افسانہ نمبر 540 : بے نام رِشتہ، افسانہ نگار : مردُولا سِنہا (بھارت) ، ہندی سے اُردو ترجمہ: قیُوّم خالد (شکاگو۔امریکہ)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 540 : بے نام رِشتہ
افسانہ نگار : مردُولا سِنہا (بھارت)
ہندی سے اُردو ترجمہ: قیُوّم خالد (شکاگو۔امریکہ)
چِتراجی دعوت نامہ کے ساتھ ہاتھ سے لِکھے شُکریہ کے خط کے ہرحرف کو اپنی نظروں سے جانچتی ہوئی اُن میں بسے ہوئے جذبات کو سہلانے لگیں - کئی بار پڑھے ہوئے خط کو دیکھ کراُنہوں نے سوچا - شادی میں جمع لوگ پوُچھیں گے میں کون ہوں؟ کیا رِشتہ ہے شالگرامجی سے میرا؟ کیا جواب دُوں گی میں؟ کیا جواب دیں گے شالگرامجی؟ میں نے کبھی ہم دونوں کے بیچ بنے رِشتے کے بارے میں سوچا تک نہیں،نام دینا تو دُور کی بات تھی- باربار خُود کی ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود بھی وہ انجان، ان کہا اور بے نام رِشتہ چِتراجی کو مانوس اور گہرا لگنے لگا تھا۔
کبھی کبھی وہ اس رِشتہ کی معصُومیت سے خوفزدہ ہو جاتیں اورتب اُس کونام دینے کیلیئے اپنے الفاظ کے خزانے میں جمع ہزاروں الفاظ کھنگالنے لگ جاتیں مگراُنہیں نام نہیں مِلتا اورجب نام ہی نہیں مِلاتو پُکاریں کیسے؟اِسلئے سچ تو یہی تھا کہ اُنہوں نے کبھی اِس رِشتہ کو آواز نہیں دی۔ رِشتہ کے جنم اوراپنی زِندگی کے رُک جانے کے وقت پر بھی نہیں۔ زِندگی کے دوبارہ شُروع ہوکراُسکی بھاگ دوڑمیں بھی نہیں۔ شالگرامجی کو کبھی یاد نہیں کیا۔ شالگرامجی نے ہی بینام رِشتہ کو یاد رکھنے کی پہل کی تھی۔
بہت غوروخوص کرنے کے بعدِچِتراجی نے بھوپال جانا طے کرلیا۔ بہت دُورجانا تھا۔ بس،اورپھرٹرین کا سفر۔ وہ بھی گرمی میں۔ شالگرامجی نے ٹیلی فون پرہی یقین دِلایا تھا‘آپ کوکوئی دِقّت نہیں ہوگی۔ مہمانوں کو ٹھہرانیکا اِنتظام کرتے وقت بھی ہم نے موسم کا دِھیان رکھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، ہمارے مہمانوں کو کوئی زحمت نہیں ہوگی۔ اورآپ تو خاص مہمان ہیں۔
چِتراجی کچھ نہیں بولیں۔ اُنہوں نے جب جانے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو پھر تکلیف اورآرام کا کیا؟
شِملہ بس سٹینڈ پروالووبس میں بیٹھ گئی تھیں۔ موبائل کی گھنٹی بجی۔ شالگرامجی کا فون تھا۔ انہوں نے کہا، ”آپکی بس کے دِلّی بس اڈے پررُکتے ہی ہمارا ایک آدمی مِلیگا۔ اُسکا نام راکیش ہے۔ اُسکے پاس آپکا ریل ٹِکٹ ہوگا۔''
