افسانہ نمبر 543 : پائپ لائنز، افسانہ نگار : ایٹگر کریٹ، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 543 : پائپ لائنز ( Tzinorot )
افسانہ نگار : ایٹگر کریٹ (Etgar Keret )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ


میں جب ساتویں گریڈ میں پہنچا تو انہوں نے ایک ماہر نفسیات کو سکول میں بلایا تاکہ وہ ہمیں کچھ مطابقتی امتحانات کے عمل سے گزار سکے ۔ اس نے مجھے بیس مختلف فلیش کارڈ باری باری دکھائے اور مجھ سے پوچھا کہ ان تصاویر کے ساتھ کیا گڑبڑ تھی ۔ وہ سب مجھے ٹھیک لگ رہی تھیں لیکن وہ مُصر رہا اور اس نے مجھے پہلی تصویر دوبارہ دکھائی ۔ ۔ ۔ جس میں ایک بچہ تھا ۔
” اس تصویر کے ساتھ کیا گڑبڑ ہے ؟ “ ، اس نے تھکی ہوئی آواز میں پوچھا ۔
میں نے اسے بتایا کہ اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا ۔ اس پر وہ غصے میں آیا اور اس نے کہا ؛
” کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ اس تصویر میں بچے کے کان نہیں ہیں ؟ “
سچی بات تو یہ ہے جب میں نے تصویر کو دوبارہ دیکھا تو میں نے دیکھ لیا تھا کہ بچے کے کان نہیں تھے لیکن اس کے باوجود مجھے یہ تصویر ٹھیک ہی لگی تھی ۔ ماہر نفسیات نے مجھے ایسوں میں شمار کیا جو شدید قسم کے ”عارضہ ِادراک ِ علم “ کا شکار ہوتے ہیں ۔ اور اس نے میرا تبادلہ ترکھانوں والے سکول میں کر دیا ۔ میں جب وہاں گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ مجھے لکڑی کے برادے سے الرجی تھی ۔ انہوں نے ، چنانچہ ، مجھے دھات کے کام سیکھنے میں لگا دیا ۔ میں اس کام میں خاصا اچھا تھا لیکن مجھے یہ کرتے ہوئے مزہ نہیں آتا تھا ۔ ویسے تو سچی بات یہ ہے کہ میں کسی طرح کے کام کو کرتے ہوئے اس سے لطف اندوز نہیں ہوتا تھا ۔ میں نے ، جب سکول کی تعلیم مکمل کی تو میں نے ایک ایسی فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا جو پائپ بناتی تھی ۔ میرا باس ایک انجینیئر تھا جس نے ایک اعلیٰ ٹیکنیکل کالج سے ڈپلومہ کر رکھا تھا ۔ وہ ایک ذہین بندہ تھا ۔ اگر آپ اسے اس بچے کی تصویر دکھاتے جس کے کان نہیں تھے یا کچھ ایسا ہی ، تو وہ اسے فوراً ہی پہچان لیتا ۔ میں کام کے اوقات کے بعد بھی فیکٹری میں ہی رہتا اور اپنے لیے عجیب شکلوں والے پائپ بناتا اور انہیں یوں گھماﺅ دیتا جیسے سانپ کنڈلی مار کر بیٹھتے ہیں اور بھر میں ان میں کنچے اور بنٹے لُڑھکاتا رہتا ۔ مجھے یہ پتہ ہے کہ ایسا کرنا فضول حرکت کے مترادف تھا اور یہ کہ مجھے اس میں کوئی لطف بھی نہیں آتا تھا ، لیکن میں یہ کام کرتا رہا ۔
ایک رات میں نے ایک پائپ بنایا جو واقعی میں خاصا پیچیدہ تھا ۔ اس میں کئی گھماﺅ اور موڑ تھے اور جب میں نے اس میں کنچے ڈالے تو یہ پائپ کے دوسرے سرے سے باہر نہ نکلے ۔ میں نے پہلے تو یہ سوچا کہ یہ بیچ میں کہیں اٹک گئے تھے لیکن جب میں نے اس میں لگ بھگ بیس کنچے اور ڈال کر دیکھے تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سب کے سب بھی اندر جا کر غائب ہو گئے تھے ۔ مجھے معلوم ہے ، کہ میں جو بھی کہہ رہا ہوں وہ احمقانہ بات ہے ۔ میرا مطلب ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ کنچے یا بنٹے یوں غائب نہیں ہو سکتے ، لیکن جب میں نے دیکھا کہ کنچے پائپ کے ایک سرے سے اندر تو جاتے ہیں لیکن دوسرے سرے سے باہر نہیں آتے، تو یہ مجھے عجیب نہ لگا ۔ مجھے یہ بالکل ٹھیک ہی لگا ۔ اور یہ تب ہی ہوا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ، اپنے لیے، اسی شکل کا ایک اتنا بڑا پائپ بناﺅں کہ جس میں میں خود بھی رینگ کر جا سکوں اور تب تک رینگتا رہوں تاوقتیکہ غائب نہ ہو جاﺅں ۔ مجھے جب یہ خیال آیا تو میں اتنا خوش ہوا کہ میں اونچی آواز میں ہنسنے لگا ۔ میرا خیال ہے کہ یہ میری ساری زندگی میں پہلا موقع تھا جب میں نے یوں کھل کر قہقہہ لگایا ۔
اس دن سے میں نے اپنے اس دیو قامت پائپ پر کام شروع کر دیا ۔ میں ہر شام اس پر کام شروع کر دیتا اوراور صبح ہوتے ہی میں اس کے ٹکڑے گودام میں چھپا دیتا ۔ مجھے اسے مکمل کرنے میں بیس دن لگے ۔ آخری رات میں نے اسے پانچ گھنٹے لگا کر جوڑا تو اس نے ورکشاپ کا آدھا حصہ گھیر لیا ۔
اور جب میں نے اسے مکمل حالت میں اپنا منتظر دیکھا تو مجھے ۔ سماجی علوم کا اپنا وہ استاد یاد آیا جس نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں جس انسان نے سب سے پہلے لٹھ استعمال کیا تھا وہ اپنے قبیلے کا سب سے طاقتور یا ہوشیار بندہ نہیں تھا ۔ بس ایسا تھا کہ باقیوں کو اس کی ضرورت نہیں تھی ، جبکہ اس کو تھی ۔ اسے اپنی بقاء کے لیے لٹھ کی ضرورت سب سے زیادہ تھی تاکہ اپنے کمزور ہونے کا مداوا کر سکے ۔ میرا خیال ہے کہ دنُیا میں میرے علاوہ کوئی اور نہیں ہوگا جسے مجھ سے بڑھ کر یہ چاہ ہو کہ وہ غائب ہو جائے ۔ اور یہی وجہ تھی کہ یہ میں ہی تھا جس نے یہ پائپ ایجاد کیا ۔ میں نے ، اس ذہین انجینیئر نے نہیں جس کے پاس کالج کی ٹیکنیکل ڈگری تھی اور جو فیکٹری چلاتا ہے ۔
میں نے پائپ میں رینگنا شروع کیا ۔ مجھے کوئی اندازہ نہ تھا کہ دوسرے سرے تک پہنچنے کے حوالے سے میں کیا توقع کرتا ۔ شاید وہاں ایسے بچے ہوتے جن کے کان نہ ہوتے اور وہ کنچوں اور بنٹوں کے ڈھیروں پر بیٹھے ہوتے ۔ یہ ہو سکتا تھا ۔ مجھے صحیح طور پر معلوم نہیں ہے کہ جب میں پائپ کے اندر ایک خاص جگہ سے آگے بڑھا تو میرے ساتھ کیا واردات پیش آئی تھی لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ میں اب یہاں ہوں ۔
میرا خیال ہے کہ میں اب ایک فرشتہ ہوں ۔ میرا مطلب ہے کہ اب میرے پر ہیں اور میرے سر پر ایک دائرہ ہے اور یہ بھی کہ یہاں میرے جیسے سینکڑوں اور بھی ہیں ۔ اور جب میں یہاں پہنچا ہوں تو وہ پہلے سے ہی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور کنچوں اور بنٹوں سے کھیل رہے ہیں ، حالانکہ میں اس پائپ میں کچھ ہفتے پہلے گھسا تھا ۔
میں نے ہمیشہ ہی یہ سوچا ہے کہ جنت ایک ایسی جگہ ہے جس میں لوگ ہمیشہ کے لیے نیک زندگی گزارتے ہوں گے ، لیکن ایسا نہیں ہے ۔ خدا بہت ہی رحیم اور شفیق ہے جس نے یہ فیصلہ کیا ۔ جنت تو بس ایک ایسی سیدھی سادھی جگہ ہے ، ان لوگوں کے لیے ، جو واقعی میں زمین پر خوش نہیں رہ سکے ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں کچھ لوگ ہیں جوخود کو مار کر یہاں آئے انہیں واپس بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ پھر سے واپس جا کر اپنی زندگی دوبارہ جی سکیں ۔ درحقیقت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں پہلی بار اپنی زندگی پسند نہیں آئی تھی تو یہ ضروری نہیں کہ وہ دوسری بار بھی ا سے ناپسند کریں ۔ لیکن وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں کہیں بھی فِٹ نہیں ہو سکتے ، انہیں تو یہیں رہنا ہے ۔ اور ان کے پاس جنت تک پہنچنے کے لیے اپنے اپنے راستے ہیں ۔
یہاں وہ پائلٹ بھی ہیں جو ’ برمودا تکون ‘ پر پھندوں کی شکل میں اڑان بھرتے ایک خاص مقام پر پہنچ کر غائب ہوئے اور یہاں پہنچے ۔ یہاں ایسی گھریلو خواتین بھی ہیں جو اپنے باورچی خانوں کی الماریوں میں سے گزر کر پار ہوئیں اور یہاں پہنچ گئیں ۔ اور تو اور یہاں ایسے ریاضی دان بھی ہیں جنہوں نے خلاء میں ’ مقاماتی بگاڑ ‘ دیکھے اور ان میں سے گزرتے ہوئے یہاں آن پہنچے ۔ اور اگر آپ ، نیچے ، دنیا میں واقعی ناخوش ہیں اور آپ کو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ شدید قسم کے ” عارضہ ِادراک ِ علم “ کا شکار ہیں ، تو یہاں پہنچنے کے لیے اپنا راستہ ڈھونڈیں اور جب یہ آپ کو مل جائے تو مہربانی کریں ، اپنے ہمراہ تاش کی کچھ گڈیاں ضرور لائیں کیونکہ ہم کنچوں اور بنٹوں سے کھیل کھیل کر خاصے اُکتا چکے ہیں ۔

مترجم کا نوٹ:

درج بالا افسانچہ ایٹگر کریٹ ( Etgar Keret ) کی پہلی تحریر تھی جو اس نے 19 سال کی عمر میں تب لکھی ، جب وہ اسرائیل کی لازمی فوجی سروس کے تحت ایک فوجی آپریشن کوڈ نیم ” Quasimodo“ کے دوران ، اٹیمی بم کے دھماکے سے بچاﺅ کے لیے زیر زمین بنے ایک قدیمی پناہ گاہ ، جس میں کوئی کھڑکی نہ تھی ، میں 48 گھنٹے کی ایک لمبی شِفٹ میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا ڈیوٹی دے رہا تھا ۔

یہ افسانچہ 1992ء میں پہلی بار اس کی کہانیوں / افسانوں کے مجموعے، جس کا نام بھی اسی افسانچے کے نام پر تھا ، میں شائع ہوا تھا ۔ یہ اس کتاب کے علاوہ ایٹگر کریٹ کی کہانیوں کے انگریزی مجموعے ’ The Bus Driver Who Wanted To Be God & Other Stories ‘ میں بھی شامل ہے یہاں یہ ’ Pipes ‘ کے نام سے ہے ۔ یہ مجموعہ 2004 ء میں شائع ہوا تھا ۔ 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق