کا نام شہزادی ہے۔۔۔ بوڑھی بھکارن نے اسے یہ نام دیا۔۔۔“
یہ سُن کر، دونوں آدمی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے اور کھانے کے ذرات اُن کے منہ سے باہر اُچھل پڑے۔ توفہ بابو بھی ہنس رہا تھا۔ وہ اشارے سے اُسے بُلا کر اندر لے گیا،
”آؤ اور بیٹھ جاؤ۔۔۔ شہزادی۔۔۔!“
”میرا نام گڑی گاؤں ہے۔۔۔“لڑکی نے کہا۔
”مجھے سمجھ آگئی۔ آپ عورت نہیں ہو۔ آپ ایک گاؤں ہو۔ آؤ۔۔۔ آؤ۔۔۔ کیا تم بھوکی نہیں ہو۔۔۔؟“
”ہاں۔۔۔ میں نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔“
”ارے جلفو۔۔۔! اسے چاول اور گوشت کی دو پلیٹیں لا دو۔ کیا تم یہ سب ختم کر لو گی؟“
”ہاں۔۔۔ میں کر لوں گی۔ چاول کھانا کوئی اتنا مُشکل کام بھی نہیں ہے۔“
تینوں مرد اور لڑکا ایک بار پھر ہنسی سے لُوٹ پُوٹ ہو گئے، جیسے لڑکی نے بہت انہونی اور مزاحیہ بات کہہ دی ہو۔ دونوں مردوں کا دم گھٹ گیا کیونکہ انہوں نے اپنے بھرے ہوئے منہ کے ساتھ بولنے کی کوشش کی۔ لڑکا بھاگ کر اُن کے لیے پانی کا گلاس لے آیا۔ توفہ نے لڑکی کے کان میں سرگُوشی کی،
”کھاؤ۔۔۔ میری جان۔۔۔!“ لڑکی جلدی سے بنچ پر بیٹھ گئی اور چاولوں کی پلیٹ اپنے قریب کھسکائی۔ وہ ہاتھ تک دُھونا بُھول گئی تھی۔ توفہ کا گرم سانس ابھی تک اُس کے کانوں میں تھا۔ اُس نے محسوس کر لیا کہ یہ توفہ بابو ہی تھا جس نے اس چھوٹے بندر کو اُسے پھانسنے کے لیے بھیجا تھا۔ شاید اُس نے بہت فاصلے سے ہی اُس کو دیکھ لیا تھا اور اُسے خاصی دیر اکیلا بیٹھے ہوئے دیکھ کر، اُس نے صحیح چانچ لیا تھا کہ اُس کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اُس نے کھانا رُوکا، اپنا سر اُٹھایا اور دیکھا کہ دونوں مرد اپنا کھانا ختم کر چکے تھے۔ وہ بغور اُس کا جائزہ لے رہے تھے۔ اُس کی سماعت میں جلفو کی آواز گُونجی،
”میں اُسے لایا ہوں۔۔۔“یہ کیسی زندگی ہے۔۔۔!احساس ذلت نے اُسے آلیا۔ اُس نے جلدی جلدی مٹھیاں بھر کر چاول اپنے منہ میں ڈالے۔اُس کو کھانا بھلا لگااور اُس کی آنکھیں خُوشی کے آنسووں سے بھرا گئیں جو اُس نے اپنے بائیں ہاتھ سے صاف کیں۔ تینوں مرد اُس کے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔
”آپ کیوں رو رہی ہو۔۔۔؟“ایک آواز نے پُوچھا جسے وہ نہیں پہچانتی تھی۔
”شہزادی۔۔۔! کس بات نے تمہیں رُولایا۔۔۔؟“ توفہ بھی باتوں میں شامل ہو گیا۔ لڑکی نے غیر یقینی نظروں سے اُن کو دیکھا، ”میں کیوں رونے لگی۔۔۔؟ میں کیوں روؤں گی جب میرے پاس چاول ہیں۔۔۔؟ میں بہت خُوش ہوں۔ تم نے مجھے کھانے کے لیے بہت کچھ دیا ہے۔ میں نے ایک وقت کے کھانے میں کبھی بھی اتنا گوشت نہیں کھایا۔ خُدا کا لاکھ لاکھ شُکر ہے۔۔۔!“
”شہزادی۔۔۔!کیا تم آرام کرنا چاہتی ہو۔۔۔؟“
”ہاں۔۔۔ چاول کھانے کے بعد، مجھے بہت نیند آتی ہے۔“
اُس نے ایک بڑی ڈکار لی، لمبی جمائی لی اور اپنی تھکی ہوئی آنکھوں کو زور سے رگڑا۔ اُس نے پلیٹ پر اپنے ہاتھ دھوئے اور پاؤں سمیٹ کر بنچ پہ بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنی پیٹھ، کندھے اور گردن ڈھانپنے کے لیے اپنی ساڑھی کا آنچل ٹھیک کیا لیکن اُس کی چھاتیاں ابھی بھی نمایاں تھیں۔ گہرے رنگ و رُوپ اور اچھے نین نقش کے ساتھ، اُس کا جسم غربت کے باوجود، صحت مند اور جوانی سے بھرپُور تھااور دل موہ لینے والا چہرہ اس کے علاوہ تھا۔ قصہ مختصر، اُس کی شخصیت پُر لطف تھی۔
لڑکی نے محسوس کر لیا کہ تینوں مرد ابھی تک اُس سے عشوہ گری کر رہے ہیں۔ اُس نے تسلی بخش معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ وہاں کھڑا رہنے کی کوشش کی۔ وہ مرد اُس کی مسکراہٹ کو نہ سمجھ سکے۔ وہ اتنی معصوم تھی جیسے ابھی تک دُنیا کا کوئی گنااہ اُسے چھو کر بھی نہ گزرا ہواور ایسے ہو بھی کیسے سکتا تھا؟ کیا وہ ابھی ابھی آسمانوں سے اُتر کر نہیں آئی تھی؟ تینوں مرد مکمل طور پر دنگ رہ گئے۔
”شہزادی۔۔۔! تم کہاں سووں گی۔۔۔؟“
”یہیں۔۔۔ بنچ پہ ہی۔۔۔“
”کیا تمہارے پاس تکیہ اور کمبل ہے۔۔۔؟“
”نہیں۔۔۔ میں نے اپنے باپ کا گھر بہت ہی غصے کے عالم میں چھوڑا۔ میں تکیہ اور کمبل تو ایک طرف، اپنے کپڑے تک نہیں لا سکی۔“
”شہزادی۔۔۔! میں تمہیں تکیے اور کمبل دوں گا۔ میں ایک ٹرک چلاتا ہوں۔ تم میرے ٹرک میں سو سکتی ہو۔ حقیقت میں، تمہیں وہاں پہ بہت سُکون ملے گا۔“
”نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ کیوں ٹرک میں سوئے گی۔۔۔؟ میں چار بنچ آپس میں ملاؤں گا؛ ان پہ ایک گدا اور خوبصورت چادریں ڈالوں گا۔ تمہیں فورا ہی نیند آ جائے گی جیسے ہی تم اس پر لیٹوں گی۔“
اس سے پہلے کہ دوسرا آدمی بولتا، توفہ نے تحکمانہ لہجے میں کہا،
”اپنی بکواس بند کرو۔۔۔! نہیں۔۔۔ تو مجھے تم لوگوں کو باہر پھینکنا پڑے گا۔“
”کیوں۔۔۔؟ میں کیوں نہ بولوں۔۔۔؟“ اُن دونوں میں سے ایک آدمی بولا جو وہاں کھانا کھا رہے تھے۔
”تم بھول رہے ہوکہ میں نے اُسے کھانا دیاہے۔“
”کھاناکتنے کا تھا۔۔۔؟ میں تمہیں پیسے دیتا ہوں۔۔۔“
”کیا۔۔۔؟ کیا تم مجھے اپنا پیسہ دکھا رہے ہو۔۔۔؟ یہاں سے دفع ہو جاؤ۔۔۔“
جب دونوں آدمی توفہ کو گھونسے مارنے کے لیے اُٹھے، لڑکی اپنے دونوں بازو پھیلا کر بھاگتی ہوئی آئی اوراُن کے درمیان کھڑی ہو گئی۔
”تم کیوں لڑ رہے ہو۔۔۔؟ تم لوگ مجھ سے کیوں نہیں پُوچھتے کہ میں کہاں پہ سووں گی۔۔۔؟ تم لو گ خوامخواہ ہی جھگڑ رہے ہو۔۔۔“
لمحے کے لیے، تینوں مردوں اور لڑکے نے خود کو احمق سمجھا اور بالکل خاموشی سے کھڑے ہو گئے۔ اب وہ اپنی اصلیت اُس پر ظاہر کر چکے تھے، وہ دونوں مرد لڑکی کو کسی بُھوت کی طرح لگے۔ ایک کا ہڈیوں سے بھرپُور جسم تھا جس پر گدھ کی طرح تڑھا میڑھا چہرہ تھا۔ اُس کے بال چھوٹے چھوٹے تھے اور اُس کی کُھردری آواز کسی اُلو کی طرح تھی۔ وہ کوئی بدکردار پولیس والا لگتا تھا۔ دوسرا آدمی فلم کے کسی ولن کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ بٹن کی طرح اُس کی آنکھوں میں، ایک قاتل جیسی بد رُوح ایک ہی نکتے پر جمی ہوئی تھی۔ لڑکی کو اُس کا موٹا تازہ چربی زدہ جسم دیکھ کر متلی آنے لگی۔ ہر شخص ہوس کے ساتھ اُس کو تک رہا تھااور وہ محظوظ ہو رہی تھی۔ اچانک، جلفو نے پُوچھا،
”شہزادی آنٹی۔۔۔! تو آپ سوچ لو کہ آپ نے کہاں سونا ہے۔۔۔؟“ لمحے کے توقف کے بعد، لڑکی نے جواب دیا،
”آج رات، میں یہیں سووں گی۔ کل رات میں ٹرک میں سووں گی۔ اب، ڈھاکہ شہر میں ہر کہیں ایک بستر میرا منتظر ہے۔“ لڑکی نے ایک اُونچا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا جس سے سارے مرد لُطف اندوز ہوئے۔ توفہ بابو نے تحکمانہ لہجے میں کہا،
”شہزادی۔۔۔! میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔تم اسی ہوٹل میں کام کروں گی اور میں تمہیں تنخواہ دوں گا۔ تم یہیں، میرے ساتھ رہوں گی۔“ لڑکی اپنے جسم کو لہراتے ہوئے کھلکھلا کے ہنسی۔ اُس نے توفہ کی رائے پہ کوئی توجہ نہ دی؛اس کے بجائے اُس نے دونوں مردوں سے مخاطب ہو کر کہا،
”ابھی تم لوگ گھر جاؤ اور کل واپس آنا۔۔۔“
اُن دونوں کے چلے جانے کے بعد، آج رات کے لیے اُس نے اپنے پاؤں بنچ پہ سمیٹ لیے۔ دو نئے گاہک کھانے کے لیے آئے اور توفہ اور جلفو اُن دونوں کے ساتھ مصروف ہو گئے۔ دال، گوشت، چاول اور بُھنی ہوئی سبزی کی بھری ہوئی پلیٹیں اُن کو لا دی گئیں۔ انہوں نے جلدی جلدی اپنا کھانا ختم کیا اور چلے گئے۔ انہوں نے لڑکی کو دیکھ لیا تھا لیکن انہوں نے اُس پہ کوئی توجہ نہ دی۔ کم ازکم، ابھی تک اس زمین پر کچھ انسان بس رہے تھے۔ اپنے ذہن میں انہیں خیالات کے ساتھ، لڑکی نے اپنا سر میز پر ٹکایا اور سو گئی۔
رات کے کسی پہر، لڑکی نے محسوس کیا کہ وہ لکڑی کے بنچوں کے جوڑے پر سوئی ہوئی تھی جن کو ملا کر ایک بستر بنایا گیا تھا۔ توفہ اُس کے قریب سویا ہوا تھا۔ وہ اُس رات گھر نہیں گیا تھا۔ اُس کے ننگے بدن پر حملہ آور ہونے کے بعد، وہ بے سوھ پڑا تھا۔ کیا وہ واقعی ہی سویا ہوا تھا۔۔۔؟ جب لڑکی نے اُسے کہنی ماری تو وہ بہت ہی دلفریب آواز میں گویا ہوا،
”شہزادی۔۔۔!کیا تم کچھ کہنا چاہتی ہو۔۔۔؟“
”میرا نام گڑی گاؤں ہے۔“
”کسی کو کسی بھی نام سے پُکارا جا سکتا ہے۔“
”مجھے گڑی گاؤں ہی کہو۔“
”ٹھیک ہے۔ میں ایسا ہی کروں گا۔ کیا تم خُوش ہو، گڑی گاؤں۔۔۔؟ یا تمہیں کچھ اور چاہیے۔۔۔“
خُوش۔۔۔! لڑکی کی حالت رونے والی ہو گئی؛ اُسے دُکھ اور غم کاشدید احساس ہوا۔ وہ اپنا کنوارہ پن اُسی طریقے سے کھو چکی تھی؛ جس طرح زبردستی بستر سے دھکیل کر، دومردوں نے اُسے اپنے کمرے سے پٹ سن کے کھیت میں لے جا کر نوچا تھا۔ اُس کو نہ تو خُوشی محسوس ہوئی اور نہ ہی اُداسی؛ اُسے اپنی پیٹھ پہ بچھو کے ڈنگ جیسا درد محسوس ہوا اور شدید نفرت کی لہر اُس کے من میں سرایت کر گئی۔ توفہ دوبارہ اُس پر سوار ہو چکا تھا۔ اُس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ آج اُس کو اس بنچ پہ صرف ایک مرد کو مطمئن کرنا تھا۔ کل رات، ٹرک میں، اُسے دو مردوں سے نبٹنا پڑے گا۔ توفہ نے لڑکی سے دوبارہ پُوچھا،
