افسانہ نمبر 542 : ایزمیرالدا، تحریر : میگل بغنے (کیوبا)، مترجم : محمد فیصل (کراچی)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 542 : ایزمیرالدا
تحریر : میگل بغنے (کیوبا)
مترجم : محمد فیصل (کراچی)



زیورخ میوزیم مربع نما سرد عمارت ہے۔ یہاں جیکومیتی کے مجسموں کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ بیک وقت خوب صورت اور اداس ہیں۔ تانبے کے رنگ میں رنگے، نحیف، شرمندہ چہروں والے مجسمے، جن کے بازو ان کے جسموں سے لف ہیں۔ انھیں دیکھ کر کسی پابندی کا سا احسا س ہوتا ہے ، جیسے مجسمہ ساز نے انھیں پابند کر دیا ہے، ان کے جسموں کی آزادی سلب کر لی ہے۔ ایسامحسوس ہوتا ہے جیسے یہ مجسمے فن کار کے تصور کے قیدی ہیں۔ ان مجسموں کو سوچتا ہوں تو بس یہی باتیں ذہن میں گردش کرتی ہیں۔ جیکو میتی کا سب سے مشہور مجسمہ ایک کتے کا ہے جو ایک پلیٹ فارم جو شاید لکڑی یا ماربل کا بنا ہے سے منسلک ہے۔ مجھے تو یہ اتنا پسند نہ آیا کہ مجھے زندہ جانور زیادہ پسند ہیں،خاص طور پر کتے۔ میں نے اس پربس ایک نظر ڈالی مگر کاستیلو گویا اس کا دیوانہ تھا۔ یہ مجسمہ اتنا مشہور ہے کہ سیاح اس کے پوسٹ کارڈ خرید کر بھیجتے ہیں۔ کاستیلیو نے مجھے کہا۔
’’چلو نیچے چل کر کچھ پئیں ۔ میں ایک پوسٹ کارڈ خریدنا چاہتا ہوں۔ یہ پوسٹ کارڈ تم اپنے ساتھ لے جا کر ایزمیرالدا ، میری نیگرس محبوبہ کوپہنچا دینا۔ وہ بڑی دل کش اور نازک اندام عورت ہے جو کاسترو سٹریٹ میں مقیم ہے۔ لے جائو گے ناں‘‘!
’’کیوں نہیں ! مجھے پتا ہے کہ تمھاری سہیلیاں تمھارے تحفوں کا انتظار کرتی ہیں‘‘۔
سردیوں میں زیورخ ایک بجھا ہوا سرمئی ڈبہ نظر آتا ہے جس میں ایک دریا اور بہت سے پُل ہیں۔ گرمیوں میں یہ نہایت فراخی سے اپنی چھب دکھلاتا ہے مگر آج کل تو یہ کسی خالی مقبرے کا سماں پیش کرتا نظر آتا ہے۔ کاستیلیونے وہیں بیٹھے بیٹھے پوسٹ کارڈ پر لکھا۔
پیاری ایزمیرالدا، میں سوئیزر لینڈ میں تمھارے بغیر اس پوسٹ کارڈ پر بنے کتے کی طرح ہوں۔ ہم جلد ہی کیوبا میں ملیں گے اور میں تمھارا ننھا ڈوگی بن جائوں گا۔
بہت سا پیار، کاستیلیو
’’اب ہم تمھاری مما کے لیے خوب صورت جوتے خریدیں گے۔ تم انھیں میری طرف سے تحفہ دے دینا اور پھر ایزمیرالدا کے لیے عمدہ پرفیوم اورنیلے رنگ کی SWATCHگھڑی خریدیں گے۔ نیلا رنگ اس کے جلد کی مناسبت سے ٹھیک رہے گا‘‘۔
ہم دونوں نے ایساہی کیا۔ اس کے بعد ہم دونوں کیوبا میں ملنے کا وعدہ کرکے رخصت ہوگئے۔ اگلے دن میں نے پیرس کی ٹرین پکڑی اور زیورخ کو الوداع کہہ دیا۔ میں پوسٹ کارڈ، پرفیوم اور گھڑی اپنے دستی بیگ میں ساتھ لیے یورپ کی بہترین جھیلوں کے نظارے کرتا رہا۔ والدہ کے جوتے میرے سوٹ کیس میں تھے۔ زیورخ کی نسبت پیرس ہر موسم میں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے لہٰذا میںپورا ایک مہینہ پیرس کی سڑکیں ناپتا رہا۔ پرفیوم اور تحفے میرے شولڈر بیگ میں میرے ساتھ ہی رہتے۔ مجھے ان کے چوری ہو جانے کا ڈر تھا۔ SWATCHکی قیمت پیرس میں زیورخ سے زیادہ تھی مگر پرفیوم تو دنیا بھر میں زیورخ سے سستا مل سکتا تھا۔ میں نے پیرس سے کاستیلیو کو ایک پوسٹ کارڈ بھیجا ۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ میں اس کے بھیجے گئے تحفے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔
جیسے ہی میں اپنا بیگ کھولتا اور پوسٹ کارڈ وغیرہ پر نظر پڑتی تو ایزمرالدا کا خیال آتا۔ میرا دل چاہتا کہ میں اڑ کر ہوانا پہنچوں اور کاستیلیو کی منظور نظر کو دیکھوں۔ رات کا زیادہ حصہ ایزمیرالدا کے بارے میں سوچنے میں گزرتا۔میں ان چیزوں کو کھونے کا روادار نہیں تھا۔ مجھے یوں لگنے لگا کہ جیسے ہوانا، کاسترو سٹریٹ اور ایزمیرالدا میرے بے حد قریب آچکے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ تینوں میری قیمتی ترین ملکیت ہیں اور ان کی بدولت مجھے دنیا پہلے سے بہتر لگ رہی ہے۔ ایک مہینے بعد میں کیوبا بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہو گیا۔ جیسے ہی میں طیارے سے باہر قدم نکالا، ہوا میں نمی کی بدولت میری عینک کے شیشے دھندلے ہوگئے۔ یہ ہوانا ہے، میں نے خود سے کہا۔ یہ نمی ایک دن میری جان لے کے رہے گی۔ خیر مرنا تو ایک دن سبھی نے ہے۔ اور بہت سی کہانیاں سنانے اور خوشیاں پھیلانے میں ہوائی اڈے سے باہر نکل آیا۔
واپس آکر میں نے سامان احتیاط سے ایک الماری میں رکھا اور ایک پورا دن سو کر گزارا۔ ایزمیرالدامیرے خوابوں میں مختلف حلیوں میں آتی جاتی رہی۔ کبھی وہ کسی مزدور کی بیٹی نکلتی، کبھی سکول ٹیچرکی، کبھی کسی ٹیکسی ڈرائیور کی اور کبھی صرف ایک آسانی سے دست یاب ہو جانے والی لڑکی جس نے کاستیلیو کے دل میں گھر کر لیا ہے۔ اگلے دودن میں نے اپنے فلیٹ کی ضروری مرمت میں بسر کیے۔ ٹیلی فون بحال ہونے کے بعدمیں نے دوستوں کو اپنی واپسی کی اطلاع دی اور جب میرا فلیٹ رہنے کے قابل ہوگیا تو میں ایزمیرالدا کے تحفے لے کر فوراََ کاسترو سٹریٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔
یہ جگہ پہچاننے میں نہ آ رہی تھی۔ کاسترو سٹریٹ اب ایک بہت بڑی کچرا کنڈی بن چکی تھی۔ سڑکوں پر لوگ جتھوں کی شکل میں براجمان تھے۔ کچھ بیٹھے شطرنج کھیل رہے تھے تو کچھ تاش۔ بس اس کی وجہ شہرت اور کچھ عمارتیں اس کی عظمتِ رفتہ کی نشانیاں تھیں۔ یہ علاقہ ہوانا کا ریڈ لائٹ ایریا بن چکا تھا۔ انقلاب نے بہت سی برائیاں ختم کر دی تھیں مگر اس قدیم ترین برائی کا خاتمہ وہ بھی نہیں کر سکا تھا۔اس علاقے میں گاڑی کھڑی کرنا ہی ایک مسئلہ بن گیا۔ میں نے گاڑی سے نکل ایک دو عورتوں سے درخواست کی کہ وہ آگے پیچھے ہو جائیں تو میں اپنی گاڑی کھڑی کر لوں۔ انھوں نے وہاں سے ہٹنے میں بہت دیر لگائی اور آخر دس منٹ بعد میں گاڑی مناسب جگہ کھڑی کرنےمیں کام یاب ہو گیا۔ پورے علاقے سے سڑی ہوئی بند گوبھی کی بو آرہی تھی۔ دونوں میں کوئی بھی ایزمیرالدا نہیں تھی، میں ان کی شکلیں دیکھ کر ہی یہ سمجھ گیا تھا۔
میں نے مطلوبہ مکان پر پہنچ کر دستک دی۔ ایک بے حد فربہ اور بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا۔ میں نے اس سے اپنے دوست کی محبوبہ کے بارے میں سوال کیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ ابھری۔
’’وہ سب سے اوپر والی منزل پر رہتی ہے مگر اس وقت وہ کسی کے ساتھ باہر گئی ہوئی ہے۔ مگر تم اندر آجائو، اس علاقے میں سب کا ایک ہی کام ہے، افواہیں بنانا اور پھیلانا۔ دیکھو سب تمھیں ہی دیکھ رہے ہیں،جلدی سے اندر آجائو‘‘۔
میں اندر داخل ہوا۔ وہاں لائونج میں بہت سی بلیاں اور کتے موجود تھے۔ میں نے حیرت سے مجبور ہو کر سوال کیا۔
’’یہ اجنبیوں پر بھونکتے یا انھیں کاٹتے نہیں ہیں‘‘؟
’’نہیں! میں نے انھیں ایسے ہی پروان چڑھایاہے‘‘۔
وہ باتیں کرنے کی بےحد شوقین تھی مگر بے حد آہستہ آواز میں باتیں کر رہی تھی۔ شاید اسے ڈر ہو کہ اس کی آواز گھر سے باہر نہ جائے۔ اس نے مجھے سے وہاں آنے اور ایزمیرالدا کا پتا پوچھنے کی وجہ دریافت کی۔ میں نے اسےآنے کا مقصد بتایا۔ اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’تم اس کے لیے کچھ لے کر آئے ہو؟ تم سپینش ہو‘‘!
’’نہیں میں کیوبن ہوں‘‘۔
’’کیوبن! مگر تم باہر رہتے ہو‘‘۔
’’نہیں! میں یہیں رہتا ہوں اور تمھاری پڑوسن کے لیے کچھ تحفے لے کر آیا ہوں‘‘۔
’’بہت خوب! مگر میں تمھیں بتا چکی ہوں کہ وہ کسی کے ساتھ باہر گئی ہوئی ہے۔ وہ جب بھی باہر جاتی ہے اپنے بچے اپنی بہن کے پاس چھوڑ کر جاتی ہے۔ دونوں بہنیں مجھے اچھا نہیں سمجھتیں مگر میں اس کے تحفے سنبھال کر رکھ سکتی ہوں۔ تم کہاں سے آئے ہو! اوہ تم تو کیوبن ہو اور کہیں باہر بھی نہیں رہتے۔ اب اگر تم چاہو تو میں یہ تحفے وصول کر لوں، یا پھر اس علاقے کے سیکرٹری کے پاس رکھوادیں یا پھر تم کسی اوروقت آجانا‘‘۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، اوپری منزل سے ایک تیز چیخ نما آواز آئی۔
’’بڑھیا! ہر وقت جاسوسی کرتے رہنا۔ اسے اوپر بھیجو‘‘۔
اس عورت نے برا سامنہ بنایا اور مجھے سیڑھیاں دکھائیں۔
’’ان کا گھر چوتھی منزل پر ہے‘‘۔
میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا۔ ایک سیاہ فام عورت ، اپنے فلیٹ کے دروازے پر ہی کھڑی تھی۔ میں اندر آکر ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔عورت بڑی پُر کشش تھی اور اس کا جسم گویا کسی سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔
’’میں ییلینا ہوں۔میں نے تمھاری اور اس چڑیل کی باتیں سن لی ہیں۔ کیا کسی نے میرے لیے کچھ بھیجا ہے؟‘‘
’’نہیں محترمہ! یہ ایزمیرالدا کے لیے ہے۔‘‘
’’آہ! میری بہن کے لیے۔ تم اسے میرے سپرد کر سکتے ہو۔ میری بہن ایک گھنٹہ پہلے یہاں سے نکلی ہے مگر دیر سے واپس آئے گی۔یہ گنتھر نے بھیجا ہے؟‘‘
’’ نہیں ! کاستیلیو نے۔‘‘
’’اوہ! کاستیلیو۔ میری بہن کا منگیتر۔‘‘
’’ایزمیرالدااس کے پیغام کاکئی دنوں سے بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔ کاستیلیو اس سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر ایزمیرالدااپنے دوبچوں کےبارے میں سوچتی رہتی ہے۔شادی کے بعد ان کا کیا ہوگا؟ کیا کاستیلیو انھیں قبول کر لے گا؟ خیر۔۔تم جرمن ہو؟‘‘
’’نہیں میں کیوبن ہوں اور کاستیلیو میرا بڑا گہرا دوست ہے۔میں اسے زیورخ میں ملا تھا اور اس نے مجھے تمھاری بہن کے لیے یہ تحفے دیے تھے۔وہ اس کے بارے میں بات کرتا رہتا ہے ۔‘‘
ییلینا نے مجھے کافی کا ایک کپ لا کر دیا۔
’’یہ کپ بھی کاستیلیو نے دیے ہیں۔ اسے ان میں عمدہ کافی پینا پسند ہے۔ اس کا ذوق نہایت عمدہ ہے‘‘۔۔
ایزمیرالدا اور ییلینا کا فلیٹ کسی بھی اچھی کالونی میں ہونا چاہیے تھا ۔ پورے فلیٹ میں سجاوٹ کی عمدہ چیزیں نظر آرہی تھیں اور انھیں عمدگی اور قرینے سے مناسب جگہوں پر سجا یا گیا تھا۔ اس علاقے سے آنے والی سڑی بند گوبھی کی بو میں اب سستے پرفیوم کی خوش بو شامل ہو چکی تھی اور میرا دل وہاں سے اوبھ چکا تھا۔ ییلینا مسلسل بولے جارہی تھی
’’میں یہ تحفے اس کی الماری میں رکھ کر تالا لگادوں ورنہ بچے انھیں خراب کر دیں گے، ایزمیرالدا ویسے ہی کاستیلیو کی دی گئی ہر چیز بے حد محبت اور حفاظت سے سنبھال لیتی ہے۔کیاتمھیں اور کافی چاہیے‘‘۔
’’نہیں! شکریہ‘‘۔
ییلینا تحفے رکھنے اندر گئی اور تھوڑی دیر بعد ساٹن کے نیلے رنگ کے عمدہ لباس میں واپس آئی۔ وہ میری طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔وہ شاید یہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ میرا ارادہ کیا ہے؟ اس کی آنکھوں میں ایسا کچھ تھا کہ میں نے وہاں سے نکلنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس نے فلیٹ میں بے ترتیبی اور دھول کی معذرت کی کہ اسے علم نہ تھا میں آنے والا ہوں۔
’’بچوں کی وجہ سے کسی اور کام کے لیے وقت ہی نہیں بچ پاتا۔ ہماری ماں مر چکی ہے اور بس اب ہم دونوں ہی ایک دوسرے کا خیال رکھ رہی ہیں۔ ایک بات بتائو؟ کیا کاستیلیو نے ایزمیرالدا سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا تھا؟‘‘
"نہیں! اس نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔"
میں نے اس سے اجازت چاہی۔ اس نے مجھے رکنے کو کہا مگر میں اٹھ کھڑا ہوا، اندرونی دروازے سے دو بچیوں کی شکل نظر آئی۔
’’پیاری بچیاں ہیں۔ بالکل آپ پر گئی ہیں‘‘۔
’’بچیاں تو پیاری ہیں مگر یہ میری نہیں ہیں۔ یہ ایزمیرالدا کی ہیں اور میں اور میری بہن ہم شکل ہیں۔‘‘
سیڑھیاں اترتے اترتے بندگوبھی اور پرفیوم کی ملی جلی بو کے ساتھ بلیوں اور کتوں کی بو بھی شامل ہو گئی۔ میں نے نچلی منزل پر رہنے والی بڑھیا کے گھر کا دروازہ کھولا، وہ وہیں لائونج میں بیٹھی تھی مگر بالکل انجان بنی رہی۔ میں نے اسے دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور باہر نکل گیا۔پسینے سے میری قمیض میرے جسم سے چپک چکی تھی۔ میری گاڑی کے ارد گرد کافی مرد جمع ہو چکے تھے۔ میں نے فوراََ سارے پہیے ، شیشے ، وائیپردیکھےاور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس علاقے میں بسنے والوں میں کچھ انسانیت ابھی بھی باقی تھی۔ میں کچھ دیر گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔ میں نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر دیکھا تو ییلینا بالکنی میں کھڑی ہاتھ ہلارہی تھی۔ اتنے فاصلے سے مجھے اس کے سامنے کے دانتوں کا خلا پہلے سے زیادہ بڑا لگا۔ دونوں میں سے زیادہ خوب صورت کون تھی؟ ایزمیرالدا یا ییلینا! شاید میں کبھی جان نہ پائوں۔
انجن جاگا، کہ اچانک دو لڑکیاں میرے پاس آئیں اور بیک آواز بولیں۔
’’کیا تم کاستیلیو کے دوست ہو؟‘‘
میں مسکرایا اورایکسیلیٹر پر وزن بڑھا دیا۔ اس وقت مالیکُن بالکل سنسنان تھا۔ پورے منظر نامے میں برمودا شارٹ پہنے دو سیاح اور ایک اداس کتا نظر آرہا تھا، جیکومتی کے کتے جیسا۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
مصنف کا تعارف:
میگل بغنے
Miguel Ángel Barnet Lanza
1940-
_____________
مصنف، مترجم اور ماہر نژادیات Ethnographerکیوبن-افریقن کلچرکے ماہر ہیں۔ وہ دو بار اقوام متحدہ میں یونیسکو کمیٹی برائے کیوبن-افریقن کلچر میں منتخب کیا گیا۔ ان کی وجہ شہرت1963 میں تحریر کردہ دو سابقہ غلاموں کے حالاتِ زندگی دنیا کے سامنے لانا تھا۔ اس وقت ان سابقہ غلاموںکی عمریں 100 برس سے زائد تھیں۔ ان کی نثر کی چھ جب کہ شاعری کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق