افسانہ نمبر 539 : خبط، تحریر : پائولو بریتو (برازیل)، مترجم : محمد فیصل (کراچی)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 539 : خبط
تحریر : پائولو بریتو (برازیل)
ہوٹل ایمیلیانو شہر کا پُر تعیش ہوٹل تھا جہاں ملک کے اہم اور مشہور افراد ٹھہرنا پسند کرتے تھے۔ میں جب اس ہوٹل میں داخل ہوا تو اس وقت بھی وہاں اہم شخصیات قیام پذیر تھیں۔ سابق سفیر اور سینیٹر گومز، مشہور اداکارہ مادام آندریا اپنے پالتو کتے سمیت، ممتاز مورخ سومارینو جو اس وقت چار صوبوں میں تحقیقی کام کر کے یہاں وارد ہوئے تھے، ملک کا سب سے بڑا تاجر جوحال ہی میںسوئیزر لینڈسے تپ دق کا علاج کروا کے آیا تھا، ملک کے سب سے بڑے ڈیم کا خالق انجینیر پریرا اپنی بیوی ، سات بچوں اور دو ملازمائوں کے ساتھ موجود تھا، مشہور مغنیہ کارلا جو پورے ملک کا دورہ کر کے یہاں پہنچی تھی، آدھے شہر کا مالک ریمنڈ ڈی سوزا اور دو امیر بیوائیں وہاں موجود تھیں۔نائب وزیرِ صحت ڈاکٹر رابرٹو اپنے خاندان کےہمراہ ایک دن پہلے ہی پہنچا تھا۔ ہوٹل میں مختلف دنیائوں کے افراد موجود تھے اور ان سب میں ایک چیز مشترک تھی؛ امارت۔ ہوٹل بھی نہایت شان دار تھا ۔ ہر کمرے میں بجلی، غسل خانوں میں جدید لوازمات اور انتہائی عمدہ ملازمین۔ باورچی کھانے میں امریکی، برطانوی، اطالوی اور یہاں تک کہ چینی باورچی بھی موجود تھے۔ہوٹل کے مالک نے مجھے داخلی دروازے پر خوش آمدید کہا اور کمرے کی چابی دیتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ میرا بہت خیال رکھیں گے۔
ظہرانے پر سب افراد پہلی منزل پر واقع طعام خانے میں اکٹھے ہوئے۔ ہوٹل واقعی شان دار تھا۔ طعام خانے کی چھت نیچی مگر اس میں سے ہلکی ہلکی روشنیاں پھوٹ رہی تھیں۔ موٹے شیشے سے بنا فرش جس کے نیچے پانی بھر ا تھا اور اس میں مختلف رنگوں کی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔دیواریں آرٹ کے نمونوں سے بھری ہوئی تھیں۔پوراطعام خانہ ایک شیشے کے حوض کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ساگوان کی لکڑی کے میز اور قرینے سے سجے دھاتی برتن۔ بیروں نے قیمتی ریشمی کپڑے کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ ماحول بہت خواب آگیں اور پُرسکون تھا۔ مادام آندریا ذرا حیرانی اور دل چسپی سے مچھلیوں کو دیکھ رہی تھیں۔ ہال میں دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ ماحول میں ذرا سی ہلچل تب برپا ہوتی جب کوئی مہمان داخل ہوتا۔
جناب نائب گورنر تشریف لارہے ہیں، محترم مئیر ان کے ہم راہ ہیں۔
اس ہوٹل میں ہر وقت مشہور اور طاقت ور شخصیات کا جم گٹھا لگا رہتا۔ اشرافیہ جن میں سرکاری اہل کار، مسلح افواج کے اعلیٰ عہدے دار، سیاست دان، اداکار اور گلوکار ؛ کوئی نہ کوئی اہم چہرہ نظر آہی جاتا تھا۔ رات کے وقت تو ان اہم ہستیوں کی گویا کہکشاں اُتر آتی۔ اس سہ پہر دو او ر مہمانوں کی آمد ہوئی۔ ایک سپریم کورٹ کے سابق جج محترم رابرٹو اور ان کا بھتیجا ڈاکٹر رائول ۔ ڈاکٹر رائول ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا جس کے وجود سے ایک توانائی پھوٹتی تھی۔ وہ اونچی سوسائٹی کا ایک اہم نام تھا اور اعلیٰ حلقوں تک اس کی رسائی تھی۔
اگلی دوپہر جب میں کھانے کے لیے تیار ہورہا تھا تو مجھے کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی۔ مجھے یاد آیا کہ کل میں نے فیروزی رنگ کی ٹائی پر ایک سنہرے رنگ کی پِن لگائی ہوئی تھی جس میں قرمزی رنگ کا ایک زمرد لگا تھا اور اس زمرد کے گرد چھوٹے چھوٹے ہیرے جڑے تھے۔ یہ ٹائی پِن میں نے رواں برس کے آغاز میں ارجنٹائن سے خریدی تھی۔ میں نے میز کی وہ دراز کھولی جس میں رات کو میں اسے رکھ کر سویا تھا مگر وہ پِن نہ ملی۔ میں نے تمام درازیں دیکھ لیں، پھر صوفے، پلنگ کے دراز، پلنگ کے نیچے، غرض ہر ممکنہ جگہ تلاش کی مگر بے سود۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں؟ ہوٹل والوں کو بتائوں ؟ مگر شاید کسی کونے کھدرے سے وہ مل ہی جائے۔ اگر شکایت کی تو کس پر شک کا اظہار کروں؟ کسی پر بھی بِلا ثبوت الزام لگانا بھی تو غلط ہے۔ اتنا بڑا ہوٹل ہے ، اتنے بڑے بڑے لوگ یہاں رہتے ہیں، اگر میں نے شکایت کی تو بات پھیلے گی اور یہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ یہی کچھ سوچ کر میں نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا مگر اپنی تمام قیمتی اشیاء ایک الماری میں مقفل کر دیں۔ تین چار دن بعد سینیٹر گومز نے مجھ سے دریافت کیا
آپ کے پاس قرمزی رنگ کے زمرد والی ٹائی پِن تھی۔ تھی نا؟
میرے دماغ میںایک گھنٹی بجی۔ انھیں میری ٹائی پِن میں کیا دل چسپی پیدا ہو گئی ؟ کیا انھیں پتا ہے کہ وہ غائب ہو چکی ہے؟ کیا انھیں چوری کرنے والےکا پتا ہے؟ اس سوال کا مقصد میری سمجھ نہیں آیا مگر میں نے اسے پورے اعتماد سے جواب دیا
جی ہاں! خیریت۔ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ وہ پِن اس وقت بھی میرے کمرے میں موجود ہے۔
مگر اسی وقت سینیٹر اور مغنیہ کارلا ایک موسیقار کے منظوم ڈرامے پر بات کرنے لگ گئے جس میں کارلا نے بھی حصہ لیا تھا۔ دونوں اتنے محوہوگئے کہ سینیٹر نے میرے سوال کو نظر انداز کر دیا۔ میں خاموشی سے اپنے کمرے میں آکر سو گیا۔ اگرچہ میں نے دروازہ مقفل کیا تھا مگر پھر بھی میرا چاندی کا ایک ڈبا غائب تھا۔ میں اس میں اپنا چشمہ رکھتاتھا۔ یہ چور بہت عجیب تھا۔ ایسا عجیب کہ ڈبے کے ساتھ ہی میرا بٹوہ پڑا تھا جس میں کافی رقم موجود تھی اور وہ اسے چھوڑ گیا تھا۔ کیا یہ میرے لیے کوئی پیغام تھا کہ وہ جب چاہے، جو چاہے غائب کر سکتا ہے۔ کیا اس نے میرا بٹوہ اس لیے چھوڑا تھا کہ وہ دوبارہ آئے گا؟ میں دوبارہ اسی دبدھا میں پڑ گیا کہ مالک کو ابھی نہ آگاہ کروں اور کچھ دن تیل کی دھار دیکھوں۔ اگلے ہی دن میں کارلا اور ڈی سوزا کے ساتھ وہی منظوم ڈرامہ دیکھ کر واپس آرہا تھاجس کے متعلق کارلا سینیٹر گومز سے بات کر رہی تھی۔ راستے میں کارلا نے بتایا
یہ ہوٹل بڑا واہیات ہے۔ تمھیں پتا ہے کہ میرے کمرے میں چوری ہوئی ہے؟
واقعی!
ہاں! وہ ایک بڑی خوب صورت انگوٹھی تھی جو مجھے ریمنڈ نے تحفتاََ دی تھی، تم دونوں ریمنڈ کو اس بارے کچھ نہ بتانا ورنہ وہ ناراض ہوگا۔ اور میں اکیلی ہی نہیں لٹی۔ ڈاکٹر رائول کا بٹوہ بھی چوری ہوگیا ہے۔
شام میں یہ معاملہ تقریباََ حل ہو ہی گیا۔ مادام آندریا نے ہوٹل کے مالک کو بلا کر شکایت کی کہ اس کے کمرے سے ایک بیش قیمت موتی غائب ہےجس کے گرد نازک زرکاری کی گئی تھی۔ یہ موتی مادام نے ہنگری کے ایک کاری گر سے بنوایا تھا ۔ کارلا اور رائول نے بھی اپنا معاملہ سامنے رکھا اور ہوٹل کے مالک نے اسی وقت پولیس بلائی اور اس منزل کے نگران اور بیرے دونوں کو اس کے حوالے کر دیا۔ دونوں ملازمین مقدمہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ اگلے دن ناشتے کی میز پر یہ چوریاں ہی موضوع سخن تھیں۔ میں ، کارلا اور رائول ہی نہیں لٹے تھے۔ اس ہوٹل میں مقیم ہر مہمان کے کمرے میں چوری ہوئی تھی۔ سینیٹر گومز نے رائول سے سوال کیا
کیا کل شام کو تم چور کو تلاش کر رہے تھے؟
کب؟
جب میں تم سے راہ داری میں ملا تھا۔
نہیں! میں تو کہیں باہر جارہا تھا مگر میں اندازہ لگا چکا تھا کہ ان چوریوں کے پیچھے کون ہے ۔خیر اب تو چور پکڑا جاچکا ہے۔
مگر ابھی تک انھیں چوری کا سامان نہیں مل سکا ہے اور بغیر ثبوت دونوں ملازمین کو کب تک گرفتار رکھیں گے۔
مادام آندریا نے ٹکڑا لگایا
وہ بہت ماہر چور ہے۔ جس دن میرا موتی چوری ہوا اس دن بیرا اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلا تھا۔
ہمیں کسی ماہر سراغ رساں کو بلانا چاہیے۔ یہ تو بہت ماہر چور ہے۔
میرا خیال ہے کہ جلد یا بدیر دونوں ملازمین اپنی غلطی تسلیم کر لیں گے۔
بہر کیف دونوں ملازمین چور تھے یا نہیں اس وقت دونوں پولیس کے پاس تھے اورتمام مہمانوں میں اطمینا ن کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ملازمین کی گرفتاری کے تین دن بعد واقعات نے ایک نیا موڑ لیا۔ مادام آندریا اور کارلا دونوں کے چوری شدہ زیورات ان کے کمروں میں موجود تھے۔ سب مہمان چہ مگوئیاں کرنے لگے۔تپ دق کا مریض تاجر بولا
یہ کیا شیطانی چرخہ ہے۔
سینیٹر گومز نے بس اتنا کہا
یہ صرف چور نہیں ہے ، یہ ایک شاطر شکاری ہے!
گومز کی یہ بات میرے دل کو لگی۔ یہ چور صرف چور نہیں تھاایک شکاری تھا اور ہم سب کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیل رہا تھا۔ اس کی یہ حرکت ہمارے لیے ایک للکار تھی کہ وہ جب اور جیسے چاہے نہ صرف ہماری قیمتی اشیاء چرا سکتا ہے بلکہ جب اس کا دل چاہے انھیں واپس بھی کر سکتا ہے۔ یہ ہوٹل کے ملازمین نہیں بلکہ ہم میں سے کوئی ہے۔ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ شاطر، کایاں یا پھر بالکل بے وقوف۔
اگلے دن کارلا کا ایک نیکلس اور تاجر کی بیوی کا کنگن غائب تھا۔ ہوٹل کی فضا ء میں ایک خوف شامل ہوگیا۔ مہمان ایک دوسرے سے بہت کم بات کرتے۔سب زیادہ تر اپنے کمروں میں رہتے اور اگر کبھی باہر جانا ہوتا تو قیمتی اشیاء ساتھ لے کر جاتے۔ کئیوں نے کھانا اپنے کمرے میں ہی کھانا شروع کر دیا تھا ۔ کمرے کی صفائی بھی مہمان اپنی موجودگی میں کرواتے۔ مہمانوں کے ساتھ ہوٹل کا مالک اور ملازمین بھی سہمے ہوئے تھے۔ معاملہ بے حد پُراسرار تھا۔ نہ جانے کون تھا جس نے سب کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ سابق جج نے کئی بار تجویز دی کہ پولیس کمشنر کو کہہ کر ایک سراغ رساں کو بلایا جائے جو سب کمروں کی تلاشی لےمگر دیگر سب نے اس کی مخالفت کی۔
مالک گھگھیایا: اس سے میرے ہوٹل کی ساکھ تباہ ہو جائے گی۔
سینیٹر گومز بولا: کیا بات کر رہے ہیں آپ؟ یہاں سب باعزت اورنیک نام ہیں۔
مادام آندریا نے لقمہ دیا: جی آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔
بات یہیں ختم ہوگئی مگر چیزیں غائب ہونا ختم نہ ہوسکا۔ تمام تر احتیاط کے باوجود چوریاں ہو رہی تھیں۔ معاملہ اب برداشت سے باہر تھا اب سب کو ایک فیصلہ کرنا تھا؛ یا تو ہوٹل چھوڑ دیا جائے یا پولیس بلا لی جائے۔ اگلی سہ پہر دو بجے کے قریب ایک بیکری میں میری ملاقات مادام کارلا، ڈاکٹر رائول اور اس کے چچا سے ہوئی۔ موضوعِ سخن وہی چور تھا۔ یہ اتفاق تھاکہ یہ تینوں میرے ساتھ والے کمروں میں مقیم تھے۔ اپنے کمرے میں واپس آکر میں لباس تبدیل کر رہا تھا کہ مجھے راہ داری میں قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کوئی آہستگی سے قدم اٹھا رہا تھا۔نہ جانے مجھے کیا سوجھا میں نے تالے کے سوراخ سے آنکھ لگا دی۔ میرے عین سامنے مادام کارلا کا کمرہ تھا اور اس وقت اس کے سامنے ڈاکٹر رائول کھڑا تھا۔ وہ وہی کپڑے پہنے ہوئے تھا جس میں میری اس سے کچھ دیر قبل ملاقات ہوئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ، راوئل نے ایک چابی نکالی اوردروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ میں تجسس کے مارے اسی طرح آنکھ لگائے کھڑا رہا۔ بیس منٹ بعد رائول باہر نکلا، ادھر ادھر دیکھ کر اس نے دروازے کو دوبارہ تالا لگایا اور آہستگی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ میرا دل چاہا کہ میں اسے آواز دے دوں مگر پھر میری فطری بزدلی آڑے آئی اور میں بس اسے جاتے دیکھتا رہا۔ میں نے سوچا کہ میں عشائیے پر اس کی بابت بات کروں گا۔
اُس رات یہ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ کھانا جیسے ہی شروع ہوا، کارلاغصے سے ہال میں داخل ہوئی اور تقریباََ چلاتے ہوئے بولی
آج اس چور نے میرا بیش قیمت بروچ چرا لیا ہے!
میں نے ڈاکٹر رائول کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر بھی حیرت کا وہی سماں تھا جو دیگر مہمانوں کے چہروں پر تھا۔ میرے ذہن میں ایک کوند ا لپکا۔ آج سہ پہر والی حرکت کے بعد مجھے تو یقین ہو گیا کہ رائول ہی چور ہے مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اور کارلا چھپ کر ملتے ہوں۔بہر کیف رائول کے چچا سپریم کورٹ کے سابق جج تھے اور کارلا محض ایک مغنیہ جس کے بہت سے معاشقے مشہور تھے۔میرا دل چاہا کہ میں سب کو بتا دوں کہ میں نے آج رائول کو کارلاکے کمرے میں جاتے دیکھا ہے۔ رائول خود ہی صفائیاں دیتا رہے گا۔ میں کھڑا ہو کر بولنا ہی چاہ رہا تھا کہ میری نظر سینیٹر گومز پر پڑی۔ ان کی نگاہوں میں کچھ ایسی بات تھی کہ میں چاہنے کے باوجود کچھ بول نہ سکا۔ ان کی آنکھیں مجھے کہہ رہی تھیں کہ میں خاموش رہوں۔ اس کی آنکھوں میں ایک التجا تھی، ایک حکم تھا۔ میرے ذہن میں جھماکا ہوا۔ مجھے یاد آگیا کہ سینیٹر گومز نے مجھ سے ٹائی پن کے متعلق کیوں پوچھا تھا۔ اسے پہلے دن سے ہی پتا تھا کہ چور کون ہے۔ میں اپنی نشست پر بیٹھا رہ گیا۔ اچانک انجینیرپریرا کھڑا ہوا اورہوٹل کے مالک کو مخاطب کر کے بولا
دیکھیں! اب اس ہوٹل میں مزید ایک رات رکنا کسی بھی شریف آدمی کے لیے ممکن نہیں اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ جو مہمان سب سے پہلے اس جہنم سے نکلے گا اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گامگر میں یہ ہوٹل چھوڑ رہا ہوں اور بھلے آپ سب مجھ پر شک کریںمگر میں اپنے خاندان کے ساتھ یہاں مقیم ہوں جس پر ان چوریوں کے بڑے اثرات پڑ رہے ہیں۔ خود میری قیمتی چیزیں غائب ہو چکی ہیں۔ میرا تمام سامان آپ کے دفتر میں جائے گا، آپ وہاں اس کی تلاشی لیجیے پھر میں یہاں سے روانہ ہو جائوں گا۔ میرا حساب کر دیجیے۔
جج صاحب نے بھی پریراکی تائید کی اورکہاکہ ان کا بِل بھی بنا دیا جائے۔باقی سب خاموش رہے کہ اچانک ڈاکٹر رائول کھڑ ا ہوا
ہم سب بڑے مشکل وقت سے گزر رہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارا دوجے پر اعتماداٹھ چکاہے۔ میری تجویز ہے کہ ہم سب باری باری ہر کمرے کی تلاشی لیں ۔ کیا آپ میری بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے تعریفی نظروں سے رائول کو دیکھا ، کم بخت چور تھا یا نہیں مگر اس نے بڑا عمدہ حل پیش کر دیا تھا۔ سینیٹر گومز کا چہرہ زرد ہو گیا، اچانک رائول نے اسے مخاطب کیا
سینیٹر ! کیا آپ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں؟
ہاں ہاں ! بالکل!گومز فوراََ بولا۔
تو پھر آئیے! ہم سب زیریں منزل سے آغاز کرتے ہیںاوراس معاملے کو نپٹادیتے ہیں۔
سب مہمان نچلی منزل پر جانے لگے۔ گومز مجھے ایک کونے میں لے گیا۔ میں نے اس سے کہا
یہ رائول ہی چور ہے۔ میں نے اسے خود کارلا کے کمرے میںجاتے دیکھا ہے۔
نہیں ! وہ چور نہیں ہے!
تو پھر کون ہے؟
سینیٹر بس میری طرف خاموشی سے دیکھتے رہے۔
اب آپ مجھے روک نہیں سکتے۔ میں ابھی سب کو جا کر بتا دوں گا کہ رائول ہی چور ہے، آپ اسے بچانے کی کوشش نہ کریں۔
گومز کا چہرہ جیسے پتھرا سا گیا۔ اس نےمیرا بازو پکڑا اور اپنے ساتھ دوسری منزل پر لے گیا۔ راہ داری بالکل ویران تھی، وہ خوشامدی لہجے میں بولا
میں تمھاری منت کرتا ہوں۔ یہ راز ہم دونوں کے درمیان ہی رہے۔
کیسا راز؟
پہلے قسم کھائو تم کسی کو نہیں بتائو گے۔
یہ تو جرم ہے!
خدارا! میری بات سمجھو!
اچھا! ٹھیک ہے۔
مجھے اس عورت کو بچانا ہے۔ وہ شوقیہ چور نہیں بلکہ وہ بیمار ہے اورچوری کے خبط میں مبتلا ہے۔ اسے میری اور تمھاری مدد کی ضرورت ہے۔ میں اسے اپنی بیٹیوں کی طرح پیار کرتا ہوں اسی لیے اسے رسوائی سے بچانا چاہتا ہوں۔ اسے چوری کرنے سے روکنا میرے لیے ممکن نہیں مگر اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ چوری شدہ ہر چیز واپس کر دی جائے گی ۔ بس تم میرا ساتھ دو تو میں آسانی سے اپنے مقصد میں کام یاب ہو جائوں گا وگرنہ وہ بے چاری سلا خوں کے پیچھے ہو گی!
اتنے میں کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ فوراََ بولا جلدی سے اوٹ لے لو۔ ہم دونوں کا ساتھ دکھائی دینابالکل مناسب نہیں۔
میں ایک کائو نٹر کے پیچھے چھپ گیا۔ گومز کی آواز سنائی دی
ان میں تمام چیزیں ڈال دی ہیں ناں
ایک نسوانی آواز سنائی دی
جی ہاں! آپ بہت ڈرپوک ہیں۔ فکر نہ کریں ، اس میں تمام اشیاء موجود ہیں۔
گومز میرے پاس آیا۔اس کے ہاتھ میں دو پوٹلیاں تھیں۔ ایک اس نے اپنے اوورکوٹ میں رکھ لی اور ایک مجھے تھما دی
وہ صرف کمروں کی تلاشی لیں گے، مہمانوں کی نہیں۔ کل ہم سب مالکان کو بذریعہ ڈاک ان کی اشیاء لوٹا دیں گے۔
اچانک مہمانوں کا شور سنائی دینے لگا ، وہ پہلی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ ایک ایک کرکے سراغ رسانوں کی طرح ، کمروں کی تلاشی لینا ان کے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ دیکھوں تو سہی وہ کون سی ہستی ہے جو انتہائی ذہانت سے یہ چوریاں کرتی رہی ہےاور اب میں بھی ایک طرح سے اس کا ساتھ دے رہا تھا۔ ہر چندوہ چور سہی مگر انتہائی عیاراور بے خوف تھی، چوری کے خبط میں مبتلامگر فطین اور شاطر۔ میں اسے دیکھنے کے لیے فوراََ سیڑھیوں کی طرف بڑھااور وہ مہمان جس کی بدولت پورے ہوٹل کی فضامیںپورا ایک مہینہ بد اعتمادی، شک، جرم اور بدنامی کے بادل منڈلاتے رہےمادام آندریا تھی ۔وہ اطمینان سے سیڑھیاں اُتر رہی تھی ۔ اچانک اس نے مڑ کر دیکھا اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی۔اس کی دل آویز مسکراہٹ دیکھ کر میرے ہونٹوں پر بھی مسکان پھیل گئی۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
مصنف کا تعارف:
پائولو بریتو(Paulo Barreto)
(1881 -1921)
پائولو بریتو کا پوراجو Joao Do Rioکے نام سے مشہور تھے۔ وہ ریو ڈی جنیرو کے طبقہ امراء سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز صحافت سے کیا مگر جلد ہی فلسفے، ادب، ثقافت اور فنون لطیفہ کی طرف منعطف ہوگئے۔ انھوں نے افسانے، ڈرامے ، تنقیدی مضامین کے ساتھ ساتھ ریو ڈی جنیرو کی ثقافتی اور معاشرتی زندگی کے متعلق بہت سے کالم اور مضامین لکھے۔ انھوںنے آسکر وائلڈ کے ایک ڈرامے کو پرتگیزی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ ان کی تحریروں میں ان مقامات کا ذکر ہے جہاں ریو ڈی جنیرو کا ادبی و ثقافتی طبقہ یورپ کے طرز پر آزاد روی اختیار کیے ہوئے تھا۔ پائولو بریتو نے بڑے متنوع موضوعات پر لکھا۔ ادبی و ثقافتی زندگی کا روزنامچہ 1908 میں شائع ہوا۔ تنقیدی اور تحقیقی مضامین کے دو مجموعے 1904 اور 1910 میں شائع ہوئے۔ انھوں نے ریو شہر میں مذہبی ہم آہنگی پر 1905 میں ایک کتاب شائع کی۔ سینما اور تھیٹر کی ٹیکنالوجی پر ان کے مقالات کامجموعہ 1909 میں منظر عام پر آیا۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے 1910، 1912 اور 1918 میں شائع ہوئے۔ ان کے صرف دو افسانوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا۔ ان کا تحریر کردہ روزنامچہ ریو ڈی جنیروکے طبقہ امراءکی ثقافتی سرگرمیوں پر سب سے وقیع اور جامع دستاویز ہے۔
Comments
Post a Comment