”گُری گاؤں۔۔۔! کیا تم خُوش ہو۔۔۔؟“ تب لڑکی نے توفہ کو اپنی کہانی سُنانا شروع کی۔
”ایک دن، جب میرا باپ گھر پر نہیں تھا۔ تقریبا آدھی رات کے قریب، بجلو دیوار پھلانگ کر ہمارے گھر گھس آیا اور میرے کمرے میں داخل ہو گیا۔ بجلو کے ساتھ دو تین اور بندے بھی آئے تھے۔ انہوں نے میرا منہ کپاس کے تولیے کے ساتھ باندھا اور پھر اپنی باریاں لینے لگے۔ ہمارے ہمسایوں کو پتہ چل گیا اور انہوں نے بجلو کو پکڑ لیا لیکن دوسرے سارے بھاگ گئے۔ بجلو چیئرمین کا بیٹا ہے جس نے اس طرح کی کاروائیاں کئی دفعہ کی ہیں۔ ہر بندہ اُسے جانتا تھا۔ اگلے دن، میرے باپ کو ساری کہانی پتہ چلی اور وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔ حواس کے بحال ہوتے ہی اُس نے انصاف کا مطالبہ کر دیا۔ پہلے، وہ اس مسئلے کو گاؤں کے سردار کے پاس لے گیا جس نے اُسے بتایا کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ بجلوکا باپ، گاؤں کا چیئرمین بہت ہی طاقتور آدمی تھا۔ اُس نے بتایا کہ وہ ہماری زندگیاں تک تباہ کر سکتا تھا۔ پھر میرا باپ پولیس کے پاس گیا جہاں پر اُن کو صرف و صرف پیسے سے مطلب تھا۔ کسی کو بھی پرواہ نہ تھی کہ ایک دیہاڑی کرنے والا مزدور اُن سے کیا کہنا چاہتا تھا۔ اس کے باؤجود بھی، وہ بجلو کے خلاف کیس کو سامنے لے آیا۔ بجلو کے باپ نے کیس ختم کرانے کے لیے پیسے کا خوب استعمال کیا۔ لیکن میرے باپ نے حقیقت کو بدلنے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتا رہ گیا کہ ایک ایسا ملک جہاں پر انصاف نہ ہو کبھی بھی مسائل سے چھٹکارہ نہیں پا سکتا۔ میں نے بھی اُسے کہا کہ وہ کیس ختم کر دے لیکن وہ کچھ بھی سُننے کے لیے تیار نہ تھا۔ آخرکار، چیئرمین نے اپنے غنڈے بھیجے تاکہ ہمیں اپنے گھر اور گاؤں سے بے دخل کیا جا سکے۔ میں نے اپنے باپ کے ساتھ جا کر بجلو کے باپ سے التجا کی اور اُس سے معافی کی درخواست کی تاکہ ہم اپنے گھر میں واپس جا سکیں۔ میں نے کہا کہ ہم جیسے غریب لوگ، اتنے غرور اور عزت کے کبھی جانبدار نہیں ہو سکتے۔ پُورے گھر میں سارے لوگ صرف میری وجہ سے تکلیف کیوں برداشت کریں؟ میری ماں ہے، بھائی اور بہنیں ہیں؛ اب وہ سب کہاں رہیں گے؟ جب اُس نے میری التجا کی کوئی پرواہ نہیں کی، میں نے اپنا راستہ ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔ میں شہر جانے والی ایک بس پہ سوار ہو گئی اور اب میں یہاں ہوں۔۔۔“
”اوہو اچھا۔۔۔ پھر تو تم کنواری نہ ہوئی۔۔۔یہ کام پہلے ہی کوئی تمہارے ساتھ کر چکا ہے۔“ توفہ نے مایوسیانہ آواز میں کہا۔
”اگر میں کنواری ہوتی تو کیا میں تمہیں اس طرح ہاتھ لگانے دیتی۔۔۔؟“ ایک جھلکتی ہوئی بے عزتی کے ساتھ، الفاظ اُس کے منہ سے پھسلے جیسے ہی لڑکی نے بستر پر اپنا پہلو تبدیل کیا۔ توفہ گھر میں اپنی بیوی ہونے کے باوجود اُس کے ساتھ اپنا وقت گزار رہا تھا۔اُس نے جلفو کو اُسے بتانے کے لیے بھیجا تھا کہ وہ کاروبار کے سلسلے میں ناراینگنگ جا رہا ہے۔ جلفو اپنی عمر سے زیادہ چالاک لڑکا تھا اور سب کچھ سمجھتا تھا۔ شاید، ایک دن وہ بھی بغیر پیسوں کے اُس کے ساتھ سونے کی فرمائش کرے گا۔ لڑکی نے ایک سرد آہ بھری۔ اُسے بے عزتی محسوس نہیں ہوگی۔ اُس نے وہاں سب کچھ سیکھنا ختم کر دیا تھا کیونکہ وہ اب کافی کچھ سیکھ چکی تھی۔ توفہ نے اُس کی جوانی صرف دو پلیٹ چاولوں میں خرید لی تھی۔
اگلی رات،اُسے کچھ رقم ضرورحاصل کر نا ہوگی۔ اُسے شدت سے رقم کی ضرورت تھی۔ توفہ کو اُس کی ساری خدمات کا معاوضہ چُکانا پڑے گا۔ اُس نے بستر پر دوبارہ اپنا پہلو بدلا اور پُوچھا،
”کیا تم جاگ رہے ہو۔۔۔؟“
”کیا تم نے کچھ کہنا ہے۔۔۔؟“
”کیا تم مجھے پیسے دے رہے ہو۔۔۔؟“ توفہ بلبلا اُٹھا،
”میں نے تمہارے کھانے اور سونے کا بندوبست کیا ہے۔ اس کے علاوہ تم مجھ سے پیسے بھی مانگ رہی ہو؟ تم نے کیا ہی کیا ہے؟“
”آہا۔۔۔! ہم دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے تمہارا کیا کام کیا ہے۔ اگر تم مجھے پیسے نہیں دو گے، میں تمہاری بیوی سے شکایت کر دوں گی۔“
”کیا کہا تم نے۔۔۔؟“
”جو بھی میں نے کہا وہ سچ ہی ہے۔ مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ میرا باپ جو دیہاڑی کا ایک مزدور ہے، اُسے گھر واپس لینے کے لیے رقم کی شدید ضرورت ہے جو میری وجہ سے اُس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔میں اُسے کچھ رقم بھیجنا چاہتی ہوں، گھر کے اخراجات کے لیے اوراس کی مرمت کے لیے بھی، کیونکہ بجلو نے میرے کمرے میں داخل ہونے کے لیے اس کی ایک دیوار توڑ دی تھی۔“
”میرے خُدایا۔۔۔! مجھے تو اب پتہ چلا کہ تم بہت چالاک عورت ہو۔۔۔!“
”تم مجھے کتنے پیسے دو گے۔۔۔؟“
”میں تمہیں بتاؤں گا۔۔۔ مجھے اس بارے میں سوچنا پڑے گا۔۔۔ ایک دفعہ پھر۔۔۔؟“
”ٹھیک ہے۔۔۔پھر حساب کرتے رہنا کہ تم نے مجھے کتنے پیسے دینا ہیں۔“
”کیوں۔۔۔؟ کیا تم گن نہیں رہی ہو۔۔۔؟“
”یقینا۔۔۔ میں گن رہی ہوں۔“
”تم گنتی میں بہت اچھی لگتی ہو۔۔۔! تمہاری تعلیم کتنی ہے؟“
”اس طرح کے حساب کتاب کے لیے زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ گنتی عورت خودبخود سیکھ جاتی ہے۔“
”دراصل۔۔۔ تم بہت اچھی طرح سیکھ چکی ہو۔۔۔“ توفہ دل کھول کر ہنسا۔
جب اگلی صبح سویرے، توفہ نے دوبارہ اُس کو ہلایا، لڑکی کا دل چاہا کہ وہ سچ مچ زورزور سے چلائے۔ اُس نے محسوس کیا کہ وہ یہ جنگ زیادہ دیر نہیں لڑ سکتی۔ اُس نے سوچا کہ اُس کی زندگی دریا کی طرح تھی جو اُس کے گاؤں گُری گاؤں کے ساتھ بہتا تھا۔ کبھی اس میں بڑے بڑے لدے ہوئے بحری جہاز سفر کرتے تھے لیکن اب یہ دریا ایک نہر سے زیادہ نہیں بچا۔ اس کا زیادہ طرح حصہ کٹاؤ کی وجہ سے ختم ہو چکا تھااور اب اس میں دو کشتیاں بھی ایک ساتھ نہیں تیر سکتی تھیں۔ اُس نے خود کو بھی اس مردہ دریا کی طرح سمجھا جس کی زندگی سیم زدہ ہو چکی تھی جو کبھی بھی ٹھیک نہ ہونے والی تھی۔ کام ختم ہونے کے بعد، لڑکی کمرے سے باہر نکلی۔ ابھی بہت سویر تھی اور دن کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ سڑکیں بالکل خاموش تھیں۔ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ صرف وہ نہیں جانتی تھی کہ اُس نے کہاں جانا تھا۔ وہ واپس کمرے میں آئی اور توفہ کے ساتھ لیٹ گئی۔ اُس نے یاد کیا کہ پچھلی رات وہ گھر نہیں گیا۔ اُس کی طرح، اُس کی بیوی نے بھی نیند کے بغیر رات گزاری ہو گی۔ اُس نے اُس کوبستر سے دھکیل دیا اور اُس پر لعنت بھیجی،
”بے غیرت گدھ۔۔۔!!!“
توفہ کی تجوری میں سے پیسے ہتھیا نے کے بعد، لڑکی نے اپنی ساڑھی کے پلو کے آخر میں اُس رقم کو باندھااور کمرے سے باہر نکل آئی۔ جب توفہ میز کے نیچے سے نکلا جہاں وہ لیٹا تھا لڑکی نے ایک رکشہ کر لیا تھا اور وہ وہاں سے رخصت ہو گئی۔
”کہاں جانا چاہتی ہو۔۔۔؟“ رکشے والے نے پُوچھا۔ لڑکی نے بغیر کسی تکلف کے پُوچھا،
”بھائی۔۔۔ کیا تم کام ڈھونڈنے میں میری مدد کر سکتے ہو۔۔۔؟“
”کام۔۔۔؟ کیسا کام۔۔۔؟“
”کسی گھر میں کوئی کام کاج، یا کسی تعمیراتی جگہ پہ اینٹیں توڑنے کا کام، جہاں سے مجھے کچھ پیسے مل جائیں۔“
”پھر میری بیوی کے پاس جاؤ۔۔۔ وہ تمہیں کوئی نہ کوئی کام ڈھونڈ دے گی چاہے وہ کوئی چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔“
”وہ کیا ہے۔۔۔؟“
”نوکری ملنے کے بعد، تمہیں میرے ساتھ ایک دن کے لیے سونا پڑے گا۔“
لڑکی کے قہقہے پھوٹ پڑے۔ دن کے اس وقت، سڑکوں پہ کسی قسم کا کوئی رش نہ تھا۔ ہوا میں تھوڑی سی خنکی تھی، اُسے اتنا اُونچا ہنسنا بہت بھلا لگا۔ اتنا اُونچا کہ رکشے والے نے واپس مڑ کر دیکھا اور اُس سے پُوچھا،
”تم ہنس کیوں رہی ہو۔۔۔؟“
”یہ سب سے آسان کام ہے جو میں کر سکتی ہوں۔۔۔“ لڑکی نے کہا، ”تم یہ کب کرناچاہتے ہو۔۔۔؟ پہلی بار یہ مُفت ہو گا؛ باقی تمام بار تمہیں پیسے دینا پڑیں گے۔ مجھے اپنے دیہاڑی دار باپ کو پیسے بھیجنا ہوتے ہیں، جو سراسر میری وجہ سے مشکلات میں گھرا ہو ا ہے۔۔۔“
”میں سمجھ گیا۔۔۔اور اگر میں تمہیں آج جیسی ٹھنڈی صبحوں میں رکشے کی مفت سواری دے کر تمہارا معاوضہ چُکا دوں تو۔۔۔؟“
”نہیں۔۔۔ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ تم مجھ سے کام لینا چاہتے ہو لیکن مجھے پیسے دینے کے لیے راضی نہیں ہو۔۔۔ اس طرح کیسے کام چلے گا۔۔۔؟“ لڑکی نے اُونچی آواز میں جواب دیا۔
اُس آدمی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ لڑکی کو اپنے گھر کے قرب و جوار میں لے گیا اور خاصے فاصلے سے ایک جانب اشارہ کیا۔
”اُس کے پاس جاؤ۔۔۔وہ اینٹیں توڑتی ہے۔ اگر ممکن ہوا تو وہ تمہیں کام ضرور دے گی۔ ابھی میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا۔ لیکن تم نے اپنا وعدہ یاد رکھنا ہے۔۔۔“لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔
اس کے بعد، اُسے یوں محسوس ہوا کہ یہاں پر کام کی کوئی کمی نہ تھی۔ اب وہ باقاعدگی سے اپنے باپ کو رقم بھیجتی۔
وہ ڈھاکہ شہر میں، لاکھوں لوگوں میں سے ایک ہو گئی تھی۔ وہ خود پہ عجیب و غریب سی خوشی محسوس کرتی۔ اگر وہ کرایہ نہ دے سکتی تو گلیوں میں سو جاتی یا پھر کسی ٹرک کی چھت پر۔ ایک دفعہ، وہ کچھ مردوں کے ساتھ، ایک دوسرے شہر بھی گئی اور وہاں پہ یادگار وقت گزارا۔
ایک دن، اُس نے وہ مشکلات محسوس کیں جو چوبی کی حاملہ ماں گلی میں محسوس کرتی تھی۔
”تمہارے اتنے زیادہ بچے کیوں ہیں۔۔۔؟“ اُس نے ایک دن پُوچھاتھا۔
”میں گلی میں سوتی ہوں؛ بھلا ہر رات، میں کتنے مردوں کو خلیج پر رکھ سکتی ہوں۔۔۔؟“
لڑکی ہکا بکا رہ گئی۔اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب و غریب سا خوف لہرایا۔ اُس نے جلدی جلدی حساب لگایا، اُس کو پچھلے مہینے ایام مخصوصہ میں حیض نہیں ہوا تھا۔ شاید یہ اسی وجہ سے ہو۔۔۔؟اُسے صرف انتظار کرنا اور دیکھنا پڑے گا۔ دن گزرے اور حقیقت میں، اُس کو اس ننگے سچ کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی پُرانی نوکری کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ کوئی بھی اُسے گھر میں نوکر رکھنے کو تیار نہ تھا۔ اب اُس کو صرف ایک ہی نوکری ملی تھی، ایک ہوٹل میں باروچی کے معاون کی نوکری، جس میں اُس کا کام مصالحے گوٹنے کا تھا۔ اُس کی چھوٹی سی تنخواہ میں اتنی رقم ہی ہوتی کہ وہ ایک دن سے دوسرے دن تک، بمشکل گزارہ کرتی۔ لوگ اُس کے بڑے پیٹ کا حقارت کے ساتھ مذاق اُڑاتے۔ کچھ اُس کا منہ چڑاتے جبکہ کچھ کبھی کبھار اُس کے کپڑوں میں پانچ روپے کا ایک نوٹ اڑوس دیتے۔ ابھی بھی، لڑکی چاہتی تھی کہ وہ ڈھاکہ شہر کے اس اصطبل میں، کسی معجزانہ بچے کو جنم دے۔ ایک ایسا بچہ، جو ڈھاکہ شہر سے ساری گندگی کو دُور باہر کرے اور یہ اعلان کرے،
”دیکھو میں ناں کہتا تھا کہ یہ شہر بہت خوبصورت ہے۔۔۔!!!“ مرد اپنے دلوں کو ٹٹولیں گے اور وہاں اُن کو کوئی گندگی نظر نہیں آئے گی بلکہ صرف صاف و شفاف پانی نظر آئے گا۔ لیکن اُن میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کے پتھریلے دل اتنے صاف شفاف پانی سے بھی نہ دُھل سکیں گے۔ وہ ہاتھوں میں پھندے لے کر ہر وقت تیار ہونگے اور غراتے ہوئے کہیں گے،
”شہر کو صاف کرو۔۔۔! جلدی کرو۔۔۔! اوہ۔۔۔! اس جُرم کے لیے تمہاری سزا موت ہے۔۔۔!“
ٹھٹکتے ہوئے، لڑکی نے خوفزدہ ہو کر اپنے دن بدن بڑھتے ہوئے پیٹ کو چُھوا۔ چوبی کی ماں نے ایک بار اشارہ دیا تھا کہ وہ جڑواں بچوں کی ماں بنے گی۔ لڑکی ہنسی تھی،
”ایک کے بجائے،مجھے اس مزدوری کے دو بچے ملیں گے۔ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔“
”یہ تو اچھی بات ہے۔ لیکن ان کے باپ کا کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔ تم ان کو کیسے پالوں گی؟“
”گلی میں پیدا ہونے بچوں کو بڑا ہونے کے لیے رقم کی ضرورت نہیں ہوتی؛ وہ خودبخود بڑے ہو جاتے ہیں۔“
وہ دوبارہ کھلکھلا کر ہنسی۔ اُس کا بھی ایک باپ تھا جو دیہاڑی دار مزدور تھا۔ وہ اُس کی زندگی میں کتنا فائدہ مند ثابت ہوا تھا۔ وہ حیران تھی۔
یہ عام سی نیلی چاندنی والی رات تھی۔ لڑکی کو مزدوری جیسے درد کی ٹیسس اُٹھیں۔ وہ کچی آبادی میں اپنے گھر سے باہر نکلی۔ درد آہستہ آہستہ بڑھتا گیا جو لہروں کی طرح اُس کے سارے جسم میں ہچکولے کھا رہا تھا۔ وہ خاموش گلی کے درمیان بیٹھ گئی۔ رات کی سرد ہوا نے اُس کے جسم کو ٹھٹھراکر رکھ دیا۔ وہ اس شدید درد پہ قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اُس کی چیخوں نے ہمسائے میں سارے کتوں کو متوجہ کر دیا تھا۔ وہ آکر اُس کے قریب بیٹھ گئے اور کبھی کبھار اُس کا سر چاٹنے لگتے۔
اُس رات، اُس نے دو بچوں کو جنم دیا، ایک لڑکی اور ایک لڑکا۔ وہ خوشی سے پُھولے نہیں سما رہی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس شہر کی یہ گلی جو نکاسی کے کسی نالے کی طرح گندی تھی، پُورے چاند کی کسی رات میں کبھی اتنی خوبصورت بھی ہو سکتی ہے۔ آخری کچھ مہینوں میں، اُس نے اس شہر میں، خوبصورتی کی کوئی بھی شے محسوس نہیں کی تھی۔ کسی نہ کسی طرح، وہ اُٹھنے میں کامیاب ہو گئی اور اپنی کمر بند میں سے اپنا پرس نکالا اور اُس میں سے ایک نیا بلیڈ نکال کر بچوں کی نال کاٹ کر اپنی ناف سے الگ کیا۔
لڑکی جانتی تھی کہ ابھی کچھ دیر میں صبح ہو جائے گی۔ کچی آبادی میں سے عورتیں، اُسکی دوست اُس کو تلاش کرتی ہوئی آئیں گی اوراُسے اس گلی میں پائیں گی۔ وہ بچوں کو دیکھیں گی اور ایک دوسرے کو کہیں گی،
”دیکھو۔۔۔! گُری گاؤں نے بالآخر کچھ اچھا کیا ہے۔ اُس نے ایک ہی وقت میں دو بچوں کو جنم دیا ہے۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت لڑکی اور ایک پیارا سا چھوٹا لڑکا۔۔۔! آؤ۔۔۔ ان کو اُٹھائیں اور ان کو گھر لے چلیں۔ ہم اُن کو سب کچھ دیں گے جو بھی ہمارے پاس ہے۔ اور۔۔۔اری گُری گاؤں۔۔۔! کیا اب آخرکار تم ہمیں اپنا اصل نام بتاؤ گی۔۔۔؟“
لڑکی نے اپنا سر خوشی کے مارے جھٹکا۔ وہ بہت زیادہ خوش تھی۔وہ چلائی، اُس کی آواز خوشی کے مارے بلند ہو گئی۔
”ہاں۔۔۔میں بتاؤں گی۔ میں ہر کسی کو خوشی خوشی اپنا نام بتاؤں گی۔سنو۔۔۔! سب سنو۔۔۔جو بھی اس شہر میں رہتا ہے۔۔۔! میرا نام پُشپالتا ہے۔۔۔ پھیلنے والا پُھول۔۔۔ اور مجھ میں یہ طاقت ہے کہ میں ہزاروں پُھول کھلا سکتی ہوں۔
٭٭٭٭٭
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
Original Title: অরণ্য কুসুম
English Title: A Wild Flower
Written by:
Selina Hossain (born 14 June 1947) is a Bangladeshi novelist and the current president of Bangla Academy since February 2022.

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق