عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 545 : بارِ شناسائی
تحریر : یورجی امادو (برازیل)
مترجم : محمد فیصل (کراچی)
گرنگو (سپین اور برازیل میں سفید فاموں کو گرنگو Gringoکہا جاتا ہے)یہاں کافی عرصے سے مقیم تھا۔ وہ بلانوش اور نہایت کم آمیز اور کم گو شخص تھا۔ وہ ساری ساری رات بیٹھ کر بوتل پہ بوتل چڑھاتا رہتا مگر مجال ہے کہ ذرا بھی بہکے۔ یہاں تو ایسے بھی تھے جو دوسرے جام پر کبھی دنگےفساد شروع کردیتے یاگلا پھاڑ پھاڑ کر قومی ترانہ گانے لگتے۔ مجال ہے اس کے منہ سے کبھی کوئی غیر ضروری بات نکلے۔ ہاں اس کی ہلکی نیلی آنکھیں کبھی کبھار باتیں کرنے لگتیں اور ان میں شعلے دہکتے دکھائی دیتےمگر صاحب مجال ہے جو گرنگوکےمنہ سے ایک لفظ بھی نکلے۔ ہاں کبھی کبھار اس کی بیوی مرسیدس اس کی ایک دو کہانیاں سناتی ہے۔ گرنگو کے ساتھ رہ رہ کر وہ بھی بلانوش ہوچکی ہے مگر وہ اس کی طرح کم گو نہیں ہے۔ اس کے مطابق گرنگو اپنے ملک میں دو خون کر چکا ہے، ایک اپنی بے وفا محبوبہ کاجسے اس نے چاقو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ دوسرا خون اس نے اُس آدمی کا کیا جو اس کی بڑی رقم دبا بیٹھا تھا اور واپسی کی بجائے مختلف ملکوں میں بھاگتا پھرا۔ گرنگو بھی ایک کائیاں تھا وہ اس کا پیچھا کرتا رہا اور آخر کار اسے قتل کر دیا۔ اُسی چاقو سے جس سے اس نے اپنی محبوبہ کو مارا تھا۔ کبھی کبھی مجھے گرِنگو پر ترس آتا تھا۔ ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ جب آپ کسی کا خون کرتے ہیں تو اس کی لاش آ پ کے کندھے پر سوار رہتی ہے۔یہ بوجھ اتارنے کے لیے بہتر ہے کہ آپ اپنے دل کا احوال کسی کو سنا کر اپنا بوجھ ہلکا کرلیں۔ گرنگو کے کندھوں پر تودو لاشوں کا بوجھ تھااور وہ یہ بوجھ منتقل کرنے پر تیار ہی نہیں تھا۔
خیر ابھی تو میں آپ کو گرنگو کی کہانی نہیں سناؤں گا۔ یہ کہانی جولیو کی ہے ۔ جولیوجس کا رنگ گہرا گندمی تھا اور وہ ایک آوارہ منش شخص تھا۔ اُس رات بڑی تیز بارش ہورہی تھی۔ہم الفانسو ہسپانوی کے شراب خانے میں جمع تھے۔ میں ، گرنگو، مرسیدس، جولیو، رائول، خوب محفل جمی ہوئی تھی۔ رات گہری ہو رہی تھی اور الفانسو کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے کہ وہ ہم سے جان چھڑانا چاہتا ہو۔ اب یاد نہیں کس نے بات چھیڑی، مگر شاید رائول نے جولیو کو مخاطب کیا تھا۔
"یار وہ ٹیریسا کی کہانی تو سناؤجس نے کوئی شرط جیتی اور ایک نئی زندگی شروع کر دی؟"
مرسیدس نہ بھی بولتی تو جولیو سب کو یہ کہانی سناتا۔ اسے کہانیاں بنانے اور سنانے میں کمال حاصل تھا۔ اس نے الفانسو کی طرف دیکھااور اپنا گلاس بلند کیا۔ اس کی نظروں میں نہ جانے کیا تھا کہ سب کے گلاس دوبارہ بھرے گئے۔ وہ شروع ہوا۔
ٹیریسا اپنی بہن ماریا کی تدفین کے دو ہفتے بعد اس قصبے میں نمودار ہوئی۔ وہ یہ معلوم کرنے آئی تھی کہ ماریا کی موت کن حالات میں ہوئی۔ وہ کچھ عرصہ یہاں رہی ۔ دونوں بہنیں ہم شکل تھیں مگر یہ مماثلت صرف ظاہری تھی۔ ماریا کو کوئی سمجھ ہی نہیں پایا۔ سب اسے مذاق سے یا طنزاً دلہن کہتے۔ اس کی میڈم کو تو اس کا پورا نام ہی معلوم نہ تھا۔
مرسیدس کو ٹیریسا سے زیادہ ماریا کی کہانی دل چسپ لگی ، وہ پوچھ بیٹھی۔
ماریا کم عمری میں اس ساحلی قصبے میں آئی تھی اور اسے شادیوں میں شرکت کا جنون تھا۔ وہ شادیوں میں شامل ہوجاتی اور اس کی نظریں دلہن پر مرکوز رہتیں۔ اسے دلہنیں اور ان کا لباس اتنا پسند تھا کہ اس کے بالا خانے کی لڑکیوں نے اس کا نام ہی دلہن رکھ دیا۔
مرسیدس پھر بول پڑی: وہ یہاں کی نہیں، میں نے تو اسے ہمیشہ یہیں ساحل پر ہی گھومتے پھرتے دیکھا ہے۔
جولیو بڑی وارفتگی سے بولا
وہ یہاں خستہ حالت میں آئی تھی۔ مجھے آ ج بھی وہ سہ پہر یاد ہے جب وہ کشتی سے اُتر رہی تھی۔ مجھے لگا جیسے کوئی جل پری سمندر سے نمودار ہو رہی ہے۔ اسے ساحل ، چٹانیں اور چاند بے حد پسند تھا۔ وہ ایک بے چین روح پتا نہیں کس چیز کی تلاش میں پھرا کرتی تھی۔ سب اسے یہیں کا سمجھتے ہیں جب کہ وہ بہت دور سے آئی تھی۔
کہاں سے؟ مرسیدس کی ٹوہ لینے والی عادت اسے بار بار سوال کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔
وہ کسی قصبے سے تھی، یہاں سے بہت دور۔
مگر وہ یہاں آئی ہی کیوں؟ اس بار رائول بولا۔
وہ پندرہ برس کی تھی جب کرنل لوقا کے بیٹے نے اسے شادی کا جھانسہ دے کربرباد کر دیا تھا۔ پورے قصبے میں بات پھیل گئی۔ ماریا کے باپ کا بس اپنی بیٹی پر ہی چل سکتا تھا لہٰذا اس نے اسے بہت پیٹا اور گھر سے نکال باہر کیا۔ ایک خانماں خراب لڑکی جس کی عزت کا جنازہ نکل چکا ہو وہ اس قصبے میں کیسے رہ سکتی تھی۔ اس قصبے میں اس کے باپ کا نام تھا، عزت تھی۔ بس وہ اسی لیے یہاں آگئی۔
جولیو نے ایک بڑا گھونٹ لیا۔ اس کی کہانی بڑی روانی سے جاری تھی۔ یہ کہانی میں نے مادام برونا سے بھی سنی تھی۔ مادام برونا اس علاقے کے سب سے بڑے بالا خانے کی منتظمہ تھی۔ اس علاقے میں اس کی بہت عزت تھی، اس لیے نہیں کہ وہ ایک بارسوخ اور امیر عورت تھی، اس لیے کہ وہ سب کے دکھ درد کی سانجھی تھی۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والی لڑکیوں کا خیال بالکل اپنی بیٹیوں کی طرح رکھتی۔ اس کے ہاں کے اصول بے حد سخت تھے۔ آنے والا جس بھی عہدے یا حیثیت کا حامل ہو وہاں اگر وہ ذرا بھی اوقات سے باہر ہوتا، مادام اسے وہاں سے چلتا کر دیتی۔ ماریا جب مادام برونا کے ہاں پہنچی تو وہ اس کے یہاں کی سب سے کم عمر اور خوب صورت لڑکی تھی۔ مادام برونا اور دیگر اسے بالکل اپنی بیٹیوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔ انھوں نے اسے رنگ برنگی گڑیائیں لا کر دی تھیں اور وہ ان سے جی بھر کر کھیلتی۔ مادام برونا نے اسے کبھی جسم فروشی پر مجبور نہیں کیا تھا۔ ماریا کو سمندر سے دیوانگی کی حد تک پیار تھا۔ وہ صبح سویرے، شام ڈھلے، رات گئے مختلف اوقات میں سمندر کے کنارے گھومتی پھرتی نظر آتی یا پھر چرچ میں کسی شادی کی تقریب میں۔ مادام کے ہاں اس کا آرام دہ سجا سجایا کمرہ تھا جو وہ صرف سونے کے لیے استعمال کرتی ، سارا وقت تو وہ باہر ہی گھومتی پھرتی۔ جولیو مادام برونا کا ایک طرح سے خدائی خدمت گار تھا۔ اس کے گھر میں مرمت کا کوئی کام ہو یا کوئی چیز لانی ہو، جولیو ہر کام میں حاضر۔ وہ وہاں جا کر اپنی آنکھیں سینکتا رہتا اور بھاگ بھاگ کر مادام برونا اور لڑکیوں کے کام کرتا رہتا۔
جس دن ماریا نے وہاں قدم رکھا وہ اسے دل دے بیٹھا۔ جولیو اس سے پہلے بھی ہر نئی آنے والی لڑکی کو دل دے چکا تھا۔مزے کی بات تھی کہ وہ اکثر ماریا کے ساتھ ساحل پر چہل قدمی کرتا نظر آتا ، بعض اوقات تو دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بھی نظر آتے۔ میں نے جولیو سے پوچھا ۔
"تم اکثر اس کے ساتھ نظر آتے تھے، سچ سچ بتاؤ تم میں کبھی کچھ ہوا۔"
جولیو کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ وہ بولا
"بالکل نہیں۔ میں اس کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتا تھا ۔ وہ ہر وقت مجھے یہی بتاتی کہ وہ آج کس کی شادی میں گئی اور اس شادی میں دلہن کا لباس کیسا تھا۔ اسے دلہن کے لباس کی تما م تر جزئیات یاد ہوتیں۔ اس کے نقاب کی لمبائی کیا تھی، اس کا لہنگا کتنا لمبا تھا۔ وہ بس یہی باتیں کرتی اور گھر چلی جاتی۔ "
جولیو میں ایک خوبی تھی ، وہ ہمیشہ سچ بولتا تھا۔آج اگر وہ یہ کہہ دیتا کہ اس کے اور ماریا کے جسمانی تعلقات تھے تو شاید ہم سب یقین کر لیتے۔ سب نے ان دونوں کو اکثر اکٹھے دیکھا تھا۔ اب تو ماریا بھی زندہ نہیں تھی جو اس کے دعوے کی تردید کرتی۔ وہ سچا تھا ، وہ واقعی ماریا سے سچا پیار کرتا تھا ۔ جولیو جب ماریا کے بارے میں بات کررہا تھا تو گویا ایک لہر میں ، ایک لے میں بات کر رہا تھا۔ وہ جیسے بے خودی کے عالم میں تھا۔ اسی طرح آہستہ آہستہ اس نے ماریا کی پوری داستان بیان کردی۔ جولیو بولا۔
ماریا نے مجھے اپنے لٹنے کی پوری داستان سنائی تھی۔ وہ پندرہ برس کی ہو چکی تھی مگر اسے گڑیاؤں کی شادی کروانے کا بہت شوق تھا۔ جہاں تہاں سے اسے جیسا بھی کپڑا ملتا ، وہ نقاب اور فراک تیار کر لیتی۔ اس نے اپنی گڑیا کی شادی اپنی سہیلیوں کےگڈوں یہاں تک کہ پالتو جانوروں سے بھی کی تھی۔ کرنل کے بیٹے نے اسےکہا کہ وہ کیاچھوٹے بچوں کی طرح اپنی گڑیا کی شادی کرتی رہتی ہے،وہ تو خود دلہن بننے کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ کیا وہ اس سے شادی کرے گی؟ بچگانہ ذہن رکھنے والی بولی کہ ٹھیک ہے وہ اس سے شادی کرے گی مگر بدلے میں اسے بہت خوب صورت لباسِ عروسی چاہیے۔ مہین نقاب اورکاسنی رنگ کا لہنگا جس کی طوالت بہت زیادہ ہو۔ کرنل کے بیٹے نے ہامی بھر لی اور بدلے میں ماریا مادام برونا کے یہاں پہنچ گئی ۔ اس کا ذہن جیسے اسی نقطے پر رک گیا تھا ۔ اسے عروسی لباس کا انتظار تھا مگر بدلے میں کیا ملا ،دھوکہ، بے وفائی اور باپ کی مار اور دھتکار۔ وہ پگلی چھپ چھپ کر چرچ جاتی اور دلہنوں کو دیکھتی۔ وہ دوانی تو کرنل کے بیٹے کی شادی میں بھی گئی تھی۔ اس کی دلہن کا لباس ریو ڈی جنیرو میں تیار ہوا تھا۔ مہین جالی کے نقاب پرکڑھائی اور لہنگا اتنا طویل کہ دونوں طرف چھ چھوٹی لڑکیوں نے اسے اٹھایا ہوا تھا۔ اس شادی کے بعد وہ مادام برونا کے پاس آ گئی تھی۔
کلب میں بالکل خاموشی چھا گئی۔ اسے سناٹا کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ جولیو کی آواز بھرا چکی تھی۔الفانسو بھی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سب کی آنکھیں نم تھیں۔ مرسیدس نے پوچھا۔
سب چونک گئے۔ جولیو نے بہت پہلو بدلے کہ وہ ماریا کے بارے میں مزید بات نہیں کرسکتا مگرہم سب کے اصرار پر اس نے ہمت جمع کی۔
بس وہ پگلی اسی طرح گھومتی رہی۔ حالاں کہ وہ چاہتی تو مادام کے گھر آرام سے رہ سکتی تھی۔ اس کے لیے تو بہت سے امیر زادے پاگل تھےمگر مادام برونا نے اسے کبھی پیشے کے لیے مجبور نہیں کیا۔ وہاں سب لڑکیاں اسے چھوٹی بہنوں کی طرح پیار کرتی تھیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ تین برس قبل اس حصے میں فلو کی وبا پھیلی تھی، شہر کے شہر خالی ہوگئے۔ وہ دیوانی بھی بس چار دن میں نپٹ گئی۔ اس رات بھی آج کی طرح شدید بارش ہو رہی تھی۔ مجھے مادام برونا کا پیغام ملا کہ میں فوراً پہنچوں ۔ میں پتا نہیں کس طرح وہاں پہنچا۔ وہاں پہنچا تو ماریاکی موت کی خبر ملی۔ مادام برونابری طرح رو رہی تھیں۔ مجھے تو کارلا نے ایک طرف لے جا کر بتایا کہ ماریا کی آخری خواہش تھی کہ اسے لباسِ عروسی میں، نقاب، لہنگے اور پھولوں کے ہار پہنا کر دفنایا جائے اورجولیو دولہا بن کر چرچ تک جائے۔یہ بہت عجیب درخواست تھی مگر وہ ماریا کی محبت کی خاطر مان گیا۔ اس رات کی باتیں اب ایک خواب لگتی ہیں۔ شدید طوفانی بارشیں اور لباسِ عروسی مگر مادام برونا اور دیگر لڑکیاں ماریا سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ پتا نہیں انھوں نے کیا کیا مگر جلد ہی کپڑے ، پھول اور دیگر لوازمات اکٹھے کر لیے گئے۔ سب نے مل کر لباس تیار کیے۔آپ سب کو شاید یہ مبالغہ لگے مگر ماریا کا لباس بے حد خوبصورت تھا اور اس لباس میں وہ اتنی خوب صورت لگ رہی تھی کہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس دنیا سے جا چکی ہے۔ اس کا نقاب بہت خوب صورت اور لہنگا بے حد طویل تھا۔ ہر چیز کاسنی رنگ کی تھی، جوتے اور رومال بھی۔ اگلے دن میں دولہے کے لباس میں پہلے چرچ اور پھر قبرستان گیا۔
کلب میں اتنی خاموشی تھی کہ بارش کی ٹپ ٹپ صاف سنائی دے رہی تھی۔ جولیو خاموش ہو چکا تھا۔ اس نے اپنا بوجھ ہمیں منتقل کر دیا تھا۔ اس کی بے چین روح کو شاید اب قرار آجائے مگر ہم اس بوجھ کا کیا کریں گے۔ ماریا کی بہن ٹیریسا کے متعلق وہ ایک لفظ بھی نہ بولا، کیسے وہ شرط جیتی اور نئی زندگی شروع کی۔ میں اس بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا کہ مجھے واقعی علم نہیں کہ ٹیریسا نےکیا کیاتھا۔ ہاں البتہ مجھے گرنگو کی کہانی پتا ہے مگر وہ کہانی بڑی طویل ہے۔اسے سنانے کے لیے ایسی ہی طویل طوفانی بارش والی رات چاہیے یا پھر ہم کسی چاندنی رات کو مچھلی کے شکار پر نکلیں۔ لیکن آپ اگر ضد کریں گے تو میں وہ کہانی اس وقت بھی سنا سکتا ہوں۔
یورجی (اس نام کو پرتگیزی زبان میں یورجی جب کہ ہسپانوی زبان میں خورخے پڑھا جاتا ہے) امادوبرازیل کے صوبے باہیا Bahia میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نارجیل Cocoaکے کاشت کار تھے۔ انھوں نے اپنے آبائی صوبے کے حالات و واقعات کو اپنی ابتدائی تحریروں میںکثرت سے بیان کیا ہے۔ ان کے تقریباََ تیس ناولوں کی کہانیاں اس علاقے کے گرد گھومتی ہیں اور خصوصاََ نارجیل کے کھیتوں میں کام کرنے والے ہاریوں کی زندگیوں کے متعلق تفصیل مہیا کرتی ہیں۔ 1930 میں انھیں بائیں بازو سے سیاسی وابستگی کی وجہ سے جلا وطن کر دیا گیا مگر ان کے ناولوں میں ان کا سیاسی موقف ضرور نظر آتا۔ وہ 1950 میں دوبارہ برازیل آئے۔ ان کی تحریر کا اختصاص ان کا طویل بیانیہ، مختلف تنازعات، مقامی طعام اور خاص طور پر گندمی رنگ کے نسوانی(Mulattoایسے افراد کو کہا جاتا ہے جن کے والدین میں سے ایک گورا اور ایک کالے رنگ کا ہوتا ہے) مرکزی کردار ہیں۔انھوں نے افریقی -برازیلی افراد کےبرازیلی معاشرے میں انضمام پر کئی ناول تحریر کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے عہد کی سیاسی زندگی کا بھی پھرپور احاطہ کیا ہے۔ ان کے کئی ناولوں کو فلمایا جاچکا ہے۔ وہ ان برازیلی لکھاریوں میں سے ہیں جن کی تحاریر کو بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔
Comments
Post a Comment