چِتراجی نے کچھ نہیں کہا۔ اِتنا بھی نہیں کہ میں نے ٹِکٹ لے رکھا ہے۔ اورویسا ہی ہُوا۔ اُنکی بس کے رُکتے ہی ایک آدمی اندرداخِل ہوا۔ اُسکی کھوجی نظر نے ِچِتراجی کو پہچان لیا۔ اُنکی اٹیچی نیچے اُتارکربولا”آپکے پاس اگرکوئی ٹِکٹ ہے تو مُجھے دے دِیجیے۔ میں اُسے کینسل کروادوں گا۔ اے۔سی دُوسری کلاس کایہ ٹِکٹ رکھ لیجئے۔ ٹرین شام کو نظام الدین اِسٹیثن سے جاتی ہے۔ میں آپ کو لینے آجاؤنگا۔ میں بھی آپکے ساتھ چل رہا ہوں،۔”
چِتراجی نے اس آدمی کو سلیپرکلاس کی ٹِکٹ نکال کر دے دِیا۔ وہ تِھری وِھیلرمیں بیٹھ کر گول مارکیٹ میں رہنے والی اپنی ایک سہیلی کے کوارٹر میں چلی گئیں۔ شام کو سب کچھ ویسے ہی ہُوا جیسا راکیش نے بتایا تھا۔
صُبح صُبح گاڑی کے بھوپال جنکشن پر رُکتے ہی ایک نوجوان اُنکی سیٹ تک آ گیا۔ اُنکے پیر چُھوکر بولا”میں دِیپک ہوں، میرے پِتا کا نام شالگرام کشیپ ہے“
چِتراجی نے خوش رہنیکی دُعا دی اوراُسکے پیچھے چل پڑیں۔ گاڑی آگے بڑھ رہی تھی۔ روڈ پربِھیڑکی وجہ سے کبھی کبھی اُسکا ہارن بجتا۔ اندر پُورا سُکون رہا۔ کوئی کُچھ نہیں بولا۔ ِچِتراجی اُس نوجوان سے باتیں کرنا چاہتی تھیں، پر شُروعات کیسے کریں۔اُس گھر کی رسومات اورحالات، کُچھ بھی تو نہیں جانتی تھیں۔ بھوپال شہر کے بارے میں پُوچھنے ہی جا رہی تھیں کہ دِیپک بول پڑا”میں آپ کو آنٹی کہوں؟“
”ہوں“
”تو آنٹی! بارات آج شام کو آ رہی ہے، لوکل بارات ہے، اِسلئے وقت پرہی آجائیگی۔ میں نے سُناکہ آپ کل ہی لوٹ رہی ہیں۔ آپکے پاس وقت بہت کم ہے۔ پِتاجی نے کہا ہے کہ آپ بھوپال شہر پہلی بارآ رہی ہیں۔ اِسلئے بھوپال بھی تو دیکھنا چاہینگی۔ بڑا خُوبصو رت شہر ہے ہمارا۔ آپ جلدی سے تیار ہو جائیں۔ آپ کو میرا خالہ زاد بھائی گُھمانے لے جائیگا۔“
”ٹھیک ہے“اِتنا ہی بول پائیں چِتراجی۔ من تو اِس آدمی کیلئے اظہار ِتشّکُر کرنا چاہ رہا تھا۔ اُنکی اِتنی فِکر کرنے والے نوجوان کو شاباشی بھی دِی جا سکتی تھی۔ پر وہ کُچھ نہیں بولیں۔ دِیپک بولا”میرے پِتاجی آپکی بہت تعریف کرتے ہیں۔پر پتہ نہیں کیوں، نہ آپ کبھی بھوپال آئیں، نہ ہمیں شِملہ بُلایا۔ کُچھ دیر پہلے ہی آپکے بارے میں بتایا۔ آپ سے مِلنے کی چاہت پنپ آئی۔ اسلئے کئی کام چھوڑکر خُود اسٹیشن آ گیا۔“
چِتراجی کُچھ بولنے کے لیے لبوں پرلفظ سجانے لگیں کہ ڈرائیور نے گاڑی میں بریک لگا دیا تھا۔ گاڑی کسی گیسٹ ہاؤس کے سامنے رُکی۔ گاڑی سے اُنکا سامان نکال کر دِیپک آگے بڑھا۔ وہ پیچھے پیچھے۔ اُنہیں اندر تک پہنچاکر بولا،”آنٹی! آپ یہاں نہا دھو لیں۔ ناشتہ گھر پر ہی کرنا ہے۔ پھرآپ بھوپال درشن کے لیے نکلینگی۔ دوپہر کا کھانا بھی گھر پر ہی ہے۔ کھانے کے بعد پھر یہاں آرام کرئیگا۔ شام کو تو شادی ہی ہے۔“
چِتراجی کُچھ نہیں بولیں۔ دِیپک کے کمرے سے نِکلنے پر ضرور اُسکے پیچھے گئیں۔ آنکھوں کی پہنچ سے اُسکی کایا اوجھل ہو جانے پر پیچھے لوٹ کمرے کی سٹکنی بند کر بستر پر بیٹھ گئیں۔ سوچنے لگیں — دِیپک کتنا لائق لڑکا ہے۔ اُنیس بیس سال کا ہوگا۔ اِتنا ذمہ داراوراِطاعت گُزار! سماج ناحق پریشان ہے کہ نوجوان نسل بِگڑگئی ہے۔ میرے ساتھ تھوڑی دیرگُزارکراِس نوجوان نے میرے من میں جگہ بنا لی۔ پر کریڈٹ تواُسکے پِتاکو ہی جاتا ہے، شالگرامجی کو۔ اُنکا دھیان آتے ہی چِتراجی اُٹھ بیٹھیں۔ اپنا دھیان بٹانے کے لیے تیارہونے لگیں۔ چِتراجی کے نہا دھوکر تیار ہوتے ہی نریش آ گیا تھا۔ اُنہیں ناشتے کے لیے لے جاتے ہوئے پُوچھا، ”آپ دِیپک کی بواجی ہیں؟ اُسکی دو بواؤں سے مِل چُکا ہوں،۔ آپ سے پہلی بار مِلا۔ دِیپک کا میں دوست ہوں۔“
شالگرامجی جلدی سے گیٹ پر پُہنچے۔ اُنہوں نے چتراجی کوعقیدت سے سلام کیا۔ نریش نے کہا، ”گُھما لایا آنٹی کو بھوپال۔ اُنہیں تینوں تال اچھے لگے۔“
نریش یہ نہیں کہتا تو شاید چِتراجی سامنے کھڑے آدمی کو پہچان بھی نہیں پاتیں۔ کُچھ ٹُوٹ گیا تھا چِتراجی کے اندر۔ اُنہوں نے اپنے کو سنبھالا۔ ہاتھ جوڑکر اُنکے سلام کا جواب دیتے ہوئے چہرے پر بھی مُسکان تھی۔ ناشتے کا اِنتظام فلیٹ کے باہر والے حصہ میں ہی کیا گیا تھا۔کُچھ لوگ ناشتہ ختم کر چُکے تھے،کُچھ کا جاری تھا، کُچھ آنیوالے تھے۔ شالگرامجی کوچِتراجی کو لیکرناشتے کے مقام پر پہنچنے میں دو مِنٹ بھی نہیں لگے ہو نگے، پر وہاں موجود ناشتہ کر رہے مہمانوں کے پلیٹ میں پڑے ذائقہ دارکھانوں میں ایک خُصُوصی لُقمہ آگیا -
”یہ کون ہیں؟“ سوال اُٹھا۔
”اِنہیں تو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“ مزالینے لگے لوگ۔
آپس میں سوالوں کا تبادلہ ہونے لگا - جواب کِسی کے پاس نہیں تھا۔ شالگرامجی کی پتنی مالا بھی آ گئیں۔ رشتہ داروں سے ناشتہ کا مزا پُوچھتیں کُچھ اور لینے کی درخواست کرتیں، آگے بڑھ رہی تھیں۔ کسِی نے پُوچھ ہی لیا—”وہ کون ہیں؟ کوٹا کی ساڑی میں وہ خوبصورت سی خاتُون؟“
مالا نے اِدھراُدھر آنکھیں دوڑائیں۔ دُوسری نے آواز داب کر ہی کہا،”وہی، جو شالگرامجی کے ساتھ ہیں“۔ اُنہیں شالگرامجی نے خُود اپنے ہاتھوں سے پلیٹ لگاکر دی ہے۔ دیکھیے!”ٹھیک ہی تو کہا تھا سب نے۔ مالا نے بھی یہی دیکھا۔ چائے کا پیالہ لئے کھڑے تھے شالگرامجی۔ نرم شکل، لگ بھگ اُسکی ہی ہم عمر، بڑے سلیقے سے ناشتہ کر رہی، کون ہے یہ خاتُون؟“شالگرامجی نے تو کبھی اُنکا ذِکر نہیں کیا۔ دعوت بھیجنے والی فہرست بھی مالا نے پڑھی تھی۔ کِسی انجان خاتُون کا نام نہیں تھا۔ پھر کون ہے یہ؟
سوال تو بہت تھے۔ پر وہ موقع نہیں تھا پتی سے سوال پُوچھنے کا۔ جبکہ اکثر مہمانوں کے بیچ یہی سوال گیند کی طرح دِن بھراُچھلتا اُسکی پالی میں بھی آتا رہا۔ رِیتی رِواج اور رسم ادائیگی میں سب ایک دُوسرے سے پُوچھتے رہے۔ دوپہر کے لنچ کے وقت بھی چِتراجی آ گئیں تھیں۔
شالگرامجی کی ایک سالی اُنکے پاس گئی۔ پُوچھا”آپ کہاں سے آئی ہیں؟“
دُوسرا سوال پُوچھنے ہی والی تھی—”آپ میرے جیجاجی کو کیسے جانتی ہیں؟“
اِس بِیچ خُود جیجاجی آ موجود ہو گئے تھے۔ اُنہوں نے اپنی سالی کو کسی اورخُصُوصی مہمان کی خاطرداری میں لگا دِیا تھا۔
گیسٹ ہاؤس میں آرام کرتے ہُوئے چتراجی کا من کئی مسئلوں میں اُلجھ گیا تھا۔ بہت دِنوں بعد پچیس سال پہلے ہوئے حادثے کا پُورا منظر نظروں کے سامنے دوڑگیا۔ شِملہ سے گاڑی میں پتی پتنی اور دونوں بچوں کا کُلو منالی کے لیے روانگی۔ تھوڑی دُوری پر جاتے ہی گاڑی کا کھڈے میں گِرنا۔ پتی کے سرمیں چوٹ آنا۔ اُنکا ہوش نہیں لوٹنا۔ ڈاکٹر سے بات چیت۔ بیحال چِتراجی کے سامنے ڈاکٹر کی ایک مانگ۔ مُطالبہ پر جلد غورکرنے کی درخواست۔ اکیلی کھڑی چِتراجی۔ دو ننھے بچہ ماں سے چپکے۔ اپنا پرایا کوئی ساتھ نہ تھا۔ فیصلہ لینا تھا چِتراجی کو۔ سب کُچھ چلا گیا تھا۔ جو بچا تھا، اُسکی مانگ تھی۔چِتراجی نے وہ چیزدینا قبول کرلیا، جواُنکی تھی۔ ڈاکٹرکا مشورہ۔ اور پھرموت کے قریب گئے آدمی کا زِندہ ہوجانا -یادوں میں زِندہ تھا سب منظر۔ کبھی کبھی زِندہ ہوجاتا ہے۔ لیکن چترا جی نے عزم کے ساتھ اِن یادوں کو آنکھوں کے سامنے سے ہٹا دیا تھا۔ خُوشی، خُوشی کا موقع تھا۔ ”جو بیت گئی، وہ بات گئی“۔کویتا وہ کلاس میں پڑھاتی آئی ہیں۔ جس لڑکی کا وِواہ ہے، اُسکے لیے مُبارک سوچنا ہے۔ موقع اوروقت کی وہی مانگ تھی۔
بارات دروازے لگی۔ اِستقبال میں کھڑی عورتیں اور مرد تِرچھی نظروں سے چِتراجی کی جانب ضرور دیکھتے رہے۔ سوال وہی—”کون ہے یہ؟“ کیا رشتہ ہے شالگرامجی سے؟“شالگرامجی نے دروازہ پر ہی اپنے سمدھی سے چِتراجی کا تعارُف کرایا تھا۔ اُنکی دو سالیاں اپنے پتیوں کے ساتھ وہیں کھڑی تھیں۔ اُنکا تعارُف نہیں کروایا۔ اور یہ خبراُس بھیڑ بھرے جگہ پرآسانی سے پھیل گئی۔
براتی اورگھراتی کے کھانے کے اِختتام پروِواہ کے رسم پُورے کئے جانے لگے۔ شالگرامجی کو پنڈت جی نے منڈپ پر کنیا دان کے لیے بُلایا۔ منڈپ پر بیٹھنے سے پہلے اُنہوں نے چاروں جانب نگاہیں گُھمائیں۔ اُنکی نظر میں وہ چہرہ نہیں آیا، جِسکی اُنہیں کھوج تھی۔ اُنکے آس پاس منڈپ پر بیٹھی اُنکی بہنوں اورسالیوں نے بھانپ لیا تھا۔ دو تین ایک ساتھ بول پڑیں —”وہاں ہیں آپکی مہمان۔“دیکھا مالا نے بھی۔ زِچ ہوکربولی ”اب بیٹھ جائیے۔ دِماغ لگا کر کنیا دان کرئیے۔ اِسی کام کے لیے مہمان اور ساراانتظام ہے۔ بیٹھیے!“
شالگرامجی نے اُونچی آوازمیں کہا۔”چِتراجی! آپ اِدھرآئیے۔ منڈپ پر بیٹھیے۔ میری بیٹی کو آپ کا خُصوصی آشیرواد چاہیئے۔“
چِتراجی اندرسے ہِل گئیں۔ اُوپرسے موجود لوگوں کی نِگاہوں کے ِتیروں سے بندھ گئیں۔ وہ پریشان تو تھی ہِیں۔ اپنے مُقام پر کھڑی ہوکر بولیں ”آپ لوگ مُبارک کام کیلئے وہاں موجود ہیں۔ بیٹی کا کنیا دان کرئیے۔ مُجھے یہیں بیٹھنا ہے۔ میں بیوہ ہوں۔ میرا سہاگ نہیں ہے- معاشرہ ایسی عورت کو کسی بھی خُوش قسمت لڑکی کوسہاگ دینے سے منع کرتا ہے۔میں دِل سے آپکی بیٹی کا شُبھ چاہتی ہوں۔ اِسلئے دُور بیٹھی ہوں۔ آپ اپنانیک کام پُورا کریں۔ میری فِکر چھوڑدیں۔“وہ بیٹھ گئیں۔
”میں نہیں مانتا ایسے سماج کے قانُون کو۔ میرے خاندان کے لیے، میری بیٹی کے لیے آپ سے بڑھکر کوئی مُبارک نہیں ہو سکتا۔ آپکی مہربانی کے بغیر تو نہ میں ہوتا نہ میری بیٹی۔ آئیے! آپ میری اِستدعا مان کرمیری بیٹی کا کنیا دان کریے۔“پھر تو پنڈت جی بھی پریشان ہوگئے۔ بولے”شالگرامجی! آپکی مہمان خاتُون ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ آپ کنیا دان کریے۔ اپنی پتنی کو ساتھ بیٹھائیے۔ منڈپ پر بیٹھی سبھی خواتِین سہاگن ہی ہیں۔“
شالگرامجی بپھر پڑے—”آپ سب آج صبُبح سے چِتراجی کا تعارُف جاننے کے لیے پریشان ہیں۔ آپکے بیچ طرح طرح کی اٹکلیں لگ رہی ہیں۔ کام کی مصروفیت میں بھی مَیں آپکے سوالوں کے تیروں سے بندھا رہا۔ جب تک میں اُنکا تعارُف نہ دے دوں، آپ سبھوں کا دِھیان بھی وِواہ کے رسم رِواجوں پر مرکوزنہیں ہوگا۔ توسُنیے۔“!اور جوکچھ شالگرامجی نے سُنایا، سُنکروہاں بیٹھے لوگوں کے سوال تو چونکے ہی، وہ سب چِتراجی کے سامنے جُھک گئے -
وہ ہکّا بکّا رہ گئے۔پچیس سال پہلے ایک حادثہ میں چِتراجی کے پتی زخمی ہوگئے تھے۔ اُنکے دماغ نے کام کرنا بند کردیا تھا۔ جِس اسپتال میں اُنہیں لایا گیا، اُسی کے ایک کمرے میں مُیں آپریشن بیڈ پرلیٹا تھا۔ میرے دِل نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ معالجین نے فیصلہ لیا تھاکسی کا دھڑکتا دِل مِلنے پرٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے۔ آنکھ دان، کڈنی دان جیسے انگ دان کی بات تو سُنی گئی تھی۔ پرہردے دان تو تبھی ہو جب وہ دھڑکتا ہو،اورجب تک دِل دھڑکتا ہے، آدمی زِندہ ہے۔ بھلا زِندہ کا دل کوئی کیوں دان کرے۔
چِتراجی کے پتی کا دِل دھڑک رہا تھا۔ دِماغ نے کام کرنا بند کردیا تھا۔ ڈاکٹرشرما نے اُن سے درخوا ست کی ”آپکے پتی کو اب ہم نہیں بچا سکتے۔ پر آپکی اِجازت ہو تواُنکا دل کسی اورکے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔ وہ زِندہ ہو سکتا ہے۔“
”مشورہ سُنکرچِتراجی پرکیا بیتی، مُجھے نہیں معلُوم اورکِسی نے جاننے کی کوشش بھی کی کہ نہیں، معلُوم نہیں۔ چِتراجی نے اِجازت دے دی تھی۔ میرا دِل جو پچھلے پچیس سالوں سے دھڑک رہا ہے، یہ میرا نہیں، اُنکے پتی کا دِل ہے۔ پر پچھلے پچیس سالوں میں اِنہوں نے ایک بار بھی اِحسان نہیں جتایا۔ اِنہوں نے تو مُجھے تب بھی نہیں جانا، نہ دیکھا تھا۔ میں نے بھی نہیں۔ اِنہوں نے کبھی مُجھے ڈھونڈنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ پرمیں بہت بیچین تھا۔ زندگی دینے والے کا شُکریہ بھی ادا نہ کر سکا - دوسال پہلے میں اِنکے شہرگیا۔ ڈاکٹر شرما مِل گئے۔ میری بدقسمتی کہ ِان سے تب بھی مُلاقات نہیں ہو سکی۔ ڈاکٹرشرما سے اِنکا موبائل نمبرمِل گیا۔ فون پر ہی میں نے اُنہیں اپنا تعارُف کرایا۔ شُکریہ کا خط بھیجا پھر دعوت نامہ۔ بہت درخواست کرنے پر یہ میری بیٹی کے وِواہ پر آئیں ہیں۔ میں نے بھی اِنکوآج صبح ہی پہلی بار دیکھاہے۔ اب آپ ہی سوچئے پنڈت جی! ہمارے خاندان کے لیے اِن سے بڑھکرشُبھ اورکون ہوگا۔ میرے وِواہ اور میرے بچّے ہونے کے پیچھے بھی یہی تو ہیں۔ میں ہُوں، تبھی تو سب ہے
کنیا دان کے رسم کے وقت تو سب کی آنکھیں بھرتی ہیں۔ شالگرامجی نے تو کنیا دان کے پہلے ہی سبھی آنکھوں میں پانی بھر دیا۔
مالا منڈپ پر سے اُٹھی۔ سیدھے چِتراجی کے پاس پُہنچی۔ پیر چُھوکردُعائیں لِیں اورہاتھ پکڑکرمنڈپ پرلے آئی۔ خواتِین کے جُھنڈ نے آنسو پونچھ کر گانا شروع کیا— ”مُبا رک ہو مُبا رک، آج منگل کا دن ہے،مُبا رک ہومُبا رک۔ مُبا رک بولو امّا، مُبا رک بولو پاپا، مُبا رک نگری کے سب لوگوں کو، مُبا رک ہو مُبا رک!“
رِشتہ کو نام دینے کی ضرُورت نہیں پڑی۔ کئی رِشتوں سے بھرا تھا صحن۔ پرسب سے اُونچا ہو گیا تھا شالگرامجی اورچِتراجی کا رِشتہ۔ بینام تھا تو کیا؟
٭٭٭٭٭٭
Comments
Post a Comment