افسانہ نمبر 541 : خوشی کی آرزو، افسانہ نگار: تھامس مان (جرمنی)، ترجمہ: جاوید بسام (کراچی)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 541 : خوشی کی آرزو
افسانہ نگار: تھامس مان (جرمنی)
اولڈ ہوفمین نے جنوبی امریکہ میں باغات کے مالک کی حیثیت سے خوب دولت کمائی۔ اس نے وہیں ایک اچھے گھرانے کی مقامی خاتون سے شادی کی اور اپنے آبائی وطن شمالی جرمنی لوٹ آیا۔ جہاں اس کے تمام رشتے دار رہتے تھے۔ پاؤلو کی پیدائش وہیں ہوئی تھی۔ میں اس کے والدین سے اچھی طرح واقف نہیں ہوں، لیکن پاؤلو اپنی ماں کی شبیہ تھا۔
میں نے اسے پہلی بار اس وقت دیکھا، جب ہمارے والد ہمیں اسکول میں داخلہ دلوانے گئے تھے۔ وہ زرد چہرے والا ایک دبلا پتلا لڑکا تھا۔ اس نے ملاحوں والا لباس پہنا ہوا تھا۔ جس کے کالر پر اس کے سیاہ لمبے بالوں کے گھچے بکھرے تھے اور چہرہ بہت پتلا لگ رہا تھا۔ وہ دیوار کے قریب کھڑا تھا، لیکن میں اسے واضح طور پر دیکھ رہا تھا۔ چوں کہ ہم دونوں نے اب تک گھر میں بہت لاڈ پیار میں وقت گزارا تھا۔ اس لیے ہم نئے ماحول، خالی دیواروں، ویران بھاں بھاں کرتی جماعتوں اور خاص طور پر سرخ داڑھی والے استاد کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جو ہمیں ابتدائی سبق سکھانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جب میرے والد وہاں سے رخصت ہونے لگے تو میں روتے ہوئے ان کے کوٹ سے لپٹ گیا، جب کہ پاؤلو دم بخود کھڑا رہا۔ وہ اپنے پتلے ہونٹ بینچے، دیوار سے ٹیک لگائے اپنی آنسو بھری، بڑی بڑی آنکھوں سے لڑکوں کے پرجوش ہجوم کی طرف دیکھ رہا تھا جو بدتمیزی سے مسکرا رہے تھے اور ایک دوسرے کی پسلیوں میں کہنیاں مار رہے تھے۔ اس بدروحوں سے گھرے ماحول میں ہم فوراً ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوگئے اور جب سرخ داڑھی والے استاد نے ہمیں ایک ساتھ بیٹھنے کی اجازت دی تو ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ اس دن سے ہم ایک ساتھ رہتے اور درمیانی وقفے میں سینڈوچ کا تبادلہ کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ پاؤلو آغاز سے ہی بیمار تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً کئی کئی دن جماعت سے غائب رہتا اور جب دوبارہ حاضر ہوتا تو اس کی کنپٹیوں اور گالوں پر ہلکی نیلی رگیں معمول سے زیادہ ابھری نظر آتیں۔ وہ ہمیشہ اس کے چہرے کا حصہ رہیں۔ میونخ اور پھر روم میں ہماری ملاقات کے دوران بھی وہ مجھے اسی طرح نظر آئیں۔ ہماری دوستی اسکول کے تمام سالوں میں اسی بنیاد پر قائم رہی جس سے آغاز ہوا تھا۔ یہ اکثریت سے "دوری کی روش" تھی جو ہم نے اپنے زیادہ تر ہم جماعتوں کے ساتھ محسوس کی تھی، یہ جذبہ ان سب نے محسوس کیا ہوگا جو پندرہ سال کی عمر میں چوری چھپے ہائن (جرمن شاعر) کو پڑھتے ہیں اور دنیا اور بنی نوع انسان کے بارے میں فیصلہ سناتے ہیں۔
میرا خیال ہے۔۔۔۔۔ ہم سولہ سال کے تھے۔ جب ہم نے ایک ساتھ ناچ کی کلاسیں لیں اور اپنی پہلی محبت کا تجربہ کیا۔ وہ ایک چھوٹی لڑکی کو پسند کرتا تھا، سنہرے بالوں والی خوش مزاج مخلوق۔ جس نے اس کے دل کو چھو لیا تھا، ایک اداس جذبے کے ساتھ جو اس کی عمر کے لیے قابل ذکر تھا اور جو کبھی کبھی مجھے عجیب محسوس ہوتا تھا۔ مجھے خاص طور پر ایک ناچ کی شام یاد ہے۔ اس لڑکی نے دوسرے ساتھی کے ساتھ یکے بعد دیگرے دو کوٹیلین ڈانس کیے، لیکن اُس کے ساتھ ایک بھی نہیں کیا۔ میں نے تشویش سے اسے دیکھا۔ وہ میرے پاس کھڑا دیوار سے ٹیک لگائے اپنے پیٹنٹ چمڑے کے جوتوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک گر کر بے ہوش ہوگیا۔ اسے گھر لے جایا گیا۔ وہ ایک ہفتہ تک بیمار رہا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ہی وہ موقعہ تھا جب انہیں پتہ چلا کہ اس کا دل صحت مند نہیں ہے۔ اس نے جلد ہی ڈرائنگ میں مہارت کرلی تھی۔ میرے پاس کاغذ کی ایک شیٹ تھی۔ جس میں اس لڑکی کے چہرے کا ایک واضح چارکول خاکہ تھا، جس پر لکھا تھا۔”تم ایک پھول کی طرح ہو! عمل: پاؤلو ہوفمین۔“
مجھے اس بارے میں ٹھیک طرح یاد نہیں ہے۔ بہرحال ہم غالباً ہائی اسکول کے آخری سال میں تھے جب اس کے والدین کارلسروہے چلے گئے، جہاں اولڈ ہوفمین کے روابط تھے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ پاؤلو کا اسکول نہیں بدلا جائے، اسے بورڈنگ اسکول میں ایک بوڑھے استاد کے سپرد کر دیا گیا۔
تاہم یہ کیفیت زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ شاید اگلا واقعہ اس کی براہ راست وجہ نہ بنا ہو، لیکن اس میں حصہ ضرور ڈالا۔ جس کے باعث ایک خوشگوار دن پاؤلو بھی اپنے والدین کے پاس کارلسروہے چلا گیا۔
ہوا یہ کہ ہماری مذہبی کلاس کے دوران سوال کرنے والا استاد غصیلی نظروں سے پاؤلو کو دیکھتا اس کی طرف بڑھا اور سامنے پڑے عہد نامے کے نیچے سے ایک کاغذ نکالا۔ جس پر ایک عریاں خاتون کی خاکہ کشی کی گئی تھی، تصویر مکمل تھی، سوائے اس کے بائیں پاؤں کے جو بنانے سے رہ گیا تھا۔ قصہِ مختصر پاؤلو کو بھی کارلسروہے بھیج دیا گیا، ہم وقتاً فوقتاً پوسٹ کارڈز کا تبادلہ کرتے رہے۔ پھر ایک پرانا تعلق آہستہ آہستہ ختم ہوگیا۔
جب ہم اتفاقاً میونخ میں ملے تو ہماری علیحدگی کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ موسم بہار کی ایک شاندار صبح جب میں امالینسٹراس کے ساتھ چہل قدمی کررہا تھا۔ میں نے دور سے کسی کو اکیڈمی کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے دیکھا۔ وہ تقریباً ایک اطالوی ماڈل سے مشابہ تھا، نزدیک آتے ہی میں نے اسے پہچان لیا، درمیانہ قد، دبلا پتلا، زرد رنگ کے چہرے پر چھوٹی نیلی رگیں، ہلکی سی مڑی ہوئی چھوٹی مونچھیں، عمدہ لباس میں ملبوس، مگر لاپرواہی یوں نمایاں تھی کہ واسکٹ کے کئی بٹن کھلے ہوئے تھے۔ اس کی ٹوپی گھنے سیاہ بالوں پر جمی ہوئی تھی۔ وہ رواں، لیکن سست چال کے ساتھ میری طرف چلا آرہا تھا۔ ہم نے تقریباً ایک ساتھ ایک دوسرے کو پہچان لیا اور گرمجوشی سے ملے۔ پھر ہم منروا کیفے میں گئے اور گزشتہ برسوں میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بات چیت کرنے لگے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بہت خوش اور پرجوش ہے، لیکن اس کے باوجود وہ صحت مند نظر نہیں آرہا تھا۔ اب میرے لیے بات کرنا آسان تھا۔ آخر میں نے یہ بات براہ راست کہہ دی۔
”اوہ، کیا میں اب بھی بیمار لگ رہا ہوں؟“ اس نے پوچھا۔”میرا دل، یہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔ پچھلے سال میں بہت بیمار تھا۔ یہ یہاں ہے۔“
اس نے بائیں ہاتھ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔
”تاہم، میں فی الحال بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں، بالکل ٹھیک۔۔۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ کافی صحت مند ہے۔ میرا مطلب ہے، یہ بہت افسوسناک ہوتا۔ اگر میری عمر تئیس سال نہ ہوتی۔“
اس نے مجھے اعتماد اور پرجوش انداز میں زندگی کے گزرے برسوں کے بارے میں بتایا۔ جب ہم جدا ہوئے تھے۔ اس نے اپنے والدین کو راضی کرلیا تھا کہ وہ اسے آرٹسٹ بننے دیں، اکیڈمی سے گریجویشن کیے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ وہ یہاں چلا آیا تھا۔ کچھ وقت آوارہ گردی میں گزارا، پیرس میں رہا اور تقریباً پانچ ماہ سے یہاں میونخ اکیڈمی میں مقیم تھا۔ وہ بولا۔”شاید طویل عرصے تک، یا کون جانتا ہے، شاید ہمیشہ کے لیے.... “
"اوہ اچھا؟" میں نے کہا۔
”ہاں، مجھے یہ شہر بہت پسند ہے۔ یہ ماحول، یہ لوگ اور اہم بات یہ ہے کہ یہاں ایک فنکار کی سماجی حیثیت شاندار ہے۔ یہاں تک کہ ایک نامعلوم فنکار کی بھی۔ اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔“
”کیا تم نے یہاں دوستوں کا حلقہ بنایا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”ہاں، زیادہ نہیں، لیکن میں تم کو ایک خاص خاندان سے ملوانا چاہوں گا۔ میں ان سے کارنیول میں ملا تھا.... یہاں کا کارنیول حیرت انگیز ہے۔ اسٹین نام ہے۔ بیرن اسٹین۔“
”اشرافیہ سے تعلق؟“
”ہاں، بیرن ایک اسٹاک بروکر تھا۔ وہ ویانا میں بہت اثر ورسوخ رکھتا تھا۔ خاص طور پر وہاں کی اعلیٰ شخصیات کے ساتھ میل جول تھا۔ پھر اچانک زوال کا شکار ہوا اور کاروبار سے باہر ہوگیا، لیکن پھر اس سے نکلنے میں کامیاب ہوا اور تقریباً ایک ملین بچا لایا۔ اب وہ یہاں سادہ لیکن پروقار انداز میں رہتے ہیں۔“
”یہودی؟“
”وہ نہیں لگتا، بیوی کا تعلق شاید ہو۔ تاہم، میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ انتہائی اچھے لوگ ہیں۔“
”کیا ان کی اولاد ہے؟“
”نہیں، میرا مطلب ہے، ہاں…ایک انیس سالہ دختر ہے، والدین بہت اچھے ہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے تھوڑا خجل نظر آیا، پھر کہا۔” میں تم کو ان سے ملواتا ہوں۔ اس سے مجھے خوشی ہوگی۔ تم کو کوئی اعتراض تو نہیں؟“
”نہیں، بلکہ میں ایک انیس سالہ دختر سے تعارف کروانے پر شکر گزار ہوں گا۔“
اس نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور کہا۔”ٹھیک ہے تو پھر دیر نہ کرو۔ اگر کل تم فارغ ہو تو میں تمہیں دن ڈیڑھ بجے وہاں لے چلتا ہوں۔ وہ 25 تھیرسینسٹراس پر ایک عمارت کی دوسری منزل پر رہتے ہیں۔ مجھے اپنے اسکول کے دوست سے ان کا تعارف کروا کر خوشی ہوگی۔“
میں نے اتفاق کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن دوپہر کے قریب ہم نے تھیر سینسٹراس کے ایک خوبصورت گھر کی دوسری منزل پر دروازے کی گھنٹی بجائی۔ بٹن کے آگے، گہرے سیاہ حروف میں بیرن وان سٹین کا نام لکھا تھا۔
تمام راستے پاؤلو خوش مزاج اور پرجوش رہا تھا،
لیکن جب ہم دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے، میں نے اس میں ایک عجیب تبدیلی دیکھی۔ اس کے چہرے پر سوائے پلکوں کی بے چینی کے سب کچھ پرسکون ہوگیا۔ ایک شدید جذباتی تناؤ کا سکون۔ اس کا سر تھوڑا آگے جھکا تھا اور پیشانی کی جلد سخت ہوگئی تھی۔ اس نے تیز کانوں والے جانور سے مشابہت اختیار کرلی تھی، جو اپنے تمام عضلات کو سکیڑ کر کے کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ نوکر جو ہمارے تعارفی کارڈ لے کر گیا تھا، فوراً واپس آیا اور بھاری فرنیچر والے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے بولا۔”میڈم بیرونس بس آیا ہی چاہتی ہیں۔“
جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے۔ ہماری نظر کھڑکی پر پڑی جہاں گلیارے میں ایک اجلے پھولدار لباس میں ملبوس ایک نوجوان خاتون آتی نظر آئی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے سوالیہ نظروں سے ہماری طرف دیکھا۔
"انیس سالہ دختر۔" میں نے غیر ارادی طور پر اپنے ساتھی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔ اس نے سرگوشی کی۔”بیرونس آئیڈا۔“
وہ خوبصورت اور پرکشش شخصیت کی مالک تھی، لیکن اپنی عمر کے لحاظ سے پختہ نظر آرہی تھی۔ اس کی دھیمی اور سست حرکات نے شاید ہی کسی کم عمر لڑکی کا تاثر دیا ہو، چمک دار بالوں کے حلقے نے کنپٹیوں کو ڈھانپ رکھا تھا اور ماتھے پر دو سیاہ گھونگھریالے بالوں کی لٹیں گری ہوئی تھیں۔ جو چہرے کی اجلی رنگت کے ساتھ ایک شاندار تضاد پیدا کررہی تھی۔ نم ہونٹوں کے ساتھ، ایک گداز موٹی ناک، جس کے اوپر محراب دار نرم سیاہ بھنویں، اس کے کم از کم جزوی طور پر سامی نژاد ہونے کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہا تھا۔ وہ بہت ہی غیر معمولی خوبصورتی سے سرفراز تھی۔
”اوہ...مہمان؟“وہ کمرے میں آکر ہماری طرف چند قدم بڑھاتے ہوئے بولی۔ اس کی آواز قدرے دھیمی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ پیشانی پر رکھا۔ تاکہ بہتر طور پر دیکھ سکے۔ جب کہ دوسرا ہاتھ دیوار کے ساتھ رکھے عظیم الشان پیانو پر ٹکا دیا۔
”مہمانوں کو خوش آمدید؟“ اس نے مزید کہا۔ جیسے اب اس نے میرے دوست کو پہچان لیا ہو۔ پھر اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
پاؤلو سست روی اور تقریباً غنودگی میں چلتا اس کے قریب گیا، یوں جیسے کسی شاندار لذت سے لطف اندوز ہورہا ہو اور اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کے سامنے جھک گیا۔
پھر کہا۔”بیرونیس! میں آپ کو اپنے دوست سے ملواتا ہوں۔ ایک ہم مکتب، جس کے ساتھ میں نے ابتدائی سبق سیکھے۔“
اس نے اپنا نرم و نازک ہاتھ میری طرف بھی بڑھایا، جس میں کوئی زیور نہیں تھا ۔
"خوش آمدید !"اس نے کہا۔ اس کی سیاہ نگاہیں، جن میں ہلکی سی تھرتھراہٹ نمایاں تھی، مجھ پر ٹکی ہوئی تھی۔
”آپ لوگوں سے مل کر میرے والدین خوش ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ انہیں اطلاع دے دی گئی ہوگی۔“
وہ مسند پر اور ہم اس کے سامنے والی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ گفتگو کے دوران اس کے سفید نازک ہاتھ گود میں رکھے تھے اور اس کی آستینیں بمشکل کہنیوں سے نیچے تک پہنچتی تھیں۔ مجھے اس کی کلائیوں کا نرم جوڑ نظر آئے۔
چند منٹ بعد ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کے والدین اندر داخل ہوئے۔ بیرن گنجے سر اور سفید تکونی ڈاڑھی والا ایک پست قد، موٹا لیکن خوبصورت آدمی تھا۔ وہ عادتاً کلائی میں پہنے سونے کے کڑے کو اپنے کف میں بار بار جھٹک رہا تھا۔
اس کی ظاہری شکل سے یہ طے کرنا ناممکن تھا کہ آیا اس نے اپنے خاندانی نام کے متعدد حرفوں کو بارونیل لقب پر قربان کیا تھا۔ بیوی چھوٹی سی ایک کم رو یہودی عورت تھی۔ جس نے بھورے رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کے کانوں میں بڑے بڑے ہیرے جگمگا رہے تھے۔ میرا خیرمقدم بڑے خلوص سے کیا گیا، جب کہ میرے ساتھی کو ایک پرانے خاندانی دوست کی طرح خوش آمدید کہا گیا۔ میں کہاں سے اور کیوں آیا ہوں، اس بارے میں سوالات کے سلسلے کے بعد گفتگو کا رخ ایک نمائش کی طرف ہوا۔ جس میں پاؤلو کی ایک پینٹنگ بھی رکھی گئی تھی۔ ایک نیوڈ۔
”واقعی اچھا کام!“ بیرن نے کہا۔”میں آدھے گھنٹے تک صرف اس کے سامنے کھڑا رہا۔ ہاں ہاں مسٹر ہوفمین! سرخ قالین پر جسم کا فطری رنگ ایک شاندار تاثر دیتا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے پاؤلو کے کندھے پر شفقت سے تھپکی دی پھر مزید کہا۔”میرے دوست! اتنی محنت مت کرو! خدا کے لیے اپنا خیال رکھو۔ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“
جب میں میزبانوں کو اپنے بارے میں بتا رہا تھا۔ پاؤلو نے اپنے سامنے بیٹھی بیرونس کے ساتھ چند خفیہ الفاظ کا تبادلہ کیا۔ اس کا عجیب اضطرابی سکون کہیں غائب نہیں ہوا تھا۔ حالانکہ میں نہیں بتا سکتا کہ وہ کیا تھا، چھلانگ لگانے کے لیے تیار ایک چیتا۔ پیلے رنگ کے پتلے چہرے کی سیاہ آنکھوں میں ایسی بیمار چمک تھی کہ مجھے تھوڑی سی بے چینی محسوس ہوئی۔ جب کہ بیرن کے سوال کا اس نے اعتماد سے جواب دیا۔ ”اوہ، شاندار! بہت بہت شکریہ! میں ٹھیک ہوں۔“
تقریباً ایک چوتھائی گھنٹے کے بعد ہم جانے کے لیے اٹھے۔ بیرونس نے میرے دوست کو یاد دلایا کہ دو دن بعد جمعرات ہے۔ وہ اس کی پانچ بجے کی چائے کو مت بھولے۔ پھر وہ موقع پاتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئی۔”براہِ کرم، ہفتے کے اس دن کو ہمارے لیے نشان زد کردیں۔“
پاؤلو نے گلی میں آکر سگریٹ جلایا اور پوچھا۔ ”آپ کیا کہتے ہیں؟“
”اوہ، بہت اچھے لوگ ہیں۔“ میں نے فوراً جواب دیا۔”خاص طور پر انیس سالہ دختر نے مجھے متاثر کیا۔“
”کیا وہ متاثر کرتی ہے؟“ وہ ہنسا اور منہ پھیر لیا۔
”تم ہنس رہے ہو؟“میں نے کہا۔”اور وہاں بعض اوقات مجھے لگا کہ تمھاری نظریں کوئی بات چھپا رہی ہیں یا میں غلط سمجھا ہوں؟“
وہ ایک لمحے کے لیے خاموش رہا، پھر دھیرے سے سر ہلایا۔”میں نہیں جانتا کہ تمھیں کیسے سمجھاؤں؟“
”میرا صرف ایک سوال ہے کہ کیا بیرونس آئیڈا بھی ایسا محسوس کرتی ہے؟“
اس نے ایک سیکنڈ کے لیے آنکھیں نیچے کیں۔ پھر نرم لہجے اور اعتماد سے بولا۔”مجھے لگتا ہے کہ میں خوش رہوں گا۔“
میں نے گرمجوشی سے اس سے مصافحہ کیا اور ہم جدا ہوگئے۔ حالاں کہ میری ذہنی الجھن دور نہیں ہوئی تھی۔
اسی طرح کئی ہفتے گزر گئے۔ اس دوران پاؤلو اور میں نے کئی بار دوپہر کی چائے بیرن کے دیوان خانے میں پی۔ ایک چھوٹی لیکن خوشگوار ٹولی بالعموم وہاں جمع ہوتی تھی۔ امپیریل ٹھیٹر کی ایک نوجوان اداکارہ، ایک ڈاکٹر، ایک افسر۔ مجھے سب یاد نہیں ہیں۔
پاؤلو کے رویے میں مجھے کوئی نئی بات نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ ظاہری بے چینی کے باوجود، عام طور پر پرجوش اور خوش مزاج نظر آتا تھا، لیکن برونیس کی موجودگی میں وہی عجیب تناؤ کا شکار ہوجاتا۔ جو میں نے پہلی بار محسوس کیا تھا۔
ایک دن لڈ ویگس ٹراس پر میری ملاقات بیرن وان سٹین سے ہوئی۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے لگام کھینچی اور زین سے ہاتھ بڑھایا۔”آپ کو یہاں دیکھ کر خوشی ہوئی! مجھے امید ہے کہ آپ کل دوپہر کو ہم سے ملاقات کے لیے تشریف لائے گے؟“
"اگر آپ چاہتے ہیں تو ضرور مسٹر بیرن۔ اگرچہ میں نہیں جانتا کہ آیا میرا دوست ہوفمین میرے ساتھ آسکے گا یا نہیں، اتفاق سے میں نے دو دن سے اسے نہیں دیکھا۔“
”ہوفمین؟ وہ تو چلاگیا، کیا آپ نے نہیں سنا؟ میرا خیال تھا کہ وہ آپ کو پہلے ہی مطلع کرچکا ہوگا۔“
”نہیں، مجھے نہیں معلوم۔“
”بس اسی کو کہتے ہیں فنکارانہ مزاج، آپ تو جانتے ہیں ...خیر ٹھیک ہے، کل دوپہر ملتے ہیں۔“
وہ مجھے مکمل الجھن میں ڈالے اپنے گھوڑے پر آگے بڑھ گیا۔
میں فوراً پاؤلو کے اپارٹمنٹ میں پہنچا۔ مجھے بتایا گیا۔”ہاں، افسوس، مسٹر ہوفمین چلے گئے۔ نہیں، انھوں نے کوئی پتا نہیں چھوڑا۔“
یہ واضح تھا کہ بیرن جانتا تھا کہ یہ صرف "فنکارانہ مزاج" نہیں ہے، بعد ازاں اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وادی اسار کی سیر کے دوران ہوا، جس میں مجھے شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ ہم رات کے کھانے کے بعد روانہ ہوئے اور واپسی پر معلوم ہوا کہ بیرونس اور میں پوری ٹولی سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
پاؤلو کے غائب ہونے کے بعد، میں نے اس میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی تھی۔ وہ پرسکون تھی اور اب تک اس نے میرے دوست کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ جب کہ اس کے والدین نے اس اچانک جدائی پر افسوس کا اظہار کرنے میں دیر نہیں کی تھی۔ ہم میونخ کے سب سے خوشگوار علاقے میں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ چاندنی درختوں کے درمیان سے چھن کر آرہی تھی۔ ہم کچھ دیر خاموشی سے اپنے ساتھیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتے رہے۔ جو قریب بہتے جھاگ بھرے پانی کے شور کی طرح یکساں تھی۔
پھر اچانک وہ پاؤلو کے بارے میں بات کرنے لگی۔ اس نے دھیمے اور پر اعتماد لہجے میں پوچھا۔”کیا آپ اور پاؤلو بچپن کے دوست ہیں؟“
”ہاں، بیرونس۔“
”کیا آپ اس کے راز جانتے ہیں؟“
”مجھے لگتا ہے کہ میں اس کا بدترین راز جانتا ہوں۔ حالاں کہ اس نے مجھے اس کے بارے میں کبھی نہیں بتایا۔“
”کیا میں آپ پر بھروسہ کر سکتی ہوں؟“
”مجھے یقین ہے کہ میں آپ کے اعتماد پر پورا اتروں گا۔“
”بہت اچھا۔“اس نے عزم سے سر اٹھاتے ہوئے کہا۔ ”پاؤلو نے شادی کے لیے میرا ہاتھ مانگا تھا، مگر میرے والدین نے انکار کر دیا۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ وہ بیمار ہے۔ بہت بیمار۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود میں اس سے پیار کرتی ہوں۔۔۔۔ میں آپ سے اس طرح بات کرسکتی ہوں یا نہیں؟..… “
وہ ایک لمحے کے لیے ہچکچائی، لیکن پھر بالکل اسی طرح فیصلہ کن انداز میں بولی۔”میں نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے، لیکن میں آپ کو اجازت دیتی ہوں جب بھی آپ اس سے ملیں۔ اس کے سامنے وہ الفاظ دہرائیں جو اس نے پہلے میرے ہونٹوں سے سنے تھے یا جب آپ کو اس کا اتا پتا معلوم ہو تو اسے خط لکھیے گا۔ میں سوائے اس کے تا دم زیست کسی دوسرے آدمی سے شادی نہیں کروں گی!“
اس آخری فجائیہ میں ضد اور عزم کے ساتھ اس قدر بے بسی بھری ہوئی تھی کہ میں اس کا ہاتھ پکڑ کر خاموشی سے تسلی بھی نہیں دے سکا۔
میں نے ہوفمین کے والدین کو خط لکھا۔ جس میں ان کے فرزند کے ٹھکانے کے بارے میں مطلع کرنے کی درخواست کی۔ کچھ دنوں بعد جنوبی ٹائرول کا ایک پتا موصول ہوا، لیکن وہاں بھیجا گیا میرا خط اس نوشتہ کے ساتھ واپس آیا کہ مکتوب الیہ منزل مقصود کا پتا بتائے بغیر کہیں چلے گئے ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی زندگی میں مداخلت نہ کی جائے، وہ سب سے بچ کر کہیں اکیلے مرنے کے لیے بھاگ گیا تھا۔ جو کچھ ہوچکا تھا۔ اس کے بعد مجھے اس دل سوز امکان کو قبول کرنا پڑا کہ میں اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھوں گا۔
کیا یہ واضح نہیں تھا کہ یہ ناامید بیمار شخص اس نوجوان لڑکی سے اسی خاموش اور آتش فشانی جذبے سے پیار کرتا تھا جو ابتدائی جوانی میں اس کے جذبات کی پہلی چمک کی یاد دلاتا تھا؟ بیمار کی انا پرست جبلت نے اس کے اندر پھلتی پھولتی صحت کے ساتھ ملن کی پیاس بھڑکا دی تھی اور یہ نہ بجھنے والی پرجوش پیاس اس کی آخری طاقت کھا نہیں جائے گی؟
پانچ سال گزر گئے۔ مجھے اس کی طرف سے کوئی خبر نہیں ملی، لیکن اس کی موت کی خبر بھی مجھ تک نہیں پہنچی تھی۔
پچھلا سال میں نے اٹلی میں، روم اور آس پاس کے علاقوں میں وقت گزارا۔ میں گرم مہینے پہاڑوں پر رہتا اور ستمبر کے آخر میں شہر واپس آجاتا۔ ایک گرم شام میں کیفے آرگنو میں چائے کا ایک کپ لیے بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا اور بے فکری سے اس رواں دواں ہلچل کو دیکھ رہا تھا جو کشادہ روشنی سے بھرے ہال میں مچی تھی۔ لوگ اندر باہر آجارہے تھے، ویٹر مصروف تھے اور گاہے گاہے چوڑے کھلے دروازوں سے اخبار فروش لڑکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
اچانک میں نے دیکھا کہ میرا ہم عمر، ایک بھلا مانس آدمی میزوں کے درمیان آہستہ آہستہ ایک طرف بڑھ رہا ہے... یہ چال؟
”یہ تم ہو !“ ہم نے یک زبان ہو کر کہا۔
وہ مزید بولا۔”اور ہم دونوں ابھی تک زندہ ہیں!“
یہ کہہ کر اس نے نظریں جھکالیں۔ ان پانچ سالوں میں وہ بمشکل کچھ بدلا تھا۔ صرف چہرہ کچھ اور پتلا ہوگیا تھا اور آنکھیں اپنے حلقوں میں مزید دھنس گئی تھیں۔ وہ ٹہر ٹہر کر گہرے سانس لے رہا تھا۔
”تم روم میں کتنے عرصے سے ہو؟“اس نے پوچھا۔
”کئی مہینوں سے لیکن شہر میں نہیں۔ میں نے یہ دن دیہی علاقوں میں گزارے، اور تم؟“
”ایک ہفتہ پہلے میں سمندر میں تھا۔ تم جانتے ہو، میں نے ہمیشہ اسے پہاڑوں پر ترجیح دی ہے... میں دنیا دیکھنے نکلا ہوا تھا۔“
پھر گلاس سے شربت کا گھونٹ لیتے ہوئے، اس نے بتانا شروع کیا کہ اس نے یہ سال کیسے گزارے۔ سفر، ہر وقت سفر۔ وہ ٹائرولین پہاڑوں میں گھوما، پورے اٹلی میں آرام سے سفر کرتا رہا، سسلی سے افریقہ گیا، الجزائر، تیونس، مصر کے بارے میں بات کی۔
”آخر کار میں نے جرمنی میں کچھ وقت گزارا۔ کارلسروہے میں میرے والدین مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ وہ مجھے دوبارہ سفر پر جانے کی اجازت دینے سے گریزاں تھے۔ اب میں اٹلی میں چند مہینوں پہلے واپس آیا ہوں۔ آپ جانتے ہیں۔ مجھے سب سے بڑھ کر روم پسند ہے۔ میں یہاں گھر جیسا محسوس کررہا ہوں۔“ وہ کہہ رہا تھا۔
میں نے ابھی تک اس کی صحت کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ اب میں نے پوچھا۔”اس امر سے مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنے کا حق ہے کہ تمھاری صحت میں نمایاں بہتری آئی ہے؟“
اس نے ایک لمحے کے لیے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا، پھر بولا۔ ”تمھارا مطلب ہے مسلسل سفر کے اچھے اثرات ہورہے ہیں؟ اوہ، نہیں میں تم کو بتاتا ہوں۔ یہ ایک فطری جبلت ہے۔ مجھے شراب پینے، تمباکو نوشی اور محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مجھے کئی قسم کی دوائیں لینی پڑتی ہیں۔ کیا تم سمجھ رہے ہو؟“
میں خاموش رہا۔ ہم اس موضوع پر آگئے تھے۔ جس سے ہمیشہ گریز کرتے تھے۔ اس کی خاموشی نے ظاہر کیا کہ ہم دونوں خسارے میں تھے۔ اس نے مخمل کے کشن پر ٹیک لگا کر فانوس کی طرف دیکھا۔ پھر اچانک کہا۔” میں امید کرتا ہوں کہ تم مجھے معاف کردو گے کہ میں اتنے عرصے تک رابطے میں نہیں رہا۔
”میونخ میں جو ہوا، کیا تم اس سے واقف ہو؟“ اس نے بھاری لہجے میں پوچھا۔
”ہاں، کسی حد تک۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس عرصے میں مجھ پر ایک خاتون کی طرف سے تمھاری ایک ذمہ داری کا بوجھ ہے؟“میں نے کہا۔
اس کی تھکی ہوئی آنکھیں کچھ دیر کے لیے چمکیں۔ پھر بالکل بجھ گئیں۔ اس نے کہا۔”اچھا، سناؤ کیا نیا ہے؟“
”کوئی نئی بات نہیں، بس اس کی تصدیق جو تم نے خود اس سے سنی تھی۔“
پھر میں نے اردگرد گزرتے ہجوم کے شور میں اس کے سامنے وہ الفاظ دہرائے جو اس شام برونیس نے مجھ سے کہے تھے۔
اس نے اپنی پیشانی رگڑتے ہوئے غور سے سنا، پھر چہرہ جھکائے بغیر کہا۔ ”شکریہ۔“
اس کا لہجہ مجھے الجھانے لگا تھا۔
”لیکن اس بات کو بہت سال گزر چکے ہیں۔“میں نے کہا۔ ”پانچ سال، جو تم دونوں نے الگ الگ گزارے۔ جس میں وہ اور تم... ہزاروں نئے تاثرات، احساسات، خیالات، امنگیں...“ میں چپ ہوگیا۔
کیوں کہ اس نے بے چینی سے پہلو بدلا اور ایک بار پھر جذبات سے کانپتی آواز میں بولا۔”میں۔۔۔۔ان الفاظ پر قائم ہوں۔“
اس لمحے میں نے ایک بار پھر اس کے چہرے پروہ تاثرات دیکھے جو بیرونس سے پہلی ملاقات کے دن دیکھے تھے۔ شدید اضطراب کے ساتھ، مگر ایک درندے کی طرح پرسکون جو جھپٹنے کے لیے تیار ہو۔
میں نے موضوع بدل دیا اور ہم سفر کے بارے میں بات کرنے لگے، ان مشاغل کے بارے میں جو وہ اپنی آوارہ گردی کے دوران کرتا رہا تھا۔
پاؤلو آدھی رات کے بعد اٹھا۔”میں سونا چاہتا ہوں، یا کم از کم اکیلا رہنا چاہتا ہوں... تم مجھے کل صبح گیلیریا ڈوریا میں پاؤ گے۔ میں سارسینی کی نقل کر رہا ہوں۔ مجھے میوزیکل اینجل سے پیار ہوگیا ہے۔ تم آؤ گے نا؟ مجھے خوشی ہے کہ تم یہاں ہو۔ شب بخیر۔“
اور وہ آہستہ آہستہ، خاموشی سے، ایک بھاری گھسیٹتی ہوئی چال کے ساتھ کیفے سے نکل گیا۔
اگلے مہینے میں اس کے ساتھ شہر میں گھومتا رہا۔ روم جو تمام فنون لطیفہ کا شاندار میوزیم ہے جنوب میں جدید دارالحکومت، شور وغل، تیزی، روحانی اور ایک جیتی جاگتی زندگی سے بھرپور ، لیکن جس کے ذریعے گرم ہوا مشرق کے امس بھرے بوجھ کو لے جاتی ہے۔
پاولو کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ ذیادہ تر سنجیدہ، خاموش اور اکثر سستی میں ڈوبا رہتا تھا، لیکن پھر اچانک چمکتی ہوئی آنکھوں اور جوش کے ساتھ خود کو سنھبال لیتا اور پرجوش انداز میں گفتگو شروع کر دیتا۔
میں اس دن کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب اس نے چند ایسے الفاظ کہے تھے جن کے معنی بعد میں مجھ پر واضح ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اتوار کا دن تھا۔ موسم گرما کے آخر میں ایک شاندار صبح موسم کا لطف اٹھانے کے لیے ہم نے چہل قدمی کا فیصلہ کیا اور قدیم اپیئن وے کے ساتھ تھوڑا سا چلنے کے بعد، ہم ایک چھوٹی سی پہاڑی پر آرام کرنے کے لیے بیٹھ گئے جس کے ارد گرد صنوبر اُگے تھے اور جہاں سے ہم کیمپگنا کے دلکش نظارے کو دیکھ سکتے تھے۔ بڑی آبی نالی اور البان کے پہاڑ ہلکے کہر میں ڈوبے ہوئے تھے۔
پاؤلو گرم گھاس پر میرے پاس لیٹا تھا۔ اس کی ٹھوڑی اس کے ہاتھ پر ٹکی ہوئی تھی۔ وہ تھکی اور خوابیدہ نظروں سے دور تک دیکھ رہا تھا۔
پھر اچانک وہ اپنی بے حسی سے نکل کر میری طرف متوجہ ہوا۔”ہوا میں مہک ہے ۔۔۔۔مہک۔۔۔!“
میں کچھ بڑبڑایا ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ لیکن ایک منٹ بعد، غیر متوقع طور پر اس نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔”کیا تمہیں حیرت نہیں ہوتی کہ میں ابھی تک زندہ ہوں؟“
میں ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی سوچتی نظریں پھر دور تک دیکھ رہی تھیں۔
”ہاں میں۔“اس نے دھیرے سے بات جاری رکھی۔
”میں ہر روز اس پر حیران ہوتا ہوں۔ کیا تم جانتے ہو کہ میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ الجزائر میں ایک فرانسیسی ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تھا۔ اللہ جانتا ہے کہ تم اب تک کیسے گاڑی چلارہے ہو؟ میرا تمہیں مشورہ ہے، گھر جاؤ اور سو جاؤ! وہ مجھ سے بے تکلف تھا کیونکہ ہم ہر رات مل کر ڈومینوز کھیلتے تھے۔ تاہم میں ابھی تک زندہ ہوں۔ میں تقریباً روز مرتا ہوں۔ شام کو جب میں اندھیرے میں لیٹتا ہوں، یاد رکھیں، میرے دائیں طرف! میرا دل میرے حلق تک دھڑکتا ہے اور میرا سر اس قدر گھومتا ہے کہ میں خوف سے بھیگ جاتا ہوں اور پھر موت مجھے چھونے لگتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے میرے اندر کی ہر چیز رک جاتی ہے، میرا دل رک جاتا ہے، میری سانسیں رک جاتی ہیں۔ میں اچھل کر کھڑا ہوجاتا ہوں، بتی جلاتا ہوں، گہرا سانس لیتا ہوں، ارد گرد دیکھتا ہوں، اپنی آنکھوں سے چیزوں کو محسوس کرتا ہوں۔ پھر میں پانی کا ایک گھونٹ پیتا ہوں اور دوبارہ لیٹ جاتا ہوں۔ پھر میں آہستہ آہستہ سوجاتا ہوں۔ میں بہت گہری اور طویل نیند سوتا ہوں۔ کیونکہ میں ہمیشہ جان لیوا تھکن محسوس کرتا ہوں۔ تم جانتے ہو، اگر میں چاہوں تو یہیں لیٹ کر مر سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان برسوں میں مِیں نے ہزار بار موت کا سامنا کیا ہے اور نہیں مرا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی چیز مجھے روک رہی ہے.....وہ مجھے پکڑتی ہے۔ میں اچھل پڑتا ہوں، کسی چیز کے بارے میں سوچتا ہوں، الفاظ سے چمٹ جاتا ہوں، انہیں سینکڑوں بار اپنے آپ دہراتا ہوں اور اسی دوران میری آنکھیں بے تابی سے اردگرد کی روشنی اور زندگی کو جذب کرتی ہیں... کیا تم میری بات سمجھ رہے ہو؟“
وہ خاموش ہوگیا۔ اسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس سے کیا کہا، لیکن اس کے الفاظ نے مجھ پر جو تاثر ڈالا اسے میں کبھی نہیں بھولوں گا۔
اور پھر وہ دن آیا۔ اوہ، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہے۔ وہ خزاں کے ابتدائی دنوں میں سے ایک دن تھا، سرمئی، خوفناک حد تک گرم دن جب افریقہ سے آنے والی نم، چپچپی ہوا نے گلیوں میں جھاڑو دے دی تھی اور شام کے وقت پورا آسمان بجلی کی چمک سے لرز رہا تھا۔
صبح میں پاؤلو کے گھر گیا۔ کمرے کے وسط میں ایک بڑا سوٹ کیس پڑا تھا اور الماری اور دراز کا خانے کھلے ہوئے تھے۔ مشرق سے اس کے آبی رنگ کے خاکے اور ویٹیکن سے جونو کے سر کا پلاسٹر کاسٹ ابھی تک اپنی جگہ پر تھا۔
وہ خود کھڑکی کے پاس ساکت کھڑا ٹکٹکی باندھے باہر دیکھ رہا تھا۔ جب میں نے اسے آواز دی تو وہ تیزی سے گھوما اور مجھے ایک خط دیا، پھر اتنا کہا: "اسے پڑھو!"
میں نے اس کی طرف دیکھا بخار سے جلتی ہوئی سیاہ آنکھوں والے تنگ، زرد، بیمار چہرے پر انتہائی سنجیدگی کا ایسا تاثر تھا جو صرف موت ہی دے سکتی تھی۔ میری نگاہیں فوراً خط پر جھک گئیں۔ لکھا تھا۔
”پیارے پاؤلو ہوفمین!
میں آپ کے قابل احترام والدین کی مہربانی کا مقروض ہوں جن کی بدولت مجھے آپ کا موجودہ پتا معلوم ہوا۔ مجھے امید ہے کہ آپ ان سطور کو دوستانہ انداز میں قبول کریں گے۔
پیارے ہوفمین! مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کو یقین دلا سکوں کہ ان پانچ سالوں کے دوران میں نے ہمیشہ آپ کے بارے میں مخلص دوست کی حیثیت سے سوچا ہے۔ اگر میں یہ فرض کرلوں کہ اس دن آپ کی اچانک رخصتی جو ہم دونوں کے لیے تکلیف دہ تھی، شاید میرے اور میرے گھر والوں کے غصے کی وجہ سے ہوئی تھی، تو یہ میرے دکھ کو اس صدمے اور حیرت سے بھی زیادہ پختہ کردے گا۔ جب آپ نے شادی کے لیے مجھ سے میری بیٹی کا ہاتھ مانگا۔ میں نے آپ سے صاف صاف بات کی، کھلے دل سے اور ایمانداری سے اظہار خیال کرتے ہوئے، وہ وجوہات بتائیں جن کی وجہ سے میں اپنی بیٹی کا ہاتھ ایک ایسے شخص کو پیش نہیں کرسکتا تھا۔
میں آج آپ سے ایک دوست اور باپ کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں۔ آپ کی جدائی کو پانچ سال گزر چکے ہیں۔ مگر مجھے ابھی تک یہ سمجھنے کی فرصت نہیں ملی تھی کہ آپ کے پیار کی میری بیٹی میں کتنی گہری جڑیں پیوست ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں اس حقیقت کو کیوں چھپاؤں کہ آج بھی میری بیٹی کے دل میں آپ کی محبت اسی طرح زندہ ہے۔ پچھلے دنوں اس نے ایک شاندار آدمی کا رشتہ ٹھکرا دیا، جسے میں قبول کرنے کے لیے رضا مند تھا۔ کئی سال گزر چکے ہیں۔ میں آپ سے کھلے دل اور عاجزی کے ساتھ پوچھتا ہوں، کیا آپ، اب بھی میری بیٹی کے بارے میں ایسا ہی محسوس کرتے ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم والدین، اب اپنی بیٹی کی خوشیوں میں مزید رکاوٹ بننا نہیں چاہتے۔ میں شکر گزاری کے ساتھ آپ کے جواب کا منتظر ہوں اور میرے پاس سوائے اپنے گہرے احترام کے اظہار کے ان سطور میں اضافہ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
انتہائی مخلص۔
آسکر بیرن وان اسٹین۔
میں نے سر اٹھایا۔ اس نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ہاتھ باندھے اور کھڑکی کی طرف پلٹ گیا۔ میں نے صرف اتنا پوچھا:”کیا تم جا رہے ہو؟“
اس نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔ ”میرا سامان کل صبح تک پیک کر دیا جائے گا۔"
دن کاموں اور پیکنگ میں گزر گیا۔ جس میں مِیں نے اس کی مدد کی۔ شام کو میں نے تجویز پیش کی کہ شہر کی گلیوں میں آخری چہل قدمی کی جائے۔
موسم بہت خراب تھا۔ آسمان بادلوں میں گھرا تھا، بار بار بادل گرجتے اور بجلی چمکنے سے آسمان کانپ اٹھتا۔ پاؤلو پرسکون نظر آرہا تھا، لیکن کچھ سست تھا اور گہرے اور بھاری سانس بھی لے رہا تھا۔ ہم ایک گھنٹے تک تھوڑی بہت بات چیت کرتے یا خاموشی سے چلتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مشہور چشمے فونٹانا ڈی ٹریوی کے سامنے رک گئے۔ جس میں سمندری دیوتا کے رتھ اور گھوڑوں کی سرپٹ دوڑتی ٹولی کو دکھایا گیا ہے۔ دیر تک ہم حیرت سے اس شاندار مجسمے کو دیکھتے رہے جو کہ مسلسل چمکدار نیلی بجلی سے منور ہوکر ایک مثبت جادوئی تاثر دے رہا تھا۔
پاؤلو نے کہا۔”میں برنینی سے، یہاں تک کہ اس کے طالب علموں کے کام سے بھی متاثر ہوں۔ میں اس کے مخالفین کو نہیں مانتا۔ حتی کہ اس کا لاسٹ ججمنٹ مصوری سے زیادہ مجسمہ سازی ہے، مجموعی طور پر اس کا تمام کام مجسمہ سازی سے زیادہ مصوری ہے، لیکن کیا تم مجھے کسی ایسی چیز کے بارے میں بتا سکتے ہیں جو زیورات سے زیادہ شاندار ہو۔“
”تم جانتے ہو؟ اس چشمے کے ساتھ ایک عقیدہ وابستہ ہے۔ جو روم کو الوداع کہتے ہوئے اس سے پانی پیے گا، وہ واپس آئے گا۔ یہ لو میرا گلاس۔“ میں نے کہا اور اسے پانی کے ایک دھار کے نیچے بھر دیا۔ ”تم کو اپنا روم دوبارہ دیکھنا چاہیے۔“
اس نے گلاس لیا اور ہونٹوں سے لگایا، لیکن دفعتا آسمان آنکھوں کو خیرہ کردینے والی تیز چمکتی بجلی سے روشن ہوگیا اور گلاس تالاب کے کنارے پر گر کر ٹوٹ گیا۔
پاولو نے رومال سے اپنے کپڑوں سے پانی صاف کیا۔ اور بولا۔”میں بہت عجیب اور گھبراٹی آدمی ہوں۔ چلو چلتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کا گلاس زیادہ قیمتی نہیں ہوگا۔“
اگلی صبح موسم صاف ہوگیا تھا۔ اسٹیشن کے راستے میں ہلکا نیلا آسمان ہمیں دیکھ کر ہنس رہا تھا، الوداعیہ مختصر تھا۔ جب میں نے اس کے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا کی تو پاؤلو نے خاموشی سے میرا ہاتھ دبایا۔
میں نے اپنی نظریں اس پر جمائے رکھی جب وہ کھڑکی پر سیدھا کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں گہری سنجیدگی اور فتح مندی تھی۔
مزید کیا کہوں؟۔۔۔۔ وہ مرگیا، شادی کی رات کے بعد، وہ صبح مرگیا، کوئی کہہ سکتا ہے، شادی کی رات ہی۔ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ کیا یہ آرزو، خوشی کی آرزو نہیں تھی، جس نے اسے اتنے عرصے تک موت سے لڑنے کے قابل بنایا؟ اسے مرنا تھا، جدوجہد اور مزاحمت کے بغیر مرنا تھا، جب اس کی خوشی کی آرزو پوری ہوگئی تو اس کے پاس جینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں نے خود سے پوچھا کہ کیا یہ غلط تھا؟ کیا اس نے جان بوجھ کر اس کے ساتھ برا سلوک کیا جس سے پاؤلو نے اپنے آپ کو جوڑا تھا؟
لیکن میں نے اسے جنازے میں دیکھا۔ وہ اس کے تابوت کے سرہانے کھڑی تھی اور اس کے چہرے پر وہی تاثر تھا جو میں نے پاؤلو میں پایا تھا۔ فتح مندی کی پختہ اور عظیم سنجیدگی۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
Title in English:
The Will to Happiness
Written by:
Thomas Mann
Paul Thomas Mann ( 6 June 1875 – 12 August 1955) was a German novelist, short story writer, social critic, philanthropist, essayist, and the 1929 Nobel Prize in Literature laureate.
Comments
Post a Comment